Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

ناٹک اور ڈراموں میں قوالی کی ابتدا

اکمل حیدرآبادی

ناٹک اور ڈراموں میں قوالی کی ابتدا

اکمل حیدرآبادی

MORE BYاکمل حیدرآبادی

    دلچسپ معلومات

    کتاب ’’قوالی امیر خسرو سے شکیلا بانو تک‘‘ سے ماخوذ۔

    ڈرامہ یونانی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنیٰ ہیں ’’کرکے دکھانا ‘‘ یعنی لکھے ہوئے واقعات و تاثرات کو اسٹیج پر ادا کارانہ طور پر کر دکھانا، ڈرامہ کے لیے اردو زبان میں سب سے جامع لفظ ’’تمثیل‘‘ موجود ہے لیکن رائج ہوا ’’ناٹک‘‘ کا لفظ ناٹک فنونِ لطیفہ کی کل اضاف کے مجموعے کا نام ہے جسے یونانیوں نے پانچویں صدی قبلِ مسیح میں یعنی آج سے دو ہزار سال پہلے ہوئی، اس عہد میں بکرماجیت کے درباری شاعر تمثیل نگار کالی داس نے سنسکرت میں کئی ناٹک لکھے جو اسٹیج پر پیش بھی کیے گیے، ان میں ’’شکنتلا‘‘ نامی ناٹک سب سے زیادہ مقبول ہوا۔

    اردو ناٹک کا آغاز نواب واجد علی شاہ کے رنگین دور میں ہوا جب کہ ۱۸۵۳ء میں ان کے درباری شاعر اور تمثیل نگار آغا حسن امانتؔ نے منظوم ڈرامہ’’اندر سبھا‘‘ لکھا، اس کے پیش کنندہ اور ہدایت کار خود نواب واجد علی شاہ ہی تھے، اس ڈرامے کی مقبولیت کے بعد تاج الملوک، گل بکاولی کی اور گل صنوبرؔ جیسے ڈراموں کا سلسلہ شروع ہوا لیکن ان ڈراموں میں کہیں قوالی کا ذکر نہیں ملتا، اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ۱۸۵۳ء تک قوالی خانقاہ سے باہر نہیں نکلی تھی یعنی اسے عوامی تفریح کی حیثیت نواب واجد علی شاہ کے دور کے بعد ہی نصیب ہوئی بعض لوگ غدر ۱۸۵۷ء کے فوری بعد کے پیش کیے گیے ڈراموں کی سنگیت میں ان راگوں کی شمولیت کا ذکر کرتے ہیں جو قوالی کی محفلوں میں بہ کثرت استعمال کیے جاتے تھے اور بعض کا دعویٰ ہے اگر چہ ۱۸۶۰ء سے ۱۸۷۰ء کے درمیانی ڈراموں میں قوالی کا مستقل سین شامل نہ تھا لیکن اس دور میں لوازمات کے طور پر کبھی کبھی قوالی کو سین کی تبدیلی کے وقفے میں استعمال کرنے کی بنا پڑ چکی تھی۔

    ناٹک کی بے پناہ مقبولیت کے باعث ۱۸۵۷ء کے بعد بمبئی کے پارسی سرمایہ داروں نے تھیٹر کو ذریعۂ معاش میں شامل کر لیا اور ناٹک کو مزید دلچسپ تفریح بنانے کی غرض سے اس کی تکنیک بدل کر نئے نئے ڈرامے لکھوائے، ان جدت پسندوں میں اردی شیر ٹھوٹیؔ، دادا بھائی پٹیلؔ، ہربان جی آرام کاؤس جی کٹھاؤ جہاں گیر جی بالی والا رستم جی مانگ شاہ اور فریدوں جی ایرانی کے نام مشہور ہیں، ان شخصیتوں کے بارے میں فلم انڈسٹری کی معمر ترین ہستیوں کا بیان ہے کہ ان لوگوں نے اپنے بعض ڈراموں میں قوالی کو ابتداً شریک کیا، ان کا بیان ہے کہ جب ہم نے ان پارسیوں کے بعض ڈراموں کو عرصہ بعد دوبارہ دیکھا تو اُن میں قوالی کے سین بھی شامل تھے، اس بیان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ۱۸۶۰ء سے ۱۸۷۰ء کے درمیانی ڈراموں میں کسی نہ کسی طرح قوالی کی شمولیت کا اندازہ قریب از حقیقت ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈراموں میں کبھی بھی قوالی کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں رہی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے