ذکرِ خیر حضرت بہلول قادری نظام آبادی
برصغیر کے روحانی نقشے پر نظام آباد (دکن) کی درگاہِ حضرت سید امان اللہ حسینی ایک درخشندہ چراغ کی مانند رہی ہے، اسی عظیم روحانی سلسلے کے چشم و چراغ، متواضع اور باکمال بزرگ عارف الحق حضرت سید بہلول طبقاتی قادری نظام آبادی تھے، جن کی زندگی تقویٰ، علم، فقر، عشقِ الٰہی، خدمتِ خلق اور ادب و عرفان سے عبارت ہے۔
بہلول شاہ 1301ھ بمطابق 1881ء میں ریاست حیدرآباد دکن کے مشہور شہر نظام آباد میں پیدا ہوئے، آپ کا تعلق درگاہِ حضرت سید امان اللہ حسینی سے تھا، جو قلعے کے عقب میں واقع ہے اور جسے عوام الناس بابن صاحب کی پہاڑی کے نام سے یاد کرتے ہیں، اس خانوادے کا فیض اہلِ دکن پر کئی نسلوں سے جاری رہا ہے۔
آپ نے آٹھ سال کی عمر میں قرآنِ کریم کی تجوید اور قرأت مکمل فرمائی، اس کے بعد فارسی اور عربی ادب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی، آپ نے شیخ سعدی کی بوستاں اور گلستاں، مولانا جلال الدین رومی کی مثنوی، کلیلہ و دمنہ جیسے متون کا گہرائی سے مطالعہ فرمایا۔
علمِ تجوید و قرأت آپ نے حضرت سید اکبر علی مہاجر مکی اور قاری عبداللہ سے حاصل کیا، جب کہ علومِ تفسیر، حدیث، فقہ اور تصوف میں مولوی سید اسحاق چشتی بدایونی آپ کے استاد رہے، فنِ خطاطی میں نظام آباد کے ممتاز وکیل مولوی محمد صدیق صاحب سے فیض پایا، شاعری میں مختلف اساتذہ سے اصلاح لی اور عربی و فارسی زبان پر عبور حاصل کیا۔
روحانیت کی ابتدائی تعلیم آپ کو اپنے والدِ ماجد حضرت سید مدنی ابوالمعانی سے ملی، جب کہ معنوی فیض حضرت سید امان اللہ حسینی سے حاصل کیا، معرفت کے دقیق مباحث کی تکمیل کے لیے آپ نے مکن پور جا کر حضرت شاہ عالم کی صحبت میں رہ کر تعلیمِ معرفتِ خمسہ حاصل کی۔
ظاہری علوم کے ساتھ ساتھ سلوک و طریقت کے مراحل کے لیے آپ نے حضرت سید امیر الدین مجرد (سجادہ نشیں : درگاہ شاہ مکھا اؤلیا، ناندیڑ) کے دستِ حق پر بیعت کی، آپ کو 12 برس کی طویل اور سخت مجاہدہ بھری تربیت سے گزارا گیا، اس عرصہ میں درج ذیل سخت احکام پر پابندی لازم کی گئی۔
(۱) موٹر گاڑی کی سواری ترک (۲) پلنگ یا بالا خانے پر سونا ممنوع (۳) نرم بستر پر آرام سے اجتناب (۴) مرغن غذا جیسے بریانی سے پرہیز (۵) کرسی پر بیٹھنے سے پرہیز (۶) تمباکو، پان، سگریٹ نوشی مکمل ممنوع (۷) لایعنی گفتگو، مناظرے، مباحثے اور غیرضروری میل جول سے اجتناب۔
آپ نے اس طویل تربیت کو صبر و رضا کے ساتھ پورا کیا، اس کے بعد پیرِ کامل نے آپ کو تسبیح، مصلیٰ اور کشکول عنایت فرمایا اور فرمایا کہ
“ہندوستان کے اؤلیائے کرام کے مزارات پر حاضری دو، کثرت سے روزے رکھو اور عالی مرتبت صوفیہ سے ادب کے ساتھ زانوئے تلمذ طے کرو”
آپ نے اس حکم کی تعمیل میں برصغیر کے بڑے روحانی مراکز کا طویل سفر کیا، اجمیر شریف، مکن پور، دہلی، کلکتہ، ممبئی، سورت وغیرہ، ان اسفار کا مقصد محض زیارت نہیں بلکہ نفس کی تہذیب اور عرفان کا فروغ تھا، اجمیر شریف میں قیام کے دوران آپ کو سلسلۂ چشتیہ میں خلافت عطا کی گئی، جب کہ پہلے ہی آپ کو اپنے پیر و مرشد سے سلسلۂ قادریہ کی خلافت حاصل تھی۔
آپ نے خانقاہی خدمات کا آغاز مسجد قلعہ کی پیش امامی سے کیا اور دنیاوی ملازمت کو خیر باد کہا، مسجد سے متصل اپنے مکان میں مدرسہ صوفیہ دینیات قائم فرمایا، جہاں بچوں اور بچیوں کو دینی تعلیم دی جاتی رہی، آپ کی زندگی سادگی، زہد، عبادت اور تعلیم و تبلیغ سے بھرپور تھی، پیش امامی کے ساتھ ساتھ کچھ زراعت کو ذریعہ معاش بنایا، تاکہ خانقاہی خودداری برقرار رہے۔
بہلول شاہ صرف عارفِ کامل ہی نہیں بلکہ ایک بلند پایہ صوفی شاعر، مصنف اور نثر نگار بھی تھے، آپ کی نثر میں صوفیانہ گہرائی اور شاعری میں معرفت کی روشنی نظر آتی ہے، آپ کی متعدد کتب و دیوانات اہلِ دل کے لیے ایک قیمتی روحانی خزانہ ہیں۔
آپ کہتے ہیں کہ جانور ہو یا انسان، سب کے ساتھ احسان کرو، اس سے مدارج بڑھتے ہیں اور آخرت میں مغفرت حاصل ہوتی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ
آدمی اسرار ہے سبحان کا
اور سبحان بھید ہے انسان کا
ذات و صفات کو لازم جانو ایسا آپ کہا کرتے تھے، قیل و قال بے کار ہے بلکہ عمل ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ بطور عاجزی بہلولؔ فرماتے ہیں کہ
حوصلہ میرے قلم کو ہے کہاں
جو لکھے احوالِ جذبِ عارفاں
ہوں میں باشندہ نظام آباد کا
شاعری میں منققر ہوں صاد کا
گانے والوں کی تو اک آواز ہے
مطرب دردی کا اک اعجاز ہے
جب تلک باقی خودی رنگ گلاب
کن نفئی خود ولا ہوالصواب
ہے یہ تعلیم وجودی بانظام
بہر احبابِ طریقی والسلام
’’مرنے سے پہلے مرد‘‘ کے سلسلہ میں تفہیم فرماتے ہیں کہ
قبل مرنے کے مرین ایسا ہنر پیدا کر
جانِ جاناں سے ملیں ایسی نظر پیدا کر
کلمہ لا سے نفی ہستی کی کر لے بہلولؔ
روشنیٔ قلب میں پھر مثلِ قمر پیدا کر
مزید فرماتے ہیں کہ
ہوگئیں ہزار شکلیں آئینہ چور ہوکر
کوئی سما رہا ہے آنکھوں میں نور ہوکر
بہلولؔ جو خودی کو اپنی کیا فنا ہے
مطلوب کو وہ جانا ہستی سے دور ہوکر
حال و مقام سے متعلق اظہارِ خیال فرماتے ہیں کہ
کیا قلم میرا لکھے حال و مقام درویش
ہے زمانے کے سوا رنگِ کلام درویش
جانتے ہیں کہ صحو اور محو ہے کیا چیز
پی لیا جب سے صبح ہم نے جو جامِ درویش
نہ ہو بہلولؔ طلب گار کرامت اصلا
خود شناسی و خدا دانی ہے کامِ درویش
مختلف نکات کے مختلف اشعار دیکھیے اور دل ہی دل میں داد دیجیے۔
زاہد مریضِ عشق کی کوئی دوا نہیں
ڈھونڈا طبیب پر کہیں نسخہ ملا نہیں
پیرِ مغاں کے در پہ ہوئی عمر سب تمام
میں رندِ حسنِ یار ہوں کچھ پارسا نہیں
دیگر
تم سے صنم گزارشِ بہلولؔ ہے یہی
وقتِ سحر میں کیوں ابھی بادِ صبا نہیں
دیگر
ایک شخص کو تھی تلاش اپنے کو دیکھے آپ
آئینۂ لے کے دیکھا تو ہے عکس ہو بہ ہو
ہے ایک لفظِ آدم مؤمن ہو یا کہ کافر
گل نام ایک لیکن ہر ایک کی ہے جدا بو
دیگر
کب تک رہے گا اے دل حیران و پریشاں تو
اے طائرِ لاہوتی آیا ہے کہاں تو
علم الیقیں رکھ کر عین الیقیں نہ جانا
مسکن بنایا اپنا اب وہم و گماں تو
دیر و حرم کی چکر بے فائدہ نہ کر
مالک ہے تیرا ساتھی رہتا ہے جہاں تو
آپ کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں۔
تحفۂ بہلول، دیوانِ محامد، دیوانِ بہلول، نیرنگِ بہلول، تاریخِ حسینی، مقاصدِ بہلول، مرکباتِ بہلول، وظائفِ بہلول۔
یہ کتب عرفان، تصوف، سلوک، تاریخ اور وظائف جیسے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں اور آپ کے علمی و روحانی مقام کی آئینہ دار ہیں۔
بہلول شاہ نے 12 شعبان 1374ھ بمطابق 1955ء کو دارِ فانی سے دارِ بقا کی طرف کوچ فرمایا، آپ کا مزار نظام آباد کی پہاڑی پر واقع ہے اور آج بھی تشنگانِ عرفان و محبت کے لیے مرکزِ فیض بنا ہوا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.