قوالی کی زبان
دلچسپ معلومات
’’قوالی امیر خسرو سے شکیلا بانو تک‘‘ سے ماخوذ۔
قوالی کا تیسرا اہم جزو مرکب ہے زبان، اپنی ضروریات کے پیشِ نظر ہم موسیقی میں جو مضامین سموتے ہیں اور مضامین میں جو جذبات پنہاں ہوتے ہیں ان کی خاطر خواہ تاثیر کے لیے زبان کا انتخاب انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اس انتخاب میں سب سے پہلے اس بات کو پیش نظر رکھنا ہوتا ہے کہ ہمارے سامعین لسانی طور پر کتنے حلقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور کون سی زبان ایسی ہو سکتی ہے جو ان تمام کے لیے نہ صرف قابل قبول ہو بلکہ قابلِ فہم بھی، قوالی نے ہندوستان میں جنم لیا، اس کے سننے والے ہندوستانی تھے، لہٰذا اس کے لیے ایسی زبان ہی موافق آسکتی تھی جسے تمام ہندوستانی بہ آسانی سمجھ سکیں اور وہ زبان تھی اردو جو فارسی اور سنسکرت میں مروجہ لپیوں میں بھی لکھی جا سکتی تھی، لیکن کسی بھی زبان کے بولنے اور سننے کے معاملہ میں رسم الخط حائل نہیں ہوتا، اس چھوٹ کے باعث قوالی کے لیے اردو بہت موزوں زبان تھی لیکن ابتداً قوالی کو اردو کے قالب میں ڈھالنا بہت دشوار تھا، حالاں کہ قوالی کے عہدِ ایجاد تک اردو نے دو صدیاں گذار لی تھیں لیکن اس وقت تک اردو کو نہ تو ہندوؤں نے کوئی ادبی حیثیت دی تھی اور نہ مسلمانوں نے، چنانچہ اس دور میں قوالی کو اردو سے جوڑ دیا جاتا تو شاید یہ ایک بے موقع کوشش ہوتی، لہٰذا خسروؔ نے قوالی کی ابتدا سب سے پہلے عربی نثر سے کی، جب عربی میں اس کے قدم جم گیے تو خسروؔ نے اس کی ضرورت کے پیشِ نظر اسے فارسی تک وسعت دی، اس وقت ہندوستان کے عوام عربی کے مقابلہ میں فارسی زیادہ جانتے تھے، خسروؔ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے اردو کو ایک ادبی زبان کی حیثیت سے برتا، اسی اعتبار سے ان کا شمار اردو کے اولین مصنفین میں ہوتا ہے لیکن ان کے عہد میں فارسی ہی تک محدود رکھا لیکن انہیں اپنے منصوبہ کے تحت قوالی کو ایک ایسے جھرنے کی شکل بھی دینی تھی جو عربی و فارسی کی چٹانوں سے نکل کر اردو کی وادیوں تک پہنچ جائے، اس مقصد کے تحت خسروؔ نے قوالی میں اپنے چند اردو ’’دوہے‘‘ بھی شامل کر دیے تھے، قوالی نے ان دو ہوں کو فوراً قبول کر لیا کیوں کہ ہندوستان کی فارسی دانی بھی اس کی فطرتِ وسعت پذیری کے لیے ناکافی تھی اور اردو وہ زبان تھی جو ہندوستان کے ہر ہر فرد تک رسائی رکھتی تھی۔
قوالی کے اردو میں مکمل طور پر ڈھل جانے تک خسروؔ کی حیات نے وفا نہ کی، خسروؔ صرف قوالی کا ہاتھ اردو کے ہاتھ میں دینے کا فرض ادا کر سکے، ان کے بعد تقریباً پانچ صدیاں اور بیتیں تب جا کر قوالی نے مکمل طور پر اردو کو اپنا ذریعۂ اظہار بنایا، اگر چہ خسروؔ کے بعد قوالی اور اردو کو باندھے رکھنے والی کوئی اہم شخصیت موجود نہ تھی لیکن یہ خسروؔ کی دور اندیشی، اُن کی کامیاب منصوبہ بندی اور خود اردو و قوالی کی مشترکہ خصوصیات ہمہ گیری کا کمال تھا کہ قوالی دن بدن خود بخود اردو سے قریب ہوتی گئی، اردو سے ہم آہنگی کا ایک بہت بڑا سبب یہ بھی تھا کہ یہ دونوں چیزیں قومی یکجہتی کی کوکھ سے جنم پائی ہوئی تھیں یا ان دونوں نے قومی شعور کو جنم دیا تھا، اس نسبتِ یکسانیت کے باعث قوالی اور اردو آج تک نہ صرف شیر و شکر بنے ہوئے ہیں بلکہ دن بدن ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزم ہوتے جا رہے ہیں۔
اردو ہماری مشترکہ تہذیب کی ناقابل فراموش زبان ہے، اس نے قومی شعور کے فروغ میں وہ رول ادا کیا ہے جس کی اہمیت کا احساس آج کے ہندوستان کو اتنی شدت سے ہو رہا ہے جس کی مثال آزادی کے بعد سے آج تک کہیں نہیں ملتی، اب اردو اپنی قومی یکجہتی کی خصوصیات کی بنا پر اپنے مخالفین سے بھی اپنی افادیت کا اعتراف کروا چکی ہے، یہ بات اب ہندوستان کے ہر ذی فہم نے تسلیم کر لی ہے کہ اردو کی مخالفت خود قومی مفادات کی مخالفت ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.