قوالی اور امیر خسروؔ کا موقف
دلچسپ معلومات
کتاب ’’قوالی امیر خسرو سے شکیلا بانو تک‘‘ سے ماخوذ۔
موجد قوالی حضرت امیر خسروؔ کی تمام تر ایجادات و تصنیفات کا مطالعہ ہمیں اس نتیجہ پر پہنچاتا ہے کہ ان کی ہر کوشش میں وحدت انسانیت کے جذبات کار فرما ہیں، وہ ہمیشہ ہر مذہب، ہر اعتقاد اور ہر مکتبِ خیال کے انسانوں کو یکجا کرنے کی جدو جہد میں لگے رہے، لہٰذا ان کے ایجاد کردہ فن قوالی کو اگر ہم ان کے مشن کے خلاف ایک مذہبی چیز قرار دیتے ہیں تو یہ بات ان کی دوسری تمام ایجادات اور تصنیفات کی بنیادی مقصدیت سے بے جوڑ ہوجاتی ہے، اب رہا سوال اس فن کے مذہبی رنگ سے پیش کرنے کا تو یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت موسیقی کو حرام تسلیم کرتی ہے، ایسے موقف میں خسروؔ اگر اپنی ایجاد کو کسی قوی ضرورت کے نام سے پیش کرتے تو اس کے غیر شرعی پہلو کے پیش نظر کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس سے دور دور ہی رہتی اور خسروؔ کو قومی اتحاد کی کوئی دوسری راہ اتنی پرکشش نہ ملتی چنانچہ خسروؔ نے قوالی کو مذہبی رنگ دینا نہایت ضروری جانا، ان کی اس ذہانت کو ہم شرعی اعتبار سے گمراہ کن مصلحت قرار نہیں دے سکتے اس لیے کہ خسروؔ حضرت نظام الدین اؤلیا کے مرید تھے جو اہلِ چشت کے نظریہ کے تحت سماع کو طرزِ عبادت مانتے تھے، خسروؔ کے شرعی اطمینان کے لیے یہی بات کافی تھی، البتہ انہوں نے اتنی جرأت ضرور کی کہ قوالی کے فن کو سماع کی بہ نسبت زیادہ اثر انگیز بنانے کی غرض سے اس میں موسیقی کا زیادہ عنصر شامل کیا اور اہلِ چشت کے نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے قوالی کی بنا خانقاہ میں رکھی جہاں ہندو مسلم دونوں کا اجتماع تھا اگر خسروؔ کے پیش نظر صرف مذہب ہی مذہب ہوتا تو وہ اپنی یہ ایجاد لے کر مسجد کا رخ کرتے جہاں انہیں صرف مسلمان ہی مسلمان ملت لیکن انہیں چوں کہ ایک ایسا قومی کارنامہ انجام دینا تھا جس کی اہلِ تصوف بھی تائید کریں، اس لیے انہوں نے بِلا تکلف خانقاہ کا انتخاب کیا جہاں کا ماحول خالص مذہبی ہونے کے باوجود ہندو مسلم اتحاد کی امتیازی حیثیت رکھتا تھا۔
خسروؔ ایک پایہ کے دیندار اور ہندوستان کے مانے ہوئے نایکِ موسیقی ہونے کے علاوہ عالمی سطح کے ایک بے نظیر اہلِ قلم بھی تھے، آپ کی یہی حیثیت آپ کی عالمی شہرت کا باعث ہوئی، آپ بے شمار مستند تصانیف مصنف ہیں، اگر آپ نے قوالی کا فن کسی مذہبی مقصد کے تحت ایجاد کیا ہوتا تو آپ بروئے شریعت اس کے آداب و شرائط پر بھی ایک مفصل کتاب ضرور لکھتے، اگر یہ کہا جائے کہ سماع ہی کے آداب و شرائط کو قوالی کے لیے کافی سمجھا گیا ہوگا تو قوالی میں ان شرائط میں سے کسی ایک کی بھی پابندی نہ کی گئی اور اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ قوالی جیسی مذہبی چیز کی ایجاد کو غیر مذہبی کہہ کر خسروؔ پر غیر مذہبی چیز کی ایجاد کی تہمت لگائی جا رہی ہے تو معترض کو چاہیے کہ وہ ہندوستانی موسیقی کی تاریخ اٹھا کر دیکھے اس میں خسروؔ کے ایجاد کردہ راگ، تال، ٹھیکے اور سازوں کی ایک طویل فہرست ملے گی۔
خسروؔ کی قومی سرگرمیاں بھی اپنے پیر و مرشد اور بزرگانِ چشت کے نظریاتِ مذہبی روا داری کا ایک جزو تھیں میکشؔ اکبرآبادی اپنے مضمون ’’چشتیہ سلسلۂ تصوف کی خصوصیات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
’’خواجگانِ چشت کے حالات و اقوال سے جو اس سلسلہ کی نمایاں خصوصیات ثابت ہوتی ہیں وہ یوں ہیں، عشقِ الہٰی اور سوز و گداز مرشد کے ساتھ محبت کی غیر معمولی اہمیت، انسان دوستی، خدمتِ خلق اور دل نوازی و دلداری غیر مذاہب کے ساتھ رواداری و شفقت‘‘
حضرت نظام الدین اؤلیا کی مذہبی رواداری ضرب المثال ہے، ڈاکٹر سید اطہر عباس رضوی رقمطرانہ ہیں کہ
’’شیخ (نظام الدین اؤلیا) کا لنگر خانہ ہندو مسلم سب کے لیے کھلا تھا، وہ ہندوں کی بھی اتنی ہی فکر رکھتے تھے جتنی مسلمانوں کی، ان کی مذہبی رواداری مشہور و معروف ہے، نظام الدین اؤلیا کی نظر میں اسلام فقط کھوکھلی عبادت نہیں تھا بلکہ ایک اعلیٰ اخلاقی ضابط کا حکم رکھتا ہے، ان کا یوگیوں سے بھی تعلق رہ چکا تھا، جس کا اثر یہ ہوا کہ انہیں اپنے ہندو شاگردوں سے خاص ہمدردی تھی، جس طرح تمام بزرگانِ چشت سے نظام الدین اؤلیا نے مذہبی رواداری کا سبق پڑھا تھا، اسی طرح نظام الدین اؤلیا سے خسروؔ نے بھی سبق پڑھا، اس ضمن میں ڈھیروں کتب موجود ہیں، پروفیسر صفدر علی بیگ اپنے مضمون بہ عنوان ’’صوفیا کی تعلیم اور امیر خسرؔو کا نظریۂ حیات ‘‘میں لکھتے ہیں کہ
’’حضرت ابوالحسن یمین الدین امیر خسروؔ دہلوی نے اس نو وارد مہمان یعنی تصوف کو عقیدہ اور عمل میں اپنا لیا اور اس کے رنگ روپ سے فارسی شاعری کو آب و تاب دی، تصوف خصوصیت کے ساتھ مخلوقِ خدا سے محبت کی تعلیم دیتا ہے، امیر خسروؔ نے اپنی عملی زندگی اور شاعری دونوں میں مخلوقِ خدا سے محبت کا ثبوت دیا ہے، وہ ہر مذہب اور ہر ملک کے لوگوں سے خلوص کے ساتھ ملتے محبت کرتے اور تمام مخلوقِ خدا سے ہمدردی رکھتے تھے، وہ صوفیا کے اس خیال کی تائید کرتے ہیں کہ خدا سے محبت کرنے والا اس کی مخلوق خصوصاً انسان سے خواہ وہ کسی ملک اور مذہب کا ہو، خواہ وہ دیندار یا بے دین ہو، وہ نیک ہو کہ بد غریب ہو کہ امیر محبت کرتا ہے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ مذہبی رواداری ایک ایسی بنیادی خصوصیت ہے کہ جو تمام بزرگانِ چشت سے حضرت نظام الدین اؤلیا تک اور نظام الدین اؤلیا سے موجد قوالی امیر خسروؔ تک ہر ایک میں مستقلاً پائی جا رہی ہے، یہی وہ مشترک خصوصیت تھی جس کے سہارے خسروؔ نے مختلف راگوں، تالوں، ٹھیکوں اور ڈھیروں سازوں سے آراستہ اپنی ایجاد کردہ طرزِ قوالی کو نظام الدین اؤلیا کے دربار تک لانے کی جرات کی، وہ جانتے تھے کہ اس میں آدابِ سماع کی خلاف ورزیوں کے باوجود تمام مذاہب کی ہم آہنگی کا ایسا روشن پہلو ہے جس کی افادیت کو اہلِ چشت کبھی نظر انداز نہ کرسکیں گے اور ہوا بھی یہی۔
خلاصۂ بحث :- امیر خسروؔ کی شخصیت سے لاکھ کا اعتقاد کے اردو میں قوالی کو سماع تسلیم کرنے کی سعادت سے محروم ہوں، یہی سبب ہے کہ مجھے قوالی میں مذہبی اعتبار سے کوئی تقدس محسوس نہیں ہوتا، میں اس چیز کو ایک فن قرار دیتا ہوں اور فن کو کسی ایک مذہب کی میراث نہیں بلکہ تمام انسانوں کی امانت تسلیم کرتا ہوں، یہی وہ بنیاد ہے جس کی رو سے قوالی اور سماع کے فرق کو جابجا واضح کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سماع ایک الگ چیز تھی اور قوالی ایک الگ چیز، صوفیائے چشت کے نظریہ سے سماع اگر طرزِ عبادت ہے تو صد ہا حقائق کی بنا پر قوالی ایک فن ہے، اس فن کے ساتھ بعض لوگوں کا جو مذہبی تصور وابستہ ہے، اس تصور کی کسوٹی پر خود ابتدائی قوالی بھی پوری نہیں اترتی چنانچہ آج قوالی کے فن میں جو پھیلاؤ اور اضافے ہوئے ہیں، انہیں مذہبی تنگ نظری سے آنکنے کی بجائے فنی نقطۂ نگاہ سے ان کا جائزہ لینا اور ان میں جو خوبیاں ہیں ان کا اعتراف کرنا ہمارا قومی تہذیبی اور اخلاقی فرض ہے۔
چاہے صوفیا ئے چشت کی تعلیمات ہوں حضرت نظام الدین اؤلیا کی تحریکات یا امیر خسروؔ کا جذبۂ حب الوطنی یا اس عہد کا سیاسی و سماجی پس منظر سب کے سب مذہبی ہم آہنگی کے متقاضی تھے اور قوالی کا فن ان سب کے تقاضوں کی تکمیل میں معاون ثابت ہو رہا تھا، اسی بنا پر خانقاہ سے شاہی دربار تک اور درویشوں سے شہنشاہوں تک سب نے کسی نہ کسی رعایت یا سمجھوتے کے ساتھ اس کو اختیار کیا اب اگر کوئی اس سمجھوتے اور اس رعایت کو قوالی کا مذہبی تقدس قرار دے تو ان تمام حقائق کا چہرہ مسخ ہو کر رہ جاتا ہے جن کی بنیاد خدمتِ خلق، انسان دوستی یا قومی اتحاد ہے، خسروؔ نے اسی بنیاد کے پیش نظر قوالی کا فن ایجاد کیا۔
قوالی خسروؔ کا ایک ایسا کارنامہ ہے جو تمام انسانوں کو ایکتا کا پیام دیتا ہے، اس کی محفلیں ابتدا سے آج تک مختلف مذاہب کے لوگوں کو عملاً جوڑنے کا باعث بنی ہوئی ہیں، اس فن کو کسی ایک مذہب سے منسوب کرنا خسروؔ کے فن کی وسعت کو محدود کرنا ہے، یہ تنگ نظری ایک عالمی سطح کے فن کار کی عظمت سے انحراف کے مترادف ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.