قوالی اور حضرت نظام الدین اؤلیا کا موقف
دلچسپ معلومات
کتاب ’’قوالی امیر خسرو سے شکیلا بانو تک‘‘ سے ماخوذ۔
صوفیائے کرام تمام انسانوں میں اللہ کے وجود کے قائل ہیں، لہٰذا وہ بلا تفریقِ مدارج و مذاہب تمام انسانوں سے محبت کی تعلیم دیتے ہیں، وہ ساری مخلوق کو اللہ کا مظہر مانتے ہیں، وہ ذرہ ذرہ میں خدا کے وجود پر یقین رکھتے ہیں، اس یقین کی بنیاد قرآنِ پاک کی حسبِ ذیل آیات ہیں۔
فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ
ترجمہ : جس طرف بھی رخ کرو وہیں خدا موجود ہے۔
إِنَّهُ بِكُلِّ شَىْءٍ مُّحِيطُ
ترجمہ : بے شک اللہ ہر چیز پر احاطہ کیے ہوئے ہے۔
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ
ترجمہ : ہم اس (انسان) کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں۔
وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي
ترجمہ : ہم نے اس (انسان) میں اپنی روح پھونکی۔
یہی وہ آیات ہیں جن کی بنا پر صوفیا، ہر انسان سے محبت و شفقت سے پیش آتے ہیں، صوفیائے چشت پر لکھی گئی کتابوں میں جتنی تفصیل حضرت نظام الدین اؤلیا کے بارے میں ملتی ہے اتنی کسی اور پر نہیں ملتی اور اس تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے صوفیا ئے چشت کے اصولوں کو جوں کا توں برتنے میں مثال قائم کر دی، آپ کا شغلِ سماع بھی ایسی ہی فرماں بردارانہ و سعادت مندانہ مثالوں میں سے ایک ہے، آپ سماع کے موید تھے اور اس سے گہرا شغف رکھتے تھے، چنانچہ امیر خسروؔ کی ایجاد کردہ قوالی بھی چوں کہ سماع سے مشابہت رکھتی تھی اس لیے آپ نے اس کو جی اس خاص مقصد کے تحت قبول فرما لیا کہ اس کے ذریعہ تمام مذاہب کے انسانوں کو مل بیٹھنے کے مواقع میسر ہو رہے تھے، جس کے ذریعہ وہ اپنے بزرگانِ چشت اور قرآن کے ان احکامات کی پابندی کرسکتے تھے، جس میں تمام انسانوں میں میل ملاپ اور اتفاق پیدا کرنے کی تاکید کی تھی، آپ کا ارشاد ہے کہ
’’عبادت دو قسم کی ہوتی ہے، ایک وہ جس کا فائدہ صرف عبادت کرنے والے کو ہوتا ہے، جیسے نماز اور روزہ وغیرہ اور دوسری عبادت وہ ہے جس کا فائدہ دوسروں کو پہنچتا ہے، جیسے دوسروں کے ساتھ شفقت و مہربانی، آپس میں اتفاق کرا دینا وغیرہ، اس کا ثواب بے اندازہ ہے‘‘
اور یہ بے اندازہ ثواب فنِ قوالی کے ذریعہ حاصل کیا جاسکتا تھا جس میں کہ ہندو مسلم دونوں مذاہب کے ماننے والوں کی دلچسپی کے سامان تھے، تصوف کی رو سے حضرت نظام الدین اؤلیا دو مذاہب کے لوگوں کے جوڑنے کو بھی عبادت ہی قرار دیتے ہیں، چنانچہ آپ نے قوالی کو صرف مختلف مذاہب کے لوگوں کو جوڑنے کی غرض سے برتا، اسی غرض کو ہم خانقاہ میں قوالی کا مقصدِ قبولیت قرار دیتے ہیں، قوالی میں اگر مختلف مذاہب کا جوڑا مقصود نہ ہوتا اور اس کو نماز روزہ یا ذکر جیسی عبادت کی حیثیت سے قبول کیا جاتا تو حضرت نظام الدین اؤلیا اس کی محفلوں میں کسی غیر مسلم کو شرکت کی اجازت ہی نہ دیتے، یہ حقیقت ہے کہ آپ مختلف مذاہب کے لوگوں سے محبت کے برتاؤ اور میل ملاپ کو بھی کار ثواب قرار دیتے ہیں لیکن ایسی کوئی مثال موجود نہیں کہ آپ نے کبھی کسی غیر مسلم کو بغیر کلمہ پڑھے نماز جیسی عبادت میں شامل کیا ہو، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے قوالی کو یاد الہٰی یا نماز جیسی طرز عبادت کے طور پر نہیں برتا بلکہ اس کو خصوصیات مذہبی ہم آہنگی کے پیش نظر گوار فرمایا اور اتنا ہی کام اس سے لیا، اب رہ جاتا ہے قوالی کے دوران آپ کے وجد کا سوال، تو اس کا جواب وجد کے زیرِ عنوان میں نے الگ سے لکھا ہے۔
اگر کوئی حضرت نظام الدین اؤلیا کی خانقاہ میں قوالی کے برتاؤ کو شغلِ سماع سے تعبیر کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے قوالی کے تعلق سے صرف مذہبی کتب پڑھیں ہیں اور اس فن کی سماجی، تاریخی و فنی حیثیت اور اس کی خصوصیاتِ قومی یکجہتی کے علاوہ خود حضرت نظام الدین اؤلیا کی تعلیماتِ مذہبی رواداری سے قطعاً ناواقف ہے، جب کہ یہی وہ مطالعہ ہے جو قوالی اور سماع کے درمیان ایک بنیادی فرق کو واضح کرتا ہے اور یہ سمجھنے میں معاون ہوتا ہے کہ قوالی کی حیثیت ابتدا ہی سے سماع سے مختلف رہی ہے اور یہی اختلاف قوالی کو ایک عوامی اور مقصدی فن ثابت کرتا ہے، اب یہ فن دوسرے فنونِ لطیفہ کی طرح بتدریج ترقی کرتا ہوا عہدِ حاضر کی عوامی قوالی کی شکل اختیار کر جائے تو اس کی ترقی کو مذہبی تعصب سے دیکھنا حقائق سے انحراف کرتے ہوئے تنگ نظری کا ثبوت دیتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.