قوالی میں تالی جزو لازم ہے
دلچسپ معلومات
کتاب ’’قوالی امیر خسرو سے شکیلا بانو تک‘‘ سے ماخوذ۔
مرد کی تالی شریعتِ اسلام میں منع ہے، چنانچہ نماز میں امام کی بھول پر عورتوں کو تو نرم تالی کی اجازت ہے لیکن مردوں کو سبحان اللہ کہنے کا حکم ہے، علاوہ اس کے قرآن کی آیتوں میں بھی تالی کو سخت موجب عذاب قرار دیا گیا ہے۔
’’وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِندَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكَاءً وَتَصْدِيَةً ۚ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ‘‘ (سورہ الانفال، آیت نمبر؍ ۳۵)
ترجمہ : اور ان کی نماز خانۂ کعبہ کے پاس صرف یہ تھی کہ سیٹیاں بجانا اور تالیاں بجانا، ثواب اس عذاب کا مزہ چکھو۔
سماع میں تالی شامل تھی یا نہیں اس میں اختلاف ہے لیکن قوالی میں تالی ایک جزو خاص ہے بلکہ قوالی کی پہچان ہے جو ہندو دیوتاؤں کے بھجن سے لی گئی اور قوالی میں ہندوؤں کی دلچسپی کے اضافہ کا باعث ہوئی، بقول مہتاب سرمدی (خسروؔ کی قوالی میں) تالیاں کبھی سم اور بھری، خالی کی رعایت سے پڑتی تھیں کبھی تقطیعی کے ٹکڑوں کی گت پر۔
قوالی میں تالی کا باضابطہ اصولی نظام اس کے ایک فن ہونے کا ثبوت ہے جو قوالی کو سماع سے مختلف ثابت کرتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.