Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

قوالی کے اولین سرپرست حضرت نظام الدین اؤلیا

اکمل حیدرآبادی

قوالی کے اولین سرپرست حضرت نظام الدین اؤلیا

اکمل حیدرآبادی

MORE BYاکمل حیدرآبادی

    دلچسپ معلومات

    ’’قوالی امیر خسرو سے شکیلا بانو تک‘‘ سے ماخوذ۔

    ہندوستان میں چار روحانی سلسلے بے حد مشہور ہوئے، چشتی، قادری، سہروردی اور نقشبندی لیکن ان چاروں میں سلسلۂ قادری و چشتیہ کو زیادہ مقبولیت نصیب ہوئی، اگر چہ ہندوستان میں سلسلۂ چشت کی بنا حضرت شیخ ابو اسحٰق شامی نے چوتھی صدی ہجری میں ڈال دی تھی لیکن اس کو خواص و عوام میں مقبولیت چھٹی صدی ہجری میں نصیب ہوئی جب کہ حضرت حاجی شریف زندنی کے مرید حضرت عثمان ہرونی نے خواجہ معین الدین چشتی کو ہندوستان بھیجا۔

    حضرت حاجی شریف زندنی روحانیت اور سلوک میں اپنے عہد کے تمام علما و فضلا میں افضل و برتر تھے، آپ کی بے شمار کرامتیں مشہور ہیں، آپ نے حضرت عثمان ہرونی کو شرفِ بیعت سے سرفراز فرمایا اور خرقۂ درویشی زیب تن کروا کر فرمایا کہ

    ’’اے عثمان! اب جب کہ تم نے خرقۂ درویشی زیبِ تن کر لیا ہے تو تم کو چاہیے کہ ان چار باتوں پر نہایت سختی سے عمل کرو، (۱) اول ترکِ دنیا اور دنیا کے لوازمات سے پرہیز، (۲) دوم ترکِ حرص و طمع، (۳) سوم خواہشاتِ نفسانی سے گریز، (۴) چہارم شب بیداری اور ذکراللہ کیوں کہ بزرگوں کا فرمان ہے کہ یہ خرقہ وہ شخص اپنے سر پر رکھ سکتا ہے جو اللہ کے سوا دنیا کی ہر چیز کو ترک کر دے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ خرقۂ مقدس ملبوس فرمایا تھا، زہد و فقر اختیار فرمایا، آپ کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا، مجھ تک یہ سلسلہ پہنچا تو میں نے بھی اسی پر عمل کیا، تم بھی ان ہی حضراتِ مقدس کی پیروی کرو، دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ خلقِ خدا کے ساتھ مہربانی و نرمی سے پیش آؤ‘‘ ہمیں یہ بات ذہن نشیں کر لینی ہے کہ آپ نے خلقِ خدا کے ساتھ مہربانی اور نرمی سے پیش آنے کی تاکید کی ہے یعنی آپ نے دنیا کے تمام انسانوں کے ساتھ رواداری اور محبت کے برتاؤ کا نظریہ پیش کیا اور اس پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی، اس تاکید سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رواداری وسیع القلبی، مذہبی ہم آہنگی اور انسانی ایکتا کے جذبات سلسلۂ چشت کے خمیر میں پشت ہا پشت سے چلے آ رہے ہیں، حضرت حاجی شریف زندنی سے یہ جذبات ہم آہنگی پانچویں صدی ہجری میں حضرت عثمان ہارونی تک پہنچے۔

    حضرت عثمان ہرونی حضرت علی مرتضیٰ کی اولاد میں سے تھے، آپ گیارہ واسطوں سے حضرت علی سے منسوب ہیں، خراسان کے ایک قصبہ ’’ہرون‘‘ کو آپ کی وطنیت کا شرف حاصل ہے، آپ کو بچپن ہی سے ریاضت و عبادت کا شوق تھا، اگر چہ آپ نے سر زمینِ ہند کو ایک ہی مرتبہ شرفِ پابوسی عطا فرمایا لیکن بالواسطہ آپ کا فیض ہندوستان کو بے پناہ پہنچا، آپ ہی کے حکم سے خواجہ معین الدین چشتی ہندوستان تشریف لائے اور رشد و ہدایت کے ذریعہ ہندوستان کی اصلاح فرمائی۔

    خواجہ معین الدین چشتی کا سلسلۂ نسب حضرت علی تک پہنچتا ہے، خواجہ صاحب نے 14؍ رجب المرجب ۵۲۷ھ کو سجستان میں ولادت پائی، آپ کے ہندوستان تشریف لانے کے بارے میں جہاں حضرت عثمان ہرونی کی ترغیب کو اہمیت حاصل ہے، وہیں یہ بات بھی کچھ کتابوں میں درج ہے کہ ایک روز آپ آقائے نامدار، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اقدس کی زیارت کے بعد مصروفِ عبادت تھے کہ روضۂ مبارک سے آواز آئی کہ ’’اے معین الدین! تو ہمارے دین کا معین اور مددگار ہے، ولایتِ ہندوستان ہم نے تجھے عطا کی، جا اور اجمیر جا کر اقامت کر، تیرے وہاں کے قیام سے بے دینی دور ہوگی اور اسلام رونق پذیر ہوگا، بارگاہِ رسالت سے حکم پا کر آپ ہندوستان کی طرف روانہ ہوگیے اور دس محرم ۵۶۱ھ کو اجمیر شریف پہنچے، اس زمانے میں اجمیر ہندوستان کی بہت بڑی راجدھانی شمار کیا جاتا تھا، جس پر پرتھوی راج کی حکومت تھی، خواجہ معین الدین چشتی کا ہندوستان تشریف لانا ایک زبردست روحانی اور سماجی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوا، ابو ریحان البیرونی نے ’’کتاب الہند‘‘ میں اس زمانے کے ہندوستان کی تصویر کھینچتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ہندوستان میں گذشتہ اسلامی حکومتوں کے نقوش اس قدر مدھم ہو چکے تھے کہ یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ اس ملک میں آگے چل کر مسلمان کبھی ابھر سکیں گے، اس دور میں مسلمانوں کی پستی کی اصل وجہ یہ تھی کہ مسلمان بادشاہوں نے تبلیغِ اسلام کو کبھی اپنا مقصد نہیں بنایا بلکہ ان کو اسلام کی تبلیغ سے ذرہ برابر بھی لگاؤ نہ تھا، ادھر ہندو بھی ذات پات کے بری طرح اسیر تھے۔

    خواجہ معین الدین چشتی نے بے دینی اور چھوت چھات کے اس بھیانک ماحول میں اسلام کا نظریۂ توحید عملی حیثیت سے پیش کیا، آپ نے رواداری اور مذہبی اختلاط کی وسیع پیمانے پر تلقین کی ہندوؤں میں آپ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ خود پرتھوی راج کا ایک مقرب درباری آپ کے مریدین میں شامل تھا، آپ نے ہندوؤں سے نہایت شگفتہ تعلقات رکھے اور مسلمانوں میں دینِ حق کی تبلیغ کی۔

    ’’نافع السالکین‘‘ میں یہ لکھا ہے کہ خواجہ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ’’ہمارے سلسلۂ چشت کا یہ اصول ہے کہ مسلمان اور ہندو دونوں سے صلح رکھی جائے، آپ اکثر یہ بیت پڑھا کرتے تھے۔

    حافظا گر وصل خواہی صلح کن با خاص و عام

    با مسلمان اللہ اللہ با برہمن رام رام

    خواجہ صاحب قبلہ کی حیات و نظریات کے بارے میں تفصیل سے لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اہلِ چشت کی خصوصیات رواداری و مذہبی ہم آہنگی کے تسلسل کی وضاحت ہو سکے، آپ نے دو شنبہ ۶ اور رجب المرجب ۶۳۲ ھ کو اس جہانِ فانی سے پردہ فرمایا، آپ کا روضۂ مبارک اجمیر شریف میں ہے، آپ نے اپنی وفات سے چالیس دن پہلے ہی خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کو اپنا جانشین مقرر فرما دیا تھا۔

    خواجہ قطب الدین بختیار کاکی جو دہلی سے اجمیر تشریف لائے تھے، خواجہ صاحب کے حکم کے مطابق پھر دہلی آ گیے، اب تک دہلی شہاب الدین غوری اور قطب الدین ایبک کی فتوحات کے بعد پایۂ تخت بن گیا تھا جہاں آ کر بختیار کاکی پھر سے مصروفِ تبلیغ ہوگیے، آپ کے عقائد، آپ کے نظریات اور آپ کی تعلیمات بھی وہی تھیں جو کہ خواجہ معین الدین چشتی کی تھیں، آپ نے بھی وحدتِ انسانیت کے جذبات کو فروغ دیا، سماع سے آپ کو شغف تھا، آپ نے ۱۴ ؍ربیع الاول ۶۳۴ ھ کو وفات پائی، آپ کا مزارِ مبارک دہلی ہی میں ہے، آپ نے بھی اپنی وفات سے پہلے حضرت بابا فریدالدین گنج شکر کو اپنا جانشین مقرر فرما دیا تھا۔

    حضرت بابا فرید نے ’’سالک السالکین‘‘ جلد دوم کے مطابق ۵۷۵ء میں اور ’’سیرالاؤلیا‘‘ کے مطابق ۵۶۹ ھ میں ولادت پائی، آپ کے نظریات و تعلیمات میں بھی اپنے سابقہ پیرانِ چشت سے مکمل مطابقت تھی، آپ کی خدمت میں ہندو جوگی بھی کثرت سے حاضر ہوتے تھے، آپ سب سے نیکی اور خلوص سے گفتگو کرتے تھے اور مسائل انسانیت پر تبادلہ خیال کیا کرتے تھے، آپ کا یہ ایمان تھا کہ خلوص و محبت، ہمدردی و رواداری سے انسانی قلوب کو ایک رشتۂ الفت میں جوڑ دیا جائے، ایک شخص نے آپ کو قینچی پیش کی آپ نے فرمایا کہ ’’مجھے سوئی دو، میں کاٹتا نہیں جوڑتا ہوں‘‘ آپ نے ۵؍محرم ۶۷۰ ھ کو وصال فرمایا، بعض کتابوں میں آپ کا سنہ وصال ۶۶۴ ھ بھی لکھا ہے، مزارِ مبارک پاک پٹن (اجودھن) میں ہے، آپ نے حضرت نظام الدین اؤلیا کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تھا، آپ ہی کے ذریعہ اہل چشت کا درسِ رواداری اور جذبۂ انسان دوستی حضرت نظام الدین اؤلیا تک پہنچا۔

    حضرت نظام الدین اؤلیا کا اہم گرامی سید محمد ہے، آپ متعدد القاب سے یاد کیے جاتے ہیں، جن میں محبوبِ الٰہی، سلطان الاؤلیا، سلطان السلاطین اور سلطان المشائخ زیادہ مشہور ہیں، آپ کا خاندان ’’بخارا‘‘ سے ہجرت کر کے لاہور آیا پھر وہاں سے آکر بدایوں میں سکونت پذیر ہوا، آپ کے والد ماجد کا اسمِ گرامی سید احمد اور دادا کا نام سید علی تھا، سلسلۂ نسب پندرہ واسطوں سے حضرت علی سے ملتا ہے، ماہِ صفر ۶۲۴ ھ میں بدایوں میں آپ کی ولادت با سعادت ہوئی، آپ کے والد بدایوں میں زندگی بھر قاضی کے عہدے پر فائز رہے، یہیں وفات پائی اور یہیں دفن ہوئے، حضرت نظام الدین اؤلیا ابھی پانچ سال کے تھے کہ آپ کے والد کا انتقال ہو گیا، آپ کی والدہ ماجدہ بی بی زلیخا نے آپ کی پرورش کی جو بڑی عابدہ و زاہدہ تھیں، حضرت نے جب قرآن مجید حفظ کر لیا تو علمِ ظاہری کی تعلیم کے لیے مولانا علاؤالدین اصولی کی خدمت میں پیش ہوئے، اس کی تکمیل کے بعد تقریباً بیس سال کی عمر میں یہ مع والدہ بدایوں سے دہلی آگیے، یہ زمانہ سلطان غیاث الدین بلبن کا تھا، دہلی میں آپ نے خواجہ شمس الدین خوارزمی سے مزید تعلیم حاصل فرمائی، سب سے پہلے آپ نے مسجدِ ہلال طشت دار سے متصل ایک چھوٹے سے حجرے میں قیام فرمایا، اس کے بعد غیاث پور میں مقیم ہوئے، یہ جگہ آج ’’بستی نظام الدین‘‘ کے نام سے مشہور ہے، آپ نے اپنے مرشد حضرت بابا فرید سے پاک پٹن (اجودھن) میں بیعت کی، آپ سے چار سال تک کچھ کتا ہیں پڑھیں اور خلافت تفویض ہونے کے بعد دہلی آ کر انتہائی سرگرمی کے ساتھ تعلیماتِ چشت کی تشہیر و تبلیغ میں مصروف ہوگیے جو تبلیغِ اسلام کے علاوہ رواداری، وسیع المشربی، فراخ دلی، کشادہ ذہنی، مذہبی و تہذیبی ہم آہنگی، انسان دوستی اور تصوف کے جذبات پر مشتمل تھیں۔

    تصوف کی مختصر ترین تعریف ہے، ’’خلق کا خالق کی جانب رجوع ہونا، ظاہر ہے کہ جب ساری مخلوق ایک ہی مرکز کی طرف رجوع کرے گی یعنی سب کی ایک ہی منزل ہوگی تو سب میں ایک ایسی وحدتِ ہمسفری پیدا ہو جائے گی جو ابتدائے سفر سے حصولِ منزل تک انسانوں سے انسانوں کو ایسا مربوط رکھے گی کہ وہ مذہب، فرقہ یا کسی اور عنوان سے منتشر ہی نہ ہونے پائیں گے، تصوف کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ اس نے انسانوں میں قلبی و ذہنی وحدت پیدا کی، تصوف کے اسی عہدِ تشہیر میں قوالی کی بنا پڑی اور حضرت نظام الدین اؤلیا ہی کے دربار میں یہ ابتداً پیش کی جانے لگی، چنانچہ حضرت نظام الدین اؤلیا ہی اس کے اولین سرپرست ہوئے۔

    سلسلۂ چشت کی اس ساری تفصیل سے یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ قوالی کے اولین سرپرست کے جذبات و نظریات کیا تھے اور یہ جذبات سلسلۂ چشت کی کتنی پشتوں کا امتیاز و روایات بنے ہوئے تھے اور کتنی دور سے سینہ بہ سینہ قوالی کے اولین سرپرست تک پہنچے تھے، ان تمام امور کا بغور مطالعہ ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ سلسلۂ چشت کے نظریاتِ رواداری، تحریکاتِ ہم آہنگی اور جذباتِ انسان دوستی ہندوستان میں قومی یکجہتی کے فروغ کا سب سے بڑا ذریعہ رہے ہیں، حضرت نظام الدین اؤلیا نے قوالی میں اپنے ان ہی تحریکات کی تقویت و تشہیر کے امکانات اور گنجائش پاکر اسے اپنی سرپرستی سے سرفراز فرمایا۔

    حضرت امیر خسروؔ کی ایجاد کردہ قوالی ایک فنی چیز تھی اور اس میں باضابطہ گائیکی کے ساتھ ساتھ غیر شرعی ساز بھی شامل تھے لیکن حضرت نظام الدین اؤلیا نے اپنی محفلوں میں دف کے سوا کسی اور ساز کی اجازت نہ دی، تاہم قوالی میں با ضابطہ راگ راگنی اور تالی ضرور شامل تھی، آپ سے پہلے سلسلۂ چشت کے بہت سے پیشوا سماع کے عادی رہے ہیں لیکن وہاں سماع میں صرف خوش الحانی کی اجازت تھی، راگ راگنی یا با ضابطہ گائیکی کی نہیں۔

    امیر خسروؔ ایک با کمال موسیقی داں تھے، لہٰذا آپ کی ایجاد کردہ قوالی میں سماع سے اتنا تو اختلاف ہونا ہی تھا کہ اگر سماع صرف خوش الحانی پر اکتفا کرتا ہو تو ان کی قوالی باضابطہ راگ راگنی، گائیکی نال ٹھیکوں سر اور لے کے بغیر مکمل نہ ہو سکتی تھی، گائیکی کی شمولیت کے بعد خسروؔ کی ایجاد کردہ قوالی سماع سے خارج ہو کرفن کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے، اسی حیثیت کی بنا پر خسروؔ قوالی کے موجد قرار پاتے ہیں اور اسی حیثیت کے ساتھ وجود پائی ہوئی قوالی کے اولین سرپرست حضرت نظام الدین اؤلیا رہے، جن کے دربار میں نہ صرف اہل اسلام کو داخلہ کی اجازت تھی بلکہ ہر انسان بلا امتیا زمذ ہب و ملت شریک ہو سکتا تھا، اس عام دعوتِ شرکت کے باعث آپ کا دربار مذہبی و تہذیبی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کا ایک مرکز بن گیا جس کی مثال اس عہد سے آج تک کہیں نہیں ملتی یعنی قوالی کے اولین سرپرست وہ تھے جن کا دربار قومی یکجہتی کے فروغ کا سب سے بڑا مرکز تھا۔

    حضرت نظام الدین اؤلیا نے اپنی وفات سے تھوڑی دیر پہلے اپنے مرید و خلیفہ خواجہ شیخ نصیرالدین چراغ دہلی کو اپنا جانشین مقرر فرمایا، اس کے بعد بروز چہارشنبہ ۱۸ ؍ربیع الاول ۷۲۵ھ کو بعد نماز فجر اس دارِ فانی سے جوارِ رحمت میں داخلہ لیا، روضۂ مبارک دہلی میں ہے، جہاں آج تک ہر مذہب اور ہر مکتبِ خیال کے لوگوں کا بے مثال اجتماعات رہتا ہے، آپ کے عرس کی تقریبات آج ہماری مشترکہ تہذیب اور وحدتِ قوم کے بے مثال اجتماعات کی حیثیت رکھتی ہیں، مندرجہ بالا وضاحتیں اس بات کا زندہ ثبوت ہیں کہ حضرت نظام الدین اؤلیا، رواداری، مذہبی ہم آہنگی اور انسانیت کے علمبردار ہیں اور یہ وہ خصوصیات ہیں جو قومی یک جہتی کے استحکام کے لیے نہ صرف ضروری ہیں بلکہ ان ہی پر قومیت کا دارد مدار ہے۔

    قوالی کے اولین سرپرست حضرت نظام الدین اؤلیا نے قوالی میں اپنے نظریات کی مطابقت پا کر ہی اس کو اپنی سرپرستی سے سرفراز فرمایا، موجدِ قوالی امیر خسروؔ حضرت نظام الدین اؤلیا کے مرید تھے، خود ان ہی کے بیان کے مطابق وہ ۶۷۱ ھ مطابق ۱۲۷۲ ء یعنی پندرہ سال کی عمر میں آپ سے با ضابطہ طور پر بیعت کر چکے تھے، چنانچہ اہلِ چشت کا جو جذبۂ وحدانیت سینہ بہ سینہ حضرت نظام الدین اؤلیا تک پہنچا تھا وہ حسبِ تسلسل اپنے مرشد سے امیر خسروؔ کے سینے میں بھی منتقل ہوا، جس نے انہیں قومی یکجہتی کے فروغ کی رغبت بخشی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے