تصوف، قرآن کی صحیح ترین تفسیر
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تصوف اسلام سے کئی سو برس پہلے انسانی فکر میں آ چکا تھا، دارا شکوہ کا خیال صحیح ہے کہ تصوف کی اولین مستند تشریح اپنشدوں میں ملتی ہے، غور کیا جائے تو یہ حقیقت بھی واضح ہو جائے گی کہ ترکوں اور منگولوں کا نظریہ ’’آل تنگری‘‘ چینیوں کی تصور ’’تیاں‘‘ اور صوفیائے اسلام کا نظریہ ’’حق‘‘ اساسی طور پر ایک چیز ہیں، جہاں تک اسلام کا تعلق صوفیہ اپنے معتقدات کی بنیاد صرف قرآن کو ٹھہراتے ہیں، قرآن کی تصوفانہ تفسیر ہمیں اس قدر بالغ نظر ضرور کر سکتی ہے کہ ہم وصنعیت اور سخن سازی کی ان گتھیوں سے بلند ہوسکیں جن میں ملاؤں کے ایک طبقہ نے اس کو الجھا رکھا ہے، قرآن کی جو تشریح تصوف پیش کرنا ہے وہ عقلیت پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی نقطۂ نگاہ لیے ہوئے ہیں، اس میں ایک وسعت ہے اس کا رخ کائنات کی طرف ہے اس کا لہجہ آفاقی ہے شاید قرآن کی صحیح ترین تفسیر میں ہے۔
کرامات اور تصوف : حضرت نظام الدین اؤلیا کا ارشاد ہے کہ
’’کرامات تصوف کے سلسلہ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں، حقیقتاً تصوف اخلاقی زندگی کا ایک نظام اور نظامِ کائنات کی ایک مکمل توجیہ پیش کرتا ہے، اس کو کشف و کرامات سے کیا تعلق، تاریخ کے کسی دور میں بھی تصوف کی ایک جامد حیثیت نہیں رہی، انسان کے انکار کا اس کے مادی ماحول سے متعلق ہونا ایک لازمی چیز ہے، انکار خلا میں زندہ نہیں رہ سکتے۔
روشن خیال طبقہ اور تصوف : مسلمانوں کے عقائد کی کمزوری کا گلہ ہر دور میں کیا جاتا رہا ہے، آج پھر پرانے انداز میں شروع کر دیا گیا ہے، گویہ اب بے معنی سا معلوم ہوتا ہے، اسلامی دنیا میں مذہب اسلام اور اسلامی تاریخ سے ایک گونہ دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے اور امکان اس بات کا ہے کہ ہم شاید اسلامی ثقافت کو پھر اس انداز سے ترتیب دینے میں کامیاب ہوں گے، جس کی مثال تاریخ میں نہ مل سکے گی، یہ بہر کیف یقینی ہے کہ مسلمان روشن خیال اور تعلیم یافتہ طبقہ کا عقیدہ ان مذہبی رہنماؤں کی طرف سے بالکل متنلزل ہوچکا ہے جو تقلید جامد کے ذریعہ زندہ رہنا چاہتے ہیں اور جو مسلسل ان غیر ترقی پسندانہ اصولوں کی تبلیغ کر رہے ہیں جو مسائل حاضرہ سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے، رجحان کے اس تغیر کے ساتھ ساتھ عوام تو نہیں لیکن تعلیم یافتہ طبقہ مذہبی رسوم سے بھی بری طرح بدظن ہوتا جا رہا ہے، ان تمام چیزوں کے باوجود اس بات کا امکان ضرور ہے کہ بہتر سماجی حالات میں ماضی کی صحت مند چیزیں پھر واپس آجائیں گی۔
تاریخ عالم میں تصوف کی صحیح قدر و قیمت کا اندازہ لگانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دورِ حاضر کے مسائل اور تصوف کے اساسی اصولوں کو ذہن میں رکھیں، عہد حاضر تصوف کے لیے ابتلا اور آزمائش کا دور ہے، تصوف کو اس منزل سے اس لیے گزرنا پڑ رہا ہے تاکہ اس کی خرابیاں دھل جائیں اور اس کی بلوریں شکل پھر اسی آب و تاب کے ساتھ نکھر آئے، مجھے پورا یقین ہے کہ تصوف اس آزمائش میں پورا اترے گا اور زیادہ توانا اور صحت مند ہو کر پھر آدمی کے خطا کار قدموں کو ظلمت اور گمراہی سے بچائے گا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.