قوالی کے گراموفون ریکارڈر
دلچسپ معلومات
کتاب ’’قوالی امیر خسرو سے شکیلا بانو تک‘‘ سے ماخوذ۔
تھامس ایڈیسن کی ایجاد گراموفون اور ریکارڈ سازی کی ابتدا ہندوستان میں انیسویں صدی کے آخری دور میں اس وقت ہوئی جب دلی میں ’’انڈین گراموفون اینڈ ٹائپ رائٹر کمپنی‘‘ کے نام سے ایک ادارے کی بنا پڑی، اس کے بعد بیسویں صدی میں کولمبیا، ٹوئن اور ہز ماسٹرس وائس دراصل ’’انڈین گراموفون اینڈ ٹائپ رائٹر کمپینی‘‘ ہی کا نیا نام ہے، جس کاابتدائی آفس دلی میں تھا، ’’ٹوئن کمپنی‘‘ بھی اسی کمپنی سے ملحق تھی بعد میں بمبئی کی ’’کولمبیا کمپنی‘‘ بھی ہز ماسٹرس وائس ہی میں ضم ہوگئی، اب ہندوستان میں صرف ہز ماسٹرس وائس ہی ایک ایسی کمپنی ہے جس کی کئی شاخیں انتہائی وسیع پیمانے پر پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں، اس کے بعد حال ہی میں ایک نئے ادارے ’’ پولے ڈور‘‘ نے کبھی بمبئی میں گراموفون اور ریکارڈ سازی کا کاروبار شروع کیا ہے لیکن ابھی اس نئے ادارے نے پورے طور پر اپنے قدم نہیں جمائے۔
ہندوستان میں جب ریکارڈ سازی کا کام شروع ہوا تو اس وقت گراموفون کمپنی کے لیے قوالی ایک انتہائی کار آمد چیز تھی، اس وقت تک قوالی کی عمر چھ سو سال سے زیادہ ہو چکی تھی، گراموفون کمپنی کو ابتداً مقبولیت عطا کرنے میں قوالی کا بہت بڑا رول رہا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ قوالی کی عالم گیر مقبولیت میں گراموفون ریکارڈز سب سے زیادہ مدد گار ثابت ہوئے، اس سے قوالی کے فنکاروں کی اندرونِ ملک و بیرونِ ملک شہرت کے پھیلاؤ میں خاص مدد ملی لیکن بعض کتابوں کے مطابق ابتداً ریکارڈ سازی کا کام بڑا مشکل تھا، کیوں کہ جب ہندوستان میں یہ سلسلہ شروع کیا گیا تو موسیقی کے دیگر فنکاروں کی طرح اس عہد کے قوال حضرات بھی اس مشینی کام کو انتہائی شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھتے تھے اور میکروفون کے سامنے آنے سے صاف انکار کر دیتے تھے، بعض تو ڈرتے تھے کہ میکروفون اُن کی آواز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھین لے گا، بعض کو یہ خدشہ تھا کہ یہ ہمارے قیمتی سرمایہ کو ہم سے چھین کر ہماری مرضی کے بغیر دوسرے لوگوں تک پہنچا دے گا، اس طرح ہمارا روز گار چھِن جائے گا، لوگ صرف ریکارڈ ہی سے دل بہلانے لگیں گے (یہ بات بالکل ایسی ہی تھی جیسے اس عہد میں فلم ساز سوچ رہے ہیں کہ ٹیلی ویژن پر پیش کرنے کے بعد فلموں کا بزنس کمزور پڑ جائے گا) ایک گروہ کے لیے یہ بات اس لیے ناقابلِ برداشت تھی کہ ان کی آواز اور ان کا فن ہوٹلوں کے لیے مختص ہے لیکن ریکارڈ بجانے والے بے وقت و بے موسم ریکارڈ بجا کر اُن کے فن کو بدنام کریں گے وغیرہ وغیرہ، یہ تمام ایسے خیالات و شبہات تھے جن کی وجہ سے ریکارڈ ساز کمپنی کو شروع میں بڑی دشواریوں سے گذرنا پڑا لیکن کمپنی نے انتہائی حوصلہ مندی اور سو فیصد کامیابی کے یقین کے ساتھ اپنا کام جاری رکھا اور رفتہ رفتہ کامیابی سے ہم کنار ہوئی۔
قوالی کا فن گراموفون کمپنی کا رہینِ منت ہے کہ جس نے اس کے فنکاروں کے نام اور کام کو قصبوں، صوبوں اور شہروں کی محدودیت سے نکال کر نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا میں پھیلا دیا۔
دہلی کے گراموفون ریکارڈ :-
’’انڈین گراموفون اینڈ ٹائپ رائٹر کمپنی‘‘ نے سب سے پہلے دہلی میں کام شروع کیا اور ہز ماسٹرس وائس کمپنی نے بھی کام کی ابتدا دہلی ہی سے کی، ان کمپنیوں نے ایک طویل عرصہ تک قوالی کے ریکارڈ بنائے، اس عہد کے قوالی ریکارڈز میں کلکتہ والے کالوؔ قوال کے ریکارڈ سب سے اول اور سب سے زیادہ مقبول ہوئے، ان کے بعد پیارے لال دہلی والے، کلن قوال میرٹھ والے، ممتازؔ حسین دہلی والے، عبدالرزاق علی گڑھ والے، جیب پینٹر دہلی والے اور کچھ آگرے کے قوالوں کے ریکارڈ مقبول ہوئے، تقریباً ۱۹۲۵ء تک قوالی کے ریکارڈ دہلی ہی میں بنے لیکن ان کا پھیلاو سارے ملک میں تھا۔
کولمبو کمپنی بمبئی کے قوالی ریکارڈز :-
۱۹۲۵ء کے بعد ’’کولمبو گراموفون کمپنی‘‘ نے بمبئی میں قوالی کے ریکارڈ بنانے کی اسکیم شروع کی، اس کمپنی نے ابتداً ایم بشیر قوال حیدرآبادی عبد الرحمٰن کانچ والا، صالح محمد اسمٰعیل آزاد اور شہاب الدین چاؤش کے ریکارڈ بنائے، اس کے بعد یہ سلسلہ شروع ہوگیا اور کئی دیگر قوال بھی اس کمپنی سے استفادہ کر سکے، آگے چل کر یہ کمپنی ’’ہز ماسٹرس وائس کمپنی‘‘ میں ضم ہوگئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.