Sufinama

حضرت شاہ حسین المعروف ما دھو لال

خالد پرویز ملک

حضرت شاہ حسین المعروف ما دھو لال

خالد پرویز ملک

MORE BYخالد پرویز ملک

    دلچسپ معلومات

    پنجاب کے عظیم صوفی شعرا۔

    آپ کا نام اسمِ گرامی شیخ حسین والد بزرگوار کا نام شیخ عثمان تھا اور کھڈی کے کام سے رزقِ حلال کماتے تھے، آپ کی قوم ڈھڈی راجپور ہے، 995ہجری بمطابق 1539 لاہور اندرون ٹیکسالی دروازہ پیدا ہوئے، تعلیم حفظِ قرآن کے لئے حضرت مولوی ابو بکر کے شاگرد بنے، شیخ بہاول دریائی کے دست حق پرست پر بیعت کی، آپ کا سلسلہ قادری ہے، مادھو شاہدرہ کے ایک برہمن کے بیٹھے تھے، حسن و جمال خداداد تھا جسے دیکھ کر شاہ حسین متاثر ہوگئے اور شاہدرہ میں سکونت اختیار کرلی، مادھو رفتہ رفتہ آپ کی صحبت میں داخل ہوگئے، اورنگ زیب عالمگیر کے صوفی بھائی دارا شکوہ نے اپنی کتاب میں شاہ حسین کے ولی اللہ ہونے کا ذکر کیا ہے، شاہ حسین کی 163 کافیاں جن میں تصوف، روحانیت، اخلاق، فلسفہ، عاجزی اور انکساری ہے۔

    رہا میرے حال دا محرم توں

    اندر توں باہر تو روح روح ر وچ توں

    تو ہی تاناں توں ہی باناں سبھی کچھ میرا توں

    کہے حسین فقیر نمانا میں نہ ہی سبھ توں

    ترجمہ : اے اللہ تعالیٰ تو میرے تمام حالات سے واقف ہے، میرے ظاہر، میرے باطن سے آگاہ ہے، اندر اور باہر حتیٰ کہ بال بال میں اے باری تعالیٰ تو سمایا ہوا ہے، میرے فخر و ناز تجھ سے ہیں، حسین اللہ کا فقیر اور عاجز ہے جس کی اپنی کوئی ہستی نہیں ہے، اے رب العزت تو ہی تو ہے، اس کافی میں شاہ حسین نے اپنے ظاہر باطن یعنی شانِ ربوبیت کا اظہار کیا ہے، حسین اپنے محبوب مادھو لال حسین سے مخاطب ہوتے ہیں اور کہتے ہیں زندگی کا کیا بھروسہ ہے، یہ روح کا بھنور اڑ کر پردیسی ہوگیا اور اگلے جہاں کا پتہ نہیں، یہ دنیا جھوٹی مکر و فریب کا جال ہے، اس کی مثال یوں ہے جیسے پھولوں پر پڑی شبنم کے قطرے موتی دکھائی دیتے ہیں۔

    اس دنیائے فانی کی روشنی آپ نے پہلی بار ٹکسالی گیٹ لاہور میں دیکھی، سال پیدائش تحقیقات چشتی کے بموجب 995 ہجری بمطابق 1539 ہے اور سال رحلت 1008 ہجری بمطابق 1599 ہے، آپ کے داد گلبحس رائے فیروز شاہ تغلق کے زمانے میں مسلمان ہوئے، سرڈئرلی ہٹسن نے لکھا ہے کہ ڈھڈی جاٹ بھی تھے اور راجپوت بھی تھے، مصنف ”رجپوت گوتین“ کا بیان ہے کہ ڈھڈی راجپوت پندوار خاندان کی ایک لڑی ہے ان کا اصل گڑھ میلسی ضلع ملتان ہے، ملتان منٹگمری لاہور اور ستلج کے کنارے آباد تھے، وقت چلتا رہا، آپ کے والد شیخ عثمان نے روزی کمانے کے لئے تلوار چھوڑ کر کھڈی لگالی اور جلاہوں کا کام کرنے لگے شاہ حسین لکھتے ہیں۔

    ناؤں حسینا تے ذات جلاہیاں

    گالیاں دیندیاں تانیاں والیاں

    ان دنوں ٹکسالی گیٹ کی بڑی مسجد میں مولوی ابو بکر بچوں کو تعلیم دیتے تھے شیخ عثمان نے قرآن حفظ کرنے کے لئے وہاں چھوڑ دیا، شاہ حسین نے دس برس کی عمر میں آٹھ دس سپارے حفظ کر لئے ان دنوں مولوی صاحب کو ملنے کے لئے ایک صوفی درویش شیخ بہلول دریائی آئے، ضلع جھنگ کے رہنے والے ایک ولی اللہ بزرگ تھے، دریائے روای ان دنوں شاہدرہ کی بجائے شاہی قلعہ کے قریب تھا، شیخ بہلول نے شاہ حسین کو وہاں سے وضو کے لئے پانی لانے کے لئے فرمایا آپ فوری آئے آپ کی بھولی بھالی صورت اور بچپن کی عمر میں خدمت کا یہ جذبہ دیکھ کر شیخ بہلول دریائی نے آپ سے بہت پیار کیا کچھ پڑھ کر پھونک ماری اور دعا دی جس کا اثر یہ ہوا کہ آپ کا ذہن کھل گیا تھوڑے دنوں میں ہی آپ نے قرآن مجید حفظ کیا اور اس کے بعد رمضان المبارک میں نمازِ تراویح میں پورا قرآن پاک سنا دیا ایک جگہ شاہ حسین فرماتے ہیں۔

    ساجن دے ہاتھ ڈور آسا ڈی میں ساجن دی گڈی

    اس ویلے نوں پچھوتائیں جد جا پوسیں کھڈی

    شاہ حسین کے کلام میں تصوف ،روحانیت، اخلاق، فلسفہ اور انکساری نمایاں ہے، حقیقت الفقرا کے مصنف پیر محمد المعروف شیخ محمود حضرت شاہ حسین کا نام ڈاھڈا حسین یا ڈھڈا حسین لکھتے ہیں، ڈاھڈا یا ڈھڈا اصل میں راجپوتوں کی ایک گوت ہے، یہ لوگ ضلع ملتان میں آباد تھے، ان کے ایک بزرگ کلسرائے نے فیروز شاہ تغلق کے زمانے میں اسلام قبول کرلیا تھا، شاہ حسین کے والد شیخ عثمان لاہور میں رہائش پذیر ہوئے جب کہ شاہ حسین 995 ہجری بمطابق 1539 میں لاہور کے علاقہ ٹکسالی میں پیدا ہوئے، انہوں نے ابتدائی تعلیم ٹیکسالی گیٹ لاہور ہی سے حاصل کی اور ایک نامور شاعر کے طورپر متعارف ہوئے، شاہ حسین کی کافیوں میں تصوف، روحانیت، اخلاق، فلسفہ، عاجزی اور انکساری نمایاں ہے۔

    شاہ حسین کی ریاضت : شاہ حسین نے تقریباً چھتیس برس زہد و ریاضت اور آخری ستائیس برس مستی کے عالم میں گزارے آپ کی لکھی ہوئی 163 کافیاں ملتی ہیں کافی کے لفظی معنیٰ ہیں پوری یا مکمل، مؤرخ لکھتے ہیں کہ انہوں نے داڑھی صاف کروا لی، شراب کی صراحی پکڑ لی، گانے ناچنے والوں کے ساتھ جا ملے، وہاں راگ رنگ ناچ گانے کی محفلوں کا روشن چراغ بن گئے، آپ کو ہندوؤں کے ایک لڑکے مادھو سے پیار ہوگیا، وہ ہروقت آپ کی خدمت میں لگا رہتا کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ مادھو کے والدین اشنان کے لئے جا رہے تھے، انہوں نے مادھو کو بھی اپنے ساتھ لے جانا چاہا مگر شاہ حسین اس سے ایک پل کی بھی جدائی برداشت نہیں کرتے تھے، شاہ حسین نے مادھو کو کہا کہ تو انہیں جانے دے ہم تجھے وہاں پہنچا دیں گے، مادھو یہ سن کر چپ ہو رہا پھر ایک دن مادھو کو اداس دیکھ کر کہا مادھو آؤ میرے پاؤں پر پاؤں رکھ کر آنکھیں بند کر لو، مادھو نے اسی طرح کیا دیکھتا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ ہر دوار میں اشنان کر رہا ہے، کچھ دیر بعد کہا اب آنکھیں کھول دو جب مادھو نے آنکھیں کھولیں تو اپنے مرشد کے قریب پایا یہ کرامت دیکھ کر مادھو مسلمان ہوگیا تو پھر کہیں کا نہ رہا سوائے آپ کے قدموں میں پڑا رہنا۔

    شاہ حسین کو قرآن و حدیث پر مکمل عبور حاصل تھا : شاہ حسین کو قرآن و حدیث پر مکمل عبور تھا، پانچ وقت نماز کے علاوہ نفلی عبادت بھی کرتے، تہجد گزار بھی تھے، حضرت داتا گنج بخش کے مزار پر لگاتار بارہ سال تک حاضری دیتے رہے، 24 گھنٹوں میں سارا قرآن مجید ختم کر لیتے تھے، شاہ حسین عالمِ باعمل تھے، شریعت کے پابند تھے، دن کو روزہ رکھتے اور رات کو دریائے روای کے کنارے جاکر قرآن پاک پڑھا کرتے تھے، صبح کی نماز باجماعت داتا گنج بخش علی ہجویری کی مسجد میں ادا کرتے تھے، سالہا سال تک اس پر عمل کیا، ریاضت و عبادت کا اثر اس قدر ہوا کہ آپ کے اندر کیفیت ہی بدل گئی اور مجذوب ہوگئے، ابتدائی زندگی میں شریعت کے پابند رہے اور آخر عمر میں مجذوبیت میں محو اور مست ہوگئے، شہنشاہ جہانگیر کو آپ سے بے حد عقیدت تھی، جہانگیر بادشاہ کی عقیدت و احترام کا یہ عالم تھا کہ اس نے منشی بہار کو اس خدمت پر معمور کیا کہ وہ شاہ حسین کی مجذوبی حرکات و سکنات کا مطالعہ کر کے روزانہ کی ڈائری مرتب کرے، اس نے ایک کتاب تصنیف کی جس کا نام بہاریہ تھا، وہ ہر روز کی کاروائی شہنشاہ جہانگیر تک پہنچاتا تھا۔ (واقعات انبیا اؤلیا، صفحہ نمبر 278 از ارشاد احمد شاد)

    آپ کے کلام کے الفاظ سامعین پر عجیب کیفیت طاری کرتے ہیں، قولیوں میں آج بھی ان کے کلام کے الفاظ سامعین پر عجیب کیفیت طاری کرتے ہیں، انہوں نے نبی آخرالزماں مالکِ دو جہاں سرورِ کون و مکاں حضرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام اپنی زبانِ فکر اور سوچ کوچہ کوچہ، قریہ قریہ اور گلی گلی پہنچایا، اسلام کی ترویج اور تبلیغ میں اہم کردار ادا کیا، انہوں نے مظلوم اور دکھی انسانیت کے دلوں کی ترجمانی کی۔ (واقعات انبیا اؤلیا، صفحہ نمبر 277 از ارشاد احمد شاد)

    آپ کا کلام فکر و دانش کا اعلیٰ شاہکار ہے، شاہ حسین نے اپنے صوفیانہ اور عارفانہ کلام کے ذریعے لوگوں کو معرفت کاعلم دیا، آپ کا کلام پنجابی زبان میں پایا جاتا ہے، آپ کا کلام تصوف، فکر اور دانش کا ایک اعلیٰ شاہکار ہے، انہوں نے کافیوں اور قابلِ فکر تصنیف میں اپنا نام شاہ حسین کا ذکر کیا ہے، پنجابی کی سر زمین میں بسنے والے افراد کے مزاج کی مکمل عکاسی کر کے اپنا کلام مدھر دھنوں کی خوشبو سے معطر کیا، آپ کی مشہور زمانہ تصنیف کا نام کافیاں راگ اور راگنیوں میں لکھیں، ہر کافی پر راگ اور راگنی کا نام بھی دیا۔

    شاہ حسین کی کافیاں : شاہ حسین اپنی کافیوں میں اپنے عاجز فقیر اور اس کے ساتھ ساتھ رب کے ایک ہونے کا اقرار یوں کرتے ہیں۔

    ربا میرے حال دا محرم توں

    اندر توں باہر توں روح روح وچ توں

    تو ہی تاناں توہی باناں سب کچھ میرا توں

    کہے حسین فقیر نمانا میں نہ ہی سبھ توں

    شاہ حسین بابا فرید سے کوئی پونے تین سو برس کے بعد پیدا ہوئے، صوفی شعرا میں آپ کا کافی اونچا مقام ہے، آپ قادریہ سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں، شاہ حسین کا زمانہ ہندوستان میں مغل اعظم اکبر کا زمانہ تھا، ایک صوفی ہونے کے علاوہ وہ فنکار بھی ہوتا ہے، یا فنکاروں جیسا نازک لطیف احساس بھی رکھتا ہے یہ اثر چاہے صوفی مطابقت میں ہو یا پھر مخالفت میں فارسی کے مقابلے میں شاہ حسین تصورات سے زیادہ ہی متاثر لگتے ہیں، آپ ابھی تک بابا فرید کے بعد پنجابی کے سب سے بڑے صوفی درویش شاعر ہیں، شیخ طیب سرہندی کہتے ہیں جو ان کے پاس مرید ہونے کے لئے جاتا شاہ حسین اسے کہتے کہ داڑھی منڈوا دو شراب کا پیالا ہاتھ میں پکڑ لو جو ان کی یہ باتیں مان لیتا وہ اسے اپنا مرید بنا لیتے ورانہ واپس بھیج دیتے، آپ کا لباس اکثر لال رنگ کا ہوتا تھا اس لیے لال حسین کے نام سے مشہور ہوئے، شاہ حسین ایک جگہ اپنی کافی میں فرماتے ہیں کہ نگاہوں والے کبھی لوٹے نہیں جاتے مگر کیا کریں آج ہم اس زمانہ میں اپنی آنکھوں کا کہاں مان رہے ہیں، بھلا کسی کالے سیاہ ریشم کو سفید رنگ چڑھا ہے پھر نہ جانے اس زمانے کو کیا ہوگیا حالانکہ کوا کالے رنگ سے سفید نہیں ہوسکتا۔

    نی سیو اسیں نیناں دے آکھے لگے

    جنہاں پاک نگاہاں ہوئیاں سے کہیں نہ جاندے ٹھگے

    کالے پٹ نہ چڑھے سفیدی کاگ نہ تھیندے لگے

    شاہ حسین شہادت پائیں جو مرن متراں تھیں اگے

    کہتے ہیں کہ مادھو کو عین عالمِ شباب میں موت آگئی جب وہ حسبِ معمول آپ کی خدمت میں حاضر نہ ہوا تو آپ اس کے گھر گئے یہ اس وقت کی بات ہے جب ابھی مادھو مسلمان نہیں ہوا تھا، جب وہاں جاکر دیکھا تو مادھو فوت ہو چکا تھا، اس کے گھر والے رو دھو کر جلانے کی تیاری کر رہے تھے عورتیں بین کر رہی تھیں، شاہ حسین نے پوچھا تو عورتوں نے بتلایا کہ آپ کا مرید مر گیا ہے مگر شاہ حسین نے کہا مادھو نہیں مرا یہ تو زندہ پھر میت کے سرہانے کھڑے ہوکر آواز دی مادھو۔۔۔ آ خدا کی قدرت کی عجیب رنگ میں مادھو نے اسی وقت آنکھیں کھول دیں اٹھ آکر آپ کے ساتھ چل دیا اور ایک دوسری جگہ شاہ حسین دنیا کی اصل حقیقت بتاتے ہوئے یوں مخاطب ہوتے ہیں۔

    جگ میں جیون تھوڑا کون کرے جنجال

    گیندے گھوڑے ہستی مند رکہندا اے دھن مال

    کہاں گئے ملاں کہاں گئے قاضی کہاں گئے کٹک ہزار

    ایہہ دینا دن دوئے پیارے ہر دم نام سماں

    کہے حسین فقیر سائیں دا جھوٹا سب بیوپار

    ایک دفعہ کسی خربوزے بیچنے والے نے آپ سے کہا کہ میں کہیں کام میں جا رہا ہوں میرے خربوزوں کی رکھوالی کرنا شاہ حسین نے آوازیں لگانا شروع کیں ٹکے ٹکے خربوزہ نال پتر، کہتے ہیں اس وقت جن جن لوگوں نے آپ سے خربوزے خریدے ان کے گھر اللہ کی قدرت کاملہ سے لڑکے پیدا ہوئے، آپ فرماتے ہیں میں اپنے محبوبِ حقیقی کے پاس جانا چاہتا ہوں، ہے کوئی میرے ساتھ چلے، حالانکہ وہاں تو اکیلے ہی جانا پڑے گا۔۔۔

    پیراں پوندی منتاں کر دی جاناں تاں پیا اچکے

    نین بھی ڈونگی تلا پرانا شیہاں تاں پتن ملے

    جے کوئی خبر متراں دی لیاوے میں ہتھ دے دینی

    کیے حسین فقیر سائیں دا ستائیں سینے گھلے

    ہیر رانجھے کا قصہ پنجاب کا مشہور ترین لوک قصہ ہے، ہیر شاہ حسین کے وقت سے کوئی ایک صدی پہلے ہو گزری ہے، آپ کے استاد شیخ بہلول دریائی تھے جو چنیوٹ کے باسی تھے چنیوٹ سر گودھا سے بھی قریب اور جھنگ سے بھی اس لیے شاہ حسین کو اس لوک قصہ سے کافی واقفیت تھی، کسی جگہ اس انداز سے مخاطب ہوتے ہیں کہ اے ماں اپنی جدائی کا حال کس سے جا کر بتاؤں؟ میرے مرشد کی جدائی اور چھوڑے کی آگ آلاؤ بن کر میرے اندر کو جلا رہی ہے اب مجھ سے اس حقیقی محبوب کی جدائی منظور نہیں۔

    مائے نی میں کہنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال

    دھواں دھکے میرے مرشد والا جاں پھولاں تاں لال

    سو لاں مار دیوانی کیتی برہوں پیاسا ڈے خیال

    شاہ حسین دریائے راوی کے کنارے رات کے وقت قرآن مجید جو انہوں نے حفظ کیا تھا اس کی تلاوت کیا کرتے تھے مرنے سے کچھ عرصہ پہلے انہوں نے اپنے بارے میں پیش گوئی کی تھی کہ یہ جگہ ہمارا اصل ڈیرہ ہے پھر خدا کا کرنا ایسا ہی ہوا کہ آپ کی رخصت ہو جانے کے بعد دریائے روای میں زبردست سیلاب آیا اور آپ کی قبر کو بہا لے گیا، اس کے بعد جب قبر نہ رہی تو آپ کے مریدِ خاص مادھو کے میت کو زمین سے نکالا دوبارہ نہلا دھلا کر نمازِ جنازہ کروائی، قصبہ باغبان پور لاہور شالا مار باغ کے قریب دفن کیا جہاں آج کل ان کا پر رونق مزارِ مبارک قائم ہے۔

    چرخہ میرار نگڑا۔۔۔ رنگ لال (شاہ حسین نے کافیوں میں دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کیا ہے) شاہ حسین کی شاعری جدائی کے سفر کو طے کرکے وصال کی منزل پر پہنچنے کی دلیل ہے، یہ وصال شاہ حسین کی شاعری کو رنگینی و رعنائی، جاذبیت و لطافت عطا کرتا ہے، ان کے کلام کی سب سے بڑی خوبی موسیقیت کا عنصر ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ان کا کلام پڑھنے سے نہیں بلکہ سننے سے تعلق رکھتا ہے، جب ان کے کلام پر نظر ڈالا جائے تو ان کی علامتی کڑی انسانی جمال کی روح پر آہستہ آہستہ پاؤں رکھتی تھرکتی محسوس ہوتی ہے۔ شاہ حسین کا باطنی شعور اسی کاتنے والی کے وجود میں مجسم ہوگیا ہے۔

    چرخہ میرار نگڑا۔۔ رنگ لال : انہوں نے اسی کڑکی کی زبان میں سوز و ساز کا ایسا کائناتی رحجان دیا ہے جو کسی اور صوفی شاعر کے کلام میں نظر نہیں آتا، لفظوں کی لطافت اور کڑی کی نزاکت نے مل جل کر ان کی کافی کو لافانی بنا دیا ہے، شاہ حسین نے ساری زندگی غریب لوگوں میں بسر کی ان کے دکھ، سکھ، غمی، خوشی میں شریک رہے، بے کسوں اور مظلوموں کے دل کی آواز سنی یہی درد ان کی شاعری کی بنیاد بنا، ان کے کلام کا ایک خاص مقصد یہ ہے کہ انسان کو اس کی حقیقت سے آگاہ کرکے اس کا روحانی رشتہ حقیقت کے ساتھ استوار کیا جائے اسی لیے انہوں نے انسان کے ماضی حال مستقبل پر روشنی ڈالی ہے، اس مقصد کی تکمیل کے لئے انہوں نے تلمیح، تخیل اور تمثیلی طریقہ اپنایا، انہوں نے حضرت انسان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ انسان کا اصلی گھر اللہ کی ذات بلکہ اس کی وحدانیت ہے، شاہ صاحب کے نظریے کے مطابق اللہ تعالیٰ سب حاکموں سے بڑا ہے، ان کے دل میں دولت مندوں اور حاکموں کے لئے شدید نفرت اور غریب کے لئے ڈھیروں پیار محبت ہے اور وہ عام انسان کی سادگی، سچائی کے قائل ہیں، انہوں نے اپنی قادرِ کلامی کے ذیعےغریب کی سادہ پریشان اور حکمران طبقے کی شان و شوکت اور عیش و عشرت والی زندگی کے درمیان فرق کو ظاہر کیا ہے، ان کو یہ بھی علم ہے کہ ہماری اس دھرتی پر کئی غریب ماؤں کے بیٹھے بھی ہیں جو حکومت کرنے کے قابل ہیں مگر جبر و استحصال کا شکار ہیں، شاہ حسین ایک طرف صوفی شاعر ہیں تو دوسری طرف حکیم اور فلاسفر نظر آتے ہیں، انہوں نے اپنی لافانی کافیوں میں پنجاب کی زندگی کا نقشہ اس انداز میں پیش کیا ہے کہ اس دور کے تہذیب و تمدن کی حقیقت کے سارے پردے چاک ہوجاتے ہیں، شاہ حسین کے دور کی چرخہ کاٹنے والی لڑکی کی جیتی جاگتی تصویر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔

    شاہ حسین کی کافیوں کی نیم خوابیدہ روح لاہور میں میلہ چراغاں کے موقع پر پنجابیوں کے فانی جسم کے در و دیوار پر رقص کرتی ہوئی ایسا منظر پیش کرتی ہے کہ ہماری معاشرتی روایات اجاگر ہوجاتی ہیں، ان کی کافی در اصل لوک گیت کا روپ ہے جو عوامی جذبات و احساسات کی عکاسی کرتی ہے جس میں زندگی، جوابنی، موت، خوشی، غمی ذاتی احساسات عوامی معلومات کا ذخیرہ موجود ہے، ان کے لفظوں کو رواں سروں کی ڈوری کے ساتھ تشبیہ دی جا سکتی ہے جو ڈھولک کی مسلسل تھاپ کے ساتھ گائی اور سنی جاسکتی ہے، شاہ حسین نے دنیاوی مناظر اور واقعات کے ہر ایک جزو کو اپنی حکمت بھری آنکھوں کے ساتھ دیکھا اور اس میں ایک نیا اخلاق نکتہ پیدا کرکے اس کو دلچسپ اور دیدہ زیب بنا کر پیش کیا ہے، ان کے سارے کلام میں چرخے کا موضوع ایسا ہے کہ جو ان کو دوسرے شاعروں سے منفرد بنا کر پیش کرتا ہے، انہوں نے انسان کو چرخہ کاتنے والی تصویر کہا اور اس کو قوتِ عمل کو چرخہ اور انسانی عمل کو سوت کے رنگ میں پیش کیا ہے اور یہی بنیادی علامتیں شاہ حسین کی منزل کے کھٹن لمحوں کو آسان کر دیتی ہے۔

    دنیا جیون چار دیہاڑے کون کسے نال رُسے

    جس ول ونجاں موت تنے ول جیون کوئی نہ دسے

    شاہ صاحب ایسے صوفی ہیں جن کا مسلک عشق اور صرف عشق ہے، وہ عشقِ حقیقی میں سراپا گم تھے، مادھو لال کے ساتھ عشق اس حقیقت کا ایک ظاہری پہلو ہے، شاہ حسین نے انسانوں کو ہر وقت اللہ کی یاد میں گم رہنے کا سبق دیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کرے تجھے رب کبھی نہ بھولے اور نہ ہی وہ بھولنے والوں میں سے ہے۔

    حضرت شاہ حسین پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر : شاہ حسین پنجابی زبان کے بہت بڑے شاعر تھے، کافیوں کی صورت میں ان کا کلام پنجابی زبان و ادب کا بہت بڑا سرمایہ ہے، آپ نے اپنے خوبصورت اشعار کے ذریعہ عوام میں محبت پیار اور خلوص کی دولت تقسیم کی، حضرت مادھو لال حسین سال 1008ہجری میں لاہور میں اس دنیا سے عالمِ ارواح کی جانب سدھارے آپ کو پہلے دریائے روای میں سیلاب آجانے کی وجہ سے آپ کا مزار غیر محفوظ ہوگیا چنانچہ آپ کے مریدِ خاص مادھو لال نے آپ کا جسد خاکی وہاں سے نکال کر بستی باغبانپورہ موجودہ جگہ پر دفن کیا، آپ کا عرس ہر سال مارچ کے آخری ہفتے میں منایا جاتا ہے کلام میں سے چند ٹکڑے پیش ہیں۔

    عشق فقیراں دا قائم دائم کبھو نہ تھیوے بیہا

    تینوں رب نہ بھلی دعا فقیراں دی ایہا

    ہورناں نال ہیندی کھڑیندی شوہ نال کیہا

    شوہ نال تو مول نہ بولیں ایہہ گمان کھیا

    چارے نین گڈاوڈ ہوے وچ وچولا کیہا

    اچھل ندیاں تارو ہوئیاں وچ بریتا کھیا

    آپ کھانی ایں دودھ ملیدا شاہاں کو نکر بہیا

    کہے حسین فقیر سائیں دا مر جانا تے مانا کھیا

    تاریں رہا وے اوگن ہاری

    سب سیاں گن ونتپاں تاریں رباوے میں اوگن ہاری

    بھیجی سی جس بات نوں پیاری ساری بات وساری

    رل مل سیاں داج رنگایا پیاری میں رہی کواری

    انگن کوڑا وت گیا مڑ دے بہاری

    کہے حسین سہیلیو عملاں باجھ خواری

    شاہ حسین کی تعلیمات : شاہ حسین نے خدا اور بندے کے درمیانی فاصلے کو کم کیا یعنی خدا اور بندے کو باہم قریب لانے کی کوشش کی، آپ فرماتے ہیں کہ اللہ والوں کا راستہ ہی علٰیحدہ ہوتا ہے، دنیا عارضی ہے دنیا سرائے کی مانند ہے کہ لمبی عمر بھی چند لمحات اور گھڑیوں کی طرح ہوتی ہے، اس لیے پختہ محلوں کی بنیاد رکھو، اللہ والے ہر حال میں خدا کی یاد کرتے رہتے ہیں، فضول باتیں کرنے کی بجائے اللہ کا ورد کرتے ہیں۔

    شاہ حسین کے مزار پر ہر سال ”میلہ چراغاں“ لگتا ہے، کہا جاتا ہےکہ مادھو لال 983 ہجری میں پیدا ہوئے، شاہ حسین کے بعد 35 برس سجادہ نشیں رہے، مادھو لال 1043ہجری میں فوت ہوا اور اپنے مرشدِ کامل کے قریب دفن ہوا، شاہ حسین اور مادھو کے مزار پر ہر سال میلہ مارچ میں لگتا ہے جسے میلہ چراغاں کہتے ہیں، کیونکہ رات کے وقت چراغ جلائے جاتے ہیں، دور دور سے لوگ یہاں فیض حاصل کرتے ہیں ان کی روحانیت اور فقیری کا چشمہ ہر وقت آنے والوں کو سیراب کرتا ہے، یہاں میلہ سکھ دور میں بسنت پر لگتا ہے، آپ کے ساتھ پیار و محبت اور مریدِ خاص ہونے کی نسبت سے آپ کے نام کے ساتھ مادھو کا نام لگ گیا۔

    نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کی عقیدت : بادشاہ بھی اپ کے مزار پر حاضر ہوتے، مجاوروں اور سجادہ نشینوں کے لئے طعام وغیرہ کا بندو بست کیا جاتا ہے، نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی جیسے حملہ آور بھی اس درگاہ پر حاضر ہوئے، نواب ذکریا خاں نے آپ کی خانقاہ سے مغرب کی جانب ایک مسجد نبوائی جو اب تک موجود ہے، معزالدین جہانداد شاہ جب دوبارہ تختِ نشیں ہوا تو اس نے خلوص دل اور عقیدت مندی سے مزار پر طلائی چوبوں کا سائبان روپیہ اشرفی سے بھری دو دیگیں نذر کیں، مزار کا احاطہ اور چار دیواری عمدہ تیار ہوئی، مہاراجہ رنجیت سنگھ آپ کی کرامات سے متاثر ہوا تو اس نے خانقاہ کی مرمت اور تزئین کی اور ہر سال عرس کے لئے کثیر رقم زیر تصرف لاتا۔

    میلہ چراغاں کب شروع ہوا : آپ 63 برس کی عمر میں اس دنیا سے کوچ کر گئے، آپ کو پہلے دریائے روای کے کنارے دفن کیا گیا مگر جب دریا نے اپنا رخ بدلا تو آپ کو باغبان پورہ کے شمال میں اس جگہ دفن کیا گیا جہاں آپ کی خانقاہ واقع ہے، آپ کا سن وفات 1008 عیسوی ہے، آپ کا خلیفہ مادھو 1056 عیسوی میں فوت ہوا، اس کو آپ کے پہلو میں دفن کیا گیا، ہر سال جو عرس منایا جاتا ہے اور میلہ چراغاں کیا جاتا ہے کیونکہ میلے پر چراغاں کا خاص اہتمام ہوتا ہے، میلہ چراغاں کب اور کیوں شروع ہوا، اس سے متعلق باوثوق نہیں کہا جا سکتا تا ہم خیال کیا جتا ہے کہ 1883 عیسوی سے قبل میلہ چراغاں اور عرس مادھو لال حسین علٰیحدہ علٰیحدہ منعقد ہوتے تھے، میلہ چراغاں گندم کی فصل تیار ہونے پر منایا جاتا اور مادھو لال حسین کا عرس قمری تاریخوں کے حساب سے منایا جاتا تھا۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے