حضرت شاہ اکبر داناپوری کا تاریخی سفر حج
عرب اس ملک کا نام ہے جو ایک جزیرہ نُما کی صورت میں واقع ہوا اور ہمارے داناپور سے سیدھا مغرب کی طرف ہے اس کی زمین پتھریلی اور ریگستانی ہے اس میں پہاڑ بہت ہیں مگر بلند نہیں خصوصا ً اس ملک میں تین ایسے شہر ہیں جس میں سوائے مسلمانوں کے دوسرا کوئی مذہب نہیں۔
(۱) مکہ مکرمہ
(۲) مدینہ منورہ
(۳) طائف
اثنا عشری و خارجی وغیرہ بھی ان تینوں شہروں میں نظر نہیں آتے ،ماضی میں اثنا عشری حج کو جب جاتے تو بُرقہ منہ پر ڈال کر حاضر ہوتے تھے ، وہاں اہل سنت والجماعت کے چار مصلے میں کسی ایک کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں ،چودہ سوبرس سے مسلمانوں کے مذہب کی بنیاد قائم ہوئی ہے جب سے یہ شہر مسلمانوں کے اور کسی کے تحت حکم نہیں ہوا اگر اہل انصاف اس امر پر تامل کی نظر کریں تو اہل سنت والجماعت کے لئے یہ بات فخر و مباہات سے کم نہیں۔
اسلام کی بنیاد ملک عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں رکھی گئی ہے، اس لئے مسلمانوں کی یہ مقدس آماجگاہ سمجھی جاتی ہے ،یہ مبارک شہر مسلمانوں کے اتحاد کا ضامن ہے جب جب مسلمان آپسی انتشارات و اختلافات کا شکار ہوئے اور دین دشمن طاقت تنازعات کا فائدہ اٹھاتے ہیں تو یہ مبارک سفر حج پھر سے انہیں یکجا کرجاتی ہے ،کہاجاتا ہے کہ جب تک مسلمانوں کے پاس یہ پانچ چیزیں ہوں گی ان میں کوئی پھوٹ نہیں ڈال سکتا۔
(۱) قرآن
(۲) نماز
(۳) عشق رسالت مآب
(۴) حج
(۵) جہاد
یہ ہمیں پھر سے ایک صف میں لاکر کھڑا کردیتی ہے۔
تذکرہ اس زمانے کا ہے کہ جب سلطنت عثمانیہ کے امیر سلطان عبدالحمید خاں خَلَّدَ اللّٰہُ مُلْکَہٗ ملک عرب کے بادشاہ اور بقعہ متبرکہ کے خادم تھے، بڑے بے نفس اور ہرکس وناکس کے مونس تھے، آپ کی صفات درویشی سے ایک زمانہ روشن ہے۔
حضرت شاہ اکبر داناپوری ’’تاریخ عرب ‘‘جلد اول میں رقمطراز ہیں کہ
’’ان کا لقب خادم الحرمین الشریفین ہے روضہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے سرہانے کی طرف یعنی حضرت رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت صدیق اکبر یارِغارِ رسول کے درمیان ایک قندیل آویزاں جس کانام ثریا ہے اس میں بڑے بڑے قطعات و جواہر کے جڑے ہوئے ہیں روشن ہواکرتی ہے وہاں قندیلوں میں زیتون کا تیل جلتا ہے ثریا کا بچاہوا زیت پارسل کرکے واسطے تحفہ جاتاہے ،سلطانخَلَّدَ اللّٰہُ مُلْکَہٗ کھانے کے شروع کرنے کے وقت پہلے روٹی کا ٹکڑا ثریا کے زیت میںڈبو کر کھالیتے ہیں اور پھر کھانا کھاتے ہیں۔
مجھے مولوی رحمت اللہ نزیل مکہ معظمہ علیہ الرحمۃ والغفران خود کہتے تھے کہ سلطان نے فرمایا کہ میں حرمین شریفین میں حکومت نہیں کرتا میں تو وہاں کاایک خادم ہوں ‘‘ (تاریخ عرب ،جلد اول ،ص۱۸)
آمدم برسر مطلب حضرت شاہ اکبر داناپوری کا یہ سفر مبارک تاریخی اور یادگار رہاہے ،آپ کے والد ماجد حضرت مخدوم شاہ محمد سجاد پاک قدس سرہٗپانچ مرتبہ بیت اللہ کے شرف سے مشرف ہوچکے تھے اس لئے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں آپ کے مریدان و معتقدان بکثرت پائے جاتے تھے ،حضرت اکبر نے ۱۳۰۰ھ میں حج کا ارادہ کیا ۔
’’مولوی محمد احسن صاحب مرحوم کا ایک احسان مجھ پر ہے کہ جب میں حج کو جاتاتھا تو پاس پورٹ یعنی پروانۂ راہ داری کے حاصل کرنے میں مجھے دشواری تھی کسی حاکم سے ملاقات نہ تھی ان کی وجہ سے آسانی ہوئی خدا وند تعالیٰ اس کا اجر ان کو دے ،اللٰہم آمین‘‘ (اشرف التواریخ جلد اول ،ص ۵۴۰)
حضرت شاہ اکبر داناپوری نے اپنے سفر حج کے دوران اپنی قلبی کیفیات و اشتیاق کو لفظوں کے قالب میں ڈھالاہے، وہ فرماتے ہیں
’’فقیر محمد اکبر ابوالعُلائی داناپوری اپنا واقعہ چشم دید عرض کرتا ہے فقیر ممبئی سے ۱۴ ؍ذیقعدہ کو سوار ہوا اس جہاز کا نام شاہ جہان تھا آتش خاں دلال جہاز کانام تھا اس کی معرفت معہ روپیہ کو جہاز کی چھتری کاٹکٹ لیااس خیال سے کہ سمندر کی سیر کرتے جائیں گے کمرے میں ایسی کشادگی نہیں ہوتی جہاز آٹھویں روز عدن(مُلک یمن کا ایک بندر گاہ جومشرقی بحیرہ احمر میں خلیج عدن پر واقع ہے) پہونچا جہازکو عدن میں بہت مال اوتارنا تھا خلاصیوں کا بیان تھاکہ دوروز جہاز عدن میں ٹھرے گادوروز کے حساب سے زمانہ حج کا گذر جاتا تھا حجاج کو بڑا انتشار تھا اتفاق وقت سے عدن بندرگاہ پر ایک مزدور نہ تھا سب فضلی کے جزیرہ میں مال اوتارنے گئے تھے مجبور کپتان نے دو گھنٹے لنگرکرکے وہاں سے لنگر اوٹھادیادوسرے روز قمران کے جزیرہ پہونچے اور نو ر ذر کا قرنطیہ کرکے جہاز نے جد ہ شریفہ کو لنگر اٹھایا اس جزیرہ میں جو واقعات گذرے ہیں وہ بہت طول و طویل ہیں لہٰذا قلم انداز ہوئے الغرض ہم دوسرے دن دوپہر کے وقت جدہ شریفہ میں داخل ہوئے وہاں ہم کو اونٹوں کی قطار تیار ملی مطوفوں کے نائب موجود تھے اون لوگوں نے اپنے حجاج کو انٹوں پر سوار کروایا دوسرے روز کہ آٹھویں ذالحجہ تھی بوقت دس بجے شب کے ہم مکہ معظمہ میں پہنچے ہمارے مطوف سید ہاشم شیخ عرفات جاچکے تھے اون کے نائب محمد غنیم صاحب موجود تھے ‘‘(تاریخ عرب ،جلد اول،ص ۴۸)
دوران حج آپ مختلف پاکیزہ مقامات متبرکہ کی زیارت کرتے رہے، یہاں تک کہ ایک روز آپ نے خانۂ کعبہ کے اندر داخل ہوئے اور تمام دن وہیں حاضر رہے مگر ادب سے نگاہ اونچی نہ کرسکے، فرماتے ہیں
’’چنانچہ اس فقیر کاتب الحروف نے خانۂ کعبہ کی داخلی کی تھی صبح کی نماز کے بعد حاضر ہواتھا تمام دن وہیں حاضر رہامگر ادب سے نگاہ اونچی نہ کرسکا دوستوں سندل کے وہاں دیکھے ان سے لیپٹ کر وہاں دعاکرتے ہیں اور دروازے سے داخل ہونے پر دہنے ہاتھ کو کعبہ معظمہ کازینہ ہے جسے عام لوگ توبہ کی کوٹھری کہتے ہیں وہاں بھی جاکر دعا کرتے رہاہے میرے مطوف مرحوم ہاشم شیخ نے بھی مجھے یہ داخلی کرائی تھی میں یہاں کا مفصل حال بیان نہیں کرسکتا اس لئے کہ میں نے اِدھر اُدھر نہیں دیکھا‘‘(ص۶۱)
حضرت اکبر لکھتے ہیں
’’ایک پردہ اور بھی خانہ کعبہ کے اندر خانہ کعبہ کے زینہ کے دروازہ پر رہتا ہے جسے عوام الناس توبہ کی کوٹھری اور داخلی کے وقت حجاج اس کے سامنے کھڑے ہوکر توبہ اور استغفار کرتے ہیں اور کمال گریہ و زاری سے اپنے گناہ کی معافی پروردگار تعالیٰ شانہٗ سے چاہتے ہیں، چنانچہ یہ کاتب الحروف باوجودیکہ اس بات سے آگاہ تھاکہ یہ خانہ کعبہ کازینہ ہے مگر وہاں توبہ کرنے سے جو لطف آیاوہ دل ہی جانتاہے ‘‘(ص۱۰۴)
جاننا چاہئے کہ شریف کو عرب میں بہت بڑا مرتبہ ملتا ہے اس وقت کا شریف مکہ کا نام نامی شریف عون تھا،حضرت اکبر داناپوری کی ان سے ملاقات رہی ہے نہایت خلیق تھے مگر مُلکی معاملات کا درک کم رکھتے تھے لیکن سید عثمان نوری پاشا اس وقت مکہ معظمہ کا فوجی اعلیٰ افسر تھا نہایت دانشمند اور ذکی و ذہین اور ملکی معاملات کے دقائق سمجھنے والا تھا ان دونوں میں سابقہ رنجش رہی ہے۔ (ص۳۷)
حضرت اکبر کی مہمان نوازی اور قدر دانی اہل عرب جانتے تھے ،سید ہاشم شیخ، شیبی(کلید خانہ کعبہ)،محمد غنیم (نائب مطوف صَنی)اور عون (شریف مکہ)ودیگر علمائے کرام و فقہائے عظام آپ کے پس وپیش رہتے، اہل عرب مکہ مدینہ نہ صرف فرزند ارجمند حضرت مخدوم شاہ محمد سجاد پاک کی وجہ کر بلکہ ان کی ذاتی لیاقت و صلابت دینی کی وجہ کر ان کی عزت و قدر کیاکرتے تھے۔
حضرت مخدوم شاہ محمد سجاد پاک پانچ مرتبہ حج بیت اللہ کے شرف سے مشرف تھے اہل مکہ ومدینہ حضرت مخدوم کے معتقد تھے، حضرت اکبر ؔ رقمطراز ہیں کہ
’’مدینہ منورہ میں ہمارے مطوف سید ہاشم شیخ اور ان کے دوبھائی محمد اور علی اور ان کی اولاد ہمارے مطوف صاحب کے ایک نائب تھے جس کو محاورہ میں صَنی کہتے ہیں ان کانام محمد غنیم صاحب ہے ان کے والد یہاں (خانقاہ سجادیہ ابوالعُلائیہ) آئے تھے ان کی عمر ان کا تقدس ان کی زیارت ہی سے معلوم ہوسکتاہے،،سلمہٗ اللّٰہ تعالیٰ ان بزرگوں کو میرے والد ماجد حضرت سیدشاہ محمد سجاد ابوالعلائی داناپوری قدس اللّٰہ سرہٗ العزیز سے اس قدر اتحاد تھا کہ جب حضرت والد ماجد بیمار ہوئے اور ان کو خبر ہوئی تو مکہ معظمہ سے صرف عیادت کے لئے یہاں (خانقاہ سجادیہ ابوالعُلائیہ) آئے تھے‘‘(ص۳۹)
حضرت اکبر کی خاطر اور مہمان نوازی کا خاص خیال رکھا جاتا تھا ان کا جُمَّال جو ایک شریف اوربہادر بَدوی تھا اس کا نام عبدالرحمن تھا،حضرت اکبر کا خاص خیال رکھتاتھا ہر جگہ حضرت اکبر کے ساتھ کھڑا رہتاکبھی کسی طرح کی پریشانی اور رکاوٹ کو نہیں آنے دیا ،حضرت اکبرؔ فرماتے ہیں
’’چنانچہ میں نے اپنے معز زگرامی سید ہاشم شیخ کے ہمراہ مخدوش مقاموں میں تمام شب پہرہ دیا ہے ایک حبشی غلام نے ہمارے دوست حاجی باز خاں سوداگر کو رابق کی منزل میںکسی دوسرے آدمی کے دہوکہ میں ایک طمانچہ ماردیاجب ہم مکہ معظمہ سے واپس آئے تو یہ خبر ہمارے مطوف صاحب کو معلوم ہوئی انہوں نے اوس غلام کو تلاش کرکے پکڑوامنگوایا اوسکے مالک کوبھی بلوایا اور بہت سے شیخ جمع ہوئے انہیں یہ بات پیش کی گئی آخر اوس مجلس سے یہ حکم سار ہواکہ اس کی مشکیں باندھ کر سو لکڑیاں ماری جائیں الخ ‘‘(ص۴۰)
حضرت اکبر کا یہ مبارک سفر کئی جہت سے تاریخی اور مبارک رہاہے انہوں نے ملک عرب کامؤرخانہ جائزہ لیا، مسجد عائشہ ہویا مسجد نبوی یہاں کی ہر ایک چوکھٹ کو تفصیلی طور پر تحریر کیا خانہ کعبہ کی بام ودر کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے اور کئی گمنام تاریخی مقامات متبرکہ ہیں جن کے بارے میں قارئین کو حتی الامکان معلومات فراہم کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے ،قرآن و حدیث اور تاریخ و تذکرہ سے بھر ا ہوا حضرت اکبر کا یہ کارنامہ تاریخ عرب کے لیے ایک عظیم سرمایہ ٔ ریاض ہے جس میں، فضائل اوصاف ،الطاف اور اکرام و انعام سب شامل ہے۔
حضرت اکبر کی تحریر کی روشنی کئی دہایئوں کا سفر طے کرنے کا باوصف مدھم نہ پڑی اور اس کے آثار و معارف ہنوز اپنی خوشبو ں کا جال بکھیرے ہوئے ہیں اور شیفتگانِ تحقیقی اور مشتاقانِ علم کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
حضرت اکبر جس وقت حرم شریف میں حاضر ہوئے تو آدھی رات کا وقت تھا اور شب ماہ تھی خانہ ٔ کعبہ کو سیاہ غلاف میں دیکھا اور ہزاروں آدمی طواف میں تھے ۔
سیاہ پوش جو کعبہ کو قیس نے دیکھا
ہوانہ ضبط تو چِلَّا اٹھا کے لیلیٰ
حضرت اکبرفرماتے ہیں کہ
’’میں مبالغہ یہ بات کہتاہوں کہ اس وقت کا حُسن خانۂ کعبہ کا اب تک نہیں بھولتا بے تکلف یہ بات معلوم ہوئی تھی کہ لیلیٰ لباس سیاہ میں کھڑی ہے اور یہ ہزار ہا مجنوں ہیں کہ جنہیں اس وقت اپنے تن بدن کا ہوش نہیں ہے، صدقہ ہورہے ہیں میں بھی اسی بے قراری کی حالت میںصدقے ہونے والوں کے گر وہ میں شامل ہوں پہلے طواف سے فرصت ہوئی اور استفراغ سے فرصت کی مجھے ایک بزرگ نے مبارک باد دی اور کہا کہ خوب جی بھر کے زمزم شریف پی لو تمہیں پھر استفراغ ہو گا چنانچہ میں نے ویسا ہی کیا دوسرے طواف کے بعد واقعی پھر استفراغ ہوا انہی بزرگ نے باب العمرہ کے پاس استفراغ کرایا اور پھر مبارک باد کے جملے ادا کئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ شانہٗ تمہارے دل کی شست و شوب آب زمزم سے کی الحمد اللّٰہ علیٰ احسانہٗ ‘‘(ص۷۰)
اسی درمیان حضرت اکبر کے ساتھ تعجب انگیز حادثہ لا حق ہوا کہ جس وقت وہ حرم شریف میں تھے انہیں ایک برہمن کا شعراتفاقِ وقت یاد آیا اس نے ان کے دل کو مردہ کرنے کی کوشش کی وہ ہزار اپنے خیال کو دوسری طرف پھیرتے مگر وہ شعر ہر بار ورد زباں ہوتا وہ شعر یہ ہے، کفر کفر نباشد
مرا دلیست بہ کفر آشنا کہ چندیں بار
بہ کعبہ بر دم و بازش برہمن او را دم
حضرت اکبر چار روز تک اس حادثے سے پریشان رہے ایک روز میزابِ رحمت کے نیچے کھڑے ہو کر پردہ شریف کو تھام کر دعائیں کیں کہ اے کعبہ شریف کے مالک یہ شعر مجھے بھلا دے اسی وقت دوسرا شعر انہیں یاد آیا بقول اکبر ’’جو کبھی میرے خیال میں بھی نہ تھا یاد آ گیا‘‘اس کا لطف ایسا آیا کہ پھر تا قیامت حرمین شریفین پھر کبھی وہ شعر یاد نہ آیا۔
کعبہ را دیدم دلم از درد تنہائی گداخت
خانہ آرائے کہ مارا خوانہ خود مہمان کیست
اہل مذاق اور سخن فہم حضرات ہی اس کا کچھ لطف اٹھائیں گے حضرت اکبر فرماتے ہیں کہ
’’میری یہ حالت ہو گئی تھی کہ میں حرم شریف میں دوڑتا پھرتا تھااور یہ شعر پڑھتا پھرتا تھا اور سخن فہم حضرات روتے جاتے تھے اور مجھ کوپکڑتے پھرتے تھے‘‘ (ص۷۹)
اس واقعہ کے بعد حضرت اکبر کو دوبارا خانہ کعبہ کے اندر کی داخلی کا شرف حاصل ہوا اس پاک مکان میں بھی حضرت اکبر کی زبان فیض سے ایک شعر موزو ں ہوا تھا۔
او بڑے گھر کے مکیں کعبہ کے مالک داتا
ہم فقیروں سے بھی کچھ شاہدو واحد رہنا
حضرت اکبر فرماتے ہیں کہ
’’اس نے میری اور میرے ساتھ والوں کی حالت اس پاک مکان میں با لکل متغیر کر دی، شیبی صاحب نائب جو ہم کو لے گئے تھے وہ کچھ سمجھتے تو نہ تھے مگر متحیر کھڑے تھے میں اپنی قسمت پر فخر کرتا ہوں اور اپنے مہربان پالنے والے کا شکر کرتا ہوں کہ اسنے ایسے عالی مقام میں مجھ کو جوش عطا فرمایاالحمدا للّٰہ الحمداللّٰہ الحمد اللّٰہ علیٰ احسانہٗ’’ (ص۷۹)
شکر کردن کہ توانم زخود نعمائے تو
شکر نعمت ہائے توچنداں کہ نعمت ہائے تو
حضرت اکبر نے بمبئی والے حاجیوں کا قصہ بھی تحریر کیاہے ،مندرجہ ذیل تحریر سے اس بات کا بھی علم ہوتاہے کہ یہ رسم حضرت اکبر کے عہد میں زور پکڑ چکاتھا ۔
’’بعض حضرات حاجی بمبئی بھی ہوتے ہیں وہ یہاں سے بمبئی تک گئے اور چند روز رہ کر چلے آئے اور عجیب و غریب داستانیں بیان کرنے لگے چنانچہ ایک حاجی بمبئی صاحب کی ایک حکایت بہت مشہور ہے اس کا درج کرنا اس جگہ پر خالی از لطف نہ ہوگا ۔
حکایت جس زمانہ میں کہ ریل اور دوخانی جہازوں کا سلسلہ بھی قائم نہ ہوا تھا ایسے حاجی صاحب اکثر کالے کالے کُرتے پہنے ہوئے تشریف لایا کرتے تھے اور سید ھے سادھے مسلمانانِ ہند کویہ حکایتیں سنایاکرتے تھے ایک حاجی صاحب سے ایک شخص نے پوچھا کہ آپ نے صفا مروہ کی بھی زیارت کی ہے؟ حاجی صاحب نے فرمایاکہ ہا ں ہاں وہ دونوں بھائی بڑے مقدس لوگ ہیں ان سے مجھے بہت ملاقات تھی روزانہ میں ان کے پاس جاتا تھا وہ میرے پاس آتے تھے،سائل چوں کہ کچھ پڑھا لکھاآدمی تھا وہ گھبرایا کہ صفا اور مروہ اور آمد و رفت اس کے کیامعنی ٰ اس نے کہاکہ حضرت صفا اور مروہ تو دوپہاڑوں کا نام سنا ہے آپ ان کو دو آدمی فرماتے ہیں ؟حاجی صاحب نے ارشادفرمایاکہ بھائی صاحب میرے حج کے زمانے تک تو وہ آدمی ہی تھے اب پہاڑ ہوگئے ہوں تو معلوم نہیں‘‘(ص۴۲)
حضرت اکبر نے اپنی کتاب ’’تاریخ عرب ‘‘میں مدینۃ الرسول کے فضائل اور خوبیوں کا تذکرہ نہایت دل نشیں پیرائے میں بیان کیاہے ،ر قم طراز ہیں کہ
’’وہاں روضۂ رسول کے پاس کوئی قدیم عمارت آج موجود نہیں لیکن یہی ایک عمارت مدینہ کے اعزاز و اکرام کے لئے کافی ‘‘ (ص۱۲۴ )
حضرت اکبر نے روضۂ رسول کی جالیوں کو پکڑ کر حضرت نظام الدین اؤلیاقدس اللّٰہ سرہٗ العزیز کا مشہور شعراپنے لطیف انداز میں گنگنایاکرتے تھے۔
صبا بسوئے مدینہ رکن ازیں دعاگو سلام برخواں
صلوٰۃ ربی بروح پا ک جناب خیرالانام برخواں
حضرت اکبر کی جب پہلی نظرروضۂ رسول پر پڑی تو بے ساختہ چند اشعار موزوں ہوا،جسے حضرت اکبر کے والہانہ کیفیت کا ایک خوبصورت حصہ کہاجاسکتاہے ۔
نور یہ نور ہے جلوہ ہے یہ جلوہ اکبرؔ
آنکھیں ٹھنڈیں ہوئی دل ہوگیا روشن اپنا
جاتی نہیں دل سے تمنائے مدینہ
پھرتا ہے مری آنکھوں میں صحرائے مدینہ
کعبے سے میرا خانۂ دل کم نہیں اکبرؔ
روشن ہے یہاں شمعِ تجلائے مدینہ
دل میں اللہ کا گھر آنکھوں میں حضرت کا جمال
میرا کعبہ ہے یہی میرا مدینہ ہے یہی
حضرت اکبر کا زیادہ تر لمحہ حرم شریف میں گزرتا تھا ایک روز عشا ء کی نماز پڑھ کر چند برادران طریقت کے ساتھ مالکی مصلیٰ کے سامنے ذکر واذکار میں مشغول تھے وہیں تب ایک صاحب پیلی بھیت کے رہنے والے نہایت خوش الحان آواز میں منشی خواجہ غلام غوث بیخبرؔ کی یہ غزل آہستہ آہستہ پڑھنی شروع کی
آفت رند و پارسا شدہ چشم بدبد دور خوش ادا شد ہ
بُت بہ بیخانہ و خدا و حرم جلوہ فرما بہ ہر سراشدہ
حضرت اکبر فرماتے ہیں کہ
’’میں کیالکھوں کہ اس وقت کیا حالت لوگوں کی ہوئی ہے بعض عرب جو اہل طریقہ میں سے تھے وہ بھی اس صحت میں شریک تھے ، اور مکیف تھے ہم سناکرتے تھے کہ وہاں ایسی کیفیت پر اعتراض ہوتا ہے مگر ہماری صحبت کا تو کوئی محفل نہ ہوا‘‘ (ص۷۹)
ہر زمانہ اور ر قرن میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے عشاق بکثرت گذرے ہیں ان ہی عشاق میں حضرت اکبر بھی شامل ہیں
مل جاتے ہیں جب دل تو نہیں رہتی ہے دوری
حضرت تو مدینہ میں رہے ویس قرن میں
حضرت کو عشاق مصطفیٰ سے ایک خاص اُنسیت بھی تھی انہوں نے اپنی کتاب میں کئی عشاق کا تذکرہ جمیل کیاہے ان میں حضرت عبدالرحیم بُرَعی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے روح ان کو خاص اُنسیت تھی،حضرت عبدالرحیم بُرعی کو کئی سو برس کا عرصہ ہوا شان عجیب رکھتے تھے ، مُلک یمن کے ایک ملک التجار کے فرزند تھے بڑی ناز ونعمت سے پرورش پائی نعت گوئی کا شوق تھا، والد کی رحلت کے بعد کڑوڑوں روپیہ ترکہ میں پائے تھے سب محافل نعت کے اہتمام میں صرف کردیا جب مدینہ طیبہ کا قصد کیا تو روک دیئے جاتے تھے ان کو روکنے کے قصے زبان عرب پر بہت جاری ہیں، کئی مرتبہ روکا گیا آخر بار چہارم یا پنجم منزل خلف پر روکے گئے اور وہیں آپ انتقال کرگئے ان کے مزار پر گنبد واقع ہے ۔
حضرت اکبر فرماتے ہیں
’’میں نے حرم محترم کے باب العمرہ پر ایک عربی کم عمر بچے کو انہیں حضرت کے چند قصائد پڑھتے ہوئے دیکھا اس کے گرد ا گرد سامعین کا ہجوم تھا، وہاں (مزار حضرت عبدالرحیم بُرَعی رحمۃ اللّٰہ علیہ ) مدینہ طیبہ واپسی کے وقت ہمارا قافلہ ٹہراتھا میں نے پوری دلائل شریف ان کی قبر مبارک پر پڑھی بتاریخ ۱۹؍ محرم الحرام ۱۳۰۲ھ حضرت کے قبے میں حاضر ہوکر ایک دلائل الخیرات پڑھی،۲۰؍محرم الحرام ۱۳۰۲ھ صفر اوادی میں قیام کیا صبح کو حضرت ابو ذر غفاری اور ان کے صاحبزادہ کے مزارپر حاضر ہوا ،رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما، ۲۳ ؍محرم الحرام ۱۳۰۲ھ کو قافلہ ینبوع پہنچا وہاں سے شبین جہاز جو حذیوں مصرکی ڈاک لئے جاتا تھا، سوار ہوکر ۲۷ ؍محرم الحرام کو جدہ پہنچا جس میں ایک ماہ کے قریب قیام رہا‘‘ (اشرف التواریخ ،جلد اول ،ص۴۳)
عرب کی زبان بڑی فصیح و بلیغ وسیع ومنضبِط اور پُر شوکت زبان ہے حضرت اکبر عربی زبان سے متعلق اپنا واقعہ چشم دید تحریر کرتے ہیں
’’مدینہ کے راستے میں چھوٹے چھوٹے بچے قافلہ کے اونٹوں کے سامنے دامن پھیلائے ہوئے سوال کرتے ہیں اور ان کی زبان سے یابِلی یابِلی یہی لفظ نکلتاہے میں نے ایک روز عبدالرحمن سے پوچھا کہ یہ بچے یَابِلی یابِلی کیاکہتے ہیں اوس نے کہا تمہارے مطوف صاحب بڑے صحیح النسب عرب ہیں ان سے پوچھنا کہ یہ کیاکہتے ہیں میں نے ہاشم شیخ سے پوچھا انہوں نے تشفی بخش جواب نہ دیا میں عبدالرحمن سے کہاوہ بہت ہنسا اور کہاکہ یہ مکہ میں رہ کے اپنے محاورات بھول گیا یہ بچے یَااَبِی الَیَلْ کہتے ہیں یعنی اے رات کے چلنے والے مسافر کچھ ہم کو بھی دے ،مکہ معظمہ میں چوں کہ ہر ملک کے آدمی ہیں لہٰذا ان لوگوں کے اختلاط سے زبان عربی خراب ہوگئی ہے ،اطراف مکہ کے جو بَدوی ہیں ان کی زبان بہت فصیح ہے اور وہی بَدوی صحیح النسب بھی ہیں وہ اپنے بال بچوں کا پیوند اپنی قوم ہی میں کرتے ہیں اور خود لڑکیا ں ان کی اس امر میں بہت شدت کرتی ہیں اگر شادی ان کی کفو میں ہو تو خاموش رہتی ہیں اور اگر کوئی ولی ان کا کسی غیر کفو میںکرے تو وہ خود جواب دیتی ہیں کہ ہم کو اپنے نسب کو خراب کرنا منظور نہیں ہے، چنانچہ ہمارے پٹنہ عظیم آباد پٹنہ کے ایک بڑے امیر صحیح النسب سید نے مکہ معظمہ میں ہاشم شیخ کی بہن شمسیہ سے شادی کرنے کا قصد کیا اور پیام دیاگیا اور یہ بات اس لڑکی سے کہی گئی کہ ایک لاکھ روپیہ سال سے زیادہ کی ہماری آمدنی ہے ہم سب تم کو لکھ دیں گے اور اس کامالکہ کردیں گے اس لڑکی نے کیاخوب شائستہ جواب دیا کہ عرب وہند کا پیوند ایمان میں تو ضرور ہے نسب میں نہیں ہے اور اس لڑکی نے شادی نہ کی گو اس کے باپ رضا مند تھے مگر وہ کچھ نہ کرسکے وہ نیک بخت باعصمت بی بی ہنوز زندہ ہے اور اپنی قوم کے غریب شوہر کے ساتھ زندگی بسر کررہی ہے ‘‘ (ص۴۱)
حضرت اکبرعرب کی پیداوار چیزوں سے متعلق فرماتے ہیں کہ
’’عربستان کی مشہور پیداور وں میں کھجور کا ذکر کرنا ضرور ہے کھجور تو باشندگان ملک کی بڑی غذا ہے اور قہوہ پیداوار تجارتی اور مال و دولت کے حاصل کرنے کا ذریعہ ہے علاوہ ان کے بعض پیداور ان مخصوص بھی ہیں مثلاً لوبان، تیج پات، سنامکی، باسای، جن کی تجارتی قدیم الایام سے عربستان سے ہوتی ہے ،الخ ‘‘ (ص۲۶)
حضرت اکبر عربی جانوروں سے متعلق رقمطراز ہیں کہ
’’عربستان کے کل جانور وں میں گھوڑا اونٹ یہ دونوں جانورہیں جو انسان کے لئے بہت زیادہ بکار آمد ہیں،اونٹ توگیا خاص الخاص عربستان کاجانور ہے،اونٹ حقیقت میں بہت کم خوراک جانور ہے اور ایسی چیزیں کھاکر جیتاہے جن پر دوسرے جانور ہرگز زندہ نہیں رہ سکتے جب کبھی کسی اونٹ پر زیادہ بوجھ ہوتاہے کہ جس کو وہ اٹھانہیں سکتا اگر کوئی خوش آواز جُمَّال حُدِّی گائے تو وہ اس ناقابل برداشت بوجھ کو لے کر اٹھ کھڑا ہوتاہے اوراس خوش آواز کے نشے میں راستہ طے کرلیتاہے‘‘ (ص۲۷)
حکایت حضرت اکبر اپنے والد ماجد،قبلہ و کعبہ ،جسم وجاں حضرت مخدوم محمد سجاد پاک رحمۃ اللّٰہ علیہ کے حج کی روایت یوں ارشاد فرماتے ہیں کہ
حکایت حضرت مخدوم محمد سجاد پاک فرماتے ہیں کہ ایک روز ایک اونٹ باب السلام کی طرف سے روضۂ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم میں گھس آیااور مواجہہ شریف کے طرف آکر گِر پڑا حاضرین مسجد نبوی اُسے مارنے لگے عمر پاشا جو اس وقت حاکم فوج تھے سلطانی تھا وہاں حاضر تھا اس نے لوگوں کومارنے سے منع کیا اور خود اس اونٹ کے پاس آیا اور اس کی حالت سے معلوم کیاکہ یہ بھوکا ہے وہیں کچھ چارہ وغیرہ منگوایا اور اسے کھیلایا جب اس میں طاقت آئی تو وہ اٹھا عمر پاشانے حکم دیاکہ اسے عزت کو میرے اصطبل میں باندھ دو اور دریافت کرو کہ کس کا اونٹ ہے اور مسجد نبوی زاد اللّٰہ شرفاً و تعظیماً کی طہارت کا حکم دیا جب اس کا مالک آیا تو دریافت کیا وہ اس کو باندھ کر مناخہ میں بٹھایا گیاتھا یہ چودہ پندرہ روز تو بیٹھا رہاآخر اپنے پاؤں سے رسّی توڑ تاڑ کر یہاں فریاد کو پہونچا ،عمر پاشا نے اونٹ والے کو تنبیہ کی اور اس اونٹ کی اس کو معقول قیمت دے کر خرید لیا اور اپنے اصطبل میں رکھنے کا حکم دیا اور کہہ دیا کہ کوئی شخص اب اس پر سوار نہ ہو اور عمدہ غذا اسے کھانے کو ملا کرے یا رسول اللہ میری ماں باپ اور بچے آپ پر نثار اے اونٹ کے فریاد سننے والے میری فریاد بھی سُن لے اور اپنے خدا سے میری سفارش کر دے
یَارَسُوْلَ اللّٰہ اُنْظُرْ حَالَنَا
یَا حَبِیْبَ اللّٰہ اِسْمَعْ قَالَنَا
اِنَّنِیْ فِیْ بحَِرْھَمٍّ مُغْرَقٌ
خُذْیَدِیْ سَھِّلْ لَنَا اَشْکَالَنَا‘‘ (ص۲۸)
عربی گھوڑے اپنے مالک کوخوب اچھی طرح پہچانتے ہیں وہ اپنے مالک کے وفا دار اور انسانوں کے کام آنے والے ہوتے ہیں ،حضرت اکبر ؔ فرماتے ہیں
’’میرے چھوٹے چچا صاحب قدس سرہٗ نے اپنی فٹن کے لئے بمبئی سے ایک جوڑی عربی گھوڑوں کی منگوائی ،بڑا اہتمام اس کے لانے کاکیاگیا یہ وہ زمانہ تھاکہ ریل کا وجود بھی قائم نہیں ہوا تھا منزل بہ منزل وہ جوڑی داناپور کو پہونچی واقعی عربی گھوڑے دونوں سبز ے تھے سات ہزار روپے ان کی قیمت تھی حضرت چچا صاحب قدس سرہٗ اپنے ہاتھ سے ا ن کو بسکٹ جلیبیاں اور میٹھائی وغیرہ کھلایاکرتے تھے ایسے عربی گھوڑے تھے کہ چھوٹے چھوٹے بچے ان کے پیٹ کے نیچے بیٹھے رہتے تھے اور وہ کسی کو صدمہ نہیں پہونچاتے تھے جب حضرت چچا صاحب قدس سرہٗ نے انتقال فرمایا گھوڑوں نے دانہ چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ تھوڑے دنوں میں مرگئے ‘‘ (ص۳۰)
حضرت اکبر کہتے ہیں کہ
’’ہمارے ہاں جو چھترکامیلہ ہوتاہے اس میں ہر سال ہزاروں گھوڑے آتے ہیں اس شان و شوکت کاتوکوئی گھوڑا نظر سے نہیں گذرا ہمارے پٹنہ کے رئیس شاہ لیاقت علی ہیں ان کو شریف صاحب نے اپنے اصطبل کاایک بوڑہا تڑیل گھوڑا دے دیابمبئی کے سوداگراس کی قیمت تین ہزار روپیہ دیتے تھے ‘‘ (ص۱۱۳)
حضرت اکبر طائف شریف سے متعلق فرماتے ہیں
’’طائف شریف مکہ معظمہ سے تین منزل ہے وہ ایک چھوٹاسا پہاڑ ہے متوسط درجہ کا بلند ہے اور بہت سرد ہے میوہ جات وہاں بہت ہوتے ہیں ،اُمرائے مکہ کے باغات وہاں بہت ہیں شریف کابھی ایک عمدہ باغ ہے وہیں سے مکہ معظمہ اور جدہ شریفہ میں میوہ جات آتے ہیں‘‘ (ص ۴۸)
حضرت اکبر تعمیر و منزل اور نہر کے بارے میں لکھتے ہیں
’’مکہ کو تعمیر کی حیثیت سے عربستان کے اور شہر وں پر فوقیت ہے کیوں کہ اس کی عمارات نہایت باقاعدہ ہیں پانی مکہ میں بہت کم ہے پینے کا پانی جبل عرفات سے جومکہ معظمہ سے کئی گھنٹے کی راہ ہے ایک نہرکے ذریعہ سے آتا ہے اس نہر کو نہر زبیدہ کہتے ہیں ،ہارون الرشید خلیفۂ بغدادکی زوجہ نے یہ نہر بنوائی ہے مگر اب مکہ معظمہ میں پانی کی کثرت ہے یہ نہر صاف کی گئی ہے اور کوچہ بہ کوچہ پانی کی ٹوٹیاں لگادی گئی ہیں، اب زمانہ حج میں حاجیوں کو کسی طرح کی تکلیف نہیں ہوتی، شہر بھی بہت صاف رہتا ہے صفائی کا انتظام بہت اچھا ہے‘‘ (ص۴۹)
حضرت اکبر نے زمزم شریف کے کئی فوائد گنائے ہیں انہوں نے حدیث اور طبی فوائددونوں کے حوالوں سے بات کی ہے ۔
’’جس شخص کو بسیار خواری کا عارضہ ہوتو وہ آب زمزم کوخوب آسودہ ہوکر پیے، حکیم مولوی عبدالسلام صاحب میرے ایک بھائی ہیں وہ بہت زمانہ تک مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ میں رہے مجھ سے کہنے لگے کہ اگر چند روز اور میں یہاں رہاتو اپنا فن بالکل بھول جاؤں گا کوئی مریض یہاں اطبا کے پاس نہیں آتا مکہ میں صرف زمزم شریف جملہ امراض کی دوا ہے اور مدینہ طیبہ میں عجوہ کھجور عارضوں کے لئے تریاق کا حکم رکھتی ہے‘‘ (ص ۷۶)
حضرت اکبر اپنے سفر حج کے دوران کئی چیزوں کا تذکرہ کرتے ہیں ، وہیں حافظ محمد سعید نامی بزر گ صفت انسان کا بھی تذکرہ خوش دلی سے کرتے ہیں ،فرماتے ہیںکہ
’’ایک میرے دوست حافظ محمد سعید بھی انہیں حاضر باشوں میں سے ہیں دس بارہ برس سے زیادہ کے حاضر باش ہیں بعد نماز عشا کبھی محراب نبی کبھی محراب عائشہ میں روزانہ صبح تک نفلوں میں ایک قرآن ختم کرتے ہیں اور بعد نماز صبح اپنے مکان پر آکر کچھ تھوڑا تنفل کرکے آرام کرتے ہیں اور نودس بجے اُٹھ بیٹھتے ہیں ،دوپہر کاکھانا دوستوں کے ساتھ کھاتے ہیں اور عصر کے وقت کھانا کھاکر داخل مسجد شریفہ ہوجاتے ہیں ،مجرد ہیں، سلطان رومخَلَّدَ اللّٰہُ مُلْکَہٗ کے حضور سے ان کا وظیفہ مقرر ہے کچھ جمع نہیں کرتے سب دوستوں کی نذر کردیتے ہیں ،اللہ تعالیٰ شانہٗ نے تندرستی کی دولت بھی عطا فرمائی ،فرماتے تھے کہ بارہ تیرہ برس سے ایک شب کی بھی غیر حاضری مسجد شریفہ سے نہیں ہوئی اور پھر دریافت کرنے سے معلوم ہواکہ ایسے بہت سے حاضر باش ہیں مگر مجھ سے اوروں سے ملاقات نہیں ہوئی جابجا لوگوں کو نفل پڑھتے ہوئے تمام رات دیکھا لیکن ان کے حالات سے واقفیت تامہ نہ ہوئی‘‘ (ص ۱۴۳)
حضرت اکبر داناپوری اپنا مشاہدہ لکھتے ہیں کہ
’’قصبہ مونگیر کے رہنے والے ایک شخص جن کا نام میاں جان تھاجب ان کو پینشن لینے کا اتفاق ہواتو ان کو داناپور کی آب و ہوا پسند ہوئی تو انہوں نے یہیں کی سکونت اختیار کی ہم سے ان سے بہت رابطہ تھا اور آمد و رفت بھی تھی وہ نہایت باوضع اور خوش خلق آدمی تھے اتفاق وقت ہے کہ یہ خطا ان سے ہوگئی اور اس کا نتیجہ ان کے واسطے سخت دردناک ہوا ایک مدنی ان کے ہاں آئے ان سے کچھ سوال کیا انہوں نے ان کو نہ دیا اور خلاف عادت نہایت سختی سے جواب دیاان کے ہاتھ میں تسبیح تھی مدنی صاحب نے ان سے پوچھا کہ یہ تسبیح کہاں کی ہے ،ڈاکٹر صاحب نے کہاکہ مدینہ کی ہے مدنی صاحب نے وہ تسبیح ان سے لے لی اور کہاکہ جب تم کو مدینہ کے لوگوں سے محبت نہیں ہے تو تسبیح سے کیاکام ہے وہ تسبیح لیے ہوئے مدنی صاحب اپنی فرودگاہ پرچلے آئے ،ڈاکٹر صاحب نے تھانہ پر اطلاع کی اور ان کو گرفتا ر کرایا مدنی صاحب نے جو واقعہ تھا صحیح صحیح بیان کردیا بیچارے مدنی صاحب تین مہینے کے لئے قید ہوگئے چند ماہ بھی نہ گذرے تھے کہ ڈاکٹر صاحب نے انتقال کیا اور تمام گھر اور اثاث البیت و غیرہ تباہ وبرباد ہوگیا ان کا بیٹابھی غریب اس شہر سے چلاگیا کچھ پتا نہیں وہ کہاں ہے، ڈاکٹر صاحب اپنی زندگی ہی میں کچھ ایسے ایسے جھگڑوں میں مبتلا ہوئے کہ جن کے بیان سے شرم آتی ہے ،یااللہ توبہ،یا اللہ توبہ،یاللہ توبہ‘‘ (ص ۱۵۵)
حضرت اکبر داناپوری کے سفر حج سے متعلق مولانا عبدالرحیم صادق پوری رقمطراز ہیں کہ
’’جناب شاہ محمد اکبر صاحب سے اس فقیر کی اول ملاقات ۱۳۰۱ھ تیرہ سوایک ہجری سفر حج میں ہوئی اور تمام سفر حرمین شریفین میں چند مہینوں تک ساتھ از بسکہ خلیق پایا‘‘ (تذکرہ صادقہ ،ص ۱۸)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.