سلسلۂ ابوالعلائیہ اور احمد رضا خاں بریلوی
گیارہویں صدی ہجری کے اوائل میں ہندوستان کے اکثر علاقوں میں سلسلۂ نقشبندیہ کا خوب عروج رہا، جو بعد میں پھوٹ کر دو شاخوں میں منقسم ہوگیا۔
سلسلۂ نقشبندیہ مجددیہ
سلسلۂ نقشبندیہ ابوالعلائیہ
سلسلۂ ابوالعلائیہ کے بانی محبوبِ جل و علا حضرت سیدنا امیر ابوالعلا (متوفیٰ ۱۰۶۱ھ) ہیں، جنہوں نے اپنے علم و عمل، اخلاق و اخلاص کے ذریعہ برصغیر میں انسانیت و معرفت کو فروغ دیا اور اس پُرخار زمین کو پُر بہار بنا کر گلشنِ بےخزاں کا نمونہ بنا دیا۔ آپ کی ذات دل و دماغ کو تازہ رکھنے کے لیے گلستانِ ارم کا کام کرتی رہی۔
حضرت امیر ابوالعلا نے سلسلۂ نقشبندیہ میں ایک نئی روح پھونکی، جس کے اثرات آج بھی عیاں ہیں۔ آپ نے خواجہ بزرگ معین الدین چشتی (متوفیٰ ۶۳۳ھ) کے سلسلے کی رنگت و معرفت اور سماع بالمزامیر کی کیفیت کو سمیٹ کر سلسلۂ ابوالعلائیہ کے نصاب میں داخل کیا۔ حضرت امیر ابوالعلا کو خواجہ معین الدین چشتی سے براہِ راست فیضان اویسی حاصل تھا۔ جب کوئی آپ سے سلسلۂ چشتیہ میں بیعت کا ارادہ ظاہر کرتا، تو اسے سلسلۂ چشتیہ میں داخل کرتے اور خواجہ معین الدین چشتی کے بعد شجرۂ سلسلہ میں اپنا نام تحریر کرتے۔ آپ اپنے مریدین و مسترشدین کو راہِ سلوک طے کرواتے رہے اور ابوالعلائی نسبت کے طالبین ہمیشہ آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھاتے رہے۔
تصوف کا اصل مقصد خدا کو پہچاننا ہے، جیسا کہ رومی کہتے ہیں کہ
بہر حالیکہ باشی باخدا باش
زخود بیگانہ باحق آشنا باش
سلسلۂ نقشبندیہ حضرت امام جعفر صادق کے ذریعہ جاملتا ہے، اور امام کے قلبِ معظم میں فیض کے دو دریا جمع تھے۔ پہلے آپ نے باطنی نعمت اپنے نانا حضرت قاسم بن محمد بن ابو بکر سے پائی، جسے نسبتِ صدیقیہ کہتے ہیں۔ اس کے بعد اپنے والد حضرت امام محمد باقر سے بیعت حاصل کرکے خرقۂ خلافت و امامت پایا، جسے نسبتِ مرتضویہ کہتے ہیں۔ اسی وجہ سے آپ کو مجمع البحرین کہا جاتا ہے۔ پس شجرۂ نقشبندیہ میں امام جعفر صادق سے اوپر دو شاخیں لکھی جاتی ہیں۔
حضرت ابوبکر صدیق تک
حضرت علی مرتضیٰ تک
اور یہ سلسلہ حضرت امیر ابوالعلا تک پہنچتا ہے۔
امیر ابوالعلا وھومن امیرعبداللہ احراری وھومن خواجہ محمد یحییٰ وھومن خواجہ عبدالحق وھومن خواجہ عبیداللہ احرار وھومن مولانا یعقوب چرخی وھومن خواجہ بہاؤالدین نقشبند والیٰ آخرہٖ۔
بارہویں صدی ہجری میں یہ سلسلہ اس قدر مقبول عام ہوا کہ تمام مشاہیر اس سلسلے سے وابستہ ہوتے چلے گئے، چاہے وہ امیر ہوں یا چشتی، قادری یا سہروردی۔
حضرت میر سید محمد کالپی کے متوطن تھے، انہیں بیعت سلسلۂ چشتیہ میں حضرت جمال اؤلیا سے تھی۔ سیکڑوں طالبانِ خدا آپ کے حلقۂ فیض و ارشاد میں حاضر تھے۔ ایک روز آپ نے عالمِ رویا میں دیکھا کہ خواجہ بہاؤالدین نقشبند فرماتے ہیں کہ
’’اے میر سید محمد! دریں والا ایک شیخ ہمارے سلسلہ کا ایسا صاحبِ مقامات عالیات ہے کہ کئی برسوں کے بعد اس رتبہ کا شخص پیدا ہوا ہے۔ مناسب ہے کہ تم اکبرآباد میں جا کر اس سے ہمارا طریقہ بھی اخذ کرو۔‘‘ (نجاتِ قاسم)
نام نہ بتایا گیا، مگر حضرت میر سیّد محمد بے اختیار چند مریدوں اور خادموں کے ہمراہ آگرہ کی طرف تشریف لے گئے۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ سلسلۂ نقشبندیہ کے دو بزرگ ہیں، ایک حضرت میر نعمان اور دوسرا حضرت امیر ابوالعلا، حضرت میر نعمان سماع سے احتراز رکھتے تھے، جبکہ حضرت امیر ابوالعلا کی مجلس فیضِ منزل میں سماع ہوتا تھا۔ خواہش اور اتفاق کے سبب میر سیّد محمد حضرت امیر ابوالعلا کی خانقاہ پہنچ گئے، جہاں آپ کی محفل میں سماع جاری تھا۔ حضرت نے میر محمد کو دیکھ کر کئی بار نعرہ فرمایا۔ میر محمد نے ضبطِ نفس سے خود کو قائم رکھا، لیکن آخر میں مکمل بےخودی میں طبعی اثرات ظاہر ہوئے اور نسبتِ ابوالعُلائیہ متمکن ہوگئی۔
بعد میں، ۹ مہینے تک حضرت امیر ابوالعلا کی صحبت میں حاضر رہ کر طریقۂ ابوالعُلائیہ کی تکمیل ہوئی، اور آپ کو خرقۂ خلافت و خواجہ بہاؤالدین نقشبند کی تسبیح عطا کی گئی۔ پھر آپ کالپی میں مسندِ ہدایت و ارشاد پر جلوہ افروز ہوئے اور پورے ہندوستان میں مشہور ہوئے۔ ہزاروں طالبین و مریدین آپ سے مستفیض ہوئے۔
آپ کی رحلت کے بعد آپ کے صاحبزادے حضرت سید احمد کالپوی سجادہ نشیں ہوئے۔ آپ کے اوصاف و کمالات کی کچھ حد و نہایت نہیں۔ کیفیت، ذوق و مستی و شور و عشق غالب تھی، سماع سے شوق بہت تھا۔ آپ کی نسبت سراسر تاثیر ایسی زور آور تھی کہ انسان تو کیا، پرندہ بھی آپ کے نعرے سن کر مست و بےخودہ ہو جاتا۔
حضرت سید احمد کے خلفا درج ذیل ہیں۔
حضرت سید فضل اللہ
حضرت برکت اللہ مارہروی
حضرت آلِ محمدان
حضرت حمزہ
حضرت آلِ احمدان
حضرت آلِ رسول
حضرت ابوالحسین نوری
حضرت احمد رضا خاں بریلوی
مولانا ظفرالدین رضوی نے ’’حیاتِ اعلیٰ حضرت‘‘ میں لکھا ہے کہ امام احمد رضا خان کو سلسلۂ ابوالعُلائیہ کی اجازت و خلافت کے علاوہ مشائخِ ابوالعُلائیہ کے ساتھ دیرینہ تعلقات بھی قائم تھے۔ اس سلسلے کی چند معروف خانقاہیں۔
خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، شاہ ٹولی، داناپور
خانقاہ منعمیہ قمریہ، میتن گھاٹ، پٹنہ سیٹی
بارگاہ عشق، تکیہ شریف، پٹنہ سیٹی
حضرت فاضل بریلوی تحریکِ ردّ ونوہ میں پٹنہ میں مقیم تھے تو حضرت مخدوم منعم پاک کے عرس میں شامل ہوئے اور اپنے عربی قصیدہ ’’امال الابرار والام الاشرار‘‘ میں یہاں کے سجادہ نشیں حضرت شاہ عزیز الدین حسین کا ذکر کیا۔
’’عزیز الدین ذَاعِز یسَّوُد‘‘ (ص12)
حسنؔ بریلوی نے فارسی مثنوی ’’صمصام حسن بردابر فتن‘‘ میں فرماتے ہیں کہ
’’شاہ سماعیل و عزیز و امیر‘‘ (ص40)
قصیدہ ’’امال الابرار والام الاشرار‘‘ میں خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کے سجادہ نشیں حضرت شاہ اکبر ابوالعلائی داناپوری اور ان کے صاحبزادے حضرت شاہ محسن ابوالعلائی داناپوری کا ذکر اس انداز اور محبت و عقیدت کے ساتھ کیا گیا کہ صرف صاحبِ عرفان ہی اس کی حقیقت محسوس کرسکتے ہیں کہ
’’وَمُحْسِنُنَا لِاَکْبَر نَاوَلِیْد‘‘
حضرت شاہ اکبرؔ کی کتابیں ’’مولدِ فاطمی‘‘ اور ’’تاریخِ عرب‘‘ میں یہ دو اشعار درج ہیں۔
حاجی آؤ شہنشاہ کاروضہ دیکھو
کعبہ تو دیکھ چکے ہو، کعبے کا کعبہ دیکھو
(تاریخِ عرب، ص124)
مالکِ کونین ہیں، گو پاس کچھ رکھتے نہیں
دو جہاں کی نعمتیں ہیں، ان کے خالی ہاتھ میں
(تاریخِ عرب، ص251؛ مولدِ فاطمی، ص7)
اسی زمین میں حضرت اکبرؔ کی مکمل نعت ’’تجلیاتِ عشق‘‘ میں بھی ملتی ہے۔
آؤ اے جنتیو، گنبد خضریٰ دیکھو
قبلۂ عرش ہے، یہ قصر معلیٰ دیکھو
(ص277)
۱۳۱۰ھ کے آس پاس علمائے اہلِ سنت میں شعروسخن کا باغ جس دو ہستیوں کا آباد رہا ہو وہ حضرت اکبرؔ اور فاضل بریلوی کی ذات تھی۔ ماہنامہ تحفۂ حنفیہ (پٹنہ) میں برابر آپ دونوں کا کلام شائع ہوتا رہا۔
دوسری مناسبت یہ ہے کہ مولانا حکیم سید محمد نظامی کاکوی نے درسی کتابیں فاضل بریلوی سے پڑھیں اور شعروشاعری میں حضرت اکبرؔ کے شاگرد ہوئے۔ (تذکرہ مسلم شعرائے بہار، جلد5، ص76)
اس طرح کے بیشتر واقعات و حالات ایسے ہیں جو تاریخ کا حصہ ہیں، جن کی ہمیں قدر کرنی چاہیے۔ بقول حمدؔ کاکوی
ع - حمدؔ بے چارے سے جو ہوسکا اس نے کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.