قوالی کا مقصد ایجاد
دلچسپ معلومات
’’قوالی امیر خسرو سے شکیلا بانو تک‘‘ سے ماخوذ۔
قوالی کے تمام متعلقات اور تمام اجزار مرکب میں قومی یکجہتی کی خصوصیات کا بدرجۂ اتم موجود ہونا اور اس کے مجموعی تاثرات میں انسانی اتحاد کی خصوصیات کا پایا جانا اور اس کے موجد کے دل کا قومی یکجہتی کے جذبات سے پر ہونا، یہ سب ایسے عوامل ہیں جن کی بنا پر ہم بہ آسانی یہ کہہ سکتے ہیں کہ قوالی کا مقصد ایجاد قومی یک جہتی کے سوا کچھ اور نہ تھا، اس مقصد کے سوا اگر قو الی سے کوئی اور مقصد جوڑ لیا گیا ہے تو وہ محض جو ڑ لیا گیا ہے، اسے مقصدِ ایجاد نہیں کہا جا سکتا، اگر چہ قوالی مسلمانوں کے بعض مخصوص حلقوں میں شغلِ عبادت کے طور پر بھی استعمال کی گئی لیکن قوالی کا یہ استعمال قوالی کی ایجاد کا محرک نہ تھا قوالی کی ایجادکا محرک اگر جذبۂ عبارت یا یادِ الٰہی ہوتا تو اس میں تمام شرعی پابندیوں کا خصوصیت کے ساتھ لحاظ رکھا جاتا لیکن امیر خسروؔ کی قوالی میں ایسے ایسے ساز، راگ راگنیاں اور تال ٹھیکے شامل ہیں جو قطعی طور پر خود اہل چشت کی جانب سے غیر شرعی قرار دیے جا چکے ہیں، کسی شرعی مقصد کے حصول کے لیے خسروؔ جیسا عالم فاضل انسان غیر شرعی ذرائع کبھی استعمال نہیں کر سکتا، خسروؔ اگرچہ کہ بڑے عابد زاہد اور پایۂ کے دیندار تھے لیکن ان کی اس حیثیت پر ان کی فنکارانہ حیثیت ہمیشہ غالب رہی اور ایک سچا فنکار کبھی بھی اپنی کسی فنی ایجاد میں مذہبی بندشوں کا پابند نہیں ہوتا۔
اگر امیر خسروؔ کی مذہبی معلومات اور دلچسپیاں ان کی فنی کاوشوں سے زیادہ اہمیت کی حامل ہو تیں تو خسروؔ دنیا بھر میں ایک فنکار کے بجائے ایک مذہبی پیشوا کی حیثیت سے شہرت پاتے اس کے علاوہ خود حضرت نظام الدین اؤلیا انہیں اپنی جانشینی سے سرفراز فرمائے بنا نہ رہتے، جب کہ وہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک قبر میں دو انسانوں کو دفن کرنے کی اجازت ہوتی تو میں چاہتا کہ خسروؔ کو میرے ساتھ دفن کیا جائے، اگر چہ سلطان المشائخ نے یہ بھی ارشاد فرمایا تھا کہ خسروؔ کے سینے میں جو آگ دہک رہی ہے اس سے قیامت میں میرا نامۂ اعمال پاک ہو جائے گا، یہ وہ باتیں ہیں جن سے خسروؔ کی بلند پایہ دینداری اور محبوب الٰہی کی پسندیدگی کا ثبوت ملتا ہے لیکن اِن کا یہ معیار دینداری بھی نظام الدین اؤلیا کی جانشینی کے لیے حضرت نصیرالدین چراغ دہلی کے آگے کارگر ثابت نہ ہو سکا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہندوستان میں نظام الدین اؤلیا کے بعد خسرو کے عہد میں دینی امور کی حد تک کوئی اور بھی شخصیت خسرو سے زیادہ لائق تعظم موجود تھی جب کہ فنی اعتبار ہے کوئی ان سے بڑے مرتبہ کی شخصیت موجود نہ تھی، ان کی دینی علمیت اور فنی معلومات کے تجزیہ کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ خسروؔ کو مذ ہب کی بہ نسبت فن سے زیادہ لگاؤ تھا اور اس بات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے قوالی کو مذہبی ضرورت کے پیشِ نظر نہیں بلکہ اپنے طبعی رجحان کے باعث ایک فنی طرز کی حیثیت سے ایجاد کیا، ہم پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ فن لا محدود ہے اس پر کسی مذہب کی حد بندی تنگ نظری ہے۔
اگرچہ کہ قوالی کی ابتدا خانقاہ سے ہوئی لیکن یہ اس کی منزل نہیں زینہ تھا، جس پر سے گذر کر اسے عوام تک پہنچنا اور قومی یکجہتی کے استحکام کا کارنامہ انجام دینا تھا، یہی وجہ ہے کہ مذہبی اجارہ داروں کی ہزار ہا کوششوں کے باوجود قوالی خانقاہوں میں مقید نہ رہ سکی، آج قوالی ایک عوامی فن ہے اور فن ہمیشہ قومی یکجہتی کے جذبات کا محرک ہوتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.