قوالی اور فلم
دلچسپ معلومات
کتاب "قوالی امیر خسرو سے شکیلا بانو تک"سے ماخوذ۔
دنیا بھر میں خاموش فلموں کی تیاری اور ان کی نمائش کا سلسلہ ۱۸۵۰ء کے آس پاس شروع ہوا، ہندوستان میں پہلی خاموش فلم کی نمائش ۷؍ جولائی ۱۸۹۶ء کو بمبئی کے ”وائس ہوٹل‘‘ میں کی گئی، یہ فلم لوی برادران نے فرانس میں تیار کی تھی، ہندوستان میں دو سو افراد نے اس کا پہلا شو دیکھا، اس شو کے ایک ہفتہ بعد ناولٹی تھیٹر (ممبئی) میں اس فلم کی باقاعدہ نمائش شروع ہوئی، ہندوستان میں خاموش فلموں کی عام نمائش کا آغاز بمبئی کے ناولٹی تھیڑ ہی سے ہوا جو بعد میں ناولٹی سینما کہلایا، یہاں خاموش فلم کی نمائش کا پہلا اشتہار ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ کی ۱۳؍ جولائی ۱۸۹۶ء کی اشاعت میں شائع ہوا، اس کے تقریباً سترہ سال بعد ۱۹۱۳ء میں دادا صاحب پھالکے نے ہندوستان میں پہلی خاموش اور طویل فلم ’’راجہ ہریش چندر‘‘ بنائی، اس وقت تک قوالی کا فن چھ سو سال سے کچھ زیادہ ہی عمر گزار چکا تھا لیکن ان فلموں میں مکالمے، گیت اور موسیقی جیسی کوئی آواز شامل نہ تھی، اس لیے ان میں قوالی شامل نہ کی جاسکی، ۱۹۲۹ء تک ہندوستان میں خاموش فلموں ہی کا سلسلہ رہا جو یہاں بنتی بھی تھیں اور نمائش پر پسند بھی کی جاتی تھیں لیکن ۱۹۳۰ء کے آغاز کے ساتھ جب یہاں بولتی فلموں کی تیاری کا سلسلہ شروع ہوا تو ان میں قوالی کو ایک خاص آئیٹم کی حیثیت سے شامل کر لیا گیا، یہ بات اس عہد میں قوالی کی بے پناہ مقبولیت کا ثبوت ہے، ہندوستان کی پہلی بولتی فلم ”عالم آرا‘‘ پہلی بار نمائش کے لیے ۴ ؍مارچ ۱۹۳۱ء کو بمبئی کے ”مجسٹک سینما‘‘ میں پیش کی گئی، پہلا شو دو پہر میں تین بجے شروع ہوا، مظاہرین کا بیان ہے کہ ہجوم کسی طرح قابو میں نہ آتا تھا، اس وقت فلم کی ٹکٹوں کی قیمت چند پیسے ہوا کرتی تھی لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فلم کے پہلے شو کے ٹکٹ بلیک میں پچاس پچاس روپیہ میں فروخت ہو رہے تھے، اس فلم میں تقریباً چالیس گانے تھے، جن میں چھ قوالیاں شامل تھیں، زبیدہؔ کا گایا ہوا گیت ”بدلہ دلا دے یا رب تو ستمگروں سے‘‘ بہت مشہور ہوا اور قوالیوں میں ڈبلیویمؔ خان کی گائی ہوئی قوالی’’کچھ دے دے خدا کے نام پر ہمت ہے اگر کچھ دینے کی“ اس قدر مقبول ہوئی کہ بمبئی کے گلی کوچے اسی سے گونجنے لگے، یہی پہلی قوالی تھی جو فلم میں شامل کی گئی، ’’عالم آرا‘‘ کے فوری بعد بننے والی فلم ’’شیریں فرہاد‘‘ میں بیالیس گانے تھے، جن میں آٹھ قوالیاں شامل تھیں، اس طرح قوالی اپنی مقبولیت کی بنا پر فلم کی ابتدا ہی سے اس کا ایک جزوِ خاص رہی اور آج بھی اس کو فلموں میں ایک خاص دلچسپ آئیٹم کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، فلموں کا کوئی موسیقار ایسا نہ ہوگا جس نے اپنی کسی نہ کسی فلم میں قوالی کو شامل نہ کیا ہو۔
فلموں کی قوالیوں کی طرزیں عام پسند اور بول عام فہم ہوتے ہیں، ابتداً فلموں میں مرد ہی قوالی گاتے اور اسکرین پر پیش کرتے تھے لیکن۱۹۴۰ء کے آس پاس شوکت حسین رضوی نے فلم ’’زینت‘‘ بنائی تو اس میں پہلی بار لڑکیوں کی قوالی شامل کی، جسے اسکرین پر اس عہد کی سب سے مقبول ہیروئن ملکۂ ترنم نور جہاں نے پیش کیا، آواز بھی نور جہاں ہی کی تھی جس کے ساتھ کورس بھی شامل تھا، یہ قوالی نخشبؔ جارجوی کے حسب ذیل مکھڑے پر مشتمل تھی۔
آہیں نہ بھریں، شکوے نہ کیے، کچھ بھی نہ زباں سے کام لیا
اس پر بھی محبت چھپ نہ سکی جب تیرا کسی نے نام لیا
اس قوالی کو اپنے عہد میں جو مقبولیت حاصل ہوئی، اتنی مقبولیت آج تک کسی اور قوالی کو نصیب نہ ہو سکی، یہیں سے فلموں میں لڑکیوں کی قوالی کا سلسلہ شروع ہوا اور آگے چل کر لڑکیوں اور لڑکوں کے مقابلے بھی فلموں میں پیش کیے جانے لگے، آج یہی سلسلے زیادہ مقبول ہیں، نخشبؔ کے بعد فلم کے تمام ہی گیت کار قوالیاں لکھتے رہے، جن میں بہت سی بے پناہ مقبول بھی ہوئیں لیکن اچھی اور معیاری قوالیاں لکھیں شکیلؔ اور ساحرؔ نے۔
حالیہ فلموں کی چند مشہور قوالیاں
1. آہیں نہ بھریں، شکوے نہ کیے، کچھ بھی نہ زباں سے کام لیا (فلم : زینت۔ شاعر : نخشبؔ جارجوی)
2. تیری محفل میں قسمت آزما کر ہم بھی دیکھیں گے (فلم : مغل اعظم۔ شاعر : شکیلؔ بدایونی)
3. جب رات ہے ایسی متوالی پھر صبح کا عالم کیا ہو گا(فلم : مغل اعظم۔ شاعر : شکیلؔ بدایونی)
4. شرما کے یہ کیوں سب پردہ نشیں آنچل کو سنوارا کرتے ہیں(فلم : چودھویں کا چاند۔ شاعر : شکیلؔ بدایونی)
5. میرے بنے کی بات نہ پوچھو میرا بنا ہریالا ہے(فلم : گھرانہ۔ شاعر : شکیلؔ بدایونی)
6. میں اِدھر جاؤں یا اُدھر جاؤں(فلم : پالکی۔ شاعر : شکیلؔ بدایونی)
7. چلیں گے تیر جب دل پر تو ارمانوں کا کیا ہوگا(فلم: کوہِ نور۔ شاعر : شکیلؔ بدایونی)
8. نہ تو کارواں کی تلاش ہے نہ تو ہم سفر کی تلاش ہے(فلم : برسات کی رات۔ شاعر : ساحؔر لدھیانوی)
9. نگاہِ ناز کے ماروں کا حال کیا ہوگا(فلم : برسات کی رات۔ شاعر : ساحؔر لدھیانوی)
10. جی چاہتا ہے چوم لوں اپنی نظر کو میں(فلم : برسات کی رات۔ شاعر : ساحؔر لدھیانوی)
11. حسینوں کے جلوے پریشان رہتے اگر ہم نہ ہوتے(فلم : باہر۔ شاعر : ساحؔر لدھیانوی)
12. پردہ اٹھے سلام ہو جائے(فلم : دل ہی تو ہے۔ شاعر : ساحؔر لدھیانوی)
13. نگا ہیں ملانے کو جی چاہتا ہے(فلم : دل ہی تو ہے۔ شاعر : ساحؔر لدھیانوی)
14. چاندی کا بدن سونے کی نظر یہ رنگ قیامت کیا کہیے(فلم : تاج محل۔ شاعر : ساحرؔ لدھیانوی)
15. اللہ یہ ادا کیسی ہے ان حسینوں میں(فلم : میرے ہمدم میرے دوست۔ شاعر : مجروحؔ سلطان پوری)
16. ہم چھپے رستم ہیں(فلم : چھپے رستم ہیں۔ شاعر : مجروحؔ سلطان پوری)
17. ملتے ہی نظر تم سے ہم ہو گیے دیوانے(فلم : استادوں کے استاد۔ شاعر : اسدؔ بھوپالی)
18. اب چار دنوں کی چھٹی ہے اور ان سے جا کر ملنا ہے( فلم : آس کا پیچی۔ شاعر : حسرتؔ جے پوری)
19. جب عشق کہیں ہو جاتا ہے تب ایسی حالت ہوتی ہے( فلم : آرزو۔ شاعر : حسرتؔ جے پوری)
20. آنکھوں میں تمہارے جلوے ہیں ہونٹوں پہ تمہارے افسانے(فلم : شیریں و فریاد۔ شاعر : صباؔ افغانی)
21. وعدہ تیرا وعدہ، وعدے پہ تیرے مارا گیا(فلم : دشمن۔ شاعر : آنندؔ بخشی)
22. آپ بلائیں اور ہم نہ آئیں(فلم : چٹان سنگھ۔ شاعر : گلشنؔ باورا)
23. کہنے والے تو کبھی کہہ دے جو دل کی بات ہے(فلم : قوالی کی رات۔ شاعر : شیونؔ رضوی)
24. ہمیں تو ٹوٹ لیا مل کے حسن والوں نے(فلم : الہلال۔ شاعر : شیونؔ رضوی)
25. جھوم برابر جهوم شرابی(فلم : فائيورالفل۔ شاعر : نازاںؔ شولہ پوری)
26. اُن کو اپنا بنانا غضب ہو گیا(فلم : پلی بائی۔ شاعر : نازاںؔ شولہ پوری)
27۔ اب یہ چھوڑ دیا ہے تجھ پہ چاہے زہر دے یا جام دے(فلم : ہمراہی۔ شاعر : شکیلہ بانو بھوپالی)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.