Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

درگاہیں: روح کی پناہ گاہیں یا بازار کی رونق؟

ریان ابوالعلائی

درگاہیں: روح کی پناہ گاہیں یا بازار کی رونق؟

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    دنیا کی تھکی ہوئی روحوں کے لیے درگاہیں ہمیشہ سے ایک ایسا سایہ دار شجر رہی ہیں جہاں محبت، امن اور بھائی چارے کی ٹھنڈی چھاؤں میسر آتی تھی، جب زندگی کے تھپیڑے تھکا دیتے تھے، جب حسرتیں آنکھوں میں تیرتی تھیں اور دل غم کے بوجھ تلے دب جاتا تھا، تب لوگ کسی درگاہ کے آستانے پر سر رکھ کر، اپنی الجھنوں اور دکھوں کا بوجھ ہلکا کرتے تھے۔

    دل ہے وہ دل جو تیری یاد سے معمور رہا

    سر ہے وہ سر جو تیرے قدموں پہ قربان گیا

    دہلی کی پُرشور گلیوں سے گزرتے ہوئے حضرت نظام الدین اؤلیا کے آستانے پر حاضری دینے والے ہوں یا راجستھان کی تپتی ریت میں سفر کر کے اجمیر شریف پہنچنے والے، ہر ایک کے دل میں یہی امید ہوتی ہے کہ انہیں وہاں وہ پناہ ملے گی جہاں نہ کوئی اونچ نیچ ہو، نہ رنگ و نسل کی دیواریں، نہ مسلک و مذہب کی تفریق، درگاہیں اسی مساوات کا مظہر ہوا کرتی تھیں جہاں دل کی سچائی ہی اصل پہچان تھی۔

    بچپن میں ہم نے یہ بات بارہا سنی کہ ’’صوفی گناہ سے نفرت کرتے ہیں، گناہگار سے نہیں‘‘ یہ تعلیم انسان کو سکھاتی ہے کہ اصل چیز ظاہر نہیں بلکہ باطن ہے، آنے والے کی نیت دیکھی جاتی ہے، اس کا خلوص پرکھا جاتا ہے، اس کے اعمال کی قیمت نہیں لگائی جاتی لیکن افسوس! وقت کی گردش نے آج اس نقش کو کچھ دھندلا کر دیا ہے، اب بعض درگاہوں پر روحانیت کی جگہ مادیت نے اپنے خیمے گاڑ دیے ہیں، ایسے کئی واقعات سننے میں آئے ہیں جہاں زائرین، جو دل کی بے قراری لیے فاتحہ پڑھنے جاتے ہیں، تھوڑا وقت گزارنے اور راحت کی سانس لینے جاتے ہیں، انہیں پہلے نذرانہ پیش کرنے کا حکم دیا جاتا ہے، ڈرایا جاتا ہے، طرح طرح کے وہم و گمان ان کے ذہن میں ڈالے جاتے ہیں اور اگر کسی نے پلٹ کر سوال پوچھ لیا کہ کیا یہ صحیح ہے تو طرح طرح کے حیلے اور بہانے بنانے لگتے ہیں، تاویلات کرنے لگتے ہیں اور پھر درگاہ کے خدام کچھ ایسا کہتے ہیں جس کا مطلب صاف صاف یہ ہوتا ہے کہ ’’آپ اگر نذر و نذور پیش نہیں کریں گے تو کوئی خاص توجہ نہیں ملے گی‘‘ اور اگر وہیں کوئی بڑا سرمایہ دار آ جائے تو اس کے لیے خاص اہتمام ہونے لگتا ہے، آستانہ کے اندر سے لوگوں کو نکال کر انہیں خاص طور پر زیارت کرائی جاتی ہے۔

    اب وہ مقام جہاں کبھی انسان دوستی کے دریا بہتے تھے، ایسا لگتا ہے جیسے ہر دستک سے پہلے قیمت پوچھی جاتی ہے، جیسے اب دعا کی قبولیت بھی ایک سودا بن چکی ہو۔

    کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا

    بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا

    اسی طرح اجمیر شریف میں بھی اکثر زائرین کو شکوہ کرتے سنا ہے، ان کا کہنا ہے کہ نماز کے دوران نذر و نذور کا سلسلہ جاری رہتا ہے، ادھر شاہجہانی مسجد میں جماعت کھڑی ہے اور ادھر وہاں کی ٹولی تحفہ و نذور میں مصروف ہیں، منہ میں پان کی گلوری، بدن پر طرح کے مجسمے اور زبان - زبان تو خدا معاف کرے، اتنا بھی پاس و لحاظ نہیں کہ آستانہ کے اندر خاموش رہا جائے، رجسٹر لے کر درگاہ کے دروازہ پر کھڑے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’جنت میں نام لکھوانا ہو تو کچھ نذر کیجیے‘‘

    محبت کے اس مرکز میں اب کہیں کہیں سوداگری کی بازگشت سنائی دیتی ہے اور دل بے اختیار کہتا ہے کہ کہاں وہ درگاہیں جہاں دروازے سب کے لیے کھلے تھے اور کہاں یہ حال کہ ہر قدم پر قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔

    شرم تو اس وقت مجھے آئی کہ میرے ساتھ جب بعض افراد دوسرے مکتبۂ فکر کے تھے تو اتفاق سے انہوں نے کہا کہ چلیے آج حضرت نظام الدین اؤلیا کی درگاہ پر چلتے ہیں، پہلے کبھی جانا نہیں ہوا، مرکز سے ہی لوٹ جاتے تھے، آج چلا جائے، میں ادھر درگاہ میں وضو بنانے کو گیا اور ادھر ان لوگوں کے ساتھ جو ہوا اس کے بعد میری نظر بھی شرم سے جھک گئی، کہنے لگے ارے میاں! آپ یہاں کیسے آتے ہیں، یہاں تو قدم قدم پر لوگ پریشان کرتے ہیں، سکون کو دو پل بھی یہاں میسر نہیں ہیں۔

    میں خود ایک صوفی گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں، خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور بہار کی سات سو سالہ تاریخ کا ایک ادنیٰ سا فرد ہوں، میرے بزرگ حضرت امام محمد تاج فقیہ، حضرت سیدنا امیر ابوالعلا اور حضرت شاہ اکبر داناپوری وہ ہستیاں ہیں جن کی زندگی کا ہر لمحہ محبت، عاجزی اور خدمت کی خوشبو سے مہک رہا ہے، اسی نسبت سے میں یہ بوجھ اپنے دل پر محسوس کرتا ہوں کہ اس حوالے سے کچھ لکھوں، کیوں کہ تصوف تو اپنی ذات کو مٹا دینے کا نام ہے، دوسروں کو عزت دینے کا راستہ ہے، نہ کہ زائرین سے پیسہ اینٹھنے کی چالاکی۔

    ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان لوگوں کی ان حرکتوں سے زائرین کس طرح سے غم زدہ ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے درگاہ بدنام ہوتی ہے بلکہ تمام افراد جو تصوف سے وابستہ ہیں وہ شرم سے نیچے نظر کر لیتے ہیں، یہ زائرین ان خداموں کے رویہ کے بارے میں جب اپنے تاثرات کا اظہار عوام میں کرتے ہیں تو محبانِ خواجہ کو دلی تکلیف ہوتی ہے، یہ خدام لوگ خدارا ہوش کے ناخن لیں اور اپنی رویہ میں مثبت تبدیلی لے آئیں، سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اب کسی کو ویڈیو گرافی سے روک نہیں سکتے ہیں، اگر آپ سچے خادم ہیں تو خواجگانِ چشت کے اخلاق کو اپنی ذات میں اتاریں اور زائرین کو خوش رکھیں ان کو اپنے اعتبار سے درگاہ میں اپنی خراج عقیدت پیش کرنے کا مناسب موقع دیں۔

    دوسرے شہر سے ایک فیملی آئی اور پریشانی کے عالم میں اس نے حاضری دی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہیں اس کی پریشانی کا فائدہ اٹھا کر اسے ڈرا دیا گیا، بےچارہ مرتا کیا نہ کرتا اس نے روتے بلکتے اپنی جان کی قیمت سمجھ کر ادا کر دی، ہاں! اگر کوئی خوشی سے دے تو یہ اور بات ہے، کیا لکھوں اور کیا چھوڑوں ہر ایک لفظ نشتر بن کر چبھ رہا ہے۔

    پرانے خدام کا حال کچھ اور ہی تھا، وہ اگر دیکھتے کہ کوئی زائر تہی دست ہے تو اپنی جیب سے اس کی مدد کرتے، راستہ دکھاتے، کھانے اور رہنے کا بندوبست کرتے، نرمی سے پیش آتے، ان کے نزدیک درگاہ کی خدمت ایک عبادت تھی، نہ کہ تجارت لیکن آج جب بعض درگاہوں پر پیسے کی طلب نے خلوص کو زنگ آلود کر دیا ہے تو یہ منظر دیکھ کر دل سے بے ساختہ آہ نکلتی ہے، کچھ لوگ تو یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ ہم اپنی مسجدوں میں، اپنے مراکز میں ہی اچھے ہیں، جہاں دعا مانگنے پر کوئی قیمت نہیں لگائی جاتی۔

    تاہم یہ بھی سچ ہے کہ آج بھی کچھ خدام ایسے ہیں جو اپنے بزرگوں کی روش پر قائم ہیں، وہ محبت سے پیش آتے ہیں، زائرین کا خیال رکھتے ہیں جیسا کہ ایک صاحب نے بتایا کہ ایک مرتبہ میں حضرت نظام الدین اؤلیا میں افطار کے وقت پہنچا اور جگہ نہ ملنے کی وجہ سے سیڑھیوں پر بیٹھ گیا، اتفاق سے ایک امام صاحب کی نظر مجھ پر پڑھی فوراً انہوں نے مجھے اپنے پاس بلا کر افطار کرایا اور عزت دی یہ منظر دیکھ کر امید کی ایک کرن دل میں جاگ اٹھی۔

    سو یہ کہنا بجا ہوگا کہ اگر چہ درگاہوں پر زمانے کی گرد جم گئی ہے مگر ہر درگاہ میں کچھ چراغ ابھی بھی روشن ہیں جو محبت کی روشنی کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، ہمیں امید ہے کہ وہ تمام افراد جو مادیت کی راہ اختیار کر چکے ہیں وہ خواجہ معین الدین چشتی اور حضرت نظام الدین اؤلیا کی تعلیمات کی طرف متوجہ ہوں گے، اتنی عظیم ہستیوں کی بارگاہ میں خدمت کرنے والے یہ خدام کب مشائخ کی طرز کو اپنائیں گے۔

    میراث میں آئی ہے انہیں مسندِ ارشاد

    زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن

    آج کی سب سے بڑی ضرورت یہی ہے کہ ہم درگاہوں کی اصل روح کو واپس لائیں، ایسی روح جہاں خلوص ہو، محبت ہو، خدمت ہو اور سب سے بڑھ کر عاجزی ہو، جہاں زائر، خواہ جیب خالی لے کر آئے مگر دل بھر کر لوٹے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے