Font by Mehr Nastaliq Web

ہے شہرِ بنارس کی فضا کتنی مکرم

ریان ابوالعلائی

ہے شہرِ بنارس کی فضا کتنی مکرم

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    سفر دراصل خدا کو پالینے کا سب سے بہتر وسیلہ ہے، جتنا زیادہ انسان سفر کرتا ہے، اتنا ہی وہ خدا کے وجود اور اس کی قدیم و ازلی ہستی کا قائل ہوتا جاتا ہے، راستے کے مناظر، اجنبی چہروں کی مسکراہٹیں، مقامات کی تاریخ اور زمانے کے نشانات، یہ سب مل کر انسان کو یقین دلاتے ہیں کہ یہ کائنات محض اتفاق نہیں بلکہ ایک عظیم خالق کی صناعی ہے، ابو عبداللہ محمد بن بطوطہ کی مثال ہی سامنے ہے، جنہوں نے اپنے سفرنامے میں دنیا کے گوشے گوشے کو اپنی قلمی روشنی سے منور کر دیا۔

    ۳ مئی ۲۰۱۷ء کی صبح داناپور ریلوے اسٹیشن پر میں روانگی کے انتظار میں تھا۔ حسبِ روایت ریل دو گھنٹے تاخیر سے پلیٹ فارم نمبر تین پر آئی۔ سفر شروع ہوا تو کھڑکی سے گزرتے مناظر دل کو بہلانے لگے۔ دوپہر ۱ بج کر ۳۰ منٹ پر ’’مغل سرائے جنکشن‘‘ پہنچا، وہاں سے سواری لی اور ’’سریّاں‘‘ نامی بستی جا پہنچا۔ تپتی دوپہر اپنے جوبن پر تھی۔ شعبان کا مہینہ تھا اور بیشتر اداروں میں تعطیل جاری تھی۔

    یہ شہر میرے لیے اجنبی نہیں تھا، گزشتہ پانچ برس میں نے یہیں گزارے تھے، اب ایک بار پھر اتر پردیش کے امتحانات نے مجھے یہاں کھینچ لیا تھا، قیام ’’رشیدالعلوم‘‘ میں ہوا، چند لمحوں کے آرام کے بعد مولانا امیر اعظم مصباحی کے اصرار پر ان کے دولت کدہ پر حاضری دی، مختصر ضیافت کے بعد قیام گاہ لوٹا، اسی دوران ایک صاحب فاتحہ کی غرض سے آئے اور ان کی خواہش پر ہم نے شیرینی تقسیم کی۔

    ۸ شعبان کو رشیدالعلوم کے اساتذہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، وہاں کے سرپرست سلطان صاحب، جن کی شفقت بچپن سے شاملِ حال ہے، خندہ پیشانی سے ملے پھر ’’مدینۃ العلوم‘‘ گیا اور واپسی پر حضرت مخدوم تاج الدین بخاری کے آستانہ پر حاضری دی، گنبد کی فضا، زائرین کا ہجوم اور سکون بھرا ماحول دل کو عجب قرار دے رہا تھا، یوں لگا جیسے روح کو تسکین اور دل کو قرار مل گیا ہو۔

    اسی دوران ’’مظہرالعلوم‘‘، ’’دال کی منڈی‘‘ اور ’’بنیا کی باغ‘‘ کی سیر کی، شہر وہی تھا، لوگ بھی وہی، خلوص اور محبت کی چمک بھی ویسی ہی تھی، بس شاید میں بدل گیا تھا، حفیظؔ بنارسی کا شعر دل میں گونج اٹھا۔

    ہے شہرِ بنارس کا گدا کتنا مکرم

    رہتی ہے مدینے کی گلی آنکھوں میں ہر دم

    خانقاہ حمیدیہ رشیدیہ کی زیارت بھی نصیب ہوئی، حضرت شاہ عبدالوحید فاروقی فریدی کے اخلاف نے یہاں علم و ادب اور روحانیت کا ایسا چراغ روشن کیا ہے جو آج تک جل رہا ہے، شام کو آستانہ حضرت شہید پر قیام ہوا جہاں حافظ محمد شاہد رضا شمسی اور مولوی محمد ابصار عالم ساتھ تھے۔

    جمعہ کے دن کاشی کی سیر کا موقع ملا، غروبِ آفتاب کا منظر، گنگا کی لہریں، ملاحوں کی صدائیں اور ٹھنڈی ہواؤں کا جھونکا، یہ سب مل کر ایسا منظر پیش کر رہے تھے جیسے امن اور محبت کا سنگم ہو، محسنؔ کاکوروی کا شعر بے ساختہ لبوں پر آیا۔

    سمتِ کاشی سے گیا جانبِ متھرا بادل

    تیرتا ہے کبھی گنگا، کبھی جمنا بادل

    کشتی پر گنگا کی سیر کے دوران ملاحوں نے اپنے شہر کی کہانیاں بڑے خلوص سے سنائیں، ان کی سادگی اور اپنائیت دل کو چھو گئی۔

    اسی دوران ایک نشست میں طلاق کے مسئلے پر طویل گفتگو چھڑ گئی اور دوسری محفل میں بنارس کے مشہور پان کا ذائقہ چکھا، زبان پر یہ فقرہ آ گیا، کہ

    کھئی کہ پان بنارس والا

    کھل جائے بند عقل کا تالا

    ایک صبح تیز بارش اور بجلی کی کڑک نے شہر کو ہلا ڈالا مگر فجر کی اذانوں نے دل کو سکون دیا، بعد ازاں سارناتھ کی طرف بڑھے، جہاں گوتم بدھ نے اپنے ابتدائی شاگردوں کو تعلیم دی تھی، اس کے بعد حضرت شاہ محمد وارث رسول نما قادری کے مزار پر حاضری دی، ان کی کرامات اور روحانی مقام ہر دل میں رچ بسے ہیں، یہی وہ بزرگ ہیں جنہوں نے پیر مجیب اللہ قادری کو جامِ معرفت پلایا تھا، جس کی خوشبو آج بھی پھلواری شریف میں محسوس کی جا سکتی ہے۔

    یقیناً یہ سفر میرے لیے یادگار رہا، ہر درگاہ، ہر مسجد، ہر ملاقات ایک نئی روشنی لے کر آئی، اس شہر کی فضا میں علم، ادب، روحانیت، محبت اور ذائقے سب گھلے ملے ہیں۔

    ۱۰ مئی بروز بدھ، آٹھ دنوں کے اس پرکیف اور روحانی سفر کے بعد میں مغل سرائے سے روانہ ہوا اور ویبھوتی ایکسپریس کے ذریعے رات ۱ بج کر ۲۵ منٹ پر داناپور واپس پہنچا، دل میں بے شمار یادیں اور روح میں بے پناہ سکون لیے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے