مولانا جلال الدین رومی
ایران کے صوفی شاعروں میں مولانا جلال الدین رومی کا مقام بہت بلند ہے، آپ کی زندگی کا بیشتر حصہ ارض روم میں گزرا اس لیے مولانا روم کے نام سے شہرت پائی، مثنوی معنوی مولانا جلال الدین کے افکار کا گراں بہار ثمرہ اور ان کے اشعار کا بہترین مجموعہ ہے بلکہ یہ فارسی زبان میں تصوف کا مکمل ترین دیوان ہے، اس میں چھ دفتر ہیں اور اشعار کی تعداد تقریباً چھبیس ہزار ہے، مثنوی میں مسلسل منظوم حکایتیں ہیں اور ان حکایتوں کو بیان کر کے مولانا روم دینی اور عرفانی نتائج اخذ کرتے اور حقائقِ معنوی کو سیدھی سادھی زبان میں از راہِ تمثیل بیان فرماتے ہیں، اس ترتیب سے وہ قرآن کریم کی بہت سی آیتوں اور اخبار و احادیث نبوی کی شرح صوفیانہ طرز پر بیان کرتے ہیں، یہ درست ہے کہ مثنوی تصوف میں اولین مثنوی نہیں ہے بلکہ اس سے بیشتر سنائی اور عطارؔ جیسے عارف شاعروں نے صوفیانہ عقائد پر منثویاں تصنیف کی تھیں اور گوئے سبقت لے گیے تھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ عارفانہ مثنویاں اور ان کے مصنف دونوں مولانا جلال الدین کے پیش نظر تھے اور انہیں اور انہیں وہ اپنا استاد سمجھتے تھے، اس لیے تو فرماتے ہیں۔
ہفت شہر عشق را عطار گشت
ما ہنوز اندرِ خم یک کوچہ ایم
عطار روح بود و سنائی دو چشم ما
ما از پس سنائی و عطار آمدیم
لیکن اس کے باوجود مولانا روم خود ایک مستقل رنگ رکھتے ہیں، انہوں نے صوفیانہ شاعری میں اپنا دلکش اور بلند و بالا قصر الگ تعمیر کیا ہے، مولانا جلال الدین کی شاعری رسائی مقصود، لطافتِ معنی باریکی خیال عرفان کو کی صفائی اور پختگی کی شاعری ہے، سنائی نے عرفانی شاعری کا قوام اور اس میں موزونیت تام پیدا کی، شیخ عطار نے اسے لطیف معانی اور شور و شوق کا مظہر بنایا اور مولانا جلال الدین نے اسے اوجِ کمال پر پہنچایا، اگر کوئی ایرانی شاعروں کے کارواں پر ذرا گہری نظر ڈالے تو معلوم ہو جائے گا کہ فردوسیؔ داستان سرائی اور رزمیہ شاعری کا استادیئے، خیام حکیمانہ رباعی کا ماہر ہے، انوری کی شاعری فنی قصیدے کا مکمل نمونہ ہے، نظامی بزمیہ اور عشقیہ داستان لکھنے میں ماہر ہے، سعدی اچھوتی نثر اور دلکش غزل کے مالک ہیں، مولانا جلال الدین رومی عرفانی مثنوی ہیں بے مثال ہیں اور حافظ عرفانی عرزل کے آقا ہیں، مثنوی معنوی کی سب سے بڑی خصوصیت مولانا روم کا طرزِ استدلال اور سمجھانے کا طریقہ ہے، مولانا کو بہ احساس ہے کہ فلسفیانہ عرفانی غزل کے آقا ہیں، مثنوی معنوی کی سب سے بڑی خصوصیت مولانا روم کا طرز استدلال اور سمجھانے کا طریقہ ہے، مولانا کو یہ احسا ہے کہ فلسفیانہ موضوع گہرائی کے باعث آسانی سے ذہن نشین نہیں ہوسکتا اسے لیے جب کوئی بحث چھیڑتے ہیں تو اسے تشبیہوں اور تمثیلوں کے ذریعے قارئین کے ذہن نشین کراتے ہیں، اگر چہ مولانا سے پہلے بھی فرصی حکایتیں لکھ کر اخلاقی مسائل کی تعلیم دی گئی تھی لیکن مولانا نے اپنے فلسفیانہ اور شاعرانہ صلاحیتوں کی بدولت اس طریق تعیم کو کمال عروج تک پہنچایا۔
مولانا ہدایت اور تعلیم کو سخن پروازی اور شاعری کی نسبت زیادہ اہمیت دیتے ہیں، ان کی مثنوی معنوی افلاطون کے نظریے کے مانند ہے جیسا کہ افلاطون اس شاعری کو قابل قبول سمجھتے ہیں ججو اخلاق اور مذہب کو مدِ نظر رکھ کر لکھی جائے پوری مثنوی میں اخلاقی مسائل کی تعلیم دی گئی ہے اور اس میں قرآنی معارف کی گہری تفسیر ملتی ہے، اسی وجہ سے اس کے متعلق کہا گیا ہے۔
مثنوی مولوی معنوی
ہست قرآن در زبان پہلوی
مثنوی معنوی کے مطالب اور اسلوب بیان سے روشناس کرانے کے لیے بعض افکار مثلاً روحِ انسانی، عشق حقیقی عقل اور عروجِ آدم کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے، مولانا مثنوی کی ابتدائے نوعذی سے کرتے ہیں اور روح کونے میں تشبیہ دے کر تمام عرفان و تصوف کا خلاصہ پہلے چند اشعار میں پیش کر دیتے ہیں، روح انسان کے متعلق قرآنی تعلیم یہ ہے، نفخت فیہ من رومی؟ یعنی خدا نے اپنی روح انسانی جسم میں پھونکی اسی بات کو مولانا روم اس تمثیل میں پیش کرتے ہیں۔
بشواز نے چوں حکایت می کند
وز جدائی ہا شکایت می کند
کرنیشان تا مرا ببریدہ اند
از نفیرم مردو زن نالیدہ اند
مندرجہ بالا اشعار میں روحِ انسانی کو بانسری سے تشبیہ دیتے ہیں لیکن یہ نے ایک لامحدود نیستان سے الگ ہوئی ہے، انسانی جسم اختیار کرنے سے پہلے یہ روحِ مطلق کا ایک حصہ تھی، وصال و معرفت کے سوا اس کا کوئی مشغلہ نہ تھا لیکن انسانی پیکر اختیار کر کے اپنی روحانی صفتیں کھو بیٹھی، اس لیے فریاد کرتی ہے اور اپنے اصل وطن کو لوٹ جانا چاہتی ہے، روح انسانی میں جو اپنی اصل سے جدائی کا حساس ہے، اس کو ایک عام اصول حیات کے تحت لا کر اس کی توجیہ کرتے ہیں، بمصداق ’’کل شی یرجع الیٰ امثلہ‘‘ یعنی ہر چیز میں یہ فطری میلان ہے کہ وہ اپنی اصل کی طرف عود کرے لہٰذا روح انسانی بھی اصل یعنی روح الارواح کی طرف عود کرنے کے لیے اس دنیا میں بیقرار ہے، چنانچہ فرماتے ہیں۔
ہر کسی کز دور ماند از اصلِ خویش
باز جوید روزگار وصل خویش
غالبؔ بھی روحِ انسان کی بیقراری کا یوں اظہار کرتے ہیں۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
اسی مضمون کو حافظؔ یوں بیان فرماتے ہیں۔
طائر گلشن قدیم چہ وہم شرح فراق
کہ دریں وامگہ حادثہ چوں افتادم
یعنی حقیقت میں انسان ایں عالم آب و گل اور جہان رنگ و بو کا باشد ہی نہیں، اس نفس عنصری میں اسے محبوس کر دیا گیا ہے، روح کی معراجعت الی الوطن کے متعلق مولانا روم اپنے دیوان شمس تبریز کی ایک غزل میں فرماتے ہیں۔
ما بفلک بودہ ایم یار ملک بودہ ایم
باز ہما نجارویم خواجہ کہ آں شہر ماست
عشق حقیقی بھی منثوی کا ایک اہم موضوع ہے جو اس کے ہر مضمون پر چھایا ہوا ہے، مولانا ہزار طرح اس کی تفسری بیان کرتے ہیں اور وجد و مستی میں نغمہ ریز ہوتے لیکن ان کو تسلی نہیں ہوتی نہ وہ خود عشق کی گونا گوں کیفیتوں سے میر ہوتے ہیں اور نہ اس کے بیان سے ان کو تشفی ہوتی ہے، مولانا کو ذات خداوندی سے عشق ہے اور عشق کا جذبہ اتنا تیز اور ہمہ گیر ہوتا ہے کہ جگہ جگہ عشق کی کیفیات بیان کرتے چلے جاتے ہیں، چنانچہ مثنوی کا کوئی دفتر ایسا نہیں، جس کے صفحات عشق اور کیفیات عشق کے بیان سے بھرے ہوئے نہ ہوں۔
ہر چہ گویم عشق را شرح و بیان
چو بعشق آیم فجل باشم اوزاں
یعنی عشق اور عزت کے مقامات اور انکشافات، محسوسات اور معقولات سے بالا تر ہیں، اس لیے ناقابل بیان ہیں، روی کے ہاق عشق حقیقی ہی سب کچھ ہے وہ اس کائنات میں سب سے بڑی قوت ہی نہیں بلکہ باعث تخلیق کائنات ہے، بلا مبالغہ ہزاروں اشعار اس کے متعلق لکھ ڈالے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلکِ عشق کی اشاعت ہی رومیؔ کا مقصد حیات ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار میں اس قدر جوش و خروش پایا جاتا ہے کہ دنیا کے کسی شاعر کے کلام میں اس کی نظیر مشکل ہی سے ملے گی، عشق حقیقی کے چند اشعار درج ذیل ہیں۔
شاد باش اے عشق خویش سودائے ما
اے طبیب جملہ علت ہائے ما
اے علاج نخوت رنا موس ما
اے تو افلاطون و جالینوس ما
مندرجہ بالا اشعار قرآن کریم کی ان آیات کی تفسیر میں جن میں کہا گیا ہے، یسبح للہ مافی السمٰوات و ما فی الارض یعنی ارض و سماوات میں جو کچھ بھی ہے وہ خدا کی تسبیح میں مشغول ہے، عشق اور عقل کا باہمی تعلق منثوی کے اہم موضوعات میں سے ایک ہے، حکمائے یونان سقراط افلاطون اور ارسطو کے ہاں خدا کا تصور عقل کلی کا تصور ہے، ہر چیز کی ہستی میں جتنی اصلیت ہے، وہ عقل ہی کی بدولت ہے اور زندگی کا نصب العین بھی یہی ہے کہ انسان عقل جزوی سے عقل کلی کی طرف ترقی کرے، مولانا روم بھی ان حکما کے ہمنوا ہو کر عقل کی اہمیت کے کچھ کم قائل نہیں منثوی معنوی میں عقل و حکمت کی تعریف میں بھی بے شمار اشعار ملتے ہیں، قرآن کریم بھی حکمت کو نعمتِ عظمیٰ قرار دیتا ہے، جیسا کہ فرمایا گیا ہے۔
’’من یوت الحکمۃ فقد اوتیَ خیراً کثیرا‘‘
یعنی جسے حکمت دی گئی اسے بہت بھلائی دی گئی۔
کائنات کے مظاہر کی حکمت پر غور کرنا ایک افضل عبادت ہے، اس لیے عالم کو عابد پر ترجیح ہے، جس کے متعلق ثبوت میں متعدد احادیث بھی ملتی ہیں، چنانچہ مولانا فرماتے ہیں۔
طالبِ حکمت شواز مردِ حکیم
تا از دگروی تو بینا و علیم
مبع حکمت شود حکمت طلب
فارغ آید اوز تحصیل و سبب
لوحِ حافظ لوح محفوظی شود
عقل او از روح مخطوطی شود
یعنی طالب حکمت ترقی کرتے کرتے ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ خود منبع حکمت بن جاتا ہے حکمت کی ترقی اس کو مقام عشق تک پہنچا دیتی ہے، پہلے وہ معلومات کو حافظے میں محفوظ کر لیتا ہے اس کے بعد وہ خود لوح محفوظ بن جاتا ہے، مولانا عروج آدم کے بھی قائل ہیں اور اپنے بیشر اشعار میں اشرف المخلوقات کا درجہ دے چکے ہیں، اگر چہ یہ شرف بعض انسانوں میں بالقوۃ اور بعض میں بالفعل ہے، صلاجیت استعداد اور جوہر موجود ہے، اگر چہ اس کے اظہار میں عملاً لطافتوں کے ساتھ کئی قسم کی کثافتیں بھی مل جاتی ہیں اور عام انسانوں کی جو حالت ہے اس کو مد نظر دکھتے ہوئے یہ یقین کرنا محال ہے کہ یہ اشرف المخلوقات ہے، اکثر حالتوں میں ارذل المخلوقات معلوم ہوتا ہے، اور ذلت کے اس گڑھے میں گرتا ہے جس کے لیے اسفل السافلین کے الفاظ استعمال کرنا موزوں ہوگا، اگر چہ صلاحیت کے لحاظ سے اس کی تقویم احسن ہے، شاید ابلیس کو بھی ایسے ہی انسانوں کی جھلک آدم میں دکھائی دی ہو، جبھی تو اس نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا تھا، کسی نے کیا خوب کہا ہے۔
زاں سبب ابلیسِ ملعون سجدہ بر آدم نکرد
خود مولانا روم بھی ایسے انسانوں کی عام حالت سے بیزار ہیں، دیو جانس کلبی والے تھے کو ان الفاظ میں دہراتے ہیں کہ دن کے وقت چراغ لیے انسانوں کے بھیڑ میں پھر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ یہاں ظلمت ہی ظلمت ہے اس اندھیرے میں ڈھونڈ رہا ہوں کہ کوئی انسان بھی موجود ہے یا نہیں۔
دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرد شہر
کز دام و دو ملولم والنانم آرزوست
از ہمرہان سست عناصر دلم گرفت
شیر خداد رستم دستانم آرزوست
گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت انکہ یافت می نشود آنم آرزوست
یعنی ظاہر میں تو سب انسان ہیں لیکن انسانیت کا امتیازی جوہر رکھنے والا کوئی نہیں، علامہ اقبال بھی عارف رومی کی طرح عروج آدم کے قائل تھے، حیرت سے پوچھتے ہیں۔
یہی سلطاں ہے تیرے بحروبر کا؟
کہوں کیا ماجرا اس بے بصر کا
نہ خود بیں نے خدا بیں نے جہاں ہیں
یہی شہ کار ہے تیرے ہنر کا؟
مثنوی کا ایک خاص مضمون جو حقیقت کے جواہرالحکم میں سے سب سے زیادہ قیمتی جوہر ہے، صورت و معنی کا باہمی رابطہ ہے، مولانا کی مثنوی، مثنوی معنوی کہلاتی ہے، مولانا نے مثنوی میں اس عقیدے کو کئی جگہ دہرایائے، کہ عالم میں ہر ایک چیز کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ارتقائے روحانی ظاہر سے باطن کی طرف آنے کا نام ہے، قرآن کریم کے متعلق مولانا کا راسخ عقیدہ ہے کہ اس کے ظاہر کے اندر کئی باطن ہیں جو شخص ظاہر پر قناعت کر لیتا ہے، اس پر روحانی توتی کا راستہ بند ہو جاتا ہے فرماتے ہیں۔
صرف قرآن ساماں کہ ظاہریست
زیر ظاہر باطنے ہم قاہریست
زیر آں باطن یکے بطن دگر
خیرہ گرد داند رونکر و نظر
ایک اور جگہ فرماتے ہیں۔
من ز قرآن بر گزیدم مغزرا
استخواں پیشِ سگاں انداختم
جبہ و دستار و عالم و قیل قال
جملہ در آب رواں انداختم
مولانا روم کا صورت و معانی کا تمام تر فلسفہ ماہیت روح پر مبنی ہے، ان کے نزدیک روح کی حقیقت نورِ شعور ہے، شور مادے سے لے کر ذات واحد تک توق کرتا ہے، مولانا جابجا فرماتے ہیں کہ ساتوں میں کا نیت ہوتی ہے اور مکانیت دورہ کا وصف نہیں، جہاں عالم روحانی میں قدم رکھا، وہیں زیر و بالا اور پس و پیش غائب ہوگیے اور لامکافی معنویت کا ظہور ہوا فرماتے ہیں۔
گر تو خود را پیش و پس داری گماں
بستہ جسمی و محرومی زجان
زیر و بالا پشی وپس وصفِ تن است
بے جہت ذاتِ جانِ روشن است
عارف رومی افلاک اور جسمانیت کا وجود اعتباری اور ظلی سمجھتے ہیں اور ترقی روح کو جسم اور جہت کے ساتھ وابستہ نہیں کرتے اسی ضمن میں فرماتے ہیں۔
عشق نہ بالا نہ پستی زفتن است
عشق حق از جنس ہستی رستن است
مولانا روم جیسے صوفی مفکر کا فلسفہ حیات ایک بحر بیکراں کی طرح ہے، فارسی زبان میں جس قدر کتابیں نظم یا نثر میں لکھی گئی ہیں، کسی میں ایسے نازک دقیق اور مہتمم، بستان مسائل اور اسرار نہیں مل سکتے، جیسے مثنوی میں کثرت سے پائے جاتے ہیں اس کے ہر مضمون میں فلسفیانہ گہرائی پائی جاتی ہے، اس لیے مثنوی معنوی نے مولانا جلال الدین رومی کو حیات جاودانہ عطا فرمائی، حفاظ نے کیا خوب کہاں ہے۔
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما
ہم خوگر محسوس ہیں ساحل کے خریدار
اک بحر پر آشوب و پر اسرار ہے رومی
تو بھی ہے اسی قافلۂ شوق میں اقبالؔ
جس قافلۂ شوق کا سالار ہے رومی
(اقبالؔ)
- کتاب : خیابان، پیشاور (Pg. 48)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.