ذکر خیر حضرت شاہ محمد قاسم ابوالعلائی داناپوری
حضرت شاہ محمد قاسم ابوالعلائی داناپوری کی ولادت 17 شوال المکرم 1218ھ بمطابق 1803ء بروز پنجشنبہ بمقام داناپور شریف میں ہوئی۔ آپ کا نام محمد قاسم اور تخلص قاسمؔ تھا، مگر آپ سید الطریقت کے خطاب سے زیادہ مشہور ہوئے۔
آپ کے والد ماجد کا نام حضرت مخدوم سید شاہ محمد تراب الحق چشتی قلندری موڑوی ثم داناپوری قدس سرہ (متوفی 1272ھ/1855ء) اور والدہ ماجدہ کا نام حضرت سیدہ عارفہ مسماۃ بی بی حفیظ النساء صاحبہ (متوفی 1242ھ) تھا۔
حضرت سید شاہ محمد قاسم کا خاندان علمی و روحانی اعتبار سے نہایت معزز تھا۔ آپ کے خاندان کا تعلق منیر شریف کے مشہور بزرگ حضرت مخدوم عبدالعزیز ابن حضرت امام محمد تاج فقیہ مکی سے ہے۔ اس کے علاوہ آپ سیدھی اولاد ہیں مشہور ولیہ کاملہ حضرت سیدہ بی بی کمال عرف بی بی ہدیہ (کاکو، جہان آباد) کی۔
حضرت سید شاہ محمد قاسم کو حضرت مخدوم سید شاہ شہاب الدین پیر جگجوت (کچی درگاہ جیٹھلی) رضی اللہ عنہ کی ذریت میں ہونے کا شرف بھی حاصل تھا، جو خلیفہ حضرت شیخ الشیوخ عمر بن محمد شہاب الدین سہروردی کی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔
آپ کے اجداد میں سلسلہ سادات فقرا، سہروردیہ اور چشتیہ کے نامور مشائخ شامل تھے، جن میں
حضرت سید حسن زنجانی مشھدی
حضرت مخدوم سلیمان لنگر زمین کاکوی
حضرت مخدوم شاہ عطاء اللہ کجانواں
حضرت مخدوم شاہ احمد چشتی نوآبادی
حضرت مخدوم اخوند شیخ چشتی نوآبادی (متوفی 1012ھ)
حضرت شاہ تیم اللہ چشتی نوآبادی (متوفی 1036ھ)
حضرت شاہ دیوان تاج الدین محمد چشتی نوآبادی (متوفی 1055ھ)
حضرت دیوان شاہ عنایت اللہ چشتی نوآبادی (متوفی 1082ھ)
حضرت شاہ منواللہ چشتی نوآبادی (متوفی 1109ھ)
حضرت شاہ امین اللہ چشتی شہید نوآبادی (متوفی 1161ھ)
حضرت شاہ طیب اللہ نقاب پوش بندگی دانشمند موڑوی (متوفی 1235ھ)
ان بزرگوں کی بارگاہ میں علمی و روحانی تربیت نے حضرت سید شاہ محمد قاسم کی شخصیت کو پروان چڑھایا۔
مزید برآں، آپ کو بہار شریف موڑہ تالاب کے معروف بزرگ طریقت حضرت مخدوم سید شاہ لطیف الدین بندگی دانشمند موڑوی کی ذریت میں ہونے کا بھی شرف حاصل تھا، جس نے آپ کے روحانی مقام کو مزید بلند کیا۔ (حوالہ: تذکرۃ الکرام، مطبوعہ 1342ھ/1924ء)
حضرت شاہ محمد قاسم ابوالعلائی داناپوری کا خاندان پانچویں صدی ہجری کے بعد بہار میں سکونت پذیر ہوا۔ آپ کی شجرہ نسب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی اولاد سے جُڑی ہوئی تھی۔ فقیہ زنجان، حضرت شاہ لطیف الدین بندگی دانشمند قدس سرہ (موڑہ تالاب) زنجان سے ہوتے ہوئے پانی پت میں حضرت شرف الدین بو علی شاہ قلندر (متوفی 724ھ/1323ء) کے مرید و مجاز بنے۔ انہوں نے سلسلہ کی اجازت و خلافت حاصل کر کے دہلی سے ہوتے ہوئے بہار میں حضرت مخدوم جہاں شیخ شاہ شرف الدین احمدیحییٰ منیری (متوفی 782ھ/1379ء) کے حکم سے تقریباً ڈیرھ کوس اُتر کی جانب ایک مقام پر اپنا عصا مبارک نصب کیا اور کہا: ایں مورہ
یہ مقام تالاب، مسجد اور خانقاہ کی تعمیر کے بعد موڑہ تالاب کے نام سے مشہور ہوا۔ حضرت مخدوم لطیف الدین بندگی موڑوی، حضرت شرف الدین بو علی شاہ قلندر دہلی کے اجل خلیفہ تھے، اور انہوں نے اسی خانقاہ اور روحانی مرکز کے ذریعے رشد و ہدایت کے فرائض انجام دیے۔
حضرت شاہ محمد قاسم ابوالعلائی داناپوری ایک عارف باللہ، شیخ طریقت، نور بقیۃ السلف، حجۃ الخلف اور واقف اسرار شریعت و طریقت تھے۔ آپ معرفت و حقیقت کے رموز میں استاد، اور زینت آراء مسند نقشبند کے حامل تھے۔ آپ ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، یہی وجہ تھی کہ سارا زمانہ آپ کو سید الطریقت کے نام سے جاننے لگا۔
آپ کی ازدواجی زندگی میں دو شادیاں ہوئی اور دونوں سے دو دو لڑکے پیدا ہوئے۔ پہلی شادی سیدہ مسماۃ بخشا انصاء صاحبہ سے ہوئی، جن سے دو لڑکے پیدا ہوئے جو صغرسنی میں وفات پا گئے، جن میں ایک کا نام محمد افضل تھا۔
جناب اکبر الہ آبادی نے حضرت سید شاہ محمد قاسم کی علمی و روحانی بزرگی اور خاندانی حیثیت کا اعتراف ایک خط میں یوں کیا۔
سرتاج برادارن طریقت، مسند آراء بزم معرفت، زاد اللہ عرفانہ تسلیم۔۔۔ آپ کی تحریر کے ورود نے عزت بخشی۔ آپ کا خیال نہایت عمدہ ہے۔ آپ ہی کے گھر کا فیض ہے کہ اس زمانہ میں اور اس حالات میں بھی میرے عقائد محفوظ ہیں۔ یہی ہوا کہ اس طوفان بے تمیزی میں بھی درد دل سے کبھی پردۂ غفلت الٹ دیتی ہے۔
اور اس کے ساتھ انہوں نے یہ شعر بھی پیش کیا کہ
حلقہ پیر مغانم را ازل در گوش است، بر ہما نیم کہ بودیم ہماں خواہد بود۔
حضرت شاہ قاسم کا جمال اور شخصیت ایسا تاباں تھا کہ مفتی صدر الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے: اس زمانے میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے مشتاق ہوں، وہ حضرت سید شاہ محمد قاسم صاحب کو دیکھ لیں۔
مزید برآں، جناب مفتی اسد اللہ جون پوری اور مفتی ریاض الدین کاکوری فرماتے تھے کہ حضرت سید شاہ محمد قاسم صاحب خوش بیان اور عارف کامل تھے۔ آپ خود بہت کم سلسلہ کلام شروع کرتے، مگر جب کسی امر میں استفتاء فرماتے تو نہایت دقیق اور مستند جواب دیتے تھے۔
حضرت شاہ محمد قاسم کی والدہ و اعمام فرماتے تھے: نور چشم سید محمد قاسم ولی مادرزاد ہے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت آپ کے خالِ محترم، اعلیٰ حضرت سید شاہ قمر الدین حسین ابوالعلائی عظیم آبادی قدس سرہ (متوفی 1255ھ/1839ء) کے دست نگر ہوئی۔
آپ نے نہ صرف علوم باطنی میں کمال حاصل کیا بلکہ علوم ظاہری میں بھی اعلیٰ مقام پایا۔ آپ نے تفسیر، حدیث، فقہ، منطق، بلاغت، صرف و نحو اور فارسی زبان میں مہارت حاصل کی۔ کم عمری میں ہی آپ تعلیم ظاہری و باطنی دونوں میں ماہر ہوگئے اور فصاحت و بلاغت کے لیے مشہور ہوئے۔ آپ کی شخصیت میں معاملہ فہمی، راست گوئی، خوش تدبیری، استقلال، ہمت، شجاعت، جوانمردی اور دلیری کے اعلیٰ نمونے نظر آتے تھے۔
آپ کو بیعت و خلافت حضرت خواجہ سید شاہ ابو البرکات ابوالعلائی عظیم آبادی (متوفی 1256ھ/1840ء) سے حاصل ہوئی، جو خلیفہ حضرت خواجہ شاہ رکن الدین عشق دہلوی ثم عظیم آبادیؔ (متوفی 1203ھ/1788ء) کے روحانی جانشین تھے۔ اسی طرح آپ کے خال اقدس، اعلیٰ حضرت سید شاہ قمر الدین حسین ابوالعلائی قدس سرہ (متوفی 1255ھ/1839ء) سے بھی آپ کو اجازت و خلافت عطا ہوئی۔
آپ کے والد، حضرت مخدوم سید شاہ تراب الحق انشمند موڑوی ثم داناپوری متوفی 1272ھ/1855ء کے علاوہ، آپ کے عم اقدس، مرشد برحق حضرت سید شاہ بہاء الحق بندگی دانشمند چشتی موڑوی قدس سرہ العزیز (متوفی 1254ھ/1838ء) نے بھی آپ کو طریقہ عالیہ چشتیہ قلندریہ کی اجازت و خلافت عطا فرمائی۔ انہوں نے ارشاد فرمایا:
نور چشم محمد قاسم، جس وقت آگرہ سے یہاں آئیں تو میرے سفائن اور میرا سجادہ اور تبرکات خاندانی ان کو تفویض کر دینا کہ میرے بعد میرے جانشین وہی ہوں گے۔
چنانچہ آگرہ سے واپسی کے بعد آپ رونق افروز سجادہ خاندانی ہوئے۔
پیرو مرشد کے وصال کے بعد حضرت شاہ محمد قاسمؒ نے مسند رشد و ہدایت پر اپنے فرائض انجام دینا شروع کیے۔ آپ دانا پور شریف، الہ آباد اور آگرہ میں لوگوں کو راہ خدا دکھاتے، تعلیم و تلقین فرماتے، اور سینکڑوں گم گشتگان راہ کو ہدایت کی منزل تک پہنچاتے۔ ہزاروں افراد دولت ایقان سے بہرور ہوئے اور درجنوں مرتبہ ولایت کے درجات حاصل کیے۔ آپ کی ذات عوام و خواص دونوں کے لیے یکساں مرجع تھی۔
حضرت شاہ محمد قاسم نے اپنی زندگی میں کئی خلفاء مقرر فرمائے، جن میں چند نامور حضرات حسب ذیل ہیں۔
حضرت شاہ محمد سجاد ابوالعلائی داناپوری
حضرت شاہ محمد اکبرؔ ابوالعلائی داناپوری
حضرت شاہ فدا حسین داناپوری (متوفی 1285ھ/1868ء)
حضرت غلام امام شہیدؔ اکبرآبادی (متوفی 1293ھ/1876ء)
حضرت شاہ وزیر ابوالعلائی عطاؔ داناپوری (متوفی 1302ھ/1885ء)
حضرت حافظ شاہ محمد منیرالدین حسین عظیم آبادی (متوفی 1287ھ/1870ء)
حضرت شیخ محمد شفیع اکبرآبادی
حضرت خواجہ غلام غوث اکبرآبادی
حضرت شیخ محمد اسمعیل
حضرت حکیم شاہ علیم الدین بلخی فردوسی (متوفی 1287ھ/1870ء)
حضرت شاہ شرف الدین حسین قمری رضوی
حضرت میر اشرف علی چشتی اجمیری
حضرت مظہر حسین ابوالعلائی کڑا مانکپوری
حضرت میر سید تفضل حسین الہ آبادی
حضرت میر سید طفیل علی الہ آبادی
حضرت میر حبیب علی الہ آبادی
حضرت شاہ محمد قاسم کی شاعری ایک فطری عمل تھی۔ آپ کے بہت سے قصیدے و منقبت حضرت امیر ابوالعلا کی شان میں ہیں، آپ کو تصنیف و تالیف کا شدید شوق تھا، اور ان کی کتب و رسائل میں علمی لیاقت اور تحبر علمی نمایاں ہے۔ چند اہم تصانیف حسب ذیل ہیں۔
اعجاز غوثیہ (حالات غوث اعظم) مطبوعہ 1289ھ/1872ء
نجات قاسم (حالات ابوالعلا اکبرآبادی) مطبوعہ 1272ھ/1856ء، بار دوم 1306ھ/1889ء
فائض البرکات (قلمی)
انوار قمریہ (قلمی، ملفوظ اعلیٰ حضرت عظیم آبادی)
انشائے فرمانِ علیم (قلمی)
چراغِ مکتب (قلمی)
سیر نینی تال (قلمی)
یہ تمام تصانیف آپ کی علمی استعداد اور فکری گہرائی کا مظہر ہیں۔
حضرت شاہ محمد قاسم نے الہ آباد سے داناپور شریف آ کر خانہ نشینی اختیار کی۔ چند برس کے بعد ان کے مزاج میں بیماری کے آثار ظاہر ہوئے، ابتدا میں بخار اور بعد میں اسہال کبریٰ۔ تاہم آپ نے کسی قسم کی شکایت نہیں کی اور جب کوئی کیفیت دریافت کرتا تو یہی شعر پڑھا کرتے۔
در دم از رفت ودر مانیزہم
دل فدائے او شد و جان نیز ہم
روز 3 شوال 1281ھ/1864ء کو حالت مرض انتہائی بڑھ گئی۔ اس دوران حضرت شاہ اکبر داناپوری کے نکاح کی تاریخ مقرر تھی (27 شوال 1281ھ/1864ء)۔ آپ نے خود تاریخ کم کر کے 16 شوال مقرر فرمائی تاکہ شادی دیکھی جا سکے۔ بارات 17 شوال کو واپس آئی اور فوراً کیفیت نزع شروع ہوگئی۔
اس دوران آپ بار بار ارشاد فرماتے رہے
در دم از رفت و در ما نیزہم
دل فدائے او شد و جان نیز ہم
چند منٹ بعد آپ نے با آواز بلند کہا: دیکھو پانچ شمع روشن ہیں اور گھر میں خوشبو پھیل گئی۔ رکوع پڑھا: اللّٰہ نور السموٰت والارض، اور رکوع کے بعد سب کے منہ پر ان للہ وان الیہ راجعون جاری ہوا۔
آپ کا جسد مبارک داناپور شریف سے روانہ ہو کر منیر شریف پہنچایا گیا۔ قبر کی تیاری کے دوران تابوت صحن درگاہ حضرت مخدوم کمال الدین احمد یحییٰ منیری میں رکھا گیا، جہاں ایک خوش الحان، دردناک آواز سنی گئی، حضرت مخدوم سجاد ابوالعلائی داناپوری اس مراقبے میں موجود تھے۔
حضرت شاہ محمد قاسم 63 سال کی عمر میں اس دنیا فانی سے رخصت ہوئے۔ وصیت کے مطابق ان کا مزار اقدس حضرت مخدوم کمال الدین احمد یحییٰ منیری کے پائتیں میں ہے، جو ہر خاص و عام کے لیے مرجع خلائق ہے۔
روشن اسی چراغ سے میرا مزا
عشق ابو تراب سے دل داغدار ہو
(شاہ اکبر داناپوری)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.