Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

قوالی اور موسیقی

اکمل حیدرآبادی

قوالی اور موسیقی

اکمل حیدرآبادی

MORE BYاکمل حیدرآبادی

    دلچسپ معلومات

    کتاب ’’قوالی امیر خسرو سے شکیلا بانو تک‘‘ سے ماخوذ۔

    قوالی کی بنیاد موسیقی پر نہیں بلکہ شاعری پر ہے یعنی الفاظ و معانی پر لیکن قوالی چوں کہ موسیقی کے نہ بن جانے کے صدیوں بعد کی ایجاد ہے، اس لیے اس میں امیر خسرو نے موسیقی کے بنیادی اصولوں کا بھی خاص لحاظ رکھا، جس کی بنا پر عام عاشقانِ موسیقی اس سے بغل گیر ہو گیے لیکن بیشتر اربابِ فن قوالی کو باعتبارِ فن خاص اہمیت نہیں دیتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ قوالی کے فکر انگیز مضامین کی روانی کے پیش نظر ان کو اپنے کمالاتِ فن کے مظاہرے کا موقع نہیں ملتا، مجھے بھی اس حقیقت کے اعتراف سے انکار نہیں کہ قوالی میں موسیقی کا سجیلار چاؤ، دلکش ترین سروں کی رسیلی مٹھاس اور نغمے کی پُر لوچ حیات نہیں ملتی، اسی حقیقت کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ قوالی کی بنیاد موسیقی پر نہیں بلکہ مضامین پر ہے، قوالی میں الفاظ و مضامین کے آگے موسیقی کی حیثیت ایسی ہے جیسے خوش رنگ پھولوں کے آگے ایک سادہ گلدان کی، کہ جس کا کام صرف اتنا ہے کہ خوش رنگ ٹہنیوں کو بکھر نے نہ دے، قوالی کی موسیقی سے اگر مضامین الگ کر لیے جائیں تو یہ موسیقی اس گلدان کے برابر ہوگی جس سے گل اتار لیےگیے ہوں، قوالی میں سر کے مقابلے میں تال کو خاص اہمیت حاصل ہے، چنانچہ اس کے فنکاروں میں سر سے کورے فنکاروں کی جتنی بہتات ہے اتنی موسیقی کے کسی شعبے میں نہیں ملے گی لیکن لے اور تال کے بارے میں قوالی کا چھوٹے سے چھوٹا فنکار اتنا پختہ اور مشاق ملے گا کہ موسیقی کے تمام شعبے انگشت بدنداں رہ جائیں، یہ قوالی کی پختہ نال ہی کا کرشمہ ہے کہ مضامین کے اشتراک سے صوفیا پر وجد اور عام انسانوں پر مختلف قسم کے جذبات طاری ہو جاتے ہیں، قوالی کی حد تک یہ بات بآسانی کہی جا سکتی ہے کہ فنکار تو فنکار اس کے عام سننے والے بھی تھوڑی دیر قوالی سن کر تال آشنا ہو جاتے ہیں، چنانچہ وہ قوال کی بڑی سے بڑی غلطی سمجھ نہیں پاتے یا سمجھ کر نظر انداز کر جاتے ہیں لیکن قوال اگر سم پر برابر نہ آئے تو سارا مجمع قہقہہ زار بن جاتا ہے۔

    اس طرز کی خاص پہچان ہے ایک سے زائد اشخاص کی تکرارِ الفاظ تالیوں کی مسلسل ضربیں اور ’’بائیں‘‘ کا پُرزور استعمال، موجودہ عہد میں بعض قوال اپنی تنہا آواز بھی اس طرز کے لیے کافی سمجھتے ہیں اور تالی کو بھی اتنا ضروری نہیں جانتے، وہ تالی کی جگہ کسی ردھمی ساز سے کام لے لیتے ہیں، یہ تجربہ گراموفون ریکارڈس کی حد تک کامیاب

    ثابت ہوا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے