Sufinama

محمد حسین جلال پوری قوال

معین نظامی

محمد حسین جلال پوری قوال

معین نظامی

MORE BYمعین نظامی

    محمد حسین قوال آہلہ نزد جلال پور ضلع جہلم کے تھے اور عام طور پر محمد حسین جلال پوری کہلاتے تھے، وہ غالباََ جلال پور کی چشتی نظامی سیالوی خانقاہ کے مرید اور درگاہی قوال تھے، تیس چالیس سال پہلے پنجاب کی بیشتر چشتی درگاہوں پر ان کا مستقل آنا جانا تھا اور سالانہ عرسوں کی عام و خاص محفلوں میں وہ خوب سماں باندھ دیا کرتے تھے، وہ میرے جدِ امجد خواجہ حافظ غلام سدیدالدین معظمی کے گنے چنے پسندیدہ قوالوں میں سے تھے اور انہیں بہترین فارسی عارفانہ کلام سنایا کرتے تھے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جدِ امجد پر سب زیادہ ذوقی کیفیات محمد حسین کی قوالی کے دوران میں ہی طاری ہوتی تھیں، دادا جان کئی بار فرمائش کر کے بھی ان سے اپنا پسندیدہ کلام سنتے تھے، پچانوے فی صد اکابر فارسی شعرا کی تخلیقات یا مرزا غالب، اصغر گونڈوی، جگر مراد آبادی اور فیض احمد فیضؔ کی چند اردو غزلیں میری موجودگی میں ایک آدھ بار انہوں نے غالباً بلہے شاہ اور خواجہ غلام فرید کی چند کافیاں بھی فرمائش کر کے سنی تھیں۔

    محمد حسین درمیانے قد کے دھان پان سے خوش لباس اور آداب آشنا فن کار تھے، جناح کیپ جیسی ایک کالی ٹوپی انہیں خوب جچتی تھی، بیشتر خانقاہی قوالوں کی طرح ان کا لباس بھی سادہ، صاف ستھرا اور باوقار ہوتا تھا، زرق برق نہیں، ان کے چہرے پر عاجزانہ، نیازمندانہ اور درد بھری مسکراہٹ بہت بھلی لگتی تھی، لگتا تھا کہ یہ لب خند ان کے چہرے کا مستقل جزو ہے۔

    قوالوں کے کچھ کلامی تکیے ہوتے ہیں، محمد حسین بھی جب موج میں گا رہے ہوتے تو بڑی وارفتگی سے آہے آہے زیادہ کہتے، ایک بار میں نے کسی محفل کے بعد مزاحیہ جسارت سے انہیں کہا کہ آہے آہے کے بہ جائے آہلے آہلے کہہ لیا کریں کہ حبِ وطن کے روحانی تقاضے بھی ادا ہوتے رہیں، انہوں نے معصومیت اور انتہائی سنجیدگی سے کہا کہ جی حضور! تعمیلِ ارشاد کی کوشش کروں گا لیکن اس تعمیلِ ارشاد کی نوبت کبھی نہ آ سکی، آہے آہے کے بیچ میں لامِ لطیفہ داخل ہو کر آہلے آہلے نہ بن پایا، راسخ عادتیں کم ہی بدلتی ہیں، وہ اردو، فارسی، پنجابی اور سرائیکی کلام یکساں استادی سے گاتے تھے، ان کا تلفظ بہت معیاری تھا اور وہ اس کی صحت کا خصوصی اہتمام کرتے تھے، ایک دو بار انہیں تلفظ کی درستی کے لیے بر سرِ مجلس ٹوک بھی دیا گیا تھا، ادائے الفاظ و تراکیب کا اسلوب اور مصرعوں یا ان کے اجزا کی معتدل روشِ تکرار بھی قابلِ ستائش تھی، اس اعتبار سے ان کی ذہانت اور وقت شناسی اپنے کئی ہم چشموں سے فائق تھی۔

    وہ تضمین کاری میں بھی نمایاں تھے اور اکثر و بیشتر بہت معیاری گرہیں لگایا کرتے تھے، ہارمونیم کے استاد تھے، تالی بجانے میں بھی اچھی مشق اور مہارت حاصل تھی، اتفاق ہے کہ میں نے انہیں طبلہ بجاتے کبھی نہیں دیکھا، شاید بجاتے ہوں، عام محفلوں میں وہ بسا اوقات غلبۂ ذوق میں دوسرے قوالوں کے رضاکار ہم نوا بھی بن جاتے تھے مگر بڑی متانت کے ساتھ،کبھی کبھی دوسرے قوال بھی ان کی ہم نوائی کرتے۔

    اپنے بچپن اور لڑکپن میں میں نے انہیں اپنے گاؤں معظم آباد ضلع سرگودھا اور اپنے پیر خانے سیال شریف میں بہت سماعت کیا، نجی نشستوں ميں بھی انھیں جی بھر کر سنا، انہوں نے کئی بار میرے حجرے میں میرے چند قریبی دوستوں کی موجودگی میں میرا بچگانہ کلام بھی معمول کی دل چسپی اور انہماک سے گایا، وہ زر پرست اور شہرت طلب قوال نہیں تھے، قناعت اور شرافت ان کے پورے وجود سے جھلکتی تھی، محفلوں میں وہ نذر پیش کرنے والے کے حسبِ مقام کبھی محض ہلکے سے سلام سے، کبھی نیم خیز ہو کر اور کبھی سر و قد کھڑے ہو کرتعظیم بجا لاتے تھے، کبھی صاحبِ محفل خود ویل دینے جاتا تو ساری مجلس احترام میں کھڑی ہو جاتی اور اس وقت تک کھڑی رہتی جب تک صدر نشیں واپس اپنی نشست پر نہ بیٹھ جاتے، ذوق و شوق کے ایسے یادگار لمحات میں محمد حسین بھی اپنے ہم نواؤں کے ساتھ نہ صرف کھڑے ہوتے بلکہ ہلکا ہلکا جھوم جھوم کر متعلقہ مصرعے کا پر کیف تکرار بھی کر رہے ہوتے تھے۔

    محمد حسین قوال کی معمر بیاضِ خاص بھی خاصے کی چیز تھی جس میں مختلف زبانوں کا معیاری کلام اور منتخب اشعار درج تھے، ان کا اپنا رسم الخط تو متوسط سا تھا مگر لکھتے صاف تھے، آخری برسوں میں عینک کے بغیر لکھنے پڑھنے میں دقت محسوس کرتے تھے، اپنی بیاض میں انہوں نے یادگار کے طور پر میرے والدِ محترم خواجہ غلام نظام الدین معظمی سے ان کا کچھ اردو فارسی کلام بھی لکھوایا تھا اور مجھ سے بھی میرے کچھ کچے پکے اردو فارسی اشعار درج کروائے تھے، شاید ان کی مذکورہ بیاض ان کے وارثوں کے پاس محفوظ ہو، میں نے ان کے ایک بھائی، بھتیجے اور بیٹے کو ان کے ساتھ دیکھا ہوا ہے مگر ان سے الگ ملاقاتیں نہیں ہوئیں، نہ ان سے کچھ سماعت کر سکا اور اب تو ان کے نام اور احوال بھی یاد نہیں رہے، وقت بہت کچھ الٹ پلٹ کر کے رکھ دیتا ہے۔

    ان کی کچھ آڈیو ریکارڈنگز اور چند تصاویر بھی میرے پاس محفوظ تھیں، اب تہ بہ تہ کتابوں، تتر بتر کاغذوں اور پراگندہ یادگاروں کے پلندوں میں معلوم نہیں کہیں موجود بھی ہوں گی اور مل بھی سکیں گی یا نہیں ?

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے