Font by Mehr Nastaliq Web

ذکر خیر حضرت شاہ واعظ الدین حسین ابوالعلائی داناپوری

ریان ابوالعلائی

ذکر خیر حضرت شاہ واعظ الدین حسین ابوالعلائی داناپوری

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    آپ حضرت شاہ نظیر حسن ابوالعلائی داناپوری کے خَلفِ اکبر تھے۔ پیدائش یکم شوال المکرم 1290ھ، روزِ شنبہ شب میں ہوئی۔ آپ اپنے والد کے صورتاً اور سیرتاً جانشین تھے۔ کم عمری ہی سے صوفیانہ مزاج کے حامل تھے۔ آپ نے علومِ ظاہر کی تکمیل اپنے والد اور مولانا سلطان احمد قندھاری سے حاصل کی۔ طلبِ مولیٰ کی خاطر کم عمری ہی میں حضرت شاہ محمد اکبر داناپوری سے بیعت و ارشاد لائے۔ چند روز گزرے تھے کہ خلافت سے نوازے گئے۔ اپنی پوری زندگی مدرسہ حنفیہ نعمانیہ میں درس و تدریس کے لیے وقف کر دی۔

    معاصر علما و مشائخ آپ کی علمی لیاقت کے قائل تھے۔ خاندانی صحبت نے شاعری سے بھی رغبت دلا دی، جو دل بہلانے کا سب سے بہتر طریقہ تھا۔ علم کی پختگی کے ساتھ عمل کی پاکیزگی بھی خوب تھی۔ بزرگوں کی عظمت و حشمت کا پاس و لحاظ خوب رکھتے۔ بغض و حسد، کینہ و عداوت سے کوسوں دور رہتے۔ للّٰہیت اور فقر و درویشی کی طرف جلد ہی مائل ہوگئے۔ مجاہداتِ نفس بھی ذکر و فکر کی طرح گاہے بگاہے کرتے رہتے۔ باضابطہ کوئی تصنیف موجود نہیں، مختصر سی تحریریں مختلف کتب و رسائل میں مل جاتی ہیں۔

    آپ اپنے والد ماجد کے بعد محلہ شاہ ٹولی کے امام و خطیب اور بڑی عیدگاہ (کینٹونمنٹ، داناپور) کے منتظمِ کار رہے۔ خانقاہِ سجادیہ کی محافل میں برابر آپ منفرد صوت و صدا میں کلام پڑھا کرتے تھے۔ اپنے پیرومرشد حضرت شاہ محمد اکبر داناپوری قدس سرہٗ کے عاشقِ زار تھے، کیفیت سے معمور اور نسبت سے سرشار، خاندانی عزت و وجاہت کے خواہاں تھے۔

    حضرت شاہ حسین الدین احمد منعمی کا بیان ہے کہ

    ’’داناپور میں سادات کا جو خاندان آباد تھا وہ اگر محلہ شاہ صاحباں ہیں آج بھی موجود ہے اور بحمداللہ تعالیٰ دورِ متاخر اور دورِ حاضر میں بھی ذی علم و ممتاز ہستیوں سے خالی نہیں ہوا۔ حضرت سید شاہ محمد اکبر داناپوری و سید شاہ نظیر حسن دورِ متاخر میں اور سید شاہ محمد محسن و سید شاہ واعظ الدین حسین جیسی ذی علم و معزز و مقتدر ہستیاں دورِ حاضر میں بھی موجود ہیں۔‘‘ (خانقاہ داناپور، ص 1)

    آپ کی چار شادیاں یکے بعد دیگرے ہوئیں۔

    زوجہ اولیٰ: امینہ خاتون بنت قاضی شیخ عبد الکریم شیر گھاٹی (فرزند الیاس ابوالعلائی قیصرؔ داناپوری)

    زوجہ دوم: عصمت النساء بنت شاہ کفایت گوری گھاٹ (لاولد)

    زوجہ سوم: بی بی محفوظ بنت خواجہ عبد الرحمن شیر گھاٹی (فرزند: بی بی کلثوم)

    زوجہ چہارم: آمنہ خاتون بنت الطاف حسین، بیو بڑی (فرزند: فیضان احمد، رضوان احمد، بی بی حبیبہ خاتون)

    آپ کی آواز اتنی دلنشیں تھی کہ سننے والا مدہوش ہوجاتا۔ نمازِ جمعہ کا خطبہ آپ کا یادگار ہوتا۔ خاص طور سے دور دراز سے لوگ خطبہ سننے بگھی سے آیا کرتے۔ عمر کے حساب سے جب وجد و کیفیت میں نکھار آنے لگی تو حضرت والد صاحب کے علاوہ حضرت حکیم سید شاہ شرف الدین حسین چشتی (متوفیٰ 1343ھ) نے بھی آپ کو خلافت سے نوازا۔ خود ایک خط کے جواب میں آپ رقم طراز ہیں کہ

    ’’اور حضرت حکیم چچا علیہ الرحمت نے اس کمترین راقم کو بھی اجازت سے سرفراز فرمایا ہے۔‘‘ (مکتوبات، ص 43)

    ڈاکٹر عبد الحلیم صاحب (ایم بی اسسٹنٹ سرجن) تراولی، ضلع کرنال پہلے مرزا قادیانی کے گروہ میں شامل تھے۔ برابر آپ سے خط و کتابت کرتے رہتے تھے۔ بعد میں انہوں نے قادیانی سے اختلاف کیا اور ایک رسالہ جواب میں لکھا۔

    مولانا محمد جان (گیا)، مولانا عبد الغفور مالدھری (مدرس، مدرسہ عربیہ، بلند شہر)، مولانا نجم الہدیٰ (مدرسہ حنفیہ، آڑہ)، مولانا سید مظہر حسن (گیا) وغیرہ آپ کے خاص احباب میں شامل تھے۔

    آپ حکیم احسان علی کی ’’طبِ احسانی‘‘ کو ہمیشہ اپنے مطالعہ میں رکھتے تھے۔ مولانا جلال الدین رومی کی مثنوی کا درس طلبہ کو دیتے اور پھر اس کی تشریح کرتے۔ مولانا واعظ الدین ادعیات و وظائف کے بھی سخت پابند تھے۔ فنِ شعر و سخن سے واقفیت تو تھی مگر زیادہ شعر نہ کہتے تھے، البتہ دوسرے شعرا کے اشعار زیادہ پسند کرتے اور گنگنایا کرتے۔ آپ کو عربی و فارسی کے سینکڑوں اشعار یاد تھے۔ جامیؔ، قدسیؔ، عراقیؔ، عرفیؔ، سعدیؔ، رومیؔ، حافظؔ کے اشعار زیادہ پڑھتے۔ اکثر زبان پر امام محمد شافعیؔ کے اشعار رواں رہتے۔

    قال واجب علی الناس ان یتوبوا

    لکن ترک الذنوب اوجب

    والدھر فی صرف عجیب

    وغفلۃ الناس فیہ اعجب

    والصبر فی النائبات صعب

    لکن فوات الثواب اصعب

    ولکم یرتجیٰ قریب

    والموت من کل ذات اقرب

    اردو شاعری میں اپنے استادِ محترم اور پیر و مرشد حضرت شاہ اکبر داناپوری کی غزلیں انہیں خوب یاد تھیں۔ اس کے علاوہ حضرت ساجدؔ داناپوری، آتشؔ لکھنوی، اسیرؔ لکھنوی، امیرؔ مینائی، نظامؔ اور رضاؔ بریلوی کے اشعار پسند تھے۔

    مولانا واعظؔ کا ایک شعر ملتا ہے۔

    یاں نکتہ چیں بہت ہیں، نصیحت پذیر کم

    جو بات ہو سو حضرت واعظؔ جچی تلی

    آپ کی نشست اکثر خانقاہ سجادیہ میں ہوا کرتی تھی۔ ہمارے حضرت ظفرالمکرم آپ کی قدر و منزلت کہیں زیادہ کرتے۔ بزرگوں کی قدیم روایت ہے کہ آج تک خاص طور پر کبھی بھی شاہ واعظ الدین صاحب نے اپنے بھانجہ شاہ ظفر سجاد دانشمند کو ’’ظفر‘‘ نہیں پکارا، ہر چند کہ آپ حقیقی بھانجہ تھے۔ ہمیشہ ’’ظفر بابو‘‘ سے مخاطب کیا کرتے۔ آپ کی خصوصی نظرِ عنایت نے ہمارے حضرت کی شخصیت کو واضح کر دیا۔

    داناپور شریف کی مشہور روایت ہے کہ ہمارے حضرت ظفرالمکرم اپنے خال محترم کی شخصیت کو خوب شائع و ذائع کرتے تھے اور فرماتے کہ حضرت ماموں علیہ الرحمت نے جس قدر محنت و مشقت کے ساتھ مجھے تعلیم دی ہے شاید کسی اور کو دی ہو۔ ایک صبح کی بات تھی جب آپ نے یہ ماجرا سنایا کہ ’’میں ہمیشہ ماموں علیہ الرحمت کو ایصالِ ثواب کرتا ہوں مگر ایک روز میرے دل نے یہ سوال کیا کہ کیا وہ اُن تک پہنچتا ہے؟ یہ سوال میرے لیے بوجھ سا معلوم ہونے لگا۔ لہٰذا کل رات میں نے خواب میں خال محترم کو دیکھا۔ انہوں نے فرمایا کہ ’ظفر بابو! آپ کا بھیجا ہوا ثواب مجھ تک پہنچتا رہتا ہے۔‘ لہٰذا میں نے ٹھنڈی سانس لی اور خدا کا شکر ادا کیا۔‘‘

    انتقال 5 رمضان المبارک 1359ھ، مطابق 24 دسمبر 1942ء ہوا۔ مدفن محلہ شاہ ٹولی کے آبائی قبرستان میں ہے جو حضرت شاہ تراب الحق کے مزار کے پائیں واقع ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے