Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

حضرت شاہ وجیہ الدین علوی گجراتی

معارف

حضرت شاہ وجیہ الدین علوی گجراتی

معارف

MORE BYمعارف

    دلچسپ معلومات

    ماہنامہ معارف (اعظم گڑھ)

    از : مولانا سید ابوظفر ندوی (مدرس : عربی و فارسی مہاودیالے، احمدآباد)

    گجرات میں سینکڑوں علما اور اتقیا پیدا ہوئے اور چل بسے لیکن گجرات کے آسمان پر دو ایسے آفتاب و ماہتاب چمکے جن کے علمی کارناموں کی شعاعیں ابھی تک پرتو فگن ہیں، ان میں سے ایک محدث بے بدل علامہ شیخ محمد طاہر پٹنی (گجراتی) ہیں اور دوسری مقدس ہستی حضرت شاہ وجیہ الدین علوی گجراتی کی ہے، ان سے پہلے نہروالہ پٹن (انہل واڑا) اور احمدآباد میں متعدد مدارس موجود تھے اور مختلف علمی مرکزوں سے لوگ فیضیاب ہوتے تھے لیکن جب سے ان دونوں بزرگوں کا وجود ظہور پذیر ہوا، علمی دنیا میں نیا انقلاب پیدا ہوا اور تشنگانِ علم کی جس کثرتِ تعداد نے ان سے سیرابی حاصل کی، گجرات میں شاید ہی کوئی دوسری ذاتِ بابرکات ان کے مدِّ مقابل نکلے، ان میں سے خصوصیت سے شاہ وجیہ الدین کا فیضان مدرسہ اور تلامذہ کی شکل میں صدیوں رہا اور گجرات ان کے دم قدم سے مدت تک منور رہا لیکن افسوس ہے کہ گجرات کے باہر کے لوگ ان سے اور ان کی تصنیفات سے بہت کم واقف ہیں اس لئے ضرورت ہے کہ ان کے حالات لکھے جائیں۔

    نام ونسب :- شاہ صاحب کا اصلی نام سید احمد ہے مگر دنیا ان کو وجیہ الدین کے نام سے جانتی ہے، سلسلۂ نسب یہ ہے، وجیہ الدین احمد بن قاضی نصراللہ بن قاضی سید عماد الدین بن قاضی سید عطاؤلدین بن قاضی سید معین الدین بن سید بہاؤالدین بن سید کبیر الدین، اسی طرح سلسلہ امام محمد تقی تک پہنچتا ہے۔ سید کبیر الدین صاحب کا اصل وطن یمن تھا لیکن مکہ معظمہ میں آکر مقیم ہو گئے تھے اور اسی لحاظ سے بعض لوگوں نے ان کو مکی بھی تحریر کیا ہے، کہتے ہیں کہ سید بہاؤالدین ایک دن خانۂ کعبہ میں معتکف تھے کہ ان کو بذریعۂ کشف ایسا معلوم ہوا کہ سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہند کے صوبۂ گجرات میں جاکر خلق کی ہدایت کرو، چنانچہ آٹھویں صدی کے آخر یا نویں صدی کی ابتدا میں بہ عہدِ مظفر شاہ اول گجرات تشریف لائے اور مقامِ پاٹری ضلع جھالاواڑ میں توطن اختیار فرمایا اور ہدایتِ خلق میں مشغول ہوگئے، قرینہ و قیاس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خسَکی سے دہلی یا اُچھ ہوتے ہوئے تشریف فرما ہوئے ورنہ بحری راستہ سے کنبھائت یا بھروچ اتر کر کہیں مقام ہونا چاہئے تھا، یا ممکن ہے کہ بحری راہ سے تشریف لائے ہوں اور خصوصیت سے جھالا واڑ جیسے کوہستان کو ارشاد و ہدایت کے لیے انتخاب فرمایا ہو۔

    ان کے بعد سید معین الدین ان کے لڑکے جانشین ہوئے اور حکّامِ وقت کی طرف سے محکمۂ قضا ان کے سپرد ہوا اور پھر ان کے لڑکے قاضی سید عطاؤالدین اور پوتے قاضی سید عمادالدین بھی اس محکمہ سے منسلک رہے اور مختلف ضلعوں میں بہ حیثیتِ قاضی کام انجام دیتے رہے، شاہ وجیہ الدین صاحب کے والد ماجد قاضی نصراللہ محمود بیگڑہ کے آخر عہد میں بمقامِ چانپانیر قاضی کے عہدہ پر مامور تھے اور ان کی خصوصیت یہ تھی کہ مشتبہ امور سے بہت احتراز فرماتے تھے۔

    سلطان مظفر حلیم ان سے بہت خوش تھا، اس لیے احمدآباد اپنے ساتھ لاکر اپنے محل کے پاس امامت کے لیے جگہ دی، یہ وہی مقام ہے جس کو آج خانقاہ (یا درگاہ) شاہ وجیہ الدین کے نام سے لوگ موسوم کرتے ہیں۔

    ولادت:- شاہ صاحب کی ولادت 22 محرم سن 910 کو بمقام چانپانیر ہوئی، لفظ شیخ سے ان کی ولادت کی تاریخ نکلتی ہے، تقریباً سات آٹھ برس تک چانیانیر میں مقیم رہے، کیونکہ سن 917 ہجری میں سلطان محمود بیگڑہ کے انتقال پر سلطان مظفر حلیم تخت نشین ہوا جس نے قاضی نصراللہ کو اپنے ساتھ لاکر احمدآباد میں مقیم کیا۔

    تعلم:- سات آٹھ برس تک آپ اپنے والدین کے کنارِ عافیت میں پرورش پاتے رہے، قدرت نے بھی اپنے عطیات میں کسی قسم کا بخل نہیں کیا تھا، ذہانت، ذکاوت، یادداشت کا مادہ، ابتدا سے موجود تھا چنانچہ سات سال کی عمر میں انہوں نے قرآن مجید حفظ کر لیا اور آٹھ سال تجوید کے ساتھ قرآنِ پاک علما کے سامنے سنایا اس کے بعد علومِ متداولہ میں مشغول ہوئے، اور اپنے چچا سید شمس الدین صاحب سے ابتدائی کتابیں پڑھیں پھر اپنے ماموں سید ابوالقاسم صاحب سے حدیث کا درس لیا، 14-15 سال کی عمر میں علامہ محمد بن محمد ملکی سے حدثِ کا اختتام فرمایا اور سب سے آخر میں محدث ابوالبرکات بنبانی عباسی کو حدیثیں سنائیں۔

    علومِ عقلیہ محقق جلال الدین دوانی کے شاگرد مولانا عمادالدین طارمی اور ابو الفضل مظہرالدین محمد گاوزرونی جیسے علامۂ عصر سے حاصل کئے مولانا طارمی چند واسطے سے علامہ سید شریف جرجانی (متوفیٰ 816ھ ) سے بھی تلمذ کی نسبت رکھتے تھے، اس وقت مولانا موصوف کی تصانیف میں سے ضابطۂ تہذیب کی شرح (قلمی) اور علامہ گاوزرونی کی یادگار حاشیہ بربیضاوی قلمی کتب خانہ حضرت پیر محمد شاہ احمدآباد میں موجود ہے، 24 سال کی عمر میں شاہ صاحب نے علومِ ظاہری کی تکمیل فرمائی اور 'وجیہ' مادۂ تاریخ ہے۔

    بیعت طریقت:- ابتداً اپنے والد ہی سے چشتیہ اور مغربیہ طریقوں کو سیکھتے رہے لیکن کچھ دنوں حضرت شاہ قاضن چشتی کی صحبت سے بھی مستفیض ہوئے، اُن کے انتقال کے بعد میاں بدرالدین ابوالقاسم سہروردی کی طرف متوجہ ہوئے اور حضرت نجم الدین کی صحبت میں بھی رہتے، بسااوقات جب جذبہ کا شوق غالب آتا تو حضرت سید کبیر الدین مجذوب سے ملاقات فرتے اور دردِ دل کی شکایت فرما کر علاج کے طالب ہوتے پھر کچھ دنوں کے بعد حضرت سید محمد غوث گوالیاری تشریف لائے، شاہ صاحب ان سے ملے اوراس درجہ کامل ہوکر سند اور خرقۂ خلافت حاصل کیا۔

    مدرسہ کی بنیاد:- 934 ہجری میں تکمیلِ تعلیم کے بعد درس و تدریس کی طرف توجہ کی اس وقت ان کی عمر چوبیس یا پچیس سال کی تھی، ابتدائے درس کا تاریخی مادّہ شیخ وجیہ ہے، یہ سلطان بہادر شاہ گجراتی کا ابتدائی عہد تھا یعنی اس کی تختِ نشینی کو صرف دو تین سال گذرے تھے، عہدِ قدیم میں دستور تھا کہ صاحبِ علم و فضل جہاں بیٹھ جاتا کچھ دنوں کے بعد وہی مقام اپنے وقت کا بہترین کالج ہوجاتا اور آہستہ آہستہ امرا اور سلاطین کی توجہ سے طلبہ کے لئے تمام سہولتیں بہم پہنچائی جاتیں، شاہ صاحب نے جب 935 ہجری میں باقاعدہ ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی تو بہت جلد اس کی مقبولیت ہوگئی، طلبہ کے رہنے کے لئے حجرے بھی تعمیر ہوگئے اور وظائف کا بھی انتظام ہوگیا، شاہی مطبخ سے روزینہ پینتیس ماہانہ بھی ملنے لگا، طلبہ کے علاج کے لئے ایک طبیب ماہانہ پر تھا، آپ نے اس مدرسہ میں 46 سال تک تعلیم دی اور مشہور ہے کہ اس مدت میں کبھی آپ نے قصداً مدرسہ بند نہیں فرمایا اور نہ اسباق کا ناغہ ہونے دیا، ہر علم و فن کی تعلیم یہاں ہوتی تھی، ابتدا میں غالباً وہ تنہا مدرس تھے لیکن رفتہ رفتہ اساتذہ کی تعداد بڑھتی رہی، اور طلبہ کے انتہائی ترقی پر ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے تلامذہ بھی اپنا وقت تدریس میں صرف کرتے ہیں جو خود ابھی فارغ نہیں ہوئے ہیں، مندرجۂ ذیل علوم و فنون کی تعلیم یہاں ہوتی تھی، ابتدائی تعلیم کے علاوہ تفسیر مع اصول، حدیث مع اصول، فقہ مع اصول، معانی و بلاغت، منطق، فلسفہ، ہیت، مناظرہ، ادب وغیرہ علومِ ظاہری کی تکمیل کر لینے پر جن تلامذہ کو تصوف کی طرف رجحان ہوتا، تو اس کی بھی تعلیم دیتے، ان کے علاوہ ایسے اشخاص جو باہر سے آکر اس چشمۂ فیض سے سیراب ہوتے ان ان لوگوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے، فتویٰ نویسی کا بھی باقاعدہ انتظام تھا اور خاص اس کام پر ذمہ دار اشخاص کا تقرر فرماتے تھے، عام فتوں کو چھوڑ کر جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا تو خود اس پر غور فرماتے اور تحقیقی جواب تحریر فرما کر اپنے دستخط سے اس کو مزین فرماتے۔

    خود سلطنت بھی کسی امر مہم میں بغیر آپ کے دستخط کے احکام نافذ نہیں کرتی اور ایسے امر کو مشتبہ سمجھتی جس میں آپ کے دستخط نہ ہو، چنانچہ سید محمد غوث گوالیاری کے متعلق جب علمائے وقت نے جن کے سرگروہ شیخ علی متقی تھے، کفر اور قتل کا فتویٰ لکھ کر بطورِ محضرنامہ کے سلطان محمود ثالث کے سامنے پیش کیا تو سب سے پہلے سلطان موصوف نے یہی سوال کیا کہ اس پر شاہ وجیہ الدین کے دستخط کیوں نہیں ہیں، غرض سلطان کو وزرا کے جواب سے تشفی نہیں ہوئی اور خود حاضرِ خدمت ہوکر شرفِ قدمبوسی حاصل کیا اور جواباتِ شافیہ سے متاثر ہوکر محضرنامہ کو رد کردیا اور سید موصوف کو بری قرار دیا۔

    تلامذہ:- تلامذہ کا دائرہ بہت وسیع تھا، اسّی (80) کی تعداد صرف ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اطرافِ ملک میں منتشر ہوکر مدرسے قائم کئے اور خود صاحبِ درس ہوئے، شاہ صاحب کی کمال ِخوش نصیبی یہ ہےکہ اپنی زندگی ہی میں شاگردوں کے شاگرد کو مسندِ علم پر رونق افروز ہوکر درس و وعظ کے ذریعہ خلق کو ہدایت کرتے دیکھا، گویا ان کی زندگی کا اصل منشا آپ کے سامنے ہی پورا ہوگیا۔

    شاہ صاحب کے والد کی وفات:- 20 محرم 958 ہجری میں آپ کےوالد کا انتقال ہوگیا، اس وقت آپ کی عمر 48 سال کی تھی اور تعلیم و تعلم کے سلسلہ کو بھی 24 سال ہوچکے تھے، ان کے والد ماجد قاضی نصراللہ نے بھی عمر طویل پائی، وہ سلطان محمود اول بیگڑہ عہدِ وسط میں پیدا ہوئے اور سلطان محمود ثالث کے عہد میں وفات پائی، عمر بھر خوش حال رہے اور اکابرِ شہر میں معزز اور معاصرین میں ممتاز، آپ کی وفات کا مادۂ تاریخ ہے لہٗ جنّات الفردوسِ نزلاً'' (958)۔

    شاہ صاحب کی وفات:- شاہ وجیہ الدین صاحب 29 محرم 998 بروز یک شنبہ صبح صادق کے وقت اس دارِ فانی سے عالمِ جاودانی کو رخصت ہوئے، اس وقت ان کی عمر 88 برس کی تھی، ان کا مزار مدرسہ کے وسطِ صحن میں بنایا گیا جو اس وقت تک زیارت گاہِ عام و خاص ہے امرائے اکبر میں سے ان کے معتقد صادق خان نے روضہ کی عمارت تیار کی اور امرائے جہانگیری میں سے فرید خان المخاطب مرتضیٰ خان بخاری نے اپنے عہدِ صوبہ داریِ گجرات سن 1014/1018 ہجری میں مرقد کے اوپر چھتری تیار کی جس پر سیپ کا کام نہایت اعلیٰ درجہ کا ہے اور مندرجۂ ذیل اشعار کندہ ہیں۔

    مرتضیٰ خان فرید دریا دل

    فیض دانی ورحمتِ شامل

    عرش بر طرح کرد از ہمت

    برسرِ قبر مرشدِ کامل

    محوِ دیدارِ حق وجیہ الدین

    آں بموتو حیاتِ خود واصل

    در برِ شاہدِ ازل خفتہ

    از شرابِ وصال لا یعقل

    ہست عین حضور آگاہی

    غفلت اورا نمی کند غافل

    کعبۂ از درون چنان روشن

    کہ جدارش نمی شود حائل

    قبلۂ حاجت و مقام مراد

    مبدأ فیضِ عارف و کامل

    سالِ تاریخِ او ز غیب رسید

    تا فلک باد باد بانیِ ایں

    تا جہاں باد باد ایں منزل

    عرشِ اسلام قبلۂ مقبل

    سے تاریخ نکلتی ہے، جو 1007ھ ہوتی ہے، میرے خیال میں کوئی حرف چھوٹ گیا ہے، جس کے سبب سے دس عدد کم ہوتے ہیں، کیونکہ فرید خان کا عہد سن 1014 سے سن 1018ھ تک ہے اس لیے اس کی بنا 1070ھ غالباً ہوگی، ایک شبہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ممکن ہے کہ سن 1007 ہی میں تیار کرایا ہو لیکن اشعار سے خود اس کی تردید ہوتی ہے، 1007ہجری عہدِ اکبری میں اس وقت فرید خان کو امرائے اکبری میں کوئی امتیازِ خاص نہ تھا اور نہ اس وقت تک اس کو مرتضیٰ خان کا خطاب عطا ہوا تھا، سن 1014ہجری میں جب اکبر نے وفات پائی اور جہانگیر تخت نشین ہوا تو اس کو جہانگیر نے اس خطاب سے سرفراز کیا اور گرات کا گورنر بناکر بھیجا اور یہ اس وفاداری اور کارگذاری کا صلہ تھا کہ جب جہانگیر اپنے باپ اکبرِ اعظم سے باغی ہوکر ادھر ادھر پھر رہا تھا اور پھر امرائے دربار کے خوف سے اسی فرید خان کے گھر روپوش ہو گیا تھا اس لئے فرید خان سن 1007ہجری میں نہ گورنر تھا، نہ مرتضیٰ خان

    شاہ وجیہ الدین صاحب کی وفات کی تاریخ لھم جنات الفردوس نزلا ایک شخص نے تحریر کی ہے جس سے 998 ہجری کی تاریخ نکلتی ہے اس تاریخ میں دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی تاریخ خفیف تغیر سے شاہ صاحب کے والد کی وفات کی بھی ہے یعنی 'لہٗ، اور 'لھم' کے فرق سے دونوں کی الگ الگ تاریخیں نکلتیں ہیں اس سے بھی زیادہ دلچسپ تاریخ آپ کے تلمیذ رشید مولانا عبدالعزیز نے تحریر ہو، جو ان کی ذہانت اور فطانت کی بین شہادت ہے چنانچہ آپ کی رحلت کی تاریخ شیخ وجیہ دین'' نکلالی ہے پھر شیخ سے سال ولادت اور وجیہ سے مدتِ تکمیلِ علوم و فنون اور شیخ وجیہ دین نکالی ہے، پھر شیخ سے سالِ ولادت اور وجیہ سے مدتِ تکمیلِ علوم و فنون اورشیخ وجیہ سے آغازِ تعلیم و تعلم اور لفظ دین سے کل مدتِ تدریس و ہدایت اور وجیہ دین سے کل مدتِ عمر نکلتی ہے، اس کے علاوہ دوسرے لوگوں نے بھی مختلف تاریخیں لکھی ہیں مثلاً علویؔ صاحب جمال بہشت، بہ بہشت مسکن وجیہ الدی، آخرالاولیا وجیہ الدین وغیرہ وفات کے بعد لوگوں نے ان کے بہت مرثیے کہے جو اردو، فارسی، عربی ہر زبان میں موجود ہیں، مولانا ابراہیم دکنی کا عربی مرثیہ بہت پُر درد اور پُر اثر ہے، اس کے بعض اشعار یہ ہیں۔

    الیٰ احمداٰباد احسن تشوق

    یحب الذی اھواہ قلبی تفاخراً

    فذاک وجیہ الدین دو الجالا لا یری

    عراہ لطلاب الھدایہ مقصد

    وھادٍ الی نحوالرشاد مرشد

    مشہور شاعر ولی گجراتی نے بھی متعدد قصیدے ان کی شان میں تحریر کئے ہیں جن میں سے ایک بند مندرجہ ذیل ہے۔

    اے تو ہے آفتابِ عالم تاب

    فیض تیرے سے جگ ہے مقصدیاب

    دل تیرا کانِ علم وبحرِ عمل

    ہر معانی ہے اس میں درِّ خوش آب

    روئے انور کی تیرے دیکھ ضیا

    رشک سے آفتاب ہے بے تاب

    متفق ہو کے عاقلان نے کہا

    دل کو تیرے جگت میں لبِّ لباب

    فکر تیری ہے آب دانش وہوش

    ہر گلِ عقل تجھ سے ہے سیراب

    اے تو مجموعۂ فراستِ تام

    دل تیرا مطلبِ ہزار کتاب

    تا قیامت گریز پا نہ رہے

    تجھ محبت کی آگ سے سیماب

    مانگتے ہیں مدد سے تجھ شہ کی

    روز شب چند رستم و دار اب

    اس زمانے میں بے گمان بے شک

    تجھ میں ہے سب طریقۂ اصحاب

    اے امامِ جمیع اہل یقین

    قبلۂ راستان وجیہ الدین

    سیاسی امور:۔ شاہ صاحب کی 88 برس کی عمر میں وفات ہوئی اور اس عمر میں دس گیارہ بادشاہوں کا عہد پایا، سات برس کی عمر تھی جب سلطان محمود بیگڑے نے وفات پائی، زمانہ کی 22 بہاریں جب آپ نے دیکھیں تو سلطان مظفر دوم چل بسا اور اسی سال سکندر گجراتی مقتول اور محمود دوم معزول ہوا، 23 سال کی عمر میں سلطان بہادر گجراتی کو سمندر میں ڈوبتے ہوئے دیکھا، دہلی کے ہمایوں بادشاہ اور سطان محمد فاروقی (خاندیس) کی چند روزہ بہار بھی آپ کی نظروں سے گذری، 51 سال کے دور میں سلطان محمود ثالث کو ہزر پیکر میٹھی نیند سوتے ہوئے دیکھا جب آپ نے عمر کی 58 منزلیں طے کیں تو سلطان احمد ثانی کو سابرمتی کے کنارے مردہ پڑا پایا، دنیائے فانی کی خزاں ستر موسم گذرنے پر سلطان مظفر سوم ایک قیدی کی حیثیت سے اکبر کے دربار میں کھڑا نظر آیا اور اس صدی کے اختتام پر اکبر کے جاہ و جلال کا بھی نظارہ کیا، آپ نے اس علم و فضل اور کثیر مقلدین و مریدن کے باوجود کبھی کسی سیاسی کام میں دخل نہیں دیا اور نہ حکام اور عمال سے ملنے کی کوشش کی، آپ کے آخری عمر میں اس قدر جلد جلد سیاسی انقلابات برپا ہوئے اور نسانی خون کو جس طرح بیدریغ بہتے ہوئے ملاحظہ فرمایا، قدرتی طور پر آپ اس سے بے حد متاثر ہوئے ہوں گے اور دنیا کی اس بے ثباتی نے تصوف میں جورنگ آمیزی کی ہوگی اس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جو اس بادۂ عرفان کا جرعہ کش ہو، تاہم ظاہر بینوں کے لیے شرح کلید مخازن اور شرح جام جہان نما ایک ایسا مصفا آئینہ ہے جس میں اس کی جھلک بآسانی دیکھی جاسکتی ہے۔

    اخلاق وعادات:- اخلاق کے لحاظ سے بھی آپ کی ذات اپنے ہم عصروں سے بہت ارفع تھی، تقویٰ آپ کا خاص شعار تھا اورمشتبہ امور سے پرہیز کرنا گویا آپ کی فطرت تھی، آپ احتیاط کے کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ چاہے کسی قدر بھی تکلیف اٹھانی پڑے۔

    تقویٰ:- اسی سبب سے آپ اپنی غذا خود محنت سے حاصل کرتے اور اپنے والد ماجد کے یہاں کھانے سے احتیاط رکھتے تھے، عرصہ کے بعد آپ کے والدین کو اس معاملہ کی خبر ہوئی اور والد کے استفسار پر آپ نے عرض کیا کہ آپ قاضی ہیں اور بہت ممکن ہے کہ ملازمین آپ کے لین دین میں مشتبہ امور کا خیال نہ کرتے ہوں، قاضی صاحب نے کہا میں ہمیشہ تقویٰ کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہوں اور ہر معاملہ میں کمال احتیاط رکھتا ہوں اور غالباً اسی کا صلہ ہے کہ تمہارا جیسا نورعین خدا نے مجھے عنایت فرمایا جو میرے ہی طرح کمالِ محتاط ہے۔

    حق گوئی:- آپ میں حق گوئی کا مادہ بھی بہت تھا اور کبھی کبھی اس کے سبب سے بڑے بڑے خطرہ میں مبتلا ہو جانا پڑتا تھا، اکثر اوقات لوگ اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھ جاتے اور بوقتِ ضرورت لے جاتے، اس طرح آپ کےمکان میں قیمتی امانتوں کا خزانہ جمع ہوگیا تھا، 981 ہجری میں ایک عجیب واقعہ ظہور پذیر ہوا، اس محلہ میں ایک مفلس مغل رہتا تھا جس کی ملاقات اسی خانوادہ کی کسی خادمہ سے تھی، ایک دن اس خادمہ نے اس راز سے آگاہ کردیا، اس مغل نے کوتوال شہر کو اس شرط پر بتانے کا وعدہ کیا کہ اس میں سے کوئی حصہ کا بھی مقرر کیا جائے، کوتوالِ شہر نے اپنے وزیر (نائب) میر علاؤالدین کو تحقیقات کے لئے بھیجا جس نے مکان سے قیمتی ہوتی، بہترین جواہرات، مرصع زیورات اور بے شمار سونے کے سکّے برآمد کئے، واپسی کے وقت شاہ صاحب کو اپنے گھوڑے کے آگے پیدال دیوان تک لایا اور گھوڑے کے تیز چلنے سے آپ کو بھی بہ تکلف تیزی سے قدم بڑھانے پڑتے، عوام اور خواص نے آپ کی اس تکلیف کو محسوس کیا، دیوان میں بڑے بڑے امراء موجود تھے، جن کو مطلق اس واقعہ کی اطلاع نہ تھی، چنانچہ جب مجلس کے کنارے جناب شاہ صاحب پہنچے تو سید میران بخاری، مرزا مقیم، سید جیو عبدالرحمٰن اور شاہ ابوتراب شیرازی وغیرہ تعظیماً سب کھڑے ہوگئے اور ان کو دیکھ کر تمام امرائے مغل نے بھی تقلید کی، سید میران بخاری نے جو شاہ صاحب کو اس حال میں دیکھا تو غیرت سے عرق عرق ہوگئے پھر جو اصل حقیقت معلوم ہوئی تو غصہ سے شیر کی طرح بپھر پڑے، غصہ سے چہرہ کا رنگ اس قدر متغیر تھا کہ لوگوں نے محسوس کیا، جب جناب شاہ صاحب سے حاکم نے سوالات کرنے کا ارادہ کیا تو سید مذکور آپ کے بغل میں آکر بیٹھ رہے تاکہ بوقتِ ضرورت ہر طرح کی مدد کرسکیں، ان حالات کو دیکھ کر حاکم نے بھی صرف ایک سوال پر اکتفا کیا کہ منادی نے شہر میں جو ڈھنڈورا پیٹا، کیا اس کی خبر آپ کو نہیں ملی، مطلب یہ تھا کہ سرکار کے طرف سے عام طوپر مشتہر کردیا تھا کہ کوئی باغی کو پناہ دے اور نہ اس کی مدد کرے اور نہ اس کا مال واسباب اپنے پاس رکھے، بلکہ اس قسم کا تمام مال سرکاری خزانہ میں داخل کرے، آپ نے ارشاد فرمایا کہ اول تو مجھ کو اس کا علم نہیں ہے، اس کے علاوہ شریعت میں یہ جائز نہیں ہے کہ امانت کو ظاہر کر کے ضائع کیا جائے۔ حاکم نے اس جواب کے بعد آپ کو رخصت کردیا۔ سید حامد بخاری اپنی خاص سواری پر آپ کے ساتھ مسجد تک تشریف لائے اور کچھ دیر بیٹھ کر آپ کو تسلی و تشفی دیتے رہے اور پھر رخصت ہوکر واپس گئے، جناب شاہ صاحب کا قلب اس ناگوار واقعہ سے کئی دن تک مضطرب رہا اور درس ملتوی کردیا۔ حالانکہ تدریس کا کام عمر بھر میں کبھی ناغہ نہیں ہوا تھا۔

    مصطف ظفر الوالہ اس واقعہ کے بعد لکھتا ہے کہ ایک نیک بخت آدمی سے کسی نے کہا کہ تمہارا لڑکا گرگیا۔ یہ سن کر اس نے بڑا واویلا مچایا، لوگوں نے اس کی تسلّی کے لئے کہا کہ وہ بہت اونچے سے نہیں گرا ہے، تب اس نے کہا کہ اگر وہ بہت اونچے سے بھی گرتا تو مجھے اتنی پرواہ نہیں ہے، میں تو سمجھا کہ کسی اہل اللہ کی نظر سے گر گیا، یہی حال اس واقعہ میں ہوا کہ وزیر میر علاؤالدین کچھ ہی دنوں کے بعد اسی حاکم کے ہاتھ سے رسی سے بندھوا کر مارا گیا، اور وارثوں کی فریاد پر خود حاکم قصاص میں قتل ہوا اور مرزا عزیز کو کلتاش ملقب بہ خان اعظم جو اس صوبہ کا حاکم اعلیٰ تھا معتوب سلطانی ہوکر ایک باغ میں گوشہ نشین ہوا۔

    اسی طرح جب 975 ہجری میں چنگیز خان (جو عماد الملک کا لڑکا تھا اور عماد الملک امرائے محمودی میں سے تھا) نے محرم کی رسم بخلافِ سلاطین ماضیہ کے سرکاری طور پر منائی، اور ہر قسم کی بدعتیں جاری کیں اور سیاہ ماتمی لباس زیب تن کر کے سروپا برہنہ تعزیہ کے ساتھ بازاروں میں گشت لگایا۔ تو باوجود اس کے کہ تمام سادات، علما اور امرا نے اس کو سخت ناپسند کیا اور عوم نے اس کو بہت ہی برا سمجھا مگر کسی کی ہمت نہ پڑی کہ اس کے خلاف زبان کھولے، جناب شاہ صاحب ہی وہ شخص تھے جنہوں نے عوام و خواص کی ترجمانی کر کے صدائے احتجاج بلند کی اور چونکہ اس وقت احمد آباد میں سوائے الغ خان کے کوئی امیر بااثر نہ تھا اس لیے الغ خان کے پاس آدمی بھیج کر اس کی شکایت کی، چنانچہ دوسرے ہی مہینہ چنگیز خان کا کام تمام کردیا گیا۔

    رحم:- شاہ صاحب بڑے رحم دل تھے، جب کبھی ایسا واقعہ پیش آتا جہاں آپ کچھ کر سکتے تو ہر گزر دریغ نہ فرماتے، ایک واقعہ تفاقاً ایک جگہ سے گذرے، دیک قیدی کو قتل کے لیے لیجا رہے ہیں، اس نے آپ سے رہائی کے لئے التجا کی اور اس کی حالت کو ملاحظ کر کے آپ نے لوگوں سے تحقیقات کرائی معلوم ہوا کہ واقعی یہ شخص بے گناہ ہے اور در اصل مجرم کوئی دوسرا ہے چنانچہ آپ فوراً بادشاہِ وقت سے سفارش کی اور بادشاہ نے یہ کہہ کر فوراً رہائی کا حکم صادر فرمایا کہ یہ شخص تو بے گناہ ہے، اس کو تو رہا ہونا ہی چاہئے لیکن اگر آپ مجرم کی سفارش فرماتے تو بھی میں رہا کر دیتا۔

    مظلوم کی داد رسی:- چونکہ آپ فطرتاً رحم دل واقع ہوئے تھے، اس لیے جب کوئی مظلوم نظر سے گذرتا اور آپ اس کی مدد فرماسکتے ہوں تو کبھی دریغ نہ فرماتے اور حتی الامکان اس کے ساتھ سلوک کرنے اور اس کی حاجت روائی میں سعی بلیغ فرماتے، ایک مرتبہ کچھ غریب عورتیں آپ کے پاس حاضر ہوئیں اور فریاد کی کہ میرے کچے مکانات حکام گرا دینا چاہتے ہی، ہم غیرپکے عالی شان مکانات کیوں کر تعمیر کریں، آپ نے تمام حالات سن کر ایک خط بادشاہِ وقت کو لکھا جس کو دیکھ کر بادشاہ نے ان مکانات کو شاہی خرچ سے پختہ تعمیر کرا دیا، اسی طرح جب چنگیز خان طوائف الملوکی سے فائدہ اٹھا کر 974 ہجری میں احمدآباد پر قبضہ کر لیا اور دولت و سلطنت سے مخمور ہوکر حرمِ سلطانی پر دست درازی کرنی چاہی اور بیگمات نے حضرت شاہ صاحب سے فریاد کی تو چونکہ اس وقت کوئی کسی کی سنتا نہ تھا اور ہر امیر کوس لمن الملک بجا رہا تھا۔ اس لیے دفعِ ظلم کے واسطے بادشاہِ حقیقی سے دعا فرمائی جو فوراً مستجاب ہوئی، چنگیز خان چند ہی دنوں کے بعد مارا گیا اور مظلموموں نے نجات پائی۔

    سلاطین کی عقیدت:- اس خانوادہ سے سلاطین اور امرا کو ہمیشہ سے عقیدت رہی، سلاطین محمود بیگڑہ نے آپ کے والد ماجد کو چانپانیر کا قاضی بنایا اور اس کے لڑکے سلطان مظفر حلیم نے محض فرطِ عقیدت کے باعث چانپانیر سے ساتھ لا کر اپنے محل شاہی کے پاس ہی قیام کرنے کو جگہ عنایت کی، اس کی وفات کے وقت آپ کی عمر 22 سال کی تھی اور طلبِ علم مصروف تھے، بہادر شاہ گجراتی نے بھی بارہا دعائے خیر کی التجا کی۔

    سلطان محمود ثالث متعدد مرتبہ حاضرِ خدمت ہو کر شرفِ قدم بوسی حاصل کر چکا تھا، اس کے حسنِ عقیدت کا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ شاہ صاحب نے چند مظلومہ کی فریاد رسی کے بابت ایک خط سلطان محمود ثالث کو لکھا، اس نے تعمیلِ ارشاد کے بعد حکم دیا کہاس خط کو محفوظ رکھو اور بوقتِ تدفین میرے سینے پر رکھا جائے، شاید یہی نجات کا باعث ہو۔

    سلطان مظفر سوم جو گجرات کا آخری بادشاہ ہے متعدد بار حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا بلکہ بعض لوگوں نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ تخت نشینی کے وقت اس کی کمر میں تلوار آپ ہی نے باندھی تھی، اکبر بادشاہ جب گجرات آیا ہے تو باوجود اس کے کہ حاسدوں نے آپ کی طرف سے بادشاہ موصوف کو بدظن کرنے میں کوئی دقیقہ فردگذاشت نہ کیا تھا پھر بھی آپ سے ملنے کے بعد آپ کا بے حد احترام کیا اور خصوصاً چند مذہبی سوالات کرنے پر جو شافی جواب اس کو دیا گیا اس سے تو بہت ہی خوش ہوا، اکبر کے بعد جب جہانگیر تخت نشین ہوا اور بغرض تفریح احمدآباد آیا تو خصوصیت سے تین جگہ بغرض فاتحہ خوانہ گیا، شاہ عالم صاحب کے مقبرہ پر، سر کھیج شیخ احمد کٹھو کے مزار پر اور جناب سید شاہ وجیہ الدین صاحب کی درگاہ پر، امرائے دولت بھی ہمیشہ آپ کے عقیدت مند رہے، الغ خان جو آخری تاجدارِ گجرات سلطان مظفر سوم کے امرا میں سے تھا، آپ سے بڑی عقیدت رکھتا تھا، چنگیز خان کی ماں بھی آپ کی ارادت مند تھی، اکثر اوقات بیش قیمت چیزیں آپ کے یہاں امانت رکھوا دیتی تھی اور وہ برسوں آپ کے پاس رہتی تھیں، اسی طرح شیر خان بن اعتماد خان گجراتی وزیر سلطان مظفر سوم کا بھی آپ پر بڑا اعتماد تھا اور بارہا اس نے بھی بیش قیمت امانت آپ کے پاس رکھوائی، عہد اکبری میں خان اعظم، اور خان خاناں مرزا عبدالرحیم آپ کا ادب کرتے تھے، بلکہ کہا جاتا ہے کہ خان خاناں نے کچھ کتابیں بھی آپ سے پڑھیں اور آپ سے ترقیِ مراتب عالیہ کے لئے استدعا کی چنانچہ آپ نے اس کے لئے دعا فرمائی، آپ کی رحلت کے بعد امرأ اکبری میں سے صادق خان نے جس کو آپ سے بڑی عقیدت تھی آپ کے مقبرہ کی عمارت بنوائی، عہد جہانگیری کا مشہور امیر شیخ فرید خان المخاطب بہ مرتضیٰ خان نے قبر کے اوپر کی چھتری تیار کرائی۔

    مسئلۂ تکفیر:- علما کا دل پسند اور قدیم شغل تکفیر ہے، جناب شاہ صاحب کے عہد میں بھی اس شغل کا شوق پیدا ہوا، چنانچہ بعض لوگوں نے سید محمد غوث گوالیاری کے متعلق بھی کفر کا فتویٰ شائع کیا اور ایک خاص محضر نامہ آپ کے قتل کے لئے تیار کر کے بادشاہ کے سامنے پیش کیا لیکن جناب شاہ صاحب نے نہ صرف یہ کہ اس پر دستخط نہیں کئے بلکہ اس قسم کی تکفیر سے سخت مخالفت کی اور اس مسئلہ پر مفصل ایک رسالہ تحریر فرمایا، چھوٹی تقطیع پر بیس صفحے کا قلمی رسالہ ہے جس میں ابتداً فقہی کتابوں سے مسئلۂ تکفیر پر روشنی ڈالی ہے پھر احادیث سے سنداً سب کو شرح بیان کیا ہے، آخر میں صوفیائے کرام کے احوال سے بحث کی ہے کہ حالتِ سکر میں جو کہہ جاتے ہیں وہ قابلِ مواخذاہ نہیں ہوتا اور اس کی متعدد مثالیں دی ہیں پھر سید محمد غوث گوالیاری کی کتاب 'اورادِ غوثیہ' پر لوگوں نے جو اعتراضات کئے تھے ان کا جواب دیا ہے، اس کے علاوہ ہزاروں فتوے آپ کے قلم سے نکلے مگر کسی فتوی میں آپ نے اس طرف اشارہ نہیں کیا، آپ کا ارشاد یہ تھا کہ کسی شخص میں سو باتوں میں سے ایک بات بھی اسلام کی ہو تو اس کو مسلم سمجھو اور کسی کلمہ گو اہل قبلہ کو کافر نہ کہو۔

    خوشامد:- یہ بھی نظام طبعی کا ایک جزو ہے کہ جب کوئی شخص علو ہمتی سے بلند مرتبہ پر پہنچتا ہے تو کچھ لوگ اس کے مخالف اور کچھ خوشامد کرنے والے پیدا ہوجاتے ہیں، جناب شاہ صاحب کے عہد میں بھی یہ دونوں فرقے موجود تھے مخالفوں نے تو آپ کو اکبرِ اعظم کے دربار تک بہ حیثیت ایک مجرم کے بلوایا اور خوشامد کرنے والوں کی آنکھوں نے آپ کی ذات میں خداوند تعالیٰ کا جلوہ دیکھا، چنانچہ ایک صاحب تشریف لائے اور آپ سے مل کر برجستہ یہ شعر پڑھا۔

    نمی دانم کہ ایں ذات وجیہ الحق والدین ست

    کہ یا ذاتِ خدا وندِ تعالیٰ صورتِ ایں ست

    جناب شاہ صاحب نے اس سے فرمایا کہ حال بدست آر، و ایں قال را بگذار۔ کاش آج کل کے صوفیا، مرشدین بھی اپنے مرین کو اسی قسم کی تعلیم دیا کریں تو بے اعتدالی سے مسلمان اکثر اوقات محفوظ رہیں۔

    شاعری:- بہت کم لوگ ہوں گے جن کو اس کی واقفیت ہوگی کہ جناب شاہ صاحب شاعر بھی تھے، وجہی تخلص کرتے تھے اور فارسی میں کہتے تھے، رنگ وہی صوفیانہ والہانہ ہے، کوئی دیوان تو اس وقت تک دستیاب نہیں ہوا ہے لیکن متفرق بیاضوں میں منتشر کلام ملتے ہیں، چند شعر نمونہ کے لئے درج ذیل ہیں۔

    کے بگرد ما رسد ہر صعوۂ

    شاہ باز عرش پروازیم ما

    سرِّ وحدت را زبانِ دیگر است

    بامسیح و خضر ہم سرا زیم ما

    دیگر

    سردہم در گریہ چشم اشکبار خویش را

    برکنم از بختِ دل ہر دم کنارِ خویش را

    دل اگر بیگانہ شد از بیوفا بر ماچہ جرم

    آدمی نشناسدار پروردگارِ خویش را

    اردو کلام:- آپ کی بیشتر تصانیف تو عربی زبان میں ہیں اور کمتر فارسی میں، عدالت اور شاہ وقت کی زبان فارسی ہونے کے باعث علما اور شرفا بھی فارسی ہی میں باتیں کرتے تھے، چنانچہ شاہ صاحب کے اہل خاندان بھی اسی زبان کے پابند تھے لیکن بوقتِ ضرورت ملکی زبان بھی استعمال کرتے تھے، جناب شاہ صاحب کے اس قسم کے کلمات بکثرت ملتے ہیں، ایک موقع پر آپ نے فرمایا کیا ہوا جو بھوکوں موا، بھوکے موے سے کیا خدا کو امریا (پایا)خدا کے امرنے کی استعداد اور ہی ہے، ایک دفعہ ارشادہ ہوا، میں کدھاں(کہاں)ریاضت کیتی' کسی نے کہا کہ دنیادار کے مکان پر نہ جانا چاہئے تو آپ نے فرمایا کاہے دنیادار بھی آپس میں ہیں۔ ایک مرتبہ فرمایا طالب کشف نہ بنو، اپنے کو کیا کشف ہو یا نہ ہو یہ اس کا کام ہے، ہمارا کام تو مشغول رہنا ہے نہ کہ منتظر کشف۔ ایک بار فرمایا اس سے اور کیا خوب ہے کہ اس دنیا میں یہ دل خدا سے مشغول ہو کسی نے سوال کیا عارف کسے کہتے ہیں، جواب دیا جو خدا سے بھریا حق تعالیٰ کی طرف سے فرماتے ہیں کہ ہوں (میں حکیم ہوں، عادل ہوں، میرے علم میں یہی آیا کہ تم عاصی ہوگے کیا میرا علم سابق پھرے ریاضت کے متعلق ایک شخص کے جواب میں کہتے ہیں کہ تمہاری بلا ریاضت کرے تم کو اتنا کافی ہے کہ نیم شب بیدار ہو ایک شخص کشف کا طالب ہے اس کو ارشاد ہوتا ہے کہ یا نفس کے مزہ کی خاطر کشف و کرامات چاہے، واہ واہ خوب خدا کے طالب ہو۔

    جاگیر ومدرسہ:- شاہانِ گجرات نے آپ کے خاندان کو متعدد مرتبہ وجہ معاش کے لئے جاگیرین عنایت کیں مگر قبول نہ کیا، خود جناب شاہ صاحب کے ساتھ بھی یہ معاملہ ایک مرتبہ پیش آیا مگر آپ نے رد کردیا، آپ کے پانچ صاحبزادے تھے، (1) شاہ محمد جو برہان پور چلے گئے تھے اور وہیں 992 ہجری میں انتقال کر گئے، (2) شاہ حامد (3) شاہ عبدالواحد (متوفیٰ 1032ھ) (4) شاہ عبدالحق (متوفیٰ 1040ھ) (5) شاہ عبداللہ ان کی ولادت 930 ہجری میں بمقام احمد آباد ہوئی، جناب شاہ صاحب کی وفات پر اپنی باپ کی جگہ مسند نشین ہوئے، علم و تقویٰ میں اپنے پدر بزرگوار کے نمونہ تھے، ہمیشہ درس و تدریس اور ارشاد و ہدایت میں مشغول رہے، 87 برس کی عمر میں بمقام احمدآباد 1017 میں انتقال فرمایا، ان کے بعد جناب شاہ اسداللہ بڑے لڑکے جانشین ہوئے لیکن جلد انتقال فرماگئے، 1026ہجری میں جب جہانگیر احمدآباد آیا اس وقت جناب شاہ موصوف کے بھائی، شاہ حیدر صاحب سجادہ تھے، جہانگیر آپ سے مل کر بہت خوش ہوا، موضع بسودرہ اور موضع باریجری اولاد کے معاش کے لئے بطور جاگیر عنایت کیا اور موضع دسترال، موضع دنتالی اور موضع ہرنا، مدرسہ، خانقاہ اور روضہ کے اخراجات کے واسطے بطور وقت ہدیہ کیا، مدرسہ اسی وقف سے ہمیشہ چلتا رہا، اس منبعِ فیض سے ہزاروں تشنگانِ علم برسوں سیراب ہوتے رہے، مدرسہ کب بند ہوا، اس کے متعلق کوئی صحیح اور یقینی تاریخ معلوم کرنے کا میرے پاس کوئی ذریعہ اس وقت نہیں ہے، اس سلسلہ کےجو لوگ جو اس وقت موجود ہیں وہ بھی اندازاً کچھ کہہ دیتے ہیں، اتفاقاً چند دن ہوئے کہ دو دستاویزیں میری نظر سے گذریں، ان میں سے ایک کے محرّر جناب سید فیض اللہ بن سید اسد اللہ بن سید رحمت اللہ بن سید حسین بن سید عبدالعلی بن سید اسد اللہ بن سید شاہ عبداللہ بن حضرت شاہ وجیہ الدین ہیں، سید فیض اللہ صاحب نے اس دساویز کے ذریعہ اپنی تمام جائداد اور عہدہ وغیرہ کا متولی اپنے لڑکے سید محمد شجاع الدین صاحب کو بنایا ہے، اس کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی ہے:-

    تولیت نامہ بمھر مغفرت مرتبت حسن محمد خان معروف بعلی محمد خان مرحوم دیوان صوبہ سابق وجہ مھر غلام حسین خان صدر مغفورٌ

    اور آخر میں تاریخ اور تحریر 16 شوال 1185 ہجری ہے اور اس کے مفتی سید بدرالدین کی جو مہر ہے اس پر 1195ہجری کندہ ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اصل تحریر تو 1185ہجری کی ہے اور اس کی نقل مفتی موصوف کے عہد 1195ہجری میں اس وقت لی گئی، جب سید فیض اللہ صاحب (متوفیٰ 1189ھ) کے بعد کسی تنازعہ کے سبب ضرورت پڑی ہوگی اور اسی سبب سے غالباً دیوان صوبہ علی محمد خان اور غلام حسین خان صدر کو مرحوم اور مغفور لکھا ہے، کیونکہ مفتی صاحب کے عہد سے پہلے یہ وفات پاچکے ہوں گے، میرا اگر یہ قیاس صحیح ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ علی محمد خاں 1185ہجری میں بقید حیات تھے اور گو سرکاری اعتبار سے وہ دیوان نہ تھے مگر لوگوں میں سابق دیوان کہلاتے تھے اور کاروبار میں ابھی تک لوگ ان کی مہر اور دستخط سے کام نکالتے تھے مراۃ احمدی کے مصنف کا نام بھی علی محمد خان محمد حسن ہے، ان کی مہر پر 1164ہجری کندہ ہے وہ اسی عہد میں احمدآباد کے دیوان تھے، اپنی تاریخ گجرات میں 1174ہجری تک کے حالات درج کئے ہیں اور اسی کتاب کے خاتمہ سے 1174ہجری تک ان کے زندہ رہنا معلوم ہوتا ہے، اس کے بعد سے پھر ان کی زندگی کا کوئی ثبوت دستیاب نہیں ہوا، اس لئے یہ قیاس کر لیا گیا کہ شاید 1176ہجری یا 1177ہجری میں وفات پا گئے، یہ تو لیت نامہ ان کے آخری تحریر کردہ 1176ہجری کے نو برس بعد کا ہے، اس لئے بہت ممکن ہے کہ انہیں کے عہد کا تحریر کردہ ہوا اور وہ اس وقت تک بہ قیدِ حیات تھے، مرأۃ احمدی میں ان کا نام محمد حسن ہے اور اس تولیت نامہ میں حسن محمد خان ہے۔

    اسم محمد کے تقدم و تاخر کے متعلق میرا خیال ہے کہ یا تو کاتب کے جلد نویسی کا نتیجہ ہے یا ممکن ہو کہ مصنف ہی کے دونوں نام ہوں کیونکہ یہ بالتخصیص معلوم ہےکہ اس عہد میں اور کوئی دوسرا دیوان مقرر نہیں ہوا تھا، کیونکہ سن 1171 میں صوبہ دار مومن خان کے چلے جانے کے بعد مرہٹوں کا قبضہ ہوگیا، افسوس ہے کہ نقل لیتے وقت اصل میں سے تمام مہروں اور دستخطوں کی نقل چھوڑ دی اگر ان کی بھی نقل ہوتی تو بڑی آسانی سے اس کا فیصلہ ہو سکتا تھا، اس تولیت نامہ میں جاگیر کے ضمن میں موضع بہرتنکہ (علاقہ منگور) اور نصف گاؤںدنتالی (علاقہ وہ کروٹی) مذکور ہے جس سے معلوم ہوا کہ 159 بر میں تام جائداد سے صرف اسی قدر باقی رہ گئے، سید فیض اللہ صاحب علوی کا انتقال 1189ہجری میں ہوا، دوسرا کاغذ بھی تولیت نامہ ہے، محرر کا نام سید شجاع الدین بن سید فیض اللہ ہے، سید شجاع الدین صاحب کے کوئی اولاد نرینہ نہ تھی، ایک لڑکی مسماۃ بو (بوبو یا بی بی) تھی، اس کا لڑکا یعنی سید شجاع الدین کے نواسہ عبداللہ بابا کے نام یہ تولیت ہے جس کے ذریعہ موصوف نے اپنی تمام جائداد اور عہدہ اپنے نواسہ کے حوالہ کر دیا ہے، اس تولیت نامہ کی ابتدا ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے، تولیت نامہ بمہر ایں خادم شرع شریف و بمہر امارت و وزارت مرتبت شفیع محمد خان المخاطب بہ علی محمد خان دیوان صوبہ و مہر میر فیاض الدین صدر خادم شروع شریف قاضی شیخ الاسلام خان کی مہر پر 1210ہجری کندہ ہے اور آخر تحریر میں تاریخ 11 رمضان 1219ہجری ہے۔

    معلوم ہوتا ہے کہ اس تولیت نامہ کے لکھتے ہی وقت اس کی نقل اصل سے لے لی گئی ہے، اس تمام علما و صوفیہ قاضی، صدرالصدور، دیوان صوبہ کے مہروں اور دستخطوں کی نقل موجود ہے، خود سید شجاع الدین علوی کے مہریں ہے:-

    از وجیہ الحق مدد خواہد شجاع

    جاگیر کے متعلق صرف موضع بہرتنکہ کا ذکر ہے، سید شجاع الدین صاحب اپنے والد سید فیض اللہ صاحب کے بعد اس تحریر کے وقت تک تیس برس متولی رہے، اس قلیل مدت میں موضع دنتالی کا نصف حصہ ہاتھ سے نکل چکا تھا، بہر حال! ان دونوں تحریروں کے پیش کرنے کا اصل منشا یہ ہے کہ ہر دو تحریر میں مسجد، مدرسہ اور خانقاہ کا ذکر ہے اور انہیں کو تولیت ان کے سپرد کی گئی تھی، گو کہ یہ تحریر 1219ہجری کی ہے لیکن سید شجاع صاحب کی وفات 1236ہجری میں ہوئی ہے اس لئے یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ مدرسہ 1236ہجری تک قائم تھا اور غالباً سید شجاع الدین صاحب آخری عالم ہیں جن سے مدرسہ کو رونق رہی۔

    کتب خانۂ مدرسہ:- جناب شاہ صاحب کا کتب خانہ بہت بڑا تھا اور شاید ہی کوئی فن ایسا ہو جس کے متعلق کوئی کتاب یہاں نہ ہو، زمانۂ حال کے لوگ راوی ہیں کہ ان کے بزرگ فرماتے تھے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے کتب خانہ کو دیکھا ہے، دو بڑے کمروں میں از فرش تا سقف بے تربیتی اور بے احتیاطی کے ساتھ کتابیں بھری تھیں، راقم الحروف بھی جب 1921عسویں میں اس کتب خانہ کو دیکھنے گیا تو متعدد بڑے بڑے صندوقوں میں کتابیں بے ترتیبی سے پُر تھیں، چند دن کی پیہم کوشش کے بعد میں نے ان کتابوں کے اوراق منتشر کو مجتمع کر کے باترتیب رکھوا دیا تھا لیکن اب 1931عسویں میں وہاں کیا ہے کچھ کتابیں تو احباب کی نذر ہوئیں، کچھ کتابوں کو مجاور نے قرآن سمجھا اور کمال دانائی سے بغرض ثواب ان کِرم خوردہ کتابوں کو قدآدم زمین کھود کر دفن کردیا، باقی کِرم خوردہ کتابیں دریائے سابرمتی کی نذر ہوئیں، کچھ تھوڑی سی کتابیں جناب سید پیر حسینی صاحب مصنف تذکرۃ الوجیہ اور جناب بڑا میاں صاحب موجودہ متولی درگاہ کے پاس ہیں۔

    شاہ صاحب کی تصنیفات:- آج ہم یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے کہ آپ کی تصنیفات کل کتنی تھیں لیکن عام طور پر مشہور ہے کہ ان کی تعداد تقریباً تین سو ہے، ان میں سے ایک بڑی تعداد تو ضائع ہو چکی ہے اور دست برد زمانہ سے جو رہ گئی ہیں، شاید ہی کوئی ان میں سے طبع ہوئی، تلاش اور تفحص سے مندرجۂ ذیل کتابیں دستیاب ہوئی ہیں، جو اس وقت کتب خانہ حضرت پیر محمد شاہ احمدآباد میں موجود ہیں۔

    (1) حاشیہ علی التلویج

    (2) حاشیہ علی شرح المواقف

    (3) شرح جام جہاں نما (تصوف)

    (4) حاشیہ شرح مختصر التخلیص

    (5)الرسالۃ السّماۃ بالانسکزیہ (البحث ما انا قلت)

    (6) رشاد شرحُ الاشارد (نحو)

    (7) حاشیہ علی العضدی شیخ محمد غوث گوالیاری کی کتاب کلید مخازن پر مختلف شرحیں لکھی گئی ہیں، جناب شاہ صاحب نے بھی ایک شرح لکھی ہے، کتب خانہ مذکور میں مختلف شرحیں موجود ہیں جن میں سے ایک شرح ایسی ہے کہ جس کےمتعلق متعدد وجوہ کے بنا پر میرا خیال ہے کہ وہ جناب شاہ صاحب ہی کی تصنیف ہے، توضیح تلویح اصول فقہ میں مشہور درسی کتاب ہے، مختلف علما نے اپنے نقطۂ نظر سے اس کی شرح اور حواشی تحریر کئے ہیں، جناب شاہ صاحب نے بھی ایک حاشیہ لکھا ہے۔

    حاشیہ علی التلویح:- یہ کتاب ابتدا سے آخر تک خط نسخ میں ہے، 14/10 تقتطع ہے۔ ابتدائی چار صفحے خوشخط اور باریک حرفوں میں ہیں، باقی معمولی، تصنیف سے تقریباً سوا سو برس بعد 1120ہجری میں اس کی کتابت ہوئی ہے، اس کی ابتدا ان جملوں سے ہوتی ہے:-

    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ ربّ یسّر و تمّم بالخیر، الحر، الحمد للہ رب العالمین والصّلوٰۃ علیٰ خیرِ خلقہ محمد و اٰلہ و اصحابہ اجمعین اور اختتامی جملہ یہ ہے۔ ھٰذا آخرالکتاب بعون الملک الوھاب والحمدللہٰ علی اتمابہ انہ ولی التوفیق وبیدہ از مۃ التحقیق جہاں جہاں اصل کتاب کا حوالہ وہاں سرخی سے قولہ لکھ دیا ہے، مختلف مقامات کے مطالعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہر جگہ تشریح کرتے وقت طلبہ کے ذہن نشین کرانے کی بے حدل کوشش کی گئی ہے مثلاً حقیقت و مجاز کی بحث میں ایک جگہ صاحب تلویح نے لکھا ہےففیہ نظر اس نظر کے پیچیدہ مطالب کو جناب شاہ صاحب نے حاصل النظر کے عنوان سے بہت سہل عبارت میں تحریر فرمایا ہے تاکہ طالب کے دماغ پر زیادہ بار نہ پڑے پھر اس نظر کا جو جواب دیا جاتا ہے اور اس کو تحریر فرما کر حاصل الجواب کے عنوان سے اس کی تشریح فرماتےہیں، سید شریف جرجانی کا اس پر اعتراض نقل کر کے پھر خود اپنا جواب تحریر فرماتے ہیں، اس مثال سے آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ جناب شاہ صاحب کا اس طرز تحریر سے اصل منشا کیاتھا اور کس طرح اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں، زیر تنقید نسخہ مصنف کے خود نوشتہ نسخہ سے منقول ہے اور حاشیہ پر ہر جگہ تصحیح کی گئی ہے۔

    حاشیہ علی المواقف:- اس مشہور کتاب کےمصنف قاضی عضدالدین عبدالرحمٰن ہیں جس کی شرح علامہ سید شریف علی بن محمد جرجانی (متوفیٰ 816ھ) نے کی ہے پھر متعدد علما نے اس پر حواشی لکھے، ہند میں زیادہ تر مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی کا حاشیہ رائج ہے۔ آج سے پچیس برس قبل مصر سے جو نسخہ شائع ہوا تھا اس میں ملا عبدالحکیم سیالکوٹی کےساتھ ملا حسن چپلی کا بھی حاشیہ ہے، موجودہ زیر تنقید نسخہ افسوس ہے کہ آخر سے ناقص ہے اور بڑا حصہ کتاب کا ضائع کیا ہے، 14/10 انچ تقتطیع پڑ معمولی خط نسخ میں ہے اس کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی ہے:- بسم اللہ الرحمٰن الرحیم و بہ نستعین رب وفقت فتم۔ الحمدللہ رب العالمین والصّلوٰۃ والسّلام علیٰ رسولہ محمد واٰلہِ واصحابہ اجمعین سبحان جمالہ عن سمۃ الحدوث اور آخری فقرہ یہ ہے۔ وذالک لاعتبارہ یعنی ان لا حوال یتکلف یہ غیر مختتم جملہ نصف صفحہ پر ختم ہوگیا جس سے اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ یا تو یہ کتاب اسی قدر اصل نسخہ سے نقل کی گئی ہے یا بقیہ اجزا ضائع ہوگئے، خدا جانے اس کا کوئی دوسرا نسخہ کسی جگہ ہے بھی یا ہمیشہ کے لئے معدوم ہوگیا، مطبوعہ کتاب کے مقابلہ سے معلوم ہوا کہ المرصد الرابع فی اثبات العلوم الضروریہ تک ہے۔

    اس بات تو ہر اہلِ علم واقف ہے کہ یہ کتاب علم کلام کی معرکۃ الآرا کتابوں میں سے ہے اور اسی لئے اس کی متعدد شرحیں اور حواشی لکھے گئے، جناب شاہ صاحب کا طریقۂ بیان اس کتاب سے بھی واضح ہے، ہر جگہ حاصل الکلام و حاصل الجواب وغیرہ کے عنوان سے مطالب کی تشریح کی ہے اور ہر پیچیدہ عبارت کو آسان اور سہل طریقہ سے سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن جہاں کہیں ذات واجب الوجود کے متعلق کوئی تذکرہ آجاتا ہے تو الفاظ شاندار اور معانی خیال بہت بلند ہوجاتےہیں اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ کسی کا ذوق رہبری کر رہا ہے مثلا کتاب کے ابتدا میں ہے:-

    سبحاہ جمالہ عن سمۃ الحدوث

    تنزھت سر اوقات جمالہ عن وصمۃ

    التغیر و الانتقال:- افسوس ہے کہ اس کتاب میں نہ تو کاتب کا نام ہے اور نہ سنہ ہی تحریر ہے کہ جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ کب کی تحریر ہے۔

    شرح جامِ جہاں نما:- جام جہاں نما تصوف میں مشہور متن ہے، اس کے مصنف محمد بن عزالدین بن عادل بن یوسف مغربی مشہور بہ سیرین ہیں 785ہجری کی تصنیف ہے، عام صوفیوں میں یہ کتاب اس قدر مقبول ہوئی کہ اس کی مختلف شرحیں لکھی گئیں، جناب شاہ صاحب نے ایک شرح تحریر فرمائی ہے اس کے دو نسخے اس کتاب خانہ میں موجود ہیں، پہلا نسخہ کتابی صوف میں 12/8 تقتطیع پر ہے، سرخ جدول سے محدود ہے، جہاں متن کی اصل عبارت ہے وہاں سرخِ خط کشیدہ ہے۔ یہ کتاب مختلف اہل علم کے ہاتھوں میں رہی ہے کیونکہ مختلف اشخاص کے حواشی موجود ہیں، سب سے یادہ حاشیہ ملا احمد بن سلیمان کا ہے جو اس عصر کے مشہور علما میں سے ہیں، اس کی تصحیح اور بعض حواشی ملا علی پیرو کے ہیں، مولوی عبدالعزیز جناب شاہ صاحب کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں، کہیں کہیں ان کے بھی حواشی ہیں، اگر چہ یہ نسخۂ کامل ہے مگر آخری اوراق کِرم خوردہ ہونےسے معلوم نہ ہوسکا کس سنہ کا ہے اور کس نے لکھا ہے، خط صاف خوشخط اور نسخ میں ہے، حاشیہ ملا احمد بن سلیمان کا جو خط ہے، اس سے بہت مشابہ ہے اس لئے اغلب ہے کہ ملا احمد ہی کا لکھا ہوا ہو۔

    دوسرا نسخہ 15/8 تقطیع پر ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے بطور مسودہ نقل کیا ہے، یہ بھی کامل نسخہ ہے اور جگہ جگہ سے تصحیح شدہ ہے، یہ کتاب فارسی زبان میں ہے اور اس کی ابتدا اسی طرح ہوتی ہے:-

    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم وبہ نستعین رب یسر و تمّم بالخیر پھر متن کی عبارت منقول ہے جس کی ابتدا یوں ہوتی ہے، حمد بے حد و شکر بے عد سزائے ذاتی کی وحدتش منشا احدیت و واحدیت شد، اس کے بعد اس کی شرح اس جملہ سے ہوتی ہے۔ یعنی وحدت کہ اصل قابلیات جمیع اشیاء احدیت و واحدیت ازد ناشی است۔ اس کتاب کا اختتام اس فقرہ پر ہوتا ہے کہ ترک قیل و قال و استغراق در حق است و صفات حق ذاتہ، ذاتہ، صفاتہ، افعالہ، افعال در سپیش است تمام شد اس کتاب کا موضوع علم التوحید ہے اور اس کے ابواب کی تقسیم مندرجۂ ذیل طریقہ سے کی گئی ہے۔

    کتاب کے دو حصے ہیں، ہر حصہ کا نام دائرہ ہے اور ہر دائرہ میں دو قوس اور ایک خط ہے، دائرۂ اول میں مندرجہ ذیل مضامین ہیں:-

    احدیت، واحدیت، اعتبار، جود، علم شہود، نور، تعین یا تجلی اول۔

    دائرۂ دوم کے مضامین حسب ذیل ہیں:۔

    ظاہر وجود (باصطلاح فلاسفہ واجب الوجود) ظاہری علم (با صلاح فلسفی ممکن ابوجود) بروز خیت (باصطلاح مذکور حقیقت انسانی یا روح) تعین یا تجلی ثانی۔

    افسوس ہے کہ جو شرح جناب شاہ صاحب نے لکھی ہے اس کی اتبدا میں کوئی مقدمہ تحریر نہیں فرمایا جیسا کہ ابراہیم شطاری جنت آبادی نے لکھا ہے جس کے سبب اس شرح سے صرف وہی فائدہ اٹھا سکتا ہے جو اس فن سے کامل آگاہ ہو، مضامین کے تنوع اور اس کے غوامض سے ناظرین خود آگاہ ہیں، اس لئے بعض مقامات سے صرف اقتباس دیتا ہوں جس سے جناب شاہ صاحب کے طرزِ تحریر کا آپ خود اندازہ کر لیں گے، مثلاً ایک مقام میں متن کی عبارت یہ ہے کہ و افعال کہ شامل ظاہر وجود است کہ وجود وصف خاص اوست و شامل علم ظاہر است کہ امکان از لوازم اوست وشامل حقیقت انسان است کہ برزخ است، بین الامکان والوجوب اس عبارت کی تشریح میں جناب شاہ صاحب نے انسان کو خلیفہ الٰہی بہت مختصر اور جامع طریقہ سے ثابت کیا ہے۔

    اب اصل مسئلہ سمجھنے سے پہلے چند باتیں ذہن نشین ہوجائیں تو سمجھنے میں آسانی ہوگی، صوفیوں کے نزدیک وجودِ مطلق کا نام حق ہے اور اسی کو حقیقۃ الحقائق اور احدیت بھی کہتے ہیں، وجود مطلق جب تنزلات کے مرتبہ میں آئے تو اس کو ظہور کہا جاتا ہے اور یہ ظہورات تعین ذاتی کے اعتبار سے شیون کہلاتے ہیں جو بے حساب اور بے شمار ہیں، اسی کو قرآن پاک نے یوں ادا کیا ہے۔ کل یومٍ ھو فی شان اور شیون کی مثال محسوسات کے ذریعہ ٹھیک تخمِ شجر کی ہے جس میں عظیم الشان شجر بننے کی قابلیت موجود ہے، اور حقیقت وجود بہ شرط شی جو اسما وصفات ہیں، ان کو مرتبہ واحدیت والوہیت کہتے اور حقیقت وجود بہ شرط لاشی کا نام احدیت رکھتے ہیں اور حقیقت وجود نہ بشرط شی اور نہ بہ شرط لاشی ہو ایسی مساوی اطرافین ذات کو باصطلاح صوفیہ تجلی اول یا تعین اول کہتے ہیں اور فلاسفہ علم یا عقل اول اور یہ تجلی اول اور یہ تجلی اول جب کسی تعین جزئی کے ساتھ مخصوص ہو تو اس کو صفت کہتے ہیں، عام اس سے کہ یہ صفت وجودی ہو جیسے علیم، قدیم وغیرہ یا سلبی ہو جیسے قدوس، سلام وغیرہ، پھر تجلی وال نے بہ تعین مخصوص علیم، مرید، قدرت، بصیرت، سمیع، متکلم، حی کی صورت اختیار کی تو ان صفات سبعہ کو ائمہ صفات کہتے ہیں پس وجود مطلق جب ان ائمہ صفات کے ساتھ تنزلات کا مرتبہ اختیار کرے تو پانچ مرتبوں کا ظہور ہوتا ہے۔

    1 :- مرتبہ واحدیت

    2 :- مرتبہ ارواح مجرّدہ (عامِ جبروت)

    3 :- دس نفوس عالمہ (جیسے عالمِ مثال)

    4 :- مرتبہ شہادت و حسن (جیسے عالمِ ملک)

    5 :- مرتبہ کون جامع یعنی انسان کامل جو محل مجموع تنزلات ہے

    اس قدر سمجھ لینے کے بعد اب جناب شاہ صاحب کی تشریح ملاحظہ ہو، وحدت، کثرت، وجود، وغیرہ کی مختصر بحث کے بعد تیسرے جملہ کی تشریح یوں فرماتے ہیں کہ ان صوفیوں کے نزدیک مرتبہ وجود، اسمائے الٰہی کلی سے مراد ہے جو 28 ہیں، جسیے بدیع، باعث وغیرہ اور امکان وجود سے مراد، اسما کونی ہیں، جو وہ بھی 28 ہیں جیسے عقل کل طبیعت کل وغیرہ اور وجوب و امکان کے درمیان جو مرتبہ وسط ہے، اس کو 'برزخ' کہتے ہیں اور یہی حقیقتِ انسانی ہے کیونکہ انسان تمام حقائق ملک و ملکوت و جبروت کو شامل ہے اور چونکہ انسان اس حیثیت سے کہ وہ کامل تمام مراتب الٰہی اور جامع تمام تنزلات کونی کا ہے، اسی سبب سے وہ نائب اور خلیفۃ اللہ ہے اور یہی معنی خلافتِ الٰہی کے ہیں، اسی طرح آگے چل کر صفحہ 9 پر حقیقت محمدیہ بیان فرماتے ہوئے فکان قاب قوسین کی جو تشریح قس احدیت اور قوس واحدیت کے ضمن میں کی ہے وہ بے انتہا لطیف ہے اور اہلِ ذوق کے لیے باعث خط، جسے ہم بخوف طوالت نظر انداز کرتے ہیں۔

    رسالہ انسکزیہ:- اس رسالہ کا نام رسالہ انسکزیہ فی اجوبۃ الطفقریہ مولانا علی قوشجی علی بحث ما انا قلت فی المطول ہے جو صرف 15 اوراق کا 12/8 تقطیع پر ہے، معانی و بیان پر تخلیص المفتاح جلال الدین محمد بن عبدالرحمٰن قزوینی (متوفی 739ھ) کی ایک مشہور کتاب ہے، مولانا علی قوشجی نے بحث ما انا قلت پر چند اعتراضات کئے تھے۔ یہ رسالۂ ان کے جواب میں ہے، میر ہاشم صاحب جو خود بھی بڑے عالم تھے۔ انہوں نے بھی اس محبث پر ایک رسالہ لکھا ہے۔ اس کتاب پر جابجا ان کے حاشیے بھی ہیں، کاتب کا نام محمد یوسف ہے، اس کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی ہے۔

    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، قال صاحب الایضاح ویقدم المسند لیعید التقدیم تخیصہ بالخبر الفعلی اور اختتام ان جملوں پر ہے۔ ھٰذا ما تیسر لی ھوالمیسر لکل عسیروما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت والیہ انیب یہ رسالہ 9 مبحث پر منقسم ہے جن میں سے بعض بہت ہی مختصر اور بعض طویل ہیں، طرز تحریر یہ ہے کہ پہلے نفس تلخیص کے اصل مسئلہ کو لکھا ہے پھر سید شریف جرجانی کا اعتراض نقل کر کے علامہ قوشجی کا نظریہ بیان فرمایا ہے اور آخر میں اپنا جواب تحریر کیا ہے۔ جہاں علامہ قوشجی کا اعتراض شروع ہوا ہے وہاں سرخی سے قولہ ہے اور جس جگہ سے جواب دیا ہے۔ اس کی ابتدا قول سے ہوتی ہے۔ اس محبث پر تین اور رسالے اسی کے ساتھ مجلد ہیں، رسالہ مولانا علی قوشجی، رسالہ ملا عبدالغفور، رسالہ میر ہاشم، افسوس ہے کہ ان میں سے کسی پر سنہ تحریر نہیں ہے اور بدقسمتی سے یہ بھی معلوم نہ ہوسکا کہ اس رسالہ کا نام انسکرزیہ کیوں رکھا اور کس مناسبت سے؟ میرا ذاتی خیال ہے کہ جناب شاہ صاحب کا ایک دوسرا رسالہ انکریہ ہے جو غالبا انکار سے ہے جس میں ایک کفر کے فتویٰ کی تردید کی ہے، کاتب نے اسی لفظ کو انسکزیہ سے تبدیل کردیا، ضرورت ہے کہ ہی لآلی شا ہوار جلد تر شائع ہو جائیں تاکہ کم از کم ضائع ہونے سے محفوظ ہیں۔

    حاشیہ علی المختصر المعانی:- یہ کتاب بھی 11/7 تقطیع پر ہے، اس کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی ہے۔

    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم قولہ اداء الحق شیٔ سمّا یجب علیہ اور اختتام یوں ہے قولہ کانّہٗ، ابن الھجا، القنا جمع قناۃ وھی الرمح، والفیلق الجیش قد وقع من تجشیئۃ سلطان المحققین افضل المد تقین اشرف المتور عین، سلجا السالکین۔ الشیخ وجیہٗ الحق والدین

    کاتب کا نام نہیں ہے، تاریخ بھی نہیں ہے، فقط اس قدر لکھا ہے۔ فی شھر رمضان سنہ من الھجریہ النبویۃ حاشیہ پر جابجا اس کی تصحیح بھی کی گئی ہے، جہاں اصل کتاب سے نقل کیا ہے اور اس کی سرخی سے قولہ کے لفظ سے ممتاز کر دیا ہے، چونکہ مختصر المعانی مصنفہ سعدالدین تقازانی مشہور کتاب ہے جو تلخیص المفتاح کی شرح ہے جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے اور عموماً متوسط درجہ کے طلبہ اس کو پڑھتے ہیں، اس لئے اس حاشیہ میں طلبہ کے لئے سہولت بہم پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے، معانی کا بیان مغلق الفاظ کی تشریح، مطالب کی توضیح کا خاص خیال رکھا ہے، اس کتاب کے مطالب سے یہ بات بھی صاف معلوم ہوتی ہے کہ دسویں اور گیارہویں صدی کا طریقۂ تعلیم کیا تھا، اس عہد میں نفس فن پر بہت کم لوگ توجہ کرتے تھے، متون کی شرحیں، شرحوں کے حواشی اور حواشی پر حاشیہ اس عہد کا بہترین کارنامہ ہے، متن پر اعتراض، شرح پر اعتراض اور اس کا جواب پھر اس جواب پر اعتراض اور اس کا جواب کہیں ففیہ نظرہِ کسی جگہ فتامل کی تشریح کو اصل کارنامہ سمجھا جاتا تھا، زمانہ کے اثر سے جناب شاہ صاحب ہی بہت متاثر نظر آتے ہیں اور جگہ جگہ اس کو کھول کر طلبہ کے فہم کے مطابق بیان فرماتے ہیں۔ قطب الدین رازی، سعدالدین تفتا زانی، میر سید شریف جرجانی نے جو روش اختیار کی، مابعد کے تمام علما متاخرین قدم بہ قدم اس کی پیروی کرتے آئے۔

    رشاد شرح الارشاد:- نحو میں الارشاد نام ایک کتاب قاضی شہاب الدین بن شمس الدین بن عمر زاولی دولت آبادی کی 860ہجری کی تصنیف ہے، جناب شاہ صاحب نے اس کی شرح لکھی ہے اور اس کا نام رشاد رکھا ہے اور مشہور ہے کہ جناب شاہ صاحب کی یہ پہلی تصنیف ہے، یہ کتاب میری نظر سے نہیں گزری، البتہ شاہ صاحب کی شرح یعنی رشاد پر ملک احمد بن ملک پیر محمد صاحب کا حاشیہ متوسط تقطیع پر 190 صفحے کا ہے، اس سے میں اندازہ کرتا ہوں کہ غالباً شرح اس سے زیادہ ضخیم یا کم ازکم اس کے قریب ہوگی اور عام فہم ہوگی۔

    حاشیہ علی العضدی:- یہ کتاب 13/8 تقطیع پر خطِ نسخ میں ہے، صفحات 13 میں اس کی ابتدا بسم اللہ الرحمٰن الرحیم وبہ نستعین الحمدللہ رب العالمین والصّلوٰۃ علی رسولہِ سیّدنا الخق والانبیاء المرسلین قولہ و بھٰذالاعتبار یندرج فی الادلۃ المعیۃ سے ہوتی ہے اور اختتام ان فقروں پر ہے فیرجع الظن لاالتصدیق بانّ ھٰذ احدہ لا ان نفس الحد ظنی۔ تم تمت

    یہ کتاب رجب 1010ہجری کی لکھی ہوئی ہے یعنی شاہ صاحب کی وفات کے 12 سال بعد کی ہے، کاتب کا نام کبیر محمد بن شاہ محمد ہے لیکن کتاب کے اندر خط دو قسم کے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل کتاب سے کچھ ضائد ہوجانے کے بعد دوبارہ تحریر کرایا گیا ہے، ابتدا میں اور چند دوسری جگہوں میں خوشخط ہے اور آخری صفحاب میں معمولی اور یہی معملوی کبیر محمد صاحب کا تحریر کردہ ہے، سطریں عموماً 20 اور 22 ہیں، کاغذ باریک اور چکنا، اغلباً احمدآبادی ہےعضدیہ چند صفحے کا ایک چھوٹا رسالہ فن مناظرہ میں ہے جس کے مصنف عضدالدین احمد الایجی (متوفی 756ہجری) ہیں، یہ کتاب اس قدر مقبول ہوئی کہ متعدد علما نے اس کی شرحیں اور پھر شرحوں کی شرحیں لکھیں مابعد کے علما نے پھر ان پر حواشی کا اضافہ کیا، متعدد شروح و حواشی اس کتب خانہ میں موجود ہیں۔

    حفنیہ : شرح عضدیہ، مصنفہ مولانا عصام الدین۔

    حاشیہ : علی الحنیفہ مولفہ میر ابو الفتح۔

    بلخیہ : حاشیہ علی حنفیہ مولفہ مولانا باقر بلخی۔

    فریدیہ : حاشیہ عضدیہ، مصنفہ مولانا فرید الدین۔

    حاشیہ : عضدیہ مولفہ جناب شاہ وجیہ الدین صاحب وغیرہ۔

    حاشیہ بیضاوی:- یہ حاشیہ بے حد مقبول ہوا، دسویں اور گیارہویں صدی میں عرب و شام میں عام طور پر زیر درس تھا لیکن فی الحال نایاب ہے، روضہ الاولیا کے صفحہ میں درج ہے کہ یہ کتاب مدراس میں محمد عبداللہ بن ناصرالدین عبدالقادر کے پاس موجود ہے، میں جب مدراس میں تھا تو جدوجہد کے باوجود بھی یہ معلوم نہ ہوسکا کہ عبداللہ کون ہیں اور کس جگہ ان کا مقام ہے۔ اب خیال آتا ہے کہ شاید یہ عبداللہ عبید اللہ صاحب سابق قاضی شہر مرحوم مغفور تو نہیں ہیں۔ قاضی صاحب موصوف کے صاحبزادے ہی اس عقدہ کو حل کرسکتے ہیں جو خود بھی صاحبِ ذوق صاحبِ علم اور متقی بزرگ ہیں اور مدراس میں کافی اثر رکھتے ہیں۔

    بہر حال اس وقت کتب خانہ میں بیضاوی پر جو حاشیہ ہے وہ مظہرالدین محمد گازرونی کا ہے اور شاہ صاحب نے بدست خود اس کو نقل فرمایا ہے۔ آخری عبارت یہ ہے۔

    کتب الحواشی علی تفسیر الیضاوی للمولی المحقق مظھر الدین محمد گاوزرونی، اضعف عباداللہ وجہہ الدین بن نصر اللہ بن عماد الدین العلوی وکان الا تمام بدار السلطنۃ احمدآباد وقت الاشراق

    اس طرح سے جناب شاہ صاحب کی تحریر کا اصلی نمونہ بھی موجود ہے، ایک اور چھوٹا سا رسالہ 10/6 تقطیع کا میری نظر سے گذرا۔ اس میں کل بیس صفحے ہیں۔ جناب سید محمد غوث گوالیاری پر جو اعتراضات کئے گئے تھے، اس کے جواب میں ہے، ا س کے علاوہ اور چند منتر اوراق بھی ملے ہیں جن میں بعض شرح ملا کا حاشیہ ہے، کچھ اوراق پر شرح وقایہ کا حاشیہ ہے، شرح ہدایۃ الحکمۃ پر جو حاشیہ تھا کچھ حصہ اس کا بھی موجود ہے۔ فنِ عروض پر کوئی کتاب تھی، چند اوراق اس کے بھی محفوظ رہ گئے ہیں۔ ایک مجموعہ اوراق فن منطق میں ہے اور دوسرا نحو میں بعض خطوط بھی ہیں لیکن سب نامکمل چند دیگر رسائل بھی قابلِ ذکر ہیں۔

    1. شرح البسیط للعلوی:- فرائض میں ہے، اس کی اتبدا یوں ہوتی ہے۔

    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ الحمد للہ رب العالمین الصّلوٰۃ علیٰ الافضل من بعدہ محمد واٰلہ وصحبہ اجمعین۔ الحمد للہ افتح لکتاب چوب قلم او خطِ نستعلیق ہے، خوش قسمتی سے یہ نسخہ مکمل ہے۔ آخر کے الفاظ یہ ہیں۔ قد وقع الفراغ من تحریر شرح البسیط لمولانا السلطان العارفین برھان الموحدین حجۃ العاشقین شاہ وجیہ الحق اولملۃ والدین قدس سرّہ العزیز کہیں کہیں حاشیہ عبدالرحیم صاحب کا بھی ہے، تقطیع 18/13۔

    2. حاشیہ العلوی علی شرح النخبہ :- اصول حدیث میں ہے، نسخہ کامل ہے۔ خط اس کا نستعلیق ہے۔ ابتدا میں ہے۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم, الحمدللہ حمد ایوافی نعمہ ویکافی مزیدہ۔ اللّٰھم صلی علی محمد کمال ذکرہ الذاکرون۔ وغفل عن ذکرہ الغافلون قال الشیخ الامام الحمدُ اللہ الذی وفقنا وھدانا لھٰذااو ما کنا لتوفیق۔ والھدی لولا ان لوفقنا

    اس کاایک نسخہ ناقص از آخر کتب خانہ درگاہ حضرت پیر محمد شاہ احمد آباد میں بھی موجود ہے۔

    3. حاشیہ التلویح للعلوی :- یہ ضخیم کتاب ہے گو کامل ہے مگر بوسیدہ بخط نسخ، اس کی ابتدا۔ اس طرح کی گئی ہے رب یسر وتمّ بالخیر وبہ یستعین کد سقیم الحمد للہ رب العالمین و الصّلوٰۃ علی خیر خلقہ محمد وآلہ وصحبہ اجمعین قولہ احکم بکتابہ اصولہ الشریعۃ اور آخر میں ہے ھٰذا آخرالکتاب بعون اللہ الملک ولوھاب والحمد اللہ علی التمامہ انہ ولی التوفیق وبیدہ ازمۃ التحقیق مندرجۂ بالا کتب جامع مسجد بمبئی کے کتب خانہ میں ہیں۔

    4. حاشیہ علی شرح جامی للعلوی :- ابتدا میں ایک صفحہ کا مقدمہ ہے اور پھر اصل کتاب اس طرح شروع ہوتی ہے قولہ الحمد لولیہ الصّلوٰۃ علی نبیۃ۔ اختلف عبارتھم فی تعریف الحمد کل 84 صفحے میں متوسط تقطیع اور آخر میں ہے کہ قد تم ھٰذہِ الحاشیہ الشریفہ لمولانا۔۔وجیہ الدین علی شرح مولانا عبدالرحمٰن جامی الکافیہ فی التاریخ السابع والعشرون (العشرین) من شعابن المعظم فی سن 181 الواحد والثمانین الف علی ید احقر عبااللہ محمد عنایت اللہ بن عبدالعزیز وعبداللطیف

    5. رسالۃ ترتیب ارکان الصّلوٰہ للعلوی:- چند اوراق عربی زبان میں ہیں، کتاب کا منشا نام سے ظاہ ہے۔ یہ دونوں کتابیں بمبئی کے مشہور کوکنی فاضل جناب یوسف کھٹکھٹے صاحب بی اے کے ذاتی کتب خانہ میں ہیں اور آخرالذکر کا دوسرا نسخہ بھروچ میں جناب قاضی نورالدین صاحب کے کتب خانہ میں بھی ہے مگر آخر سے ناقص ہے۔

    6. وافیہ شرح کافیہ :- ناقص از ابتدا وسط قاضی صاحب مذکور کے کتب خانہ میں ہے، تقطیع متوسط اور کِرم خوردہ ہے۔ اس کے آخر میں لکھا ہے۔ کاتبہ وما للہ حامد بن شاہ وجیہ الدین علوی

    7. رسالۃ قوشجی فی الھئۃ فارسی :- اس کتاب پر حضرت شاہ علوی کا حاشیہ ہے، مختلف نقشے بھی ہیئت کے ہیں، بالکل بوسیدہ اور کِرم خوردہ ہے، بس تبرک ہی تبرک ہے یہ بھی قاضی صاحب موصوف کے حصہ میں آیا ہے۔

    8. حواشی علی المنھل للعلوی:- اس کے ابتدا میں ہے۔

    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ قولہ موردھا مصدرھا اور اس کے آخر میں والیس ھٰذا ایفید للجمع وانّما ھو بیان لا اطلاق اے اطلاق الجمع کل صفحے 9 ہیں خطِ نسخ ہے، تقطیع 12/7 سطریں ہیں۔ پٹن کے مشہور خاندان جمال الدین قطب و محمد سعید قطب کے ذاتی کتب خانہ میں یہ مود ہے۔

    9. حاشیہ علی شرح وقایہ للعلوی:- ضخیم کتاب ہے، متوسط تقطیعِ خط نستعلیق خوش خط ہے، تقریباً چھ سو صفحہ ہوں گے، درگاہ حضرت پیر محمد شاہ کے کتب خانہ میں یہ کتاب ہے، اول آخر سے ناقص ہے۔

    10. شرح شوہدالمنھل ناقص از اول :-

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے