قوالی کی ایجاد و ارتقا
دلچسپ معلومات
کتاب ’’قوالی امیر خسرو سے شکیلا بانو تک‘‘ سے ماخوذ۔
کسی فن کی ایجاد و ارتقا کے بارے میں قلم اٹھانا اس وقت آسان ہوتا ہے جب کہ ہم اس کی ایجاد و ارتقا کے عینی شاہد ہوں یا اس کے مشاہدین تک ہماری رسائی ہو یا کم از کم اتنا ہو کہ اس فن پر کچھ معلوماتی کتا بیں ہمیں میسر ہوں، قوالی کا فن ان تینوں چیزوں سے تہی دست ہے۔
یہ بات آج تک موضوع بحث ہے کہ موجد قوالی امیر خسروؔ نے علمِ موسیقی پر کچھ کتابیں لکھی تھیں کہ نہیں، بیشتر تذکرہ نگاروں نے خسروؔ کے بعض اشعار سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ خسروؔ نے علم موسیقی پر بھی بہت کچھ لکھا ہے، ہمیں اس بحث سے مطلب نہیں کہ خسروؔ نے فنِ موسیقی پر کوئی کتاب لکھی کہ نہیں لیکن یہ حقیقیت ہے کہ اس وقت تک دنیا کی کسی لائبریری سے خسروؔ کی ایسی کسی تصنیف کا سراغ نہیں ملا جس کا موضوع فنِ قوالی ہو۔
فن قوالی کے تعلق سے خود موجدِ قوالی کی سرد مہری کے باعث اس فن کی ایجاد و ارتقا کے مطالعہ کے لیے ہمیں عہدِ خسروؔ کے دیگر مصنفین کی طرف رجوع ہونا پڑتا ہے لیکن افسوس کہ ان مصنفین نے بھی قوالی پر کہیں بحث کی ہے تو صرف اس کے مذہبی پہلو پر اس کے فنی و ارتقائی پہلو پر کسی نے روشنی نہیں ڈالی، اس عہد کے گذر جانے کے بعد بھی قوالی ہمیشہ مذاہی موضوع ہی بنی رہی یہہ کبھی بھی عملی و فنی موضوع کی حیثیت سے زیرِ بحث نہیں رہی، یہی وہ حقیقت ہے جس کی بنا پر اس ان کی ایجاد و ارتقا کے بارے میں آج بھی کوئی دوٹوک بات نہیں کہی جاسکتی، فنِ قوالی کی اس محرومی کے باعث اس کی تحقیق کے لیے ایک یہی صورت رہ جاتی ہے کہ اس موضوع کو ہم دیگر مختلف حالات و واقعات کے متن میں تلاش کریں اور جہاں کوئی تنکا ملے اسے ایک یہی بہت بڑا سہارا جانیں اور اسی کو دلیل و ثبوت کی حیثیت سے استعال کریں تا کہ قطعیٔ طور پر نابلد رہنے کے بجائے ہلکی سی آگہی پیدا کر سکیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.