Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

حضرت بلھے شاہ

خالد پرویز ملک

حضرت بلھے شاہ

خالد پرویز ملک

دلچسپ معلومات

پنجاب کے عظیم صوفی شعرا۔

حضرت بلھے شاہ کی پیدائش کا مقام اچ گیلانیاں اور زمانہ 1680 بیان کیا جاتا ہے، ان کے والد شاہ محمد درویش تلاشِ روزگار میں ترک وطن کر کے قصور کے قریب آ بسے، اس وقت بلھے شاہ کی عمر تقریباً چھ برس کی تھی، آپ نے رسمی تعلیم غلام مرتضیٰ امام مسجد قصور سے حاصل کی، فقہ و شرح کے جو حوالے آپ کے کلام میں کئی جگہ پائے جاتے ہیں غالباً اسی دینی تعلیم کا نتیجہ ہیں، جوانی میں آپ لاہور آکر حضرت شاہ عنایت قادری کے مرید ہوگئے جن سے آخر تک بلند اور پاکیزہ محبت و عقیدت کا ایسا تعلق قائم رہا جو رومی اور شمس تبریز اور خسرو و حضرت نظام الدین کی رشتے کی یاد دلاتا ہے۔

تاریخ میں راعین مرشد اور سید مرید کا قصہ بڑا مشہور ہے، بلھے شاہ قصور کے ایک سید خانوادے کے چشم و چراغ تھے، تصوف کی دنیا میں صوفی شاعر کی حیثیت سے شہرتِ دوام پائی، اس زمانے میں حضرت شاہ عنایت قادری دنیائے تصوف میں بڑا نام رکھتے تھے، مسلکِ وحدت الوجود کے حامل ہونے کے باعث پورے دربارِ تصوف میں لے گئی، خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور مدعا بیان کیا کہ ”میں رب کی تلاش میں آپ کے ہاں آیا ہوں“ حضرت شاہ عنایت نے برجستہ جواب دیا۔

بلھا رب دا کیہ پاؤ ناں

ایدھروں پٹنا اُدھر لاؤ ناں

صوفی کامل کی یہ بات بلھے شاہ کے دل کی گہرائیوں میں اتر گئی، عارفِ حق کی بات فیصلہ کن ثابت ہوئی، بلہے شاہ اس وقت قدموں میں گر پڑے اور دامن پکڑ لیا، چنانچہ اس واقعہ کو بلھے شاہ یوں بیان کرتے ہیں۔

بلھے شاہ دی سنو حکایت

ہادی پکڑیا ہوئی ہدایت

میرا مرشد شاہ عنایت

اوہو یار لگائے پار

کہا جاتا ہے کہ بلھے شاہ اپنے مرشد سے اجازت لے کر جب اپنے گاؤں پانڈو کی (ضلع قصور) پہنچے تو والدین اور رشتہ داروں کو آپ کی بیعت کا علم ہوا، اہلِ خاندان بالخصوص خواتین نے جنہیں اپنے گیلانی ہونے کا بڑا فخر تھا، بلھے شاہ کو طعنہ دیا کہ انہوں نے سید ہوکر راعین کی بیعت کر لی، اس طرح اولادِ علی کا سر نیچا کر دیا ہے، بلھے شاہ اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔

بلھے نوں سمجھاون آئیاں بھیناں تے بھر جائیاں

آلِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اولاد علی توں کیہ لیکاں لائیاں

من لے بلھیا ساڈا کہنا چھڈ دے پلا راعیاں

لیکن بلھے شاہ تو اپنے مرشد کے رنگ میں رنگے جا چکے تھے، چنانچہ انہوں نے خواتین کے طعنوں کا جواب یوں دیا۔

جیڑا سانوں سید آکھے دوزخ ملن سزائیاں

جیڑا سانوں راعیں آکھے بہشتیں پینگاں پائیاں

جے تو لوڑیں باغ بہاراں بلھیا طالب ہو جارا عیاں

ڈاکٹر لاجونتی کا بیان ہے کہ بلھے شاہ کے شاہ عنایت قادری کے مرید بننے پر ان کے خاندان والوں نے بہت بڑا مانا اور ان کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کی وہ حضرت شاہ عنایت کو چھوڑ کر کسی اور کو مرشد بنالیں مگر بلھے شاہ اپنی بات کے پکے تھے، انہوں نے اپنے خاندان والوں کی کسی بات کی پرواہ نہیں کی اور نہ ہی کان دھرا۔

بلھے شاہ کی تاریخِ ولادت پر اختلاف : بلھے شاہ کی تاریخ ولادت کے سلسلے میں کوئی مصدقہ ذریعہ نہیں ملتا، سی ایف اسبورن نے ان کا سالِ ولادت 1680 عیسوی بیان کیا ہے، ڈاکٹر فقیر محمد نے اپنی کتاب میں 1148 ہجری کو بلھے شاہ کا سالِ ولادت قرار دیا ہے، زیادہ تر محققین اس بات پر متفق ہیں کہ سالِ ولادت 1680 عیسوی اور سال وفات 1788 عیسوی ہے۔

بلھے شاہ کا دورِ حیات : بلھے شاہ کا دورِ حیات 1680 عیسوی سے شروع ہوکر 1757 عیسوی تک رہا، اس کے ایک حصے میں مغل شہنشاہ اورنگ زیب کا زمانہ اور دوسرے حصے میں اس کے جانشینوں بہادر شاہ اول 1707 عیسوی تا 1712 جہاندار شاہ 1712 عیسوی تا 1713 عیسوی فرخ سیر 1713 عیسوی تا 1718 عیسوی محمد شاہ 1728 عیسوی تا 1747 عیسوی احمد شاہ 1748 عیسوی تا 1754 عیسوی اور عالمگیرِ ثانی 1754 عیسوی تا 1759 عیسوی کا دورِ حکومت آتا ہے۔ اورنگ زیب نے 1658 عیسوی سے 1707 عیسوی تک بادشاہت کی، بلھے شاہ کی ولادت اورنگ زیب کے دورِ حکومت کے 21ویں سال میں ہوئی جب اورنگ زیب کی وفات ہوئی بلھے شاہ کی عمر 27 برس تھی، اپنی زندگی کے باقی 51 برس بلھے شاہ نے اورنگ زیب کے مذکورہ جانشینوں کے عہد حکومت میں گزارے۔

بلھے شاہ کا کلام : بلھے شاہ کا کلام کئی مرتبہ مرتب اور شائع ہوچکا ہے، ڈاکٹر نذیر احمد مرحوم نے چند برس قبل آپ کے کلام مجموعہ انتہائی خوبصورتی کے ساتھ مرتب کیا جو سید بابر علی شاہ کے ادارے پیکجز لمٹیڈ لاہور نے طبع اور شائع کیا، ان کا کلام مرتب کرنے والے دوسرے صاحب علم حجرات میں بھائی پریم سنگھ، زر گر قصوری اور ڈاکٹر فقیر محمد فقیر اور دوسرے حضرات شامل تھے، ان کا کلام ”کافی ہائے بلھے شاہ“ کافیاں میاں بلھے شاہ لاہور 1328 ہجری ”کافیاں“ اٹھوارہ باراں ماہ دوہڑے سہ حرنیا اور گنڈھال کے ناموں سے شائع ہوچکا ہے۔

توحیدِ باری اور عشقِ حقیقی آپ کی شاعری کا بنیادی موضوع ہے، بلھے شاہ صاحبِ جذب و فکر اور صاحبِ عشق و محبت و وجد و سماع تھے، توحید میں بلند مرتبہ کلام پیش کیا، ان کے پنجابی اشعار معارف و توحید اور حق و صداقت سے پر ہیں اور خاص و عام کی زبان میں ان کا کافیوں اور قوالیوں کو قوال اصفیا کی مجلس میں پیش کرتے ہیں، ان کی کرامتیں بھی زبانِ خلائق ہیں، بلھے شاہ کی صوفیانہ زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، پہلا دور وہ ہے جب وہ مرشدِ کامل کی تلاش میں تھے، دوسرا وہ دور ہے جب وہ فنا فی المرشد میں تھے اس دور میں انہوں نے ہندو فلسفہ سے بھی آگاہی حاصل کی، تیسرا دور وہ ہے جب ان کا جذبہ بے پناہ اور عشقِ بے کراں ہوجاتا ہے اور وہ رسمی مذہب اور سطحِ عقائد کی دیواریں توڑتے نظر آتے ہیں، اس دور میں ان کی شاعری نقطۂ عروج پر پہنچ گئی اور بلھے شاہ ایک مقبول عام صوفی شاعر بن گئے، ان کے سارے کلام میں صوفیانہ شاعری کی آزاد خیالی اور توکل کا رنگ جھلکتا ہے، توحیدِ باری تعالیٰ اور عشقِ حقیقی اور ان کی شاعری کا بنیادی موضوع ہے اور اس موضوع کو انہوں نے متنوع انداز سے پیش کیا۔

آپ نے جہالت دور کرنے کے لئے قلمی جہاد کیا : بلھے شاہ کے زمانے میں وہ کون ظالم تھے جن کے ظلم کے خلاف اس نے اپنی آواز بلند کی؟ پہلے خیال نادر شاہ ایرانی اور احمد شاہ ابدالی جیسے حملہ آوروں کی طرف جاتا ہے جنہوں نے دہلی پر 1740 عیسوی اور 1750 عیسوی کے درمیان لشکر کشیاں کیں، اس میں شک نہیں کہ قندھار اور کابل کو دہلی سے ملانے والی شاہراہوں پر بسنے والوں کو ایک محدود وقت کے لئے قتل، لوٹ اور بیگار کی مصیبتیں سہنی پڑی ہوں گی لیکن قیاس یہ ہے کہ آگ اور خون کی ان لکیروں سے پرے روز مرہ زندگی کے حالات اپنے معمول سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتے ہوں گے مگر اٹھارویں صدی کے وسط کے قریب جب مغل کی حکومت کے گورنر اور عمال پنجاب میں اتنے کمزور ہوگئے کہ زمینداروں سے اپنے لئے بھی مالیہ وصول نہ کرسکتے تھے تو لیٹروں کی ٹولیوں نے ہمہ جہت غارت گری کا آغاز کر دیا کوئی قصبہ اور گاؤں ایسا نہ رہا جو لوٹ مار اور قتل و خونریزی سے بچا ہو، غالباً انہی حالات کے متعلق بلھے شاہ نے کہا۔

برا حال ہو یا پنجاب دا، سانوں ہاویئے دوزخ ساڑیا، کدی آمل یار پیاریا۔

اس زمانے میں بلھے شاہ ان پڑھ کسانوں جولاہوں، ترکھانوں اور دوسرے مزدوروں کو باوجود ان کی بے علمی کے اچھا سمجھتے ہیں، اللہ بے علماں تو راضی انہی بے زبانوں کی حمایت میں بلھے شاہ نے مکفر ملاؤں اور ظالم عمال حکومت کے خلاف ذاتی خطرہ مول لتیے ہوئے صدائے احتجاج بلند کی، احتجاج کا ذریعہ و سادہ کافیاں اور دوہڑے تھے جن سے معاشرے کے عوام اور خواص اسلامی شعری روایات کے قلوب میں نفوذ کر جانے کے باعث بشدت متاثر تھے، اس لیے ہمیں شک ہے کہ بلھے شاہ کی بے باک کافیوں نے کبیر کے دوہوں اور شاہ حسین کے کلام کی طرح بار بار ظالموں کے دلوں میں ہیبت پیدا کی ہوگی، ان کے سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجھوڑا ہوگا اور ان کے ہاتھوں کو عین اسی وقت جب ظلم کے لئے اٹھے ہوں گے روک دیا گیا ہوگا، بلھے شاہ کا احتجاج ان کے کلام کا صرف ایک پہلو ہے زیادہ اہم پہلو وہ ہے کہ جس میں انہوں نے وحدۃ الوجود کا عقیدہ لوگوں کے سامنے پیش کیا تاکہ ان کی زندگیاں تکلیفوں اور مصیبتوں کے باوجود اطمینانِ قلب سے بہرہ پائیں، کلام بلھے شاہ کا قدیم ترین مطبوعہ نسخہ جو ملک ہیرا نے لاہور سے 1852 عیسوی میں شائع کیا اور سب سے آخری نسخہ ( جو میں نے پڑھا) وہ ڈاکٹر سید نذیر احمد کا کلام بلھے شاہ ہے جو انہوں نے 1976 عیسوی کو لاہور سے شائع کیا، ان چھپے ہوئے کلام کا غالب لہجہ لاہور، قصور اور ساہیوال کا ہے کیونکہ وہ زیادہ عرصہ یہاں ہی مقیم رہے، بلھے شاہ کی پیدائش 1680 عیسوی کو اچ گیلانیاں کے مقام پر ہوئی ان کے والد شاہ محمد درویش جب تلاشِ روزگار میں ترکِ وطن کر کے قصور کے قریب آبسے تو اس وقت حضرت عمر 6 برس تھی، آپ نے رسمی تعلیم غلام مرتضیٰ امام مسجد قصور سے حاصل کی، کتب و فقہ و شرح کے جو حوالے آپ کے کلام میں کئی جگہ پائے جاتے ہیں غالباً اسی تعلیمی دور کا اثر ہیں جوانی میں آپ لاہور آکر حضرت عنایت شاہ قادری کے مرید ہوگئے جن سے آخر تک ایک بلند اور پاکیزہ محبت و عقیدت کا ایسا تعلق قائم رہا جو رومی اور شمس تبریز اور خسرو اور حضرت نظام الدین کے رشتے کی یاد دلاتا ہے، بلھے شاہ کے کلام میں کم ایسی کافیاں ملیں گی جن میں انہوں نے اپنے پیر اور تخت لاہور کا ذکر والہانہ جذبے کے ساتھ نہ کیا ہو، آپ نے زندگی کا بیشتر حصہ قصور میں گزارا، شادی نہیں کی۔

بلھے شاہ کی شاعری محبت اور بھائی چارے کا پیغام ہے : بلھے شاہ ایک ایسے آفاقی شاعر تھے جنہوں نے پنجابی شاعری کو ایک نیا رنگ دیا، نہ صرف حق اور سچ پر قائم رہنے کا حوصلہ دیا بلکہ اپنے دور کی فرسودہ روایات پر بھی تنقید کی، ان کی بے مثل اور بے باک شاعری نے ہر دور کے پنجابی شعرا کو براہ راست متاثر کیا، ہر بڑا شاعر اور ادیب اپنے دور کے سیاسی، سماجی، مذہبی اور علمی و ادبی حالات کا عکاس ہوتا ہے اور وہ کبھی بھی اپنے ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، جس دور میں بلھے شاہ سانس لے رہے تھے وہ بڑا مخدوش اور خراب و ابتر دور تھا، سیاسی عدم استحکام اور معاشرتی ناہمواریاں اپنے عروج پر تھیں اور مذہبی فرقہ بندیوں کا دور دورہ تھا، خلوص اور حسنِ نیت کا فقدان تھا اور ہر طرف ریا و مکر و فریب اور ظلم و ستم کو حکمرانی حاصل تھی، اس طرح کے ناگفتہ بہ حالات نے بلھے شاہ کو متاثر ضرور کیا مگر وہ ان میں پھنس نہ سکے، اصل میں وہ قدرت کی طرف سے ناقدانہ اعلیٰ شعور لے کر آئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں آفاقی انداز سے سوچنے کا ذہن عطا کر رکھا تھا، انہوں نے نہ صرف اپنے دور کی ان خرابیوں کو اپنی مادری زبان کے ذریعے بیان کیا بلکہ لوگوں کو ایک مثالی اور پرسکون اور پرامن زندگی گزارنے کے لئے آفاقی قدروں پر عمل پیرا ہونے کے سلسلے میں بھر پور رہنمائی بھی کی، بلھے شاہ کا کلام نہایت بلند پایۂ افکار کا حامل ہے، آپ نے جوبات کی ہے وہ بڑی سادہ اور سیدھی سادی کی لیکن اس میں جذب کی صداقت و شدت اور نظر کی گہرائی و گیرائی کی بڑی فراوانی پائی جاتی ہے، وہ اپنے کلام میں ایک صاحبِ بصیرت صوفی بھی نظر آتے ہیں اور ایک بالغ نظر فنکار بھی دکھائی دیتے ہیں، ان کی کافیاں آج تک لوگوں میں مقبول چلی آرہی ہیں بلکہ زندۂ جاوید ہوچکی ہیں، پنجابی زبان کے مایۂ ناز صوفی شاعر میاں محمد نے ان کے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ

”بلھے شاہ کافی سن کے ٹٹ دا کفر اندر دا“

انہوں نے اپنے دور کی خرابیوں کو مادری زبان میں بیان کیا : بلھے شاہ ان لوگوں یا شاعروں کو پسند نہیں کرتے تھے جو ہر وقت ”میں میں“ کا ورد کرتے ہیں یعنی مجھ سے بڑا نہ کوئی عالم ہے اور نہ کوئی شاعر، وہ میں کا ٹھوٹھا اپنی گردن میں لٹکائے پھرتے ہیں اگر آپ اپنے ارد گرد نگاہ ڈالیں تو آپ کو اس قسم کے شاعر مل جائیں گے، ان جیسے شاعروں اور لوگوں کے بارے میں بلھے شاہ کا فرمان ہے۔

پڑھ پڑھ لکھ لکھ لاویں ڈھیر

ڈھیر کتاباں چار چوپھیر

کرے دے چانن وچ انھیر

پچھو راہ تے خبر نہ سار

علموں بس کریں او یار

بعض لوگ اپنے استاد ہونے اور زیادہ شعری مجموعوں کے خالق ہونے کو سند کے طوپر پیش کتے ہیں، مندرجہ بالا کافی ان جیسے لوگوں کے بارے میں کہی گئی ہے، بلھے شاہ خالص علم یا علم برائے فن کے کبھی بھی مخالفت نہیں تھے۔

وہ پنجاب کی پر زور آواز کے نمائندہ ہیں : آج کی شاعری میں ملکی یکجہتی، اخوت، محبت اور بھائی چارے کا جو پیغام دیا جا رہا ہے، یہ در اصل وہی پیغام ہے جو آج سے تین سو برس پہلے بابا جی نے دیا تھا، بلھے شاہ کی شاعری انسان کے اندر کو صاف شفاف کر دیتی ہے، بلھے شاہ نے ایک ایسے مرشد کا ہاتھ تھاما جو بذاتِ خود ایک مختلف قسم کا انسان تھا، بابا بلھے شاہ نے اپنی گدائی کا وارث بھی نہیں چھوڑا تاکہ وہ بعد میں نذرانے نہ وصول کرتا رہے، وہ ایسے بڑے آدمی تھے کہ جو سمجھ لیتے تھے کہ یہ مخلوق کس کی ہے اور میں بھی کسی کی مخلوق ہوں اور مخلوق کی ایک سطح ہوتی ہے، اس میں ایک اجتماعیت ہوتی ہے، اکٹھے جینے مرنے کا معاملہ ہوتا ہے، مخلوق کو اگر کلاسوں میں تقسیم کر دیا جائے تو بلھے شاہ چیختے ہیں شاہ حسین شور کرتے ہیں، میاں محمد بخش احتجاج کرتے ہیں، بلھے شاہ مخلوق کی تقسیم، روحانیت اور مادیت کی تقسیم کے خلاف تھے۔

بلھے شاہ کی شاعری کی بے شمار فکری جہات ہیں، ان کی فنی دھنک میں کافی اٹھوارا، باراں ماہ، سی حرفی، گندھاں اور دوھڑے شامل ہیں، فکری بو قلمونی نے اصناف کے لامحدود امکانات سمجھائے ہیں اور انہیں افق تا افق اور خلا تا خلا کی پیمائشوں سے بلند تر کر کے عرش منور کی وسعتوں تک پھیلا دیا ہے، ان کے فکر کا ہر رنگ، رنگِ توحید سے پھوٹتا ہے، وہ ذات و کائنات کے رشتوں اور وحدت الوجود کی رنگا رنگی کو بے نقاب کرتے ہیں، وہ عرفانی منازل کی نشاندہی کے ساتھ اپنے زمانے کے عکوس و نقوش بھی دکھاتے ہیں، تلاشِ حق میں سرگردانی اور بیداری و عمل کا درس دیتے ہیں، بلھے شاہ نے اپنے تمام تر استعارے اپنے گرد و پیش سے چنے اور ان کے کثرت وحدت کے تعلق کو پوری تحسین کاری کے ساتھ بیان کیا ہے، وہ پنجاب کی بے ساختہ، پر خلوص، پرزور آواز کے نمائندہ ہیں، ہمیں آج کل ان کا چلن اپنانے کی ضرورت ہے۔

بلھے شاہ کے فکر کا ہر رنگ توحید کے رنگ سے پھوٹتا ہے : بلھے شا نے پنجابی شعرا جو براہِ راست متاثر کیا چنانچہ خواجہ فرید، ہاشم شاہ، سچل سرمست، میاں محمد بخش اور دور موجود کی پنجابی شاعری میں بلھے شاہ کی بے ساختگی جابجا اپنی بہار دکھا رہی ہے، انہوں نے اپنی شاعری میں صرف مسلمانوں ہی سے خطاب نہیں کیا بلکہ غیر مسلموں کو بھی اپنے سچے عشق کا تخاطب بنایا ہے اور انہیں حق و صداقت کا پیغام دیتے ہوئے بڑے خلوص کے ساتھ صدائے عام دی ہے، بلھے شاہ نے انسان کو اللہ تعالیٰ کا عکس قرار دیا ہے اور وہ اس کے کمالات کا نمونہ گردانتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ اس کی ذات ہی میں ذاتِ باری تعالیٰ نمایاں ہے لیکن یہ اس دنیا کے دھندوں میں پڑ کر اپنے رب کو فراموش کر بیٹھتا ہے اور اسفل سافلین کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے شمار خرابیوں میں گھر جاتا ہے، بلآخر اس کی نجات اپنی اصل یعنی اللہ سے اتصال ہی میں پوشیدہ ہے، اس لیے وہ منافقانہ روش کے خلاف اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

کیسی توبہ ہے ایہہ توبہ ایسی توبہ نہ کر یار

مونھوں توبہ دلوں نہ کردا اس توبہ تھیں ترک نہ پھڑدا

کس غلفت نے پایو پردا، تینوں بخشے کیوں غفار

سانویں دے کے لویں سوائے، ڈہڈیاں اتے بازی لائے

مسلمانی اوہ کتھوں پائے جس دا ہووے ایہہ کردار

جت نہ جانا اوتھے جاویں حق بیگانہ مکر کھاویں

کوڑ کتاباں سرتے چاویں، ہووے کیہ تیرا اعتبار

ظالم ظلموں ناہیں ڈر دے اپنی کیتیوں آپے مردے

ناہیں خوف خدا دا کر دے، ایتھے اوتھے ہون خوار

کیسی توبہ ہے ایہہ توبہ ایسی توبہ نہ کریار

بلھے شاہ خالص علم یا علم برائے فن کے مخالف نہیں تھے : بابا بلھے شاہ کے عزیز و اقارب اس بیعت پر خوش نہیں تھے، انہیں شکایت تھی کہ بلھے شاہ سید ہوکر ایک راعین بزرگ کے مرید کیوں بنے، اس پر برادری آپ کو طعنے دیتی آپ برادری کی تنقید کو اپنی کافیوں میں یوں بیان کرتے ہیں۔

بلھے نوں سمجھاون آئیاں بھیناں تے بھر جھائیاں

من لے بلھیا ساڈا کہنا چھڈ دے پلا آرائیاں

آلِ نبی اولادِ علی نوں کیوں لیکاں لائیاں

آپ اس کے جواب میں یوں فرماتے ہیں کہ

جیہڑا سانوں سید آکھے دوزخ ملی سزائیاں

جیہڑا سانوں آرائیں آکھے بہشتی پینگاں پائیاں

آپ اپنے آپ کو اپنے مرشد کا خادم اور نوکر کہلانا پسند کرتے ہیں، برادری کی مخالفت کے باوجود مرشد کے حد ست زیادہ گرویدہ رہے یہاں تک کہ اپنے گھر اور گھر والوں سے قطع تعلق کرلیا اور مرشد کی خانقاہ میں رہنے لگے مرشد کے انتقال تک یہیں رہے اور خلافت ملنے کے بعد قصور منتقل ہوگئے۔

بلھے شاہ کے کلام میں لوگوں کو بیداری کا سبق ملتا ہے : بلھے شاہ 18 برس صدی عیسوی کے اس دور میں جب بر صغیر میں خاص طور پر پنجاب میں افرا تفری اور خوف و ہراس پایا جاتا تھا اور سکھوں نے مسلمانوں کا جینا دوبھر کر دیا تھا اس دور میں بلھے شاہ نے اس دور کے واعظوں علمائے کرام اور مصلحین قوم کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا اور انہیں خانقاہوں سے باہر نکل کر اسلام کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اپنے فرائضِ منصبی ادا کرنے کو کہا، بلھے شاہ کی جرأت مندانہ اور بے باکانہ تنقید نے وقت کے سلاطین اور خود کو مذہبی سمجھنے والوں کو خواب بیدار کا پیغام دیا فرماتے ہیں کہ

اٹھ جاگ گھر اڑے مار نئیں

ایہہ سون تیرے درکار نئیں

اک روز جہانوں جاناں ایں

جا قبریں وچ سمانا ایں

تیرا گوشت کیڑیاں کھاناں ایں

کر چیتا مرگ وسار نئیں

سیاست کے بارے میں ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ

در کھلا حشر عذاب دا

برا حال ہویا پنجاب دا

ڈر ھاویئے دوزخ ساڑیا

کدی آ مل یار پیار یا

جد مغلاں زہر پیالے پیتے

بھوریاں والے راجے کیتے

بلھے شاہ کا نظریہ یہ ہے کہ انسان خدا کا عکس ہے اور اس کے کمالات کا نمونہ اس کی ذات میں نمایاں ہے مگر یہ اسفل سافلین میں آکر خدا بھول جاتا ہے اور جملہ خرابیوں کا شکار ہو جاتا ہے اس کی نجات اصل یعنی خدا سے اتصال میں پنہاں ہے، چنانچہ معاشرے کی منافقانہ روش کے خلاف اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ

نت پڑھنا ایں استغار

کیسی توبہ ہے ایہہ یار؟

سانویں دے کے لویں سوائی

داہدیاں دی توں بازی لائی

مسلمانی ایہہ کتھوں آئی

جتنے نہ جاناں اوتھے جائیں

مال پرایا منہ دھر کھائیں

کوڑ کتاباں سر تے چائیں

ایہہ ترا اتبار

آپ مسلمانوں میں چودہ سو سال قبل کی محبت و الفت دیکھنے کے متمنی تھے اور مسلمانوں میں موجودہ فرقہ واریت، مصیبت اور نفسا نفسی کی مذمت میں کہتے ہیں۔

الٹے ہور زمانے آئے

اساں بھید سجن دے پائے

اپنیاہ وچ الفت ناہیں

کیہہ چاچے کیہہ تائے

پیوں پتراں اتفاق نہ کوئی

دھیاں نال نہ مائے

بلھے شاہ تصوف وحدۃالوجودی مسلک پر کاربند تھے اور اس کے عاملین عام طور پر وسیع المشرف ہوتے ہیں لیکن بلھے شاہ کا ایک امتیاز یہ ہے کہ وسیع المشربی برقرار رکھتے ہوئے وہ اپنے دور کی خرابیوں اور برائیوں سے مفاہمت پر آمادہ نہیں ہوئے، خصوصاً ظاہر پسندی اور ریاکاری ان کے لئے ہمیشہ ناقابلِ برداشت رہی اس کا اظہار ان کے کلام میں بہت زیادہ ہے مثلا وہ فرماتے ہیں کہ

بلھے نوں لوک متی دیندے بلھیا جا بہہ مسیتی

وچہ مستیاں اں دے کی کنجھ ہندا جو اندروں گئی نہ پلیتی

علموں پے قضیئے ہور

اکھیں والے انتھیں کور

پڑھے سادھ تے چھڈے چور

دو ہیں جہانیں ہویا خوار

اور علمی دنیا کی بے عملی پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ

پڑھ پڑح علم لگاویں ڈھیر

قرآن کتاباں چار چوفیر

گردے چانن وچ ہنیر

تصوف کی دنیا میں صوفی شاعری کی حیثیت سے انہیں شہرتِ دوام حاصل ہے : بلھے شاہ کی شاعری سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس بات پر انہوں نے اپنے خاندان والوں کے ہاتھوں بہت نقصان بھی اٹھایا جس کا ذکر انہوں نے اپنی کافیوں میں بھی کیا، بالآخر جب خاندان والوں کوا پنے بیٹے کے حضرت عنایت شاہ سے انتہائی پیار اور احترام کا یقین ہوگیا تو وہ آپ کو تنہا چھوڑ کر چلے گئے، کہا جاتا ہے کہ بلھے شاہ کی ایک بہن انہیں اچھی طرح سمجھتی تھی، انہوں نے آپ کی پوری مدد کی اور تلاشِ حق میں آپ کا حوصلہ بڑھایا، اس بہن نے بھائی کی خاطر شادی نہیں کی اور عمر بھر بھائی کا ساتھ دیا، اپنے خاندان والوں سے منقطع ہوکر بلھے شاہ اپنے مرشد کے پاس چلے آئے اور ان کے ساتھ ہی رہنے لگے، مرشد سے علومِ باطنی میں دسترس حاصل کی، بلھے شاہ شاہ عنایت قادری کے انتہائی چہیتےشاگرد اور خلیفہ تھے، مرشد کی وفات کے بعد بارِ خلافت بھی بلھے شاہ ہی کے کندھوں پر آن پڑا تھا، شاگرد کو بھی اپنے استاد اور مرشد سے بے پناہ عشق اور محبت تھی، مرشد ہی سے متاثر ہوکر بلھے شاہ نے بھی پنجابی میں لکھنا اور شعر کہنا شروع کر دیئے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ بلھے شاہ نے جو کچھ پایا اپنے مرشد عنایت ہی سے پایا، ان کی شاعری اپنے مرشد سے محبت اور عشق سے لبریز ہے، ان کی تقریباً ہر کافی کے مقطع میں مرشد کا نام آتا ہے، بلھے شاہ کا اپنا بیان ہے کہ اگر شاہ عنایت میرا ہاتھ نہ پکڑتے تو میں بلھا کی جگہ ”بھلا“ ہی ہوتا۔

ان کی کافیوں میں روحانی عشق کی مختلف کیفیتوں کو اجاگر کیا گیا ہے : بلھے شاہ نے کافیوں کے علاوہ سی حرفیاں، باراں ماہ، اٹھوارہ، دوہڑے اور گندھا بھی کہی ہیں، ”گندھ“ ایک مختصر نظم ہوتی ہے جس کا تعلق شادی بیاہ کی تقریب سے ہوتا ہے، اس میں شادی کے انتظامات سے متعلق حوالے ہوتے ہیں، مثلاً شادی کی تاریخ کا تقرر، براتیوں کا استقبال اور شادی شدہ جوڑے کی وداعی وغیرہ، کافی کی طرح گنڈھ بھی شاعری کی ایک صنف ہے۔

بلھے شاہ کی کافیاں روحانی عشق پر مبنی ہیں جن میں عاشق کی مختلف کیفیتوں کی منظر کشی ملتی ہے حالانکہ ان کافیوں میں عشق مرکزی خیال کے طور پر موجود ہے تاہم ایسی کافیاں بھی ہیں جن میں طالب کے لیے ہدایت و نصیحت موجود ہے، وہ اپنے کردار و فطرت کے اعتبار سے ناصحانہ ہیں لیکن عشق کا عنصر اور ناصحانہ انداز بعض اوقات صرف کافیوں ہی میں نہیں، دوسری نظموں میں بھی کھل کر سامنے نہیں آتے۔

وہ عالم اور صوفی ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے خوشنویس بھی تھے : بلھے شاہ کی ورثے میں قرآن پاک کا وہ نسخہ بھی موجود ہے جو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے لکھا تھا جسے دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ بلھے شاہ عالم اور صوفی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت اچھے خوشنویس بھی تھے، وہ فن موسیقی میں بھی کافی دسترس رکھتے تھے۔

بلھے شاہ سچائی اور خود آگہی کا پیکر تھے : دوپہر کے سورج کی کرنیں کنکریٹ سے بنی ہوئی ایک شاندار عمارت پر پڑ رہی تھیں جہاں ایک عظیم انسان زندگی بھر سچائی کے بلند و بالا مورچے پر ڈٹے ہوئے ظلم کے خلاف آواز بلند کر کے ابدی نیند سور ہا ہے، اب شہر کے امرا با اثر لوگ خود کو اسی شخص کے پہلو میں دفنائے جانے کی تمنا رکھتے ہیں جس کو کبھی انہوں نے مسترد کیا تھا اور جس کی لاش کو اس وقت 1788 کے نام نہاد ملاؤں نے مسلمانوں کے اجتماعی قبرستان میں دفنانے سے انکار کردیا تھا جب کہ آج اس کے چاہنے والے خود کو اس کا مرید اور اس کی قبر کو بقۂ نور سمجھتے ہیں، جیسے یہ ان مظالم کا کفارہ ادا کر رہے ہیں جو اس مظلوم اور عظیم انسان کے ساتھ روا رکھا گیا تھا۔

وہ آواز جو کبھی بھی کہیں بھی ظلم کے خلاف بلند ہوتی ہے ہماری تحسین اور عقیدت کی حقدار ہے ہم میں سے اکثر نے کبھی لڑائی نہیں لڑی، کبھی ظلم کو روکنے کے لئے ہاتھ نہیں اٹھایا، کبھی ظلم کو نہیں للکارا، پس اپنی گوشۂ عافیت کو مستحکم کر کے زیادہ سے زیادہ اتناہی کیا ہوگا کہ مبہم طریقے سے ظلم سے اپنی بریت کا اظہار کردیا ہوگا اور بعض کو تو اس کی بھی توفیق نہیں ہوئی ہوگی، اس لئے جو مظلوموں کی سپر بنے اور جن کے احتجاج کی صدا ظلم کے خلاف بے باکی سے اٹھی ہماری عقیدت ان کا حق ہوگئی، بقول قتیلؔ شفائی

دنیا میں قتیلؔ اس سا منافق نہیں کوئی

جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا

بلھے شاہ کی آواز بھی انہی آوازوں میں سے ایک ہے اور یہی جذبہ اور عقیدت اس عظیم ہستی پر قلم اٹھانے کے لئے میرا محرک بنا، تاریخِ عالم میں حرف حق قوت بازو سے زیادہ مؤثر رہا ہے، تلواریں کند ہوجاتی ہیں، انہیں زنگ لگ جاتا ہے اور کبھی کبھی تو یہ مصلحتاً خود ہی چھپا لی جاتی ہیں لیکن حرفِ حق کی اپنی ایک زندگی ہے وہ ذہنوں اور دلوں کی لوح پر محفوظ رہتا ہے اور ماورائے زماں و مکاں ہوکر منہ بہ منہ ایک زنجیر کی مسلسل جھنکار بن جاتا اور اپنا پیغام سناتا چلا جاتا ہے، ممتاز مفتی نے ٹھیک ہی کہا کہ

’’جن کی شخصیت میں شدت ہو ان سے سوڈے کی بوتل کی طرح بلبلے اٹھتے ہیں، وہ بات اندر نہیں رکھتے اگل دیتے ہیں“

چپ کر کے کریں گزارے نوں

سچ سن کر لوک نہ سہندے نیں

سچ آکھیے تے گل پیندے نیں

پھر سچ پاس نہ بہندے نیں

سچ مٹھا عاشق پیارے نوں

چپ کر کے کریں گزارے نوں

پنجابی زبان کے اس عظیم شاعر بلھے شاہ کا اصلی نام سید عبداللہ شاہ تھا، آپ ایک پارسا سید خاندان میں اپنے بزرگوں کے شہر بہاول پور کے نزدیک اوچ گیلانیاں میں پیدا ہوئے، آپ کے والد شاہ محمد درویش جب تلاشِ روزگار میں ترک وطن کر کے قصور کے قریب آبسے تو اس وقت بلھے شاہ کی عمر 6 سال تھی، بلھے شاہ ابتدائی مذہبی تعلیم حافظ غلام مرتضیٰ امام مسجد قصور سے حاصل کی، تذکرہ نگار بیان کرتے ہیں کہ حافظ غلام مرتضیٰ قصوری نے دو باغیانہ خیالات رکھنے والے اشخاص کی تربیت کی، ایک بلھے شاہ اور دوسرے وارث شاہ تھے جو پنجابی زبان میں مشہور رومانی داستان ”ہیر“ وارث شاہ کے مصنف ہیں کتب فقہ و شرح کے حوالے سے اس کے کلام میں کئی جگہ پائے جاتے ہیں غالباً اسی تعلیمی دور کا اثر ہے، کوئی نہیں جانتا کہ اس لڑکے نے باطنی سفر کا آغاز کس طرح کیا جس میں وہ کتابی علم سے خود آگہی کی منزل کی طرف راغب ہوا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بلھے شاہ کا خاندان علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے جہاں مذہب کی حقیقی تعلیم دی جاتی تھی، بلھے شاہ نے آزاد خیالی کی ابتدائی روایت فارسی کے مشہور صوفی شاعر 1273-1207 سے اخذ کی۔

آپ کے کلام کا کوئی مصدقہ متن دستیاب نہیں، 1710 سے 1750 تک کا زمانہ پنجاب میں ایک بڑی بدامنی کا زمانہ تھا جس کا ذکر خود بلھے شاہ نے اپنی کافیوں میں کیا ہے، ممکن ہے ان کا مدون کلام اس زمانے کی شورشوں میں گم ہوگیا ہو مگر یہ بھی ممکن ہے کہ بلھے شاہ نے خود نہ لکھا ہو اور نہ کسی کو لکھنے دیا ہو، چنانچہ پریم سنگھ قصوری جنہوں نے 1896 میں ان کے کلام کو جمع کیا لکھتے ہیں کہ آپ اُمی اَن پڑھ تھے لہٰذا آپ اپنا کلام نہیں لکھ سکے۔

بلھے شاہ کے کچھ نسخوں میں مؤلفوں نے تشریح اشعار بھی کی ہے، دیوان چند ’رہتکی‘ دسوندھی اور لاجونتی کے نسخے اس کی مثالیں ہیں، لگتا ہے ہر شارح شعر فہمی میں ایک غالب میلان طبع رکھتا تھا جس کے مطابق ہرکافی اور شعر کی شرح کرتا چلا جاتا تھا، چنانچہ ان کی تشریح میں مصروفیت کم دکھائی دیتی ہے، مثلا دیوان چند کو ہر کافی میں ہمہ روست کا عقیدہ نظر آتا ہے، رہتکی ہر نظم میں الشیخ اور فنا اللہ ہونے کا سبق چھپاتا پاتا ہے، دسوندھی کے خیال میں ہر کافی میں ”غرور و تکبر“ کا وعظ ہے، ڈاکٹر لاجونتی ان میں ہندو ازم کا پرچار دیکھتی ہے، ہمارے ہاں کئی لوگ بلھے شاہ کو محض ایک صوفی سمجھتے ہیں، مہر شارح ایک حد تک سچا ہے لیکن بلھے شاہ کے مضامیں کے تنوع کو یوں ایک چادر سے ڈھانپ دینا انصاف نہیں ہوگا۔

میرے خیال میں بلھے شاہ کو جتنا پڑھا اور سمجھا جائے اس کے مطابق ان کے کلام کا حاصل یا پوشیدہ پیغام کو ہم تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

1 سچائی پراصرار۔

2 خود آگہی پر انحصار۔

3 اور نظم کے خلاف للکار۔ بلھے شاہ اس وقت کے ملاؤں اور مفتیوں سے یقیناً بہت نالاں تھے جنہوں نے اورنگ زیب کےہاتھوں اپنی تنگ نظری سے سرمد کو شہید کروایا، چنانچہ ان کے کلام کا ایک بڑا حصہ پیشہ ور ملاؤں کی منافقت 'ہوس زر' ذہنی پسماندگی اور خواہش اقتدار کی مخالفت میں کہا گیا ہے وہ کہتا ہے۔

ملاں تے شماسچی دونھا اکو چت

لوکاں کر دے چاننا آپ انھیرے وچ

بلھے شاہ ایسے علم کو نامسعود سمجھتا ہے جو عوام کی بھلائی سے بے پروا ہو اور علم والوں کو صرف اس بات میں مدد دے کہ وہ عوام کی بے علمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پر اپنے اثر و اقتدار کو قائم رکھیں، ایسے حالات میں علم کے بے فائدہ بلکہ مضر ہونے کا مضمون ان کی کئی کافیوں میں ملتا ہے، اس حوالے سے مشہور مفکر خیل جبران نے خوب کہا کہ ”مذہب انسان کی فطری ضرورت ہے لیکن اس کی آڑ میں دوسروں پر ظلم کرنا غیر فطری عمل اور فعل ہے“ اس موضوع پر بلھے شاہ کی دو عظیم اور معرکہ آرا کافیوں سے چند اشعار ملاحظہ کریں۔

علموں بس کریں او یار

پڑھ پڑح نفل نماز گزاریں

اچیاں بانگاں ٹانہگاں ماریں

منبر تے چڑھ وعظ پکاریں

کیتا تینوں علم خوار

علموں بس کریں او یار

اک نقطے وچ گل گلدی اے

پھڑ نقطہ چھوڑ حساباں نوں

چھڈ دوزخ گور عذاباں نوں

کر بند کفر دیاں باباں نوں

کر صاف دے دیاں خواباں نوں

گل ایسے گھروچ ڈھکدی اے

اک نقطے وچ گل گلدی اے

ایویں متھا زمین گھسائی دا

پالما صحراب دکھائی دا

پڑھ کلمہ لوک پسائی دا

دل اندر سمجھ نہ لائی دا

کدی سچی بات دی لگدی اے

اک نقطے وچ گل مکدی اے

روایت ہے کہ بلھے شاہ کے استاد و مرشد شاہ عنایت آپ سے ناراض ہوگئے تو آپ نے کود ناچنے والیوں کا لباس پہن کر مرشد کی رہ گذر پر ناچنا شرع کردیا، جب شاہ عنایت وہاں سے گزرے تو انہوں نے بلھے شاہ کو پہچان لیا اور ہنس پڑے اور ان کی ناراضگی جاتی رہی، یہ مشہور کافی آپ نے مرشد کو منانے کے لئے کہی، جس میں محبوب کی دوری اور ان کے عطا کردہ درد کی تخیلی تصویر پیش کی گئی ہے۔

ترے عشق نچائیاں کر کے تھیا تھیا

ترے عشق نے ڈیرا میرے اندر کیتا

بھر کے زہر پیالہ میں تاں آپے پیتا

چھیتی بوڑھیں وے طبیاں نیں تے مرگیا

ترے عشق نچائیاں کر کے تھیا تھیا

بلھے شاہ ایک اصلاح پسند، مساویانہ اور بت شکن روایت کا نمائندہ ہے، وہ سماجی اور سیاسی مساوات چاہتا ہے اور مسلمۂ عقائد کے حوالے سے اداروں کو اجارہ داری کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے یہ روایت شاملی ہند کے مذہبی وارفتگی کے حامل شعرا کبیر (1518-1440) ہیرا (1573-1503) اور تلسی داس (1623-1532) کی رہی ہے، سچائی کے اعلان اور اس پر قائم رہنے کے جو حوصلہ درکار ہے اس کی اہمیت کو وہ اپنی مشہور زمانہ کافی میں بیان کرتے ہیں کہ حق گوئی کی راہ میں جو رکاوٹیں خوف اور مصلحت کے تقاضوں سے پیدا ہوتی ہیں ان کے باوجود اس پر جمے رہنے کی تلقین پر کم ہی کسی شاعر نے اس زور سے لکھا ہوگا یعنی اس کافی کا موضوع سچ پر اصرار کر کے سراغِ زندگی کا حصول ہے۔

منہ آئی بات نہ رہندی اے

ایہ تلکن بازی ویڑا اے

تھم تھم کے لڑو اندھیرا اے

وڈ اندر دیکھو کیہڑا اے

کیوں خلقت باہر ڈھونڈ نیدی اے

منہ آئی بات نہ رہندی اے

جس پایا بھیت قلندر دا

راہ کھوجیا اپنے اندر دا

اوہ واس ہے سکھ مندر دا

جتھے توئی نہ چڑھدی لہندی اے

منہ آئی بات نہ رہندی اے

بلھے شاہ کے شعری اسٹائل پر بحث کے لئے ایک تفصیلی مضمون چاہیے جس کی یہاں گنجائش نہیں، مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کا بیشتر کلام صنائع اور بدائع سے مبرا ہے جو بات ہے سیدھی ہے لیکن جذبے کی شدت، نظر کی گہرائی کلام میں وہ اثر پیدا کرتی ہے کہ فن دست بستہ نظر آتا ہے۔

بلھا کیہہ جاناں میں کون

نہ میں مومن وچ مستیاں

نہ میں وچ کفر دیاں ریتاں

نہ میں پاکاں وچ پلیتاں

نہ میں موسے نہ فرعوں

بلھا کیہہ جاناں میں کون

نہ میں بھیت مذہب دا پایا

نہ میں آدم حوا جایا

نہ کچھ اپنا نام دھرایا

نہ وچ بیٹھن نہ وچ بھون

بلھا کیہہ جاناں میں کون

متذکرہ بالا کافی بلھے شاہ کی مشہور ترین کافیوں میں سے ایک ہے اور نفسِ انسانی کی تشخیص اور اس کے متعلق بعض خیالات کے ظہور میں ایک خاص مقام رکھتی ہے میں انسان کہاں سے آیا ہوں اور کہاں جا رہا ہوں؟ یہ سوال تو ہمارے شاعر اور فلسفی بہت پوچھتے ہیں لیکن یہ سوال آنے جانے والا میں خود کون ہے بلکہ کیا ہے کم پوچھا گیا۔

بلھے شاہ کے فکر کا ہر رنگ توحید کے رنگ سے پھوٹتا ہے : بلھے شاہ نہ صرف ایک آفاقی شاعر بلکہ ایک سچے اور کھرے عاشق تھے وہ پنجاب کے بے ساختہ پر خلوص اور پرزور آواز کے نمائندہ تھے اور آج بھی پنجاب کے شعرا انہی کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں، ان خیالات کا اظہار پنجابی ادب کے دانشوروں شاعروں نے جنگ فورم میں ”حضرت بابا بلھے شاہ اور ہماری شاعری“ کے موضوع پر خصوصی مذاکراہ میں کیا، مذاکرہ میں شفقت تنویر مرزا، حفیظ نائب، راجا رسالو، ڈاکٹر عصمت اللہ زاہد، پروفیسر جمیل احمد پال، ڈاکٹر ناہی شاہد، مظہر جعفری اور تنویر ظہور نے شرکت کی، حفیظ نائب نے کہا کہ بلھے شاہ کی شاعری کی بے شمار فنی فکری جہتیں تھیں، ان کی فنی دھنک میں کافی 'اٹھوارہ' باراں ماہ' سی حرف گنڈھاں' دوہڑے شامل ہیں، ان کے فکر کا ہر رنگ، رنگِ توحید سے پوٹھتا، وہ ذات و کائنات کے رشتوں اور وحدت الوجود کی رنگا رنگی کو بے نقاب کرتے ہیں اور تلاشِ حق میں سر گردانی میں بیداری عمل کا درس دیتے ہیں، ان کے بعد تمام شعرا غیر شعوری طور پر ان سے متاثر ہوتے رہے، شفقت تنویر مرزا نے کہا کہ بلھے شاہ نے اپنے عہد میں جس دلیری سے اپنے فلسفے کی تبلیغ کی وہی ان کی سب سے بڑی خوبی تھی، انہوں نے دوست کو منانے کے لئے ناچ کو ضروری سمجھا، بلھے شاہ خدا کی مخلوق کی تقسیم، روحانیت اور مادیت کے خلاف تھے، پروفیسر جمیل احمد پال نے کہا کہ بلھے شاہ فلسفہ، خیالات، جذبات اور فن کا ایک وسیع سمندر ہے، وہ کسی سے لالچ کی کوئی توقع نہیں رکھتے تھے، راجا رسالو نے کہا کہ بلھے شاہ کے دور میں پنجاب افرا تفری کا شکار تھا لیکن انہوں نے اس زمانہ میں محبت کی شاعری کی، ہمیشہ عوام کے مسائل کی نشاندہی کی، مسعود کھدر پورش کہا کرتے تھے کہ مجھے جب بھی جابر حکمران کے سامنے پیش ہونے کا اتفاق ہوا تو میں نے ہمیشہ بلھے شاہ کی شاعری کا ورد کیا جس سے مجھے تقویت ملتی تھی، ڈاکٹر عصمت اللہ زاہد نے کہا بلھے شاہ نے جس دبنگ لہجے میں ظلم کے خلاف آواز بلند کی وہ ہماری تہذیبی ثقافتی اور سیاسی تاریخ کا ایک انمٹ نقوش بن گئے، بلھے شاہ ملکی نامساعد حالات میں مردِ میدان کی طرح منافقت، ریاکاری، تعصب، خود غرضی اور ظلم کے خلاف اپنی شاعری سے شمشیر کا کام لیا، تنویر ظہور نے کہا کہ بلھے شاہ نے ہمیشہ سچائی اور حق گوئی کی بات کی، اپنے گرد پھیلے ہوئے مسائل بیان کئے، مظہر جعفری نے کہا کہ بلھے شاہ اپنے دور کی فرسودہ روایات پھر بھر پور تنقید کی، مختصرا کہ انہوں نے اپنے دور میں جہاد کیا، تین سو سال گزرنے کے بعد بھی ان کی کہی ہوئی ہر بات آج بھی سچ ثابت ہوتی ہے، ڈاکٹر ناہید شاہد نے کہا کہ بلھے شاہ کی شاعری افسردہ لوگ پڑھ کر ریلیف محسوس کرتے ہیں اور جب تک بلھے شاہ کی شاعری کے راز ہم پر نہیں کھلتے ہم بے بہرہ ہیں، مذاکرہ میں میزبانی کے فرائض ڈاکٹر حسن رضوی اور معاونت افتخار علی عفی نے کی (روزنامہ جنگ 10 اگست 1999)

بلھے شاہ اپنے دور کے بے باک ترجمان تھے : وہ محض صوفی ہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنے وجود سے باہر خارجی زندگی پر بھی ناقدانہ نظر رکھی، اس دور میں لوگوں کا ضمیر سو چکا تھا، بلھے شاہ لکھتے ہیں کہ

اٹھ جاگ کھرارے مانئیں

ایہہ سون تیرے درکار مارنئیں

وہ نام نہاد عالموں کا ذکر یوں کرتے ہیں کہ

منبر تے چڑھ وعظ پکاریں

تینوں کیتا حرص خوار

بلھے شاہ صوفی شاعر ہونے کے علاوہ بڑے ذہین طنز نگار تھے، ان کی کافیوں میں طنز کی بے نظیر مثالیں موجود ہیں کہ

پڑھ پڑھ علم لگانویں ڈھیر

قرآن کتاباں چار چوفیر

گردے چانن وچ انہیر

باہجوں رہبر خبر نہ سار

علموں بس کریں اویار

بلھے شاہ کے پیر و مرشد نہایت کامل بزرگ تھے، اپنی کافیوں میں بلھے شاہ نے ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

پہلی پوڑی عشق دی پل صراطے ڈیرا

حاجی مکے حج کرن میں مکھ دیکھاں تیرا

آئیں عنایت قادری ہتھ پکڑیں میرا

میں اڈیکا کر دی آ کر پھرا

انتقال : آپ نے اپنی ساری زندگی عشقِ حقیقی میں گزا ردی، خدا سے لو لگائے رکھتے تھے، 1788 اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے، مزار شریف قصور (پنجاب) میں واقع ہے، آپ کا عرس مبارک ہر سال اگست کے مہینہ میں بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY
بولیے