قول، قلبانہ، نقش، گل، ترانہ، چھند اور رنگ
دلچسپ معلومات
کتاب "قوالی امیر خسرو سے شکیلا بانو تک"سے ماخوذ۔
قول، قلبانہ، نقش گل، ترانہ، چھند اور رنگ قوالی کے مختلف روپ ہیں جن میں قول و قلبانہ ان کی طرزیں عربی کلام پر، نقش و گل کی فارسی کلام پر اور چھند درنگ کی طرزیں اردو ہندی کلام پر مشتمل ہیں، ترانہ اپنی جگہ ایک رنگ اور مکمل طرز ہے جو شاعری یا نثری کلام پر نہیں بلکہ طبلے کے بولوں پر مشتمل ہے، ابتدائی قوالی چوں کہ نثری اقوال پر مشتمل تھی، اس لیے اس نثر کو موسیقی کی ضروریات سے مطابقت دینے کے لیے اس میں ترانے کے بول جوڑ لیے جاتے تھے۔
ماضی میں قوال کو اس وقت تک قوال تسلیم نہیں کیا جاتا تھا جب تک کہ اسے قول، قلبانہ، نقش گل، ترانہ، چھند اور رنگ کے فرق سے واقفیت اور ان سب کی ادائیگی پر عبور حاصل نہ ہو جائے، آج قول، ترانہ اور رنگ کے گانے والے تو موجود ہیں لیکن قلبانہ، نقش، گل اور چھند کے پیش کرنے والے کم از کم میں نے نہیں دیکھے، متذکرہ تمام روپ قدیم قوالی میں شامل ہیں۔
عوامی قوالی یعنی جدید قوالی کا آغاز بیسویں صدی عیسوی کے پانچویں دہائی سے ہوا، یہاں سے قوالی مذہبی تسلط سے آزاد ہو کر مکمل طور پر ایک مقصدی تفریح کی حیثیت سے عوام میں پھیل گئی، اس سے پہلے قوالی کا فن ایک ایسا دریا تھا جو انتہائی تیز رفتار ہونے کے باوجود اپنی مخصوص سمتوں میں بہتا تھا لیکن اب یہ ایک ایسے سمندر میں تحلیل ہو گیا ہے جس کی وسعت دنیا کی تمام سمتوں سے بغل گیر ہے۔
جدید قوالی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے فارسی کی پر تکلف پوشاک کو قطعی طور پر اتار کر اردو ہندی جیسی خالص ہندوستانی اور عام فہم زبان اختیار کر لی، جو کہ اس فن کی ’’خصوصیاتِ قومی یک جہتی‘‘ کی سب سے پہلی مانگ تھی، قوالی کا یہ نیا موڑا امیر خسرو کی ایسی کامیابی ہے جس سے ان کی ماہرانہ منصوبہ بندی اور متحیر کن دور اندیشی کاثبوت ملتا ہے۔
جدید قوالی میں اردو ہندی کے مستقلاً استعمال کے ساتھ ساتھ مضامین کے انتخاب میں بھی ایسی شگفتگی، ایسی مقصدیت اور ایسی ہمہ گیری کی بنا پڑی کہ قوالی نہ صرف ہر مذہب بلکہ ہر مکتبِ فکر اور ہر عمر و علاقے کے لوگوں کی دلچسپی کا وسیع مرکزہ بن گئی۔
جب کوئی چیز مخصوص حلقوں سے نکل کر عام مقبولیت کی منزلیں طے کرنے لگتی ہے تو اس میں بے شمار تبدیلیاں ضروری ہو جاتی ہیں، چنانچہ جدید قوالی میں بھی راست مخاطبت، تحت اللفظ ادائیگی، مقابلے، سوال جواب خواتین کی شمولیت ڈرامہ، ادا آموزی، تشریح، مغربی ساز، مغربی طرزیں، حالیہ لباس اور بے تکلفانہ اندازِ بیان جیسی تمام جدتیں پیدا کی گئیں، آج جدید قوالی ایک مقصدی من ہونے کے باوجود قطعی عوامی تفریح ہے، جس پر نہ کسی مذہب کی اجارہ داری ہے، نہ کسی محلِ وقوع کی پابندی ہے اور نہ کسی مخصوص موضوع و انداز کی قید۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.