ریان ابوالعلائی کے صوفیانہ مضامین
مقدمہ : ’’مولدِ غریب‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک ائمہ و محدثین اور علما و شیوخ نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق حضرت رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ مبارکہ اور میلادالنبی ﷺ کے موضوع پر قلم اٹھایا اور نظم و نثر میں ہزاروں کی تعداد میں گراں قدر کتب تصنیف کیں، ان میں سے بعض مختصر اور بعض ضخیم
مقدمہ : ’’التماس‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
سلسلۂ نقشبندیہ ابوالعلائیہ کا دائرہ اس قدر وسیع و عریض ہے کہ اسے سمیٹنا یا ایک جگہ تحریر کر دینا یہ ایک بڑا مشکل کام ہے، اس کا دامن اس قدر وسیع ہے کہ اس کا ہر ایک موضع کئی جلد کا متلاشی ہے، وحدت الوجود یا وحدت الشہود پر ہی سیکڑوں صفحات خرچ ہوسکتے ہیں،
مقدمہ : ’’چہل حدیث‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
چہل احادیث کے جمع کرنے کا سب سے بڑا محرک حضرت رسول اللہ ﷺ کا قول ہے۔ ’’جس شخص نے امورِ دین کے متعلق چالیس احادیث یاد کیں اور انہیں آگے امت تک پہنچایا تو اللہ تعالیٰ شانہٗ اسے فقیہ کی حیثیت سے اٹھائے گا اور روزِ قیامت میں اس کے حق میں شفاعت کروں گا
مقدمہ : ’’سیرِ دیلی‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
دہلی ہندوستان کا دارالحکومت ہے جسے مقامی طور پر دلی بھی کہا جاتا ہے، ایک ایساشہر جو کئی سلطنتوں اور مملکتوں کا دارالحکومت رہا ہے، کئی مرتبہ فتح ہوا، تباہ ہوا اور پھر آباد ہوا، سلطنت کے عروج کے ساتھ ہی یہ شہر ایک ثقافتی،تمدنی اور تجارتی مرکز کے طور پر
مقدمہ : ’’خدا کی قدرت‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
عقیدۂ توحید کی اہمیت اور ضرورت کے متعلق اکابرین کی رائے یہ ہے کہ عقیدۂ توحید اسلام کا سب سے پہلا بنیادی عقیدہ ہے، یہ صرف ایک نظریہ ہی نہیں بلکہ انسان کو صحیح معنی میں انسان بنانے کا واحد ذریعہ بھی ہے ، یہ انسان کی تمام مشکلات کا حل، ہر حالت میں اس
مقدمہ : ’’فنا و بقا‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
گیارہویں صدی ہجری کے اوائل میں ہندوستا ن کے اکثر علاقوں میں سلسلۂ نقشبندیہ کا خوب عروج رہا جو بعد میں پھوٹ کر دو شاخوں میں منقسم ہوگیا۔ (۱) سلسلۂ نقشبندیہ مجددیہ (۲) سلسلۂ نقشبندیہ ابوالعلائیہ سلسلۂ ابوالعلائیہ کے بانی محبوب جل و علا حضرت سیدنا
مقدمہ : ’’سرمۂ بینائی‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
’’سرمۂ بینائی‘‘حضرت شاہ محمد اکبرؔ ابوالعُلائی داناپوری کی اردو زبان میں لکھا ہوا پچیس ؍تیس صفحات پر مشتمل ایک مشہور و معروف رسالہ ہے، اس میں صوفیانہ عقائد مثلاً وحدت الوجود، توحید، فنافی الذات، فنافی الصفات، حقیقت النفس اور توبہ جیسے مہتم بالشان عنوانات
مقدمہ : ’’آل و اصحاب‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
اہلِ بیت اور صحابۂ کرام کا احترام جزوِ ایمان ہے۔ عہدِ رسالت سے لے کر آج تک امتِ مسلمہ اہلِ بیت سے محبت رکھتی ہے۔ حضرت عبدالرؤف مناوی (پیدائش 1545ء - وصال 1622ء) فرماتے ہیں کہ ’’کوئی بھی امام یا مجتہد ایسا نہیں گزرا جس نے اہلِ بیت کی محبت سے بڑا
مقدمہ : ’’مولد فاطمی‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
حضرت فاطمہ زہرا اسلام کی مقدس ترین خاتون میں سے ایک ہیں جن کے تذکروں کا دائرہ اس قدر وسیع و عریض ہے کہ اسے سمیٹنا ایک مشکل امر ہے۔ صحاحِ ستہ اور دوسری تمام کتبِ احادیث آپ کے تذکرے سے بھری پڑی ہیں،بیشتر علمائے اہلِ سنت نے آپ کے اوصاف و کمالات، انداز
مقدمہ : ’’آثارِ کاکو‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
تاریخ نویسی و تذکرہ نگاری کا ذوق و شوق شروع سے قائم رہاہے۔ اس سلسلے میں اربابِ قلم نے جزیرۃ العرب کے حالات و مقامات کا ذکر شروع کیا اور چھوٹی بڑی کتابیں لکھ ڈالیں مگر ان میں کچھ شائع ہوئی اور کچھ ضائع ہوئی بقیہ تلف ہوئی،یہ کام سب سے پہلے عربی زبان میں
مقدمہ : ’’تاریخِ خواجگان‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
محبوبِ جل و علا حضرت سیدنا امیر ابوالعلا قدس سرہٗ مریدوں کو اکثر سلسلۂ نقشبندیہ کا شجرہ عنایت فرماتے تھے، جو کوئی سلسلۂ چشتیہ میں بیعت کی درخواست کرتا تواس کو شجرۂ عالیہ اس ترتیب سے عنایت فرماتے کہ پہلے خواجگانِ چشت سے خواجہ معین الدین چشتی تک کےاسمائے
نصرت فتح علی خان
’’سہرا یہ حقیقت کا نصرتؔ کو سنانے دو‘‘ نصرت فتح علی خاں پاکستان کے بڑے قوال، موسیقار، موسیقی ڈائریکٹر اور بنیادی طور پر قوالی کے گلوکار تھے، نصرت کو اردو زبان میں صوفی گلوکار اور جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے قوالی کے گلوکار کے طور پر جانا جاتا ہے، انہوں
پیغمبر اسلام کا غیر مسلموں کے ساتھ برتاؤ
رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت تمام عالم کے لیے نمونہ اور قابلِ تقلید ہے، جس سے دنیا کا کوئی بھی فرد بآسانی رہنمائی حاصل کرسکتا ہے۔ آپ نے انسانیت کی بنیاد پر غیر مسلموں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا۔ آج کے پُرآشوب دور
ذکر خیر حضرت مخدومہ بی بی کمال
صوبۂ بہار میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے کمال آباد عرف کاکو میں ہندوؤں کی آبادی تھی۔ یہاں کوئی راجہ یا بڑا زمیندار برسرِ اقتدار تھا۔ پُرانے ٹیلے اور قدیم اینٹیں جو کھدائی میں برآمد ہوتی رہیں، اس بات کی گواہی ہیں۔ بقول عطاؔ کاکوی ’’بہترے ٹیلے اور گڑھ
ذکر خیر حضرت شاہ عزیزالدین حسین منعمی
صوبۂ بہار کا دارالسلطنت عظیم آباد نہ صرف معاشی و سیاسی اور تاریخی لحاظ سے ممتاز رہا ہے بلکہ اپنے علم و عمل، اخلاق و اخلاص، اقوال و افعال، گفتار و بیان اور معرفت و ہدایات سے کئی صدیوں کو روشن کیا ہے۔ یہاں اولیا و اصفیا کی کثرت ہے، بندگانِ خدا کی وحدت
تذکرہ حضرت شاہ نورالرحمٰن لعل
عظیم آباد اپنی علمی و روحانی کمالات کے ساتھ تہذیب و تمدن اور ثقافت و قوانین، رسم و رواج، صلاحیتوں اور بے شمار خصوصیات کے لیے ہر دور میں نمایاں کردار ادا کرتا آرہا ہے، یہاں سیکڑوں نوابین و رؤسا کی بند پڑی کوٹھیاں آج بھی عظیم آباد میں غربت و افلاس کی تصویر
گوالیار سے بھنڈ اور بھنڈ سے گوالیار تک
ہندوستان کا ہر شہر اپنے اندر ان گنت تاریخی قصے، کہانیاں اور آثار سمیٹے ہوئے ہے۔ جہاں بھی جائیں، ایک نایاب قصہ، روایت یا نشانی ضرور ملتی ہے۔ مستند واقعات کے ساتھ ساتھ یہاں Mythology کا بھی گہرا دخل ہے، اس لیے ہر کہانی پر غور و فکر اور چھانٹ پرکھ کرنا
ذکرِ خیر حضرت مولانا سید سخاوت حسین کاکوی
کاکو اپنے علم و عمل اور رشد و ہدایت کے لیے کئی دہائیوں سے مصروفِ خدمت ہے، یہاں حضرت مخدومہ بی بی کمال کا آستانہ اور بزرگوں کی قدیم بستی ہے، علما ہو یا ادبا، شعرا ہو یا خطبا ہر طرح کے علوم و فنون میں یہاں کی شخصیات کی خدمات رہی ہے، اسی سلسلے میں چودھویں
ذکرِ خیر حضرت حکیم شاہ کفیل احمد داناپوری
ہندوستان کی علمی، ادبی اور روحانی تاریخ میں ایسی ہستیاں بارہا جلوہ گر ہوئیں جنہوں نے اپنی ذات اور کردار سے سماج و ملت کی خدمت کی۔ انہی برگزیدہ ہستیوں میں حضرت حکیم شاہ کفیل احمد داناپوری رحمۃ اللہ علیہ کا نام نہایت نمایاں ہے۔ آپ نے ایک طرف اپنے آباء
ذکر خیر خواجہ رکن الدین عشقؔ
اس بر صغیر میں سلسلۂ ابوالعلائیہ کا فیضان اور مقبولیت اِس قدر ہوئی کہ ہر خانقاہ سے اس کا فیض جاری و ساری رہا۔ سلسلۂ ابوالعلائیہ کے بانیٔ مبانی، محبوب جل و علا حضرت سیدنا شاہ امیر ابوالعلاء اکبرآبادی قدس سرہ، متوفیٰ 1061ھ ہیں۔ یہ سلسلہ دراصل نقشبندیہ
تذکرہ شیخ محمود آفندی
اوستاؤ سمان اوغلو (1929 - 2022) جن کو عام طور پر شیخ محمود آفندی کے نام سے جانا جاتا ہے اور ان کے شاگردوں میں حضرتلری آفندی کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک ترک صوفی اور سلسلۂ نقشبندیہ مجددیہ خالدیہ کے بااثر اور جامعہ اسماعیلہ کے رہنما تھے۔ محمود آفندی
ذکر خیر حضرت مولانا برہان الدین ابوالعلائی
بہار میں سلسلۂ ابوالعلائیہ کی نشر و اشاعت خواجہ محمد فرہاد کے خلفا، میر سید اسد اللہ اور مولانا برہان الدین ابوالعلائی کے ذریعہ خوب ہوئی۔ یہی وہ دو بزرگ ہیں جن کا سلسلہ بہار میں آفتاب و ماہتاب بن کر چمکا اور کثرت کے ساتھ پروان چڑھا۔ ذیل میں خدانما حضرت
ذکر خیر حضرت شاہ اکبر داناپوری
ایک صدی پہلے بہار کی ادبی بساط پر حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کی شخصیت گوناگوں خصوصیتوں اور صلاحیتوں کے باعث سرفہرست نظر آتی ہے۔ وہ بیک وقت صاحبِ وجد و حال بھی تھے اور صاحبِ علم و کمال بھی، خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے سجادہ نشیں بھی تھے اور امیرِ
ذکر خیر حضرت محمد تاج الدین ناگپوری
برصغیر کی روحانی تاریخ میں حضرت سید محمد تاج الدین ناگپوری (1861ء - 1925ء) ایک غیر معمولی اور بلند مرتبہ بزرگ گزرے ہیں، جنہوں نے مہاراشٹر کی سرزمین، بالخصوص ناگپور کو روحانی نور سے منور کیا، آپ نے رشد و ہدایت، اخوت و محبت اور انسان دوستی کا ایک ایسا
تذکرہ حضرت حاجی شاہ سیف اللہ ابوالعلائی
حضرت حاجی سید شاہ سیف اللہ ابوالعلائی مدظلہٗ مشہور صوفی شاعر حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کے لکڑپوتے اور خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے موجودہ سجادہ نشین ہیں۔ آپ نہایت عالی مرتبت، حاضر جواب، خوش طبع اور عمدہ مزاج کے مالک ہیں۔ وسیع النظر اور دوراندیش،
آل انڈیا تبلیغ سیرت (بہار) کا تاریخی پسِ منظر
صوبۂ بہار کی مٹی واقعی علمی و روحانی شخصیات کا مرکز رہی ہے، جہاں سے متعدد اہل علم و دانش نمودار ہوئے جنہوں نے اپنی خدمات کے ذریعے عوام کو دینِ اسلام اور اس کے اخلاقی و معاشرتی اصولوں کی طرف رہنمائی فراہم کی۔ ان بزرگان کا دائرۂ اثر صرف علمی و ادبی نہیں
ذکرِ خیرحضرت شیخ محمد ادریس چشتی ابوالعلائی
حضرت شیخ محمد ادریس چشتی ابوالعلائی جامع علوم و فنون، پاکیزہ اخلاق، ستودہ صفات اور زاہدانہ افعال و کردار سے متصف تھے۔ چودھویں صدی ہجری میں آپ کی ذات بابرکات سے اریہ میں خداشناسی کی انجمن کو رونق اور ادعیات و وظائف کو عظمت حاصل تھی۔ بڑے شب بیدار، عابد
درگاہیں: روح کی پناہ گاہیں یا بازار کی رونق؟
دنیا کی تھکی ہوئی روحوں کے لیے درگاہیں ہمیشہ سے ایک ایسا سایہ دار شجر رہی ہیں جہاں محبت، امن اور بھائی چارے کی ٹھنڈی چھاؤں میسر آتی تھی، جب زندگی کے تھپیڑے تھکا دیتے تھے، جب حسرتیں آنکھوں میں تیرتی تھیں اور دل غم کے بوجھ تلے دب جاتا تھا، تب لوگ کسی درگاہ
حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری اور ’’ہنرنامہ‘‘
خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے معروف سجادہ نشین اور عظیم صوفی شاعر حضرت شاہ محمد اکبر داناپوری بہت سی خوبیوں کے مالک تھے، ان کی حیثیت بیک وقت ایک درویش کامل، خدامست، سجادہ نشیں، امیر سخن، مذہبی رہنما اور حب الوطنی سے سرشار فلسفی اور مجاہدِ وقت
ذکرِخیر حضرت نثارعلی اکبرآبادی
چودھویں صدی ہجری میں ہندوستان کی سرزمین سے کئی ایسی ہستیاں پیدا ہوئیں جنہوں نے اپنی کردار و عمل اور اپنے قلم سے تاریخ میں نام پیدا کیا۔ شعر و سخن کا جب تذکرہ چھڑتا ہے تو اکبرآباد کا تذکرہ سرفہرست نظر آتا ہے، میر ہوں یا غالب، نظیر ہوں یا شہید، سبھوں
ذکر خیر حضرت شاہ نظیر حسن ابوالعلائی داناپوری
زندگی کے گوشۂ حیات میں کچھ شخصیات اپنے لحاظ سے نمایاں ہوتی ہیں لیکن ان میں کچھ ایسی بھی ہستیاں ہیںکہ جو دوسروں کی خوشی اور خوبی میں خوش رہتی ہیں مگر طریقت میں مریدکی معراج تب ہوتی ہے جب پیر مغاں کی تعلیم باطنی مرید کے لئے باعث افتخار اور قابل مقام ہو،انہیں
ذکر خیر حضرت شاہ عبدالجلیل اشرفی
کاکو بستی بہت قدیم ہے۔ بہار میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے یہاں ہنود کی آبادی تھی اور یہاں کوئی راجا یا بڑا زمیندار برسراِاقتدار تھا۔ پرانے ٹیلے اور اگلے وقتوں کی اینٹیں جو کھدائی میں برآمد ہوتی رہیں، اس بات کی شاہد ہیں۔ یہ جگہ حضرت شیخ سلیمان لنگر زمین
ذکرِ خیرحضرت شاہ محمد کبیر ابوالعلائی داناپوری
داناپور میں ایسی ایسی قدآور شخصیات، صاحبِ اعلیٰ اقدار و افکار، بہترین گفتار و کردار کے حامل اور قابلِ غبطہ و رشک ہستیاں پیدا ہوئیں ہیں، جن کے اوصافِ جمیلہ، خدماتِ عظیمہ، ساعی بلیغ اور اشاعتِ اسلام کی سربلندی کے لیے ان کی کوششیں باشندگانِ ملک کے لیے
ذکر خیر حضرت شاہ واعظ الدین حسین ابوالعلائی داناپوری
آپ حضرت شاہ نظیر حسن ابوالعلائی داناپوری کے خَلفِ اکبر تھے۔ پیدائش یکم شوال المکرم 1290ھ، روزِ شنبہ شب میں ہوئی۔ آپ اپنے والد کے صورتاً اور سیرتاً جانشین تھے۔ کم عمری ہی سے صوفیانہ مزاج کے حامل تھے۔ آپ نے علومِ ظاہر کی تکمیل اپنے والد اور مولانا سلطان
تبصرہ : جوہرؔ نوری کی نعتیہ شاعری ’’شعاع رسالت‘‘ کی روشنی میں
نعت اردو شاعری میں ایک مقدس صنف ہے، اس میں حضرت رسول اللہ کی ذاتِ اقدس، اخلاقِ حسنہ، افعال و کردار، خصائلِ جمیلہ، علم و حکمت، شفاعتِ عظمیٰ، حسن و جمال، عفو و درگزر، عبادت و ریاضت، بارگاہِ خداوندی میں آپ کی محبوبِ بیت کو انتہائی ادب و احترام کے ساتھ پیش
ذکر خیر حضرت سیدنا امیر ابوالعلا
دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت میں صوفیائے کرام کا کردار فراموش نہیں کیا جا سکتا، انہوں نے مخلوقِ خدا کے سامنے اپنے قول کی بجائے اپنی شخصیت اور کردار کو پیش کیا، انہوں نے انسانوں کی نسل، طبقاتی اور مذہبی تفریق کو دیکھے بغیر ان سے شفقت و محبت کا معاملہ رکھا،
تذکرہ خان بہادر شاہ محمد کمال عظیم آبادی
آپ شاہ مبارک حسین مبارکؔ کے بڑے صاحبزادے اور شاہ نورالرحمٰن عرف لعل کے بھتیجے ہیں، عظیم آباد کا شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جو خان بہادر شاہ محمد کمالؔ کی شخصیت اور ان کے کارنامے سے واقف نہ ہو، لودی کٹرہ میں کمال روڈ اور شاہ کمال کی مسجد اب آپ کی آخری
ذکر خیر حضرت حسن جان ابوالعلائی شہسرامی
صوبۂ بہار میں شہسرام کو خاص درجہ حاصل ہے۔ یہاں اولیا، صوفیا اور شاہانِ زمانہ کی کثرت ہے، اور یہ بات کسی سے چھپی نہیں کہ شہسرام کی بلندی شیر خاں سوری (متوفیٰ 1545ء) سے ہے۔ بڑے بڑے نوابین اور شاہان زمانہ حکمرانی کرکے خاک نشین ہوئے، مگر چھوٹی سی جھونپڑیوں
ذکرِ خیر حضرت شاہ محسن ابوالعلائی داناپوری
بہار کی سرزمین سے ناجانے کتنے لعل و گہر پیدا ہوئے اور زمانے میں اپنے شاندار کارنامے سے انقلاب پیدا کیا، ان میں شعرا، علما، صوفیا اور سیاسی رہنما سب شامل ہیں جب ضرورت پڑی تو قوم کی بلندی کی خاطر سیاست میں اترے، مذہب پر انگلیاں اٹھنے لگیں تو بحیثیت عالمِ
ذکر خیر حضرت شاہ ایوب ابدالی نیرؔ اسلام پوری
بہار کی سرزمین ہمیشہ سے مردم خیز رہی ہے۔ یہاں بے شمار علم و ادب اور فقروتصوف کی شخصیات نے جنم لیا۔ انہی میں ایک نام حضرت سید علیم الدین دانشمند گیسودراز کا ہے، جو شہر نیشاپور (ایران) سے منتقل ہوکر ہندوستان کے پرگنہ بہار شریف (ضلع نالندہ) آئے۔ انہوں نے
تصوف کی ابتدا اور اس کی معنویت
صفائے قلب، حسنِ خلق اور اتباعِ شرع کا مجموعہ تصوف، کوئی بعد کے زمانے کی چیز نہیں بلکہ اس کا نقطۂ آغاز حرا کا پر سکون غار ہے، جہاں نورِ ہدایت کی پہلی کرن نمودار ہوئی۔ سرکارِ دو عالم نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاں آدابِ ظاہر بتائے، وہیں باطن
بہار کے قوال اور قوالی کا پسِ منظر
قوالی قول سے ماخوذ ہے، اس کے گانے والے کو قوال کہتے ہیں، قول سے مراد قولِ رسولِ اکرم ہے جو کہ آپ نے حضرت علی مرتضیٰ کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا کہ ’’جس کا میں مولیٰ ہوں، اس کا علی بھی مولی ہے" حضرت امیر خسرو نے قوالی جیسی پاکیزہ صنف کا آغاز کیا، تبھی
ذکر خیرحضرت مولانا شاہ ہلال احمد قادری
خانقاہ مجیبیہ، پھلواری شریف محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ یہاں کی عظمت و رفعت سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے۔ پھلواری شریف، جسے بزرگوں کی اصطلاح میں جنت نشاں کہا جاتا ہے، کئی صدیوں سے آباد و شاد ہے۔ ابتدائی دور میں یہ جگہ فوجیوں کا مسکن ہوا کرتی تھی، لیکن روحانی و
تذکرہ حضرت شاہ مبارک حسین مبارکؔ
عظیم آباد میں رؤسا، شعرا، حکما، علما، صلحا اور صوفیا کی ایک طویل جماعت رہی ہے جنہوں نے اس سرزمین کو اپنی علم و عرفاں سے روشن کر دکھایا ہے، ان میں زیادہ تر وہ ہستیاں شامل ہیں جنہوں نے بہار کے دوسرے خطے سے ہجرت کرکے عظیم آباد میں اپنے کمالات کے جوہر
تبصرہ : ’’گل سخن‘‘ پر اک سرسری نظر
فون کی گھنٹی بجی، سلام و دعا کے بعد معلوم ہوا کہ محترم ڈاکٹر سید شاہ علی اختر صفدرؔ ہاشمی صاحب مخاطب ہیں، جو معروف شاعر و مصنف ڈاکٹر سید شاہ اظہارالحسن اظہرؔ ہاشمی کے صاحبزادۂ گرامی ہیں، گفتگو نہایت خوشگوار اور ادبی رنگ میں رنگی ہوئی رہی، اسی دوران
ذکر خیر حضرت حامد رضا خاں بریلوی
حضرت محمد حامد رضا خان بریلوی 1362ھ میں پیدا ہوئے اور اپنی زندگی میں نہ صرف علم و فضل بلکہ فصاحت و بلاغت میں بھی شہرۂ آفاق بنے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم والد بزرگوار کے زیرنگرانی ہوئی، جہاں آپ نے علوم دینیہ اور ادبیہ میں مہارت حاصل کی۔ 19 سال کی عمر میں
ذکر خیر حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری
صوبۂ بہار کا خطہ مگدھ، پاٹلی پترا، راجگیر اور منیر شریف نہ صرف سیاسی برتری اور علمی شہرت کا مرکز رہا ہے بلکہ روحانی تقدس اور عظمت کے اعتبار سے بھی ہر دور میں ممتاز و بے مثال مقام رکھتا ہے۔ ہندو مت ہو یا بدھ دھرم، جین مت ہو یا کوئی دوسرا مکتبۂ فکر،
ذکرِ خیر حضرت بہلول قادری نظام آبادی
برصغیر کے روحانی نقشے پر نظام آباد (دکن) کی درگاہِ حضرت سید امان اللہ حسینی ایک درخشندہ چراغ کی مانند رہی ہے، اسی عظیم روحانی سلسلے کے چشم و چراغ، متواضع اور باکمال بزرگ عارف الحق حضرت سید بہلول طبقاتی قادری نظام آبادی تھے، جن کی زندگی تقویٰ، علم، فقر،