Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

خواجہ محمد معظم الدین - احوال و تعلیمات

معین نظامی

خواجہ محمد معظم الدین - احوال و تعلیمات

معین نظامی

MORE BYمعین نظامی

    پنجاب میں چشتی نظامی سلسلۂ طریقت کی قدیم اور معروف خانقاہوں میں ”خانقاہ معظمیہ، معظم آباد، سرگودھا“ بہت نمایاں ہے، اس کے بانی خواجہ محمد معظم الدین رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو خواجہ شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ (1799- 1883) جیسے عظیم المرتبت شیخِ طریقت کے اکابر خلفا میں شمار ہوتے ہیں اور وطنِ عزیز کے معروف علمی و روحانی خانوادۂ معظمی خاندان کے مورث اعلیٰ ہیں۔

    خواجہ حافظ محمد معظم الدین 1832ء میں سپرا قوم کے ایک معزز زمیندار گھرانے میں ایک چھوٹے سے گاؤں ”مرولہ“میں پیدا ہوئے جو آپ کی نسبت سے ”مرولہ“ شریف کہلایا اور اب گذشتہ تقریباً چالیس برس سے اس کا سرکاری نام ”معظم آباد“ہے، معظم آباد اب ضلع سرگودھا کے بڑے قصبوں میں سے ایک ہے اور کوٹ مومن سے سر گودھا جانے والی سڑک پر واقع ہے۔

    خواجہ معظم الدین رحمۃ اللہ علیہ کے آباؤ اجداد لالیاں ضلع چنیوٹ سے نقل مکانی کرتے کرتے اس گاؤں میں آباد ہوئے تھے، خواجہ نے گاؤں ہی میں قرآن کریم حفظ کیا اور فارسی کی ابتدائی تعلیم پائی، 1845ء میں وہ اپنے ماموں کی معرفت اعلیٰ خواجہ شمس الدین سیالوی سے بیعت ہوئے اور تقریباً چار برس سیال شریف میں مقیم رہ کر تحصیلِ علم اور استفادۂ روحانی کرتے، اسی عرصے میں انہوں نے اپنے مرشد سے فقہ کی رائج درسی کتابیں پڑھیں اور پھر کئی سال بعد اپنے دوسرے طویل قیام سیال شریف میں شیخ سے تصوف و طریقت کی اہم کتابیں سبقاً پڑھیں، اس کے بعد وہ لاہور، بمبئی اور استنبول میں علم حاصل کرتے رہے، ترکی سے انہوں نے ”شمس العلما“ کی سندِ اعزاز پائی اور پھر کچھ عرصہ حجاز مقدس میں گزرا اور حج و زیارت سے مشرف ہوئے، حصولِ علم کا یہ دورانیہ کم و بیش اٹھارہ برس کو محیط ہے، اس سارے صبر آزما عرصے میں وہ درسیات میں منہمک رہے، مختلف علما و مشائخ سے استفادہ کرتے رہے اور شیخ مکرم کے تلقین کردہ اور اوراد و وظائف بھی پابندی سے بجا لاتے رہے، انہیں دینی و عرفانی کتابوں سے غیر معمولی دلچسپی تھی اور وہ کثرت سے مطالعے کے عادی تھے، یہ خصوصیات ان کی حیاتِ ظاہری کے آخری حصے تک برقرار رہیں۔

    خواجہ معظم الدین فارغ التحصیل ہوکر 1868ء میں سیال شریف میں اپنے پیر و مرشد کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے اور 1883ء تک وہاں مختلف خدمات سر انجام دیتے رہے، اس عرصے میں انہوں نے امامت و خطابت بھی کی، تدریس بھی اور فتوی نویسی بھی، لنگر کے انتطامات اور زمینوں کی دیکھ بھال بھی کرتے رہے، شیخ اقدس کے حکم پر اکثر و بیشتر تعویذ نویسی بھی کرتے اور پیر و مرشد کی ذاتی خدمت میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے، ان کے اکثر ہم عصر تذکرہ نگاروں نے اتباعِ شیخ اور خدمت خانقاہ کے حوالے سے ان کے امتیاز کا خصوصی ذکر کیا ہے، انہیں اپنے پیر و مرشد کی اولادِ گرامی کا استاد ہونے کا شرف بھی حاصل ہے، 24 صفر المظفر 1300ھ مطابق 4 جنوری 1883ء کو خواجہ شمس الدین سیالوی کا وصال ہوا تو نماز جنازہ پڑھانے کی سعادت بھی خواجہ معظم الدین کے حصے میں آئی، 1883ء کے وسط میں وہ اپنے گاؤں تشریف لائے اور خانقاہ معظمہ کی بنیاد رکھی، سیال شریف سے شیخ مکرم کے چند خلفا اور کئی درویش بھی ان کے ساتھ منتقل ہوئے، گاؤں میں انہوں نے مسجد اور مدرسہ قائم کیا اور خلق خدا کو فیضیاب کرتے رہے، وہی انہوں نے شادی کی اور صاحب اولاد ہوئے، 9 جمادی الثانی 1325ھ مطابق 20 جولائی 1907 کو وہیں ان کا وصال ہوا، روضۂ مبارک معظم آباد میں مرجع اہلِ دل ہے۔

    خواجہ معظم الدین پیروئ شریعت کا بے حد التزام فرماتے، وہ اپنے حلقۂ قرب و ارادت میں آدابِ بارگاہ رسالت سے آگاہی اور اس کے فروغ میں کوشاں رہتے، گھوڑے پر سفر کرتے تو جوتے اتار کر درود شریف پڑھنے رہتے، اپنی گفتگو میں سیرت طیبہ کے پرنور واقعات، سلفِ صالحین کی باتیں اور صوفیۂ کرام کے ارشادات و اشعار بیان فرماتے جن میں گہری تاثیر ہوا کرتی، ان کی زیارت کرنے والے کئی اہل قلم بزرگوں نے اپنی تصانیف میں لکھا ہے کہ ان کی مجالس علم و عرفان کا نچوڑ ہوتیں اور انہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ کامل اؤلیا کی کیا شان ہوتی ہے، ان کے پیر زادے خواجہ محمد دین ثانی سیالوی وہ یکتائے زمانہ شخصیت اور اپنے شیخ کے خلفائے کرام میں ایک نرالی نشانی تھے، خواجہ معظم الدین نے اپنے طویل علمی و روحانی اسفار کے دوران بزرگانِ دین اور خصوصاً چشتی سلسلے کے مشائخ کے آستانوں پر کئی بار حاضری دی اور ان کی برکات سے سیراب ہوئے، اپنے پیر خانے سے گہری وابستگی اور مشائخ طریقت سے نیازمندی ان کی شخصیت اور طرز زندگی کا خاص وصف ہے، کثرت مطالعہ و تدریس اور کثرت مجاہدہ و ریاضت کے باوجود عملی زندگی، اصلاحی، امور اور انتظامی معاملات میں بھی بہت پر عزم سرگرمی سے حصہ لیتے تھے۔

    خواجہ شمس الدین سیالوی کے ملفوظات عالیہ ”مرأت العاشقین“ میں ہے کہ ایک بار حضرت شیخ نے خواجہ معظم الدین کے بارے میں یہ تاریخی کلمات توصیف ارشاد فرمائے، ”مولوی معظم الدین“ عالی ہمت انسان ہے، حافظ قرآن ہونے کے علاوہ مروج علوم میں منتہی کی فضیلت رکھتے ہیں، حج کی بجا آوری اور زیارت حرمین سے فارغ ہوکر اب یاد الٰہی میں مشغول ہیں، کسی مرید کے لیے اس سے بڑی سعادت و مسرت کیا ہوسکتی ہے کہ اس کا مرشد اس کے اخلاق و کردار اور فضائل کے بارے میں ایسی سند توصیف عطا کرے، خواجہ معظم الدین سچے اہلِ تصوف کی طرف عجز و انکسار کا پیکر تھے اور غرور و نخوت، خود پسندی، ریاکاری اور خود نمائی کو شدید ناپسند کرتے تھے، ایک بار علاقے میں طاعون کی وبا پھیل گئی لیکن ان کا گاؤں اس سے باکل محفوظ رہا، لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ ہم خواجہ کی برکت سے وبا سے محفوظ رہے ہیں، خواجہ نے لوگوں کو جمع کرکے فرمایا کہ مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے میرے خیال میں تو ایسی غیر محتاط باتیں نہیں کرنی چاہئیں، ایسی ضعیف الاعتقادی دیکھ کر تو مجھے لگتا ہے کہ یہاں ضرور طاعون پھیلے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور بہت سا جانی نقصان ہوا۔

    خواجہ معظم الدین کے بعد ان کے اکلوتے صاحبزادے خواجہ محمد حسین معظمی سجادہ نشیں ہوئے، 1942ء میں ان کے وصال کے بعد خواجہ غلام سدیدالدین معظمی اور خواجہ غلام حمیدالدین احمد معظمی زیبِ سجادہ ہوئے، اِن دنوں حضرت پیر محمد معظم الحق صاحبِ سجادہ ہیں، معظمی خاندان کی ایک شاخ گجرات میں بھی قیام پذیر ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے