Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

حضرت پیر مہر علی شاہ

خالد پرویز ملک

حضرت پیر مہر علی شاہ

خالد پرویز ملک

MORE BYخالد پرویز ملک

    دلچسپ معلومات

    پنجاب کے عظیم صوفی شعرا۔

    جب ہندوستان اپنی آزادی کے خونی دور سے گزر رہا تھا مکمل طور پر انگریزوں کے پنجۂ استبداد میں تھا سلطنتِ مغلیہ ہمیشہ کے لئے دم توڑ چکی تھی اور دین اسلام کے روشن چراغ ترک وطن کر چکے یا قید و بند کی صعوبتوں میں ایام گزار رہے تھے مسلمان تباہی و بربادی کے تاریک دور سے گزر رہےتھے، غیر مسلم مغربی مادہ پرست قوم کے علم و اقتدار نظریات کا عفریت مسلمانانِ ہند پر سوار ہو رہا تھا، روحانیت کو گونا گوں مشکلات کا سامنا تھا، اسلامی اقدار یکسر مٹتی نظر آرہی تھیں، اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے ہر مشکل کے بعد آسانی ہوتی ہے۔

    حضرت سید پیر مہر علی شاہ گولڑوی کو اس خطہ میں ولی بنا کر بھیجا گیا آپ یکم رمضان المبارک بمطابق 1275 ہجری 1875 عیسوی بروز پیر کو پیدا ہوئے ایسی پاک ہستی کو اللہ تعالیٰ نے وجود میں لانا پسند فرمایا جن کی علمی و روحانی قوت سے مسلمانوں میں حیاتِ نو کے آثار پیدا ہوئے جو بالآخر برصغیر میں مسلمانوں کی ایک ایسی آزاد حکومت منصۂ شہود آنے کے باعث بنے، پیر مہر علی شاہ عظیم شخصیت میں سے تھے۔

    آپ نے علم عرفان تصنیف و تالیف احیائے شریعت الحاد کے خاتمے کے لئے جہد و جہد کی آپ علومِ ظاہر و باطن شرعیت و روحانیت کے اس مقام پر پہنچے ہیں کہ جن کے فیض کو بر صغیر کے چوٹی کے علما اور بزرگانِ دین نے تسلیم کیا جو اظہر من الشمس الدین سیالوی سے خلافت ملی آپ کو ظاہری و باطنی خلافت عطا ہوئی حضرت پیر فضل دین فیض یاب ہوئے آپ کی علمی شہرت کا یہ حال تھا کہ بڑے بڑے علما میں یہ بات مشہور تھی یہ کہہ دینا کافی ہوتا ”قال علامہ گولڑی“ سند سمجھا جاتا تھا، قادیانیت کے مقابلے میں صرف آپ کی ذاتِ گرامی تھی آپ کو ہندوستان کے تمام مکاتبِ فکر کے قائدین نے قائد تسلیم کیا تھا۔

    آپ چودھویں صدی کے مجدد کے حثییت سے بسم اللہ کے ہم عدد تھے آپ کے علوم و فنون کی مہارت کمال درجے کی تھی حاجی امداد اللہ مہاجر، جناب مولانا لطف اللہ علی گڑھی، مولانا احمد سہارن، مولانا احمد حسن کانپوری، مولانا اشرف علی تھانوی، فاضل اجل مولانا فضل حق رام پوری، مولانا عبداللہ ٹونکی، علامہ انور شاہ کاشمیری اور مولانا نذیر ابیٹھوی فرماتے تھے تمام علوم و فنون پیر مہر علی شاہ کی خدمت میں دست بستہ حاضر کھڑے ہیں، تصرف کے منتظر معلوم ہوتے ہیں انہی درجے کے 80 علمائے کرام نے حضرت کو مرزائے قادیانی سے مناظرے کے لئے اپنا قائد چنا آپ نے 20 سال کی عمر میں قرآن پاک کا حفظ کیا صرف و نحو، فقہ اصول منطق، علمِ حدیث، علم تفسیر مکمل اسلامی تمام قواعد و ضوابط و درجات اصولِ فروع کی تمام تعلیمات مکمل فرمائیں اسی طرح آپ کے والد ماجد قبلہ پیر نذر حسین عرف اجی سرکار نے کمالات حاصل کے۔

    زہدو تقویٰ آپ کا شعار تھا : آپ سید ہیں دورانِ تعلیم طلبا اساتذہ اور لوگ آپ کی کم عمری کے تقویٰ کو دیکھ کر عقیدت مند ہوگئے تھے، عشقِ الٰہی کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے، آپ نے فنا فی اللہ و فنا فی الرسول اور وحدۃالوجود وحدۃ الشہود کے وہ دقیق مسائل حل فرمائے کہ جن سے بڑے بڑے علمائے کرام حیران تھے، آپ کو جو سخا ورثہ میں ملی ہوئی تھی جن کی گواہی آج بھی آستانۂ عالیہ دے رہا۔

    آپ کے شاگردوں میں مولانا عبدالغفور ہزاروی، شیخ القرآن پیر محمد عبداللہ شاہ غازی پور جلال پور پیر والے اور حضرت پیر امام شاہ لودھراں والے اور دیگر معتبر لوگ آپ کے علمی بحرِ بیکنار کے پروردہ تھے، ایک دفعہ آپ سر گودھا میں جلوہ افروز تھے اور مسئلہ سماع موتی پر بحث چھڑ گئی تو آپ نے فرمایا کہ اگر بلانے والے کو سلیقہ ہو تو اہلِ برزخ تھی جواب دیتے اور سنتے ہیں۔

    علوم کی علاقائی تحصیل کے بعد آپ مزید تعلیم کے لئے وسطی ہند چکے گئے جہاں لکھنؤ علی گڑھ، فرنگی محل اور دیگر مقامات پر مشہور اسلامی تعلیمی درس گاہیں تھیں، مولانالطف اللہ علی گڑھی ان علما میں ایک ممتاز مقام پر فائز تھے، ان سے سندِ فراغت حاصل کی اور دورانِ تعلیم ہی چند ایسے پیچیدہ مسائل کے حل پیش فرمائے کہ علما میں آپ کے علم کی دھوم مچ گئی، آپ عمر کے پچیسویں سال میں وہاں سے واپس لوٹے اور سیال شریف میں حضرت شاہ شمس العارفین قدس اللہ سرہٗ العزیز کے دستِ حق پرست پر داخل سلسلہ طریقت چشتیہ ہوئے۔

    اس شاہباز طریقت نے بہت جل آپ کو طریقت کے میدان کا شہسوار بنا دیا اور اپنی موجودگی میں سیال شریف ہی میں سلسلہ رشدوہدایت میں آپ کی تکمیل کر کے آپ کو مسندِ ارشاد پر فائز فرما دیا، جناب شمس العارفین مریدین کی تربیت میں انتہائی جانفشانی سے کام لیا کرتے قبلہ عام کی تربیت بھی آپ نے اسی طور پر فرمائی، گو آپ کے ہاں توبہ کرنے والوں کی تعداد لاکھوں سے متجاوز ہے اور آپ فرمایا کرتے تھے مجھے ان کے نام یا دنہیں البتہ ان سب کی شکلوں میں سے انہیں پہچانتا ہوں، جب ان کے لئے دعا کرتا ہوں تو ایک ایک چہرہ میرے سامنے ہوتا ہے، شفقت کا یہ عالم تھا کہ ہر مرید یہ سمجھتا کہ جتنی نظرِ کرم مجھ پر ہے وہ انفرادی ہے۔

    روایت ہے کہ ایک مرتبہ سر گودھا کا ایک بڑا زمیندار آپ کے ہاتھ پر توبہ کر کے داخل سلسلہ ہوا اور اس نے اس زمانے میں کہ روپیے پیسے کی قد تھی پانچ صد روپیے نذر پیش کی، آپ کی عمومی عادت یہ تھی یہ جو کوئی نذر نیاز پیش کرتا، لانگری اسے اٹھا کر لے جاتا اور لنگر خانے میں جمع کردی جاتی، خلافِ معمول یہ رقم آپ نے اپنے پاس رکھی چند دن بعد وہ شخص انتہائی مایوسی کے عالم میں آیا اور عرض کی کہ آپ میری مریدی مجھے واپس کردیں کہ مرید ہونے کے بعد میری چوری ہوگئی، کئی ایک نقصان ہوئے اور میری عزت خاک میں مل گئی، آپ اٹھے، گھر سے اسے ایک ہزار روپیہ لاکر دیا کہ مسلمان بھائی مشکل میں ہوتو اس کی معاونت کرنی چاہئے لیکن۔ ساتھ ہی یہ فرمایا کہ میں تمہارا ہاتھ اپنے پیران عظام کے توسط سے نبی پاک صاحب لولاک کی بارگاہ میں پیش کرچکا ہوں، وہاں سے واپسی کی درخواست کی تاب مجھ میں نہیں۔ یہ ایک ابتلا تھا جو چند دن بعد رفع ہوگیا اور وہ علاقے میں پہلے کی طرح صاحبِ عزت ہوا۔

    خوراک : عشا کی نماز کے بعد روزانہ ایک دو لقمے تناول فرماتے اور وضو فرما کر بظاہر سو جاتے مگر در اصل جاگتے رہتے تھے چنانچہ ساری زندگی عشا کے اس وضو سے فجر کی نماز ادا فرمائی، باوجود کم خوری اور کم خوابی کے جسمانی قوت اس قدر تھی کہ ایک بار رستم پہلوان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کشتی لڑنے جا رہا ہوں میری طاقت کا اندازہ ہوجائے اس نے آپ کا پاؤں دابنا شروع کیا کچھ دیر بعد اپنے پسینے میں شرابور تھا آپ نے فرمایا شاید تم بہت زور لگارہے ہو مگر مجھے محسوس تک نہیں ہوا، آپ نے اس کی کامیابی کی دعا فرمائی، قلب خوراک کے باوجود اتنی طاقت عطائے خداوندی تھی کہ آخری عمر میں آپ کی خوراک صرف دو چھٹانک فی ہفتہ کی تھی آپ کو گھوڑے کی سواری پسند تھی، شریر سے شریر گھوڑے آپ کے سامنے رام ہوجاتے۔

    آپ کا حسنِ اخلاق : آپ کا حسنِ اخلاق اس قدر تھا کہ جو شخص آپ سے ہم کلامی کا شرف حاصل کرتا وہ کئی سالوں تک صرف طبعی نہیں بلکہ روحانی سرور کی کیفیت محسوس کرتا آپ کا لہجہ نہایت نرم اور دلگیر تھا۔

    حضرت مہر علی شاہ کا سلسلہ نسب : آپ کا سلسلہ نسب 24 ویں پشت میں حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی سے جا ملتا ہے، آپ ایک بلند پایہ عالم تھے اور اسلام کے علاوہ کئی دوسرے مذاہب کے بارے میں بھی بہت سی واقفیت رکھتے تھے، آپ اپنے دور کے بہت بڑے شیخ طریقت ہونے کے ساتھ ساتھ شریعت کے بے بدل عالم بھی تھے، آپ نے صرف احیائے تصوف کے لئے کام کیا بلکہ شروع میں مبین کی پابندی اور سنتِ رسول کی پیروی کی بھی خاص طورپر تلقین کرتے رہے، آپ کو حضور نبی کریم سے بے پناہ عشق اور محبت تھی۔ فرمایا کرتے کہ انسان اگر اپنے وجود کو حضورِ مقبول (جو رحمۃ العالمین بھی ہیں) کی محبت میں گم گر دے تو کائناتِ الٰہی میں وہ کسی وقت بھی اور کسی پہلو بھی بے چینی سے دور چار نہیں ہوگا اور نصرت و فتح اور کامیابی کے دروازے اس پر کھلے رہیں گے، بقول علامہ اقبال

    کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

    یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

    عقیدت مندوں کا جمِ غفیر : راولپنڈی کے قریب آستانۂ عالیہ جو کہ اسلام آبادشہر کا ایک حصہ ہے اور اؤلیائے کاملین علما زبانیں کا جائے قرار و مریدین کی جائے پناہ ہے جس میں صبح و شام ہزاروں کی تعداد میں مسافروں امیر و غریب کی مہمان نوازی کی جاتی ہے بالخصوص آپ کے عرس کے موقع پر 28 صفر سے لوگوں کا ایک جمِ غفیر عقیدمندوں کا ایک سیلاب دستِ طلب دراز ہوتا ہے اور آپ کے فیوض وبرکات سے مسروعر ہوکر لوٹتے ہیں آپ کی الاد یگانہ حضرت غلام محی الدین عرف حضرت بابو جی تھے اور بابو جی صاحب کے دو فرزند ارجمند حضرت قبلہ سید پیر غلام معین الدین سید ہونے کے ساتھ تمام علومِ ظاہری وباطنی سے آراستہ ہے، آپ مختلف اوقات میں بیٹھا کرتے زائرین کی طرف سے نذرانۂ ہدایہ کا سلسلہ بارش کی طرح جاری رہتا لیکن جب آپ اٹھ کر تشریف لے جاتے تو ادھر آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتے اور غلام سے فرماتے تھے کہ اس لیے ہدیہ نذرانہ کوا ٹھا کر لانگری کو دے دو چنانچہ اسی طرح سفر میں بھی جو کچھ جمع ہوتا آپ اسے لنگر خانے میں خرچ کرنے کے لئے بھیج دیتے تھے کیونکہ آپ ایک خاندانی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جوکہ سلطنتِ مغلیہ سے پہلے اس خطہ کے نواب تھے۔

    حضرت مہر علی شاہ کا لاہور میں قیام : مہر علی شاہ 24 اگست تا 29 اگست 1900 لاہور شہر میں قیام فرمایا اور اس موقع پر آپ نے ایک بات فرمائی تھی جس کا چرچا بزم در بزم مدت تک رہا، آپ نے فرمایا ”جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ایسے خادمِ دین موجود ہیں کہ اگر قلم پر توجہ ڈالیں تو وہ خود بخود کاغذ پر تفسیر لکھ دے“ ظاہر ہے ان کا شارہ اپنی جانب تھا، اسی قیام کے دوران مرزائیوں کے ایک وفد نے پیر صاحب سے کہا ”ایک نابینا اور اپاہچ کے لئے مرزا صاحب دعا کریں، اسی طرح ایک اور نابینا اپاہچ کے لئے پیر صاحب دعا کریں جس کی دعا قبول ہوگی وہ سچا سمجھائے گا“ پیر صاحب نے جواباً فرمایا” مرزا صاحب سے کہیں کہ وہ آئیں، اگر مردے بھی زندہ کرنے ہوں تو وہ بھی قبول ہے “چنانچہ بعد میں آپ نے فرمایا کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جمالِ باکمال سے میرا دل ایسا قوی اور مضبوبط ہوگیا تھا کہ اگر اس سے بڑا دعویٰ بھی کرتا تو اللہ تعالیٰ مجھے ضرور سچا ثابت کرتے“

    صوبہ سرحد کے مایہ ناز سپوت صاحبزادہ خان عبدالقیوم خان کی حاضری : سرحد کے مایہ ناز سپوت صاحبزادہ عبدالقیوم صاحب کی ارادت پر ہمیشہ نازاں رہے، اسلامیہ کالج پشاور کا سنگِ بنیاد رکھنے کے لئے وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یہ علم کی نگہداشت کا ہی بندوبست ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا۔ صاحبزادہ صاحب ربِ کریم نے ہمیں علم کا محافظ بنایا ہے اور ہم بفضلِ ایزاد وتعالیٰ اس فریضے کو با احسن سرانجام دے رہےہیں مگر یہ کالج وغیرہ علم کی بجائے کسب کی درسگاہیں ہیں۔ آپ خود ہی اس کا سنگ بنیاد رکھ لیں، انگریز مختلف حربوں سے مسلم زعما کو اپنے دام میں لانے کی کوششوں میں تھا اس کے نمائندے گولڑہ شریف بھی آئے، اور درس کے لئے جاگیر کی پیشکش کی مگر آپ نے اس پیشکش کو شیطانی چال قرار دیتے ہوئے ٹھکرا دیا کہ فقیر کا فقر اختیاری ہے اور اسی میں ہمارافخر ہے دوسرا حربہ یہ استعمال کیا گیا کہ جرائم پیشہ لوگ اس دربار میں آکر پناہ لیتے ہیں گویا یہ جرائم پیشہ لوگوں کی آماجگاہ ہے، اس پر آپ نے فرمایا کہ ہم جرائم پیشہ لوگوں کو توبہ کی راہ دکھاتے اور راہِ مستقیم پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں اور یہ عمل اس طرح سے مستحسن ہے، یہ جگہ جرائم پیشہ لوگوں کو بھی راہِ ہدایت پر چلنے اور درِ توبہ سے مایوس نہ ہونے کا درس دیتی ہے۔

    حضرت مہر علی شاہ کی تصانیف : پیر مہر علی شاہ کی تصانیف کا ذکر کر ایک ضخیم کتاب کا متقضی ہے، یہاں صرف آپ کی کتابوں کے نام درج کئے جاتے ہیں۔

    تحقیق الحق فی کلمۃ الحق (1315 ہجری مطابق 1897 عیسوی)

    شمس الہدایہ فی اثبات حیات المسیح (1317 ہجری مطابق 1900 عیسوی)

    سیف چشتیائی (1319 ہجری مطابق 1902 عیسوی)

    اعلاکلمۃ اللہ فی بیان ما اھل بہ لغیر اللہ (1332 ہجری مطابق 1905-1904 عیسوی)

    الفتوحات المصدیہ (1325 ہجری مطابق 1908-1907 عیسوی)

    تصفیہ مابین سنی و شیعہ

    فتاویٰ مہریہ

    ہدیۃ الرسول

    مراز غلام احمد سید مہری علی شاہ کے نام مکتوب : مرزا غلام احمد نے آپ کے نام ایک دعوت نامہ بھیجا اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا اور یہ بھی کہا کہ احیائے دین اور عروج اسلام کے لئے مجھے مامور کیا گیا ہے، پیر مہر علی شاہ نے مرزا غلام احمد کے ان دعؤوں کی تردید کی اور کہا کہ اپنی توجہ مناظرات اور تبلیغِ اسلام پر مرکوز رکھو لیکن مرزا نے اصرار جاری رکھا، 1900 عیسوی میں مرزا نے پیر صاحب کو عربی زبان میں تفسیر نویسی کے مقابلہ کا چیلنج دیا، پیر صاحب نے بذریعہ اشہتار مرزا غلام احمد قادیانی کا یہ چیلنج قبول کیا اور لاہور جلسہ گاہ قرار پایا، پیر صاحب نے مرزا غلام احمد سے یہ بھی کہا کہ بذریعہ تقریر حاضرینِ جلسہ کو اپنے دعویِٰ رسالت، مہدویت اور مسیحیت کا قائل کریں، مرزا نے تقریری مباحثہ کی شرط قبول نہ کی۔

    شاعرِ مشرق علامہ اقبال کا سید مہر علی شاہ کے نام مکتوب : وصال سے چند سال پہلے آپ پر استغراق کی حالت طاری رہنے لگی انہی دنوں آپ کو حضرت علامہ اقبال کا ایک مکتوب موصول ہوا جس میں انہوں نے حضرت شیخِ اکبر رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیم ”حقیقت زماں“ کے بارے میں آپ کی رہنمائی چاہی پیر صاحب نے اس خط کو بڑے غور سے سنا اور فرمایا کہ میری طبیعت میں افاقہ ہوا تو میں اس خط کا جواب ضرور لکھوں گا جب آپ کی علالت طویل ہو گئی تو ملک سلطان محمود ٹوانہ نے جو مراسلات پر مامور تھے علامہ اقبال کو لکھ بھیجا کہ آپ اپنے ہی مشہور قول کے مصداق اس مکتب میں دیر سے پہنچے ہیں۔

    علامہ اقبال نے 18 اگست 1932 کو اپنے ایک مکتوب میں لکھا کہ ہندوستان بھر میں اس وقت کوئی اور ایسا دروازہ نہیں ہے جسے پیشِ نظر مقصد کے لئے کھٹکھٹایا جائے جب کہ ہمیں آج بھی یہ دیکھ کر اور سن کر کچھ ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے کہ ہم شرم سے شرابور ہور رہے ہیں اس دور کو آج پھر کسی غوث کی ضرورت ہے یہ کسی قطب کا محتاج ہے اور پھر کسی مجدد کو آواز دے رہا ہے پیر مہر علی شاہ اب ہر دور میں ہر مرض کی دوا ہے۔

    علامہ اقبال مہر علی شاہ کے بڑے عقیدت مند تھے : علامہ اقبال پیر مہر علی شاہ کے بڑے عقیدت مند تھے اٹھارہ اگست 1932 کو آپ نے پیر صاحب کے حضور ایک عریضہ ارسال فرمایا کہ اس وقت ہندوستان بھر میں کوئی دروازہ نہیں جو پیش نظر مقصد کے لئے کھٹکھٹایا جائے آج ہمیں کچھ ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ہم شرم سے شرابور ہو رہے ہیں اس دور کو آج پھر کسی غوث کی ضروت ہے کسی قطب کا محتاج اور یہ پھر کسی مجدد کو آواز دے رہا ہے اور کسی مہر منیر کو ڈھونڈنے کا انتظار کر رہا ہے حضرت پیر صاحب گولڑہ شریف نے جو گیارہ مئی 1937 کو وصال فرما گئے تھے ان دنوں طویل علالت میں مبتلا تھے، علامہ اقبال کو جواب لکھوایا آپ اپنے ہی مشہور قول کے مصداق اس مکتب میں دیر سے پہنچے۔

    مہر علی شاہ کی حرمین شریفین کی زیارت : 1307 ہجری کو پیر مہر علی شاہ حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف ہوئے تو وہیں قیام کرنے کو دل چاہا لیکن انہیں واپس جانے کا مشورہ دیا اور فرمایا سرزمینِ ہند میں ایک بڑا فتنہ رو نما ہونے والا ہے جس کا سّدِ باب ضروری ہے ور اس سلسلے میں آپ کی ذاتِ گرامی سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں ”یہ فتنہ قادیانیت سے تعلق رکھتا تھا“ چنانچہ آپ واپس تشریف لے آئے اور مرزا غلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت پر پانی پیر دیا اور بہت سے مرزائی دوبارہ مسلمان ہوگئے، مرزا نہ تو تحریری مقابلے کے لئے تیار تھا اور نہ ہی تقریر کے ذریعے اسے آپ سے مقابلے کا حوصلہ ہوا۔

    مہر علی شاہ سے منسوب روایات : کہتے ہیں کہ پیر مہر علی شاہ گولڑہ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ہاتھ میں تسبیح لئے گھوم رہے تھے کہ ایک انگریز جس نے اپنے گلے میں پستول لٹکا رکھا تھا آپ کے قریب آیا اور آپ کے ہاتھ میں تسبیح دیکھ کر کہنے لگا بابا جی یہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے آپ نے ایک لمحہ خاموشی اختیار کی اور فرمایا یہ تسبیح ہے جو مجھے (شاہ بغداد) اور پستول کو ہاتھ لگا کر دریافت کیا لیکن یہ کیا ہے، انگریز نے جواب دیا کہ یہ پستول ہے اور مجھے انگریز حکوم ت نے دیا ہے پھر پوچھا کس کام آتا ہے انگریز نے پستول کھولا، اس میں گولی بھری اور سامنے درخت پر چہچہاتے ایک پردنے کو نشانہ بنا ڈالا گولی لگتے ہیں پرندہ تڑپ کر نیچے جا گرا، اس کے ساتھ ہی انگریز نے کہا بابا جی دیکھا آپ نے اس پستول کا کمال روایت ہے کہ مہر علی شاہ نے اپنی درود شریف والی تسبیح اس مردہ پرندے کو لگائی وہ پھڑ پھڑایا اور پھر اڑتا اور چہکتا ہوا درخت پر جا بیٹھا، حضرت نے انگریز سے فرمایا۔ دیکھا تسبیح کا کمال، انگریز پریشان اور حیرت زدہ ہوکر بابا جی کو دیکھنے لگا پھر سلام کرنے کے بعد گاڑی میں سوار ہوگیا۔

    ایک اور روایت کے مطابق آپ ایک دن دریا کے کنارے بیٹھے ہوئے ذکر اللہ کر رہے تھے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک گھوڑا سوار آیا اور پوچھا حضرت کیا میں اس دریا سے گزر سکتا ہوں آپ نے فرمایا کہ ہاں، اللہ پر بھروسہ کر کے آگے جاؤ کنارے پہنچ جاؤ گے سوار نے گھوڑا دریا میں ڈال دیا لیکن جب وہ دریا میں سے گزرنے لگا تو چند لمحوں بعد ہی آپ کو گھوڑا سوار نظر نہ آیا آپ نے اللہ کو یاد کیا اور حضرت غوث الاعظم جیلانی کا ذکر کرتے ہوئے عرض کی کہ گھوڑا سوار کو دریا سے گزر جانے کے لئے کہہ بیٹھا ہوں اب میری لاج آپ کے ہاتھ میں جب آپ نے دوبارہ دریا کی طرف یکھا تو وہ گھوڑا سوار دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچ چکا تھا، ہر فرعون اور موسیٰ کی روایت قدرت کے اٹل فیصلوں کے مطابق دنیا میں جب بھی کوئی ظالم، جابر اور باطل کا پرستار ابھرا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کی سرکوبی کے لئے کسی مردِ حق آگاہ کو پیدا کرنے میں تاخیر نہیں کی۔

    کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا

    کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا

    گستاخ اکھیاں کتھے جا اڑیاں

    بر صغیر میں کفر و ضلالت کی تاریکیوں اور اندھیروں کا مقابلہ کرنا اور انہیں بھگانا مسلمان حکمرانوں کے بس کی بات نہیں تھی بلکہ یہ اللہ کے ان بندوں، قلندروں اور بوریا نشینوں کی مساعی اور دینِ حق کی خدمت کا نتیجہ تھا جس کی بنا پر لاکھوں گم کردہ راہ لوگ بتوں کی پرستش سے بیگانہ ہوگئے اور انہوں نے دین اللہ سے اپنا تعلق قائم کر لیا، یہی وہ درویش تھے جنہوں نے اندھیرے دلوں میں اجالا لیا اور اپنے حسنِ اخلاق اور کردار کے ذریعے حق و صداقت اور عمل کے بل بوتے پر اخوت و مساوات اور سچائی کے اصولوں سے نا آشنا انسانیت کی کایا پلٹ دی۔

    مہر علی شاہ کو شعر و شاعری سے دلچسپی : خواجہ صاحب کو اگرچہ شعر و شاعری سے کوئی خاص لچسپی نہیں تھی پھر بھی آپ خوب شعر کہا کرتے تھے فارسی اور پنجابی میں آپ کی کافیاں اور دیگر کلام بہت مقبول اور شائع بھی ہوا آپ کی ایک نعت لاکھوں دلوں میں گھر کر چکی ہے جس کے دو ابتدائی اشعار یوں ہیں۔

    آج سک متراں دی و دھیری اے

    کیوں دلڑی اداس گھنیری اے

    لوں لوں وچ شوق چنگیری اے

    اج نیناں لائیاں کیوں جھڑیاں

    آپ سادہ لباس زیب تن کرتے اور زیادہ وقت اللہ کی یاد میں مشغول رہتے اللہ والوں کے راز اللہ والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔

    ”سک متراں دی۔۔۔“

    امام بو صیری کے قصیدہ بردہ شریف اور اقبال کے نعتیہ قصیدہ ”ذوق و شوق“ سے پیر مہر علی شاہ کی مشہور پنجابی نعت سامنے آتی ہے، یہ نعت مختصر ہے مگر اثر آفرینی کے اعتبار سے اس کا پایہ بہت بلند ہے، پیر مہر علی شاہ کی نعت میں چار چار مصرعوں کے صرف سات بند ہیں مگر ہر بند اپنی جگہ مستقل حیثیت رکھتا ہے ”آپ نے پہلے بند کا آغاز جنابِ رسولِ پاک کی محبت کے اظہار سے کیا ہے جو عربی قصیدوں کے عام اندازِ تشیب سے مختلف ہے۔

    اج سک متراں دی ودھیری اے

    کیوں دلڑی اداس گھٹیری اے

    لوں لوں وچ شوق چنگیری اے

    آج نیناں لائیاں کیوں جھڑیاں

    ترجمہ : آج محبوب کی یاد کی کسک کچھ زیادہ ہی محسوس ہورہی ہے، معلوم نہیں دل پر کیوں گہری اداسی چھا رہی ہے (دلڑی دل کے لئے ہے جسے فارسی میں دلک) روئیں روئیں سے شوق کی چنگاریاں پھوٹ رہی ہیں، آنسو ہیں کہ برسات کی گھٹاکی طرح برس رہے ہیں، دوسرے بند حضور کی مدح کا آغاز ہوتا ہے پہلے آنجناب کے حسن صورت کا بیان ہے۔

    مکھ چندر بدر شعشانی اے

    متھے چمکے لاٹ نورانی اے

    کالی زلف تے اکھ مستانی اے

    مخمور اکھیں ہن مد بھریاں

    ترجمہ: چہرہ مبارک چودھویں کے چاند کی مانند تاباں ہے، پیشانی مارک پرنور کی مشعل چمک رہی ہے، (”لاٹ“ کا مفہوم دوسری زبان میں ادا کرنا مشکل ہے) سیاہ زلف اور آنکھ پر کیف، مخمور آنکھوں سے بادہ کیف گویا چھلک رہا ہے، تیسرے بند سے حضور اکرم کی معنوی عظمت کا بیان شروع ہوتا ہے۔

    ایس صورت نوں میں جان آکھاں

    جان آکھاں کہ جان جہاں آکھاں

    سچ آکھاں تے رب دی شان آکھاں

    جس شان تو شاناں سب بنیاں

    ترجمہ : حضور کی صورتِ مبارک کو (اپنی جان کہوں یا جانِ جہاں) یہ تشبیہ پورا مطلب ادا نہیں کر پاتی، سچ یہ ہے کہ حضور اللہ تعالیٰ کی وہ شان ہیں جس سے باقی سب شانیں بنی ہیں۔

    جناب رسولِ پاک کا ارشاد ہے کہ سب سے پہلے حضور کا نور تخلیق ہوا تھا۔

    دسے صورت راہ بے صورت دا

    جہیڑا راہ ہے عین حقیقت دا

    پر کم نہیں ایہہ بے سو جھت دا

    کوئی ورلیاں موتی لے تریاں

    ترجمہ : حضور کی صورتِ مبارک سے بے صورت ذات (اللہ تعالیٰ) کی راہ ملتی ہے یہی عین حقیقت کی راہ ہے۔ (طریقت اور حقیقت تصوف کی اصطلاحیں ہیں)

    پیر علی مہر علی شاہ یکم رمضان المبارک 1275 ہجری بمطابق 14 اپریل 1859 عیسوی بروزِ سوموار بمقامِ گولڑہ میں پیدا ہوئے، آپ کی ولادت سے چند روز پیشتر ایک عمر رسیدہ مجذوب خانقاہ میں آکر مقیم ہوگئے تھے اور عنقریب پیدا ہونے والے مقبول خدا کی زیارت کا ذکر کرتے تھے جب آپ متولد ہوئے تو یہ مجذوب حرم سرائے کی ڈیوڑھی میں پہنچے اور آپ کو باہر منگوا کر ہاتھ، پاؤں چومے اور رخصت ہوگئے، سچ ہے مقبولانِ خدا بنتے نہیں بنائے جاتے ہیں، آپ کو قرآن کریم پڑھنے کے لئے خانقاہ کے درس میں جب کہ فارسی اردو کے لئے مدرسہ میں داخل کیا گیا، عمر اتنی کم تھی کہ خادم اٹھا کر آپ کو لے جاتا اور واپس لاتا، حافظہ کی یہ حالت تھی کہ قرآن مجید کا روزانہ سبق آپ زبانی یاد کر کے یعنی حفظ کر کے سنا دیا کرتے تھے، جب قرآن مجید ختم ہوا تو اس وقت سارا قرآن آپ کو بلا ارادہ حفظ ہو چکا تھا، عربی، فارسی اور صرف و نحو کی تعلیم کے لئے بڑے پیر صاحب (سید پیر فضلِ دین شاہ صاحب جو آپ کے والدِ گرامی کے ماموں تھے) ہزارہ کے مولوی غلام محی الدین کو مقرر فرمایا تھا۔

    گولڑہ شریف سے نحو پڑھ کر اسی کم سنی کی حالت میں موضع بھوئی علاقہ حسن ابدال جاکر فاضل اجل جناب مولانا محمد شفیع قریشی کے درس میں داخل ہوگئے، آپ نے دو ڈھائی سال میں رسائل منطق قطبی تک اور نحو اور اصول کے درمیانہ اسباق کی تعلیم حاصل کی، موضع انگہ علاقہ سون ضلع شاہ پور سر گودھا میں مولوی سلطان محمود کے زیر تعلیم ہے، انگہ میں جو خرچ گھر سے ماہوار پہنچتا تھا، آپ اسے نادار طلبہ میں تقسیم فرما دیتے اور خود عموماً روزہ یا فاقہ سے رہتے، تقریباً ڈھائی سال انگہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد، جب آپ واپس لوٹے تو درسِ نظامی سے صرف، فلسفہ، معقول، ریاضی اور فقہ کی آخری کتب اور حدیث شریف میں صحاح ستہ اور تفسیر میں بیضاوی وغیرہ باقی رہ گئی تھیں، چنانچہ پندرہ سال کی عمر میں آپ ہندوستان روانہ ہوگئے۔

    پیر مہر علی شاہ کے خانوادہ میں رشد و ہدایت کا سلسلہ پہلے سے موجود تھا، آپ کے والد صاحب کے ماموں جان حضرت سید پیر فضل دین شاہ سلسلہ قادریہ کی مسند ارشاد پر متمکن تھے، پیر فضلِ دین شاہ ایک بلند مقام، صاحبِ کشف و کرامات اور مرجع خلائق بزرت تھے، حل مشکلات اور افادۂ ظاہری و باطنی کے لئے دور و نزدیک سے آنے والی خلقِ خدا کا آپ کی خانقاہ میں ہر وقت ہجوم رہتا تھا جس میں بلا امتیاز حضرت سید پیر فضل دین شاہ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔

    خواجہ سیالوی نے پیر مہر علی شاہ کے علمی اور عرفانی کمالات کے پیشِ نظر اپنے وصل سے کچھ عرصہ پہلے آپ کو تمام اشغال و وظائف کی اجازت عامہ اور بیعت و ارشاد کا منصب عطا فرما دیا تھا، اسی طرح خواجہ شمس العارفین سیالوی نے پیر مہر علی شاہ کو سیال شریف خاص میں بھی لوگوں کو بیعت کرنے کی اجازت عطا فرمائی تھی۔

    1307 ہجری میں اچانک ایک روز حجاز مقدس کے سفر پر روانہ ہوگئے، مولانا نے آپ کو بیت اللہ شریف کے سامنے مراقب پایا، مولانا کہتے ہیں ”جب ہم قریب گئے تو آپ نے بیٹھنے کا اشارہ کیا لیکن آپ پر ایسی کیفیت طاری تھی کہ جونہی ہماری نظر پڑی، رقت طاری ہوگئی اور بحث و مباحثہ کا خیال دل سے جاتا رہا“ مدرسہ صولتیہ میں قیام کے دوران مولانا حاجی رحمتہ اللہ سے آپ کی ملاقات ہوئی، مولانا نے پیر صاحب سے ”یا رسول اللہ“ کی ندا کے موضو پر بحث چھیڑی، پیر صاحب نے بخاری شریف کی حدیث پیش کرتے ہوئے اس کا جواز ثابت کیا جس پر حاجی صاحب نے فرمایا کہ ”یہ تو علم لدنی ہے، ہم سالہا سال سے بخاری شریف کی یہ حدیث درس میں پڑھا رہے ہیں لیکن ان معانی کی طرف کبھی ذہن نہیں گیا جو آپ نے استنباط کیے ہیں“ پیر صاحب مکہ میں قیام کے دوران ایک روز مولوی محمد غازی کے ہمراہ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے درس میں حاضر ہوئے، اثنائے سبق جب یہ شعر آیا۔

    ہر کسے کو دور ماند از اصل خویش

    باز جوید روزگار وصل خویش

    حاجی صاحب کی اجازت سے پیر صاحب نے اس شعر کی تشریح کی، یہ تشریح سن کر حاجی صاحب وجد میں آگئے، آپ کو بے حد رقت ہوئی، پیر صاحب فرماتے تھے کہ ”عرب شریف میں قیام کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ مجھے اسی جگہ رہائش اختیار کرنے کا خیال پیدا ہوگیا مگر حاجی صاحب نے ارشاد فرمایا کہ ہندوستان میں عنقریب ایک فتنہ رونما ہوگا جس کا سد باب آپ کی ذات سے متعلق ہے، اگر اس وقت آپ محض اپنے گھر میں خاموش بیٹھے رہے تو بھی علمائے عصر کے عقائد محفوظ رہیں گے اور فتنہ سے مراد قادیانیت ہے۔

    ابتدا میں پیر صاحب کی حالت صحو کے وقفے طویل ہوتے تھے، حاضر ہونے والوں کی معروضات سن کر ہاتھ اٹھا کر دعا فرمایا کرتے تھے، اکثر ایسا ہوتا کہ مصاحب خاص جناب مولوی محبوب عالم صاحب عرض کرتے کہ ”حضور! فلاں صاحب حاضر ہیں، ان کے مقصد کے لئے دعا فرمائیں“ اور یہ کہہ کر خود دعا مانگ کر بلند آواز سے آمیں کہتے اور حضرت بھی آمین فرما دیتے، بسا اوقات یوں بھی ہوتا کہ صاحب حاجت کچھ عرض کرتا تو آپ اسی جملے کو دہرا دیتے اور اس کی حاجت پوری ہوجاتی۔

    29 صفر 1356 ہجری بمطابق 11 مئی 1937 عیسوی کو شاہباز اوج روحانیت نے اسمِ ذات شریف اللہ ایک دفعہ آہستہ مگر اسی طویل اور عمقین آواز میں زبانِ شوق اور قلبِ عرفان سے ادا فرمایا کہ اس کے گونج آپ کے دماغِ عالی سے لے کر قدمِ مبارک کے ناخنوں تک سارے بدنِ اطہر میں رگ وریشہ اور سینہ مجلی کی وسیع گھاٹیوں میں پھیل گئی، چہرۂ مبارک کیف وصال سے مجسم نیاز نظر آتا تھا پھر دوبارہ متوسلین کو الوداعی تلقین اسی طرح ذاتِ شریف کا اعادہ فرما کر رق بقبلہ ہوگئے۔

    صورت از بے صورتی آمد بروں

    باز شد انا لیہ راجعون

    دوسرے دن یکم ربیع الاول 1356 ہجری بمطابق 12 مئی 1937 عیسوی آٹھ بجے شام آپ کا جسم اطہر مسجد کے جنوبی باغ میں مدفون کیا گیا۔

    نعت رسول مقبول۔

    اَج سک متراں دی ودھیری ارے

    کیوں دَلڑی اداس گھنیری اے

    لوں لوں وِچ شوق چنگیری اے

    اج نیناں لائیاں کیوں جھڑیاں

    اسی صورت نوں میں جان آکھاں

    جاناں کہ جانِ جہاں آکھاں

    سچ آکھاں تے رب دی شان آکھاں

    جس شان توں شاناں سب نبیاں

    ایہہ صورت ہے بے صورت تھیں

    بے صورت ظاہر صورت تھیں

    بے رنگ دے اس مورت تھیں

    وِچ وحدت پھٹیاں جد گھڑیاں

    دسے صورت راہ بے صورت دا

    توبہ راہ کی عین حقیقت دا

    پر کم نہیں بے سوجھت دا

    کوئی ورلیاں موتی لے تریاں

    سبحان اللہ ُ ما اجمَلَکَ

    ما اَحسنَکَ ما اکمَلَک

    کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا

    گساخ اکھیں کتھے جاں اڑیاں

    مہر علی شاہ کا جذبہ استقامت : آپ کی اسی استقامت نے ابنائے ملت میں عزت و خود داری کے جذبے کو بیدار کیا، ایما و عمل میں جذبہِ عشق محمد مصطفیٰ کی جوت جگائی اور اسے جذبہ جہاد سے سر شار کیا، یہی وہ سورۂ اسرافیل تھا جس نے قوم کے عروق مردہ میں روحانیت کا تر وتازہ خون دوڑا دیا، قوم موت سے بے خوف ہوگئی، والہانہ عشقِ رسول کریم کے جام جم سے سیراب ہوکر راہِ استقامت پر گامزن ہوئی، فتنہ مرزائیت ملت کے لئے ایک ناسور سے کم نہ تھا، اس کا آپ نے جس عزم و ہمت سے قلع قمع کیا اور علمی دنیا کو سیف چشتیائی ایسی تصنیف سے بہرہ مند کیا، وہ ملت کے علمی سرمایہ میں انتہائی قابلِ قدر اضافہ ہے، انگریز کے زرخرید علما نے ملت کو حبل اللہ کے اعتصام سے جس طرح آزاد کرنے کی کوششیں کیں وہ اظہر من الشمس ہیں، قادیانیت پر کاری ضرب کے بعد اہلِ قرآن کے نام سے قائم کردہ نے ملت کو نبی کریم رؤف رحیم سے علیحدہ کرنے کی بھر پور کوششیں شروع کر دیں آپ نے فتوحات میں اس گروہ پر سخت گرفت کی اور بقول اقبال۔

    مصطفیٰ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست

    اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولبہی است

    کی راہ مستقیم پر جاوہ پیما ہونے کی تلقین فرمائی، حدیثِ رسول کریم کو ترک کر کے یا پھر مجتہدین فقہ کی مخصانہ مساعی کو ترک کر کے صرف قرآن حکیم یا مجوعہ احادیث سے رہنمائی اور اس کی اولین شرع بزبان و عمل محمد مصطفیٰ کو مرکزی حیثیت دیئے بغیر منشائے الٰہی کو سمجھنا سرا سر ناممکن ہے، اس سبق کا عام کرنا آپ کے عمودی درس کا حصہ رہا، فتوحات میں اس پرفتن گروہ پر 12 سوال اب تک جواب کے منتظر ہیں اور آپ کے اس فرمان کی تصدیق ہیں کہ ان شاء اللہ یہ لوگ قیامت تک ان سوالوں کا جواب نہ دے سکیں گے اس سے صاف ظاہر ہے کہ اعتقادات میں صحابہ کرام تابعین تبع تابعین اور صدیق و صلحا امت ہی کا طریقہ مبنی بر حق اور علیٰ منہاجِ نبوت ہے، دیگر تمام طریق گمراہی و ضلال ہیں۔

    وصال : مہر علی شاہ کا وصال 29 ماہ صفر المظفر 1356 ہجری بمطابق 12 مئی 1937 عیسوی آٹھ بجے شام کو 81 برس کی عمر میں ہوا آپ نے دین اللہ کی بے پناہ خدمت کی اور ہزاروں گم کردہ راہ لوگوں کو حق کا راستہ دکھایا، پیر سید غلام معین الدین اور پیر سید شاہ عبدالحق آپ کے صاحبزادے ہیں جو آپ کے نقش قدم پر چلتے نظر آتے ہیں ان کے وصال نے لاکھوں دلوں کو سوگوار کیا، آپ ہی کا ایک شعر ہے۔

    جے لکھ برساں جیوے کوئی روڑک اک دن مرنا

    مزارِ مقدس کی تعمیر : مزار مقدسہ کی تعمیر کے سلسلہ میں تین سال بعد جب آپ کے جسم اطہر کو قبر سے نکالا گیا تو باقی مشائخ و سجادگان و صلحا ملت میں بوصال شریف کے مشائخ سبقت لے گئے اور سب سے پہلے گولڑہ شریف پہنچے، قبلہ بابو جی نے فرمایا کہ کہ ہم نے اس سارے عمل کو صیغۂ راز میں رکھا ہوا تھا، آپ کو کیسے علم ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ قبلہ عالم نے خود ہی بتایا ورنہ ہمیں کیسے خبر ہوتی، تین دن بعد آپ کو دوبارہ قبر شریف اتارا گیا تو لاکھوں زائرین حاضرِ خدمت تھے۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے