ریان ابوالعلائی کے صوفیانہ مضامین
مقدمہ : ’’مولدِ غریب‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک ائمہ و محدثین اور علما و شیوخ نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق حضرت رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ مبارکہ اور میلادالنبی ﷺ کے موضوع پر قلم اٹھایا اور نظم و نثر میں ہزاروں کی تعداد میں گراں قدر کتب تصنیف کیں، ان میں سے بعض مختصر اور بعض ضخیم
مقدمہ : ’’التماس‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
سلسلۂ نقشبندیہ ابوالعلائیہ کا دائرہ اس قدر وسیع و عریض ہے کہ اسے سمیٹنا یا ایک جگہ تحریر کر دینا یہ ایک بڑا مشکل کام ہے، اس کا دامن اس قدر وسیع ہے کہ اس کا ہر ایک موضع کئی جلد کا متلاشی ہے، وحدت الوجود یا وحدت الشہود پر ہی سیکڑوں صفحات خرچ ہوسکتے ہیں،
مقدمہ : ’’چہل حدیث‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
چہل احادیث کے جمع کرنے کا سب سے بڑا محرک حضرت رسول اللہ ﷺ کا قول ہے۔ ’’جس شخص نے امورِ دین کے متعلق چالیس احادیث یاد کیں اور انہیں آگے امت تک پہنچایا تو اللہ تعالیٰ شانہٗ اسے فقیہ کی حیثیت سے اٹھائے گا اور روزِ قیامت میں اس کے حق میں شفاعت کروں گا
مقدمہ : ’’سیرِ دیلی‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
دہلی ہندوستان کا دارالحکومت ہے جسے مقامی طور پر دلی بھی کہا جاتا ہے، ایک ایساشہر جو کئی سلطنتوں اور مملکتوں کا دارالحکومت رہا ہے، کئی مرتبہ فتح ہوا، تباہ ہوا اور پھر آباد ہوا، سلطنت کے عروج کے ساتھ ہی یہ شہر ایک ثقافتی،تمدنی اور تجارتی مرکز کے طور پر
مقدمہ : ’’خدا کی قدرت‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
عقیدۂ توحید کی اہمیت اور ضرورت کے متعلق اکابرین کی رائے یہ ہے کہ عقیدۂ توحید اسلام کا سب سے پہلا بنیادی عقیدہ ہے، یہ صرف ایک نظریہ ہی نہیں بلکہ انسان کو صحیح معنی میں انسان بنانے کا واحد ذریعہ بھی ہے ، یہ انسان کی تمام مشکلات کا حل، ہر حالت میں اس
مقدمہ : ’’فنا و بقا‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
گیارہویں صدی ہجری کے اوائل میں ہندوستا ن کے اکثر علاقوں میں سلسلۂ نقشبندیہ کا خوب عروج رہا جو بعد میں پھوٹ کر دو شاخوں میں منقسم ہوگیا۔ (۱) سلسلۂ نقشبندیہ مجددیہ (۲) سلسلۂ نقشبندیہ ابوالعلائیہ سلسلۂ ابوالعلائیہ کے بانی محبوب جل و علا حضرت سیدنا
مقدمہ : ’’سرمۂ بینائی‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
’’سرمۂ بینائی‘‘حضرت شاہ محمد اکبرؔ ابوالعُلائی داناپوری کی اردو زبان میں لکھا ہوا پچیس ؍تیس صفحات پر مشتمل ایک مشہور و معروف رسالہ ہے، اس میں صوفیانہ عقائد مثلاً وحدت الوجود، توحید، فنافی الذات، فنافی الصفات، حقیقت النفس اور توبہ جیسے مہتم بالشان عنوانات
مقدمہ : ’’آل و اصحاب‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
اہلِ بیت اور صحابۂ کرام کا احترام جزوِ ایمان ہے۔ عہدِ رسالت سے لے کر آج تک امتِ مسلمہ اہلِ بیت سے محبت رکھتی ہے۔ حضرت عبدالرؤف مناوی (پیدائش 1545ء - وصال 1622ء) فرماتے ہیں کہ ’’کوئی بھی امام یا مجتہد ایسا نہیں گزرا جس نے اہلِ بیت کی محبت سے بڑا
مقدمہ : ’’آثارِ کاکو‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
تاریخ نویسی و تذکرہ نگاری کا ذوق و شوق شروع سے قائم رہاہے۔ اس سلسلے میں اربابِ قلم نے جزیرۃ العرب کے حالات و مقامات کا ذکر شروع کیا اور چھوٹی بڑی کتابیں لکھ ڈالیں مگر ان میں کچھ شائع ہوئی اور کچھ ضائع ہوئی بقیہ تلف ہوئی،یہ کام سب سے پہلے عربی زبان میں
مقدمہ : ’’تاریخِ خواجگان‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
محبوبِ جل و علا حضرت سیدنا امیر ابوالعلا قدس سرہٗ مریدوں کو اکثر سلسلۂ نقشبندیہ کا شجرہ عنایت فرماتے تھے، جو کوئی سلسلۂ چشتیہ میں بیعت کی درخواست کرتا تواس کو شجرۂ عالیہ اس ترتیب سے عنایت فرماتے کہ پہلے خواجگانِ چشت سے خواجہ معین الدین چشتی تک کےاسمائے
مقدمہ : ’’مولد فاطمی‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
حضرت فاطمہ زہرا اسلام کی مقدس ترین خاتون میں سے ایک ہیں جن کے تذکروں کا دائرہ اس قدر وسیع و عریض ہے کہ اسے سمیٹنا ایک مشکل امر ہے۔ صحاحِ ستہ اور دوسری تمام کتبِ احادیث آپ کے تذکرے سے بھری پڑی ہیں،بیشتر علمائے اہلِ سنت نے آپ کے اوصاف و کمالات، انداز
نصرت فتح علی خان
’’سہرا یہ حقیقت کا نصرتؔ کو سنانے دو‘‘ نصرت فتح علی خاں پاکستان کے بڑے قوال، موسیقار، موسیقی ڈائریکٹر اور بنیادی طور پر قوالی کے گلوکار تھے، نصرت کو اردو زبان میں صوفی گلوکار اور جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے قوالی کے گلوکار کے طور پر جانا جاتا ہے، انہوں
ذکر خیر حضرت مخدومہ بی بی کمال
صوبۂ بہار میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے کمال آباد عرف کاکو میں ہندوؤں کی آبادی تھی۔ یہاں کوئی راجہ یا بڑا زمیندار برسرِ اقتدار تھا۔ پُرانے ٹیلے اور قدیم اینٹیں جو کھدائی میں برآمد ہوتی رہیں، اس بات کی گواہی ہیں۔ بقول عطاؔ کاکوی ’’بہترے ٹیلے اور گڑھ
ذکر خیرحضرت شاہ فریدالدین احمد چشتی کاکوی
کمال آباد المعروف کاکو اپنی قدامت اور ہدایت و لیاقت کے اعتبار سے ہمیشہ ممتاز رہی ہے۔ یہاں مشہور ولیہ حضرت مخدومہ بی بی ہدیہ المعروف کمال قدس سرہا کا آستانہ متبرکہ ملک بھر میں مشہور ہے۔ کثرت سے بندگان خدا اس دیار میں آکر من کی مراد پاکر خوشی کے ساتھ
تبصرہ : ’’نقیب الاؤلیا‘‘ پر اک نظر
وابستگانِ نقیبیہ کے لیے یہ فرحت و مسرت کی گھڑی ہے کہ حضرت نایاب علی شاہ کی ایک قیمتی تصنیف ’’نقیب الاولیاء‘‘ طباعت کے مرحلے سے گزرنے والی ہے۔ اس کتاب کا موضوع عہدِ رفتہ کے ممتاز صوفی حضرت نقیب اللہ شاہ ابوالعلائی کی زندگی اور ان کے کارناموں کا بیان ہے۔
ذکر خیر حضرت پیر نصیرالدین نصیرؔ
حضرت پیر نصیرالدین نصیرؔ معروف شاعر، ادیب، محقق، خطیب، عالم اور گولڑہ شریف کی درگاہ کے سجادہ نشیں تھے، آپ اردو، فارسی اور پنجابی زبان کے شاعر تھے، اس کے علاوه عربی، ہندی، پوربی اور سرائیکی زبانوں میں بھی شعر کہے ہیں، اسی وجہ سے انہیں "شاعرِ ہفت زبان"
ذکرخیر حضرت حکیم شاہ عزیز احمد ابوالعلائی
اس عالم فانی میں کئی ہستیاں نمودار ہوتی ہیں اور پھر اپنے جلووں کے ساتھ رخصت ہو جاتی ہیں، مگر اپنی کردار، انداز و اطوار، گفتار و بیان اور اخلاق و اخلاص یہیں چھوڑ جاتی ہیں۔ انسان چلا جاتا ہے، مگر اپنی اچھائیوں سے ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتا ہے۔ اگر
ذکرِخیرحضرت شاہ رضی الدین حسین منعمی
آپ حضرت سید شاہ مبارک حسین ابوالعلائی کے فرزند اصغر اور خانقاہ منعمیہ قمریہ، میتن گھاٹ، پٹنہ سیٹی کے سجادہ نشیں ہیں، آپ کی ولادت ۱۲۷۱ھ میں ہوئی، آپ کی آمد پر حضرت شاہ محمد یحییٰ عظیم آبادی نے قطعۂ تاریخ کہا اور ’’نمونۂ خورشید‘‘ اور ’’نور شمس و قمر
خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور اور مجاہد ملت
اس کائنات میں بے شمار مؤقر اور معتبر شخصیات جنم لیتی ہیں اور معدوم ہو جاتی ہیں، لیکن بعض افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے نام علمائے کرام کے درمیان داخل نصاب بن جاتے ہیں اور ان کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوتا ہے۔ تیرہویں صدی ہجری کے وسط میں اللہ تعالیٰ نے
تبصرہ : ’’بہار میں رثائی ادب آغاز وارتقا‘‘
ابھی کچھ مہینے قبل، سلطان آزاد صاحب کی ایک نئی کتاب ’’بہار میں رثائی ادب- آغاز و ارتقا‘‘ موصول ہوئی، جو اپنے موضوع کے اعتبار اور معیار سے گراں قدر ہے۔ موصوف نے نہایت تلاش و تحقیق کے بعد یہ قیمتی سرمایہ تیار کیا ہے۔ ۱۵۲؍ صفحات کی کتاب کو آزاد نے چار
ذکر خیر حضرت مخدوم شاہ محمد منعم پاک
پٹنہ ہرعہد میں صوفیوں کا عظیم مرکز رہا ہے، یہاں بڑے بڑے صوفیو ں کی درگاہیں اور خانقاہیں آج بھی آباد ہیں، صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ بیرون ہندوستان سے بھی لوگ اِن صوفیوں کی خانقاہوں میں عقیدتوں کا سلام پیش کرنے آتے ہیں اور محبتوں کا پھول چڑھاکر خوش خوش
ہے شہرِ بنارس کی فضا کتنی مکرم
سفر دراصل خدا کو پالینے کا سب سے بہتر وسیلہ ہے، جتنا زیادہ انسان سفر کرتا ہے، اتنا ہی وہ خدا کے وجود اور اس کی قدیم و ازلی ہستی کا قائل ہوتا جاتا ہے، راستے کے مناظر، اجنبی چہروں کی مسکراہٹیں، مقامات کی تاریخ اور زمانے کے نشانات، یہ سب مل کر انسان کو
تبصرہ : جوہرؔ نوری - ایک بہترین شاعر
جوہرؔ نوری اردو شاعری کی دنیا کا ایک معروف اور قابل احترام نام ہیں، جنہوں نے چار دہائیوں سے گلستانِ سخن کو آباد رکھا ہے۔ یہ موروثی شاعر ہیں اور ان کے آباؤ اجداد، خصوصاً والد نورؔ نوحی، بہار کے ممتاز شعرا میں شمار کیے جاتے تھے۔ جوہرؔ کی تربیت اور تلمذ
ذکر خیر حضرت مخدوم حسین دھکڑپوش
بہار و بنگال کے اؤلیا صوفیا میں زیادہ تر سہروردی سلسلے سے وابستہ ہیں، فاتح منیر حضرت امام محمد تاج فقیہ اور ان کے پوتے مخدوم کمال الدین احمد یحییٰ منیری، نیز ان کے خسر معظم حضرت سید شہاب الدین پیر جگجوت، سب سہروردی سلسلے کے پیروکار تھے۔ دوسری طرف حضرت
ذکر خیر حضرت شہاب الدین سہروردی پیر جگجوت
حضرت سید شہاب الدین پیر جگجوت سہروردی تقریباً 570ھ / 1174ء میں کاشغر (ایران) میں پیدا ہوئے، آپ اعلیٰ نسب کے حامل تھے اور حضرت امام محمد جعفر صادق سے تعلق رکھتے تھے، والد کا نام سلطان سید محمد تاج المعروف عبدالرحمٰن اور والدہ ماجدہ سیدہ راحت النساء بنت
ذکر خیر حضرت شاہ علی ارشد شرفی
بہار کی سرزمین اپنی زرخیزی، علمی وراثت اور روحانی سرمایہ کے لیے معروف ضرور ہے مگر اپنی شہرت اور وسعت کے اعتبار سے ابھی تک دنیا کی توجہ سے محروم رہی ہے، اس کی ایک روشن مثال حضرت مخدومِ جہاں، شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری ہیں، جنہیں شیخ الاسلام والمسلمین
تذکرہ حضرت حکیم شاہ علیم الدین بلخی فردوسی
برصغیر ہندوپاک کی جن شخصیتوں کو صحیح مانوں میں عہد ساز اور عبقری کہا جاتا ہے، ان میں ایک نمایاں اور محترم نام خانقاہ بلخیہ فردوسیہ فتوحہ کے سجادہ نشین اور صوبۂ بہار کی مشہور علمی شخصیت حضرت مولانا حکیم سید شاہ علیم الدین بلخی فردوسی نور اللہ مرقدہ و
ذکر خیر حضرت پروفیسر عبدالمجید ابوالعلائی
پروفیسر عبدالمجید ابوالعلائی کا تعلق افغانستان کے سرحدی قبائل میں قبیلہ اُتمان خیل سے ہے، یہ قبیلہ خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ میں آباد ہے، اُتمان خیل پٹھانوں کا ایک مشہور قبیلہ ہے جس کی مردانگی اور بہادری زبان زدِ خاص و عام ہے، اس قوم کا بنیادی تعلق
ذکرخیر حاجی شاہ عبداللہ ابوالعلائی اکبری
ہندوستان میں سلسلۂ چشتیہ کے بعد جو سلسلہ سب سے زیادہ رائج ہوا وہ سلسلۂ ابوالعلائیہ ہے، جو دراصل نقشبندیہ سلسلے کی شاخ ہے۔ اس سلسلے میں توحید اور عشقِ الٰہی کی تعلیم لازمی حیثیت رکھتی ہے۔ گیارہویں صدی ہجری سے یہ سلسلہ اس قدر مشہور ہوا کہ برصغیر میں
جائزہ و تبصرہ : سید محمد نورالحسن نور عہدِ حاضر کے ممتاز شاعر
یوں تو اردو زبان و ادب کے دو اسکول لکھنؤ اور دہلی رہے ہیں، لیکن ضمناً اکبرآباد، مصطفیٰ آباد (رامپور) اور عظیم آباد کو بھی اسکول کی حیثیت سے شمار کیا جانے لگا ہے، کیونکہ یہاں میرؔ و غالبؔ، نظیرؔ و آتشؔ، ناسخؔ و وحیدؔ، شادؔ و اکبرؔ اور نہ جانے کیسے
ذکر خیر شاہ عبدالحلیم ابوالعلائی اکبری
ہلسہ، صوبۂ بہار کا ایک مشہور قبائلی علاقہ ہے۔ یہ علاقہ دیہی و شہری زندگی کا امتزاج رکھتا ہے۔ حضرت سید شاہ عبدالحلیم ابوالعُلائی الاکبری کا تعلق جیتی نگر سے تھا۔ آپ کی پیدائش سید عبدالمجید صاحب کے یہاں ہوئی، جہاں کسی قسم کی کوئی زحمت نہیں تھی۔ کثرتِ
ذکر خیر حضرت شاہ ابومحمد ابوالعلائی للن میاں
بہار میں محبت کی فضا قائم کرنے میں صوفیائے کرام کا کردار فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں خانقاہِ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے سابق سجادہ نشیں، عارف باللہ حضرت سید شاہ ابو محمد ابوالعلائی عرف للن میاں قدس سرہٗ بھی شامل ہیں، جنہوں نے ساری زندگی محبتوں
ذکر خیر حکیم شاہ عبدالعظیم ابوالعلائی داناپوری
آپ کا تعلق مدن پور، ضلع اورنگ آباد کے ساداتِ عظام کے اس معزز خانوادے سے تھا، جو اپنی دینی و روحانی خدمات کے سبب ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کے والد، حضرت سیّد شاہ عبدالحکیم ابوالعلائی، نہایت صالح، پاک طینت اور نیک سیرت انسان تھے۔ وہ اپنے خاندان کے مہکتے
مقدمہ : ’’شرف البیاض‘‘ ایک تاریخی کارنامہ
شرف البیاض حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری کے مکتوبات و ملفوظات اور تصنیفات میں استعمال ہونے والے اشعار کا مجموعہ ہے، جسے محترمی و معظمی جناب معلی القاب سیّد شاہ عابد علی شرفی الفردوسی صاحب نے بڑی مشقت و جانفشانی کے ساتھ جمع فرمایا ہے۔ حضرت
حضرت شاہ اکبر داناپوری اور اکبر الہ آبادی
حضرت شاہ اکبر داناپوری اور اکبر الہ آبادی دونوں ایک ہی استاد کے منتخب یادگار ہیں، دونوں کی طبیعتیں گداز، بندش نفیس، زبان دلچسپ اور فنِ شاعری میں انتہا درجے کی معلومات رکھتے تھے، حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کی ایک غزل کے مقطع سے بھی ان دو حضرات کے تعلق و
تبصرہ : ’’حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری حیات و خدمات‘‘ پر اک طائرانہ نظر
زیر نظر کتاب ’’حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری شطاری حیات و خدمات‘‘ محبی و مکرمی مولانا محمد محسن خاں زادِ محبتہ کی تصنیف لطیف ہے۔ زمانہ طفلی ہی سے غوث گوالیاری اور خواجہ خانون قدس اسرارہم کے کارنامے اپنے بزرگوں سے سنتا آرہا ہوں، کیونکہ شہر گوالیار کو قدیم
حضرت شاہ اکبر داناپوری کا تاریخی سفر حج
عرب اس ملک کا نام ہے جو ایک جزیرہ نُما کی صورت میں واقع ہوا اور ہمارے داناپور سے سیدھا مغرب کی طرف ہے اس کی زمین پتھریلی اور ریگستانی ہے اس میں پہاڑ بہت ہیں مگر بلند نہیں خصوصا ً اس ملک میں تین ایسے شہر ہیں جس میں سوائے مسلمانوں کے دوسرا کوئی مذہب نہیں۔ (۱)
تبصرہ : ’’النعمۃ الجاری فی مناقب خواجہ عبداللہ انصاری‘‘
میری میز پر ’’النعمۃ الجاری فی مناقب خواجہ عبداللہ انصاری‘‘ کے عنوان سے پیرِ ہرات خواجہ عبداللہ انصاری (پیدائش ۳۹۶ھ - وصال ۴۸۱ھ) پر ایک مستقل کتاب ہے جسے برادرِ مکرم خواجہ سلمان احمد ناصری زادَ اللّٰہُ محبتہٗ نے بڑی تحقیق و تدقیق کے بعد قلم بند کیا ہے۔ خواجہ
سلسلۂ ابوالعلائیہ اور احمد رضا خاں بریلوی
گیارہویں صدی ہجری کے اوائل میں ہندوستان کے اکثر علاقوں میں سلسلۂ نقشبندیہ کا خوب عروج رہا، جو بعد میں پھوٹ کر دو شاخوں میں منقسم ہوگیا۔ سلسلۂ نقشبندیہ مجددیہ سلسلۂ نقشبندیہ ابوالعلائیہ سلسلۂ ابوالعلائیہ کے بانی محبوبِ جل و علا حضرت سیدنا امیر ابوالعلا
ذکرخیر حضرت شاہ مراداللہ فردوسی اثر منیری
منیر شریف صوبۂ بہار کی پہلی روشن گاہ ہے، جہاں اسلام کی شمع پھوٹی۔ ۵۷۶ھ میں حضرت امام محمد تاج فقیہ کا یہاں آنا اور امن و محبت، انسان دوستی کا ماحول قائم کرنا سب بارگاہ رسالت سے اشارہ تھا۔ آپ ہاشمی خانوادہ کے چشم و چراغ تھے اور آپ کا نسب حضرت زبیر ابن
ذکر خیرحضرت ڈاکٹر شاہ تقی الدین فردوسی منیری
پندرہویں صدی ہجری میں صوبۂ بہار کو یہ شرف حاصل ہوا کہ یہاں کی مٹی سے کثیر تعداد میں صاحبان علم و دانش نمودار ہوئے، جن کے علم و تفقہ اور مسائل و معاملات کا ایک زمانہ قائل رہا۔ دینی معاملات ہوں یا دینی معلومات، ہر فن کے افراد یہاں سر فہرست نظر آتے ہیں۔ بہار
تبصرہ : ’’روح سماع‘‘ ایک لاجواب کارنامہ
جناب ڈاکٹر شاہ التفات امجدی (خانقاہ امجدیہ، سیوان) کی مرتب کردہ کتاب مستطاب ’’روح سماع‘‘ شمارِ بہترین کتب میں کی جاسکتی ہے، کیونکہ یہ نہایت خوبصورت انداز میں سماع میں پڑھے جانے والے اشعار کا لاجواب انتخاب پیش کرتی ہے۔ سماع (صوفیانہ قوالی) ایک ایسی روحانی
ذکرخیر حضرت شاہ احمد حسین چشتی شیخ پوروی
شیخ پورہ خرد چشتیوں کی قدیم آماجگاہ ہے، مگر یہاں قادری، سہروردی اور ابوالعلائی بزرگ بھی آرام فرما ہیں، تذکرے اور تاریخ کے حوالے سے یہ جگہ حضرت تاج محمود حقانی قدس اللہ سرہٗ (تاریخ وصال 14 جمادی الاخر) سے عبارت ہے، نویں صدی ہجری میں حضرت خواجہ سید عبداللہ
تبصرہ : ’’مخ المعانی‘‘ کا پس منظر
کتابیں محض کاغذ، قلم اور سیاہی کا امتزاج نہیں ہوتیں، بلکہ یہ ایک زندہ اور متحرک تہذیب، علم، حکمت، عرفان اور روحانیت کا آئینہ ہوتی ہیں، یہ انسانی شعور کی ارتقائی منازل کی گواہ ہوتی ہیں اور ذہن و دل کو جلا بخشنے کا ایک دیرپا ذریعہ بن جاتی ہیں، ایک مہذب
ذکر خیر حضرت شاہ محمد غزالی ابوالعلائی کاکوی
کاکو ہمیشہ اپنی علمی و روحانی وجہوں سے ممتاز رہا ہے، یہاں کی ادبی شخصیات سے لے کر روحانی ہستیوں تک کی ایک طویل فہرست ملتی ہے جنہوں نے ایک عہد کو بڑا متاثر کیا، ان کی کرنیں آج بھی زمانے کو روشنی دینے کا کام کر رہی ہیں، انہیں میں ایک عظیم روحانی ہستی
تبصرہ : ’’نجاتِ قاسم‘‘ کا ایک مختصر جائزہ
راقم الحروف فقیر حقیر محمد ریان ابوالعلائی داناپوری عرض دارد کہ جب اس احقر العباد کی عمر انیس برس کو پہنچی اور اپنے پلے کوئی ایسا عمل نہ پایا جو بارگاہِ بے نیاز میں پیش کرنے کے قابل ہو، شیخ سعدی شیرازی کے ان اشعار نے میرے کانوں میں غفلت کا شبہ نکالا۔ ہر
تبصرہ : فریدالدین یکتاؔ پر ایک سرسری نظر
ابھی حال کے پچاس برسوں پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بزرگوں کی نگارشات اور ان کی زندگی کے قیمتی لمحات کو یکجا کرنے کی ایک وسیع تر تحریک جاری ہے، ہر شخص اپنے اپنے اسلاف و اکابر کی قلمی کاوشوں کو منصۂ شہود پر لانے کی تگ و دو میں مصروف ہے، تاکہ نئی
تبصرہ : ’’چلہ کشی‘‘ ایک مطالعہ
خدا تک پہنچنے کے لیے صوفیائے کرام نے ہمیشہ تگ و دو کی ہے، انہوں نے اپنے نفس کو تیاگ کر خدا کو پا لینے کے لیے بڑی بڑی ریاضتیں اور کوششیں کی ہیں، ان عبادت و ریاضات میں چلہ کشی بھی ایک اہم راستہ ہے جس کے ذریعہ بندہ خدا کو پالینے کے اہتمام و انتطام میں مصروف