Font by Mehr Nastaliq Web

مقدمہ : ’’آل و اصحاب‘‘ کا تفصیلی مطالعہ

ریان ابوالعلائی

مقدمہ : ’’آل و اصحاب‘‘ کا تفصیلی مطالعہ

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    دلچسپ معلومات

    حضرت شاہ اکبر داناپوری کا رسالہ ’’آل و اصحاب‘‘ کا تفصیلی مطالعہ۔

    اہلِ بیت اور صحابۂ کرام کا احترام جزوِ ایمان ہے۔

    عہدِ رسالت سے لے کر آج تک امتِ مسلمہ اہلِ بیت سے محبت رکھتی ہے۔ حضرت عبدالرؤف مناوی (پیدائش 1545ء - وصال 1622ء) فرماتے ہیں کہ

    ’’کوئی بھی امام یا مجتہد ایسا نہیں گزرا جس نے اہلِ بیت کی محبت سے بڑا حصہ اور نمایاں فخر نہ پایا ہو‘‘ (فیض القدیر، جلد؍۱)

    اسی طرح صحابۂ کرام کی فضیلت پر بھی بے شمار احادیث موجود ہیں۔ ان کی عظمت اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ خود خالقِ کائنات نے اپنے کلام میں ان کی جا بجا تعریف فرمائی اور ان کو اپنی رضامندی کا پروانہ عطا فرمایا۔ اہلِ بیت اور صحابۂ کرام کے درمیان تو شروع سے محبت و مودت تھی، ایک دوسرے کا احترام و اکرام تھا، وہ ایک دوسرے کی ثناخوانی میں رطب اللسان تھے۔ دین کی سربلندی، اس کے احیا کی کوششیں، اس کے نفاذ کے لیے جدوجہد، رسول اللہ کی مدد کرنے میں ہمیشہ سرگرداں تھے اور خاکساری و انکساری کے نمونہ تھے۔ یہ بات ہر ایک کو معلوم ہے کہ اصحابِ رسول اور آلِ رسول افضل سے افضل تر لوگ ہیں۔

    یوں تو ’’آل و اصحاب‘‘ کی فضیلت نہایت بلند و بالا ہے، اس موضوع پر چھوٹی بڑی سیکڑوں کتابیں اب تک لکھی جا چکی ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز قائم ہے۔ تیرہویں صدی ہجری میں حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (پیدائش 1746ء - وصال 1823ء) کا رسالہ بھی اہمیت کا حامل ہے۔

    اس کے بعد مولانا عبدالرحمٰن نے ۱۳۱۱ھ میں ’’تذکرہ آل و اصحاب‘‘ اور سید اظہار حسنین (کھجوا؍ بہار) نے ۱۳۵۰ھ میں ’’آل و اصحاب مسمّٰی مشعلِ ہدایت‘‘ نامی کتابیں تصنیف کیں۔

    اس سلسلے کی ایک کڑی پیشِ نظر کتاب ’’آل و اصحاب‘‘ ہے۔ اس کے مصنف حضرت شاہ محمد اکبرؔ ابوالعُلائی داناپوری (پیدائش 1843ء - وصال 1909ء) برصغیر کے معروف صوفی شاعر، مصنف، مؤرخ، محقق اور خانقاہ سجادیہ ابوالعُلائیہ، داناپور کے سجادہ نشیں گزرے ہیں۔ ان کی شخصیت اور کارنامے تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔

    اس کتاب کی وجہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کے مریدین نے خواہش ظاہر کی کہ ہم لوگوں کے لیے اس سلسلے میں کچھ تحریر فرما دیں کہ اس باب میں بڑی ردّ و قدح ہوئیں اور ہنوز ہو رہی ہیں، لہٰذا برادرانِ طریقت کے واسطے یہ رسالہ وجود میں آیا تاکہ آپ کے اعزّہ و اقربا آل و اصحاب کے تعلق سے اِفراط و تفریط کا شکار نہ ہوں۔

    حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کا مطالعہ گہرا تھا۔ جب کسی موضوع پر لکھتے تو پوری کتاب لکھ دیتے۔ اس سلسلے میں مفتی انتظام اللہ شہابی کی رائے قیمتی ہے، لکھتے ہیں کہ

    ’’وقت کا بڑا حصہ لوگوں سے ملنے جلنے میں گزرتا، اس پر بھی اوراد و وظائف کے بعد تصنیف و تالیف میں لگے رہتے۔ مطالعہ کا وقت قیلولہ کے بعد کا تھا، لیٹے لیٹے مطالعہ جاری رکھتے۔ اسلامی تاریخ کا گہرا مطالعہ تھا۔ جو لکھتے اسناد کے ساتھ لکھتے۔ اخبار و رسالوں میں مضمون شائع نہیں کراتے۔ جب کسی عنوان پر لکھتے کتاب پوری لکھ دیتے‘‘ (انجمن اسلامیہ میگزین، کراچی، ماہ جنوری ۱۹۶۹ء)

    یہ رسالہ دو فصلوں پر مشتمل ہے۔ یہ حضرت رسول اللہﷺ کے آل و اصحاب پر اردو زبان کے چند بنیادی تذکروں میں سے ایک ہے۔ پہلی فصل میں اہلِ بیت کی فضیلت، حضرت فاطمہ زہرا، حضرت علی، حضرت حسن اور حضرت حسین کے مناقب، جب کہ دوسری فصل میں صحابۂ کرام کی فضیلت اور حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی اور حضرت مولیٰ علی کے مناقب ہیں۔ پوری کتاب قرآن و حدیث، تفسیر و تاریخ اور تذکرہ و فائدہ سے مُزین ہے۔ جگہ جگہ حضرت اکبر کی قیمتی آرا و اقوال، اس دور کے حالات و کوائف اور مولانا جلال الدین رومی، حافظؔ شیرازی، عبدالرحمٰن جامیؔ، شیخ سعدیؔ، نظامیؔ گنجوی، فریدالدین عطارؔ، خواجہ ہمام الدین علا، صائبؔ تبریزی، مرزا عبدالقادر بیدلؔ، خواجہ حیدر علی آتشؔ، مخدوم سجاد پاک ساجدؔ، نسیمؔ لکھنوی اور حضرت اکبر وغیرہ کے دلپسند اشعار سے یہ رسالہ نہایت پُرلطف و معلوماتی ہو گیا۔

    علمی دلائل و براہین کے ساتھ ساتھ عقلی دلائل، مشاجراتِ صحابہ اور چند تلخ حقائق پر بھی تبصرہ کیا گیا ہے۔ ایک جگہ حضرت اکبر اپنے والد قطب العصر حضرت مخدوم سجاد پاک (پیدائش 1816ء - وصال 1881ء) سے حضرت امیر معاویہ کے نام میں لفظ ’’حضرت‘‘ اور ’’رضی اللہ عنہ‘‘ لگانے کے متعلق دریافت کرتے ہیں تو ارشاد ہوتا ہے کہ

    ’’تم مجھ جیسے ہیچ مداں کو ’حضرت‘ کہتے ہو جو اُن سے تیرہ سو سال بعد دنیا میں آیا اور جو صحابۂ رسول ہو اور چشمِ ظاہر سے رسول اللہ کو دیکھا ہو وہ کیوں کر عظمت کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ جس طرح اؤلیا اللہ کو لفظ ’قدس سرہٗ‘ اور ’رحمۃ اللہ علیہ‘ سے یاد کرتے ہیں، اس طرح یہ لفظ صحابہ کے لیے مختص ہے۔ چوں کہ ان کا صحابہ ہونا مسلم ہے اس لیے یہ لفظ ان کے شایانِ شان ہے۔‘‘

    مشاجراتِ صحابہ پر حضرت اکبر کی نصیحت بھی نہایت قیمتی ہے۔

    ’’اے میری آنکھوں کے نور اور دل کے سُرور! تمہاری خیریت اس میں ہے کہ صحابہ کی آپس کی لڑائیوں میں لب نہ کھولو۔ حضرت سیّدنا علی کے حقیقی بھائی عقیل تھے جن کے فرزند حضرت مسلم تھے۔ حضرت سیّدنا علی ان سے ناخوش تھے اور وہ جنگِ صفین میں حضرت امیر معاویہ کے ساتھ تھے اور دونوں میں بہت اتحاد تھا۔ اُن حضرات کا فیصلہ ہوچکا ہے، اُن کی روحیں عالمِ ارواح میں معانقہ کر رہی ہیں۔ حضرت نور دیدۂ علی و بَتول و جگرگوشۂ رسولِ مقبول سیّدنا حسن مجتبیٰ نے یہ حکم سنادیا۔ اِن مقدمات میں ذرا سی بھی جان باقی نہیں رہی‘‘ (التماس المعروف بہ دین و دنیا، ملحقہ اشرف التواریخ جلد؍۱، ص ۶۳۷)

    اہلِ بیت کے تذکرے میں حضرت اکبر اپنے صاحبزادے حضرت شاہ محسنؔ داناپوری کو نصیحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

    ’’تم اپنے نسب کے ذریعہ سے بزرگ ہونا پسند نہ کرنا اس لیے کہ نسب حیوان کے لیے شرافت کا سبب ہے نہ کہ انسان کے لیے، کیوں کہ حیوان کی طبیعت فطری ہے جیسے ماں باپ اس کے اَصیل ہوں گے ویسا ہی وہ بھی ہوگا اور انسان کی طبیعت کسبی ہے۔‘‘

    ’’آل و اصحاب‘‘ کی عبارت سَلیس اور رواں ہے۔ ۱۳۰۱ھ موافق ۱۸۸۳ء میں ۲؍۱۵x۲۲-۱ سائز کے ۴۸؍ صفحات پر مشتمل منشی عابد حسین عابدؔ (مدیرِ اعلیٰ: اخبار انیس، پٹنہ) کی فرمائش پر احسن المطابع (پٹنہ) سے پہلی اشاعت ہوئی۔

    کتاب کے صفحۂ اول پر یہ عبارت موجود ہے۔

    ’’وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ۔ للہ الحمد کہ از تصنیفات یگانۂ عصر، وحید الدھر، عالمِ باعمل، حضرت مولانا سید شاہ محمد اکبر صاحب ابوالعلائی مدظلہٗ العَالی۔ رسالہ آل و اصحاب نام تاریخی چراغ کعبہ ۱۳۰۱ھ، حسبِ فرمائش جناب منشی عابد حسین صاحب عابدؔ ایڈیٹر اخبار انیس، پٹنہ در مطبع احسن المطابع، مولوی عبدالقادر واقع طبع شد‘‘

    آخر میں یہ عبارت ہے۔

    ’’الحمدللہ ایں رسالۂ نافعہ بصحتِ تمام و سعی بالا کلام منشی عابد حسین عابدؔ منیجر مطبع طبع شد، اطلاع کل حقوق ایں کتاب دریں مطبع محفوظ است کسے بدوں‘‘

    اب اس کی دوسری اشاعت تقریباً ۱۴۰؍ برس بعد خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور سے ہو رہی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اہلِ علم اور وابستگانِ تصوف اس کتاب سے فائدہ اٹھائیں گے اور حضرت اکبر کے لیے دعا گو ہوں گے۔

    قارئین کی آسانی کے لیے اشاعتِ ثانیہ میں احادیث و اشعار کے اردو تراجم، تخریج و تشریح کے ساتھ ساتھ الگ سے ضِمنی عنوانات بھی قائم کر دیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر عبدالواسع (دہلی)، مفتی محمد رضا نور قادری ابوالعلائی (ارریہ) اور مدرسہ فیضانِ ظفر (بشن پور، کشن گنج) کے صدر مدرس مولانا احمد رضا اشرفی کا شکر گزار ہوں جنہوں نے خلوص نیت کے ساتھ اس کتاب پر نظرِ ثانی کا کام انجام دیا۔ محمد دانش ابوالعلائی (ارریہ) کو کیسے بھول سکتا ہوں جنہوں نے کتابت کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ان صاحبانِ محترم و جملہ وابستگانِ خانقاہ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے