Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

حضرت وارث شاہ

خالد پرویز ملک

حضرت وارث شاہ

خالد پرویز ملک

MORE BYخالد پرویز ملک

    دلچسپ معلومات

    پنجاب کے عظیم صوفی شعرا۔

    نام و لقب : پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر اور ”ہیر“ کے خالق و مصنف وارث شاہ کا پورا نام سید محمد وارث شاہ تھا، آپ نے شاعری میں اپنا نام ”وارث شاہ“ اخیتار کیا اور بعد ازاں اسی نام سے معروف و مشہور ہوئے، آپ کا تعلق سید گھرانے سے تھا۔

    پیدائش : پنجاب کے ممتاز شاعر اور ممتاز صوفی بزرگ وارث شاہ شیخو پورہ کے نواحی قصبہ جنڈیالہ شیر خان میں 1720 بمطاطق 1132 ہجری پیدا ہوئے، آپ کے والد محترم کا نام سید قطب شاہ تھا، وارث شاہ کے بھائی کے پڑپوتے سے سید حیات شاہ کے مطابق آپ کے والد نام سید گل شیر تھا مگر یہ امر درست ہے کہ آپ کے والد کا اصل نام سید قطب شاہ تھا اس کی تصدیق خود انہوں نے اپنے مصرع میں کی ہے۔

    بناں عمل دے نہیں نجات تیری

    ماریا جائیں گا قطب دیا بیٹیاں اوئے

    شجرۂ نسب : وارث شاہ کا شجرۂ نسب درج ذیل ہے، سید قطب شاہ، سید وارث شاہ، سید بہادر شاہ، سید قاسم شاہ، سید قادر شاہ، سید شاہ حسن، سید گلاب شاہ، سید ولایت شاہ، سید جیون شاہ، سید نادر شاہ۔

    ابتدائی تعلیم : وارث شاہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد قطب شاہ سے حاصل کی لیکن جب جوان ہوئے تو شہر قصور کی مسجد کوٹ قصور کا رخ کیا اور حافظ غلام مرتضیٰ کی خدمت میں پیش ہوئے، آپ نے مولوی غلام محی الدین سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، وہ خود لکھتے ہیں کہ

    وارث شاہ وسنیک جنڈیا لڑے داتے شاہ گرد مخدوم قصور دا اے

    ظاہری علوم میں دسترس حاصل کرنے کے بعد وارث شاہ قصور سے رخصت ہوئے اور بابا فرید گنج شکر کے مزار پر پہنچ گئے جہاں انہوں نے باطنی فیض حاصل کیا اور آپ نے اس وقت گدی نشین مخدوم جہانیاں کی بیعت کی، باطنی علوم حاصل کرنے کے بعد آپ پاک پٹن سے ملکہ ہانس چلے گئے اور آپ نے ایک مسجد میں پانچوں وقت کی امامت کروائی، بعد ازاں پاک پٹن سے چل کر ٹھٹھہ زاہد چلے گئے۔

    وارث شاہ کے بزرگان : ان کا تعلق حضرت امام نقی کی اولاد میں سید علی اصغر کے بیٹے سید اسماعیل کی آٹھویں پشت میں سید سلطان محمد مکی کے بیٹے صدرالدین کی اولاد میں سے تھا، 1260 عیسوی میں سلطان محمد مکی ایران سے آکر بھکر میں آباد ہوئے۔ (پنجاب رس صفحہ 90 از تنویر بخاری)

    پیدائش : وارث شاہ جنڈیالہ شیر خاں (شیخو پورہ) میں پیدا ہوئے، آپ کی پیدائش کے بارے میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔

    مقصود ناصر چودھری مرحوم (مصنف تاریخ شیخوپورہ) کے مطابق۔ 1150 ہجری 1738 عیسوی

    باوا بدھ سنگھ کے مطابق 1126 ہجری تا 1140 ہجری

    مولانا بخش کشتہ مرحوم (پنجابی شاعراں واتذکرہ) 1135 ہجری تا 1140 ہجری

    چودھرتی محمد افضل خاں مرحوم (ایڈیٹر پنج دریا) 1130 ہجری تا 1140 ہجری

    خوشونت سنگھ تے ایس ایس امول 1149 ہجری 1737 عیسوی

    ایس ایس کوہلی 1148 ہجری 1736 عیسوی

    ڈاکٹر اختر جعفری 1114 ہجری یا 1730 عیسوی کے قریب

    ڈاکٹر جیت سنگھ سیتل 1133 ہجری تا 1210 ہجری 1720 عیسوی تا 1797 عیسوی

    شریف صابر (ہیر) 1986 عیسوی (پنجاب رس صفحہ 91) 1134 ہجری تا 1215 ہجری (1722 عیسوی تا 1798 عیسوی)

    10 حفیظ تائب (کھوج شمارہ 16-15 (1122ہجری) 1710 عیسوی

    11۔ سید سبط الحسن ضیغم 1132 ہجری 1720 عیسوی

    12۔ تنویر ظہور (روزنامہ جنگ، لاہور) 1134 ہجری 1722 عیسوی

    13۔ شائستہ نزہت و سیر 1132 ہجری 1720 عیسوی

    14۔ خالد پرویز ملک (مصنف تاریخ شیخ پورہ، ذکر وارث شاہ) 1132 ہجری 1720 عیسوی

    15۔ پروفیسر غلام رسول آزاد (پرنسپل گورنمنٹ کالج شیخو پورہ) 1122 ہجری 1710 عیسوی

    یہ سارے اندازے آرا، خیالات ہیر وارث شاہ کی تاریخ 1180 ہجری کو نظر رکھ کر لگائے گئے ہیں، یعنی

    سن یاراں سو ای آنبی ہجری

    لمے دیس دے وچ تیار ہوئی۔

    اس طرح یہ امر طے شدہ ہے کہ وارث شاہ کی ٹھیک ٹھیک تاریخ یا سال پیدائش کا کسی کو بھی معلوم نہ ہے۔

    ولدیت کے نام کا اختلاف : وارث شاہ کی ولدیت کے بارے میں ”ہیر وارث شاہ“ کو سامنے رکھ کر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آپ کے والد محترم کا نام قطب شاہ تھا، بحوالہ شعر

    بناں عمل دے نئیں بجات تیری

    ماریا جائیں گا قطب دیا بیٹیا اوئے

    تیویر بخاری نے جدید تحقیق کی تو وارث شاہ کے خاندان کے موجودہ وارثان سے ملاقات کر کے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان کے شجرۂ نسب کے مطابق آپ کے والد کا نام ”سید گل شیر شاہ“ تھا، تنویر بخاری اپنی تحقیق درست قرار دیتے ہیں کیونکہ ”قطب دیا بیٹیا“ والی شہادت یقینی نہیں ہے بلکہ غوث، قطب، ابدال اور اوتاد وغیرہ محاوارتی تعلقات کے طور پر استعمال کیا گیا، تنویر بخاری نے وارث نمبر ماہنامہ پنج دریا، لاہور بابت ماہ اکتوبر نومبر 1969 میں وارث شاہ کے خاندانی بزرگ سید خیرات شاہ کی معرفت آپ کا شجرہ نسب یوں بیان کیا کہ

    گل شیر شاہ کے تین بیٹے تھے۔

    وارث شاہ (روایت ہے کہ وارث شاہ صرف ایک بیٹی کے باپ تھے) بحوالہ یادرگار وارث از ضیا محمد ضیا)

    قاسم شاہ

    3 بہادر شاہ (ان میں سے قاسم شاہ کے دو بیٹے تھے)

    بہادر شاہ۔ قادر شاہ (ان مین سے بہادر شاہ کے بیٹے حسن شاہ تھے جن کے چار بیٹے تھے)

    گلاب شاہ۔ ولایت شاہ۔ جیون شاہ۔ نادر شاہ

    (گلاب شاہ کے بیٹے عنایت شاہ تھے، عنایت شاہ کے بیٹے خیرات شاہ 1969 میں گدی نشیں تھے)

    جنڈیالہ شیر خاں، ضلع شیخو پورہ : اس قصبہ میں غزنی کے پٹھان شیر خاں نامی شخص رہائش اختیار کی اور 1556 میں جنڈیالہ شیر خاں کی بنیاد رکھی، شیر خان مرحوم نے 1568 عیسوی میں اپنے مرشد سخی احمد درویش کے حکم سے ایک باؤلی تعمیر کروائی، جس پر قطعہ تاریخ فارسی زبان میں لکھا ہوا تھا، اس تاریخی پتھر کی تختی کو قومی تاریخی اثاثہ سمجھ کر ضلع شیخو پورہ کے اس وقت کے ڈپٹی کشمنر محمد افضل کہوٹ کے حکم سے 1972 میں اکھاڑ کر لاہور میوزیم میں محفوظ کروا دیا، مذکورہ باؤلی جون 1568 میں تعمیر ہوئی تھی، یہ ایک قدیم قصبہ تصور کیا جاتا ہے، اب یہ ضلع شیخو پورہ میں شامل ہے، 1922 سے قبل جنڈیالہ شیر خان ضلع گوجرانوالہ میں شامل تھا، بیان کیا جاتا ہے کہ اس مقام پر جنڈ کے درخت بہت زیادہ تعداد میں موجود تھے، اس مناسبت سے جنڈاں والا (جنڈاں آلا) اور بعد ازاں جنڈیالہ مشہور ہوگیا۔

    تختی پر کندہ اشعار

    بعہدِ شہنشاہ اکبر لقب ہمایوں نسب خسروے کامیاب

    بفرمودہ سید غزنوی رفیع المکاں خان عالی جناب

    بنا کرو ”وائے“ زیمن کرم کہ شد رشک سرچشمۂ آفتاب

    زو کوش بود دلوگردوں خجل ز چرخش بود چرغ در پیچ وتاب

    زتاریخ او گفت ہاتف بمن ”بہ از چاہ نخشب“ بگو در جواب

    (بہ از چاہ ”نخشب“ اسلامی تاریخ 976 ہجری برآمد ہوتی ہے)

    وارث شاہ کی اولاد : بزرگان بیان کرتے ہیں کہ وارث شاہ کی شادی ہوئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک بیٹی دی تھی، بعد ازاں ان کے بارے میں کوئی معلوم نہ ہوسکا، جنڈیالہ شیر خان کے بارے میں سچی تاریخی خبر جنڈیالہ شیر خان ہائی اسکول (سابقہ مڈل اسلول) کے ایک استاد خان غلام رسول خان نے روزنامہ ”امروز“ لاہور میں 12 جون 1974 عیسوی کے شمارے میں ”ایڈیٹر کی ڈاک“ صفحہ پر بھرپور انداز میں شائع کروائی تھی، غلام رسول خان مرحوم کا ایڈیٹر کے نام خط من و عن تاریخی حوالہ سمجھ کر دیا جارہا ہے جس کو قدر آفاقی نے اپنی کتاب ”وارث شاہ دا بولنا بھیت اندر“ جو کہ ہیر وارث شاہ کے عارفانہ رنگ کی مکمل شرح ہے صفحہ نمبر 8-7 میں شائع کیا، اس خط سے تاریخی حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ جنڈیالہ شیر خان کا پہلا نام ”شیر کوٹ“ تھا، بعد میں جنڈو ورک اس کی ایک آبادی میں رہائش اختیار کرکے اس کا نام جنڈو والا رکھا تھا لیکن کتبہ باؤلی (فارسی زبان میں) جس کا ذکر خط میں بھی موجود ہے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس کتبے کے شعر 1568 میں لکھے تھے تھے، اس وقت اس جگہ کا نام جنڈیالہ شیر خان ہی تھا۔

    وارث شاہ وسنیک جنڈیا لڑے دا

    روزنامہ”امروز“ لاہور 12 جون 1974 میں ایڈیٹر کے نام ایک خط : مکرمی تسلیم! جس طرح لاہور کو داتا کی نگری کہا جاتا ہے، اسی طرح جنڈیالہ شیر خان کو وارث شاہ کی نگری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، دیہہ ہذا ہی پنجابی زبان کے مشہور شاعر پیر وارث شاہ صاحب کا مولد ومد فن ہے، ان کی تصنیف ”ہیر“ پنجابی شاعری کا شاہکار سمجھی جاتی ہے، جنڈیالہ شیر خان قلعہ شیخو پورہ سے شمال کی طرف نومیل دور پکی سڑک پر واقع ہے، اس کی آبادی 5-4 ہزار افراد پر مشتمل ہے جس میں پٹھان اور کھوکھر دو قابلِ ذکر قومیں آباد ہیں، یہاں آثارِ قدیمہ میں ”واں“(باؤلی) مسجد تالاب، مقابر و مزارات ہیں، جنڈیالہ شیر خان آج سے چار سو سال پہلے شیر خان نامی بڑیچ پٹھان نے آباد کیا تھا جو شہنشاہِ اکبر کے زمانے میں باعزت افسر تھا، شیر خان اور فتح خاں دونوں بھائی قندھار کے سردار تھے، فتح خان قندھار کے نواح میں شہید ہوگیا مگر شیر خاں قندھار سے نقل مکانی کر کے پنجاب آگیا، شیر خان جب مودہ جنڈیالہ شیر خان کی سرزمین پر وارد ہوا تو یہاں ایک خدا رسیدہ بزرگ سید احمد دوریش غزنوی (جن کا مزار واں (باؤلی) کے پاس ہی ہے) سے ملاقات ہوئی، درویش صاحبِ مذکور نے یہاں پانی کی نایابی کا شکوہ کیا جس پر شیر خان نے واں (باؤلی) یعنی کنوری اور اس پر بارہ دری سیر گاہ کی حیثیت میں نبائی اور ساتھ ہی مسجد میں تعمیر کرا دی، جیسا کہ واں (باؤلی) کے کتبہ سے ظاہر ہے، یہ کتبہ آج کل عجائب گھر لاہور میں رکھا ہے، اس کتبہ پر واں کی تاریخ تعمیر 976 ہجری مطابق 1568 عیسوی کندہ ہے، واں (باؤلی) کی تعمیر سے 10 سال بعد شیر خان اپنے کنبے سمیت یہاں آباد ہوگیا اور اپنے نام پر اس بادی کا نام شیر کوٹ رکھا۔

    سات نسکل تک آباد رہنے کے بعد یہ علاقہ قتل و غارت کی آماجگاہ بن کر برباد ہوگیا اور شیر خاں کا کنبہ بھی یہاں سے نقلِ مکانی کر کے کسی امن جگہ چلا گیا، خود شیر خاں کی شہادت کٹھوئیہ ضلع علاقہ پر راجہ رنجیت سنگھ کے ایک سردار مہتاب سنگھ نے قبضہ کرلیا کچھ عرصہ بعد سردار جہاں سنگھ نے اس علاقہ کو فتح کر کے سردار روڑا سنگھ کڑیالیہ کو جاگیر میں بخش دیا جب یہاں امن کی صورت پیدا ہوئی تو شیر خان کا کنبہ دوبارہ آکر آباد ہوگیا اور اب تک اس گاؤں کا نام شیر کوٹ ہی تھا مگر کچھ عرصہ بعد اس کے ایک حصہ پر جنڈو ورک نے اپنی آبادی قائم کر کے اس کا نام ”جنڈو والہ“ رکھا چند سال بعد بہادر نامی راجپوت کھو کھر نے کچھ حصہ کو آباد کیا انہی ایام میں کابل میں سہگل کھتری قبیلہ شور کوٹ سے آکر آباد ہوا پھر چند سال بعد یہ سب بستیاں اکٹھی ہوکر ایک بستی بن گئی جس کا نام جنڈیالہ شیر خاں مشہور ہوگیا، مسٹر نہال چند نے جو تاریخِ پنجاب فارسی زبان میں لکھی ہے اس نے بھی مہاراجہ رنجیت سنگھ کا قیام جنڈیالہ شیر خان میں دکھا یا ہے۔

    اس مختصر تاریخ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اکثر تاریخ نگار جنڈیالہ شیر خان کی واں (باؤلی) کو شیر شاہ سوری کی تعمیر بتاتے ہیں حالانکہ یہ صریحاً غلط ہے کیونکہ شیر شاہ سوری کا عہدِ حکومت 1540 عیسوی تا 45 عیسوی ہے اور یہ واں (باؤلی) 1567 عیسوی شہنشاہِ اکبر کے زمانہ میں مرہون تعمیر ہوئی جیسا کہ اس کے کتبہ سے ظاہر ہے آغاز میں تحریر کیا جا چکا ہے کہ یہ کتبہ آج کل عجائب گھر، لاہور کی زینت ہے جسے 1972 عیسوی میں جناب محمد افضل کہوٹ ڈپتی کمشنر شیخو پورہ کے حکم سے اکھاڑ کر وہاں پہنچا دیا گیا ہے۔

    تعلیم : وارث شاہ نے اسلامی تعلیم قصور سے مکمل کی لیکن روحانی منازل طے کرنے کے لیے بابا فرید گنج شکر کے مزار پر اس وقت کے سجادہ نشیں سے بیعت حاصل کی، اس میدان میں کامیابی کے بعد وہ ملکہ ہانس (ضلع ساہی وال) پہنچے جہاں عشق کی آگ نے آتش جوان کیا، اس قصے کے مجازی اور حقیقی کرداروں کی وضاحت کے لیے 8 شعر لکھے لیکن وارث شاہ نے اس کے ساتھ ہی مجازی رنگ قائم رکھا، بزرگوں کی دعاؤں سے اپنے دلی خلوص سچی محبت اور محنت کا شاہکار ”ہیر رانجھا“ اور ”وارث شاہ“ کو ہمیشہ کی زندگی مل گئی، جس کی ہر کوئی تعریف کرتا ہے۔

    وارث کی تصنیفات : ہیر رانجھا وہ قصہ ہے جس کی وجہ سے وارث شاہ کو ہمیشہ کی زندگی نصیب ہوگئی اور ہیر وارث شاہ کو بھی ہمیشہ کا جیون دان ہوگیا لہٰذا یہ دونوں لازم اور ملزوم ہبن کر ابھرے، حالانکہ وارث شاہ سے پہلے اور بعد کے شاعروں نے بھی ہیر رانجھے کا قصہ ضرور لکھا، میاں ہدایت اللہ کی مرتب کردہ ”ہیر“ میں وارث شاہ کی دو تصنیفات شامل ہیں یعنی معراج نامے اور عبرت نامے لیکن میاں پیراں دتہ تڑ گڑ کی مرتب کردہ ”ہیر“ میں عبرت نامہ کی جگہ اشتر نامہ اور کچھ دوہڑے موجود ہیں۔

    سسی وارث شاہ : موہن سنگھ دیوانہ نے اپنی مرتبہ کردہ ہیر وارث شاہ کے دیباچے میں سسی وارث شاہ کا ذکر کیا ہے جس کو مدرسہ تعلیم القرآن، انار کلی، لاہور کے ایک استاد حکیم عبدالقادر نے شائع کروایا تھا، حکیم صاحب نے اس میں لکھا کہ سسی وارث شاہ کا مسودہ ان کے بزرگوں سے 1221 ہجری میں آیا جو ان کے جدی پشتی کتب خانے میں محفوظ تھا، چنانچہ انہوں نے یہ قصہ شائع کروایا، اس قصے میں احمد شاہ ابدالی تا شاہ نواز کے حملہ کا ذکر ہے۔

    معراج نامہ : معراج نامہ چھوٹی بحر میں ہے جس کا پہلا بند اس طرح ہے، معراج نامے میں حروف مقطعات اور قرآنی الفاظ کا استعمال کافی نظر آتا ہے۔

    حمدِ الٰہی آکھ زبانوں ثابت ہو کے دلوں جانوں

    تاں کجھ بخرہ (حصہ) ملے ایمانوں ثمرہ شکر گزری دا

    بعد درود سید ابراراں آل اتے صحاباں یاراں

    رحمت اپر نیکو کاراں راہ ایہہ تابعداری دا

    نصیحت نامہ : یہ بھی معراج نامہ کی طرح چھوٹی بحر میں ہے جس میں نصیحتوں کا رنگ ابھرتا ہے۔

    اللہ باقی عالم فانی سرور عالم یار حقانی

    چھوڑ گئے فرقان نشانی باغ رہیا گلزاری دا

    بھانویں سہے برساں کوئی جیوے اوڑک موت پیالہ پیوے

    وارث شاہ عمل نہ کیتے چنگے بے پرواہی کو لوں سنگے

    نت دعا فضل دی منگے رحم کریں میں ماری دا

    چوہڑ ٹیڑی نامہ : چوہڑی پنجاب کے دیہاتوں اور شہروں میں صفائی کرنے والا کردار ہے جو کہ اپنی ذات میں بہت معمولی ہے اور معزز شمار نہیں کیا جاتا، چنانچہ صوفیائے کرام نے تکبر اور غرور سے بچنے کے لیے اور نفس کی شرارتوں سے محفوظ رہنے کے خود کو اللہ تعالیٰ اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار کی چوہڑی صفائی کرنے والی، جھاڑو دینے والی عورت کا روپ پیش کیا، جس کا مقصد چودھری قسم کے لوگ کمی کمین لوگوں کو خدا کے بندے اور انسان سمجھ کر ان کی عزت کریں، وارث شاہ نے بھی اپنی ”میں“ کو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ اور سچی شان کے مقابلے میں چوہڑ ٹیڑی نامہ لکھا، جس میں سب لوگوں کے لیے غرور تکبر اور جھوٹی شان سے بچنے کا سبق ملتا ہے جو لوگ وارث شاہ کو صوفی شاعر کہتے ہیں وہ ان خیالات کی وجہ سے وارث شاہ کو ایک صوفی شاعر کے روپ میں جانتے ہیں لفظ چوہڑی میں معاشرتی کراہت تھی، اس کو ”چوہڑ ٹیڑی“ کرنے سے وہ اکراہت ختم ہوگئی اور اس کی جگہ محبت کے جذبے نے لے لی، جس پر چوہڑی کا کردار معاشرے میں کراہت کا کردار نہ رہا، وارث شاہ نے یہ لفظ اختیار کرکے انسانی عظمت کو اجاگر کیا، قرآن مجید میں ارشاد ہے، ولقد کرمنا بنیَ آدمَ یعنی ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی ہے،چوہڑ ٹیڑی نامہ کا نمونہ۔

    اللہ پاک محمد ہادی بخشن ہار گناہاں

    ابوبکر عمر عثمان علی خدمت گار چواہاں

    میں میں کردی کٹھی بکری الٹا کھل لہائی

    عز رائیل نوں خود یوں گل وچ لعنت طوق پہنائی

    وارث مینا ”میں نہ“ آکھے شاہاں تخت بٹھائی

    باراں ماہ : بعض نقادوں کا خیال ہے کہ ”باراں ماہ“ وارث شاہ جو کہ موضع لویر ضلع گوجرانولہ کا رہائشی تھا ان کا تحریر کردہ ہے لیکن بشیر حسین ناظم کا خیال اس سے بالکل مختلف ہے وارث شاہ جنڈیالوی کے باراں ماہ میں ساون ماہ کا ذکر اس طرح کیا ہے۔

    چڑھیا ساون ماہ عذاب والا نبھ ماپیاں نے ڈولی پائیاں میں

    رورو بہتریڑے شور کیتے قاضی کھیڑیاں ہتھ دوائیاں میں

    میرا وس نہ چلدا اک رتی رانجھے یار تجھے جدا ہو آئی آں میں

    وارث شاہ تقدریر ایہہ رب دی اے کونج کاں دے ہتھ سونپائی آں میں

    (اس مضمون کے اسٹائل اور لفظوں کے چناؤ سے یہ بات پختہ ہوجاتی ہے کہ یہ باراں ماہ وارث شاہ جنڈیالہ شیر خاں والے کے ہی ہیں۔ (وارث نمبر 1969، صفحہ نمبر 484) (ذکر وارث شاہ)

    شرح قصیدہ بردہ شریف : امام ابو صیری (متوفیٰ 694 ہجری) کا لکھا ہوا عربی زبان میں قصیدہ بردہ شریف بڑی بابرکت چیز ہے، کیونکہ اس قصیدے کی برکت سے فالج زدہ شاعر حضور اکرم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف بھی ملا اور ایک چادرِ مبارک بھی حضور اکرم نے خواب میں عطا کی، جس کے اثر سے بیماری دور ہوگئی، اس قصیدے کے تراجم فارسی اردو اور پنجابی میں ہوئے، اس سلسلہ میں وارث شاہ کا ترجمہ بھی بڑا قابلِ ذکر ہے، مسنز ممتاز سلیم (پشاور یونیورسٹی) نے وارث شاہ نمبر 1969 صفحہ 477 میں لکھا ہے کہ ان کے پاس وارث شاہ کا قصیدہ بردہ شریف 1152 ہجری کا لکھا ہوا موجود ہے، جس میں عربی متن کے نیچے فارسی نظم میں ترجمہ (999ہجری) میں علامہ جمال الدین چنابی کا کیا ہوا ہے، فارسی زبان کا ترجمہ پنجابی شعروں میں ہے، آکر میں پنجابی شعروں کا تعارف اس طرح کروایا گیا ہے۔

    یاراں سو (1152 ہجری) بونجہ ہجری ظاہر ہوئے

    تاں ایہہ بیت جواہر موتی لڑی کتاب پروئے

    ایہہ ترجمہ راست کیتا میں اس شرح تھیں بھائی

    حضرت میاں جمال چنابی جہڑی شرح بنائی

    نانوں مصنف سید وارث وچ جنڈالے وسے

    جہڑا شیر خان غازی بدھا سبھو کو اوتھے وسے

    راہا زور قیامت تیک و سائیں شہر جنڈالا

    کائی آفت پوے نہ اس تے وسے نت سوکھا لا

    قصیدہ بردہ شریف کا پنجابی نمونہ:

    سبھ خلقت تھیں نبی اسا ڈا ظاہر باطن کامل

    نال محبت اپنی خالق کیتا اس نوں شامل

    ہور شریک نہ کوئی حضرت وچ خوبی زیبائی

    حسن ملاحت جو احمد اندر خالق آکھ سنائی

    حضرت بیت مقدس چلے سبھ نبیاں تھیں اگے

    ہو مخدوم سدہارے حضرت پچھے مرسل لگے

    آسماناں تھیں گزرے حضرت نالے مرسل سارے

    صاحب نیزہ حضرت آہی ہور سبھی بیچارے

    زینت ’قدر‘ قرب تھیں حضرت کسے نبی نہ چھڈی

    تاہیں جائی بلندی پہنچیا ساس بزرگی وڈی

    سبھ نبیاں دے بہت ٹکانے قرب حضرت دابھاری

    جاں آسماناں اتے کھڑیا اوتھے بیہن سرداری

    (اوپر ”ساس بزرگی وڈی“ وچ لفظ ”ساس“ ضلع گوجرانوالہ شیخو پورہ خصوصاً جنڈیالہ شیر خاں دے علاقے وچ فعل ناقص متعلقہ ماضی بعید یا قریب واشے بولا جاتاہے، مثلاً سا۔ سو' آکھیا سو، آیا سو یعنی سو بمعنی تھا یعنی اتنی زیادہ بلندی پر حجور پہنچے تھے اسی لیے انہوں نے اتنی بڑی بزرگی والا رتبہ پایاتھا)

    ڈوہڑے: (پنج دریا وارث نمبر 69 صفحہ 476)

    الف:

    امبڑی بابل مول نہ بھاوں تے جھڑکن بھیناں بھائی

    تایا ہے دل تائے (ساڑے) میراتے تائی دیہی (جسم) تائی

    چاچا مینوں ”چاچا“ مارے تے سبھناں مندی چائی

    وارث ویراں کر کے میں وچ آتش پائی

    ب:

    میرا گھڑا گھڑولی والا حوض کوثر تھیں بھریا

    کر کے سون سوپت (ہارسنگار) عرشاں تے حوراں سی سردھریا

    جہڑے جوں پیغمبراں کھا ہدے مینوں اوہ وٹنا انگ چڑھیا

    ج:

    باہوں پکڑی بہالی ساں میں سرور عالم کھارے

    چارہے یار کھلوتے پھڑکے سالو دے لڑ چارے

    دہیں پھٹی سر حوراں پائی سو سو شگن وچارے

    وارث شاہ دت عقد بدھونیں مرا رانجھن نال پیارے

    روز الست دے دست اساڈے ملیا سی جاں ماہی

    اوسے روز ریاہی آہی رانجھے دے نال۔ آہی

    شروع ایجاب دتا سی ملکا (فرشتیاں) حضرت کول گواہی

    وارث شاہ اوہ کون جو مینوں اکھن باہجھ نکاحی

    عبرت نامہ کا نمونہ:

    اک روز جہاں تھیں جانا ہے وچ قبر اندھیاری پانا ہے

    تیرا گوشت کیڑیاں کھانا ہے اے غافل تینوں سار نہیں

    اے جاگ کڑے کیوں ستی ایں اس نیندر غفلت لٹی ایں

    توں تاہیں کھری وگتی ایں ایہہ سونا ترے در کار نہیں

    توں ستیاں عمر ونجائی اے یہ چرغے تند نہ پائی اے

    تری ساعت نیڑے آئی اے کیہہ کرسیں داج تیار نہیں

    اج ہے تیرا مکلا وانی کیوں ستی ایں کر دعوے نی

    بلھے شاہ اور وارث شاہ کی ہم عصری : سندھ یونیورسٹی کے پروفیسر احمد بشیر کا دعویٰ ہے کہ وارث شاہ کو غلام مرتضیٰ قصوری کی شاگردی کا شرف حاصل نہیں لیکن ہیر کے اندرونی اور واضح شہادت کے مقابلے میں یہ دعویٰ درست معلوم نہ ہوتا ہے، مخدوم قصور کے متعلق دیگر قیاس آرائیاں ہوسکتی ہیں لیکن مشہور عوامی روایت ہے کہ مخدوم قصوری وہی بزرگ تھے جو بلھے شاہ کے بھی استاد تھے، انہوں نے بھی شہادت دی کہ جب وارث شاہ نے ہیر لکھ کر استاد کی خدمت میں پیش کی۔ تب انہوں نے کہا کہ ”بلھے شاہ نوں پڑھایا تاں اوہنے سارنگی پھڑلئی تے توں ہیر رانجھے واقصہ چھیڑ بیٹھا ایں“ (مفہوم) بہر حال تاریخ کی کسی بات کا کوئی واضح، ٹھوس مدلل ثبوت نہ مل سکے تو اس بارے میں مشہور روایت کو ترجیح دینی چاہیے، (ابدی آوازوں صفحہ 2 از بشیر حسین ناظم) پروفیسر محمد ضیا 1935 عیسوی میں لکھا کہ یہ بات بڑی مشہور ہے کہ بلھے شاہ اور وارث شاہ ہم درس تھے یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ نہ وارث شاہ نے بلھے شاہ کا کہیں ذکر کیا ہے اور نہ بلھے شاہ نے کہیں ذکر کیا۔ وہ لکھتے ہیں بلھے شاہ کی وفات 1171 ہجری میں ہوئی جب کہ وارث شاہ نے ہیر 1180 ہجری میں لکھی، بہر حال! انہوں نے وارث شاہ اور بلھے شاہ کو ہم عصر اور ہم درس تسلیم کیا، میرا خیال ہے کہ اگر وہ ہم درس نہ بھی تھے تو ہم مدرسہ یعنی اسکول فیلو ضرور تھے، تعلیمی میدان میں اگلی پچھلی جماعتوں میں اگر بالغرض کئی سالوں کے فرق سے آگے یا پیچھے ہوں تو بھی امکان موجود ہے، اس کیفیت کو ”استاد بھائی“ ضرور کہا جاسکتا ہے۔ (ذکر وارث شاہ صفحہ نمبر 48 مصنف خالد پرویز ملک)

    وارث شاہ اور بلھے شاہ کے کلام میں خاموشی : روایت ہے کہ وارث شاہ اور بلھے شاہ دونوں ہم جماعت تھے مگر خود بلھے شاہ نے اپنی کافیوں میں یا وارث شاہ نے اپنی ہیر میں اس واقعہ کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا۔

    پنجابی ادب کی ابتدا : بابا فرید سے پنجابی ادب کی ابتدا ہوئی پھر شاہ حسین نے اس میں بھگتی فلسفے کا پرچار کیا، بلھے شاہ نے صوفیانہ رنگ کو اپنایا، مولوی غلام رسول اور میاں محمد نے خالص مذہبی شعر کہے، خواجہ فرید نے فطرت کی عکاسی کو موضوع بنایا اور وارث شاہ نے پنجابی تہیذب کو شاعری کے رنگ میں موسیقیت بخشی، سر عبدالقادر نے وارث شاہ کو پنجابی زبان کا سعدی کہا ہے، یہ امر طے شدہ ہے کہ سب سے پہلے بابا فریدالدین گنج شکرؒ نے پنجابی کو ذریعہ اظہار بتاتے ہوئے گزرے ہوئے قتوں کی نئی نسلوں تک پہنچانے کی کامیاب کوشش کی۔ (ذکرِ وارث شاہ، صفحہ نمبر 49 مصنف خالد پروزیز ملک)

    وارث شاہ کی شاعری میں روحانیت کے رنگ : ایسے صوفی شعرا میں وارث شاہ کا نام سر فہرست ہے جنہوں نے بظاہر ایک عشقیہ داستان کو مجاز کے رنگ میں پیش کر کے اس میں روحانیت کا رنگ بو دیا، انہوں نے ہیر رانجھے کی عشقیہ داستان کو شعروں کا لباس پہنچایا، اس میں ہر سطح کے اذہاں کو وہ نکتہ آفرینیاں ملتی ہیں جو ان کی رنگینی کا سبب بنتی ہیں، وارث شاہ کا اپنا عشقِ حقیقی کردار کسی بھاگ بھرک سے ہوسکتا ہے لیکن وہ عشقِ مجاز کے محدود خول سے نکل کر جلد ہی روحانیت کے ایک پاکیزہ اور وسعت پذیر محبت کے وجدان کے حلقہ میں داخل ہوگئے اور انہین جسمانی لذتون کی دلدل سے نکال کر عشقِ حقیقی کے راستے پر گامزن خداوندی نے پھر ایک ایسی وجدانی کیفیت سے ہم کنار کر دیا جس میں وارث شاہ اپنی ذات کو بھول گئے اور ربِ کائنات کی حسن آفرینیوں، رعنائیوں اور معاشرے کی نکتہ آفرینیوں سے آشنا ہوکر ایک ذات کے سوا ہر چیز سے بیگانہ ہوگئے بلکہ انہوں نے اپنی مظلوم داستان کے دو کرداروں ہی کو نہیں بلکہ ہر کردار کو مجاز سے نکال کر حقیقت کے رنگ میں ڈال دیا اور اس لافانی کتاب کے آکر میں یہ کہہ کر کتاب کی اور اس داستان کی روحانی اہمیت کو اور بھی واضح کردیا۔ ہیر چاک تے قلبوت جانوں بالا ناتھ ایہہ پیر بناپائی“

    وارث شاہ نے فقہ اور عشق کی اہمیت کو اس طرح اجاگر کیا، رانجھے نے سہتی سے کہا۔ (ترجمہ) تم جسے کرامت کہتی ہو، اس کا دوسرا نام خودی ہے، یہ خود انسان کو انسانِ کامل بنا دیتی ہے، خودی سے انسان کی آنکھیں روشن ہوجاتی ہیں، اس میں وارث شاہ نے ایسے جھوٹے پیروں کی کرامات کی نفی کی ہے بلکہ فقر کی تشریح بھی اس موقع پر اس انداز سے کی ہے، یہ الفاظِ بلاا ناتھ کی زبان سے نکلوا کر وارث شاہ نے فقر کی تصویر اس طرح پیش کی ہے، فقر کا دوسرا نام اطاعت ہے، دوسرے کی ماں بہن کو اپنی ماں بہن سمجھو، بوڑھوں، بچوں، دکھی انسانوں، عورتوں اور کمزوروں کی سچے دل سے خدمت کرو اس خدمت کو اپنی زندگی کا شعار بنالو، فقری عجز و انکساری کا نام ہے، محبت کا نام ہے، ان کاموں میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتاہے۔

    وارث شاہ دنیا کی بے ثباتی، ناپائیداری کا اپنے کلام میں بار بار ذکر کرتے ہیں تاکہ انسان کس کی حرص و ہوس کا شکار ہورہا ہے، اس سے عبرت حاصل کر کے زندگی کے حقیقی مقصد کو سمجھے، ان کے کلام میں اپنے مقصد کو، محبوب کو عشق کی منزلوں کو پانے کے لئے ایک جہد مسلسل کی رمق بھی ہے جس کو لوگ سمجھنے سے عاری ہیں، وارث شاہ ہر چیز کو فنا کے مقام سے دیکھتے ہیں اور برائی سے روکنے کی سعی کرتے ہیں اور زندگی کی ناپائیداری کا بار بار ذکر کرتے ہوئے نیک اعمال کی تلقین کرتے ہیں۔

    وارث شاہ وساہ کیہہ زندگی داساڑی

    عمر ہے نقش پتا سیاتے!

    وارث شاہ وساہ کیہہ زندگی دابندہ بکرا

    ہتھ قصائیاں دے!

    وارث شاہ کے کلام کا ایک ترجمہ پیشِ خدمت ہے، دنیا فانی ہے سردار کی ہو یا فقر کی دونوں کے لئے اس جہاں میں فنا ہے بقا نہیں جس طرح آسمان پر بادل آتے اور چلے جاتے ہیں، اسی طرح انسان آتا ہے اور چلا جاتا ہے، لہٰذا کوئی بادشاہ ہو یا فقیر سب کا ٹھکانا قبر ہے تو وہ راستہ اختیار کرو جو بندے کو خدا سے ملاتا ہے، وارث شاہ حرص و ہوس کی دنیا کو بے حقیقت سمجھتے ہیں اور وہ انسان کو زندگی کی حقیقی منزلوں سے روشناس کراتے ہوئے اس وقت یہ الفاظ کہتے ہیں جب ہیر کے والدین رانجھے کو ملازمت سے بر طرف کر دیتے ہیں، اے وقت کے مفرور اور مجازی خداؤ، بندے پر اس طرح طعنہ زن ہو، سنو! انسان کا انسان رازق نہیں سب کا رزاق خدا ہے۔ (تاریخِ شیخوپورہ۔ صفحہ نمبر 390۔ از خالد پرویز ملک)

    پہلے عظیم صوفی شاعر : وارث شاہ جامع کمالات تھے، وہ پہلے عظیم صوفی شاعر ہیں جن کے کلام میں پنجابی زبان اپنی پوری تابناکی، وسعت، لچک اور رعنائی کے ساتھ جلوہ گر ہوئی ہے، وارث شاہ کے پاس یہ الفاظ و تراکیب کا ایک لازوال ذخیرہ موجود ہے، ان میں عربی ،فارسی، سنسکرت اور ترکی زبان کے الفاظ موجود ہیں، جہاں تک تصوف و عرفان کا تعلق ہے، وارث شاہ خود صوفی حال شاعر تھے اور اس کے بحر کے شناور تھے، آپ وحدت الوجود پر کامل یقین رکھتے تھے، خود فرماتے ہیں کہ وارث شاہ یقین دی گل ایہا سب حق ہی حق ٹھہرائے جی۔

    برِ صغیر ڈھائی سو سال پہلے معاشرتی، مذہبی اور سیاسی حالات ایسے تھے جن میں اسلام کی عظمتوں کو مدھم کرنے کے لئے اسلام دشمن تحریکیں چلائی جارہی تھیں، عیسائیت کی تبلیغ، ہندوؤں میں بھگتی تحریک اور اسی طرح اور تحریکیں چلانے کا مقصد صرف بر صغیر میں اسلام کے بڑھتے ہوئے اثرات ونفوذ کو روکنا تھا اور احساس ذمہ داری کے ساتھ ان تحریکوں کے نبرد آزما تھے مگر جس اسلامی طبقے نے ان تحریکوں کی کمر توڑ دی وہ تھے صوفیائے کرام جنہوں نے اپنے زہد و تقویٰ، کشف و کرامات، محبت، غیر متعصبانہ رویے اور اپنے عارفانہ کلام سے مسلمانوں کے ڈولتے ہوئے ایمان کو سہارا ہی نہ دیا بلکہ لاکھوں غیر مسلموں کو حلقہ بگوش اسلام کیا۔ (تاریخ شیخوپورہ صفحہ نمبر 390 مصنف خالد پرویز ملک)

    ایک صاحبِ جلال صوفی : وارث شاہ ایک صاحبِ جلال صوفی تھے، اس عشق مجازی نے ان پر عشقِ حقیقی کا راز کھولا تھا، وارث شاہ کی دردمندی اور سوز و قلب نے ہیر کے اشعار کو بے پناہ تاثیر عطا کی انہیں سن کر اہلِ دل وجد کرنے لگتے ہیں اور عشاق کے چہرے تمتمانے لگتے ہیں وارث شاہ کا نظریہ عشق تھا کہ صبح از کو ارواح نے قالوا بلا کہہ کر جو پیمانِ وفا باندھا تھا تمام عشقاں اسی میثاق کے پابند ہیں، عشق و محبت کوئی اختیاری فعل نہیں بلکہ نوشتہ تقدیر ہے، عشق ہی کائنات کی تکون اور تخلیقِ آدم کا سبب ہے، زاہد و ریاضت بھی عشق کے بغیر بے ثمر ہے، وارث شاہ کے کلام میں تصوف کے مسئلے قرآن شریف انجیل کی تمثیلات عام ملتی ہیں۔ (ذکر وارث شاہ مصنف خالد پرویز ملک)

    ہیر وارث شاہ کے بعض بند (حمد)

    اول حمد خدائدا ورد کیجئے عشق کیتا سو جگ دا مول میاں

    پہلے آپ ہی رب نے عشق کیتا معشوق ہے نبی رسول میاں

    عشق پیر فقیر دا مرتبہ ہے مرد عشق دا بھلا رنجول میاں

    کھلے تنہا ندلے باغ قلوب اندر جنہاں کیتا عشق قبول میاں

    اللہ تعالیٰ کی تعریف کے بعد وارث شاہ نے عشق کی بات شروع کی ہے اور عشقِ الٰہی اور محبت کو اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کا سبب قرار دیا ہے، وارث شاہ کے مطابق رب عاشق ہے اور معشوق حضرت محمد مصطفیٰ ہیں علما کہتے ہیں کہ عشق ایک ایسی آگ ہے جو جلا کر راکھ کر دیتی ہے، سارے نبی اور رسول اللہ عشق میں سرشار تھے، اس پیروی میں ہر پیر، فقیر، والی اللہ اور اللہ رسول کو ماننے والے نے عشقِ الٰہی کی طرف قدم بڑھایا اور اس زندگی میں ہور کوئی عشق کے راستے پر چل سکا تو اس نے اپنی منزل حاصل کر لی اور ہمت کر کے رب کے قرب والا امتحان پاس کرلیا جو لوگ دل جان سے خدا کے قرب والی منزل کی طرف بڑھے وہ اپنے درجے کے مطابق مقام پاگئے کیونکہ رب کی رضا اور اس کی محبت والا باغ ان کے دلوں میں بہار بن کر آیا۔

    نعت

    دوئی نعت رسول مقبول والی جنیدے حق نزول الاک کیتا

    خاکی آکھ مرتبہ وڈا دتا سبھ خلق دے عیب تھیں پاک کیتا

    سرور ہوئے کے اولیاں انبیاں دا اگے حق دے آپ نوں خاک کیتا

    کرے امتی امتی روز قیامت خوشی چھڈ کے جیو غمناک کیتا

    محمد کی نعت بیان کرتے وقت شاہ نے ابتدا اس طرح کی کہ آپ دی شان میں حدیث قدسی ہے کہ لو لاک لما خلقت الافلاک یعنی اگر میں (اللہ تعالیٰ ) (اے نبی) آپ پیدا نہ کرتا تو آسمانوں کو بھی پیدا نہیں کرتا۔ دوسرے الفاظ میں وارث شاہ کا یہ عقیدہ تھا کہ حضور کی خاطر اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات پیدا کی جن کا مقصد محبت اور رحمت بتائی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ رحیم ہے اور کائنات کی بنیاد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت اللعالمین قرار دے کر بسم اللہ شریف میں اپنی صفت رحمٰن اور رحیم کا ذکر بھی کیا، دوسرے مصرعے میں بتایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ خاکی تھے بشر اور انسان تھے لیکن آپ کو خاکی کہہ کر (بشر مثلکم کی طرف شارہ) اتنا بڑا مرتبہ عطا کیا کہ دنیا کی ہر مخلوق آپ کے زیر مرتبہ رکھی گئی، جنات، فرشتے اور دیگر مخلوقات حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے درجے کو نہ پہنچ سکی لیکن اتنا رتبہ پانے کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سیدالمرسلین ہیں، آپ نے ”عبدہ‘‘ بن کے رب کی رضا اور اس کی بخشش کو اپنی حیات کو معراج تسلیم کیا، اپنے پرو کاروں کی خاطر اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں اپنی امت کی بخشش کی دعا کرتے اس دنیا سے رخصت ہوئے تخلیق کا ئنات کا باعث مسلمان تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں لیکن بزرگ بابا گورو نانک بھی اس بارے یہ یقین اور عقیدہ رکھتے تھے۔

    ہن ڈٹھا نور محمدی ہن ڈٹھا نبی رسول

    نانک قدرت دیکھ کے خودی گئی سب بھول

    لکھیا وچ کتاب دے اول ایک خدائے

    دوجا نور محمدی جو خاصا یار کہائے

    لکھیا وچ کتاب دے اول ایک خدائے

    دوجا نور محمدی جس چانن کیتا آئے

    (انورِ محمد صفحہ 1165 از محمد ضیا اللہ بحوالہ جنم ساکھی بالا صفحہ نمبر 327)

    وارث شاہ کی علمی گہرائی کی ایک جھلک : نعت کے دوسرے مصرعے ”سب خلق دے عیب تھیں پاک کیتا“ کے الفاظ سے بظاہر یوں لگتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات خلقت پاک اور معصوم ہے، حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ وارث شاہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس کی طرف بڑا اعلیٰ، بامقصد اور کابلِ قدر اشارہ کر گئے ہیں، اس بارے میں دینی الٰہی کے بڑے مخالف اور توعید وشرع سنت کو بر صغیر اور دنیا جہاں میں زنگی بخشنے والے بزرگ حضرت مجدد الف ثانی اپنے مکتوبات میں اس طرح بیان کرتے ہیں۔

    حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ ظہور اول اور حقیۃ الحقائق ہے اس معنیٰ سے دوسرے حقائق خواہ وہ حقائق انبیا ہوں یا حقائق ملائکہ وہ سب حقائق اس (نور محمدی) کے اظلال کی مانند ہیں اورہ وہ صلی اللہ علیہ وسلم حقائق کا صل ہے (کہ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سب سے پہلے میرا نور پیدا کیا گیا نیز فرمایا کہ اللہ کے نور سے پید اکیا ہوں اور مومن میرے نور سے پیدا ہوئے ہیں تو لازماً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تمام حقائق (کائنات کے حقائق) اور اللہ تعالیٰ کے درمیان واسطہ ہوگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ کے بغیر کسی کا بھی مطلوب (اللہ تعالیٰ) تک پہنچنا محال ہوگا پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء اور مرسلین کے نبی ہیں اور آپ کا تشریف لانا تمام جہانوں کے لئے رحمت ہے۔

    مکتوباتِ امام ربانی، مکتوب نمبر 122، حصہ نہم، صفحہ 127 دفتر سوم بنام مولانا حسن دہلوی)

    جاننا چاہیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پیدائشی صفت میں تمام انسانی افراد کی طرح نہیں ہے بلکہ پیدائش میں تمام جہاں کے افراد میں سے کسی ایک فرد کے ساتھ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش مناسبت نہیں رکھتی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باوجود عنصری پیدائش کے اللہ کے نور سے پیدا ہوئے ہیں جیسا کہ ارشاد فرمایا کہ میں اللہ کے نور سے پیدا کیا گیا ہوں اور دوسروں کو یہ دولت حاصل نہیں ہوئی۔۔۔

    اس باریک نکتہ کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حقیقی آٹھ صفات اگر چہ وجوب کے دائرہ میں داخل ہیں لیکن اس حتیاج کی وجہ سے جو ان کو اللہ کی ذات سے امکان کی بو ان میں ثابت ہے اور جب اللہ تعالیٰ کی حقیقی قدیمی صفات میں امکان کی گنجائش ہوئی تو اللہ تعالیٰ کی صفات اضافیہ میں تو امکان کا ثبوت بطریقِ اولیٰ ہوگا اور ان کا قدیمی نہ ہونا اور ان کے امکان پر بڑی دلیل ہے اور کشف صریح سے معلوم ہوا ہے کہ رسول کی پیدائش اس امکان سے ہوئی جو صفات اضافیہ سے تعلق رکھتا ہے نہ وہ امکان جو تمام ممکناتِ عالم میں ثابت ہے اور جتنا بھی وقت نظر سے ممکناتِ عالم کے صحیفہ کا مطالعہ کیا جتا ہے رسولؐ کا وجود اس جگہ مشہود نہیں ہوتا (نظر نہیں آتا) اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا امکان اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا منشا اضافیہ امکان محسوس ہوتا ہے اور جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود عالمِ ممکنات میں نہ ہوگا بلکہ اس عالم سے اوپر ہوگا تو لازماً صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہ ہوگا (اور یہ بات احادیث سے ثابت ہے کہ آپ کا سایہ نہ تھا) اور یہ بھی (حقیقت) ہے کہ عالمِ شہادت میں کسی شخص کا سایہ اس شخص سے زیادہ لطیف ہوتا ہے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ لطیف کوئی شے عالم میں نہ ہوگی تو ان کے سایہ کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟“۔

    ”سن غور سے سن! صفت علم صفات، حقیقہ سے ہے اور وجود خارجی کے دائرہ میں داخل ہے، جب اس صفت کو کوئی نسبت لاحق ہوتی ہے اور وہ اس سے تقسیم ہو جاتی ہے مثلاً علم جمالی یا علم تفصیلی تو علم کی یہ اقسام صفات اضافیہ سے ہوں گی اور ثبوت نفس الامری کے دائرہ میں داخل ہوں گی جو صفات اضافیہ کا مقام ہے اور مشہور ہوتا ہے (مشاہدہ میں آتا ہے) کہ علم جملی جو کہ صفاتِ اضافیہ سے ہوگیا ہے وہ ایک ایسا نور ہے جو عنصری پیدائش میں جو اصلاب سے ہے ارحام متکشرہ میں گرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی حکمتوں اور مصلحتوں کے مطابق انسانی صورت میں جوکہ بہترین شکل و صورت ہے ظاہر ہوا ہے، لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۔ ( قرآن) اور اس کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور احمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوا، پس علم کو ذاتِ عالم سے اتحاد ہے اور (یہ ) ایسی نیستی ہے جو دوسروں کو حاصل نہیں ہے اس جگہ احمد صلی اللہ علیہ وسلم کا احد سے قرب دریافت کرنا چاہیے کہ وہ واسطہ جو ان کے درمیان ہے (احد اور احمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان!) وہ صفت علم ہے، وہ ایک ایسا امر ہے جو مطلوب (اللہ تعالیٰ کی ذات) سے اتحاد رکھتا ہے پس حجاب کو اس جگہ کیا گنجائش ہوسکتی ہے۔۔۔ علم کا ایک ذاتی حسن ہے کہ دوسری صفات کے لیے یہ حسن ثابت نہیں ہے، لہٰذا اس فقیر کے خیال کے مطابق اللہ تعالیٰ کو محبوب ترین صفت۔۔ علم کی صفت ہے اور چونکہ اس کا حسن بے چونی کی آمیزش رکھتا ہے لہٰذا احسن اس کے ادراک سے قاصر ہے (اور) اس حسن کا پورا ادراک آخرت کی پیدائش سے وابستہ ہے جو کہ روایت (اللہ کا دیدار) کا مقام ہے (وہاں) جب خدا تعالیٰ دیکھیں گے (تو) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال کو پالیں گے، اگر چہ دو تہائی حسن حضرت یوسف کے لئے مسلم ہے۔۔۔ لیکن آخرت میں حسن صرف حسن محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اور جمال صرف جمالِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ وہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے محبوب ہیں۔ دوسرے کاحسن ان سے کس طرح مشارکت کر سکتا ہے؟۔۔ اتحادیت حاصل نہیں ہے وہ حسن بھی نہیں ہے، پس پیدائش محمدی صلی اللہ علیہ وسلم حادث ہونے کے باوجود اس کا اعتماد اللہ تعالیٰ کے قدم سے ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا امکان اللہ تعالیٰ کی ذات تک منتہی ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن ذاتِ الٰہی کا حسن ہوا۔۔۔ کہ اس میں غیر حسن کی آمیزش نہیں ہے، جب اس طرح ہوا تو لاماً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن سے محبت متعلق ہے جمیل مطلق ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے محبوب ٹھہرے، فان اللہ تعالیٰ جمیل ویحب الجمال، پس اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے۔ (ترمذی و مسلم بروایت ابن مسعود)

    (بحوالہ مکتوب نمبر 100 بنام شیخ انوار الحق اردو ترجمہ مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی دفتر سوم حصہ دوم جلد سوم مطبوعہ کراچی صفحہ نمبر 1554-1553)

    کچھ اس طرح کی بات پنجابی میں قصیدہ بردہ شریف کے مترجم مولانا شاہ نیک عالم اس طرح بیان کرتے ہیں۔

    ذات نبی دی باہر دسے اس ماکان حدوثوں

    ذوقی حالت دے وچ یارو حاجت زیر نہ بم دی

    برزخ کبریٰ دے جد قائل ہوئے سب ایمانی

    طعنے مار نہ آکھو عالم! تیری گل بھرم (وہم) دی

    رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے چار یار

    چارے یار رسول دے چار گوہر سبھا اک تھیں اک چڑھیند ڑے نیں

    ابو بکرؓ عمرؓ عثمانظ علیؓ آپو آپنی گنیں سہند ڑے نیں

    جنہاں صدیق یقین تحقیق کیتا راہ رب دے سیس وکیند ڑے نیں

    ذوق چھڈ کے جنہاں زہد کیتا واہ واہ واہ رب دے بند ڑے نیں

    مدحت صحابہ : حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چار سچے اور مخلص صحابہ جو خلفائے راشدین بھی ہیں کے بارے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں وارث شاہ نے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کیا ہے اور یہ بات پوری طرح عیاں ہے۔

    مدح پیرِ پیراں :

    مدح پیر دی حب نال کیجئے جیندے خادماں دے وچ پیریاں نی

    باہمجھ ایس جناب دے پار نہیں لکھ ڈھونڈ دے پھرن فقیریاں نی

    جہڑے پپر دے مہر منظور ہوئے گھر تنہاں دے پیریاں میریاں نی

    روز حشر دے پیر دے طالباں نوں ہتھ سجڑے ملن گیاں چیریاں نی

    اس میں محبوبِ سبحانی محی الدین عبدالقادر جیلانی کی تعریف کی گئی ہے، اسلامی تصوف کی دنیا میں آپ کو جو رتبہ ملا اس بارے میں صوفیانہ لڑیچر یہ شہادت دیتا ہے کہ آپ اؤلیااللہ کے سردار ہیں، آپ کو نظر انداز کر کے کوئی بندہ فقر کے دولت حاصل نہیں کر سکتا لیکن تصوف کے منکر ایسی تصوف کے قائل نہیں۔ تصوف پر ابن جوزی کے جو اعتراضات کیے ہیں، وہ خاص وزن نہیں رکھتے، (بحوالہ تبلیس ابلیس) ابن جوزی محی الدین عبدالقادر کے ہم عصر تھے، وہ شرع پر عبور رکھتے تھے، حتیٰ کہ عبدالقادر جیلانی کی شان میں کئی بار گستاخی کے مرتکب ہوئے مگر سید وارث شاہ نے اس کو معاف رما دیا۔ بہر حال شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے پیر پیران حضرت عبدالقادر جیلانی کے بارے اچھا بھلا لکھا اور ان کی عظمت کی نشاندہی کی، بر صغیر پاک و ہند میں سنی مسلمانوں کی اکثریت حضرت شیخ سلطان سید عبدالقادر جیلانی کی روحانی عظمت کو صدیوں سے تسلیم کرتی آرہی ہے۔

    پنجابی نعت گوئی اور وارث شاہ : دنیا کی شاید ہی کوئی ایسی زبان ہو جس میں نعتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم موجود نہ ہو، دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جس میں کوئی کلمہ گو نہ ہو جب مسلمان ہوگا تو نعت کا وجود بھی یقینی ہے ہر زبان کاحدودِ اربعہ، مزاح، رویہ اس کے بولنے والوں پر منحصر ہوتا ہے اور اہلِ زبان اس حوالہ سے لکھے گئے ادب سے پوری طرح متمتع ہوکر اپنی اپنی زبان میں اس کی پیروری بھی کرتے ہیں اس میں اضافہ بھی کرتے ہیں چنانچہ پاک و ہند کی زبانوں کا بھنڈار اس حوالے سے بھر پور ہے لیکن پنجابی زبان کے مزاج کے حوالے سے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے، یہاں اس میدان میں جس قدر بھی لکھا گیا ہے، وہ ایک الگ اور منفرد اندازِ بیان کا اظہار ہے جو صدیوں پر محیط ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس زبان کے خمیر اور تخلیق میں جو عناصر کارفرما ہیں، ان کی گھٹی میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت بدرجہ اتم موجود ہے، یہ عجیب بات ہے کہ جب پاک و ہند کی بیشتر زبانیں حروف ابجد سے ابھی آشنا نہ تھیں وادی ہڑپہ میں اس وقت بھی گرا نمایہ پنجابی لٹریچر تخلیق کیا جا رہا تھا اور حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہارِ عقیدت کے حوالے سے پنجابی ادبیات میں وقیع ترین حصہ موجود تھا اس موضوع پر پروفیسر ڈاکٹر سید آفتاب نقوی نے ریسرچ کر کے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی جو ہنوز طبع نہیں ہوئی، اس سلسلہ میں تہذیبی رویہ وہی اپنایا گیا تھا جو اس دھرتی کا خاصہ تھا اسی خصوصیت کی وجہ سے حسبِ ذیل انداز میں شعری روایت کو پختہ کیا گیا کہ

    کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا

    گستاخ اکھیں کتھے جا لڑیاں

    تیری خیر ہووے پہرے دارا

    روضے دی جالی چمن لین دے

    اس وارفتگی، عقیدت اور پختگی سے بھی زیادہ گمبھیر انداز میں پنجابی نعت لکھی گئی اور لکھی جارہی ہے، نعت کی تخلیق میں اولیت کلامِ مجید کو حاصل ہے، جس کے پنجابی زبان میں ان گنت ترجمے ظم میں بھی اور نثر میں بھی ہیں، عربی، فارسی، کتب میں اس موضوع پر گراں مایہ لڑیرچر تخلیق کیا گیا ہے ان کے پنجابی ترجمے اہلِ قلم نے بڑی عقیدت سے کئے ہیں ان میں معارج النبوت اور مدارج النبوت ایسی کتابیں بھی شامل ہیں غزوات، معجزات کے بارے میں کتابیں بھی لکھی گئی ہیں یہاں تک کہ نور ناموں سے لے کر وفات ناموں تک کے موضوعات پر بیشتر عربی فارسی کتابوں کو پنجابی زبان میں منتقل کر دیا گیا اور اس طرح پنجابی ادبیات میں نعت کے حوالہ سے غیر معمولی اور وقیع اضافہ کیا گیا طبع زاد نعت گوئی اس سے بھی زیادہ تعداد میں ملتی ہے۔

    حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ ہی میں یہ سلسلہ شروع ہوگیا تھا، انہی نعتیہ قصائد اور عربی تخلیقی ادبیات میں بانت سعاد اس لیے قصائد بھی موجود ہیں جو کعب بن زہیر کی تخلیق ہے، یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کعب کے والد زہیر ان سات عربی شعرا میں سرفہرست تھے جن کے قصائد خانہ کعبہ کی دیوار پر لٹکائے گئے تھے خود بہت بڑے شاعر تھے اور فتحِ مکہ کے بعد اسلام قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے اپنے بھائی بجیر کے اسلام قبول کرنے پر ایسے پانچ شعر لکھ کر اپنے بھائی کے ساتھ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے جس پر کوئی قبیلہ بھی اسے پناہ دینے کے لئے تیار نہ ہوا، جزیرہ عرب اس کے لئے تنگ ہوگیا جس پر ایک نعتیہ قصیدہ میں اظہارِ ندامت کرتے ہوئے ایک معذرت نامہ لکھا جو عربی ادبیات میں شاہکارِ ادبی رچنا کے طور پر موجود ہے اور دنیا کی ہر زبان کی طرح پنجابی زبان میں بھی اس کے کئی تراجم موجود ہیں۔ جو پنجابی زبان کی لطافت اور مترجم شعرا کی وسعتِ علمی نے ان ترجموں کی عظمت میں اور بھی اضافہ کیا ہے ان میں حافظ برخوردار، جان محمد، حافظ خان محمد سیالکوٹی خاص طور پر شامل ہیں۔

    اسی طرح کی ایک اور عظیم عربی تخلیق قصیدہ بردہ شریف ہے جو امام عبداللہ شرف الدین محمد بن سعید البوصیری کی تخلیق ہے، یہ قصیدہ 161 اشعار پر مشتمل ہے اور دنیا کی کوئی ایسی زبان نہیں جس میں اس کے کئی کئی منظوم ترجمے موجود نہ ہوں پنجابی زبان میں اس کے شعری ترجمہ کرنے والوں میں حافظ برخوردار، جان محمد، محمد شاہ، محمد عزیزالدین المتوطن بہاول پور، پیر سید نیک عالم میر پوری، قلندر پاک غلام مرتضیٰ قلعوی خاص طور پر شامل ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے لیکن سب سے پہلے ترجمہ کرنے والوں میں وارث شاہ ایسی شخصیت بھی شامل ہیں جنڈیالہ شیر خان (ضلع شیخو پورہ) میں پنجابی دنیا ہم ہماکر پہنچتی ہے تاکہ پنجابی ورثہ کو قصہ ہیر رانجھا کے روپ میں پنجابی تمدن کو انسائیکلو پیڈیائی تشکیل دینے والی شخصیت کو خراجِ عقیدت پیش کرس کیں، محمد حسین کھوکھر احمدآبادی کی تخلیق کے مطابق قصیدہ بردہ شریف کا پنجابی زبان میں پہلا منظوم ترجمہ وارث شاہ کی تخلیق ہے جو انہوں نے 1152 ہجری (1739 عیسوی) میں کیا جیسا کہ وارث شاہ ترجمہ کے اختتام پر خود رقم طراز ہیں کہ

    یاراں سے بونجہ سن ہجری ظاہر ہویا

    تاں ایہہ بیت جواہر موتی لڑی کتاب پرویا

    اس شعر کے مطابق وارث شاہ نے سنہ 1152 ہجری کے ظاہر ہوتے ہی یہ تجر جمہ مکمل کیا یکم محرم 1152 ہجری کو 10 اپریل 1739 عیسوی تھا جس وقت سید صاحب صرف 19 سال کے ہوئے تھے لیکن 19 سال ہی کی عمر میں وہ اتنا بڑا شاہکار لکھنے کا سہرا اپنے سر باندھ لیتے ہیں یہ غیر معمولی بات ہونے کے باوجود تعجب انگیر نہیں کیونکہ مولانا غلام رسول عالمپوری نے داستان امیر حمزہ کی پہلی دو جلدیں پندرہ سال کی عمر میں مکمل کیں اور احسن القصص 24 سال کی عمر میں تخلیق کی جس میں کہیں کہیں وہ اپنی شعری اٹکل کو مولانا عبدالرحمٰن جامی سے بھی آگے لے گئے، علامہ حمد حسن عرشی امرتسری ایسے فارسی کےعظیم شاعر اور نقاد کی یہی رائے تھی لیکن وارث شاہ کو کمال یہ ہے کہ عربی زبان کے اس عظیم ادبی شاہکار کو ترجمہ کی بجائے ایک گراں مایایہ ادبی تخلیق کا روپ بخش دیا، جس کا اظہار ایک اور پنجابی شاعر حافظ برخوردار رانجھا نے اپنی تخلیق قصہ یوسف زلیخا میں کیا ہے۔

    اورنگ زیب عالمگیر نے جس انداز سے قوتِ حاکمہ قائم رکھنے کی کوشش کی اس کے نتیجہ میں ا سکی اپنی اولاد بھی ایسی آزادنہ تربیت حاصل نہ کرسکی، جس سے قوتِ حاکمہ کو اپنے بزرگوں کی طرح چلا سکتی، چنانچہ اورنگ زیب کی وفات 1707 عیسوی سے ٹھیک 32 سال بعد نادر شاہ درانی نے حملہ کر کے مغل راج کو اس طرح تہس نہس کردیا کہ مرہٹہ گردی کے ساتھ ساتھ اقتدار پر اپنے اپنے طور پر قبضہ کرکے اپنی اپنی رایاستیں قائم کر لیں، اسی افرا تفری کے عالم میں قصیدہ بردہ شرفی کو پنجابی شعری روپ دیتے ہوئے وارث شاہ نے دعا کی۔

    ربا روز قیامت تیک وسائیں شہر جنڈیالہ

    کوئی آفت پوے نہ اس تے وسے نت سکھالہ

    اپنی جنم بھومی کی سلامتی کے لئے وارث شاہ نے دل کی جس گہرائی سے دعا کی وہ حضورِ پاک کے صدقہ میں اللہ تالیٰ نے اس انداز سے قبول فرمائی کہ اب واقعی وہ ایک شہر بن چکا ہے۔ جہاں اہلِ دیہہ کو تمام سہولتیں وارث شاہ کے حوالہ سے حاصل ہوئی ہیں، پنجابی شعرا نے اس نعتیہ تخلیق کو جس انداز میں پنجابی دنیا کے حضور پیش کیا، اس کا اندازہ کرنے کے لئے قصیدہ کے پہلے شعر کے حسبِ ذیل ترجموں سے کیا جاسکتا ہے، اس شعر کو مختلف پنجابی شاعروں نے پنجابی زبان میں منتقل کیا ہے جس سے پنجابی وسعت کا پتہ چلتا ہے۔

    سید وارث شاہ

    جاں چت آون میرے تائیں ذی سلم دے

    نین میرے رت ہنجو رون مارن درد الم دے

    حافظ برخدوردار

    جد یاد کراں دل اپنے اتے ساتھی ذی سلم دے

    روون ہنجھو چھم چھم برسن پکاں نالے دم دے

    پنجابی تراجم کو دیکھ کر زبان کی وسعت کا ادراک ہوتا ہے مگر وارث شاہ کا ترجمہ دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ 19-18 سال کی عمر میں اس ادبی شاہکار کو کم عمری میں پنجابی زبان کا کومل روپ دینے والے وارث شاہ کے مستقبل کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ کس طرح وارث شاہ نے پنجابی نعت گوئی کو موضوع مواد اور ہیت سے قومی سے قوقی تر کردیا ہو نہار بروا کے چکنے چکنے پات اسی کو کہا جاتا ہے۔

    قصیدہ بردہ شریف کے تراجم : نعت گوئی کا آغاز تو کلامِ پاک کی ان آیات ہی سے ہوجاتا ہے جن میں آپ کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں، آپ کے عمل کو اسوہ حسنہ قرار دیا گیا ہے، آپ کو ایسے القاب سے خطاب کیا گیا ہے جو آپ کی مدح کا حصہ ہیں مگر آپ کے صحابۂ کرام نے آپ کو مجسم دیکھ کر آپ کی شفقت کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ کے تبلیغی انداز سے متاثر ہوکر، آپ کے حسن عمل کے سامنے سر جھکاتے ہوئے، آپؐ کے جہاد میں آپ کی جواں مردانہ شجاعت سپہ سالاری اور رہنمائی کے اثرات و نتائج کو سامنے رکھ کر جب بھی کچھ کیا وہی نعت بن گئی، نبوت کے مدارج بیان کئے جائیں یا معارج، وہ اسی کا حصہ ہے لیکن بعض نعتیں ایسی ہیں جو اپنے والہانہ اور بے محابہ پن کی وجہ سے عظیم ترین تخلیق کا حصہ ہو گئیں، مثلاً

    کتھے مہر علی کھتے تیر ثنا

    گستاخ اکھیں کتھے جالڑیاں

    اللہ دے پکڑے چھڈاوے محمد

    محمد دے پکڑے چھڈا کوئی نہیں سکدا

    تیری خیر ہووے پہرے دارا

    روضے دی جالی چم لین دے

    عربی فارسی اور دنیا کی ہر زبان میں ایسے بے شمار نمونے مل جائیں گے جو ادبیات کی معراج پر متمکن نظر آتے ہیں، انہی نعتیہ قصائد میں کعب ابن زہیر کا بانت سعاد اور امام بوصیری کا نعتیہ قصیدہ بردہ شریف ہے۔ دنیا کی ہر زبان میں اس عظیم تخلیق کی بہت زیادہ شرحیں لکھی گئی ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور دنیا کے ہر خطہ میں کیام ہو رہا ہے۔

    اس نعتیہ قصیدہ کے خالق امام شرف الدین ابو عبداللہ محمد سعید بن عماد بن محسن بن عبداللہ بن منہاج بلال منہاج جی ہیں جو شوال 608 ہجری کے پہلے منگل کو ولاس میں پیدا ہوئے، بوصیر میں نشو و نما پائی اور 696 ہجری میں وفات پائی، آپ مغربی الاصل تھے لیکن بوصیر ہی ان کے نام کا لاحقہ بن گیا۔

    آپ کی شاعری کے بارے میں حافظ فتح الدین ابن سید الناس، امام بوصیری کو دو مشہورعربی شاعروں جز اور اوراق سے فصاحت و بلاغت کے حوالہ سے اور فائق اور افضل شاعر تسلیم کرتے ہیں۔ بوصیری اپنے عہد کے حکمرانوں کے دربار میں اپنی شاعری کی وجہ سے اہم ترین مقام مرتبہ پر فائض رہے، ان کے قصائد لکھے، ایک عمر میں فالج ہوگیا جسم کا نصف حصہ بالکل ناکارہ ہوگیا۔ دارو رمل اور شاہی علاج معالجہ کے باوجود کوئی افاقہ نہ ہوا تو پھر حضور کے دربار میں قصیدہ لکھ کر اپنی عرض داشت پیش کی، قصیدہ لکھنے کے بعد نیند کا غلبہ ہوا تو خوابیدہ حالت میں دیکھا کہ حضور تشریف فرما ہیں، انہیں قصیدہ پیش کرنے کو کہا، قصیدہ سن کر آپؐ نہ صرف بہت خوش ہوئے بلکہ میرے جسم پر پ اپنا مقصد ہاتھ پھیر اور اوڑھی ہوئی بردیمنی بھی مجھے عنایت فرمائی، صبح جب بیدار ہوا تو جسمانی طور پر قطعی طور پر تندرس توانا تھا اور اوپر وہی چادر تھی جو حضور پاک نے عنایت فرمائی تھی۔ ا س قصیدہ کے ساتھ اسی وقت بردہ کا لفظ شامل ہوگیا۔

    زبان و بیان اور فصاحت و بلاغت احترام اور خلوص کے نقطہ نطر سے یہ غیر فانی تخلیق ہے یہی وجہ ہے کہ آج اس قصیدہ کو خیر وبرکت کے لئے اور مسائل و مشکلات پر قابو پانے کے لئے وظیفہ کے طورپر پڑھا جاتا ہے، دنیا بھر میں اس کی اشاعت غیر معمولی اہمیت اختیار کرتی جارہی ہے، ادبیات میں اس قصیدہ کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے ہر ملک اور ہر زبان میں اس کے کئی کئی تراجم ملتے ہیں، پنجابی زبان کی اس حوالہ سے بہت بڑی خوش قسمتی ہے کہ اس کے دستیباب لٹریچر میں قصیدہ بردہ شریف کے درجن بھر تراجم مل جاتے ہیں اور ان مترجمین میں پنجابی زبان کے بلند پایہ شعرا شامل ہیں مثلاً وارث شاہ، حافظ برخوردار، میاں جان محمد، سید محمد شاہ خواجہ غلام مرتضیٰ قلعوی، محمد عزیز الدین علوی، سید محمد نیک عالم اور محمد سعید سیال شریف شامل ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے چنانچہ ڈاکٹر مہر عبدالحق، پروفیسر ڈاکٹر قریشی، حسین قلعداری، پروفیسر اسیر عابد، انصاری صاحب نے اس منظوم تراجم کر کے خود اس عظیم تخلیق کے مترجمین میں شامل کرا لیا ہے۔

    پیکجز لمیٹڈ کے شعبہ اشاعت نے اپنی نئی زیر طبع کتاب کے لئے اس موضوع کو منتخب کیا ہے جس میں پنجابی زبان کے چھ ترجمے اردو فارسی اور انگریزی کا ایک ایک ترجمہ شامل ہے، منظور مترجمین میں وارث شاہ، حافظ برخوردار، خواجہ غلام مرتضیٰ قلعوی، محمد عزیز الدین علوی، سید محمد نیک عالم، محمد فیاض الدین چشتی اور مولانا عبدالرحمٰن جامی شامل ہیں۔ انگریزی ترجمہ سری لنکا کے قاضی عبدالرحیم محمد رزاق کا ہے، اس لحاظ سے یہ اہم کوشش ہے کہ ایک ہی صفحہ پر نثر و نظم میں نو تراجم پیش کئے گئے ہیں جن میں پنجابی اور فارسی اور انگریزی ایسی وقیع زبانوں میں لکھی گئی تخلیقات میں شامل ہیں۔ (رزونامہ نوائے وقت 20 اگست 1999)

    وارث شاہ قصیدہ بردہ شریف کا مترجم : وارث شاہ کو پنجابی کا عظیم ترین شاعر ان کی شہرہ آفاق تصنیف ”ہیر“ کی وجہ سے مانا گیا ہے، ہیر وارث شاہ کو بجا طور پر ”دیوان

    پنجاب“ کہا گیا ہے کہ اس میں ماحول اور معاشرے کی مصوری اس خوبی سے کی گئی ہے کہ لوگوں کے باطن کےنقوش بھی سامنے آجاتے ہیں، یہ زبان ویبان، علم و فضل اور سماجی شعور کا شاہکار ہے اور اس میں فنِ داستان گوئی اپنے انتہائی عروج پر نظر آتا ہے وارث شاہ نے ہیر 1180 ہجری میں تخلیق کی تھی، جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں”سن یاراں سے اسیاں نبی ہجرت لمے دلیں دے وچ تیار ہوئی“۔

    مگر کم لوگ جانتے ہیں کہ وارث شاہ نے اوائل عمری میں امام ابو عبداللہ محمد بن شرف الدین البوصیری کے مقبوول بارگاہ عربی قصیدہ سے ”بردہ شریف“ کا منظور پنجابی ترجمہ بھی کیا تھا، ان کے ترجمے کے کئی قلمی نسخے ملتے ہیں، جس قلمی نسخے تک میری رسائی ہوئی ہے، اس میں قیصدے کے ترجمہ کے بعد کچھ ایسے اشعار بھی شامل ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ترجمہ 1152 ہجری میں حضرت میاں جمال چنابی کی شرح کی مدد سے کیا گیا تھا، وہ اشعار یوں ہیں۔

    یاراں سے بونجہ جاں سن ہجری ظاہر ہوئے

    تاں ایہہ بیت جواہر موتی لڑیاں وانگ پروئے

    ایہہ ترجمہ راس کیتا میں اوس شرح تھیں بھائی

    حضرت نئیں جمال چنابی جیہڑی شرح بنائی

    حضرت میاں جمال چنابی اور ان کی شرح بردہ شریف کا ذکر ہمیں شاہ حسین بردہ میں کہیں نظر نہیں آیا تاہم اندزاہ یہ ہوتا ہے کہ وہی بزرگ ہیں جنہوں نے عالمگیری دور میں قصہ ہیر فارسی مثنوی کی صورت میں دیکھا تھا، پروفیسر شریف کنجاہی نے ان کا نام حکیم چنابی لکھا ہے اور ان کی ہیر کا تفصیلی ذکر اپنے مضمون ”ہیرو مو درتوں ہیر وارث تائیں“ مطبوعہ ”کھوج“ شمارہ 2 میں کیا ہے (صفحہ - 15تا 18) اپنی ہیر میں حکیم چنابی نے اپنا وطن کلاس بتایا اسے اور یہ بھی لکھا ہے کہ رانجھا ہزارے کو جاتا ہوا اسی نام کے گاؤں میں دفن ہوا تھا۔

    درد یہہ کلاس نام آنجا

    کردند مزاراں دلآارا

    بالائے چناب دارد آرام

    باشہر من آں وہ است ہم نام

    ترجمہ بردہ شریف کے اضافی اشعار میں وارث شاہ نے اپنے بارے میں یہ معلومات بھی مہیا کی ہیں۔

    ناؤں مصنف سید وارث جنڈیالے وچ دسے

    جہیڑا شیر غازی نے بدھا سبھو کوئی دسے

    ربا روز قیامت تائیں وسے شہر جنڈالا

    کائی آفت پوے نہ اوتھے وسے نت سوکھالا

    ترجمہ وارث شاہ نے اس زمانے میں کیا تھا، جب وہ ابھی اپنے گاؤں جنڈیالہ شیر خان میں ہی قیام پذیر تھے اس ترجمے کے بارے میں وارث شاہ نے اعترافِ معجزہ یوں کیا ہے۔

    ناقص طبع مکدر میری اس کم لائق ناسی

    جو ترجمہ کر قصیدے بردے ہندی بیت بناسی

    ایہہ پر فضل الٰہی ہو یاتے حضرت دی یاری

    تاں ایہہ بیت مرتب کیتے کر کے محنت بھاری

    نعتیہ ادب کا کوئی سہ پارہ اب تک امام مشرف الدین بوصیری کے قصیدے بردہ شریف کی رفعت و مقبولیت تک نہیں پہنچ سکا، اس قصیدے کا اصل نام الکواکب الدُرِیتہٗ فی مدحِ خیرِ البَرئتِہ ہے ”بردہ“ ایسی چادر کو کہتے ہیں جس میں مختلف رنگوں کی دھاریاں ہوں امام بوصیری نے یہ قصیدہ خواب میں زیارت کے موقع پر حضور علیہ السلام کو پڑھ کر سنایا جس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی بردہ شریف سے نوازا تھا علامہ فضل احمد عارف نے اپنی کتاب ”برکات بردہ“ میں فوات الوفیات جلد 2 کے حوالے سے اس قصیدے کے بارے میں امام بصیری کا جو بیان نقل ہے وہ کیوں ہے، میں نے بہت سے قصیدے مدحتِ پیغمبر 3 میں کہے تھے جن میں سے بعض وزیر زین الدین یعقوب ابن الزبیری کو پڑھ کر سنائے تھے پھر اتفاق ایسا ہوا کہ مجھے فالج لاحق ہو گیا، جس سے میرا آدھا دھڑ بے کار ہوگیا اس دوران میں قصیدہ بردہ کو نظم کرنے کے بارے میں غور و فکر کرتا رہا باالآخر اپنے نتائجِ فکر کو اس قصیدے کی شکل میں ڈھالنے کے قابل ہوگیا اس نعتیہ قصیدے کو وسیلہ بنا کر رو رو کر دعا مانگتا رہا پھر اپنی پلکوں پر لرزتے ہوئے آنسوؤن کی سوغات لئے سو گیا۔

    خواب میں زیارتِ رسول نصیب ہوئی حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک میرے مفلوج بدن پر پھیرا، جس سے میرا رواں رواں فرطِ مسرت سے جھوم اٹھا، بیدار ہوا تو اپنے آپ کو تندرست پایا، فجر ہوئی تو اٹھا اور گھر سے باہر سیر و تفریح کے لئے نکل کھڑا ابھی تک میں نے کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا، اتنے میں میری ملاقات ایک بزرگ سے ہوئی جنہوں نے ملتے ہی مجھ سے قصیدہ طلب فرمایا میں نے عرض کیا کہ قصیدے تو میں نے بہت لکھے کہ وہ قصیدہ جو تم نے بیماری کے دوران میں کہا ہے اور اس کا آغاز اَمِن تذکِرُّ جِیوان بذی مسلم سے ہوتا ہے میں بڑا متعجب ہوا اور دریافت کیا کہ آپ کو اس کا کیسے پتا چلا ہے حالانکہ میں نے کسی کو کچھ نہیں بتایا فرمانے لگے کہ رات بارگاہِ رسالت میں جب یہ قصیدہ پڑھا جا رہا تھا تو مجھے بھی سننے کی سعادت میسر آئی ھتی مجھے یاد ہے اور خوب یاد ہے کہ اسکے بعض اشعار پر حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح جھوم رہے تھے جیسے بادِ نسیم چلنے سے ثمر دار شاخین جھوم رہی ہوتی ہیں، یہ سن کر میں قصیدہ لکھا ہوا لے آیا اور انہیں دے دیا، اس کے بعد لوگوں میں اس قصیدے کا چرچا ہوگیا معتبر روایتوں کے مطابق قصیدہ طلب کرنے والے بزرگ شیخ ابوالرجا الصدیق تھے جو کہ قطبِ زمانہ تھے اور اہلِ طیبہ (مدینہ منورہ) سے الگ تھلک ہوکر خدا سے لو لگائے ہوئے تھے۔

    جوں جوں اس قصیدے کی برکات ظاہر ہوئیں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا چنانچہ ہر زبان میں اس کے بے شمار ترجمے ہوئے، پنجابی زبان بھی اس سلسلے میں پیچھے نہیں رہی پنجابی میں اب تک حافظ برخوردار سید وارث شاہ، محمد عزیز الدین، شہیدی، مولوی محمد اسماعیل فاضل دیوبندی، خواجہ غلام مرتضیٰ ڈاکٹر احمد حسین قریشی نے کہے ہیں آخر آپ کو کونسا قصیدہ مطلوب ہے وہ کہتے ہیں قلعداری اور ڈاکٹر مہر عبدالحق کے تراجم سامنے آئے ہیں جن میں سے سید وارث شاہ کے ترجمے کا اجمالی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔

    قصیدہ بردہ شریف دس فصلوں پر مشتمل ہے پہلی فصل کا عنوان ”تشبیب“ ہے اس تشبیب میں عام عربی قصائد کی روایت سے ہٹ کر عاشقانہ مضامین باندھنے کے بجائے قرب و جوار میدنہ کا ذکر تے ہوئے اپنے اشتیاق کو ظاہر کیا گیا ہے تشبیب کے پہلے تین اشعار کا ترجمہ وارث شاہ نے یوں کیا ہے۔

    جاں چٹ آون میرے تائیں ساتھی ذی سلم دے

    نین مرے رت ہنجو روون مارے درد الم دے

    یاں ایہہ ٹھنڈی داؤ جھلے محبوباں دی ماؤں

    یا ایہہ بجلی لشکی آہی رات اندھیاری جاؤں

    اکھیں نوں میں منع کراں نہ روو وڈہایمں ڈہائیں

    دل نو صبر قرار دیاں پر دونویں ناہیں

    ہیر وارث شاہ سیاسی سماجی اور مذہبی صورت حال کا نقشہ پیش کرتے ہے۔، دانشور، محقق اور کالم نگار تنویر ظہور روزنامہ جنگ میں اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ آفاقی شاعر نہ صرف اپنے عہد کو ساتھ لے کر چلتا ہے بلکہ وہ آفاقی حقیقتوں اور سچائیوں کو بھی انسانی فطرت کے قریب رہ کر اس طرح بیان کرتا ہے کہ وہ حقائق میں نت نئی آن بان لئے زندہ و جاوید نظر آتے ہیں، وارث شاہ اٹھارویں صدی عیسوی کے سب سے قدآور شاعر ہیں، انہوں نے اپنے عہد کے عصری شعور اور تقاضوں کو بیان کرتا ہی تھا مگر انہوں نے ان حقائق کو کچھ اس اسلوب سے منظوم کیا ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے انہوں نے اٹھارویں صدی میں بیٹھ کر آج کی صورتحال کی بات کی ہے۔

    وارث شاہ نے اپنی تصنیف ملکہ ہانس کی ایک مسجد کے حجرے میں بیٹھ کر مکمل کی اس سلسلے میں انجمن وارث شاہ ملکہ ہانس کے صدر میاں ذاکر حسین کا کہنا ہے کہ ملکہ ہانس تاریخی، ثقافتی وتہذیبی مقام رکھتا ہے، وارث شاہ پاک پتن میں دو برس قیام کے بعد ملکہ ہانس میں موجودہ مسجد وارث شاہ میں دو برس امامِ مسجد کے فرائض ادا کرتے رہے، اس دوران انہوں نے 1180 ہجری میں مسجد کے کونہ میں موجود ایک حجرہ میں بیٹح کر ہیر کلام تصنیف کیا۔

    سیاسی طور پر یہ بدامنی اور افراتفری کا زمانہ تھا، نادر شاہ نے پنجاب پر حملے کئے پھر 1761 عیسوی میں احمد شاہ ابدالی نے حملہ کیا، پچاس برس بعد مغلیہ دور کے بادشاہ اکبرِ اعظم کے دورِ حکومت میں وارث شاہ کے شہرہ آفاق قصہ کو شہرت ملی، قیامِ پاکستان کے بعد سے آج تک مسجد وارث شاہ کے تہذیبی ثقافتی ورثہ کے تحفظ کے لئے کسی بھی حکومت نے توجہ نہیں کی، حکومتِ پنجاب کو چاہیے کہ اس خستہ حال تاریخی ثقافتی تہذیبی ورثہ کے تحفظ اور تزئین و آرائش کے لئے انتظامات کرے۔ ملکہ ہانس میں 1986 عیسوی میں انجمن وارث شاہ کا قیام عمل میں آیا، اس انجمن کے تحت وارث شاہ کی یاد میں متعدد تقاریب ہوئیں اور جشنِ وارث منائے گئے، انجمن اپنے طورپر مسجد وارث شاہ کے نقش و نگار اور ثقافتی ورثہ کے تحفظ کے لئے کوشش کر رہی ہے، حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ مسجد میں لائبریری کے قیام، توسیعی منصوبہ، تزئین وآرائش اور زائرین کی سہولت کے لئے جنڈیالہ شیر خان کی طرح انتظام کرے۔

    ممتاز اسکالر محمد شریف صابر نے ہیر وارث شاہ مرتب کی، اسے وارث شاہ میموریل کمیٹی محکمۂ اطلاعات، ثقافت و سیاست پنجاب نے 1986 عیسوی میں خوبصورت انداز میں شائع کیا، محمد شریف صابر کی مرتب کردہ ”ہیر“ میں بند دار فرہنگ بھی شائع کی گئی ہے جس سے ہیر وارث شاہ کا مفہوم سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے، محمد شریف صابر لکھتے ہیں” یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ داستان ہیر رانجھا کے شعر وارث شاہ دنیائے ادب میں ممتاز مقام رکھتے ہیں جبکہ ان کا قصہ ہیر ایک غیر فانی شاہکار اور عالمی سطح کا ادب پارہ ہے، اسی بنا پر مختلف دانشوروں نے وارث شاہ کو شیکسپیئر ، ورڈز ورتھ اور کیٹس سے بڑا، پوشکن اور بودیئر کا ہم پلہ قرار دیا ہے، انہیں تخت کا وارث مہا کوی، ولی اللہ، عارف باللہ اور عظیم آرٹسٹ کے خطابات سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

    سر عبدالقادر وارث شاہ کو نہ صرف شیکسپیئر تسلیم کرتے ہیں بلکہ انہیں پنجابی ادب کا سعدی بھی قرار دیتے ہیں، یہی حال ان کے قصہ ہیر رانجھا کا ہے جسے اپنی جامعیت اور پنجابی ثقافت کی عکاسی ہونے کی وجہ سے پنجاب اور پنجابی کا ”انسائیکلو پیڈیا“ یا ”مہا کوش“ بھی کہا گیا ہے، اس کا مقابلہ کسی اور کتاب سے کرنا مشکل ہے، وارث شاہ کے بارے میں پنجابی کے معروف ادیب شفقت تنوریر مرزا کے بقول ”وارث شاہ کے عہد میں مذہب اور حکومت کے دو نمائندے تھے، ایک مسجد بیت العتیق کا امام اور دوسرا قاضی شمس الدین جس کے فرائض میں بڑے خاندانوں کا نکاح پڑھوانا شامل تھا، مسجد کے امام نے رانجھے کو دیکھتے ہی آنکھوں سے دور ہوجانے کا حکم دیا، اس کے جواب میں رانجھا (بلکہ اصل میں وارث شاہ) کہتا ہے۔

    داڑھی شیخ دی عمل شیطان والے

    کمیا رائیو جاندیاں راھیاں نوں

    وارث شاہ نے پہلے رانجھا اور ملاں کے ذریعے اور پھر ہیر اور قاضی شمس کے ذریعے اپنے عہد کی مذہبی صورتحال اور مذہبی قیادت کے چہرے سے نقاب اٹھایا ہے، ہیر مغلیہ عہد کی عدلیہ کو یوں بے پردہ کرتی ہے۔

    کھاون وڈھیاں نت ایمان ویچن

    ایہو مار ہے قاضیاں ساریاں نوں

    نت شہر دے فکر، غلطان رہندے

    ایہو شامتاں رب دیاں ماریاں نوں

    یہ مذہبی صورتحال سیاسی صورتحال کی خرابی کا سب سے بڑا سبب بن جاتی ہے اور وارث شاہ کے عہد میں بھی اس قسم کا سیاسی خلفشار پیدا ہوا جیسا ہمارے عہد میں ہورہا ہے، وارث شاہ سیاسی اعتبار سے باشعور اور عملی اعتبار سے مزاحمت کا نمائندہ فرد مجاہد یا سپاہی تھا، اس نے احمد شاہ ابدالی کو پنجاب پر حملہ آور ہوتے دیکھا، اس نے پنجاب کا گورنر شاہ نواز کی طرف سے افغانستان سے جنگ کرنے کی عملاً حمایت کی اس کی فوج میں رضاکار سپاہی کی صورت میں شامل ہوگیا، وارث شاہ نے پنجاب کی تہذیب، تمدن، معاشرت اور اپنے عہد کی سماجی، مذہبی، سیاسی صورتحال کا نقشہ اس انداز میں کھینچا ہے کہ ہم بجا طور پر ہیر کو پنجاب کا دیوان کہہ سکتے ہیں۔

    وارث شاہ نے اپنی شاعری میں جھوٹے مولویوں اور قاضیوں کے مکر وفریب کا پردہ چاک کیا ہے کہ کس طرح سادہ لوح لوگوں کو شریعت کی آڑ میں لوٹتے ہیں، آج بھی لوگ پٹواریوں کو رشوت دے کر زمینوں کا انتقال اپنے نام کروا لیتے ہیں۔،پنجاب میں جاگیر داری نظام ہمیشہ بھر پور رہا ہے، چھوٹی ذاتوں کے لوگ جاگرداروں کی مذہب کرنے کے سبب ”کمی کمین“ کہلاتے ہیں، سیاسی طور پر وارث شاہ کا زمانہ بدامنی کا زمانہ تھا، مغل فرماں روا اورنگ زیب عالمگیر کی زندگی میں تو بغاوت اور بدامنی دبی رہی مگر اس کی وفات کے فوراً بعد یہ آگ چنگاری سے شعلہ بن گئی۔ مرکزی حکومت کے خلاف ہر طرف سے بغاوت نہ تو اودھ اور دکن کی طرح خود مختار ہوسکا اور نہ ہی بنگال کی طرح اس پر کسی دوسری طاقت کا قبضہ ہوسکا، گھر گھر حاکم اور خود مختار کا اعلان کردیا۔

    سکھوں نے بھی اپنی آزاد حکومت کی بنیاد رکھ دی مگر فوجی تنظیم نہ ہونے کی وجہ سے سکھوں کے بڑے بڑے سردار آپس میں دست و گریبان ہوگئے، خانہ جنگی شروع ہوگئی، ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم تھا، سکھوں کی برچھا گردی عام ہوگئی، کوئی قانون نہ رہا اور نہ ہی قانون کا احترام رہا۔ نادر شاہ افغانستان اور ترکستان کو زیر کر کے پنجاب کو اپنے پاؤں تلے روندتا ہوا دلی پر حملہ آور ہوا، محمد شاہ کو شکست ہوئی، دلی میں قتلِ عام ہوا پھر احمد ابدالی نے یکے بعد دیگرے پانچ حملے گئے۔ اس وقت پنجاب کا نظم ونسق اتنا الٹ پلٹ ہوا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ تھا۔ سکھ سرداروں کی خانہ جنگی کی وجہ سے پنجابیوں کی زندگی عذاب بن گئی تھی اور ہر طرف بے چینی تھی اور بدامنی کا راج تھا۔

    بقول افضل توصیف ”وارث شاہ تاریخی و سیاسی شعور کا شاعر ہے اس کا پنجاب اٹھارویں صدی کا پنجاب ہے، اٹھارویں صدی کے پنجاب ہے، اٹھارویں صدی کے پنجاب میں بہت کچھ ہوتا رہا لیکن وہ سب کچھ بدامنی بدحالی، خون خرابے، لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کی شکل میں رہا جو پنجاب کی تاریخ میں کچھ نیا تو نہیں لیکن کچھ زیادہ ضرور تھا، دوسری طرف اسی صدی میں پنجاب کی زر خیز دھرتی نے وارث شاہ کو پیدا کیا جس نے اس زمین کی زبان کو ایک عظیم فن فن پارہ ایک سدا بہار کہانی، ایک مالا مال شاعری کا عطیہ دیا، کہا جاتا ہے کہ بڑا ادب ام نکے سائے میں لکھا جاتا ہے، امن نہ ہو تو شہر اور شاعر دونوں کو اندیشہ لاحق رہتا ہے جیسے غالب نے کہا تھا۔

    دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کم نہنگ

    دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

    خود غالب نے انتہائی پر آشوب حالات میں اعلیٰ ترین شعور کی شاعری کی لیکن غالب اور وارث شاہ کی تشخیص خود غیر معمولی اور حساسِ عنصر سے مل کر بنی تھیں، وہ اپنی ذات سے باہر اپنے شہر، اپنے ملک اور اپنے ملک سے باہر پھیلی ہوئی انسانوں کی دنیا کا سماجی شعور والے فنکاروں میں سے تھے، اسی وارث شاہ کی شاعری میں جہاں ہم ایک خوبصورت اور دل پذیر کہانی داستانِ عشق بڑے دلچسپ کرداروں سے مزین پڑھتے ہیں، وہاں ساتھ ہی ستھ پنجاب کی تاریخ کو بھی پڑھتے چلے جاتے ہیں تاریخ اس لیے کہ سیاسی اور سماجی حالات کے جو اشارے وارث شاہ دیتا ہے جو علامتیں استعمال کرتا ہے، ان کی تصدیق خود تاریخ کے حوالے سے ہوتی چلی جاتی رہے۔

    وارث کے دور میں نادر شاہی اور سکھا شاہی نے پنجاب کو برباد کر کے رکھ دیا تھا، قتل و غارت لوٹ مار، خون خرابے اور عزتوں کی بربادی کے مناظر روز ہی دیکھے جا سکتے تھے، وارث شاہ نہ صرف پنجاب کی اس بربادی کے لئے حساس تھا بلکہ وہ پنجابی سماج کے اندر پلے ہوئے خطرناک تضادوں سے بھی باخبر تھا، محبت اور امن کے دشمن وارث شاہ کی نظر میں بد صورت کردار ہیں، کیدو ہیر کا دشمن تھا تو سارے پنجاب یک بیٹیوں کے دشمن ایک لشکر کی صورت حمہ آور تھے۔

    وارث شاہ کی ہیر اور پنجاب کے مسائل : وارث شاہ پنجابی کا ایک ایسا نام ہے جسے ہر عہد میں یاد رکھا جائے گا، وارث شاہ کی لازوال تخلیق ”ہیر رانجھا“ اپنے موضوع فن اور اسلوب کے حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتی، یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں وارث شاہ ”ہیر“ ایک نئے معنوی تناظر میں سامنے آئی ہر دور میں اس کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا، وارث شاہ جس عہد میں پیدا ہوئے وہ پنجاب میں سیاسی ابتری کا دور تھا، آج اکیسویں صدی میں جب ہم اپنے گرد وپیش پر نظر ڈوڑائیں تو ایک طرح کی بے چینی اور خوف نظر آئے گا، ایسے میں وارث شاہ کی ”ہیر“ اور پنجاب کے مسائل پر سوچنے سے ہمیں رہنمائی مل سکتی ہے کہ کس کردار کو ”کیدو“ کہیں اور کس کو ”رانجھا“ یا ”ہیر“ ہونا چاہیے۔

    وارث شاہ کے عہد کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ وارث شاہ اپنے دور کا باغی شاعر تھا، یہ بغاوت رسمی تھی نہ ظاہری بلکہ شعوری سطح پر علم وفضل اور وسیع مشاہدہ تجربہ کی وجہ سے ابھری اور اس کے محرکات معاشرتی عدم توازن اقتصادی معاشی ناہمواریاں اور منافقانہ رویے جس میں مذہبی بہروپیوں کا معاشرتی کردار بھی شامل ہے، وارث شاہ انسانی آزادی، حریت فکر اور تدبیرِ منزل کا علم بردار تھا وہ جامد رسم و رواج کو توڑ کر انسان کی آزادی اور اس کی مضمر صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا حامی تھا اور چاہتا تھا کہ اس طریقہ کار کو اختیار کرنے کے لئے لوگ نظریاتی انسابن جائیں، وہ خود بھی کمٹڈ انسان تھا اور کمٹ منٹ کا داعی تھا اور یہ وابستگی اس لیے تھی کہ اسے یقین تھا کہ انسان و حریت فکر لازم و ملزوم ہیں اور اس کے بغیر معاشرتی عدمِ توازن دور نہیں ہوسکتا۔

    انہوں نے ”ہیر“ کے قصے میں جو کردار پیش کئے ہیں وہ معاشرہ کے رجحانات کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کرداروں کے ذریعے وارث شاہ اپنے عصر معاشرہ اور معاشرتی وراثت پر بھر پور تبصرہ کرتے ہیں اس عمل میں وارث شاہ نے تاریخ، رسم و رواج مذہبی بندشوں، مال ودولت کی حرص، جاگیرداری، غرب اور مظلوم پر جاری رہنے والا جبر اور سیاسی قوت کے حصول اور استحکام کے لئے چند فاتحین اور خاندان کی چیرہ دستیوں کو نہایت موثر طریقہ سے اجاگر کیا ہے، ”ہیر“ کی زبان سے وارث شاہ معاشرتی منافقت اور مولوی کی وقتی مصلحتوں کا پردہ چاک کرتے ہیں اور ساتھ ہی عورت کے ساتھ تاریخی ظلم کے ازالہ کے لئے اسے بغاوت کی علامت کے طورپر بھی پیش کرتے ہیں، ”رانجے“ کے کردار میں ایک ایسا انسان پیش کیا جارہا ہے جس کے فکری ارتقا کا قاری کو احساس ہونے لگ جاتا ہے کہ کس طرح عملی زندگی سے جی چرائے لیکن اچھی خوراک کھانے اور مادی لذتوں کے حصول تک محدود شخص جب نظریاتی جدوجہد کے عمل سے گزر کر آزاد ہوتا ہے تو اس کو اپنی ذات اور صلاحیتوں کا عرفان ہونے لگتا ہے اور بنیادی سچائیاں شعوری سطح پر نمایاں ہونے لگتی ہیں، ادبی سلطح پر ”ہیر رانجھے“ کا قصہ فراموش ہورہا تھا، وارث شاہ سے پہلے بعض ممتاز شعرا اور حکایت بیان کرنے والوں نے اس قصے کو بیان کیا ہے لیکن اپنے عہد کی تخلیوں اور معاشرتی مجبوریوں کے پس منظر میں جس محققانہ اور عرفانہ انداز میں وارث شاہ نے اس قصے کو ذریعہ بنایا ہے وہ اس قدر مقبول ہوا کہ اب ہیر وارث شاہ ہر دل کی آواز معلوم ہوتی ہے، آج جب ہم اپنے معاشرے میں بڑھتے ہوئے بہیمانہ رحجانات، چادر اور چار دیواری کے تضحیک، حرص کی گرم بازاری، عورتوں کی سربازار بے حرمتی اور اغوا ہونے کے بعد عورتوں، بچوں اور گھرانوں کی بے بسی اور ان پر ظلم وستم کے واقعات سنتے اور پڑھتے ہیں تو امریتا پریتم کی نظم کے یہ اشعار یاد آجاتے ہیں۔

    اج آکھاں وارث شاہ نوں کتے قبراں وچوں بول

    تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلان ورقا پھول

    اک روئی سی دھی پنجاب دی تو لکھ لکھ مارے وین

    اج لکھاں دھیاں روندیاں وارث شاہ نوں کہن

    اسی سماجی سیاسی تناظر میں ہمیں وارث شاہ اس لیے یاد آتا ہے کہ ان کے کلام میں خیر وشر کی قوتوں کا تفصیلی ذکر ہے۔ ہیر رانجھا پنجاب کے بہت خوبصورت کردار ہیں انہیں تخلیق کرتے وقت وارث شاہ نے انسان کی اعلیٰ ترین خوبیاں بخش دی ہیں لیکن ان کے دشمن اتنے ہی بد صورت اور کمتر ہیں، آج یہ کردار اپنی اپنی جگہ علامتیں بن چکے ہیں، علامتی تناظر میں دیکھا جائے تو وارث شاہ نے قصہ ہیر رانجھا کو روح اور قلبوت کی بات قرار دیا ہے، گویا اس حوالے سے وارث شاہ نے اپنے عہد کے مختلف عوامل کو کردار بنایا ہے، وارث شاہ جامع کمالات تھے ہیر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں تفیسر، حدیث، فقہ، تاریخ و سیر پر عبورِ کامل تھا تصوف کے اسرار و رموز پر گہری نظر کھتے تھے طب علم نجوم اور موسیقی سے بہرہ ور تھے وہ چھ راگوں کا بھی ذکر کرتے ہیں ان میں بھیروں، ملکوس، ہنڈول، سری، دیپک اور میگھ دہ عربی، فارسی، ہندی اور پشتو بھی جانتے تھے۔

    محبت و آشتی کا پیغام : آج کی دنیا دولت کی دھن میں مگن مصروف ہے مگر ذہنی سکون نہیں، اس ذہنی آرام و سکون کے حصول کے لئے محبت و آشتی کا پیغام جو وارث شاہ کے اشعار میں پایا جاتا ہے، اس پیغام کو اپنا لینے سے موجودہ معاشرے کی پیچیدگیاں اور مسائل کے حل کے گتھیاں سلجھ سکتی ہیں، ان کے کلام کا ایک پہلو تصوف ہی ہے جس کے بازگشت آج بھی سنی جاتی ہے، اگر چہ اس پیمانہ پر نہیں جس پر کہ کبھی پہلے تھا، تا ہم ان کے کلام کی اس خوبی میں آج کا معاشرہ اپنی خود ساختہ کڑیوں اور زنجیروں کو توڑ سکتا ہے جن کے اندر آج کا معاشرہ مقفل ہو کر رہ گیا ہے۔

    ان کی مشہور و معروف کتاب ”ہیر رانجھا“ اس پس منظر میں لکھی گئی ہے، کردار حقیقی ہوں یا تصوراتی اس سے قطع نظر البتہ خود نتائج و اثرات پیش کئے ہیں، ان کا اطلاق اس وقت بھی حقیقی تھا اور آج بھی یہ ہماری نظر ہے اور سوچ و فکر کا پہلو کہ ہم کس حد تک ا سکو اپناتے ہیں، ایک جیتا جاگتا اس کا ثبوت دیہاتی زندگی کی اس صورت میں دیکھا جاسکتا ہے جس میں ہلکی پھلی موسیقی کے پروگرام میں ہیر رانجھا کی کتاب کو سُر اور محبت سے گایا جاتا ہے جو روح پرور ہے اور باعثِ اطمینانِ قلوب بھی، ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے کلام کا اردو میں ترجمہ کیا جائے تاکہ ان کے خیالات و احساسات دنیا کے کونے کونے میں پھیل سکیں۔

    در اصل زبان و ماحول نے وارث شاہ کو صرف پنجاب تک محدود رکھا، اب یہ کلام اردو کے شعرا اور اردو مصنفین کا کام ہے کہ وارث شاہ کو مخصوص ماحول سے نکال کر جہاں جہاں اردو بولی جاتی ہے، وہاں ان کے کلام کو روشناس کرایا جائے تاکہ وارث شاہ صرف پنجاب کا ہی شاعر نہ پاکستان بھر میں اس کے خیالات و احساسات کے حوالے سے جانچا اور پرکھا جائے۔ ایسے ہی ہماری علاقائی زبانوں کے شعرا کے کلاموں کا ترجمہ اردو میں کیا جائے تاکہ ہر پاکستان اور اردو بولنے والا ان کے کلام سے مستفید ہوسکے، اس سے قومی ہم آہنگی اور یکسوئی پیدا کرنے اور قائم کرنے میں مدد ملے گی اس میں ہمارے مسائل کا حل بھی ممکن ہے۔

    وارث شاہ علم کا سمند تھے : وارث شاہ پنجاب کے عظیم صوفی شاعر علم کا سمندر تھے، چاہتے تو فقہ، علم الافلاک، منطق، حرف و نحو پر ایسی جامع کتابیں لکھتے کہ رہتی دنیا تک اپنی مثال آپ ہوتیں، آپ نے ہیرِ وارث شاہ کے علاوہ معراج نامہ نصیحت نامہ، بارہ ماہ اور کئی کتب تصنیف کیں جو تصوف اور معرفت کے رنگ میں لکھی گئی ہیں، وارث شاہ مساوات پر کامل یقین رکھتے تھے، وارث شاہ نے فیصلۂ سلطنت کا زوال دیکھا، نادر شاہ کا ہندوستان میں آنا، اس کی قتل وغارت گری نے مغلیہ سلطنت کا متزلزل کر دیا۔ اس پُر آشوب زمانے میں انہوں نے ہوش سبنھالا اور شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیری پیدائش 1707 عیسوی سے لے کر سکھوں کے زوال تک ذکر کیا ہے، آپ انگریزوں کے مکر و فریب اور فتنہ پردازی سے آگاہ تھے۔

    اس طرح وارث شاہ کے کلام میں اخلاقی، سیاسی، معاشرتی اور روحانی اقدر کا ایک سمندر کوزے میں بند کیا ہوا ہے، قیامت تک ٹلنے والی حقیقتیں اور سچائیاں اس فنکارانہ لہجے میں بیان کی گئی ہیں جس کے نقش انمٹ ہیں جو مکالمے سید صاحب نے سپردِ قلم کیے ہیں، ان میں عورت کی مظلومیت اور مجبوری کی نشاندہی کی گئی ہے، ایک خاص طبقہ نے مذہب کے نام پر غلط تاویلیں کر کے عورت کے حقوق کو پامال کرنے کی کوشش کی ہے، اسلام نے عورت کو جو بلند معاشرتی وقار علا کیا ہے، وارث شاہ نے ہیر کی زبان سے ذکر کیا ہے۔ ”جو قوم اپنی بیٹیوں کو قتل کرتی ہے وہ کبھی فلاح نہیں پاتی، روزِ قیامت ان کا گناہ کبھی معاف نہیں کیا جائے گا“

    ہیر وارث شاہ میں اس دور کی تہذیبی زندگی کی تصویر بھی ملتی ہیں مجلس زندگی اور اخلاقی اقدار اور اجالے بھی ملتے ہیں، وارث شاہ نے اس عہد کے رسم و رواج اور معلومات کا خزانہ پنجاب کو دیا ہے، عورت اور لباس اور بناؤ سنگار کا پورا نقشہ موجود ہے، سب سے زیادہ اس مردِ قلندر کی شاعری میں جو بات چونکا دینے والی ہے، یہ وہ کہ وارث شاہؒ نے جس موضوع پر بات ہے، جس صنف کی بات ہے، زندگ کے شعبے کی بات کی ہے حیوانات، طب، قبیلوں، ذاتگوں جس شعبے کو لیا ہے، ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے وارث شاہ خود اسی کلام سے، اس شعبے سے، اس برادری اور اس ذات سے تعلق رکھتے ہیں جس کی بات کر رہے ہیں۔

    قدرتی اور آفاقی شاعر : وارث شاہ نے جوگ کے بڑے بڑے مسالک اور ان کے بانیوں کا ذکر کیا ہے، آپ علم وموسیقی سے بھی واقف تھے، انہوں نے اپنی تخلیق میں چھ بڑے راگوں کا ذکر کیا ہے، ان چند مثالوں سے آپ نہ صرف وارث شاہ کے علم و فضل کا اندازہ لگا سکتے ہیں پنجابی زبان کی وسعت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ وارث شاہ قدرتی اور آفاقی شاعر تھے۔ جنہوں نے اپنے خیالات و احساسات کے اظہار کے لیے پنجابی زبان کو اپنایا، زبان ایک ذریعہ ہے اظہار و جذبات کا جن خیالات و احساسات کو انہوں نے اپنے اشعار میں سمویا، ان کے متعلق دیکھنا یہ ان کا معار ومدارج کیا تھا، کیا وہ صرف علاقائی تھے یا علاقے سے باہر آفاقی نوعیت کے بھی تھے اگر علاقائی تھا تو یہ تنگ فطری اور مکمل ماحول کی پیداوار بصورتِ دیگر اس شاعر کے اندر قدرتِ طبع افروز تھی۔

    جہاں قدرت کار فرما ہے پیغام پوری نبی نوعِ انسان کے لیے ہے کیونکہ کسی ایک علاقہ میں نہیں بلکہ پوری دنیا کی مالک و مختار ہے، اس معیار و کسوٹی پر وارث شاہ کی شخصیت اور ان کے اشعار کو دیکھا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ وارث شاہ ایک قدرتی اور آفاقی تھے، صرف ذریعہ اظہار ان کے کلام کو ایک خاص علاقے (پنجاب) تک محدود رکھا، آفاقی شاعر کی حیثیت سے جو کچھ انہوں نے کہا وہ اصل میں قرآن پاک کی تشریح و تفسیر ہے، اگرچہ محدود پیمانہ پر تھی، ان کے احساسات و جذبات اس وقت کے افراد معاشرے کے ذہنوں کی عکاسی کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ جہاں نقص اور خرابی پائی جاتی ہے، اس خرابی کو ایسے کلام کا موضوع بنایا کہ اس کی اصلاح ہوسکے، ظاہر ہے کہ وہ جذبات و احساسات جو قرآن پاک کی روشنی میں منور تھے، وہ ہر اس مسلمان کے لیے ہیں جو دنیا کے براعظموں میں کسی بھی براعظم پر واقع بستی میں رہائش پذیر ہو، اس صورتحال میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ آفاقی شاعر تھے۔

    وارث شاہ کا ذاتی مشاہدہ، تجربہ، علمیت، دینی اور دنیاوی علوم کا خزانہ ان کی اپنی ذات کے اندر ملتا ہے، وہ ان کی شاعری روحانی اور علمی شخصیت کو بلند قامت بنا دیا ہے، وہ ایک قدآور شخصیت ہونے کے علاوہ ایک قادرالکلام شاعر تھے ان کے جڑے ہوئے موتی اس ترتیب سے رکھے گئے ہیں کہ ایک موتی اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دیا جائے تو شاعری کی ساری بساط الٹ جائے، ہیر پنجاب کی ایک ایسی تصنیف ہے جس کو بین الاقوامی ادب کی چند شاہکار تحقیقات میں رکھ دیا جائے تو کسی کو غیر معیاری کہنے کی مجال نہیں ہوسکتی۔

    انتقال : وارث شاہ اپنی عمر کے آخری حصہ میں جنڈیالہ شیر خان (ضلع شیخو پورہ) آگئے، جامع روایت کے مطابق آپ نے 1790 عیسوی میں وفات پائی، آپ کی آخری آرام گاہ جنڈیالہ شیر خان میں ہے اور قدیم عرصہ سے باقاعدگی سے سالانہ عرس 8،9 ساون کو منایا جاتاہے، جنڈیالہ شیر خان شیخو پورہ شہر سے شمال مغرب کی جانب تقریباً 9 میل کے فاصلے پر واقع ہے، سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب محمد حنیف رامے کی عقیدت کے باعث وسیع و عریض اور باغ باغیچوں کی صورت میں مزار تعمیر ہوا جو کہ اپنی خوبصورتی کی منہ بولتی تصویر ہے، جنڈیالہ شیر خان میں سرکاری طور پر عرس کی تقریبات دھوم دھام سےمنائی جاتی ہیں جس میں دور دراز سے زائرین اور عقیدت مند مزار پر چادریں چڑھانے کے علاوہ لنگر بھی تقسیم کرتے ہیں۔

    ہیر خوانی کے مقابلے : وارث شاہ کا عرس جنڈیالہ شیر خان (ضلع شیخو پورہ) میں ہوتا ہے، اس عرس میں وارث شاہ کے نام پر قائم بہت سی تنظیمیں شرکت کرتی ہیں، ہیر خوانہ کا مقابلہ ہوتا ہے اور لنگر تقسیم ہوتا ہے، ان میں نمایاں تنظیم ”جہاں وارث“ ہے جو 1976 عیسوی سے باقاعدگی سے عرس میں شریک ہوتے ہیں، یہ تنظیم محمد صادق نے قائم کی جنہیں ہیر کا شوق تھا، انہیں وارث شاہ کے کلام سے عشق ہوگیا، سالانہ تقریب میں وارثی لنگر تقسیم کیا جاتا ہے، وارث شاہ میموریل کمیٹی جہاں وارث کے تعاون سے انعامی مقابلے کرواتی ہے، ادب ترنجن بھی عرس کی تقریب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے، نذر عباس بھنڈ کی قائم کردہ ”بزم وارث شاہ“ بھی سالانہ تقریبات میں سرگرمی سے حصہ لیتی ہے۔ نذر عباس بھنڈ روز نامہ وقت لاہور کے چیف ایڈیٹر ہیں، ان کا شمار معروف صحافیوں میں ہوتا ہے جو کہ وارث شاہ سے خصوصی لگاؤ رکھتے ہیں سالانہ تقریبات میں لاہور، شیخو پورہ، قصور، گوجراننوالہ، اوکاڑہ میں 1986 عیسوی سے ”انجمن وارث شاہ“ قائم ہے جو ہر سال وارث شاہ کے حوالے سے بھر پور شرکت کرتے ہیں، یہ تنظیمیں ہیرخوانی کے مقابلہ میں حصہ لیتی ہیں، بعض انفرادی طور پر بھی ہیر خوانی کے مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں۔

    امریکیوں کو بلھے شاہ، وارث شاہ، بھٹائی کی شاعری سے آگاہ کیا جائے : چیف جسٹس (ر) ڈاکٹر نسیم حسن شاہ نے کہا کہ امریکہ میں مذہب کو حکومت کے معاملات سے الگ کردیا گیا ہے مگر اہم ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، وہ تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ اور امریکن سینٹر لاہور کے زیر اہتمام ایوانِ کارکنان تحریکِ پاکستان میں امریکی سکالر ڈاکٹر کارل ارنسٹ کے لیکچر بعنوان ”امریکہ میں اسلامی تعلیمات“ کے موقع پر صدارتی خطاب کر رہے تھے، ڈاکٹر نسیم حسن شاہ نے کہا کہ امریکن میں اسلام کے حوالے سے منفی پراپیگنڈے کو ختم کرنے کے لیے ہمارے مذہبی اسکالرز کو مزید محنت کرنا ہوگی، اسلامی تعلیمات کے امریکی اسکالر ڈاکٹر کارل ارنسٹ نے امریکہ میں اسلامی تعلیمات کے حوالے سے اپنے لیچکر میں کہا کہ امریکہ میں مذہبی تعلیمات کے 900 کے قریب ادارے ہیں جن میں سے صرف 100 اسلام کے بارے میں تعلیمات دے رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ 1973 عیسوی میں امریکہ میں اس بات کو محسوس کیا گیا کہ امریکہ میں اسلام پر ریسرچ کے لئے گوئی گریجوایٹ پروگرام نہیں ہے وہاں مسلم اکثریتی آبادی والے علاقوں پر تو تحقیق کے مواقع میسر ہیں مگر صرف اسلام پر تحقیق کا کوئی پروگرام نہیں ہے اس وقت بھی یونیورسٹی آف شکا گو جیسے کئی اہم تعلقیمی اداروں پر گزشتہ کچھ سالوں میں بہتری ہوئی ہے اور اس وقت اسلام کے بارے میں کلاسز میں صرف دس فیصد طالب علم مسلمان ہیں، انہوں نے کہا کہ دنیا میں امن جمہوریت اور لبرل معاشرہ کے قیام کے لئے تمام مذاہب کو اکٹھے چلنا ہوگا اور اس حوالے سے قرآن مجید میں جو واضح احکامات موجود ہیں۔

    میرے خیال میں مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلموں کا اسلام کو سمجھنا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ اس سے جہاں اسلام کے حوالے سے موجود غلط فہمیوں کو ختم کرنے کا موقع ملے گا وہاں اس حوالے سے موجود منفی پراپیگنڈہ کو بھی ختم کرنے میں مدد ملے گی، انہوں نے کہا کہ گویا تکنیکی اعتبار سے یہ بات درست ہے کہ اسلام امریکہ کا تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے مگر اس کے ساتھ یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ عام امریکی کو اسلام کے حوالے سے کچھ معلوم نہیں ہے، اس کو اسلام کے بارے میں صرف میڈیا کے حوالے سے کچھ معلومات ہوا ہے اور میڈیا میں اسلام کا امیج پیش کیا جاتا ہے، اس حوالے سے پاکستان کے لوگوں کے جذبات سے بہت حد تک متفق ہوں امریکی میڈیا میں گزشتہ عرصہ میں مذاہب کے حوالے سے جتنی بھی اسٹڈیز ہوئی تھیں ان میں دس سے نو تنازعات پر مبنی تھیں۔

    اگر کسی نے مذہب کے حوالے سے کوئی قابلِ قدر کام کیا ہے تو یہ میڈیا کے لئے کوئی خبر نہیں ہے مگر اگر کوئی مذۃب کی بنیاد پرقتل کرتا ہے تو یہ بڑی خبر ہے، میڈیا کے اس رجحان کی وجہ سے آج بھی ایک عام پڑھا لکھا امریکی 20 ویں صدی کے کسی بھی بڑے اسلامی اسکالر کا نام نہیں جانتا، تاہم ثقافتی حوالےسے صورتِ حال بالکل برعکس ہے، آج امریکہ میں جلال الدین رومی ایک بڑا نام سمجھا جاتا ہے، اس کی شاعری کے انگریزی ترجمہ بڑی تعداد میں پڑھے جارہے ہیں حتیٰ کہ میڈونا بھی رومی کی شاعری پڑھ رہی ہے، اس حوالے سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جلال الدین رومی جس قدر ایران میں مقبول ہیں اتناہی امریکہ میں مقبول ہوگئے ہیں۔

    اس کے علاوہ صوفی میوزک میں نصرت فتح علی خان نے اپنے بہت زیادہ مداح پیدا کئے ہیں اس سلسلہ میں میرا خیال ہے کہ اگر امریکیوں کو بلھے شاہ، وارث شاہ اور عبدالطیف کو شاعری اور پیغام کے حوالے سے بتایا جائے تو میڈونا کے منفی پیراپیگنڈہ کو بڑی حد تک ختم کیا جاسکتا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ امریکہ میں دانشور زیادہ مشہور نہیں ہے، مثال کے طور پر میں میڈونا جتنا مشہور نہیں ہوں مگر یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ امریکہ میں مذاہب کے حوال سے کتابوں کی فروخت کی شرح میں قابلِ قدر اضافہ ہوا ہے، گزشتہ کچھ عرصوں میں امریکہ میں اسلام کے حوالے سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب سلمان رشدی کی متنازعہ کتاب ہے، گو کہ یہ کتاب سب سے زیادہ فروخت ہوئی ہے مگر اس کتاب نے اسلام کو سمجھنے میں کوئی خدمت نہیں کی۔یہ ایک منفی کتاب تھی، بعد ازاں لاہور پریس کلب میں ”امریکی میڈیا میں اسلام کے وجود“ کے عنوان پر بات چیت کرتے ہوئے امریکی اسکالکر کارل انسٹ نے کہا کہ امریکہ میں میڈیا کے منفی رویئے اور امریکن فلموں کی وجہ سے مسلمانوں کو بنیاد پرست اور دہشت گرد سمجھا جاتا ہے، امریکیوں کو اسلام کے بارے میں علم نہیں ہے، وہ قرآن یا آخری نبی کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں، زیادہ پڑھے لکھے افراد بھی کسی مسلمان فلسفی، اسکالر یا شاعری کے بارے میں جانتے نہیں ہیں حتیٰ کہ اقبال کے بارے میں بھی انہیں علم نہیں ہے، انہوں نےکہا کہ وہ امریکی حکومت اس پالیسی سے متفق نہیں ہیں کہ اگر کوئی حکومت دہشت گردی قرار دی جاتی ہے، انہوں نے کہا کہ کلچرل تبادلہ بہت ضروری ہوتا ہے، انہوں نے بتایا کہ امریکہ میں مسلمانوں کی آبادی 50 لاکھ ہے جن میں 40 ،25 لاکھ رتارکین وطن ہیں، ان میں سے 10 لاکھ کا تعلق پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت سے ہے مگر مسلمان اپنی ذاتی زندگی تک محدود رہتے ہیں اور سیاست میں ملوث نہیں ہوتے، اسلام کے حوالے سے منفی روئے کو دیکھ کر یہ لوگ ویسے بھی امریکن عوام سے الگ تھلگ رہتے ہیں، انہوں نے کہا کہ امریکہ میں مسلمان اب مختلف شعبوں میں آگے آرہے ہیں، فوج میں بھی شامل ہو رہے ہیں لیکن ابھی امریکہ میں مسلمانوں کی صرف دوسری نسل ہے، مسلمانوں کا امیج بدلنے میں ابھی دو تین نسلیں مزید لگیں گی، انہوں نے کہا کہ امریکی حکومت کا رویہ بھی اب تبدیل ہورہا ہے، وائٹ ہاؤس میں رمضان کے دوران افطاری کا اہتمام کیا گیا ہے۔ (روزنامہ نگار نوائے وقت، لاہور مؤرخہ 7 جولائی 2000)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے