قوالی کے اسٹیج پروگرام اور ٹکٹ شوز
دلچسپ معلومات
کتاب ’’قوالی امیر خسرو سے شکیلا بانو تک‘‘ سے ماخوذ۔
فلموں کی جگمگاہٹ کے آگے تھیٹر کا چراغ جل نہ سکا اور اسٹیج کے جتنے مقبول و با صلاحیت فنکار تھے سب کے سب فلم انڈسٹری میں آ گیے، اسٹیج کی جیتی جاگتی دنیا ایک طویل عرصے کے لیے بے روح ہو گئی لیکن جب فلم کے فنکاروں کی مقبولیت معراج کو پہنچ گئی تو عوام انہیں اسکرین کے علاوہ قریب سے یعنی اسٹیج پر دیکھنے کے خواہش مند ہوئے، اس مانگ کے تحت فلمی فنکار کسی نہ کسی عنوان پھر اسٹیج پر نمودار ہونے لگے لیکن خاص بات یہ ہے کہ اس سلسلے کی بنا قوالی کے فنکاروں نے ڈالی، اس کا ایک معقول سبب یہ بھی تھا کہ جو پیشہ ور قوال فلموں میں مصروف ہو گیے تھے ان کی شہرت تو دن بدن وسعت اختیار کرتی جارہی تھی لیکن فلمی آمدنی ان کے لیے قطعاً ناکافی تھی، چنانچہ اپنی مقبولیت کے بر وقت استعمال کے طور پر ان فنکاروں نے تھیٹروں میں قوالی کے ٹکٹ شوز کے انعقاد کا سلسلہ شروع کیا، فلموں کی ابتدا کے بعد اور قوالی کے ٹکٹ شوز کی ابتدا سے پہلے تھیٹروں میں اردو ہندی کی سرگرمیاں برائے نام رہ گئی تھیں اور سارے تھیٹر سندھی، گجراتی، مراٹھی یا دیگر مقامی زبانوں کی حد تک محدود ہو کر رہ گیے تھے لیکن قوالی کے ٹکٹ شوز کی ابتدا کے ساتھ تھیٹر میں پھر سے اردو ہندی کی بہاریں لوٹ آئیں۔
تھیٹر میں قوالی کے باضابطہ ٹکٹ شوز کا آغاز آزادی ہند ۱۹۴۷ء کے بعد اسمٰعیل آزاد کی قوالیوں سے ہوا، قوالی کی ’’کمرشل حیثیت‘‘ اسمٰعیل آزاد ہی کی مرہونِ منت ہے، اس سے پہلے اگر کہیں قوالی کے کچھ ٹکٹ شوز ہوئے بھی ہیں تو ان کی نوعیت ’’کمرشل شوز‘‘ کی نہیں بلکہ وہ شوز یا تو کسی کارنوں، کسی نمائش، کسی میلے وغیرہ کی تفریحات کا جزو تھے یا پھر کسی مذہبی یا سماجی ادارے کی امدادی تقریبات کی حیثیت رکھتے تھے، جن کے ٹکٹ آج کے قوالی شوز کی طرح محض پبلسٹی کے سہارے کھڑکی پر فروخت نہیں ہوتے تھے بلکہ در بدر گشت لگا کر یا حلقۂ احباب میں فروخت کیے جاتے تھے، اسمٰعیل آزاد نے جب تھیٹروں میں پروگرام دینے شروع کیے تو یہ پروگرام کسی گشت یا گذارش کے محتاج نہ رہے، صرف اخباروں اور پوسٹروں کے ذریعے پلسٹی کر دی جاتی اور ہاؤس فل ہو جاتے۔
ہندوستان میں قوالی کے ٹکٹ شوز کے انعقاد کے لیے اسمٰعیل آزاد کے ساتھ جن فنکاروں نے تحریک چلائی ان میں عبدالرب چاؤش، شنکر شمبھو حبیب پینٹر، یوسف آزاد، جانی بابو، شکیلہ بانو بھوپالی اور عزیز نازاں کے نام سر فہرست ہیں، قوالی کے بیشتر ٹکٹ شوز سے پچاس پچاس ہزار کا فنڈ اکٹھا کیا گیا ہے اور اس بات کا ریکارڈ موجود ہے کہ ۱۹۵۸ء میں عزیز احمد خان وارثی کے ایک پروگرام سے انجمن اسلام ہائی اسکول بمبئی سے ڈیڑھ لاکھ کی رقم اکٹھا کی اور اب ۱۹۷۵ میں شکیلہ بانو بھوپالی کے ایک قوالی پروگرام سے وزیر اعظم ریلیف فنڈ کے لیے سات لاکھ کی رقم اکٹھا کی گئی، اس کے علاوہ ہمارے بیشتر قوال حضرات و خواتین کو ٹکٹ شوز کے لیے ہر سال متعدد بار بیرونِ ہند سے مدعو کیا جاتا ہے، جس کے باعث ہماری حکومت کو لاکھوں کا زرِ مبادلہ وصول ہوتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.