مقدمہ : ’’تاریخِ خواجگان‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
دلچسپ معلومات
حضرت شاہ اکبر داناپوری کی کتاب ’’تاریخِ خواجگان‘‘ کا تفصیلی مطالعہ۔
محبوبِ جل و علا حضرت سیدنا امیر ابوالعلا قدس سرہٗ مریدوں کو اکثر سلسلۂ نقشبندیہ کا شجرہ عنایت فرماتے تھے، جو کوئی سلسلۂ چشتیہ میں بیعت کی درخواست کرتا تواس کو شجرۂ عالیہ اس ترتیب سے عنایت فرماتے کہ پہلے خواجگانِ چشت سے خواجہ معین الدین چشتی تک کےاسمائے متبرکہ لکھتے پھر خواجہ بزرگ کے بعد نامِ نامی اپنا تحریر فرماتے تھے۔
حضرت حیات اللہ منعمی رقمطراز ہیں کہ
’’میں دارالخیر اجمیر میں خادموں کے پاس اگلے وقت کے شجرے سلسلۂ چشتیہ ابوالعلائیہ کے اسی ترتیب سے لکھے ہوئے دیکھے‘‘(حجۃ العارفین)
حضرت مولانا شاہ محمد قاسم ابوالعلائی داناپوری لکھتے ہیں کہ
’’اکبرآباد مزار فائض الانوار حضرت امیر ابوالعُلاسے بھی ایسے ترتیب سے لکھنے کی بشارت ہوئی ہے‘‘(نجاتِ قاسم، ص؍۴۶)
واضح ہو کہ حضرت شاہ عطا حسین فانیؔ نے بھی کیفیت العارفین میں ایسا ہی لکھا ہے۔
حضرت امیر ابوالعلا بیعت و خلافت اور نکاح و مناکحت وغیرہ کے بعد حسبِ معمول خواجہ معین الدین چشتی کے عرس میں نہایت عقیدت مندی کے ساتھ اجمیر جایا کرتے تھے، مصنف نجاتِ قاسم رقمطراز ہیں کہ
’’بعد انتقال اپنے مرشد پاک حضرت امیر عبداللہ کے مسندِ خلافت اور قطبیت پر جلوہ افروز ہوئے تو پھر مدت العمر آپ آگرہ ہی میں رونق افروز تھے مگر عرس میں اجمیر کو البتہ تشریف لے جایا کرتے تھے‘‘(ص؍۵۶)
کہا جاتا ہے کہ آپ ایک سال خواجہ بزرگ کے عرس میں اجمیر تشریف لے گئے، مزار مقدس کے سامنے فاتحہ پڑھ کے بیٹھے تھے کہ خواجہ بزرگ نے بصورتِ مثالی جلوہ گر ہوکر فرمایا کہ
’’سید ابوالعلا! تمہارے گھر سے ایک روپیہ اور چادر لڑکے کی شفا اور خواہش دوسرے فرزند کے آئی ہے، حق تعالیٰ لڑکے کو صحت بخشے گا اور فرزند دوسرا بھی ہوگا‘‘
آپ اس ماجرا سے مطلع نہ تھے، متحیر ہوئے جب آگرہ پہنچے تو اہلیہ سے پوچھا کہ
’’تم نے روپیہ اور چادر درگاہ پر بھیجی تھی‘‘؟
معلوم ہوا کہ فی الحقیقت ان دنوں حضرت امیر نورالعُلاجن کی عمر دو سال تھی، کچھ علیل ہوگئے تھے، سو بہ نیتِ شفا اور خواہش فرزند کے وہ روپیہ اور چادر بھیجی گئی تھی، پھر اہلیہ نے پوچھا کہ
’’آپ سے یہ احوال کس نے کہا‘‘؟
آپ نے فرمایا کہ
’’مجھ سے خود خواجہ بزرگ نے ارشاد کیا‘‘
چنانچہ اسی عرصہ میں حضرت امیر نورالعلا کو شفا حاصل ہوگئی اور بعد ایک سال کے حضرت امیر فیض العلا تولد ہوئے، پس ثابت ہوا کہ حضرت ابوالعلا خواجہ بزرگ سے بے پناہ عقیدت و محبت فرمایا کرتے تھے، جسے بیان میں نہیں لایا جاسکتا، وہ نقشبندی بزرگ ہونے کے باوجود خواجہ بزرگ سے کمال عقیدت رکھتے تھے۔(نجاتِ قاسم، ص؍۵۷)
آپ نے خواجہ بزرگ کے سلسلہ کی رنگت و معرفت اور سماع بالمزامیر کی کیفیت کو سمیٹ کر سلسلۂ ابوالعلائیہ کے نصاب میں داخل کیا، آپ اپنے مریدین و مسترشدین کو راہِ سلوک طے کراتے رہے اور ابوالعُلائی نسبت کے طالبین بھی آپ کی صحبت سے خواجہ بزرگ کا فیضان اٹھاتے رہے، آپ کی طرح سلسلۂ ابوالعُلائیہ کے مشائخ کبار بھی عقیدت و ناز کے ساتھ خواجہ بزرگ سے فیضان حاصل کرتے رہے اور اجمیر حاضری دیا کرتے، مشائخِ ابوالعُلائیہ میں خواجہ بزرگ سے کمال محبت اور کمال عقیدت قطب العصر حضرت مخدوم شاہ محمد سجاد پاک کی ذات کو حاصل رہی، حضرت سیدنا کے بعد جس بزرگ سے آپ کی لو لگی وہ خواجہ بزرگ کی ذات مقدسہ ہے، آپ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، شاہ ٹولی، داناپور کے بانی اور سلسلۂ ابوالعلائیہ کے روشن چراغ ہیں، ایک زمانہ آپ کے فیضان سے معمور رہا ہے، آپ اپنے وقت کے صوفیٔ باصفا، صاحبِ کشف و کرامات اور بے حد منکسرالمزاج واقع ہوئے ہیں، درگاہ معلیٰ میں آپ کے مریدین و معتقدین کی بھی جماعت تھی۔
احسن السیرکے صفحہ ۱۷۰ تا ۱۷۲ میں ’’حالات حضرت شاہ محمد قاسم‘‘ اور صفحہ ۱۷۲ تا ۱۷۴ میں’’حالات حضرت شاہ محمد سجاد‘‘ کے عنوان سے دونوں بزرگانِ داناپور کا تذکرہ موجود ہے، مخدوم محمد سجاد پاک کے حوالہ سے محمد اکبر جہاں شگفتہؔ رقمطراز ہیں کہ
’’آپ پانچ حج بیت اللہ کے شرف سے مشرف ہوئے ہیں، بڑی بڑی سعادتیں اور دولتیں آپ کو نصیب ہوئی ہیں، آپ کا پہلا سفر حرمین شریفین کا ۱۲۷۵ھ میں واقع ہوا ہے اور دو حج کر کے اسی سفر میں حضور رسالت مآبﷺ سے حکم حاضری اجمیر کا ہوا‘‘
(احسن السیر،ص؍۱۷۳)
نثارؔ علی ابوالعلائی اکبرآبادی لکھتے ہیں کہ
’’آپ کو حضور رسالت پناہ ﷺ سے حکم ہوا کہ تم اجمیر جاؤ! چنانچہ آپ حَسْبُ الْحُکْم حضور اجمیر شریف حاضر رہے اور زمانۂ دراز تک حاضر رہے‘‘(دل، ص؍۲۵)
آپ برسہا برس اجمیر میں گزار دیتے تھے، آستانہ کے خدام و مجاورین وغیرہ آپ کی بزرگی کا خوب پاس و لحاظ رکھتے، جب انتقال کا وقت قریب آیا تو بعد نمازِ عصر آپ کو انتقال کی کیفیت آئی اور فرمایا کہ حضرت ابوالعلا اور خواجہ بزرگ تشریف لائے ہیں۔
(نذرِ محبوب، ص؍۱۵، دل، ص؍۱۲، احسن السیر، ص؍۱۲۳، معین الارواح، ص؍۲۳۳، بزم ابوالعُلا، ص؍۲۰۶)
اجمیرشریف میں حضرت مخدوم سجاد کا تذکرہ گوشت کے حوالے سے آل و اصحاب میں اس طرح آیا ہے۔
’’ایک روز اجمیر شریف میں عزیزی میر اکبر علی صاحب ڈپٹی کلکٹر سَلَّمَہٗ اللہ تَعَالیٰ نے حضرت(مخدوم سجاد پاک) کی دعوت کی توآپ کے ہمرکاب بہت سے برادرانِ طریقت تھے، ہمارے مکرم الاخوان، برادرِمعظم و محتشم، جناب مولوی اشرف مجیب صاحب پھلواروی دام مجدہٗ بھی حضرت کے پہلو میں دستر خوان پر تشریف رکھتے تھے، حضرت کے سامنے جو کھانےچنے ہوئے تھے، اس میںکسی میں گوشت نہ تھا، بعد تناول طعام جناب بھائی مولوی اشرف مجیب صاحب نے حضرت سے بکمال مبالغہ اس معنیٰ کا استفسار کیا کہ حضور نے گوشت کیوں ترک فرمایا؟
ہر چند حضرت نے اُس کے بیان سے باطائف الحیل اعراض فرمایا مگر بھائی صاحب نے بھی ویسا ہی اصرار کیا، ناچار آپ نے اُس کا واقعہ یوں بیان فرمایا کہ
مدینہ طیبہ میں میرا معمول تھا کہ دن کو بہت مختصر غذا کرتا تھا اور شب کو بالکل نہیںکھاتا تھاتا کہ شب بھر میں باوضو رہوں اور شباک مبارک کے سامنے حاضر رہا کرتا تھا، ایک روز ایک سیّد صاحب نے ایک دنبہ ذبح کیا تھا اور خاص طور پر میری دعوت کی تھی، جب میں وہاںسے کھانا کھاکر واپس آیا توآستانۂ مبارک معمور ہوچکا تھا، میں نہایت افسردگی کی حالت میں مکان پر آکر سو رہا، شب کومیں نے حضور ﷺ کو خواب میں دیکھا کہ آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ
’’ تم میرے پاس آئے ہو کہ گوشت کھانے آئے ہو؟‘‘
پس صبح کو جو میں اٹھا اور حرم شریف میں حاضر ہوا تو میں نے شباک مبارک کے سامنے عرض کی کہ
’’ حضور ! میں نے گوشت کھانا ترک کر دیا‘‘(ص؍۵۵)
اس قدر آپ کو اپنی حالت کا کِتْمان تھا کہ کبھی دوسروں سے اس حالت کا اظہار نہ فرمایا۔
مخدوم سجاد پاک کا درگاہ معلیٰ کے خزانۂ خاص سے وظیفہ تک مقرر تھا، چنانچہ غفورالرحمٰن حمدؔ کاکوی رقمطراز ہیں کہ
’’مدفن مسجد (شاہ ٹولی) اور خانقاہ (سجادیہ ابوالعلائیہ) سے متصل ہے، آپ کا عرس داناپور کے علاوہ الہٰ آباد، اکبرآباد (آگرہ) اور اجمیر شریف میں بھی ہوتا ہے، اجمیر شریف کے عرس کا خرچ خزانۂ درگاہ حضرت خواجہ غریب نواز سے ہوتا ہے‘‘(آثارِ کاکو، ص؍۱۹۶)
دوسری جگہ نواب رستم علی ابوالعلائی لکھتے ہیں کہ
’’آپ کا عرس شریف داناپور شریف اور الہٰ آباد اور اکبرآباد شریف اور اجمیر شریف میں ہوتا ہے اور اجمیر شریف میں تو عرس کے خرچ کے واسطے روپیے خاص حضرت خواجہ کے خزانہ سے ملتے ہیں، قبولیت اسے کہتے ہیں‘‘(ذکر پیرانِ معزز، ص؍۱۵)
خادمؔ حسن اجمیری نے بھی معین الارواحصفحہ؍۲۳۳ پر حضرت مخدوم کا ذکر اور صفحہ؍۲۰۱ پر ماہ ذیقعدہ میں حضرت مخدوم کے سالانہ عرس و فاتحہ کا ذکر کیا ہے، یہاں یہ واضح کر دوں کہ اجمیر درگاہ کے خزانۂ خاص سے ابوالعلائی بزرگوں میں صرف حضرت امیر ابوالعلا اور مخدوم سجاد پاک کا نام نامی قدیم عہد سے شامل ہے۔
حضرت امیر ابوالعلا کے بعد مولانا شاہ محمد قاسم ابوالعلائی اور ان کے بعد مخدوم شاہ محمد سجاد پاک اور پھر آپ کے صاحبزادے حضرت شاہ محمد اکبرؔ ابوالعلائی داناپوری بھی سلسلۂ نقشبندیہ ابوالعُلائیہ اور سلسلۂ چشتیہ کے عظیم بزرگ اور داعی گزرے ہیں، وہ ایک طرف اگرخانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے سجادہ نشیں ہیں تو دوسری طرف سلسلۂ ابوالعلائیہ کے سر آمد بزرگ بھی ہیں۔
اجمیر درگاہ میں ان کا قیام، حاضری، تعلقات، ریاضت و مجاہدہ، مجلس و نشست، شاگردان و صحبت یافتگان وغیرہ سے تاریخ بھری پڑی ہیں، مفتی انتظام اللہ شہابیؔ اور خادمؔ حسن اجمیری وغیرہ نے اپنی اپنی تصنیفات میں حضرت اکبر کا ذکرِ خیر نہایت عزت و احترام سے کیا ہے۔
مفتی انتظام اللہ شہابیؔ ماہتابِ اجمیرمیں رقمطراز ہیں کہ
’’آپ اکثر غریب اور بیواؤں کے ساتھ پوشیدہ سلوک فرماتے تھے اور سب کا ماہانہ مقرر تھا، ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ حضور زمانۂ عرس حضرت خواجہ غریب نواز مسجد شاہجہانی میں تشریف رکھتے تھے، ایک شخص نے آپ کی صدری کی جیب میں سے گھڑی نکالنی چاہی، آپ نے منہ دوسری طرف پھیر لیا، چنانچہ وہ صاحب بلا تامل گھڑی نکال کر چلتے ہوئے، آپ کا اخلاق اتنا اچھا تھا کہ جو آپ سے ملنے آتا اس کو یہی خیال ہوتا کہ حضور مجھ سے زیادہ محبت کرتے ہیں‘‘(ص؍۱۲۸)
خادمؔ حسن اجمیری لکھتے ہیں کہ
’’آپ سلسلۂ ابوالعُلائیہ کے مشہور پردہ پوش اور صاحبِ تصرف درویش تھے، آپ نے دربارِ غریب نواز میں بزمانۂ عرس شریف حاضری دی ہے‘‘(ص؍۲۳۴)
محمد اکبرجہاں شگفتہؔ رقمطراز ہیں کہ
’’چنانچہ عرس شریف میں دور دور کے صاحبِ کشف و کرامات حاضر ہوتے ہیں، ایک صاحب سیّد محمد اکبر صاحب ابوالعُلائی خلف حضرت مولانا حاجی حرمین شریفین مولوی محمد سجاد قدس سرہٗ کے ہیں، ہر سال واسطے زیارت کے داناپور واقع عظیم آباد پٹنہ سے تشریف لاتے ہیں، چنانچہ ان کی تصنیف سے ایک سلام اس مقام پر لکھا جاتا ہے جو حالتِ ذوق و شوق میں انہوں نے عرض کیا ہے‘‘
وَھُوَہَذا
سلام بحضور خواجہ غریب نواز
خواجۂ خواجگان عرش مکاں
بادشاہ زمین و فخر زماں
جان اکبرؔ نثار گنبد تو
نام محسنؔ من فدائے مرقد تو
(احسن السیر، ص؍۱۶۵)
احسن السیر پر حضرت اکبرؔ کا قطعۂ تاریخ طبع شامل ہے، ملاحظہ ہو۔
قطعۂ تاریخ سیّد شاہ محمد اکبر صاحب ابوالعُلائی داناپوری
خوب چھپی واہ یہ تاریخ واہ
نسخۂ اکسیر ہدایت ہے یہ
صوفیٔ صافی شہ اکبر جہاں
آپ ہی کی ساری کرامت ہے یہ
ہے اب اکبرؔ سے یہ تاریخِ طبع
’’مشعلہ راہِ حقیقت ہے یہ‘‘
۱ ۱۳۰۰ ہجری
(ص؍ ۱۸۸)
حضرت اکبرؔ اپنے آبا و اجداد کے حسبِ وصیت ہرسال اجمیر شریف حاضری دیا کرتے تھے، سال ۱۲۹۸ھ کی حاضری پر آپ نے ’’قطعۂ تاریخِ حاضری اجمیر شریف‘‘ منظوم فرمائی ہے، مذکورہ قطعہ آپ کے دستِ مبارک کا لکھا ہوا خانقاہ سجادیہ ابوالعُلائیہ کے کتب خانہ میں موجود ہے، اس کے علاوہ آپ کے دیوانِ دوم جذبات اکبرؔمیں بھی درج ہے، ملاحظہ ہو۔
المدد خواجۂ غریب نواز
آپ ہیں خاندانِ چشت کے شیر
کیا کہوں آپ پر تو روشن ہے
ہے جو دنیا میں آج کل اندھیر
آستان بوسی کو میں آیا ہوں
میری عقدہ کشائی میں ہو نہ دیر
مجھ کو اب اپنے خوانِ نعمت سے
جلد کر دیجیے خدا را اسیر
آرزو ہے مدینے کی مجھ کو
کہ یہ عمر دو روزہ ہو وہیں تیر
پر پہنچنے کا کوئی طور نہیں
شومئی بخت نے کیا ہے زیر
ہفت و سی سالگی میں قسمت نے
رہبری کی مٹا نصیب کا پھیر
سال کی فکر تھی کہ دل بولا
’’لکھ ہوا پاک حاضر اجمیر‘‘
۱۲۹۸ھ
(صفحہ؍۳۷۸)
شعر و سخن اور تصنیفات و تالیفات کی طرح حضرت اکبرؔ کے اجمیری شاگردان و یاران میں منشی امیراللہ ابوالعلائی شوقؔ اجمیری، وزیر خاں فضاؔ اکبرآبادی اور ڈپٹی میر اکبر علی ابوالعلائی وغیرہ مشہور ہیں، اجمیری صحبت یافتگان کا تذکرہ اگر ہوا ہے تو میر اشرف علی سے متعلق لکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا، آپ کا تذکرہ حضرت اکبرؔ نے بڑے ہی خوبصورت اندازمیں کیا ہے، اس کی عبارت بجنسہٖ یہاں درج کی جاتی ہے۔
’’صائم الدہر، قائم اللیل، متوکل بے ریا میر اشرف علی صاحب، زَاَدَاللہُ عِرْفَانُہٗ
آپ کو بیعت و تعلیم طریقہ ابوالعلائیہ میں اخی الطریقت شاہ ولی اللہ عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ سے ہے اور اخی شاہ ولی اللہ صاحب کو بیعت و تعلیم حضرت عم گرامی حضرت سید شاہ مبارک حسین صاحب قدس سرہٗ عظیم آبادی سے اور تعلیم و خلافت حضرت پیر و مرشد برحق عم اقدس حضرت مولانا سیّد شاہ محمد قاسم قدس سرہٗ سے ہے، میر اشرف علی صاحب اپنی حالت و کیفیت میں بے مثل ہیں، اس توکل کے ساتھ مہمان نواز اور باخیر کثیر حجرہ خواجہ غریب نواز کی درگاہ کے دیوار کے سایہ میں ایک مکان کرایہ کا لے رکھا ہے اور اس کو اپنے دل صافی کی طرح سے آراستہ و پیراستہ رکھتے ہیں اور مسافر اور مہمان کا سامانِ راحت سب اسی میں موجود رہتا ہے، باتیں ایسی مزے کی کہ سننے والا جس سے گھبرائے نہیں اور ہر جملہ کی ضمیر اپنے ہی مطلب کی طرف پھر جایا کرتی ہے، زیادہ باتیں کرنے والے اور آگاہ دل، آپ روزہ رکھیں اور دوسروں کو پیٹ بھر کر کھلا دیں، میر صاحب موصوف کو بوجۂ کمال اتحاد ہے، مؤلف بے بضاعت سے اجازت ہے، زَاَدَاللہُ کَیْفِیَتُہٗ وَ بَسْطَ اللہُ اَنْوَاَر نِسْبَتُہٗ‘‘(نذرِ محبوب، ص؍۶۵)
حضرت اکبرؔ کا زیادہ تر قیام انہیں کے یہاں رہا کرتا تھا، ان کا حجرہ گلی لنگر خانہ سے متصل تھا، حضرت اکبرؔ اجمیر اور لاہور سے متعلق اپنے ایک مکتوب میں رقمطراز ہیں کہ
’’۔۔۔ اب تو میں ۲۷؍ جمادی الثانی کو اجمیر شریف جاؤں گا، بعد عرس کے رواڑی جاؤں گا، وہاں سے فیروز پنجاب، فیروز پور سے لاہور ان شَااللہُ تَعَالیٰ۔۔۔ اور اگر موقع ہوا تو لاہور سے حضرت بابا صاحب قدس سرہٗ کے مزارِ مبارک پر پاک پٹن شریف بھی حاضر ہونے کا ارادہ ہے۔۔۔ یہ خط مرا آپ کو پرسوں مل جائے گا اور اگر۔۔۔۔تو جواب ان کا مجھے اکبرآباد شریف سے مل جائے گا، ورنہ اجمیر شریف گلی لنگر خانہ دوکان ہیرا موتی معرفت میر اشرف علی صاحب کے اس پتے سے مجھے اجمیر شریف لکھنا‘‘
حضرت اکبر خواجگانِ چشت خواجہ معین الدین چشتی(اجمیر)، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی (دہلی) اور خواجہ نظام الدین اؤلیا (دہلی) کی درگاہ میں بڑی پابندی کے ساتھ حاضری دیا کرتے تھے، حضرت اکبرؔ درگاہ حضرت نظام الدین اؤلیاکی حاضری کے تعلق سے رقمطراز ہیں کہ
’’آج رجب المرجب ۱۳۱۱ھ کی اکیسویںاور دوشنبہ کا روز ہے، صبح کی نماز پڑھی وظیفہ سے فرصت کی، ٹھیک نَو بجے کوٹھی کی برساتی میں سواری حاضرہے، حضرت محبوبِ الہٰی، شیخ المشائخ، سلطان نظام الدین اؤلیا زری زر بخش بدایونی کے سلام کو جاتے ہیں، دل یہ کہتا ہے کہ جب حضرت کے سلام کو جاتے ہو تو اور مکانوں کو نہ دیکھو اور یہی ارادہ پختہ ہوگیا، سواری پر بیٹھے مگر دل نے قبول نہ کیا، آخر سواری ساتھ لی اورپیدل ہوگئے، بزرگوں کی زیارت کے آداب بچپنے سے تعلیم کیے گئے تھے وہ سب مزاج ہوگئے ہیں، جب لڑکپن سے بچوںکو اخلاقی تعلیم ہوگی تو پھر اِنْ شَآءَ اللہُ تَعَالیٰ تادمِ مرگ اُس کا اثر باقی رہے گا۔
ہمارے یمین و یسار عمدہ عمدہ پُرانی عمارتیںنظر آرہی ہیں مگر دل عاشق کی طرح سے شکستہ اور ویران پڑی ہیں، پہلےدہلی دروازے سے نکل کر اُلٹے ہاتھ کی طرف کوٹلہ مِلا، ٹوٹا پھوٹا ہوا ہے، جب ایسی مضبوط و مستحکم پتھر کی عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کر مِسمار ہوگئیں تو اس عمارت کا بنانے والاجو ایک مشت اُستُخوان تھا اُس کی ہڈیوں کا کیا ٹھیک ہے، اول تو پتا ہی نہیں لگتا کہ وہ کون تھے اور اگر فرض کرو کہ اُن کا کچھ حال معلوم بھی ہو جائے تو کیا اس وقت ہماری تعریف وتوصیف اُنہیں فائدہ پہنچا سکتی ہے؟
ہر آدمی اپنے کیے کی سزا یا جزا پائے گا، اصل خیر اور ثواب وہی ہے کہ جو آدمی اپنے ہاتھ سے دے لے جائے، یہاں پر ہمیں دور سے چند قبریں نظر آئیں کچھ پتا نہیںکس کی ہیں، کوٹلہ سے آگے بڑھے اور یمین ویسار ہزاروں قبریں اور بیسوں بروج سنگِ سرخ اور سنگِ مرمر کے نظر آ رہے ہیں، عمارت کی شان سے تو معلوم ہوتا ہے کہ اُمرا کے مقابر ہیں مگر جب کسی کا نام نہیں معلوم تو ایک گدا سے زیادہ گمنام ہیں ۔
اندازاً دو گھنٹے میں ہم روضہ شریف میں پہنچے، وضو تھا مگر پھر تازہ وُضو کیا، پہلے حضرت امیرخسروؔ کے مزارِ منور پر حاضر ہوئے اور فاتحہ پڑھی پھر داخلِ مسجد ہوکر تَحِیَّۃُ الْمَسْجِدادا کی اور استغفار کی تسبیح پڑھ کر درود پڑھتے ہوئے حضرت سلطان المشائخ کی تربتِ پاک پر حاضر ہوئے، تربتِ محبوب کو بوسہ دیا، آنکھوں سے لگایا، جالی شریف کے باہر آکر فاتحہ پڑھی اور آنکھیں بند کرکے بیٹھ گئے، ان بادشاہوں کے دربار میںبھیک مانگنے کا یہی طریقہ رکھا گیا ہے، ایسی شفقت فرمائی کہ راستہ کی تھکن سب جاتی رہی، آقا اور مالکوں کا یہی دستور ہے‘‘(سیرِ دہلی، ص؍۱۵۳)
مہرولی کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ
’’اب حضرت قطب صاحب کی زیارت کا تہیہ ہے کچھ تھوڑی دورپیدل چل کر گاڑی پر سوار ہوئے جب ایک میل مزارِمبارک رہا ادباً سواری چھوڑدی، تازہ وضو کیا اور مسجدمیں ظہر پڑھی پھر آستانہ شریف کی طرف آنکھوںسے روانہ ہوئے پہلے حضرت مولانا محمد فخرالدین فخرِجہاں کا مزارِمبارک ملا، اُسے بوسہ دیا اور آنکھوں سے لگایا‘‘(سیرِ دہلی، ص؍۱۵۸)
تذکرہ نکلا ہے تو یہ بھی جاننا چاہیے کہ درگاہ کے حلقہ میں جلال الدین محمد اکبر کی تعمیر کردہ ’’اکبری مسجد‘‘ اور اس کے صحن کی مرمت ۱۳۲۰ھ میں داناپور کے رئیس غفور علی نے کرائی تھی، حضرت اکبرؔ کے بعد ان کے صاحبزادے حضرت شاہ محمد محسنؔ ابوالعلائی داناپوری بھی نہایت عقیدت مندی اور فیروز مندی سے بارگاہ معلیٰ میں حاضری دیا کرتے تھے، خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے جملہ مشائخ و سجادگانِ ذیشان پابندی کے ساتھ حاضر ہوا کرتے تھے بلکہ حضرت محسن کے صاحبزادے حضرت مولانا شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی کی تعلیم مدرسہ معینیہ عثمانیہ سے ہوئی ہے، حضرت ظفر سجاد کے بعد آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت سید شاہ محفوظ اللہ ابوالعلائی داناپوری بھی عرس و غیر ایام عرس میں حاضری دیا کرتے تھے۔
حضرت اکبرؔ کے ممتاز خلیفہ نثارؔ علی ابوالعلائی اکبرآبادی کے دیوان میں بھی خواجہ بزرگ کی شان میں تین منقبتیں ملتی ہیں، پہلی منقبت میں ۹؍ بند ہے جس کا مطلع اور مقطع ملاحظہ ہو۔
تمہاری زلف ہے سلسلہ غریب نواز
اسیر دام محبت پھر ہوں یا غریب نواز
حجاب آتا ہے کس سے کہے کہاں جائے
نثارؔ آپ کے در کا گدا غریب نواز
دوسری منقبت میں بھی ۹؍ بند اور تیسری منقبت میں ۱۱؍ گیارہ بند ہے۔
(دیوان نثار، ص؍۳۲۲)
اسی طرح نثارؔ اکبرآبادی کے شاگرد بیدمؔ وارثی نے بھی خواجہ بزرگ کی شان میں بہترین اشعار کہے ہیں، الغرض حضرت اکبرؔ کے شاگردوں میں درجنوں شعرا ہوئے جنہوں کئی کئی غزلیں کہی ہیں، اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابوالعُلائی سلسلہ کے مشائخ نے خواجہ بزرگ سے بے پناہ روحی اور قلبی عقیدت و محبت فرمائی ہے۔
اجمیر سے متعلق حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کے واقعات بھرے پڑے ہیں، شاہ جہانی مسجد سے متصل حجرہ اور گلی لنگر خانہ میں قیام، رات بھر ذکرِ الٰہی میں گریہ و زاری، طول و طویل سجدے، درگاہ میں استغاثہ، درگاہ کے خدام وغیرہ سے تعلقات و روابط، پابندی اور نیاز مندی کے ساتھ درگاہ کی حاضری، یہ سب ایک تفصیلی باب ہے، درگاہ کے خدام سے متعلق حضرت اکبر رقمطراز ہیں کہ
’’یہ حضرت کے خادم محمد فخرالدین وہی ہیں جن کا مزار اجمیر شریف بیگمی دالان میںہے اور صاحبزادگان اجمیر شریف کے جد اعلیٰ ہیں، ان کا عرس صاحبزادے لوگ کرتے ہیں اور بہت تکلف سے کرتے ہیں، میرے وکیل میر رحمت علی صاحب عرف منّو میاں اور سیّد رمضان علی فرزند سیّد لعل محمد ابن سیّد رحم علی صاحب مرحوم بھی حضرت فخرالدین صاحب کی اولاد سے ہیں، اللہ تعالیٰ شانہٗ نےان کی نسل میں ایسی برکت عطا کی کہ چودہ سو گھر صاحبزادوں کے انہیں کی اولاد ہیں اور ان حضرات کے بزرگ جناب سیّد امام الدین صاحب مرحوم جناب سیّدرحم علی صاحب مرحوم کو مجھ سے بڑی محبت تھی اور سچ بات یہ ہے کہ جتنے صاحبزادے ہیں اپنے اپنے مؤکلوں سے نہایت شریفانہ برتاؤ کرتے ہیں، اگر ان کے پاس خرچ کم ہوگیا ہو تو اس کا سامان کر دیتے ہیں اور بغیر کسی نوشتہ کہ ان کو قرض دے دیتے ہیں اور پھر بمرور ان سے وصول کرتے ہیں، میں اپنے صاحبزادگان مرحومین کی صحبت کو آج تک یاد کرتا ہوں، خداوند تعالیٰ ان کو جنت میں قصر عالی عنایت فرمائے، اَللَّھُمَّ آمِیْن‘‘(تاریخِ خواجگان، ص؍۳۵)
مذکورہ رسالہ کے علاوہ تاریخِ عربمیںحضرت اکبر رقمطراز ہیں کہ
’’مجھے یہ کتاب عزیزِ گرامی قدر، سعید ازلی، سیّدرمضان علی صاحب فرزند رشید جناب سیّد لعل محمد صاحب ابن جناب حضرت سیّد رحم علی صاحب ولد جناب حضرت سیّد احمد علی صاحب وکیل با وقعت آستانہ فیض کاشانہ حضرت سیّدالسادات، قطب الارض والسموٰت، سیّدنا و مولانا، خواجۂ خواجگان، سلطان الہند، معین الدین حسن سنجری چشتی، غریب نواز قَدَّسَ اللہُ سِرَّہٗ وَنَوَّرَاللہُ تُربَتُہٗ اَلَّااَبْدُآلْاَدْ یَا رَبَّ الْعِبَاد کے کتب خانہ سے دستیاب ہوئی ہے‘‘(جلد اول، ص؍ ۲۵۵)
اسی طرح خدام کی جانب سے شائع شدہ ’’تذکرہ یعنی حضرات صاحبزادگان خدام حضور غریب نواز کی عظمت و شرافت اور نسبت و قدامت کا بیان‘‘ وغیرہ میں بھی حضرت اکبرؔ کے اقتباسات نقل ہیں۔
ہفتہ واری اخبار معین الہند (اجمیر) نمبر؍۴، مؤرخہ؍۲۴ جنوری ۱۸۹۱ ءکے صفحہ؍۳ پر آگرہ کے احمداللہ ابوالعُلائی حضرت اکبر کےحالات و کرامات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’حضرت پیر و مرشد برحق، مولانا و مرشدنا، سیّد شاہ محمد اکبر ابوالعُلائی داناپوری مَدَّظِلُّہٗ الْعَالِی سجادہ نشیں خانقاہ داناپور امسال عرس شریف پر اجمیر حاضر ہوئے تھے اور تاریخ ۵؍رجب المرجب کو شاہ جہانی مسجد اجمیر درگاہ معلیٰ میں بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے پاس بہت سے مشائخِ کرام حاضر تھے کہ ناگاہ چند ہندو غالباً وہ گوالیار کے رہنے والے تھے آئے اور پوچھا کہ حضرت شاہ سیّد محمد اکبر صاحب کہاں تشریف رکھتے ہیں؟ لوگوں نے آپ کی طرف اشارہ کیا، وہ حضور کے سامنےبیٹھ گئے اور کہا کہ ہم سب مسلمان آپ کے ہاتھ پر ہوا چاہتے ہیں، آپ نےفرمایا کہ میں ایک دنیادار آدمی ہوں، یہاں خواجہ غریب نواز کا آستانہ ہے، بڑے بڑے اؤلیائے کرام رونق افروز ہیں، ان کے حضور میں حاضر ہو، اس نے کہا کہ ہمیں تو آپ ہی کے پاس بھیجا ہے، آپ نے یہ جملہ سنا تو آپ چشم تر ہوئے اور ان لوگوں کو مسلمان کیا اور ایک کا نام عبدالرحمٰن اور دوسرے کا نام عبداللہ اور تیسرے کا نام عبدالرحیم اور ایک عورت تھی اس کا نام مریم رکھا، شام کو پھر وہ لوگ حضرت کے حضور میں حاضر ہوئے اور ان کو اللہ کا نام تعلیم کیا، الإسْلَام یَعْلُو وَلَا یُعْلیٰ سو واقعی اسلام خود ترقی کرتا ہے اس کی فطرت میں ترقی ہے‘‘
زمانۂ قدیم میں روضۂ منورہ میں بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے لوگ ہاتھ ڈوریوں سے باندھ کر کھڑے رہتے تھے، کوئی زنجیروں کو باندھے ہوئے بیٹھا ہوتا تو کوئی الٹا لٹک رہا ہوتا، کوئی گلا باندھے ہوئے اپنی مراد مانگتا تو کوئی عبادت میں مشغول، کوئی ریاضت میں مصروف، کوئی آستانہ سے دل لگائے بیٹھتا تو کوئی خواجہ بزرگ سے لو لگائے بیٹھا ہے، غرض یہ پُر لطف منظر آج بھی ہر ایک مقام پر نیا تماشہ اور قدم قدم پر ایک عجیب رَولاہوتا دکھاتا ہے، اسی کیفیت میں بعض اہلِ باطن آستانہ کے اندر اور بعض باہر سر نگوں خاموش بیٹھے رہتے ہیں۔
خانقاہ سجادیہ ابوالعُلائیہ میں خواجہ بزرگ کا سلسلہ کئی واسطوں سے پہنچا ہے جن میں بعض ایسے بھی شجرے ہیں جو بالکل نایاب ہے، یعنی شجرے میں شامل بزرگ دوسرے رائج سلسلوں سے بالکل مختلف ہیں، اللہ پاک اس نسبت کو قائم و دائم رکھے، بقول حضرت اکبرؔ
مجھ سا بھی صحیح النسب اکبرؔ کوئی کیا کم ہے
سلسلہ اپنا کسی زلف سے جاملتا ہے
ہندوستان میں سلسلۂ تصوف کا چراغ کئی دہائیوں سے روشن ہے، اس کی عظمت و رفعت کے تذکرے بھرے پڑے ہیں، جہاں ایک طرف اس کی عظمت کا مینار بلند ہے وہیں دوسری طرف ایسے قصے اور کرامات بھی مشہور ہیں جن کا تعلق حقیقت سے دور دور تک نہیں ہے، بزرگانِ دین جو سچے اور ہمدرد مزاج ہوتے ہیں ان سے منسوب ایسے ایسے قصے اور کراماتی تذکرے ہیں کہ جن کو پڑھنے سے عقل حیران و پریشان رہتی ہے اور ان کی روحِ مبارک کو ہم غلط بیانی کرکے ایذا پہنچاتے ہیں کہ ان نفوسِ قدسیہ جو سچائی کے علمبردار تھے ان کو متعارف کرانے کے لیے ایسے کرامات گڑھ کر بتاتے ہیں جو ان کی شایانِ شان نہیں ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو سچائی کے داعی ہیں اور اسی پر عمل پیرا رہتے ہیں اور اسی فکر کو عام کرنے کے لیے یہ ہمارے درمیان آئے تھے مگر آج ان ہی کا تذکرہ ایسے عنوانات سے کیا جاتا ہے جو حقیقت نہیں ہے، ہمیں ڈرنا چاہیے کہ وہ کرامات جو ان سے منسوب کیے گیے ہیں ان میں شائبہ ہے، لغو ہے، تاریخی غلطیاں ہے، انہیں بیان کرنے اور لکھنے میں کیاہم سے باز پُرس نہ ہوگا، وہ اس دنیا میں سچائی کو عام کرنے آئے تھے، یہ نہیں چاہتے تھے کہ دنیا میں کوئی جھوٹ بولے، چہ جائے کہ خاص ان کے معتقدین جن کی ہدایتیں ان کے ذمہ فرض ہیں مگر آج ہم خواجہ معین الدین چشتی، قطب الدین بختیار کاکی، بابا فریدالدین گنج شکر اور خواجہ نظام الدین اؤلیا جیسے عظیم بزرگ کو یاد کرنے کے لیے بیشتر ایسے تذکرے بیان کرتے ہیں جو تحقیق طلب ہیں، ان نفوسِ قدسیہ کے مناقب تو اس صفت پر ختم ہیں کہ یہ خدا کے محبوب ہیں اور ہمارے پیر کے پیرانِ پیر ہیں۔
ہندوستان میں تصوف کی شمع آپ ہی کی ذواتِ مقدس سے روشن ہوئی، کیا امیر کیا غریب، کیا گورے کیا کالے، کیا ہندو کیا مسلم سب آپ کے عقیدت مند اور قومی یکجہتی، مذہبی رواداری اور روحانی و عرفانی فیضان کے منتظر رہتے، گویا آپ ہمہ صفت موصوف تھے، لیکن یہ کارنامے آپ کے اخلاق و کردار، افعال و اقوال، انداز و اطوار کی وجہ سے معرض وجود میں آسکے، زبان کی نرمی، مزاج کی اعتدال مندی اور وسیع القلب ہونے کی وجہ سے آج ہم ان کا تذکرہ اتنے سالوں کے گزرجانے کے باوجود بھی کر رہے ہیں، پہلے پہل ہندوستان میں لوگ نہ آپ کی زبان جانتے تھے، نہ آپ کا نسب جانتے تھے، نہ آپ کا کام جانتے تھے اور نہ ہی آپ کو پہچانتے تھے،اگر کچھ پہچانا گیا تو آپ کے اخلاق و کردار پہچانے گئے، یہی وہ کڑیاں تھیں جن سے آپ کی طرف لوگ آنے شروع ہوئے اور گاہے گاہے آپ عظیم رہنما ثابت ہوئے مگر افسوس کہ آج ہم نے ان کی کرامات کو اصل بنا لیا اور ان کے اخلاق و کردار کو کوسوں پیچھے چھوڑ دیا، ہم نے کبھی اس بات پر غور ہی نہیں کیا کہ ان کے اخلاق و کردار کو ہم بھی اپنا سکتے ہیں، بلکہ ہمیشہ ان کے کراماتی قصے سنا کر یہ ثابت کیا کہ یہ بس ان کا یہی کارنامہ تھا۔
ہم اگر تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ فوائدالفوادسے قبل سلسلۂ چشتیہ کے مشائخ کے یہاں کسی بھی تصنیف کا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے، حضرت نصیرالدین چراغ دہلی کے ملفوظات خیرالمجالسمیں ہے کہ
’’ایک شخص نے جناب سلطان الاؤلیا قدس سرہٗ العزیز کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے ایک معتبر شخص سے سنا ہے وہ کہتا تھا کہ میں نے آپ کی تصنیف سے ایک کتاب دیکھی ہے، حضرت سلطان الاؤلیا نے فرمایا کہ اُس نے غلط کہا، میں نے کوئی کتاب نہیں لکھی، اس لیے کہ ہمارے خواجگان نے کوئی کتاب نہیں لکھی، یہ سن کر خواجہ ذکرۃ اللہ بالخیر نے ارشاد فرمایا کہ واقعی ہمارے حضرت سلطان الاؤلیا نے کوئی کتاب تحریر نہیں فرمائی، پھر میں نے عرض کیا کہ جو رسالے اس وقت دستیاب ہوتے ہیں جیسے ملفوظاتِ حضرت عثمان ہرونی اور ملفوظاتِ حضرت قطب الدین وغیرہ کیا یہ کتابیں بڑے حضرت کے زمانہ میں ظاہر نہ ہوئی تھیں، خواجہ ذکرۃاللہ بالخیر نے فرمایا کہ اس وقت نہیں تھیں، اگر ان حضرات کی تصنیف ہوتیں تو بڑے حضرت اُن کا ذکر ضرور فرماتے اور ضرور دستیاب ہوتیں‘‘(۱۱؍مجلس)
اس طرح انیس الارواح، دلیل العارفین، فوائدالسالکین، راحت القلوب یہ سب صحیح نہیں ثابت ہوتیں، انیس الارواح میں ذکر ذبحِ جانور کی روایت کا انکار حضرت چراغ دہلی نے خیرالمجالس میں فرمایا ہے، جو انیس الارواح میں موجود ہے اور اس طرح اس کی تردید ہوتی ہے مگر شمائل الاتقیامیں ان ملفوظات کا ذکر کثرت سے ملتا ہے جو دوسری طرف ان کو درست کہنے پر محکم دلیل بنتی ہے، شمائل الاتقیا کے مصنف خواجہ رکن الدین دبیر کاشانی ہیں، یہ بزرگ حضرت برہان الدین غریب کے مرید تھے۔
خواجہ معین الدین چشتی کا تذکرہ فوائدالفوائد میں اس طرح سے نہیں کیا گیا ہے جس طرح آج ان کی شخصیت کا تذکرہ ہوتا ہے، دو یا تین جگہ حضرت حمیدالدین ناگوری اور حضرت قطب الدین بختیار کاکی کے تذکرہ میں نام آیا ہے، ان کے بزرگی کے تعلق سے ایک تذکرہ بھی نہیں گزرا ہے، ہاں حضرت نصیرالدین چراغ دہلی کے ملفوظات خیرالمجالساور خواجہ بندہ نواز کے ملفوظات جوامع الکَلممیں تھوڑا تذکرہ ضرور ملتا ہے۔
اس کے علاوہ افضل الفوائدمیں خواجہ بزرگ کا حضرت حسن بصری کے متعلق ایک واقعہ بیان کرنے سے حضرت چراغ دہلی کے بیان کی تردید ہوتی ہے اور غالباً انہیں وجوہ سے کتبِ ملفوظات کی نسبت یہ عام غلط فہمی شائع ہوئی لیکن اگر کسی وقت بھی درایت کی نگاہ سے توجہ فرمائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کے بیانات صحیح ہیں، مولانا عبدالباری معنیؔ اجمیری لکھتے ہیں کہ
’’کتاب انیس الارواح جس کی نسبت تالیف میں ہمیں شبہ ہے، حضرت خواجہ نصیرالدین محمود کے بیان سے قطعاً غیر صحیح ثابت ہوتی، کیوں کہ یہ وہی کتاب ہے جس میں ذبح جانوران کی روایت موجود ہے اور بزرگی شیخ حسن بصری رضی اللہ عنہ کی روایت کتاب انیس العارفین میں کسی جگہ مرقوم نہیں، پس حضور محبوب الٰہی کے بیان سے کسی طرح اس کی صحت ثابت نہیں کی جا سکتی‘‘(تاریخ السلف، ص؍۶۸)
پہلے پہل خواجہ بزرگ کا تذکرہ ہمیں سیرالاؤلیا میں ملتا ہے کہ آپ اجمیر آئے اور رائے پتھورا کے ساتھ آپ کا مقابلہ ہوا اور بالآخر اجمیر میں آپ کی فتح ہوئی اور پھر وصال کے حالات درج ہیں اور اس واقعہ کو انہوں نے حضرت نظام الدین اؤلیا سے سنا ہے، اس کے بعد عہدِ ہمایوں میں شیخ جمالیؔ دہلوی کی کتاب سیرالعارفینمیں خواجہ بزرگ کے حالات نقل ہوئے ہیں، اس میں بہت سی روایت بغیر تاریخ و سال کے لکھی گئی ہے اور بعض روایا ت پر تاریخی سوال بھی قائم ہوتا ہے، جیسے ۵۲؍ برس کی عمر میں خلافت ملنا، نکاح کے حالات، اولاد کی تفصیل، شیخ عبدالقادر جیلانی اور شیخ یوسف ہمدانی سے ملاقات وغیرہ مگر مؤلف نے خواجہ بزرگ سے منسوب کسی کرامت کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے، تاریخی دستاویز پر اگر ہم روشنی ڈالیں تو خاندانِ غلامان کے سلطان ناصرالدین کے عہد میں طبقاتِ ناصری تصنیف کی گئی جس میں شہاب الدین غوری کے تذکرے میں معین الدین اومی یا اوشی کا تذکرہ ضرور آیا ہے لیکن اس کی وضاحت نہیں کی گئی ہے، بعض قاضی تولک کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
سیرالعارفین کے بعد جب سلطنتِ مغلیہ کے مسند پر جلال الدین محمد اکبر تخت نشیں ہوئے تو از راہِ عقیدت ۹۴۹ھ میں خواجہ معین الدین چشتی کے آستانہ پر حاضر ہوتے ہیں، جس کا ذکر آئینِ اکبری، منتخب التواریخ اور تاریخِ فرشتہ میں موجود ہے، بادشاہ کی حاضری کے بعد جو تصنیفات معرضِ وجود میں آئیں جیسے اخبارالاخیار، تاریخِ فرشتہ، گلزارِ ابرار، مراۃ الاسرار، سیرالاقطاب، سفینۃ الاؤلیا، مونس الارواح، اقتباس الانوار وغیرہ ان سب تذکروں میں خواجہ بزرگ کی ایسی ایسی کرامتوں کا ذکر ہے جنہیں اس سے پہلے نہ سنا گیا اور نہ ہی کسی جگہ پڑھا گیا، خواجہ بزرگ کے اجمیر میں پہنچنے کے بعد راجہ کے اونٹ کا بیٹھ جانا، گائے کے بچے کا دودھ دینا، انا ساگر کا پانی کاسہ میں سما جانا، علم نجومی اور رائے پتھورا کی ماں کا قصہ، جئے پال اور شادی دیو کا تذکرہ یہ سب ان تذکروں سے قبل کہیں لکھا نہیں گیا، یعنی خواجہ بزرگ کی رحلت کے پانچ سو برس کے بعد یا یوں کہیے کہ اکبر بادشاہ کی حاضری کے بعد کون سا ایسا نسخہ نکلا جس میں مذکورہ واقعات قلمبند تھے، ان پانچ سو سالوں میں روایت کی چھانٹ پرکھ کیسے ہوئی اور اس کی اصل کیا ہے، جب کہ آئینِ اکبری، منتخب التواریخ اور سفینۃ الاؤلیا میں اس طرح کے واقعات نہیں ملتے ہیں، تاریخِ فرشتہ کی زیادہ تر عبارت سیرالعارفین سے ملتی ہے، مونس الارواح کی سند اتنی مضبوط نہیں معلوم ہوتی، کئی حوالے تو ان کے اخبارالاخیار سے ہیں، جب کہ بعض جگہ گلزارِ ابرار نے بھی اس طرح کی کرامت لکھی ہے اور بابا فرید کے تذکرے میں ان سے منسوب غلط کرامات کی نشاندہی بھی کی ہے، اقتباس الانوار کا حال بھی اسی طرح کا ہے، جب ہم ان کتب پر تاریخی نظر ڈالتے ہیں اور سال کی قید و بند کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو تذکرے کی عبارت خود مؤلف کے سال کی تاریخ سے نہیں ملتی ہے جیسا کہ سیرالعارفین کا یہ دعویٰ کرنا کہ خلافت ۵۲؍ برس کی عمر میں ملی اور ۵۱؍ برس کی عمر میں ہندوستان آنے کا تذکرہ ہورہا ہے تو کیا ہندوستان آکر پھر لوٹے اور خلافت حاصل کی، یعنی کئی بار ہندوستان آنا؟ یہ محال ہے، اسی طرح سیرالاقطاب اور مراۃ الاسرار میں بڑی ساری روایتیں گنجلک ہے جو تحقیق طلب ہیں، سیرالاقطاب میں تو بعض کراماتی واقعات پر سوالیہ نشان بھی لگائے گئے ہیں۔
اخبارالاخیار کا مطالعہ کریں تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ خواجہ بزرگ کے ملفوظات بھی جمع کیے ہیں، جس کی سند کہاں سے لی اس کا کوئی علم نہیں ہے۔
بارہویں صدی ہجری میں خواجہ بزرگ پر درجنوں کتب و رسائل اور مضامین و منظومات شائع ہوئے جن میں واقعات و کرامات مذکورہ کتب و رسائل سے زیادہ اِن تصنیفات میں لکھے گئے جو مزید تحقیق طلب ہے، چند کتابوں کی فہرست یہ ہے۔
شجرۃ الانوار (علی اصغر گیلانی)
مرۃ السلاطین (غلام حسین طباطبائی)
خزینۃ الاصفیا (مفتی غلام سرور لاہوری)
احسن السیر (محمد اکبرجہاں شگفتہؔ)
وقائع شاہ معین الدین چشتی (فارسی) (منشی بابو لال الہ آبادی)
گلشنِ چشت (محمد سراج الدین احمد)
بڑی سوانح عمری (محمد حفیظ اللہ صابری)
عطائے خواجہ (شیخ ریاض الدین)
متن عطائے خواجہ (عبداللہ شاہ چشتی)
تاریخ اجمیر شریف ( محمد وزیر حسین)
ملفوظِ مطہر (خواجہ معین الدین چشتی پیر سلامؔ)
عطائے رسول (عبدالرحمٰن عرب)
تحفۃ الابرار (مرزا آفتاب بیگ)
تذکرۃ المعین (سید زین العابدین)
روضۃ الاقطاب (رونق علی)
مناقب الحبیب (حاجی نجم الدین چشتی)
شہنشاہ ہند (حسن الزماں چشتی فخری)
خواجہ معین الدین چشتی (عبدالحلیم شررؔ)
سوانح عمری خواجہ معین الدین چشتی (سیّدمحمد الیاس رضوی)
سوانح عمری خواجہ غریب نواز (سیمابؔ اکبرآبادی)
مہتابِ اجمیر (مفتی انتظام اللہ شہابی)
مکمل سوانح عمری خواجہ معین الدین چشتی مع اجمیری گائیڈ (مفتی انتظام اللہ شہابیؔ)
تاریخ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری (معین الدین چشتی)
کامل سوانح عمری غریب نواز (ملک بشیر احمد لاہوری)
اجمیری خواجہ (مقبول احمد سیوہاروی)
ہمارے خواجہ (عبدالباری معنیؔ اجمیری)
اسی طرح بعض تحقیقی کتب جو آپسی اختلافات پر لکھی گئیں جیسے
معین الارواح (امام الدین علی)
تحقیقاتِ اولادِ خواجہ صاحب (حافظ حسین اجمیری)
گلدستۂ چشتی (مصباح الدین حقیؔ)
تاریخ السلف (عبدالباری معنیؔ اجمیری)
اسی طرح کچھ تحقیقی کتابیں جیسے
حضرت خواجہ معین الدین چشتی (صباح الدین عبدالرحمٰن)
سوانح خواجہ معین الدین چشتی (وحید احمد مسعودؔ)
بعض وہ مخطوطے جس کا صرف تذکرہ ملتا ہے جیسے
تذکرہ خواجہ معین الدین چشتی (شاہ عطا حسین فانیؔ)
رہنمائے اجمیر شریف وغیرہ
اسی طرح بعض منظوم رسالے
ذکرِ خواجہ مع کراماتِ ہارونی (ضبطؔ اجمیری)
تحفۂ چشت (افضلؔ بدایونی)
ارمغانِ چشتی (محرم علی چشتی)
فراقِ اجمیر (زورؔ بدایونی)
یہ رسالے مختصر صفحات پر شائع ہوتے اور مقبولِ انام ہوتے تھے، بعض شعرا تو خواجہ بزرگ کے شان میں چند منقبت کہہ کر اسے رسالے کی صورت میں منظوم شائع کرواتے، یہ وہ کتابیں ہیں جن میں خواجہ معین الدین چشتی کے حالات و کرامات عہداکبری کی تصنیفات سے بھی زیادہ شد و مد سے لکھے گئے ہیں، پر حوالہ ندارد، یہ ایک تفصیلی موضوع ہے وگرنا بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔
اب ہم اصل رسالہ یعنی ’’تاریخِ خواجہ، رسالۂ غریب نواز المعروف بہ کراماتِ حضرت خواجہ صاحب اجمیری قدس سرہٗ‘‘ پر آتے ہیں، یہ حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کی تصنیفِ لطیف ہے، اس کے کئی نام ہیں جیسے تاریخِ خواجہ، رسالہ غریب نواز، کراماتِ حضرت خواجہ اجمیری اور تاریخِ خواجگان، حضرت اکبر نے اس میں فوائدالفواد، سیرالعارفین، تاریخِ فرشتہ وغیرہ کے حوالوں سے قلمبند کیا ہے، معاصرین میں صرف ایک رسالہ گلشنِ چشتسے ایک واقعہ نقل کیا ہے، حضرت نے کئی جگہوں پر حوالوں کے علاوہ تلخ تبصرے بھی کیے ہیں اور علمی و عقلی دلائل سے بھی اسے چھانٹ پرکھ کر تحریر کیا ہے، زمانۂ حال کا تذکرہ اور اجمیر شریف میں عرس کے انتظام و انصرام پر بھی روشنی ڈالی ہے، بعض خدام کا تذکرہ بھی آیا ہے اور ان کی خوبیاں بھی بیان کی گئی ہیں، حضرت اکبرؔ نے یہ رسالہ اپنے مرید منشی احمد حسین ابوالعُلائی (آگرہ) کی فرمائش پر قلمبند کیا ہے، آپ رقمطراز ہیں کہ
’’نام حضرت خواجہ ولی الہند کے لقبِ مبارک پر خواجہ غریب نواز۔۔۔ عزیزی قلبی منشی احمد حسین سَلَّمَہٗ کی فرمائش سے لکھی، اَلْحَمْدُ لِلہِ عَلیٰ اِحْسَانِہٖ کہ ایک ہفتہ کے اندر اس کی تصنیف سے فرصت ہوئی‘‘ (ص؍۱)
خواجہ بزرگ کی سوانح عمری پر یہ کتاب معلوماتی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے، اس کی اشاعت مطبع کائستھ ٹہکاری، کٹرہ آنند رام، آگرہ سے ہوئی ہے، کتاب پر سنہ طبع درج نہیں ہے لیکن اندرونی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ۱۳۲۰ھ میں لکھی گئی ہے، پوری کتاب۲/۱، ۱۵x۲۲ س،م سائز کے ۵۴؍صفحات پر مشتمل ہے، اس میں خواجہ بزرگ کی سوانح حیات اور فضائل و مناقب روایتی انداز میں حوالوں کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں، یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ رسالہ کی عبارت قدیم ہے اسے اپنی اصل حالت پر رکھا گیا ہے، تذکرۂ صوفیا کے علاوہ سلاطین عظام کے کتب کا جابجا حوالہ شامل ہے، اسی سلسلے میں ایک جگہ رقمطراز ہیں کہ
’’اسی صدی کی تصنیف ایک کتاب خواجہ غریب نواز کے حالات میں میری نظر سے گزری، یہ حکایت اس کتاب کی میں بھی اس جگہ نقل کیے دیتا ہوں، بعض اشخاص کہتے ہیں کہ اکثر کتابیں جو حضور کے حالات میں چھپی ہیں، ان میں یہ حکایت موجود ہے مگر تاریخِ فرشتہ میں یہ روایت میری نظر سے نہیں گزری، اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ اس کا مصنف اس مذاق کا آدمی نہیں ہے، وہ تو صرف مؤرخ ہے‘‘
اسی طرح کرامات کے باب میں حضرت اکبرؔ لکھتے ہیں کہ
’’وہ کرامتیں آپ کی جو عوام کی زبان پر ہیں، جیسے بارہ برس تک کاٹ کی ٹکیہ باندھ کر ریاضت کی۔۔۔ میری نظر سے نہیں گزری، لہٰذا میں نے بھی قلم نہیں اٹھایا اور میں ڈرا کہ کرامات کی نسبت مجھ سے باز پُرس نہ ہو، یہ لوگ اؤلیا اللہ ہیں، یہ نہیں چاہتے کہ دنیا میں کوئی جھوٹ بولے‘‘
یہ رسالہ چار طبقوں پر مشتمل ہے، پہلا طبقہ حضرت معین الدین چشتی، دوسرا طبقہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی، تیسرا طبقہ حضرت فریدالدین گنج شکر اور چوتھا طبقہ حضرت نظام الدین اؤلیا پر مشتمل ہے، عبارت سلیس اور رواں ہے، جابجا فارسی اور اردو کے اشعار ہیں، بعض جگہوں پر حضرت اکبرؔ کی غزلیں اور مناقب و سلام خوب لطف پیدا کر رہی ہیں، معاصرین میں شیخ مظہر علی مجذوب، شیخ الہٰی بخش ابوالعُلائی، درگاہ کے خدام میر رحمت علی منّو اور سیّد رمضان علی بن لعل محمد بن رحم علی اور حضرت محسن کے نام نصیحت بھی کی گئی ہے، نیز کچھ تصاویر بھی آخر ی حصوں میں شامل کی گئی ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں۔
رسالہ کے آخر میں دو بڑے صفحات شامل کیے گئے ہیں جس میں درگاہ شریف اور بلند دروازہ کا نقشہ پیش کیا گیا ہے،اسی صفحے پر دو شعر درج ہے۔
طواف کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزارِ پاک سے اڑتے ہیں نور کے بقے
ہر ایک پہ برستا ہے نور کا باراں
اس رسالہ کی وجہ تالیف یہ بتائی گئی ہے کہ حضرت اکبر کے مریدین و معتقدین نے بار بار اس خواہش کا اظہار کیا کہ کوئی ایسا رسالہ خواجہ بزرگ اور ان کے معتقدین پر قلمبند ہو جائے تاکہ ہم افراط و تفریط کا شکار نہ ہوں اور بہ آسانی ان کے علو مراتب سے آگاہ ہوسکیں، حضرت اکبر نے اختصار کا پورا خیال رکھا اور مختصر سے مختصر صفحے میں اسے قلمبند کیا ہے۔
رسالہ کے صفحۂ اول پر یہ عبارت موجود ہے۔
’’اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ، الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ۔ اَلْحَمْدُ لِلہِ عَلیٰ اِحْسَانِہٖکتاب کرامت انتساب در ذکرِ خیر حضرت خواجۂ خواجگان، معین الدین چشتی اجمیری قدس اللہ سرہٗ ۔ من تصنیف حضرت پیر و مرشد، مولانا سیّد شاہ محمد اکبر ابوالعُلائی داناپوری مَدَّظِلَّہٗ العَالِی۔مُسَمّیٰبہ رسالہ غریب نواز المعروف بہ کرامات حضرت خوا جہ صاحب قدس سرہٗ اجمیری۔ حسبِ فرمائش سعید دارین منشی احمد حسین صاحب اکبرآبادی سَلَّمَہٗ اللہُ تَعَالیٰ۔
مطبع مطبوعہ کائستھ ٹہکاری، واقع کٹرہ آنند رام، آگرہ‘‘
اور آخری صفحات پر یہ عبارت ملتی ہے کہ
’’اَلْحَمْدُ لِلہِ یہ رسالہ شریف۲۴؍ جمادی الاول ۱۳۲۰ہجری میں بمقام اکبرآباد تمام ہوا‘‘
اب اس کی دوسری اشاعت تقریباً ۱۲۵؍برس بعد خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور سے ہو رہی ہے، ہمیں امید ہے کہ اہل علم اس سے فائدہ اٹھائیں گے اور ہمارے لیے دعا گو ہوں گے، اشاعتِ اول کے بہ نسبت اشاعتِ ثانیہ زیادہ ضخیم ہے، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اشاعتِ ثانیہ کو حضرت اکبر کی تصنیفات اور ان کے سفائن کو پیشِ نظر رکھ کر تیار کی گئی ہے تاکہ سیر حاصل گفتگو ہو سکے، قارئین کی آسانی کے لیے اشاعتِ ثانیہ میں عبارت صاف و سلیس انداز میں لکھی گئی ہے، فارسی اشعار کے تراجم بھی دئے گئے ہیں، تخریج و تحشیے کے ساتھ ساتھ الگ سے ضمنی عنوانات بھی قائم کر دیئے گئے ہیں، اس سلسلے میں عزیزی سید محمد عیان ابوالعُلائی سلمہٗ اور مولانا احمد رضا اشرفی کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس کتاب کی تصحیح خلوص نیت کے ساتھ انجام دیا، خداوند تعالیٰ ان پر اپنی رحمت برسائے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.