Sufinama

حضرت شاہ نیاز احمد کی تصانیف کا تجزیاتی مطالعہ

مختار عالم صابری

حضرت شاہ نیاز احمد کی تصانیف کا تجزیاتی مطالعہ

مختار عالم صابری

MORE BYمختار عالم صابری

    اٹھارویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی کے نصف اول عہد کے ایک عظیم المرتبت مبلغ بزرگ عارف باللہ، قدوۃ السالکین، زبدۃ العارفین، حضرت شاہ نیاز احمد قدس سرہٗ العزیز سیاسی و ملی اعتبار سے مائل بہ زوال ہندوستان میں ایک انقلاب آفریں شخصیت کی شکل میں ابھرے آپ کی پیدائش 1155 ہجری مطابق 1742 عیسوی سرہند میں ہوئی، آپ کا سلسلہ آبائی علوی سید اور والدہ کی جانب سے رضوی سادات میں سے ہیں، آپ کے اجداد شاہانِ بخارا سے تھے جس کا پایۂ تخت ایک زمانہ میں اندیجان تھا، آپ کے اجداد میں شاہ آیت اللہ علوی ترک سلطنت کرکے ملتان چلے آئے ان کے نبیرہ شاہ عظمت اللہ علوی سرہند میں سکونت پذیر ہوئے۔

    حضرت مولانا شاہ نیاز احمد بریلوی کے والد گرامی حاجی الحرمین حکیم الٰہی شاہ محمد رحمت اللہ علوی دہلی تشریف لائے جہاں کچھ عرصہ تک وہ قاضی القضاۃ کے عہدہ پر معمور رہے، یہ تمام حضرات سلسلۂ نقشبندیہ قدیمہ و سلسلۂ چشتیہ صابریہ میں صاحبِ رشد و ہدایت اؤلیا گزرے ہیں، آپ کی والدہ بی بی غریب نواز صاحبِ مرتاض عابدہ تھیں جنہوں نے آپ کی پرورش اور تربیت و تعلیم کا بہت عمدہ انتظام کیا سرہند کی تعلیمی فراغت کے بعد آپ دہلی میں اپنی والدہ اور والد کے مشورہ سے حضرت مولانا فخرالدین جہاں قدس سرہٗ کی خدمت با فیض میں بقیہ علوم کی تکمیل فرمائی، حضرت مولانا شاہ نیاز بے نیاز ابتدا ہی سے اعلیٰ ذہانت کے مالک تھے، یہ عطائے ربی سترہ سال کی مدت میں معقول و منقول فروغ و اصول، حدیث و تفسیر اور علم الکلام میں علامۂ عصر ہوگئے، علومِ ظاہری کے بعد حضرت مولانا فخر پاک دہلوی کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے اور پھر علومِ باطنی کی طرف متوجہ ہوئے، اسی زمانہ میں حضرت مولانا فخر پاک نے عالم رویا میں حضرت غوث الاعظم کا حکم پایا کہ میرا شہزادہ حضرت شیخ عبداللہ بغدادی دہلی کی جامع مسجد میں قیام پذیر ہیں مولانا شاہ نیاز احمد کو ان سے بیعت کرا دو۔

    حضرت مولانا فخر اس حکم کے بعد دوسرے دن اپنے سر پر مٹھائی کا خوان رکھ کر حضرت شیخ عبداللہ بغدادی کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو حضرت شیخ عبداللہ بغدادی نے قادریہ سلسلہ میں داخل کیا اور اپنا اول جانیشن بنایا خرقہ و خلافت کے بعد اپنی صاحبزادی کو آپ کی زوجیت میں داخل کیا، حضرت شاہ نیاز ہندوستان کے پہلے قادری بزرگ ہیں جن کے پیر خود بغداد شریف سے بحکم غوث الاعظم محبوبِ سبحانی شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی کی تصدیق حکیم ابوالقاسم قدرت اللہ المتخلص بہ قاسم اس طرح فرماتے ہیں کہ

    ’’در بدو امر دعویٰ استفادہ ایں کار استوار خدمت بابرک والدۂ ماجدہ خود کہ اویسیہ جناب طہارت انتساب حضرت بتول زہرا علیہما السلام می گفت می کرد در آخرہا دست بیعت بہ دست حق پرست سید عبداللہ قادری علیہ الرحمہ کی از اولاد و امجاد حضرت ذولسانین امام الفریقین غوث صمدانی محبوبِ سبحانی قدس سرہٗ العزیز بغدادی المولد بودن دادہ و مثال، ارشاد طالبان و خرقہ خلافتِ سالکان یافتہ بہ تعلیم و ارشاد طالبان خدا بر مسند تعلیم و ارشاد بلدہ بریلی نششتہ فقیرانہ ایام بکام دل بسرمی برد‘‘

    انیس سال کی عمر میں آپ نے اس قدر مجاہدہ کیا کہ آپ کا تعلق باللہ انتہا کو پہنچ گیا کہ آپ کے پیر اس سعیٔ پیہم سے بہت متاثر ہوئے اور آپ کا اپنا خلیفۂ راستین مقرر کیا اور بریلی میں خانقاہ قائم کر نے کا حکم فرمایا، حضرت شاہ نیاز احمد نے اپنی چشتیہ مشرب کی خانقاہ قائم کی جو کچھ دنوں میں بقول مصنف ”خزینۃ الاصفیا“ معدن فیوض رہا اور مطلع انوارِ سبحانی بن گئی۔

    آپ بریلی پہنچ کر مخلوق کی رشد و ہدایت اور تعلیم و تربیت میں مصروف ہوگئے، آپ کی تبلیغی رشد و ہدایت کی سرگرمیاں اتنی مقبول ہوئیں کہ اقالیم عالم کے مختلف خطوں سے جوق در جوق انسانی قافلہ مثلاً کابل قندھار، شیراز، بدخشاں، سمرقند اور بخارا، ملتان اور ہندوستان کے ہر شہر و قصبہ جات سے آ آ کر مستفیض ہوا، آپ کو شخصیت اور دیگر خصوصیات کے استناد میں خزینۃ الاصفیا کے مصنف فرماتے ہیں کہ

    ”ولی در عمر ہفدہ سالگی بکمال معقول و منقول و فروع و اصول و حدیث و تفسیر و فقہ رسید و دستارِ فضیلت، بر سربست بعد ازاں تعمیر نوزدہ سالگی بر دستِ حق پرست مولانا فخرالدین بیعت کرد و در چند سال بکمالات ولایتِ باطنی فائز گشت و بعد عطائی خرقۂ خلافت از پیشگاہ پیر روشن ضمیر مامور بخطۂ بانس بریلی شد در آنجا رسیدہ بہدایت خلق مشغول گشت و خلق بشمار بحلقۂ ارادت وی در آمد و مردامان از اقالیم دور و دراز یعنی از کابل و قندھار و شیراز و بدخشاں بخدمتِ با برکت وے حاضرہ آمدہ مستفید و مستفیض شدند و خلافی آں جناب برسمت باقلیم بعید المسافت مامور شدند“

    قطب عالم شاہ نیاز احمد نے بھی کافی عرصہ تک اپنے پیر کے جانشیں ہونے ہونے کی حیثیت سے مدرسہ فخریہ، دہلی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیے، مصحفی نے اپنے طالب علمی کے ایام میں ان کی علمی سرگرمیوں اور تدریسی شان و جلالت کو دیکھی تھی، وہ ریاض الفصحا میں لکھتے ہیں کہ

    ”چند روز میزان اہم از ایشاں در شاہ جہاں آباد خواندہ بود“

    انبیائے کرام اور اؤلیائے عظام شعر و ادب کے فروغ کے لیے پیدا نہیں ہوتے بلکہ ان کا عظیم نصب العین اور فرض منصبی مخلوق کو اللہ کی طرف بلانا اور راہِ مستقیم پر چلنے کی ترغیب دینا ہے اس خاص مقصد کو مزید تقویت دینے کے لیے بعض اؤلیائے کرام نے شعر و ادب اور تصنیف و تالیف سے بھی کام لیا اور نثر و نظم میں بیش بہا تصانیف علمیہ بطور یادگار چھوڑی ہیں جو نہ صرف ہماری دینی، روحانی اور اخلاقی زندگی کا بلکہ ہمارے علم و ادب اور تہذیب و ثافت کا بھی مایہ ناز تاریخی سرمایہ ہے۔

    مسلمانوں میں اگر جذبۂ ایمانی اور غیرتِ قومی باقی ہے تو وہ اب بھی اپنے اس دینی ملی سرمائے کو (جو دنیا کی دیگر غیر مسلم اقوام کے مقابلہ میں بلحاظ دین و روحانیت امتیازی حیثیت رکھتا ہے) طبع کرا کے محفوظ کرلینا چاہیے ورنہ اسلاف کی روحانی کارکردگی اور ممتاز دینی آثار و باقیات کی صحیح تاریخ کبھی مرتب نہ ہوسکے گی اور دنیا یہ نہ جان سکے گی کہ بر صغیر ہندوپاک میں کیسے کیسے علما فضلا اور اؤلیااللہ گزرے اور انہوں نے انسانیت کے تحفظ اور انسانی کردار کی تعمیر و ترقی میں کیسی کیسی بیش بہا خدمات انجام دی ہیں۔

    حضرت قطب عالم شاہ نیاز احمد کی علمی بصیرت اور تفرد و تبحر کا اندازہ آپ کی تصنیفات کے مطالعہ سے لگایا جاسکتا ہے، آپ کا محبوب مشغلۂ درس و تدریس، تصنیف و تالیف اور بیمار دلوں کا روحانی علاج کرنا تھا، آپ خود بھی تحریر کرتے تھے اور بعض موقعوں پر حسبِ ضرورت اپنے مریدین اور طالب علموں کی تربیت کے لیے مختلف مضامین پر کتب و رسائل املا کرا دیتے تھے، یہ رسائل مریدین کی تعلیم سے متعلق ہوتے تھے اس لیے وہ ان کو اپنے ہمراہ دور دراز علاقوں میں لے جاتے تھے، اس لیے آپ کی تصانیف ملک اور بیرون ملک میں پہنچ گئیں، ان کتابوں میں کچھ کتابیں خانقاہِ عالیہ نیازیہ، بریلی شریف میں موجود ہیں۔

    حضرت قبلہ شاہ نیاز کی تصنیفات اور تبحرِ علمی کے متعلق تاریخِ مشائخ چشت کے مصنف رقم طراز ہیں کہ

    ”حضرت شاہ نیاز احمد صاحب بڑے جید عالم تھے، ان کی تصانیف ان کی علمیت کی شاہد ہیں شاہ نیاز احمد کی بہت سی کتابیں ہیں“

    ”چند شعرائے بریلی“ کے مؤلف حضرت شاہ نیاز احمد صاحب کی علمیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

    ”حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کثیر التصانفی بزرگ تھے، بہ شمولیت دیوان آپ کی سترہ تصانیف کا علم ہوسکا“

    لیکن مجھے حضرت کی ایک اور کتاب دستیاب ہوئی ہے جس کا نام ھو الشافی ہے جس کا ترجمہ راقم الحروف کر رہا ہے، آپ کی تصانیف کی فہرست درج ذیل ہے۔

    شمس العین 2۔ کشف العین نورالعین مجموعہ قصائد عربیہ شرح قصائد عربیہ 6۔ دیوانِ نیاز رسالہ راز و نیاز تحفہ نیاز بہ حضرت بے نیاز رسالہ تسمیۃ المراتب 10۔ یعرفون 11۔ لیعبدون 12۔ حاشیہ شرح چغمنی 13۔ حاشیہ ملا جلال 14۔ رسالہ منطق 15۔ بیاض 16۔ ملفوظات نیاز 17۔ مجموعۂ رسائل برعولم مختلفہ 18 ھوالشافی

    حضرت قطب عالم شاہ نیاز احمد قادرالکلام اور فصیح اللسان صوفی شاعر تھے، ان کا بلند پایہ کلام جو توحیدی عرفان سے معمور و متجلی ہے تقریباً چار زبانوں میں یعنی عربی، فارسی، اردو اور ہندی میں ہے اور ان مروجہ مختصرف دیوان کی صورت میں 52 مرتبہ ہند و پاک کے مختلف اشخاص اور اداروں کی جانب سے طبع ہوچکا ہے۔ ”دیوان نیاز“ کا ایک نسخہ حضرت ملا مزمل خاں صاحب سرمدی کا چھپوایا ہوا ہے، یہ نسخہ 1348 ہجری میں آگرہ اخبار پریس، آگرہ میں حضرت علامہ میکش اکبرآبادی کی معرفت شائع ہوا تھا، دیوان مذکورہ کے تین حصے کیے جاسکتے ہیں، حصہ اول میں فارسی کی 101 غزلوں کے علاوہ ایک گزل ذولسانین (یعنی پہلا مصرعہ فارسی اور مصرعۂ دوم عربی میں ہے اور ایک غزل پوری عربی میں ہے) 150 اشعار کی دو مثنویاں، چالیس اشعار پر مشتمل پانچ مستزاد اور شروع میں 192 اشعار پر مشتمل عرفانی تاثیرات سے معمور مناجات ہے، مناجات میں عربی کے الفاط اور مصرعے نہایت لطیف اور روانی کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں، دوسرے حصے میں اردو کلام ہے، اس میں اردو کی 66 غزلیں ہیں جن کے اشعار کی تعداد 525 سے زیادہ ہے، تیسرے حصے میں ہندی کلام ہے اس کی زبان اور مضامین کو پڑھ کر ہندی کلاسیکی دور کے عظیم المرتبت شاعر ملک محمد جائسی کے شاہکار ”پدماوت“ کے ”بارہ ماسہ“ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، اس حصہ میں پچیس ہولیا اور پھاگ ہیں، گویا کہ حضرت مولانا شاہ نیاز احمد نے کلاسیکی ہندی زبان میں تصوف و عرفان کے رموز کو بیان کرکے ایک نئی روایت کی بنیاد رکھی ہے۔

    حضرت نیاز بے نیاز بحیثیت شاعر :- قطبِ عالم شاہ نیاز کی فطرت میں جو شاعرانہ جوہر پوشیدہ تھا وہ سوز و درد کی شکل میں ظاہر ہوا، علم و فضل اور صوفیانہ احوال و موجید جو عشق فروش کے مکتب میں سکھا تھا وہ شعری شکل میں علوم و فنون کے دریا بہا دیئے اور سلوک و عرفان میں اپنی ایک الگ پہچان بنا لی، آپ کی غزلوں میں خدائے تعالیٰ کی نسبت کی گرمی و جوش اور باطن میں سرمستی نظر آتی ہے، سلطان عشق کے غلبے کا یہ عالم ہے کہ بربطِ عشق کے ہر تار سے آہنگِ عشق“ پیدا ہے یہاں تک کہ ان کا کفر و ایمان سب کچھ عشق ہی بن جاتا ہے۔

    کافر عشقم مپرس از دینِ من اے ہمنشیں

    عشق اسلامست و دین در ملکِ کفرستانِ عشق

    ترجمہ : میں کافر عشق ہوں، اے میرے دوست میرے دین کے متعلق مت پوچھ، کفرستان عشق میں عشق ہی میرا اسلام اور دین (دریں بغیر عشق اصل دین نہیں ہے)، اس لیے آپ کا پورا کلام عشق کا صحیفہ ہے، شاعری میں آپ نے کسی کی شاگردی اختیار نہیں کی، آپ خود ہی فرماتے ہیں کہ

    تعلیم اور تعلم سب ہے نیاز اپنا

    شاگرد ہیں تو ہم استاد ہیں تو ہم ہیں

    فارسی، اردو اور ہندی میں نیاز اور عربی شاعری میں امی تخلص فرماتے تھے، اس امر کا متعین کرنا دشوار ہے کہ آپ نے پہلے کس زبان میں طبع آزمائی کی لیکن حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں کی خدمت میں جو غزل پیش کی تھی اس کی پختگی اور قبولیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ بہت کم عمری میں ہی مشقِ سخن شروع ہوگئی تھی، حضرت شاہ نیاز صاحب کی ایک غزل عربی میں ہے جس میں امی تخلص فرمایا ہے، جس کا مقطع یہ ہے۔

