Sufinama

یونس ایمرے : ترک تاریخ کے ایک عظیم صوفی شاعر

محسن رضا ضیائی

یونس ایمرے : ترک تاریخ کے ایک عظیم صوفی شاعر

محسن رضا ضیائی

MORE BYمحسن رضا ضیائی

    ترکی دنیا کے نقشے پر واحد وہ ملک ہے جو دو بر اعظموں کا حصہ ہے، جو جنوب مغربی ایشیا میں جزیرہ نما اناطولیہ اور جنوبی مشرقی یورپ کے علاقہ بلقان تک پھیلا ہوا ہے، یہ سیر و سیاحت سے لے کر تہذیب و ثقافت تک کے لیے کافی مشہور ہے، یہاں کے باشندوں کو جرأت و شجاعت اور عقل و فراست میں اعلیٰ درجہ کا متصور کیا جاتا ہے۔

    یہاں کی سر زمین پر اپنے وقت کے اجلہ علما، صوفیا اور اؤلیا پیدا ہوئے، جنہوں نے اس خطۂ ارض کو اپنی دینی، علمی، تبلیغی اور روحانی خدمات سے لالہ زار و گلِ گلزار بنانے میں ایک اہم اور کلیدی کردار ادا کیا، تیرہویں صدی عیسوی کے اوائل اور وسط میں تین اہم شخصیتوں نے اس سر زمین کو اپنے قدومِ میمنتِ لزوم سے نوازا، جن میں وقت کے جلیل القدر صوفی مولانا جلال الدین رومی، دوسرے انقلابِ ترکی کی ایک متحرک شخصیت محی الدین ابن العربی اور تیسرے ترک تاریخ کی ایک فردِ فرید شخصیت یونس ایمرے کی ہے، جن کی روحانی و صوفیانہ تعلیمات و ارشادات کے نقوش و اثرات آج تک ترکی اقوام پر ثبت ہیں۔

    یہاں ہم بات کریں گے بالخصوص یونس ایمرے (1320 1238) کی ہشت پہلو شخصیت کی، جو ترکی اناطولیہ کے ایک عظیم صوفی شاعر تھے، جنہوں نے اناطولیہ میں آنکھیں کھولی اور قونیہ شہر جیسے مرکزِ علم وفن میں رہ کر اپنی ابتدائی تعلیم کی تکمیل کی، انہوں نے جہاں اپنے روحانی و صوفیانہ کردار و عمل سے ترکی اقوام میں تصوف کی روح پھونکی، وہیں اپنی خالص ترکی زبان کی شعر و شاعری سے وہاں کی علمی و ادبی فضا کو ہموار کیا۔

    انہیں ترکی زبان کا اولین شاعر تسلیم کیا جاتا ہے، جنہوں نے اپنی ترکی شاعری میں تصوف و روحانیت، عشق و محبت، انسان دوستی اور عجز و انکساری جیسے آفاقی موضوعات کو شامل کیا اور وہاں کے دینی، علمی اور ادبی ماحول کو گرمایا، انہوں نے ترکی زبان میں ہر صنفِ سخن مثلا نعت، منقبت، نظم، غزل، مثنوی اور قصیدہ جیسی اہم صنفوں میں طبع آزمائی کر کے جہانِ علم و ادب سے اپنی شعر و شاعری کا لوہا منوایا۔

    ان پر خاص طور سے ان کے استاذ و مربی اور پیر و مرشد شیخ تاپدوک ایمرے کی کرم فرمائی ہے، جن کی بافیض درس گاہ میں انہوں نے اپنی حیاتِ مستعار کے قیمتی چالیس سال گزارے اور قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ تصوف و طریقت کے اسرار و رموز بھی سیکھے۔

    وہ واحد ایسے صوفی شاعر ہیں جن کی شاعری میں رزم و بزم اور اپنے دور کے واقعات و حالات کی بھر پور ترجمانی بھی ملتی ہے، ان کے دور میں فارسی و عربی دونوں زبانوں میں شعر و سخن کا رواج عام تھا، جس کو عوام سمجھنے سے قاصر تھی، ایسے وقت میں انہوں نے خالص علاقائی اور ترکی زبان میں شعر و شاعری کی بنیاد رکھی جسے عوام نے خوب پسند کیا اور اسی طرح ان کی مقبولیت پورے ترکی میں بڑھتی چلی گئی، انہیں گزرے ہوئے سات سو سال سے زائد کا طویل عرصہ گزر گیا لیکن آج بھی ان کی داستانیں، نظمیں اور غزلیں وہاں کے لوگوں کی زبانوں پر عام ہیں۔

    ان کی شاعری کے جائزہ سے یہ بات روزِ روشن کی طرح ظاہر و باہر ہے کہ وہ اپنے شاعرانہ جذبات و خیالات کے ذریعہ مادی و روحانی دنیا کا ایسا نقشہ و جغرافیہ پیش کرتے ہیں، جس کے دامن میں اسلامی عقائد و نظریات اور اس کے قدیم افکار و تصورات مضمر ہیں، ان کے علاوہ وہ اپنی شاعری میں عشق الٰہی کو اولیت کا اور اس کے ماسوا کو ثانویت کا درجہ دیتے ہیں، تصوف و طریقت سے ان کا روحانی و جذباتی رشتہ تھا، اسی لیے ان کی شاعری میں صوفیانہ تنوع اور رنگا رنگی کے ساتھ ساتھ طریقت، حقیقت اور معرفت کا ذکر بہ کثرت ملتا ہے، ان کا شاعرانہ انداز و اسلوب بھی نہایت ہی شستہ، شیفتہ اور شگفتہ ہے، ان کے کلاموں میں نغمگی، شائستگی اور فکری ہم آہنگی کمال درجہ کی ہے، ان کی ترکی زبانِ شاعری کا اردو ترجمہ پیشِ خدمت ہے، پڑھیں اور اندازہ لگائیں کہ وہ کس طرح کے شاعر تھے، جن کی شاعری ترکی زبان و ادب میں ایک شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔

    کبریائی تیری ہے، عظمت تیری ہے

    خالقِ ارض و سما، قدرت تیری ہے

    انس و جن، ملائک، حیوان و طیور

    سب پر فرض تری عبادت ہے

    یونسؔ کا دفتر سیاہ ہے

    بچ گیا سزا سے یہ تیری رحمت ہے

    اے سرورِ کون و مکاں تجھ کو جانیں سب جن و انساں

    تو ہے پیغمبر آخرالزماں، میں نے بخش دیا تری امت کو

    تو تو یتیموں کا سردار ہے، تو مریضوں، دل جلوں کا طبیب ہے

    اپنی امت کا حامی و مددگار ہے، میں نے بخش دیا تری امت کو

    اؤلیاؤں کے دشمنِ راہِ حق کے باغی ہیں

    اس راہ کے جو باغی ہیں وہ گمراہ اور عاصی ہیں

    یہ بادِ نو بہار پھر اک نئے انداز کے ساتھ چلی

    پھر موسم سرما کی سردی، خنکی اور بے کیفی دور ہوئی

    تجھے عبرت چاہیے تو آ دیکھ اس شہرِ خموشاں کو

    اگر دیکھے تو ان قبروں کو تو پتھر بھی ہے تو پگھل جائے گا

    یہ دیکھ کہ ان کے تھے مال بہت، دیکھ ان کا کیا حال ہوا؟

    زیب تن کیا ہے اک ایسا جامہ جس کا نہیں کوئی کنارا

    پہلا دروازہ، دروازہ شریعت امر و نہی ہے

    معصیت کو صاف کرتا ہے لفظ ہر ایک قرآن کا

    دوسرا ہے در طریقت، بنیاد ہے جس کی بندگی پر

    یا نگہبان ہے پیر، راہِ راست پر چلنے والوں کا

    تیسرا ہے معرفت، یہ چشم جاں کو وا کرتا ہے

    دیکھ روحانیت کی عمارت بلند ہوتی ہے عرش تک

    چوتھا ہے حقیقت اس کے اہل کو کمتر نہ سمجھ

    اس روز، روز عید ہوتا ہے اور شب، شبِ برات

    (حوالہ : یونس ایمرے از ڈاکٹر نثار احمد سردار)

    ان تمام اصنافِ سخن کے مختلف اشعار کی روشنی میں یونس ایمرے کی شاعرانہ عظمت و شخصیت کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ شاعری کے کس عظیم مقام پر فائز تھے، ان کی شاعری میں تصوف و طریقت اور درویشی و فقیری کے علاوہ عبادت و بندگی اور موت و حیات بطورِ مضامین شامل ہیں، بلا شبہ ان کی شاعرانہ عظمت و رفعت کا اعتراف وقت کے بڑے بڑے شعرا اور ادبا نے کیا ہے اور انہیں ترکی زبان کا ایک کامیاب اور انقلاب آفریں شاعر قرار دیا ہے۔

    در حقیقت شعر و شاعری سماج و معاشرہ، قوم و ملت اور خود کے حالات کی بہترین عکاس ہوا کرتی ہے، اس کی جدت طرازی، خیال آفرینی اور حلاوت و شیرینی سے پتھر دلوں کو بھی موم کیا جا سکتا ہے، یہی یونس ایمرے کی شاعری کا کمال تھا، جنہوں نے اپنی صوفیانہ شعر و شاعری سے بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لانے کا بیش بہا کارنامہ بھی سر انجام دیا۔

    یونس ایمرے نے سلجوق سلطنت کے زوال و خاتمہ کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کے قیام کی راہیں ہموار کی، عثمان بن ارطغرل جو سلطنت عثمانیہ کے بانی ہیں، ان کے اور ان کے سپاہیوں کے قلوب و اذہان میں اپنی انقلاب آفریں اور سحر آگیں شعر و شاعری اور صوفیانہ تعلیمات سے شوق و جذبۂ شہادت کو جاں گزیں کیا، انہوں نے دو عظیم سلطنتوں کو پایا، سلجوقی سلطنت کو روبۂ زوال ہوتے ہوئے بھی دیکھا اور عثمانی سلطنت کو قائم ہوتے ہوئے بھی۔

    ان کی زندگی سے متاثر ہو کر ترکی حکومت نے 2015ء میں ان کی حالاتِ زندگی پر ایک ڈرامہ سیریل ’’یونس ایمرے محبت کا سفر‘‘ شروع کیا تھا جسے دنیا بھر کے ناظرین نے بہت پسند کیا، اسی طرح اے ٹی وی ترکی پر نشر کیا جانے والا دنیا بھر میں مقبول ترین ڈرامہ ”کرولش عثمان“ میں بھی یونس ایمرے کے کردار کو فلمایا گیا ہے اور دنیا بالخصوص ترکی اقوام کو ان کی صوفیانہ و روحانی تعلیمات سے متأثر کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی گئی ہے، ان کی انسانیت دوستی اور احترام انسانیت کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ کی جانب سے یونیسکو کے زیر اہتمام 1991ء میں ان کی 750ویں سالگرہ کے موقع پر 1991ء کو دنیا بھر میں یونس ایمرے کے سال کے طور پر منایا گیا۔

    اہلیانِ ترکی کے لیے ان کی تہہ دار اور ہشت پہلو شخصیت بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے، جن کی فکر انگیز و بصیرت افروز باتیں، نظمیں، غزلیں اور داستانیں زندگی میں تغیر و تبدل پیدا کردینے میں بہت ہی بڑا رول ادا کرتی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے