حضرت میاں محمد بخش
دلچسپ معلومات
پنجاب کے عظیم صوفی شعرا۔
میاں محمد بخش مثنوی سیف الملوک کے خالق تھے، پوٹھوہار، آزاد کشمیر ہزارہ اور ملحقہ علاقوں میں جو کتاب سب سے زیادہ مقبول رہی وہ پنجابی پوٹھو ہاری زبان کی شاہکار نظم سیف الملوک ہے آج بھی جب کہ جدید علوم فنون نے پرانی منظومات کو پس منظر میں دکھیل دیا ہے، ”سیف الملوک“ دیہات میں مقبول ہے لوگ گیت اور دیگر پنجابی کلام کے گانے والے اس نظم کے اشعار بڑی بڑی مجالس میں پڑھتے اور داد کے علاوہ انعام و اکرام بھی وصول کرتے ہیں اس نظم کے خالق میاں محمد بخش ایک درویش منش انسان تھے، ان کے والد میاں شمس الدین بھی ایک درویش تھے اور پیر قلندر دمڑی والا کے مزار کے سجادہ نشیں اس متصوف خاندان میں میاں محمد بخش نے آنکھ کھولی تو قدرتاً ان کا مزاج بچپن ہی سے عبادت گزری کی طرف مائل تھا ان کی تعلیم و تربیت بھی درویشانہ ماحول میں ہوئی تھی، لہٰذا جب وہ لڑکپن کی سرحد عبور کرکے جوانی کی دہلیز پر پہنچے تو کلیۃً عبادت اور ریاضت میں مشغول ہوگئے اور اس سلسلے میں دنیا اور دنیاداری سے یکسر کنارا کشی اختیار کرلی۔
دنیا سے کنارا کشی ایک وجہ یہ تھی کہ بچپن ہی میں ان کی منگنی ایک لڑکی سے ہوگئی تھی ان کی صورت شکل واجبی سی تھی منگنی پر مصیبت یہ ہوئی کہ لڑکپن ہی میں ان کو گلھڑ ہوگیا جس سے گلے کے غدود ابھر آئے سسرال والے ان کی خاندانی عظمت کی بنا پر رشتہ توڑنا چاہتے تھے لہٰذا انہوں نے لڑکی کا رشتہ میاں صاحب کے چھوٹے بھائی کو دے دیا، میاں صاحب اللہ لوگ بندے تھے انہیں نہ رشتہ ہونے کی خبر تھی نہ ٹوٹنے کی جب وہ اپنے چھوٹے بھائی کی بارات کے ہمراہ گئے تو وہاں پر ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک عورت نے کہا ”وہ ہے کسوہنا (بدصورت) لڑکا جس کا رشتہ توڑ کر ہم نے اس کے چھوٹے بھائی کو دیا ہے میاں صاحب نے یہ بات سنی تو ان کے دل پر سخت چوٹ لگی چنانچہ انہوں نے عہد کر لیا کہ اب میں سوہنا (خوب صورت) بن کر دکھاؤں گا۔
ظاہر کی خوب صورتی ناپائیدار چیز ہے اور اسے حاصل کرنا انسان کے بس کا روگ نہیں کیونکہ صورتیں تو اللہ کی قدرت سے بنتی ہیں کسی کی زیادہ اچھی کسی کی کم اچھی اور کسی کی بری البتہ جس حسن کا ارادہ میاں صاحب نے کیا وہ حسنِ باطن ہے اور یہی وہ حسن ہے جو انسان کو کوشش کرے تو حاصل کر سکتا ہے، میاں صاحب نے اسی حسن باطن کے حصول کو اپنا مطمع نظر بنایا عبادت گذار بچپن ہی سے تھے اب انہوں نے عبادت کے ساتھ ریاضت کی طرف توجہ دی دنیا اور لذات دنیوی سے یک لخت کنارا کشی کر لی اور کسی رہبرِ کامل کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے برسوں صحرائے عشق کی خاک چھانتے پھرے جہاں کسی دوریش کے متعلق سنا وہیں جا حاضر ہوئے لیکن گوہر مراد یعنی دل کا طمینان نصیب نہ ہوا اسی عالم میں ایک رات جناب غازی پیر قلندر دمڑی والا نے خواب میں بشارت دی کہ تم میرے مرید ہو اور میں تمہارا پیر مرے فرزندِ روھانی پیر سائیں غلام محمد سے بمقام کلروڑی ظاہری شرائط پر بیعت کر لو میاں صاحب ان کے ہاں پہنچے خواب میں بشارت کا حال سنایا اور بیعت کی درخواست کی حکم ہوا ایک سال انتظار کرو ایک سال انتظار کیا پھر مدعائے دل کہا حکم ہوا انتظار کرو انتظار کی کشمکش برسوں رہی اور بالآّخر روحانی مرشد نے حلقۂ ارادت میں لے کر سلوک ومعرفت کی منازل میں رہنمائی کی تا آنکہ آپ بڑے بلند روحانی مقام پر پہنچے اور دوسروں کو فیض پہنچانے لگے۔
اپنے روحانی سفر کے دوران میاں صاحب نے پوٹھوہاری پنجابی زبان میں ایک عظیم الشان مثنوی لکھی جس کا نام ”سفر العشق“ رکھا اور اس کا مرکزی کردار شہزادہ سیف الملوک ہے اس لیے عرفِ عام میں یہ ”سیف الملوک“ کے نام سے مشہور ہوئی۔
بات مجازی رمزِ حقیقی ون وناں دی کاٹھی
سفر العشق کتاب بنائی سیف چھپی وچہ لاٹھی
چونکہ اس میں مجاز کے رنگ میں حقیقت کا بیان ہے اس لیے میں اہلِ مجاز کے لئے قصے کی چاشنی اور ہلِ حقیقت کے لئے عشقِ حقیقی کی مرجوزات موجود ہیں لہٰذا دونوں قسم کے لوگ اس سے مستفیض اور محفوظ ہو سکتے ہیں۔
جنہاں طلب قصے دی ہوسی سن قصہ خوش ہوسن
جنہاں لاگ عشق دی سینے جاگ سویلے روسن
پنجابی زبان کے یہ منفرد شاعر دنیائے تصوف کے عظیم درویش بھی تھے، یہ تمام تر قصہ روح انسانی اور روحِ کل کی باہمی محبت کے گرد گھومتا ہے، شہزادہ سیف الملوک روح انسانی کی علامت ہے اور بدیع الجمال روح کل کی علامت روحِ انسانی روحِ کل سے ملنے کے لئے بیتاب ہے اور روحِ کل خود اسے پانی طرف بلاتی ہے ان علامتی کرداروں کے بارے میں خود میاں صاحب بتاتے ہیں۔
روح شہزادہ شہر مہرے نین صدق محبت بھالئی
حرص ہوا دنی دی بنگلہ تن نوں جگہ بنائی
آر حرص دو شیر خلاں دے قفل وراں بدبختی
ملک خاتون ایہہ دل ستا شہوت جادو تختی
نفس ساڈا دلو مرہلا غفلت ندی ڈوہینگری
جہل صندوق ہوئے دو پکے کنجی اسم چنگیری
پنچھی پنجریاں وچہ حساں پنج باطن پنج ظاہر
باغِ ارم دل وانگوں سمجھو نگل ہوئے نہ باہر
ملکہ خاتون سنی تدسی خبر دیوے دلبر دی
چلے نال جمال دکھاون سمجھ رمز فقر دی
قصہ اس طرح ہے کہ شہزادہ سیف الملکو کو اپنے خاندانی ورثے میں دو شاہ مہرے ملتے ہیں جن میں سے ایک پر اس کی اپنی تصویر ہے اور دوسرے پر ایک پری بدیع المجال کی شہزادہ بدیع الجمال کی تصویر دیکھتے ہی فریفتہ ہو جاتا ہے اور ارد گرد ملکوں میں ہر جگہ اپنے سفیر بھیجتا ہے مگر کہیں بدیع الجمال کی خبر نہیں ملتی بالآخر خود بدیع الجمال سے خواب میں شہزادے کو اپنا پتہ بتاتی ہے اور ان تمام مراحل سے آگاہ کرتی ہے جنہیں طے کرنے کے بعد اس تک پہنچ سکتا ہے موانع یہ سفر روحانی سفر ہے اور اس میں تمام موانع وہ ہیں جو ایک سالک کے لئے ہوتے ہیں سالک محبوبِ حقیقی تک پہنچنے کے لئے ان موانع سے نبرد آزما ہوتا ہے محبوب تک پہنچنا بڑا کٹھن ہے، روح اپنی منزل کو تو پہنچانتی ہے لیکن اس کا دل جو اس سفر میں اس کی رہنمائی کر سکتا ہے ایک ظالم دیو یعنی نفس کی قید میں ہے دیوا نے اس دینوی حرص و ہوا کے قید خانے میں بند کیا ہوا ہے قید خانے کے دروازے پر بدبختی کا قفل پڑا ہوا ہے اور حرص کے شیر باہر پہرہ دے رہے ہیں جب تک دیو نفس کو ہلاک نہ کیا جائے دل کا بیدار ہوکر ساتھ چلنا ناممکن ہے دیو کی جان ایک کبوتر میں ہے جو جہالت کے صندوق میں بند غفلت کی گہری ندی کی تہہ میں رکھا ہوا ہے لیکن جب مرشد کے قیمتی تحفے یعنی صدق و محبت کے شاہ مہرے ندی کو دکھائے جاتےہیں تو وہ اس صندوق کو اچھال کر سطح پر پہنچادیتی ہے صندوق کا پٹ کھل جاتا ہے کبوتر پھڑ پھڑا کر باہر نکلتا ہے جسے ہلاک کرنےسے دیو نفس بھی ہلاک ہوجاتا ہے اس سویا ہوا دل بیدار ہو جاتا ہےاور روح منزلِ مقصود تک لے جانے کے لئے تیار یہ تمام تفصیل گویا اس اجمال کی ہے، جب مسلمان سیاسی طور پر اس بر صغیر میں زوال ہونا شروع ہوئے تو ان میں زندگی کی تلخ حقائق سے پہلو بچانے کے رجحانات بڑھنے لگے اور لوگ حقائق کا مقابلہ کرنے کی بجائے فرار کی راہیں اختیار کرنے لگے درویشی اور گوشہ گزینی فرار کا مقبول ترین راستہ تھا مگر یہ صرف فرار نہ تھا بلکہ درویشی اور فقر کا راستہ اختیار کرنے والے اخلاقی طورپر اپنے آپ کو بھی بلند کرتے تھے اور عوام کی اخلاقی حالت کو بھی سنوارنے اور نکھارنے کے فرائض سر انجام دیتے تھے، وہ لوگوں میں خدا کا خوف پیدا کرکے انہیں جرم و گناہ کے راستوں سے دور رکھنے اور اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ تائب کرنے پر آمادہ کرنے اور اس طرح ان مصائب کا جو ان پر وار ہوگئے تھے اخلاقی سطح پر مقابلہ کرنے کے لئے تیار کرتے تھے۔
میاں محمد بخش نے تصوف کے موضوعات پر کئی کتابیں تصنیف کیں : آپ درویش ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ پائے کے شاعر بھی تھے، انہوں نے تصوف کے موضوعات پر کئی کتابیں تصنیف کیں جن میں سب سے زیادہ مؤثر اور مقبول ”سیف الملوک“ ہے اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ پوٹھوہار آزاد کمشیر اور ہزارہ کے علاقوں میں تقریباً ہر گھر میں سیف الملوک کی ایک جلد ضرور ملتی تھی لوگ شام کے وقت محفلیں منعقد کرتے تھے جہاں رات گئے تک سیف الملوک کے اشعار پڑھے جاتے تھے اور سامعین انہیں سنتے اور سر دھنتے تھے، سیف الملولک کا بنیادی موضوع یہ ہے کہ ہر انسان کی روح جو ”روح کل“ کا ایک جزو کل کے ساتھ ملنے کے لئے بے قرر ہوتی ہے، بقول مولانا روم۔
ہر کسے کو دور ماند از اصل خوشی
باز جوید روز گار وصل خویش
میاں محمد بخش فرماتے ہیں کہ ”روحِ کل“ خود انسانی روح کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور اپنی ذات تک رسائی کے ذریعے بتاتی ہے وہ انسان کو بتاتی ہے
تری چھک محبت نالوں مینوں طلب زیادہ
تدے آپ سداواں تینوں ہوویں آمادہ
اور وہ بتاتی ہے کہ اگر تیری طلب صادق ہے تو مجھ تک پہنچنا مشکل نہیں۔
فاصبنی سجدنی میاں طلب رکھیں مجھ پاسیں
سچی چھک جے تینوں ہو سی پاس مرے آجائیں
یعنی اگر تو مجھے طلب کرے گا تو مجھے پالے گا اور اگر تیرے دل میں سچی کشش ہوگی تو میرے پاس آ جائے گا وہ سفر عشق کا راستہ بھی بتاتی ہے۔
خشکی رستے پہنچ نہ سکیں ٹھیل ندی وچہ بیڑا
لہر عشق دی جان محمد چھڈ تمامی جھیڑا
اے طالب تو خشکی کے رستے مجھ تک نہیں پہنچ سکے گا اس لیے اپنی طلب کے بیڑے کو (محبت کے) دریا میں ڈال دے اس طرح عشق کی لہر کو اپنا بنا کر تمام جھگڑوں سے بے نیاز ہوجا خشکی کے راستے کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
خشکی رستہ خشک عبادت بن سوزوں بن دردوں
ایہہ عبادت فلکی بھائی ناہیں عارف مردوں
یعنی خشکی کا رستہ عبادت کا رستہ ہے جس میں سوز اور درد نہیں ہوتا یہ عبادت تو فرشتوں کی عبادت کی طرح ہے( کیونکہ فرشتے بھی جذباتِ محبت سے عاری ہوتے ہیں) اور ایسی عبادت عارف مردوں کی شان کے شایان نہیں۔
اس سفر میں بہت سے شدائد اور مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ مصائب اور شدائد حقیقتاً وہ ہیں جو سالک کو اس میں پیش کرتی ہیں مثلا جہاز کا طوفان میں ٹوٹ پھوٹ جانا بیشتر ساتھیوں کا مرجانا اور بعض کا بچھڑ جانا اس چیز کے استعارے ہیں کہ عشق کے سفر میں دینوی ساز وسامان بے کار ہوتا ہے اور انسان کو محض یقین و ایمان کی قوت سے آگے بڑھنا پڑتا ہے مصائب سے اس کا گزر جہاں حسن و جمال کی فراوانی عیش و آرام کی بہتات اور ملکہ شہزماں کی محبت ایسے پھندے ہیں جو اسے گرفتارِ محبت و آسائش کر کے طلبِ صادق کے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتےہیں اگر سالک کی طلب صادق نہ ہو تو منزلِ مقصود کا تصور اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے مگر طلبِ صادق ہو تو انسان دینوی لذات کے اس دام میں گرفتار نہیں ہوتا۔
ان ترغیبات کے بعد سالک پھر مصائب میں گرفتار ہو جاتا ہے یہ مصائب بھوک پیاس اور تھکان کے ہیں جو اسے صحرائے ترسناک (ڈراؤنے صحرا) میں پیش آتی ہیں اور جن سے مجبور ہوکر وہ خود کشی تک کا ارادہ کر لیتا ہے اس کا نفس یعنی جسمانی وجود اور اس کے تقاضے اسے ایسی پُر مصائب زندگی سے نجات حاصل کرنے کی جازت دیتے ہیں لیکن ”عقل“ اسے اس ارادے سے اس کے کشاکش میں اس پر مدہوش کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور وہ اس پر مرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے مگر ایسے عالم میں قدرت خود اس کی مدد کو پہنچتی ہے اور ایک فرشتہ غیبی اسے ایک ایسا جام پلاتا ہے جس سے ا س کا عزم اور ہمت عمود کر آتی ہے اور وہ ایک بار پھر اپنے سفر کو جاری رکھتے ہوئے بلآخر اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتا ہے اور وصالِ محبوب سے شاد کام ہو کر ابدی مسرتوں سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔
سیف الملوک کے بیشتر اشعار کو ضرب المثل کی حیثیت حاصل ہے، سیف الملوک پوٹھوہاری زبان کی شاعری کا ایک شاہکار ہے موضوع ہیت اور شعریت کے اعتبار سے اسے دنیا کی بڑی بڑی ایپک نظموں کے مقابل رکھا جاسکتا ہے اس کے بعض اشعار تو ضرب امثل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں، مثلاً
بے وفائی کم تسا ڈا ہر پال لوک وفائی
بے قدراں دی الفت مندی نیچاں دی شنائی
نیچاں دی آشنائی کولوں پھل کسے نیں پایا
ککر تے انگور چڑھایا ہر گچھا زخمایا
جب شہزادہ سیف الملوک صحرائے ترسناک میں ہمتِ نالہ دیتا ہے اور خود کشی پر آمادہ ہوجاتا ہے تو اس کے نفس اور عقل میں جو مکالمہ ہوتا ہے وہ زبان و بیان کے علاوہ مستدلال کا بہترین نمونہ ہے ملاحظہ ہوں، چند اشعار
عقل کہے ایہہ کم عاشق دا عشقوں بس نہ کرنی
لاکے بازی بے اندازی اوڑک ہار نہ ہرنی
نفس کہے ایہہ مرنا کیہا میں مڑ مصر نہ چلیا
راہ سجن دے اندرمر کے بہتر خاکوں رلیا
عقل کہے کھا کاتی مرنا ہوندا کم شیطانی
بھار لگا تاں پنڈ اتارے نئیں عشق دی بانی
نفس کہے فرہاد چلایا آپ سرے نوں تیشہ
اوہ مویا مردود نہ ہویا میں بھی اوہ اندیشہ
عقل کہے فرہاد سنیا شریں گئی جہانوں
اوس جہانوں گیا سی ڈھونڈن مویا اک جانوں
نفس کہے کیوں مہینوالے ماری چھال جھنا نویں
مارو کانگ ڈٹھی جد سوہنی کیوں ڈبی دریا نویں
عقل کہے توں سمجھے ناہیں اوہ مرنا کت پاسے
دونویں اک دوجے دل بیٹھے گل ملن دے آسے
میاں محمد بخش پیدائشی شاعر تھے : انہوں نے شاعرانہ تخیل اور تصوف کا اظہار بچپن ہی سے شروع کردیا تھا ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات دیکھ کر ان کے اتالیق حافظ ناصر نے انہیں کندن بنانے کا فیصلہ کیا اور انہیں فارسی کی کلاسیکی شاعری سے نوازنا شروع کیا عطار اور رومی کے اشعار نے میاں محمد بخش پر کافی اثر کر دکھایا، میاں محمد بکش کے ہاں اگرچہ شاعری کے اصول اور قوانین کر کام نہیں کیا گیا لیکن انہوں نے عملی شاعری کے ذریعہ اپنی دھاک ثابت کر دکھائی ان کے نزدیک شاعری الہامی فطرت تھی جس کے ذریعہ عالمی پیغامِ رسانی روحانی بالیدگی اور اخلاقی ترقی کے علاوہ صوفیانہ اقدار کو جلا ملتی ہے ان وجوہ کی بنا پر میاں محمد بخش کے ہاں شستہ زبان میں و بیان لفاظی کے ذریعہ مشکل مطالب بیان کئے گئے ان کے نزدیک شاعری ذہن سے بلکہ دل کے ہاں جہنم لیتی ہے اس لیے اچھی شاعری میں احساسا کی لوئیں روشن اور دل کے جذبات کی فراوانی ہوتی ہے دل کے احساسات سے عاری شاعری میں میاں محمد بخش کے نزدیک محض الفاظ کا ہیر پھر رہ جاتا ہے دل کی دنیا کے باسیوں کے لئے میاں محمد بخش نے اتقامت کے نسخے تجویز کرتے ہوئے کہا۔
جو شاعر بے پیرا ہوئے سخن اوہدے بھی رکھے
بے پیرے تھیں شعر نہ ہوندا اگ بن دھواں نہ دھکھے
جنجیو نکڑ بیٹھے تساں نوں پیارے ایویں بیت آسا نوں
بیٹے نوں کوئی انگل لاوے لگدے بیت تسانوں
میاں صاحب کے نزدیک شاعری اخلاقات کی بقا کا ذریعہ تھا اس کے ذریعہ سے انسانی روح بیدار ہو کر اپنے معراج کی جانب رجوع کرنے لگتی ہے لیکن میاں صاحب کو اس بارے میں عام آدمی کی بے حسی اور بے توجہی پر افسوس ضرور رہا مثلاً فرماتے ہیں۔
اول تے کجھ شوق نہیں کسے کون سخن آج سن
جے ہنسی تاں قصہ اتلا کوئی نہ رمزاں پن دا
محبت کرنے والے کو حقیقت اور پاکیزگی میسر آتی ہے اس لیے فرماتے ہیں۔
جس نوں عشق کسے دا ہوئے تس بے عیب نہ دسدے
سخناں دے جو عاشق بندے عیب ڈھونڈن اسدے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.