    جلاء لعشق یا امی بلاءٌ

    ولالف المعائب فیہ مشحون

    شمس العین :- یہ تصوف کے موضوع پر معرکۃ الآرا رسالہ فارسی میں دو سو ستتر (277) صفحات پر مشتمل ہے جس میں شاہ نیاز نے وحدۃ الوجود کے احوال و مسائل کی توضیح پیش کی ہے، یہ 1204 ہجری سے قبل مکمل ہوکر صاحبانِ معرفت کی نظروں میں قبولیت کی سند حاصل کر چکا تھا، شاہ صاحب کی خواہش تھی کہ اس کے بعض اشعار کی تبدیلی کردیں مگر اس کی مقبولیت کی وجہ دیکھ کر بجنسہِ رہنے دیا چنانچہ حضرت شیخ خود فرماتے ہیں کہ

    ”از بسکہ ایں رسالہ در اکثر اکناف و اطراف منتشر گشتہ و از نظر بسیاری بزرگان صاحب حال گذشتہ و قبولیت یافتہ و تحریف و اصلاح و صلاح کارندیدہ بر حال خود داشت“

    شمس العین میں پنچانوے بند پر مشتمل خسمہ کے ابتدائی چار بند عربی کے ہیں اور چار مصرعے فارسی کے اور پانچواں مصرعہ عربی کا ہوتا ہے، شروع کے بندوں میں عقائد بیان کیے ہیں اور اس کے بعد تصوف کے رموز و اسرار کے غامض نکات کا خلاصہ بھی پیش کیا ہے، مزید اس میں سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ حضرت شیخ نے ہذات خود ہر بند کی تشریح تحریر کی ہے اور شمس العین کی کئی شرحیں قلم بند فرمائی ہیں، خانوادۂ نیازیہ کے ذریعہ جو معلومات راقم الحروف کو بہم پہنچی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک شرح مفصل ہے جس کو عرف عام میں شمس العین ہی کہتے ہیں، شمس العین شریف کی عبارتیں استفادہ کے لیے نمونتاً پیش ہیں کہ

    ”ہر بند آں خمسہ حواشی نمودہ تا قدری تفصیل اجمال من الجملہ توضیح اشکال نماید و پردہ استتار از مستورات مطالب و ستر اخفائی از مخدرات مضامین بر کشاید از خوف اطناب و اجتناب از تطویل در حاشیہ کتاب ایضاح کلام بوجہ کمال و تام منظور نیست ان شاء اللہ تعالیٰ بشرط دست دہی فرصت و رفاقت توفیقِ الٰہی شرحی موضع و منصل برائے ایں خمسہ تحریر نمودہ خواہد شد لعل الیہ یوفقنی علیہ ولا یوزعنی بہ آمین یارب الکریم“

    ترجمہ : خمسہ کے ہر بند کے حواشی اس کی تشریح میں تحریر کیے گئے ہیں تاکہ اس اجمال کی کچھ تفصیل اور اشکال کی توضیح ہوسکے اور اسرار کے پردوں میں چھپے ہوئے مطالب اور پوشیدہ مضامین کے حجاب کو دور کیا جاسکے، طوالت کے خوف سے بچنے کے لیے کتاب کے حاشیہ میں کلام کی تمام و کمال وضاحت منظور نہیں ہے، ان شاء اللہ اگر فرصت رہی توفیقِ الٰہی شامل رہی تو اس کی شرح مفصل اور واضح تحریر کی جائے گی یا اللہ اس کی توفیق عطا فرما اور اس کی برکت سے مجھے میرے ہمدم سے دور نہ کر، آمین یارب الکریم۔

    شمس العین کی شرح میں شاہ صاحب نے اللہ تعالیٰ کی شان رحمانی اور رحیمی کی صفاتِ عالیہ کی توضیح پیش کی ہے کہ وہ ذاتِ واحد کتنی عظیم الشان ہے کہ اپنی مخلوق پر ہر آن مہربانی اور رحمت فرما رہی ہے، چند عبارتیں استفادہ کے لیے پیش ہیں کہ

    ”یعنی از کتم عدم جمیع مکنونات را بمقتضائی استدادات ایشاں بیرون آوردہ و رزق و روزی آنچہ مناسب احوال دید و نمایندہ و بموجب فحو ای کل حزب بمالدیہم فرحون ہر خاص وعام را بہرہ فرحت و نصیبہ راحت بخشیدہ و رحیم است یعنی بخشندہ است مومنان را نہ کافران اہلِ حجاب را زیرا کہ ایشان را بمقتضائے استعداد ایشان در حجابات مستقیم کردہ و مومنان را بحکمِ سعادتِ ازلی بروزی صوری از نعیم و لذات و ینیوی و بزرق معنوی از جز او ثوابِ اخروی بہرہ ور ساختہ مخضی نماند کہ اللہ اسم مرتبہ ایست کہ جامع جمیع اسما صفات و استعدادات قابلیات است و ایں مرتبہ را در عرف صوفیہ وحدت می نامند و حقیقۃ الحقائق می خوانند و حقیقت محمدی می گویند پس تقریر کلام چناں باشد کہ ابتدا می کنم بنام حقیقۃ الحقائق کہ ظہور او بدو تجلی است کہ یکی عام و دوم خاص تجلی عام تجلیٔ رحمانی است و تجلی خاص تجلی رحیمی در تجلی رحمانی ہمہ موجودات براند، ما ترائے فی خلق الرحمٰن من تفاوت وسعت رحیمی کل شیئ اشارت بداں دارد ودر تجلی رحیمی کافر از مومن و عاصی از مطیع و ناقص از کامل ممتاز گشتند اؤلیا و انبیا را از جہت تکمیل خلائق دریں تجلی مبعوث اند“

    ترجمہ : یعنی اس نے عدم پوشیدگی سے تمام مکنونات (چھپی ہوئی چیزوں) کو ان کی استعداد کے مطابق ظاہر کر کے ان کے مناسب رزق و روزی کا انتظام کیا اور ان تک پہنچایا اور تمام جماعتوں کی تفریح کا سامان کیا، ہر خاص و عام کو فوائد اور خوشیوں سے بہرہ ور کیا، وہ رحیم ہے یعنی مومنوں کو بخشنے والا ہے نہ کہ کافروں کو جو اہلِ حجاب ہیں کیونکہ ان لوگوں کو ان کی استعداد کے تقاضہ سے حجابات میں مستقیم کیا ہے، اور مومنوں کو ان کی سعادتِ ازلی کی وجہ سے دنیاوی روزی سے اور دنیاوی نعمتوں اور لذتوں سے اور رزقِ معنوی سے اور ثوابِ اخروی سے بہرہ ور کیا، مخفی نہ رہے کہ ”اللہ“ ایسا اسم ہے کہ جمیع اسما و صفات اور استعدادات اور قابلیات کا جامع ہے، اس مرتبہ کو صوفیا کی زبان میں وحدت کہتے ہیں اور حقیقت الحقائق پڑھتے ہیں اور اسی کو حقیقتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کہا جاتا ہے اس طرح اس کلام کو یوں پڑھا جائے گا کہ میں ابتدا کرتا ہوں حقیقت الحقائق کے نام سے کہ اس کا ظہور دو تجلیوں کے ساتھ ہے، ایک عام اور دوسری خاص تجلی عام تجلیٔ رحمانی ہے اور تجلیٔ خاص رحیمی ہے، تجلیٔ رحمانی میں تمام موجوات برابر ہیں رحمٰن کی مخلوق میں تو کوئی فرق نہیں دیکھتے، میری رحمت تمام چیزوں پر وسیع ہے اس میں تمام چیزیں آجاتی ہیں لیکن تجلیٔ رحیمی میں مومن سے کافر، مطیع سے گنہگار، کامل سے ناقص ممتاز ہوتے ہیں اؤلیا اور انبیا خلائق کے لیے اسی جہت کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوئے کیونکہ حق تعالیٰ رحمت رحیمی کے تقاضہ سے بندہ پر خود رحمت فرماتا ہے۔

    کشف العین :- یہ شمس العین کی عربی شرح ہے تقریباً سو اوراق پر مشتمل ہے، اس کا سنہ تصنیف دریافت نہیں ہوسکا، اس رسالہ کی تحریر صاف اور روشن ہے کاتبِ رسالہ تاج الاؤلیا حضرت شاہ نظام الدین حسین چشتی کے مرید ہیں اس لیے اپنی علمی استعدا کے مطابق رسالہ پر حاشیہ بھی لکھا ہے۔

    نورالعین :- نورالعین بھی شمس العین کی شرح کہا جاتا ہے، یہ رسالہ مختصر صفحات پر مشتمل ہے اس لیے اس کو شرح کے بجائے شرح کا تتمہ کہنا چاہیے۔

    مجموعۂ قصائد عربیہ :- مجموعۂ قصائد عربیہ میں تین خمسے ہیں، پہلا خمسہ پنجتن پاک کی شان میں ہے اس میں اکیس بند ہیں، مقطع کا بند اس طرح ہے۔

    جاء امی الی جناب کمو

    لیس ملجاہُ غیر باب کمو

    ان تعدُّو من کلام کمو

    او تشیروہ می خطاب کمو

    لا یخف من مخالفۃ الدارین

    دوسرا خمسہ حضرت امیرالمؤمنین علی کرم اللہ وجہٗ کی شان میں منقبت میں ہے جس میں شاہ صاحب نے نسبت و عقیدت میں اپنا دل نکال کے رکھ دیا ہے، اس خمسہ میں بتیس بند ہیں اور اس کی ترتیب حروف تہجی کے لحاظ سے ہے، بطور تمثیل ایک بند پیش ہے۔

    یا علی قد جآءَ کم شخصٌ غریب

    ھُو مریضٌ ھالکٌ انت الطبیب

    من بعیدِ جاءَ عندک یا حبیب

    یا علّیِ للہ عَوتاً یا علّیِ

    بالتفاتِ منک ھَمّہ ینجلی

    ایک اور خمسہ حضرت نیاز بے نیاز کے نبیرہ و جانشیں حضرت سیدنا سراج السالکین، شاہ محی الدین احمد صاحب کے اردو ترجمے کے ساتھ حضرت مولانا عبدالشکور صاحب الہٰ آبادی سجادہ نشیں خانقاہ حضرت ملا محمدی شاہ صاحب کی ایما سے 1928 عیسوی یا 1929 عیسوی میں شائع ہوچکا ہے، یہ منقبتی مناجات مریدین و متوسلینِ نیازیہ کے معمولات میں شامل ہیں۔

    تیسرا خمسہ حضرت امیرالمؤمنین سیدنا ابوبکر صدیق اکبر کی مشہور مناجات کی تضمین ہے، یہ خمسہ گیارہ بندوں پر مشتمل ہے، اس خمسہ کا پہلا بند پیش ہے۔

    رب فرج ھَمَّ قلبی واکشف انعم الثقیل

    انت لی فی الدین والدنیا وکیلی واللفکیل

    انت تواب روف لیس للک مثل عدیل

    خذ بلطفک یا الٰہی مولہ زاد قلیل

    مفلسٌ بالصدق یاتی عند بابک یا جلیل

    ان اتوب اللہ مفتاحٌ لِابواب مفتاحٌ لابواب الفتوح

    انت یا اُمّتی غریبٌ تب الیہ کالنصوح

    کُلَّ مَن جاءِ فی الدنیا الی العقبیٰ بروح

    این موسیٰ عیسیٰ این یحییٰ این نوح

    انت یا صدیق عاصی تب الیٰ المولی الجلیل

    دیگر خمسوں کے علاوہ ایک خمسہ نوے بند پر مشتمل ہے، اس کے پہلے تین حصے فارسی زبان میں ہیں اور دو عربی بند ہیں۔

    منکہ ہستم قریب بد عملی

    از تباہ کاری خفی وجلی

    بر درت آمد بخستہ دلی

    اعتصامی سوا جنابک لی

    لیس یا سیدی الی احدی

    یا رسولِ خدا شہ ثقلین

    اب خیر انساء جد حسنین

    ازدل وزبان وز شفتین

    صلوٰتی علیک فی الملوین

    کان متجاوزٌ عن العدوی

    شرح قصائد عربیہ :- اس شرح میں حضرت مولانا شاہ نیاز احمد نےاپنے قصائد کی تشریح و توضیح فرمائی ہے، لسانی خصوصیت کے اعتبار سے شرح شمس العین کی مثل عربی آمیز فارسی ہے، کثرت سے آیات قرآنی، احادیث اور عقائد سے متعلق متقدمین صوفیائے کرام کے عربی جملے بے تکلف نقل کیے ہیں، جس کی وجہ سے عبارتیں کسی حد تک مشکل ہوگئی ہیں۔

    رسالہ راز و نیاز :- رسالہ راز و نیاز بارہ صفحے پر مشتمل ہے، اس میں علوم تصوف کے موضوع پر بحث کی گئی ہے، اس کی زبان عربی آمیز فارسی ہے، اس کے پہلے حصے میں مراتبِ کلیہ ہیں اور دوسرے جز میں فخریہ سلسلے کے مروجہ اشغال بیان فرمائے ہیں اور آخر میں اپنی مثنوی کے اشعار پر رسالہ کا اختتام کیا ہے جس کا مطلع یہ ہے۔

    امر ربی است روح وسر خداست

    ذکر بی کام وبی زبان ِاو راست

    تحفۂ نیاز بہ حضرت نیاز :- تحفۂ نیاز بہ حضرت بے نیاز میں بھی خصوصیت کے ساتھ تصوف کے رموز و نکات کو بیان کیا گیا ہے اور یہ رسالہ علوم تصوف سے ذوق رکھنے والے منتہی طلبہ کے لیے فارسی زبان میں شاہ صاحب نے تالیف کیا ہے۔

    رسالہ تسمیۃ المراتب :- اس رسالہ کا موضوع بھی علم تصوف ہے۔

    لیعبدون :-

    10۔ یعرفون :-

    یہ دونوں رسالے مختصر ہیں لیکن افادیت اور تاثرات کے لحاظ سے بڑے اہم اور ان کا موضوع حقوق عبدیت اور تحصیل معرفت ہے۔

    11۔ شرح چغمنی :- طلبہ کے ذہن و معیار کو سامنے رکھ کر اور ان کے درمیان حائل مشکلات کا خیال رکھتے ہوئے شاہ صاحب نے لکھا تھا اس کتاب کے بارے میں راقم کو زیادہ معلومات فراہم نہیں ہوسکی۔

    12۔ حاشیہ ملا جلال :- یہ کتاب عربی زبان میں ہے، مولانا محمد فائق صاحب لکھتے ہیں کہ

    ”ملا جلال وغیرہ پر آپ کے حواشی آپ کے فاضل ہونے کی دلیل ہیں“

    13۔ رسالہ منطق :- یہ رسالہ منطق حضرت شاہ آلِ رسول مارہروی کے واسطے املا کرایا تھا، مولانا آلِ رسول مارہروی نے حضرت شاہ نیاز بے نیاز سے درسیات کی تکمیل کی ہے، مصنف ناز و نیاز نے تحریر کیا ہے چوں کہ یہ رسالہ کتب خانہ مارہرہ میں میں سنتا ہوں کہ اب تک موجود ہے۔

    14۔ مجموعہ رسائل بر علوم مختلفہ :- کے متعلق خانقاہِ عالیہ نیازیہ کے پیرزادگان بتاتے ہیں کہ حضرت قطبِ عالم شاہ نیاز نے شاہ آلِ رسول صاحب مارہروی کے لیے تحریر فرمایا اور یہ کتاب اب بھی خانقاہِ نیازیہ کے کتب خانہ میں موجود ہے، اس مجموعہ رسالہ میں بھی معرفت کے رموز اور تصوف کے نکات بیان کیے گئے ہیں۔

    15۔ بیاض :- شاہ صاحب نے ایک بیاض بھی فارسی زبان میں قلم بند کیا ہے جس میں آپ نے بزرگان سلسلہ کے معمولات، وفیات اسفار دیگر ضروری اور علمی مسائل بھی تحریر فرمائے ہیں، بطورِ تمثیل افادہ کی غرض سے ایک عبارت نقل کی جاتی ہے جس میں حضرت شاہ نظام الدین اورنگ آبادی کی تاریخ وصال اور حضرت مولانا فخرالدین کے اسفار دہلی میں سکونت اور ان کا سنہ رحلت درج کیا ہے۔

    ”حضرت مولانا شاہِ شاہاں شاہ نظام الدین اورنگ آبادی والد ماجد مولانا و مرشدنا حضرت سیدنا فخرالدین قدس اسرارھما در سال یک ہزار و یک صد و چہل و دو ہجری وفات یافتہ در آں وقت عمر شریف حضرت مولانا فخرالدین دہلوی قدس سرہٗ شانزدہ سالہ بود من بعد در سال یک ہزار ویک صد و شست ہجری کہ سن احد جلوس احمد شاہی بود حضرت مولانا از زیارت اجمیر شریف پس آں از زیارت حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی پس از آن از زیارت حضرت نصیرالدین چراغ دہلی، پس ازاں از زیارت حضرت سلطان المشائخ را فراغت کردہ و داخل شاہ جہاں آباد شدند و مشرف بزیارت حضرت شیخ کلیم اللہ دہلوی شدہ در کٹرہ خلیل فروکش و چند مدت در آنجا اقامت و در مدرسہ نواب غازی الدین خان رونق افروز شدند و تابزیست درس و تدریس تفسیر وحدیث و فقہ کردہ، در سالِ یک ہزار و یک صد و نودونہ 1199 ہجری ازیں جہان رحلت فرموند و بدرگاہ حضرت قطب الاقطاب خواجہ قطب الدین علیہ الرحمۃ الرضوان مدفون شدند۔ انا للہِ و انا الیہ راجعون“

    16۔ ملفوظات نیاز بے نیاز :- حضرت شاہ صاحب کے ملفوظات کے سلسلہ میں ایک تحقیق اس طرح درج ہے کہ

    ”حبیب گنج کے کتب خانہ میں مجھے دیوان نیاز کا ایک مطبوعہ نسخہ ملا جس کے ابتدائی صفحات پھٹے ہوئے تھے، مالک دیوان نے دوسرے سادہ اوراق لگا کر ان صفحات کی غزلیں اپنے قلم سے نقل کردیں ہیں، صفحہ اول پر اسی قلم سے یہ عبارت منقول ہے، تاریخ وفات ایں بزرگان از ملفوظات شاہ نیاز احمد قدس سرہٗ“

    اس عنوان کے تحت گیارہ حضرات کی تاریخ ہائے وفات درج ہیں سب سے آخری تاریخ ہے، حضرت الٰہی حاجی محمد کی جو پدر بزرگوار ایں فقیر بودہ، 5 جمادی الاول اس عبارت کے بعد یہ عبارت ہے۔

    ”محبت و عشق ایسی چیزیں ہیں جو ماسوائے محبوب کو دل میں رہنے نہیں دیتیں“

    العشق نارٌ وقع فی القلب محرق ماسویٰ المحوب (یعنی عشق ایک آگ ہے، جب وہ دل میں لگ جاتی ہے تو ماسوائے محبوب کو جلا ڈالتی ہے) لہٰذا محبت کونین اور محبت حق یکجا جمع نہیں ہوتیں محبت کا مسکن دل ہے اور دل متعدد نہیں ہیں ماجعل اللہ الرجل من قلبین فی جوفہِ (اللہ کریم نے انسان کے پہلو میں دو دل نہیں رکھے) انسان کے پہلو میں دو دل ہوتے تو وہ دو کی محبت برداشت نہیں کرسکتا۔

    17۔ ھوالشافی :- آپ کے آثار و تصانیف میں ایک اور اہم ترین کتاب ہے جو اپنے خانوادگان اور مریدین کے لیے قطب عالم نے تصنیف فرمائی ہے جس کا نام ھوالشافی ہے، فارسی میں خطی نسخہ ہے اور تین سو دو صفحات پر مشتمل ہے، لسانی اعتبار سے اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ مصنف اپنے مطابق کا اظہار نہایت سلیس و سہل زبان میں کیا ہے، اس کتاب کے پہلے حصے میں عملیات اور دوسرے حصے میں نسخہ جات اور روحانی علامات و علاج سے متعلق ہے اور آخر کے حصے میں بہت اہم تعویذات ہیں، شیخ نے اپنے ان اوراد و وظائف میں سند کے طور پر آیاتِ کلام اللہ اور احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کثرت سے لکھا ہے اور مشائخ متقدمین کی کتابوں کے حوالے حکایات اور مآخذات کو اس کتاب میں پیش کیا ہے، بجائے مقدمہ اس کتاب کی معنویت و افادیت پر چند کلمات اس طرح تحریر فرمایا ہے کہ

    ”ایں مجموعہ است از ادعیہ قلیل اللفظ کثیر الفائد و از احادیثِ صحیح و کتبِ معتبرہ جمع کردہ بجہت آنکہ مومنان و متقیان از خوانان او مستفیض کرند و کاتب را بدعائے خیرباد کنند واللہ اعلم بالصواب“

    حضرت قطب عالم شاہ نیاز احمد کی دعوتی و تذکیری کوششوں میں ایک لائق توجہ صورت یہ نظر آتی ہے کہ خدا شناسی کے لیے اپنے اعمال تصوف کے اصول و لوازم میں احکامِ شریعت اور ہدایت دین کو کبھی جدا نہیں کیا اور شریعت کی علویت کو قائم رکھا اور اپنے تمام خلفا و مریدین کو احکام شریعت پر شدت کے ساتھ کاربند رہنے کی ہدایت کی، شاہ صاحب کی خانقاہ اٹھارہویں صدی میں تصوف و عرفان کے مراکز میں سے ایک ہے جہاں آپ نے شریعت، طریقت، فلسفہ، تعلیم تفسیر، فقہ، اخلاقیات اور الٰہیات کا درس و تدریس دیتے تھے اور آپ اپنی خانقاہ سے ہمیشہ مفلسوں، مستمندوں اور معذوروں کی تمام تر ضرورتیں بھی پوری فرماتے تھے اور آج بھی خانقاہ نیازیہ میں شیخ کے قائم کردہ ضابطے کے مطابق وہ متواترات سنت و طریق کو موجودہ صاحب سجادہ حضرت حسنین المعروف بہ سید حسنی میاں صاحب دام ظلکم حسن میاں صاحب نے کم و بیش قائم رکھا، آخری بات کے طور پر اس بات کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں کہ حضرت شاہ نیاز بے نیاز نے عقائدِ دین اور علومِ الٰہی سے متعلق جو وقیع اور علمی سرمایہ کتاب، ملفوظات و مکتوبات کی شکل میں اپنی یادگار چھوڑی ہیں اس عظیم چشتیہ، قادریہ نظامی، صابریہ نقشبندیہ قدیمیہ مشرب کے سرمایوں کی حفاظتِ تحقیق و تدوین کے ذریعے ہماری خانقاہ نیازیہ اور النیاز ایجوکیشنل سوسائٹی اپنا ایک فریضہ سمجھ کر ان تمام علمی سرمایوں کو امت کے استفادہ کے لیے شائع کرے۔

    حواشی و احوالے :-

    مجموعۂ نغز، حکیم ابوالقاسم میر قدرت اللہ المتخلص بہ قاسم، مرتبہ محمود شیرانی جلد دوم صفحہ 288 پنجاب یونیورسٹی لاہور 1933۔

    خزینۃ الاصفیا، مولانا غلام سرور لاہوری، صفحہ 513۔

    ریاض الفصحا، غلام ہمدانی مصحفی، صفحہ 339۔

    تاریخ مشائخِ چشت، پروفیسر خلیق احمد نظامی، ندوۃ المصنفین، 1985، صفحہ 571۔

    چند شعرائے بریلی، ڈاکٹر لطیف حسین ادیب و حضرت شاہ نیاز احمد کی شخصیت اور فن، ڈاکٹر محمد جواد کمال نیازی، ساقی بک ڈپو، اردو بازار، دہلی، صفحہ 120۔

    مراسلہ میکش اکبرآبادی خلیفہ شاہ سراج السالکین شاہ محی الدین ننھے میاں، ہماری زبان، بابت 8 جون 1963۔

    عشق فروش سے مراد آپ کے مرشد گرامی حضرت مولانا فخرالدین محمد کی ذات ہے۔

    دیوانِ نیاز (فارسی) شاہ نیاز احمد، صفحہ 44۔

    دیوانِ نیاز، شاہ نیاز احمد، باہتمام شاہ محمد سبطین نیازی، نیازیہ اکیڈمی، بریلی، صفحہ 108۔

    10۔ شمس العین، نسخہ خطی، خانقاہِ عالیہ نیازیہ، بریلی شریف اور ذاتی نسخہ ڈاکٹر محمد عباس نیازی، علی گڑھ۔

    11۔ شمس العین، حضرت مولانا شاہ نیاز احمد بریلوی، غیر مطبوعہ، صفحہ

    12۔ ایضا، صفحہ 2۔3۔

    13۔ مدحت پنجتن پاک، حضرت مولانا شاہ نیاز احمد، خطی نسخہ، ڈاکٹر محمد عباس نیازی کے ذاتی تصرف میں ہے اس نسخے کا بارڈر سونے کا ہے۔

    14: باہتمام سعید احمد در مطبع اید رزاقی کانپوری، گردیہ ماہ اپریل 1929۔

    15۔ قطب عالم سید محمد الرحمٰن نیازی، طباعت، ہماری طاقت پبلیکشن، جے پوری، ددسمبر 2002۔

    16۔ ایضا، صفحہ 99۔

    17۔ یہ خسمہ خانقاہِ نیازیہ میں محفوظ ہے، بقول ڈاکٹر عباس نیازی، علی گڑھ۔

    18۔ کراماتِ نظامیہ، مولانا محمد فائق، خلیفہ تاج الاؤلیا نظام الدین حسین، نامی پریس، میرٹھ، صفحہ 12۔

    19۔ ناز و نیاز، شاہ محی الدین حسین، صفحہ 71۔

    20۔ کرامت نظامیہ، مولانا محمد فائق، مطبع نامی پریس میرٹھ، صفحہ 32۔

    21۔ فخرن الخزائن، پروفیسر محمد عبدالغنی، ادارہ نورالقرآن، کراچی، صفحہ 271۔

    22۔ ھوالشافی، حضرت مولانا نیاز احمد، خطی نسخہ، صفحہ

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے