ذکر خیر حضرت شاہ اکبر داناپوری
ایک صدی پہلے بہار کی ادبی بساط پر حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کی شخصیت گوناگوں خصوصیتوں اور صلاحیتوں کے باعث سرفہرست نظر آتی ہے۔ وہ بیک وقت صاحبِ وجد و حال بھی تھے اور صاحبِ علم و کمال بھی، خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے سجادہ نشیں بھی تھے اور امیرِ سخن بھی۔
بقول عطاؔ کاکوی
’’بارہویں صدی کے اختتام اور تیرہویں صدی کے ربع اوّل میں مجھے ایک ہستی ایسی نظر آئی کہ تسبیح و تحلیل کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا قلم بھی اس کے ہاتھ میں ہے، اور دو چار ہی نہیں بلکہ بیسوں تصانیف، نثرو نظم اس کے رشحات قلم کے رہینِ منت ہیں۔ نظم کو لیجئے تو ہر صنف میں کلام موجود: غزلیات، قصائد، مثنوی، مسدس، مخمس، رباعیات، قطعات وغیرہ، دو ضخیم مجموعے؛ نثری تصانیف میں بھی تنوع کا یہ عالم کہ تصوف، اخلاقیات، رشد و ہدایت، سیرت و سوانح، سفرنامہ، میلاد اور ناجانے کتنے موضوعات پر چھوٹی بڑی متعدد کتابیں موجود ہیں۔‘‘ (انوار اکبری، ص181)
بہار کی خوش نصیبی ہے کہ جس دور میں حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری تھے، یہاں کے آسمانِ ادب پر بہترے ادیب و شاعر ماہ و انجمن بن کر چمک رہے تھے۔ حضرت اکبرؔ کے ہم عصر میں نواب امداد امام اثرؔ، حافظ فضل حق آزادؔ، شوقؔ نیموی، عبدالحمید پریشاںؔ، آغا سنجرؔ، صفیرؔ بلگرامی اور شادؔ عظیم آبادی جیسے کاملین فن دادِ سخن دے رہے تھے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب ہفتہ وار اخبار الپنچ بڑے زور و شور سے نکلا اور اکثر سرگرم قلمی معاون وہاں موجود تھے۔ اس وقت بہار میں معاصرانہ چشمک کی لہر دوڑ رہی تھی، مگر اکبرؔ کے معاصرانہ چشمک کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا تھا۔
انہوں نے اثرؔ، آزادؔ، شادؔ اس دور کے اکثر شعرا کا نام بڑی محبت اور خلوص سے اپنے اشعار میں لیا ہے۔ شادؔ کے متعلق لکھتے ہیں کہ
آئیں ہیں بہت روزوں پر اِس بزم میں شادؔ
ہے جوشِ نشاط سے یہ مجلس آباد
پٹنے میں یہ دم بھی ہے غنیمت اکبرؔ
یہ خود استاد ان کے شاگرد استاد
(جذبات اکبر، ص347)
فضل حق آزادؔ کے متعلق
خاک ہوں میں نور حافظ فضل حق
آئینہ وہ میں غبار شاعری
نواب امداد امام اثرؔ کے متعلق
موتی کی سی ہے اثرؔ کے شعروں میں آب
اس پر ہے کشادہ علم و تحقیق کا باب
فکر اس کی بلند ہے، طبیعت نایاب
امداد امام آپ اپنا ہے جواب
(جذبات اکبر، ص345)
اس سے قبل کہ اکبرؔ کے شعروسخن کی کچھ جھانکیاں پیش کروں، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کلیات کے شاعر کا بھی مختصر ہی سہی تعارف کراتا چلوں تاکہ شاعر کے ربط و علاقہ و انضمام معنوی و روحانی کا بھی اندازہ رہے۔
شاہ اکبرؔ داناپوری کی ولادت 27 شعبان المعظم 1260ھ، موافق 1843ء، چہار شنبہ بوقت اشراق، نئی بستی، آگرہ (اکبرآباد) میں واقع ہوئی۔ عم اقدس مولانا شاہ قاسمؔ داناپوری نے تاریخِ ولادت نظم فرمائی، شعر پڑھیے اور اس تعلقِ قلبی کو ملاحظہ فرمایئے
سرورِ عنائے مااخی سجاد
یادگارِ امام زین عباد
نورسادات از رخش تاباں
روشن ازوے تجلی عرفاں
مقتبس شد زنور فکرش فقر
ہست در اہل ذکر، ذکرش فقر
دل پاکش خزینۂ اسرار
سرا و محو جلوۂ دیدار
بہ شبستان آن اخی بوجوہ
آمد از غیب یک حسیں مولود
فقر روشن نصیب ایں بادا
ای خداوند ما چنیں بادا
یاخدا باشد ایں پسر چوجنید
از ریا دور و پاک و صاف از قید
اے ز شعبان بست و ہفتم بود
روز از روزہا چہارم بود
ساعتِ نہ ز روز آمدہ بود
کاں مہ دلفروز آمدہ بود
شد بسالش بفکر چوں قاسمؔ
گفت در گوش وے چنیں ملہم
چوں بدھر ایں ملک خصال آمد
’’در مکنوں فیض‘‘ سال آمد
1260ھ
(جذبات اکبر، ص4)
آپ کا نسب پدری فاتح منیر حضرت امام محمد تاج فقیہ اور مادری نسبت مخدوم لطیف الدین دانشمند (مرید و خلیفہ حضرت شرف الدین بوعلی قلندر) سے جا ملتا ہے۔ ترتیب یہ ہے۔
محمد اکبر ابن محمد سجاد ابن تراب الحق ابن طیب اللہ نقاب پوش ابن امین اللہ شہید ابن منور اللہ ابن عنایت اللہ ابن دیوان تاج الدین محمد ابن تیم اللہ ابن اخوند شیخ ابن احمد چشتی ابن عبد الوہاب ابن عبد الغنی ابن عبد الملک ابن تاج الدین ابن عطا اللہ ابن سلیمان لنگر زمین ابن مخدوم عبدالعزیز ابن امام محمد تاج فقیہ۔ (کنزالانساب، ص287)
آپ کو تعجب ہوگا کہ شاہ اکبر تمام عمر اپنے کو داناپوری تحریر فرماتے رہے۔ سلسلۂ نسب میں بھی سب کے اسما گرامی کے ساتھ موڑوی، منیری ہے یا نوآبادی یا داناپوری، یہ آگرہ کی پیدائش کیسی؟ یہ قصہ ذرا تفصیل طلب ہے۔ دراصل وطن تو داناپور ہی ہے، مگر آپ کے والد ماجد حضرت مخدوم سجاد پاک مع متعلقین عرصہ سے اکبرآباد میں بغرض رشدو ہدایت قیام فرماتے تھے، اور آپ کے بڑے بھائی سید الطریقت مولانا شاہ محمد قاسم ابوالعلائی جو شاہ اکبر کے حقیقی عم اقدس تھے، وہ بھی اکبرآباد میں مقیم تھے۔
جب آپ چالیس دن کے ہوئے تو آپ کی والدہ بصیرانساء عرف بشیراً بنت سید محمد عاصم قادری (ساکن: رہو ضلع نوادہ) آپ کو مزارِ پر انوار حضرت سید نا امیر ابوالعلا پر لے کر حاضر ہوئیں اور کچھ دن تک وہیں قیام فرمایا۔ پانچویں سال بسم اللہ عم اقدس مولانا شاہ قاسم داناپوری نے تعلیم فرمائی اور خود ہی تعلیم شروع کی۔ پندرہ سولہ سال کی عمر تک اسی قسم کی حالت رہی اور لطف یہ تھا کہ تحصیلِ علم ظاہری بھی برابر جاری تھی۔ قرآن مجید اور مشکوٰۃ شریف میں بڑا تدبر فرماتے تھے، اور بعض اوقات ایسے نکات بیان فرماتے کہ علما بھی متحیر رہ جاتے۔ علمی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ علما کی بے حد قدر فرماتے اور علمی مضامین و علمی کتابوں کے مطالعہ سے تادمِ آخر سیر نہ ہوئے۔
جب تحصیلِ علم ظاہری سے کچھ یکسوئی ہوئی تو وہ وقت آیا جس کا مدت سے انتظار تھا۔ آپ نے اپنے عم اقدس سے سلسلۂ نقشبندیہ ابوالعلائیہ میں بیعت حاصل کی، 27 مضان 1281ھ کو نماز فجر کے بعد عم اقدس مولانا شاہ قاسم ابوالعلائی نے اجازت نامہ تحریری عطا فرما کر تشنہ لبانِ معرفت کو سیرابی کا ایک ایسا موقع دیا جو ایک مدت تک یاد رہے گا۔ اسی سال آپ کا عقد شاہ ولایت حسین دلاوری کی صاحبزادی سے ہوا، جن سے چار صاحبزادیاں اور ایک صاحبزادہ شاہ محسنؔ داناپوری ہوئے۔ (تذکرۃ الابرار، ص54)
اس واقعہ کے کچھ مدت کے بعد 14 ذیقعدہ 1298ھ میں حضرت مخدوم سجاد پاک کا وصال ہوا۔ آپ اپنے عہد کے ممتاز صوفی تھے۔ 18 ذیقعدہ 1298ھ کو اپنے والد کے بعد مسندِ سجادگی پر جلوہ افروز ہوئے۔ اس عہد کے مشائخ نے آپ کی دستار بندی کی تقریب میں شرکت فرمائی اور تقریباً 29 سال تک خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کی مسندِ رشدو ہدایت پر متمکن رہے۔ اس موقع پر یحییٰ عظیم آبادی نے جو سجادگی کی تاریخیں تحریر فرمائی تھیں، وہ درج ذیل ہیں۔
حضرتِ سید سجاد چو رحلت فرمود
از دلِ اہلِ دلاں خاستہ شور فریاد
خرقۂ اش در بر فرزندِ عزیزش کردند
کہ دہد در رہ دیں اہلِ طلب را ارشاد
سالِ سجادگیش گشت کہ اکبرؔ حقاً
شدہ سجادہ نشیں جائے محمد سجاد
دیگر
چوشد حاملِ سرِ سجاد اکبر
بہ جمعہ کہ اجماعِ اہلِ نظر شد
سپردند تسبیحِ سجاد او را
مفوضِ بحقدارِ حق سربسر شد
رقم کرد تاریخ یحیائے مسکیں
ہمایوں پسر جانشین پدر شد
(جذبات اکبر، ص10)
اب خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے موجودہ سجادہ نشیں حضرت اکبرؔ کے پرپوتے حضرت حاجی شاہ سیف اللہ ابوالعلائی مدظلہٗ ہیں۔
رونق افروز سجادہ خاندانی ہونے کے بعد دفعتاً آپ نے سفرِ حج کا قصد فرمایا، اشرف التواریخ میں اس مبارک سفر حج کا تذکرہ آپ نے کیا ہے۔
’’جب یہ فقیر ۱۳۰۰ھ میں آستانۂ بوسِ بیتِ مکرم ہوا، وہ وقت شب کا تھا اور تاریخ ہشتم ذی الحجہ شب نہم تھی جس وقت قافلہ جدہ شریف سے مکہ معظمہ میں داخل ہوا، گیارہ بجے رات کا وقت تھا، شبِ ماہ تھی، چاندنی نہایت شفاف تھی، بیت مکرم کا لباس سیاہ ہے، بیت کے چاروں طرف مطاف میں سنگ مرمر کا گول دائرہ، اس پر حجاب کا طواف کرنا عجب لطف دکھا رہا تھا، میرے خیال میں یہ بات گذری کہ یہ ایک لیلیٰ ہے تمام جہاں کے لئے اور یہ سب طواف کرنے والے ہزار در ہزار مجنوں ہیں اور لیلیٰ کا سکوت کی حالت میں کھڑا رہنا اور اپنے عشاق کو عام اجازت طواف دے دینا کتنی شانِ دلبری کی ہے، دلبر کا لفظ خاص اسی لیلیٰ کے واسطے ہے، میں بھی اپنے مطوف شیخ غنیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ جو سید ہاشم مطوف کے نائب تھے، طواف میں مصروف ہوا اور بے خودی کی حالت میں تھا کہ مطوف صاحب نے سب شوط تمام ہونے پر میرا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ واجب الطواف کا دوگانہ مقام پر پڑھ لو، میں واجب الطواف کا دوگانہ پڑھ رہا تھا کہ استفراغ کی حالت پیدا ہوئی، مجھے میرے مطوف باب العمرہ کے پاس لائے، میں نے وہاں استفراغ سے فرصت کی، مجھے ایک بزرگ نے مبارک باد دی اور کہا کہ خوب جی بھر کر زمزم پی لو، تمہیں پھر استفراغ ہوگا، چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اور دوسرے طواف کے بعد واقعی پھر استفراغ ہوا، انہیں بزرگ نے باب العمرہ کے پاس لاکر استفراغ کرایا اور پھر مبارکباد کے جملے ادا کئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے تمہارے دل کی شست و شو آب زمزم سے کی۔‘‘
دورانِ حج آپ مختلف پاکیزہ مقامات متبرکہ کی زیارت کرتے رہے، یہاں تک کہ ایک روز آپ خانۂ کعبہ کے اندر داخل ہوئے اور تمام دن وہیں حاضر رہے، مگر ادب سے نگاہ اونچی نہ کر سکے، فرماتے ہیں کہ
’’چنانچہ اس فقیر کاتب الحروف نے خانۂ کعبہ کی داخلی کی تھی، صبح کی نماز کے بعد حاضر ہوا تھا، تمام دن وہیں حاضر رہا، مگر ادب سے نگاہ اونچی نہ کرسکا، دوستون سندل کے وہاں دیکھے، ان سے لپٹ کر وہاں دعا کرتے ہیں اور دروازے سے داخل ہونے پر دھنہ ہاتھ کو کعبہ معظمہ کا زینہ ہے، جسے عام لوگ توبہ کی کوٹھری کہتے ہیں، وہاں بھی جاکر دعا کرتے رہے، میرے مطوف مرحوم ہاشم شیخ نے بھی مجھے یہ داخلی کرائی تھی، میں یہاں کا مفصل حال بیان نہیں کرسکتا، اس لئے کہ میں نے اِدھر اُدھر نہیں دیکھا۔‘‘ (تاریخ عرب، جلد اول، ص61)
شاہ اکبرؔ داناپوری کی طرزِ معاشرت بالکل سادہ تھی، لباس میں بھی سادگی تھی، جسمانی طور پر بڑے قوی، وجیہہ و شکیل تھے، گورا رنگ، دوہرا بدن، کشادہ سینہ اور اوراد و وظائف کے ساتھ ورزش بھی آپ کا معمول تھا، خالطہ دار پائجامہ نیچا کرتا، اس پر صدری، شانہ پر بڑا رومال، کبھی کبھی انگر کھا، سر پہ چوگشیہ کلاہ اور پاؤں میں کامدار جوتیاں آپ کی وضع تھی، خوبصورت گھنی داڑھی اور ترشے ہوئے لب سے شخصیت کی بزرگی میں اضافہ ہوتا، مکان کی زینت سادہ تھی، آپ خود فرماتے ہیں کہ
فقیر خانہ کے دیکھو تکلفات آکر
کہ فرشِ خاک ہے اس پہ بوریا بھی ہے
مرغن غذا سے ہمیشہ احتیاط فرماتے اور کبھی کھا بھی لیتے تھے، مچھلی سے البتہ ہمیشہ پرہیز رہا، جس کی وجہ آپ نے خود بیان کی۔
اسی زمانے سے ہے احتیاط مچھلی کی
ہوئی ہے جب سے مزمل شریف شروع
کبھی کسی سے قرض نہیں لیتے، مگر لوگوں کو قرضِ حسنہ دیا کرتے، زیادہ تر واپس نہیں لیتے، کسی سائل کو محروم نہ کرتے تھے، وصال کے بعد یہ بات معلوم ہوئی کہ آگرہ میں اکثر غریب اور بیواؤں کے ساتھ پوشیدہ سلوک فرماتے تھے اور سب کا ماہانہ مقرر تھا۔
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ آپ زمانۂ عرسِ خواجہ معین الدین چشتی، مسجدِ شاہ جہانی میں تشریف رکھتے تھے اور صدری کی جیب میں گھڑی تھی، ایک صاحب نے جیب میں ہاتھ ڈال کر گھڑی نکالنی چاہی، آپ نے منہ دوسری جانب پھیر لیا اور ان کو اطمینان سے موقع دیا کہ اپنا کام کریں، چنانچہ وہ صاحب بلا تامل گھڑی نکال کر چلتے بنے، آپ کے اخلاق کا یہ حال تھا کہ جتنے حضرات آپ سے ملنے والے تھے اور جو حاضر باش رات دن کے تھے، سب کا یہی خیال تھا کہ مجھ سے آپ کو زیادہ محبت ہے۔
شیخ سعدی نے ایسے ہی بزرگوں کے متعلق کہا ہے کہ
شنیدم کہ مردان راہِ خدا
دل دشمناں رانہ کردند تنگ
بہت خلیق تھے، مزاج میں انکسار تھا، کسی برائی کا انتقام دشمن سے نہیں لیتے تھے، بادوستاں تلطف، بادشمناں مدار پر پورا عمل تھا۔ وطن میں آپ کے خاندان کے بعض لوگ ایسے نکتہ چیں جو ہمیشہ آپ کو ایذا دیا کرتے تھے، مگر آپ ہمیشہ ان کی ایذا پر صبر فرمایا کرتے اور کبھی ان سے بازپرس نہ کرتے، بلکہ اپنی تصنیفات میں ان دشمنوں کا نام نیکی و تعریف کے ساتھ ان کی تالیفِ قلوب کی خاطر لکھ دیا کرتے تھے، چنانچہ آج ان کی اعلیٰ خاندان کا ثبوت ان کے پاس ہے۔ اس کا اظہار آپ نے یوں کیا ہے کہ
یوسف سے بھی زیادہ دیئے ہیں بھائیوں نے غم
پردیسی بن کے رہتے ہیں اپنے وطن میں ہم
(تجلیات عشق، ص143)
آپ کے دل میں درد بہت تھا، کسی کی تکلیف اور مصیبت دیکھ کر بے قرار ہوجاتے، حتیٰ المقدور اس کو دور کرنے کی کوشش فرماتے تھے، اسی درد دل کو فرماتے ہیں کہ
دردِ دل نے مجھے بے دام خریدا اکبرؔ
کم سِنی سے ہی ہماری رفاقت میں یہی
(جذبات اکبر، ص120)
ہمیشہ ہر حالت میں اللہ پاک پر بھروسہ فرمایا کرتے اور لوگوں سے کہتے تھے کہ توکل علی اللہ ایمان کا جز و اعظم ہے، آپ فرماتے ہیں کہ
ہے توکل مجھے اللہ پر اپنے اکبرؔ
جس کو کہتے ہیں بھروسہ وہ بھروسہ ہے یہی
(جذبات اکبر، ص)
دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ
کیوں مارے مارے پھرتے ہو اکبرؔ اِدہر اُدہر
بیٹھو تو گھر میں پہنچے گا اللہ کا دیا
حضرت اکبرؔ کا 67؍ برس کی عمر میں 14؍ رجب المرجب 1327ھ، موافق 1909ء کو وقتِ عصر وصال ہوا، بعد نماز عشا آستانۂ مخدوم سجاد پاک میں تدفین عمل میں آئی، بعد وصال یہ شعر تکیہ کے نیچے سے برآمد ہوئے۔
خدا کی حضوری میں دل جارہا ہے
یہ مرنا ہے اس کا مزا آرہا ہے
تڑپنے لگیں عاشقوں کی جو روحیں
یہ کیا نغمۂ روح القدس گارہا ہے
عدم کا مسافر بتاتا نہیں کچھ
کہاں سے یہ آیا کہاں جارہا ہے
(جذبات اکبر، ص378)
آپ کی زندگی کے یہی تین اشعار ہیں جو اس وقت آپ کی کیفیات کا پتہ دیتے ہیں۔
شاہ اکبرؔ داناپوری نے دنیائے فقہ و تصوف اور مشاغلِ عادت و ریاضت کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف اور نشر و اشاعت کے میدان میں وہ بلند مقام حاصل کیا کہ دانشورانِ علم و ادب اور علمبردارانِ روحانیت ہمیشہ آپ کی بارگاہ میں خراجِ عقیدت پیش کرتے رہیں گے۔ آپ نے اپنی تمام عمر تصنیف و تالیف میں گزاری۔ مختلف اصنافِ سخن، تاریخ، تذکرہ، ادب، تصوف، وحدانیت، عقائد، پند و نصائح، شعر و شاعری پر بیس کتابیں آپ کی اہم ترین یادگار ہیں۔ ہر کتاب اور ہر رسالہ علم و فن کا مظہر اور عشق و محبت کا ضامن ہے، بالخصوص تین جلدوں پر مشتمل اشرف التواریخ آپ کا سرمایۂ ناز، معرکہ آرا اور تحقیقی کارنامہ ہے۔
قبل اس کے کہ قارئین کو آپ کے اشعار کی طرف لے جایا جائے، مناسب ہے کہ آپ کی نثری تصانیف کا ایک سرسری جائزہ پیش کیا جائے۔ جو کتابیں اب تک میری نظر سے گزری ہیں، وہ یہ ہیں۔
اشرف التواریخ : حصہ اول کا عنوان اسرار نبوت ہے، جس میں قرآن و حدیث اور ائمہ مجتہدین کے حوالے سے تقریباً ۱۳۰ انبیائے کرام کی سیرت، واقعات، فضائل، معجزات اور تخلیقِ کائنات کی تفصیلی وضاحت ہے۔ جابجا آپ کی فارسی و اردو منظومات بھی درج ہیں۔ پہلی جلد ۶۵۵ صفحات پر مشتمل، ۱۳۲۲ھ، آگرہ اخبار کی مطبوعہ ہے۔
حصہ دوم کا عنوان عہد رسالت و سایۂ خلافت ہے، جو تخلیق نور، فضائل نور، بعثت نور، ساعتِ ولادت، عظمت قریش، فضائل و کمالات، معجزات و غزوات، حسنِ اخلاق، حسنِ سیرت، فضائلِ کعبہ و مدینہ، نماز و روزہ، حج و زکوٰۃ، ابتدائے اذان، ذکر معراج، توضیحات احادیث و سنن، کثیر فقہی مسائل اور بے شمار واقعات نبوی کے علاوہ فضائل اہل بیت اور صحابہ کرام کے واقعات و کردار سے متعلق ہے۔ دوسری جلد ۷۷۵ صفحات پر، ۱۳۲۵ھ، آگرہ اخبار کی مطبوعہ ہے۔
تیسری جلد ۳۶۰ صفحات پر مشتمل، ۱۳۲۸ھ، آگرہ اخبار کی مطبوعہ ہے۔ اسی تحقیقی و تاریخی انداز کا تیسرا حصہ خلفائے راشدین کے توضیحی حالات، فضائل و کرامات و فتوحات پر مشتمل ہے۔ اشرف التواریخ شاہ اکبر داناپوری کی علمی وسعتوں اور تحقیقی برکتوں کا سب سے قیمتی کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ بہار اور دیگر صوبوں کے علمائے دین اور وابستگانِ تاریخ اسلامیہ تینوں جلدوں کو سرہانے رکھ کر سویا کرتے تھے تاکہ کسی وقت تحقیقی ضرورت پیش آئے اور شب میں استفادہ حاصل کیا جا سکے۔ ممکن ہے کہ یہ مشغلۂ خیر اب بھی جاری ہو۔
سرمۂ بینائی : ۲۴ صفحات پر مشتمل ایک معروف رسالہ ہے، جس میں صوفیانہ عقائد مثلاً وحدت الوجود، توحید، فنا فی الذات، فنا فی الصفات، معرفت الانسان، حقیقت النفس اور توبہ جیسے مہتمم بالشان عنوانات کو نہایت اختصار و جامعیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ دریا کو کوزہ میں بند کر دیا گیا ہے؛ سہل البیانی اور اثر و جاذبیت اس کا طرۂ امتیاز ہے۔ خیالات و نظریات کی تائید میں جابجا روشن مثالیں اور موقع محل کے اعتبار سے فارسی کے حسین، دلکش اور برجستہ اشعار پیش کیے گئے ہیں۔ اشاعت اول مطبع انوار محمدی (لکھنؤ) سے ۱۲۹۵ھ میں ہوئی، دوسرا اور تیسرا ایڈیشن مطبع سلیمی (الہ آباد) سے ۱۳۴۳ھ میں شائع ہوا۔
چراغ کعبہ : ۱۳۰۱ھ کی تالیف ہے، ۴۸ صفحات پر مشتمل، جس میں آل و اصحاب یعنی اہلِ بیت اور صحابہ کا ذکر ہے۔ احسن المطابع (پٹنہ) میں منشی عابد حسین عابدؔ ایڈیٹر اخبارانیس (پٹنہ) سے شائع ہوا۔
خدا کی قدرت : ۱۳۰۵ھ میں ۲۳ صفحات پر مشتمل، یونین پریس الپنچ (پٹنہ) سے شائع ہوئی۔ مغربی ریفارمر کے ایک مقلد کی کتاب کے جواب میں یہ رسالہ لکھا گیا، جس میں خدا کے وجود سے انکار کیا گیا تھا۔
نذرِ محبوب : یہ رسالہ سلسلۂ ابوالعلائیہ کے تقریباً ۱۰۰ مشائخ کا مختصر تذکرہ ہے، کتاب دکن کے سلطان محبوب علی خاں سے منسوب ہے، ۱۳۰۶ھ میں مطبع قریشی (آگرہ) سے شائع ہوئی۔
مولد فاطمی : ۱۳۰۷ھ کی تالیف ہے، ۴۰ صفحات، ۹ دن کی مدت میں مرتب ہوئی، مطبع منوری (آگرہ) سے شائع ہوئی۔ حضرت خاتون جنت کی فضائل، ولادت اور وفات کا ذکر ہے۔
ادراک : ۲۴ صفحات پر مشتمل رسالہ، طریقۂ ابوالعلائیہ میں فکر و نظر، اذکار، فقر، تقلیل ثلاثہ، تہذیب نفس، برزخ شیخ، خدمت بزرگان، سماع، آداب زیارت قبور، علم، مراقبہ، ملاحظۂ قدرت، سلوک، حکیم و یمقراطیس، اسم یابدیع، تصوف، احسان نبوت حضرت محمد برجملۂ عالم، ادب، توکل، مجاہدہ، رضا، فیض گرفتن، خلافت وغیرہ پر تفصیل سے بحث کرتا ہے۔ ۱۲۴ صفحات پر مشتمل، ۱۳۰۹ھ، مطبع شوکت شاہجہانی پریس (آگرہ) سے شائع ہوا۔
ارادہ : سلسلۂ تصوف پر ایک مطبوعہ رسالہ، ۱۰۸ صفحات پر مشتمل، سالک کے لیے گراں قدر سرمایہ ہے۔ آپ نے یہ کتاب اپنے مریدین و معتقدین کے لیے ۱۸ جمادی الثانی ۱۳۱۱ھ، روز پنجشنبہ، آگرہ میں منشی محمد فخرالدین قادری ابوالعلائی کے مکان پر مکمل کی۔
سیر دہلی : ۱۳۱۱ھ میں دہلی کے سفر کا مفصل تذکرہ، جس میں آپ نے مولوی سمیع اللہ خاں کے صاحبزادے حمیداللہ خاں کی تقریبِ نکاح میں شرکت کی اور جن مقامات کی زیارت کی، جن لوگوں سے ملاقات ہوئی، ان کا بیان کیا۔ ۱۰۴ صفحات، مطبع ریاض ہند (آگرہ)، ۲۰۱۱ء میں دہلی یونیورسٹی نے اسے گولڈن جوبلی کے موقع پر دوبارہ شائع کیا۔
دل : آپ کے ملفوظات و ارشادات کا مجموعہ، مرید و خلیفہ ممتاز شاگرد نثارؔ اکبرآبادی نے مرتب کیا، ۱۵۲ صفحات، مطبع اکبری (آگرہ)۔
تاریخ عرب : جلداول، ۱۳۱۸ھ، ۲۷۲ صفحات، عرب کے حالات، مناسک حج اور مقامات مقدسہ کا سیر حاصل بیان۔ آخر میں مصنف کا شعر درج ہے۔
او بڑے گھر کے مکیں، کعبے کے مالک داتا
ہم فقیروں سے بھی کچھ واحد و شاہد رہنا
احکام نماز : ۱۳۱۹ھ، ۲۴۸ صفحات، قرآن و احادیث کی روشنی میں نماز کے احکام۔
رسالہ غریب نواز : ۵۴ صفحات، ۱۳۲۰ھ، خواجہ معین الدین چشتی کے حالات اور اجمیر کے واقعات۔
شور قیامت : ۱۳۰۰ھ، عقائد نیچری کے رد میں، مطبع ابوالعلائی (آگرہ)۔
تحفۂ مقبول : ۱۲۸۸ھ، یونین پریس الپنچ (پٹنہ)، رسالہ میلاد کے لیے۔
التماس : ۳۵ صفحات، وابستگانِ طریقت کے لیے مفید رسالہ، اشرف التواریخ کے حصہ اول سے منسلک۔
باغِ خیال اکبر : اکبر شاہجہان پوری، اکبر وارثی میرٹھی اور شاہ اکبر داناپوری کے چنندہ کلام کا مجموعہ۔
آپ کے مکاتیب کا مجموعہ نسیمؔ ہلسوی کے صاحبزادے سید محمد وکیل اکبری نے ترتیب دیا، اب تک غیر مطبوعہ ہے۔
مولوی سمیع الدین احمد کی تصنیف رسالہ اثبات رابطہ پر حاشیہ لکھا، مطبوعہ رسالہ فوٹوگرافیہ، محلہ مہدی باغ (پٹنہ)، تاریخ ۱۷ ربیع الثانی ۱۲۹۵ھ۔
آپ دو دیوان تجلیاتِ عشق اور جذباتِ اکبر کے مالک ہیں۔ مگر تیسرا دیوان بھی تھا، جس کا ذکر آپ نے تجلیاتِ عشق میں کیا، جو کھو گیا۔ غزل کے حاشیے میں فرماتے ہیں۔
سرمہ جو زیبِ چشم سیہ فام ہوگیا
فتنه سوار ابلقِ ایام ہوگیا
یہ غزل عالم طفلی کی ہے، اور استاد مرحوم مولوی وحیدالدین احمد صاحب کی اصلاحی۔ محمد اکبر ابوالعلائی کے مطابق، ایک مرتب دیوان جس میں اکثر غزلیں استاد کی اصلاح شدہ تھیں، کھو گیا، اب یہی ایک غزل یادگار ہے۔
پٹنہ کے نواب ولایت حسین خاں نصرتیؔ عرف مہدی کی وفات پر بھی ایک قطعہ کہا، جو ۴۸ ابیات پر مشتمل تھا، مگر اب نایاب ہے۔
مزید، الپنچ (پٹنہ)، گلدستہ بہار (پٹنہ)، تحفۂ حنفیہ (پٹنہ)، آگرہ اخبار (آگرہ)، گنجینہ (پٹنہ)، ندیم (گیا)، نسیم داناپور (گلدستہ مشاعرہ) وغیرہ میں آپ کی غزلیں برابر چھپتی رہیں۔
مذکورہ کتب کے علاوہ تاریخ عرب کی دوسری جلد، چہل حدیث، رسالہ خضر طریقت، تذکرہ شعرائے اردو (منظوم)، شفاعت امت، سیرت المومنینؔ، اخبار العشق، روح وغیرہ کی اطلاع ملتی ہے، مگر معلوم نہیں شائع ہوئیں یا نہیں۔
بلیغ و کثیر نثری اشاعت کے علاوہ، حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری نے شعر و ادب کو خوب مزین و منور کیا۔ اساتذۂ سخن کی صف میں ان کا مقام بہت نمایاں اور مقتدر ہے۔ حمد، نعت، منقبت، عرفان و احسان کا مجموعہ دو ضخیم بیاض، تجلیاتِ عشق اور جذباتِ اکبر، آپ کی شعری عظمتوں کا بین ثبوت ہیں۔ ان میں آلِ اطہار و اہلِ بیت کی شان اقدس میں سلام و منقبت بھی شامل ہیں، ساتھ ہی مشہور زمانہ بزرگوں کی شان میں منقبت و سلام بھی درج ہیں۔ ان کے مطالعہ سے آپ کی قلبی اور روحانی نسبت و عظمت کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے۔
آپ کی صوفیانہ شاعری عرفان و احسان کا مرقع ہے، جو تصوف و معرفت کا رنگ و نور بکھیرتی ہے اور انسانی قلب و جگر کو چھوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ آج اس ہستی کو جہانِ فانی سے رخصت ہوئے ایک صدی سے زیادہ گزر چکی ہے، مگر آپ کی تصنیفات اور کلام سے یہ واضح ہے کہ اس درویش کامل نے شریعت و طریقت اور معرفت کے اثرات بیان کیے۔ دوسری جانب، آپ نے انسانی سماج، قومی و ملی اور اخلاقی قدروں کو بھی اجاگر کیا۔
آپ بحیثیت درویش و سجادہ نشیں صرف رشدو ہدایت، تسبیح و مصلیٰ اور تصوف کی دنیا میں محدود نہیں رہے، بلکہ ملک و وطن، قومی یکجہتی، استحکام اور انسانی فلاح و بہبود کا درد بھی شدت سے محسوس کیا۔ آپ کے مریدین و متوسلین اور عقیدت مند مختلف گوشوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ آپ کی علمی وسعت اور تحقیقی جامعیت کا سلسلہ اگرچہ کافی دراز ہے، مگر دواوین کی اشاعت سے عوام و خواص کی دلچسپی کچھ اس طرح چمکی کہ ملک و ملت نے شاعر کی حیثیت سے زیادہ جانا، مگر نثری محقق کی حیثیت سے کم۔
حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کی علمی و ادبی کارناموں پر بعض علماء و دانشور حضرات نے خصوصی توجہ دلائی، مگر نثری سفر کی جملہ نوعیت و وضاحت اور پایہ داری پر زیادہ روشنی نہیں ڈالی۔ قدیمی نسخے اب نایاب ہوتے جا رہے ہیں، اس لیے جدید قلم کاروں اور تحقیق کے نئے متوالوں کو توجہ دینے میں دشواری محسوس ہوئی۔ اس مجبوری کو دور کرنے اور وقت کے تقاضوں کے احترام میں، تحقیق اکبری کا ایک نیا سلسلہ قائم کیا گیا اور طباعت ثانی کی طرف قدم بڑھایا گیا ہے۔
جس طرح تصوف سے آپ کا فطری لگاؤ تھا، اسی طرح شاعری سے بھی آپ مانوس تھے۔ آپ کے والد ماجد، حضرت مخدوم سجاد پاک ساجدؔ کے رفقا نے پچپن ہی میں آپ کو اساتذہ کے اردو و فارسی اشعار یاد کرادیے اور اکثر مجالس میں آپ سے پڑھوا کر سنتے بھی تھے۔ آپ کو مرزا حاتم علی مہرؔ، مرزا عنایت علی ماہؔ، مرزا اعظم علی بیگ اعظمؔ، مولوی نیاز علی پریشاںؔ اور مولانا غلام امام شہیدؔ جیسے شعرا کی آغوش شفقت حاصل ہوئی، اس لیے کم عمری ہی سے شاعری کی طرف میلان بڑھتا گیا۔ گھر سے باہر تک آپ کو شاعرانہ ماحول میسر رہا، لہٰذا آپ شعروسخن کی سرگرمیوں سے متاثر ہوتے رہے۔
زمانۂ کم عمری کا ایک واقعہ یہ ہے کہ جب آپ کے والد ماجد (مخدوم سجاد پاک) کو معلوم ہوا کہ آپ شعر کہتے ہیں، تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ سنتے۔ چنانچہ والد محترم اپنے دوست مرزا ماہؔ اور مرزا عزتؔ کے مکان پر پہنچے اور فرمایا: محمد اکبر سلمہ ہمارے سامنے اپنا شعر نہیں پڑھتے، اور ہم سننا چاہتے ہیں، آپ لوگ ان کو بلائیں اور شعر پڑھنے کی فرمائش کریں۔ والد اندر کوٹھری میں چلے گئے اور کیواڑ لگا دیا۔
بعد ازاں، آپ کو بلوایا گیا اور کہا گیا کہ اپنی غزلیں ہم لوگوں کو سنائیں، بہت دنوں سے کچھ سنا نہیں ہے۔ آپ نے بیاض کھولا اور یہ مطلع پڑھا۔
چھوڑی نہیں کوئی سی جگہ لامکان تلک
پہنچا ہے آدمی بھی کہاں سے کہاں تلک
حضرت مخدوم سجاد پاک نے یہ مطلع سنا تو مکیف ہوئے، نعرہ سرزد ہوا، اور نعرے کی آواز سنتے ہی آپ بیاض لے کر وہاں سے نکل کھڑے ہوئے۔ صاحبان نے آپ کو بہت روکا، مگر آپ نہ رکے۔
انہیں شعر و سخن سے غایت درجے کا شوق تھا، مناسب ہے کہ ان ہی کے الفاظ میں ان کی داستانِ شاعری پیش کی جائے۔
’’میرے والد ماجد قبلہ و کعبہ، حضرت حاجی الحرمین الشریفین، مرشدی و مولائی، مولانا سید شاہ محمد سجاد ابوالعُلائی داناپوری قدس اللہ سرہٗ العزیز کے رفقا اور مصاحبین نے مجھے اردو اور فارسی کے اساتذہ کے اشعار بچپن میں یاد کرا دیے، اور مجالس میں پڑھوایا کرتے تھے۔ حضرت والد ماجد کی مجلس نورانی کے مقتبس اکثر شعرا بھی تھے، جیسے مکرمی مرزا حاتم علی مہرؔ، مرزا عنایت علی ماہؔ، مرزا اعظم علی بیگ اعظمؔ، مولوی نیاز علی پریشاںؔ۔ چونکہ میں ان حضرات کا پروردہ آغوشِ شفقت تھا، میری طبیعت کم عمری ہی سے موزونی کلام کی طرف مائل ہو گئی تھی۔ یوں کہیے کہ میری فطرت ہی میں یہ مزاق تھا کہ اکثر مضامین موزوں کر لیا کرتا تھا۔
یہ وہ زمانہ ہے کہ میرا تمام خاندان اکبرآباد میں تھا۔ میرے حضرت پیر و مرشد برحق، عم اقدس، مولانا سید شاہ محمد قاسم ابوالعُلائی داناپوری قدس اللہ سرہٗ العزیز، صدردیوانی کے سرشتہ دار ہیں، اور حضرت والد ماجد قدس سرہٗ پیشکار ہیں، لیکن مجھے اب تک کسی سے اتفاقِ اصلاح یا مشورت کا موقع نہیں ملا۔ جب غدر کے بعد حضرت پیر و مرشد قدس سرہٗ رونق افروز الہ آباد ہوئے، چونکہ میں ہرکاب تھا، وہاں مشق سخن کچھ زیادہ ہوئی۔ اب خیال ہوا کہ کسی استاد کی خدمت میں زانوئے ادب تہ کرنا چاہیے، تو پہلے میں جناب حضرت شاہ غلام اعظمؔ رحمۃ اللہ علیہ، سجادہ نشیں دائرہ شاہ اجمل کی صحبت میں حاضر ہوا، اور اس ارادے کو ان پر ظاہر نہ ہونے دیا۔ اکثر ان کی خدمت میں آتا گیا۔ وہ مجھ پر حضرت والد ماجد قدس سرہٗ کے استاد کے سبب سے پدری شفقت فرماتے تھے۔ شیخ ناسخؔ مرحوم کے شاگرد تھے، واقعہ مسلم الثبوت استاد تھے، لیکن اس رنگ کی طرف میرے دل نے کشش نہ کی۔
پھر میں جناب استادی، مولانا مولوی وحیدالدین احمد صاحب وحیدؔ الہ آبادی کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوا۔ یہ خواجہ حیدر علی آتشؔ کی منتخب یادگار تھے، طبیعت گداز، مزاج عاشقانہ، بندش نفیس، زبان دلچسپ، اور قابلیت فن میں انتہا درجے کی معلومات میری طبیعت کو ان سے اتحاد پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوئی۔ اس کے علاوہ، میرے والد ماجد سے اور آپ کے والد ماجد سے روحی ارتباط بھی زیادہ محبت کا سبب بنا۔ میں نے بے تکلف آپ کی شاگردی قبول کر لی۔ آپ نے مجھے اس فن کے اصول بتا دیے اور میری غزلوں کو زیورِ اصلاح سے آراستہ فرمادیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں ایسا ہوا کہ بُرا بھلا کہنے لگے۔
جب میرے حضرت والد ماجد قدس سرہٗ کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا: ’’میں تمہیں شعر کہنے کو منع نہیں کرتا، مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ لغو اور فضول نہ کہنا۔ تصوف کا میدان بہت وسیع ہے، اس میں اپنی قابلیت کو صرف کرو تاکہ تمہیں بھی فائدہ پہنچے اور سننے والے بھی نفع اٹھائیں۔ شرم آور مضامین اور ناپاک نظم سے اپنے خامہ کی زبان کو آلودہ نہ کرنا۔ ایسے شاعر جو بازاری اور فاحشہ عورت کی زبانیں اور ان کے شرمگین حرکات و سکنات کو حسنِ تغزل قرار دیتے ہیں، اس سے بہت اجتناب کرنا۔ اہلِ فن اور اہلِ علم کی نظر میں اس رنگ کا شاعر ہزلیات گو شاعر سے بھی زیادہ بے وقعت اور ذلیل معلوم ہوتا ہے۔’’
یہ امر مسلم ہے کہ شعرا الہامی مضامین اپنی غزلوں میں باندھتے ہیں اور الہام منجاب اللہ ہوا کرتا ہے۔ افسوس ہے کہ جس زبان پر پاک پروردگار تعالیٰ کے خزانہ سے مضامین جاری ہوں، اسی پاک زبان سے فحش، دروغ، دشنام اور شرمناک باتیں کہی جائیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ شاعری انشراح اور تفریحِ طبیعت کے واسطے کرنا ہرگز نہ سوچنا کہ میری غزل دوسروں کی غزل پر غلبہ کر جائے، گو یہ امر شعرا کے واسطے جائز ہے، مگر تمہیں واسطے قطعی ناجائز ہے۔ اپنی توسیعِ خیال کے واسطے محنت اور کوشش کرو، کسی مسلمان شاعر کے مغلوب کرنے کی کوشش نہ کرنا۔
شاعری کے لیے اوقات منظم کر لو، تاکہ تم شعر کہنے میں ایسے منہمک ہو جاؤ کہ نماز اور دیگر امور متاثر نہ ہوں۔ اگر ان قیود کے ساتھ تم شاعری کرو گے تو یہ میری خوشی کا سبب ہوگا، ورنہ مجھے تمہارے شعر کہنے سے تکلیف ہوگی۔ ہمیشہ اپنی مخاطبت معشوق حقیقی سے رکھو۔ شاعری جہلا و ناخواندہ لوگوں کا کام نہیں ہے، اس کے واسطے نفوس مزکیٰ اور پاک طبیعت کی ضرورت ہے۔ ایسے شاعر کا کلام الہام اور حدیثِ قلب ہوا کرتا ہے۔ جتنے شعرائے متقدمین عربی، فارسی یا اردو کے گذرے، سب علوم متداولہ میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ حضرت والد ماجد قدس سرہٗ کا یہ ارشاد ایسا دلنشیں ہوا کہ اُس مذاق سے میری طبیعت بالکل جدا ہوگئی۔ میرے استاد بھی پاک طبیعت اور پاکیزہ خیال تھے، وہ بھی اسی کی ترغیب فرماتے تھے۔
میں نے 1274ھ میں اس فن کی ابجد خوانی آغاز کی اور شعر کہنے کا وقت مقرر کر لیا۔ جب میں صبح کے وقت اوراد وغیرہ سے فرصت کر لیتا، تو زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے اس میں صرف کرتا، اور اتنے وقت سے زیادہ کبھی اختیار نہ کیا۔ چند بار کچھ شب کا حصہ بھی اس شغل میں صرف ہوا۔ یہاں تک کچھ غزلیں جمع ہو گئیں۔‘‘ (تجلیاتِ عشق، ص۴)
فنِ شاعری میں آپ مسلم الثبوت استاد تھے۔ آپ کی شاعری پر تصوف کا رنگ چھڑھا ہوا ہے، غزلوں کا ہر شعر تصوف و معرفت کے رنگ و نور سے منور نظر آتا ہے۔ آپ کی شعر گوئی میں سلاست بھی ہے، یہ سب استاد سے آپ کو حصے میں ملا۔
کوئی شاگرد ہو استاد کا ہے آئینہ اکبرؔ
سلاست تیرے شعروں میں وحید خوشنوا کی ہے
(تجلیاتِ عشق، ص۲۸۴)
اکبر نے اپنے استاد کے رنگ کو خوب چمکایا اور اپنی عقیدت کا اظہار یوں کرتے ہیں کہ
شاعر ہے داغ اور ہے استاد فن امیر
اکبر وحید قبلہ اہلِ کمال ہے
اہلِ نظر جانتے ہیں کہ شاہ اکبر داناپوری کی یہ رائے حقیقت سے کتنی قریب ہے۔
آپ مشاعروں میں بھی شرکت کرتے تھے، جن میں خصوصیت کے ساتھ پٹنہ، گیا، آرہ، داناپور، الہ آباد، آگرہ، اجمیر، حیدرآباد وغیرہ شامل تھے۔ (الپنچ)
آپ کے حلقۂ شاگردی میں کئی شعرا شامل تھے۔ بطور صوفی شاعر آپ اپنے عہد میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ بیدم وارثی نے اسی شہرت کو سنتے ہوئے آگرہ پہنچ کر شاہ اکبرؔ کے کامیاب شاگرد، نثارؔ اکبرآبادی کے حلقہ میں شامل ہوئے۔ مریدین و معتقدین کی طرح حلقۂ تلامذہ بھی کافی پھیلا ہوا تھا۔ چند مشہور تلامذہ یہ ہیں۔
شاہ محسن داناپوری، نثار اکبرآبادی، عرفان داناپوری، سیرداعظیم آبادی، احقر الہ آبادی، مبارک حسین مبارک، حمد کاکوی، اختر داناپوری، فضا اکبرآبادی، شوق اجمیری، سیف فرخ آبادی، نسیم داناپوری، نیرداناپوری، نظیرداناپوری، عارف داناپوری، کوثر داناپوری، قمر داناپوری، ستول داناپوری، یوسف داناپوری، یحییٰ داناپوری، رحمت داناپوری، رفیق داناپوری، الطاف داناپوری، واعظ داناپوری، ظہور عظیم آبادی، رضی عظیم آبادی، منظور عظیم آبادی، بدر الدین احمد بدر، جوہر بریلوی، نازش عظیم آبادی، شیدا بہاری، قیس گیاوی، مست گیاوی، علم گیاوی، مظاہر گیاوی، صہبا گیاوی، رونق گیاوی، ہندو گیاوی، ماہ داناپوری، زہرہ بائی آگرے والی وغیرہ۔
حضرت اکبر کی ہستی گوہرِ آبدار کی مانند تھی، جس کو دیکھ کر ہزاروں افراد آپ کے ذریعہ داخلِ سلسلہ ہوئے، جن کو آپ نے خلافت سے سرفراز فرمایا۔ چند اسمائے گرامی درج ذیل ہیں۔
حضرت سید شاہ محمد محسن ابوالعلائی (سجادہ نشیں: خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور)
حضرت سید نثار علی ابوالعلائی (نئی بستی، آگرہ)
حضرت حکیم سید عبدالعظیم ابوالعلائی (شاہ ٹولی، داناپور)
حضرت حاجی شاہ عبداللہ ابوالعلائی (خانقاہ اکبریہ ابوالعلائیہ، الہ آباد)
حضرت مولانا شاہ فصاحت حسین ابوالعلائی (بہدول، نالندہ)
حضرت پروفیسر عبدالمجید خاں ابوالعلائی (صدر شعبۂ عربی: اسلامیہ کالج، پشاور)
ہندوستان کے علاوہ پاکستان میں بھی شاہ اکبر داناپوری کے بعض خلفا اور معتقدین نے بہترین کارنامہ انجام دیا، جیسے پروفیسر عبدالمجید خاں، مفتی انتظام اللہ شہابی، صباؔ اکبرآبادی، مولانا عبدالغنی خاں، مولانا عبدالطیف خاں، انجمؔ اکبرآبادی، کاملؔ اکبرآبادی۔ انہوں نے تحقیق اکبری کا ایک دروازہ کھولا، مگر وہ بعد میں رُک گئے۔ آج بھی پاکستان میں حضرت اکبر کے سلسلے کی خانقاہیں اور ادارے آباد ہیں۔ بعض خطوط سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اکبر لاہور، پاک پٹنہ، اسلام آباد کی طرف مریدین کے ساتھ سالانہ دورہ کیا کرتے تھے۔
شاہ اکبرؔ داناپوری نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شاعری کی ہے، مگر وہ اردو کے ایک پُرگو شاعر ہیں۔ آپ نے مختلف اصناف میں، جیسے قصیدہ، مثنوی، ساقی نامہ، نظم، نعت، منقبت، سلام، قطعات و رباعیات، قطعاتِ تاریخ، تظمین، مسدس و مخمس میں اپنے شعری جوہر دکھائے، مگر آپ کی شاعری کا اصل میدان غزل ہے۔ اپنی غزلوں میں شاعری کے تمام آداب کو ملحوظ رکھا ہے۔
آپ کے اشعار میں رنگینی بھی ہے، شوخی بھی، الفاظ کی دلکشی بھی ہے، اور معانی کی دلآویزی بھی۔ عشق و محبت کا ساز ہے، غم و الم کا سوز ہے، ہجر و فراق کی چبھن بھی اور شوقِ وصال کا بانکپن بھی۔ اس پر محیط تصوف کے نکات ہر غزل میں جلوہ گر ہیں۔
ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔
بسے ہیں عطرِ سہاگ میں ہم گلے سے کس کو لگالیا ہے
ہمارا پیراہنِ محبت کسی کی اتری ہوئی قبا ہے
بقول کلیم عاجزؔ
’’اکبرؔ کے کلام میں ایسے اشعار ڈھونڈنا ایک اہم کام ہے، مگر افسوس، کرے تو کون؟‘‘
غالبؔ کہتے ہیں کہ
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے
اکبرؔ بھی یہی کہتے ہیں، مگر اپنے شعر کے پردے میں۔
راز و نیازِ بلبل و گل ہم سے پوچھیے
نرگس کی آنکھ بن کے رہے ہیں چمن میں ہم
ایک اور شعر ملاحظہ کیجیے۔
نکلی جو روح جسم سے پھر ہے بدن میں کیا
جب شمع بجھ گئی تو رہا انجمن میں کیا
اکبرؔ غزل کے ساتھ ساتھ فیچرل اور قومی نظمیں، جیسے ہنر نامہ وغیرہ، بھی خوب لکھتے تھے۔ ان کی قومی نظموں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایک صوفی غزل گو ہو کر بھی ان کی کتنی دور رس نگاہیں تھیں، جو قوم کو تعلیم اور صنعت و حرفت کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔
آپ نے قومی یکجہتی، ملک کی سلامتی اور استحکام کا درد شدت سے محسوس کیا۔ آپ کی قومی شاعری تقریباً ایک صدی پر محیط ہے۔ چند بند ملاحظہ کیجیے۔
قوم کے واسطے سامانِ ترقی ہے ہنر
بادشاہوں کے جانِ ترقی ہے ہنر
اہلِ حرفت کے لیے کانِ ترقی ہے ہنر
باغِ عالم میں گلستانِ ترقی ہے ہنر
قدر جس ملک میں اس کی نہ ہو وہ برباد ہے وہ
جس جگہ اہلِ ہنر ہوتے ہیں آباد ہے وہ
لطفِ آزادی تو یہ ہے کہ ترقی ہو عام
کام وہ ہو کہ ہو حاصل جسے اثبات دوام
دوسرے ملک پہ موقوف نہ ہو اپنا کام
شہر اپنا ہو، زمین اپنی ہو، گھر اپنا ہو
ہاتھ اپنا ہو، ہنر اپنا ہو، زر اپنا ہو
بوظفر شاہ جو نادار ہوئے غدر کے بعد
اُمراء مورد بیدار ہوئے غدر کے بعد
لکھنؤ دہلی جو برباد ہوئے غدر کے بعد
پیشے والوں ہی سے آباد ہوئے غدر کے بعد
بات ان شہروں کی پھر رکھ لی ہنر والوں نے
کیا کیا، کچھ نہ کیا لعل و گہر والوں نے۔
(تجلیاتِ عشق، ص۳۸۸)
سرسید تحریک میں عموماً مذہبی طبقہ شامل نہیں تھا۔ سرسید کے عقائد اور تجدید رسم و رواج کے باعث لوگ ان کی شدت سے مخالفت کرتے تھے، مگر حضرت اکبر نے اپنی دور رس نگاہوں اور میانہ روی سے سرسید کی تعلیمی تحریک کی حمایت کی۔ انہوں نے اس تحریک کو سراہا اور سرسید کے مذہبی عقائد کی بے راہ روی کی پردہ پوشی بھی کی، فرماتے ہیں کہ
زمانے میں یکتا ہے سید ہمارا
وہ ہے آسمانِ ترقی کا تارا
جو وہ بحث مذہب سے کرتا کنارا
تو مہدی سمجھتا اسے ملک سارا
وہ انسان ہے، آخر پیمبر نہیں ہے
خطا کے احاطے سے باہر نہیں ہے
بقول عطاؔ کاکوی
’’ایسا روشن خیال صوفی اور صاحب وجد و حال، تعلیمی، سیاسی اور سماجی کاموں میں دلچسپی لینے والا شاذ و نادر ہی ملے گا۔‘‘
حضرت اکبر کا مزاج صوفیانہ تھا۔ نام و نمود، عیش و عشرت اور عروج و اعتلا سے وہ کوسوں دور تھے۔ اکبرؔ کا ایک شعر ہے۔
فقیری اور دنیا کی محبت
خدا ایسی فقیری سے بچائے
اسی وجہ سے انہوں نے اپنے دیوان کے واسطے کسی کو تقریظ یا تاریخ کی تکلیف نہ دی۔ خود اکبر کی زبانی ہے کہ
’’الحمد للہ ثم الحمد للہ، میں نے یہ عہد کیا تھا کہ اپنے دیوان کے واسطے کسی بزرگ کو تقریظ یا تاریخ کی تکلیف نہ دوں گا۔ اس لیے میں خوب جانتا ہوں کہ میں کس درجہ کا آدمی ہوں؛ کوئی علم نہیں جانتا، کوئی فن نہیں آتا۔ فقیر کے گھر پیدا ہوا، امارت کبھی آنکھوں سے نہیں دیکھی۔ پھر آج کل کے زمانہ میں بُرے کلام کو کون وقعت کی نگاہوں سے دیکھے گا؟ جن حضرات سے تاریخ و تقریظ کی خواہش کروں، ان کے بے بہا جواہرات کو بھی اپنے حذف پاروں کے ساتھ کم قیمت بنا دوں۔ چنانچہ یہی سبب ہوا کہ میرے استاد بھائی کی تاریخ بھی اس میں دخل نہیں، لیکن اکبرآباد کے حضرات جو میرے ساتھ محبت رکھتے ہیں، ان بزرگوں نے خود تاریخیں عنایت فرمائی۔‘‘ (تجلیاتِ عشق، ص۵۱۵)
شاہ اکبر داناپوری اپنے معاصرین شعرا میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، جیسے: فضل حق آزادؔ، عشرت گیاوی، حمد کاکوی، بسمل سنہساروی، رنجور عظیم آبادی، امداد امام اثرؔ، یحییٰ عظیم آبادی، صوفی اکبرآبادی، منشی ذکاؤاللہ دہلوی، آغا سنجر، رضا بریلوی وغیرہ۔
اکبر الہ آبادی جو اردو کے شہر آفاق کے بڑے شعرا میں ہیں، اور اپنے مخصوص رنگ و آہنگ میں یکتائے روزگار ہیں، وہ بھی شاہ اکبر داناپوری کے ساتھ وحیدؔ الہ آبادی کے شاگردانِ رشید ہیں۔ یہ دونوں اکبر شاعری میں استاد بھائی اور طریقت میں پہلے سے پیر بھائی تھے۔ اکبر الہ آبادی اور ان کے والد و اعمام حضرت مولانا شاہ قاسم ابوالعُلائی داناپوری، شاہ اکبر داناپوری کے حقیقی چچا اور پیر و مرشد تھے۔ ان دونوں اکبر میں بڑی محبت و انسیت تھی۔
نذرِ محبوب میں اکبر الہ آبادی کا ایک خط شاہ اکبر داناپوری کے نام شائع ہوا:
’’سرتاج برادرانِ طریقت، مسند آرائے بزمِ معرفت، زاد اللہ عرفانہٗ
تسلیم!
آپ کی تحریر کے ورود نے عزت بخشی، آپ کا خیال نہایت عمدہ ہے، آپ ہی کے گھر کا فیض ہے کہ اس زمانہ میں اور اس حالات میں بھی میرے عقائد محفوظ ہیں۔ وہی ہوا ہے کہ اس طوفانِ بے تمیزی میں بھی دردِ دل سے کبھی پردۂ غفلت الٹ دیتی ہے، اور یہ شعر زبان پر آ جاتا ہے۔
حلقۂ پیر مغانم را ازل در گوش است
برہما نیم کہ بودیم ہماں خواهد بود‘‘
اکبر الہ آبادی بھی آپ کے رنگ تصوف سے مرعوب اور بارگاہ کے معتقد نظر آتے ہیں۔ شاہ اکبر داناپوری کو لکھے گئے ایک مکتوب سے اکبر الہ آبادی کی عقیدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
’’سرتاج برادرانِ طریقت، مسند آرائے بزمِ معرفت، زاد اللہ عرفانہٗ‘‘
دونوں اکبر وحیدؔ کی شاگردی کا طرۂ امتیاز رکھتے ہیں۔ شاہ اکبر داناپوری نے اس کا اظہار اپنے رباعی میں کیا۔
شاگرد وحیدؔ کے ہیں دونوں اکبرؔ
ہم مشق بھی ہم دونوں رہے ہیں اکثر
لیکن قدرت کا صاد ان پر ہی ہوا
پتھر پتھر ہے اور جوہر جوہر
(جذبات اکبر، ص۳۴۸)
اس رباعی کا آخری مصرع نہایت معنی خیز اور قابل غور ہے۔ اکبرؔ فرماتے ہیں۔
فطرتاً تھے ایک ہم دونوں، مگر حکمِ خدا
وہ تو رشکِ گل ہوئے، میں اکبرؔ شیدِ احوا
مشاہیر شعرا میں میرتقی میر کی بہت تعریف فرماتے تھے۔ ایک رباعی اسی خیال کو ظاہر کرتی ہے۔
شاعر جسے کہتے ہیں وہ پیدا ہوئے دو
میں تو یہی کہتا ہوں جو ہونی ہو سوہو
اول تو ہوئے میر، پھر آخر میں وحید
اب ختم ہوئی بزمِ سخن، کچھ نہ کہو
(جذبات اکبر، ص۳۵۶)
آپ کی ایک عارفانہ غزل کے چند اشعار قارئین کے لیے ہدیہ ہیں۔
ہم تری راہ میں مٹ جائیں گے، سوچا ہے یہی
درد مندانِ محبت کا طریقہ ہے یہی
آپ ہوں پیش نظر روح جو دل سے نکلے
اے مری جاں، مری آنکھوں کی تمنا ہے یہی
ہے توکل مجھے اللہ پر، اپنے اکبرؔ
جس کو کہتے ہیں بھروسہ، وہ بھروسہ ہے یہی
قارئین کی دلچسپی کے لیے شاہ اکبرؔ داناپوری کے کچھ دیگر اشعار پیش ہیں۔
جو بنے آئینہ، وہ تیرا تماشا دیکھے
اپنی صورت میں ترے حسن کا جلوہ دیکھے
تری شانیں ہیں ہزاروں، تیرے جلوے لاکھوں
دو ہی آنکھیں ہوں ملی، جس کو وہ کیا کیا دیکھے
کیا سمجھ رکھا ہے اللہ کو تو نے، اکبرؔ
آنکھیں کھولے ہوئے بیٹھا ہے کہ جلوہ دیکھے
ان کی شاعری میں حقائق و معارف کا گہرا امتزاج پایا جاتا ہے۔
پیدا ہو جو سچی طلب انسان کو، اکبرؔ
مطلوب کہے گا میرا طلب گار کہاں ہے
بزمِ ہستی میں ابھی آکے، تو ہم بیٹھے تھے
یوں اجل آئی کہ زانو بھی بدلنے نہ دیا
لگن لگی ہے کسی سے ایسی کہ مرنے پر بھی نہ چھٹ سکے گی
یہ عاشقی دل لگی نہیں ہے، جو ہم مٹے ہیں تو دل لگا ہے
ہو گیا عام محبت کا مری افسانہ
اب تو جس بزم میں جا بیٹھے، چرچہ ہے یہی
دل وہی ہے جس میں وہ دلدار ہے
آنکھ وہ ہے جس میں وہ روئے یار ہے
انہیں کی پھر گئیں، آنکھیں مٹے ہیں ہم جن پر
خرابیٔ دل خانہ خراب دیکھے کون
دردِ دل کا ماجرا ہے کس سے کہیں
کون ہے دردِ آشنا کس سے کہیں
اہل علم اور اہل نظر کے لیے یہ ایک خاص تحفہ ہے، جس کا دل کی آنکھوں سے مطالعہ کرنا ضروری ہے۔
ہے عیب سے کون سا سخنداں خالی
کانٹوں سے نہیں کوئی گلستاں خالی
اکبرؔ ہے بھول چوک اپنا زیور
ممکن ہے کہ ہو خطا سے انسان خالی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.