Font by Mehr Nastaliq Web

مقدمہ : ’’آثارِ کاکو‘‘ کا تفصیلی مطالعہ

ریان ابوالعلائی

مقدمہ : ’’آثارِ کاکو‘‘ کا تفصیلی مطالعہ

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    دلچسپ معلومات

    حمدؔ کاکوی کی کتاب ’’آثارِ کاکو‘‘ پر تفصیلی مقدمہ۔

    تاریخ نویسی و تذکرہ نگاری کا ذوق و شوق شروع سے قائم رہاہے۔

    اس سلسلے میں اربابِ قلم نے جزیرۃ العرب کے حالات و مقامات کا ذکر شروع کیا اور چھوٹی بڑی کتابیں لکھ ڈالیں مگر ان میں کچھ شائع ہوئی اور کچھ ضائع ہوئی بقیہ تلف ہوئی،یہ کام سب سے پہلے عربی زبان میں ہوا اور اس کےمصنف احمد بن یحییٰ بن جابر الشہیر البلاذری (متوفیٰ ۲۷۹ھ) قرار پائے، کتاب کا نام فتوح البلدان ہے جسے خوب شہرت ملی اور تقریباً ہر زبان میں شائع ہوکر پسند کی گئی اس کتاب میں عرب کے تمام مقامات کی فتحیابی کے حالات شامل ہیں، کس شہر کو کب فتح نصیب ہوئی یا کب آباد ہوا وہ اس کتاب سے ظاہر ہے۔

    اس کے بعد مختلف مؤلفین کی مختلف کتب یکے بعد دیگرے سامنے آتی گئی ، چنانچہ گیارہویں صدی ہجری کے اوائل میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی (متوفیٰ ۱۰۵۲ھ)نے جذب القلوب الا دیار المحبوب کے نام سے فارسی زبان میں ۱۷؍ ابواب پر مشتمل مدینہ منور ہ کی تاریخ رقم کی ہے،یہ اپنے دور کے مؤرخ اور مشہور محدث گزرے ہیں۔

    شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے ۹۸۸ھ میں مدینہ منورہ میں تالیف شروع کی اور ۱۰۰۱ھ بمقام دہلی پایۂ تکمیل کو پہنچی، شیخ نے اس کتاب میں سیّد نورالدین علی کی کتاب وفا الوفا باخبار دارالمصطفیٰ سے کافی استفادہ کیا ہے، یہ کتاب کئی مرتبہ چھپ چکی ہے۔

    صوبۂ بہار میں کسی شہر یا گاؤں کا تذکرہ سب سے پہلے جو قلمبند ہوا وہ منشی اجودھیاپرشاد منیری کے قلم سے گلزار بہار معروف بہ ریاض ترہت ہے ، اس کتاب میں ترہٹ کمیشنری کی تاریخ بیان کی گئی ہے اور مصنف چوں کہ سائین ٹفیک سوسائیٹی مظفر پور کے ترجمان اخبار الاخبار کے مدیر تھے اس لیے سوسائٹی اور اخبار کی تاریخ پر بھی روشنی ڈالی ہے اور اس کے علاوہ اس علاقہ کے چند شعرا کے احوال بھی درج کیے گئے ہیں، طرزِتحریر قدیم رنگ کا پر تکلف ہے، اس کی طباعت ۱۲۸۷ھ میں مظفر پور سے ہوئی، اس کے بعد دیگر تذکروں کا دور شروع ہوا چنانچہ تیرہویں صدی ہجری سے بہار میں تذکرہ و تاریخ کے عنوان سے کئی کتابیں لکھی جانے لگیں اور طبع ہوکر مشہور عوام ہوئیں جن میں کچھ کتابو ں کے نام ذیل میں ترتیب کے ساتھ درج کیے جاتے ہیں۔

    (۱) کلیدتاریخ ہندوستان بھوانی لال ۱۲۸۸ھ

    (۲) وقائع درانیہ سید احمد باروی نامعلوم

    (۳) تاریخِ صوبۂ بہار شادؔعظیم آبادی ۱۲۹۸ھ( پٹنہ)

    (۴) آئینہ ترہٹ بابوبہاری لال فطرتؔ ۱۳۰۱ھ(لکھنؤ)

    (۵) تواریخ کھرگ پور مہادیو لال ۱۳۰۲ھ (مونگیر)

    (۶) تذکرۃ الکرام شاہ کبیر داناپوری ۱۳۱۱ھ (لکھنؤ)

    (۷) خلاصۃ التواریخ مکہ معظمہ فخرالدین حسین خاں ۱۳۱۲(لکھنؤ)

    (۸) ہندجدید مترجم سیّد عبدالغنی و حسن علی ۱۳۱۸ھ(پٹنہ)

    (۹) تاریخِ عرب، جلد اول شاہ اکبرؔ داناپوری ۱۳۱۸ھ(آگرہ)

    (۱۰) اشرف التواریخ (جلداول تا سوم) ۱۳۲۲ھ(آگرہ)

    (۱۱) کوکبۂ مملوکی و سلوکی ضمیر الدین احمد ۱۳۲۳ھ(پٹنہ)

    (۱۲) تاریخِ ترکیہ شعیب آروی نامعلوم

    (۱۳) تاریخِ عظیم آباد خدا بخش خاں مخطوطہ

    (۱۴) حالاتِ فرقہ ہائے مختلفہ سید احمد باروی نامعلوم

    (۱۵) تاریخِ بلگرام صفیرؔ بلگرامی ۱۲۹۸ھ

    (۱۶) تاریخِ رمضان پور عبدالغفور رمضان پوری نامعلوم

    (۱۷) ظفر محمدی شجاعت علی نامعلوم

    (۱۸) بزمِ آخر سید احمد باروی نامعلوم

    کاکو صوبۂ بہار میں تاریخی حیثیت سے ایک منفرد قصبہ ہے، یہاں ہر دور میں مختلف قسم کی تہذیب و تمدن ،عادات و خصائل، اؤلیا و اصفیا اور شعرا و ادبا پائے گئے ہیں۔

    آثارِکاکو ایک ایسی جامع کتاب ہے جو اس قصبہ کی تاریخ کے ایسے دروزے کھولتی ہے کہ پڑھنے والادنگ رہ جاتا ہے اور خود کو اس قصبہ میں گھومتا ہوا پاتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ ان تمام مقامات کو بہ نگاہِ خویش دیکھ رہاہے اور اسی چیز نے راقم کو بھی متاثر کیا۔

    اگر ہم نفسِ کتاب کے متعلق کچھ لکھیں تو یہاں صرف یہ لکھنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ یہ کتاب ایک بڑی حد تک آئینے کی طرح ہے جس میں کاکو کے ابتدائی عہد کی تصویر نظر آتی ہے۔

    آثارِکاکو پہلا تذکرہ ہے جو کسی قصبہ کے حالات کا گواہ ہے،اس کتاب میں کاکو کا تاریخی پسِ منظر ،کاکوکا رقبہ اور آبادی،سماجی ثقافتی،ادبی،روحانی،تعلیمِ دینی و دنیاوی ، صوفیائے متقدمین و متاخرین، شعرااور مشاہیرکے احوال و کوائف کے علاوہ حضرت مخدومہ ہدیہ المشتہربی بی کمال کے حالات و کمالات،مکاشفات و مجاہدات اور ان کے اسلاف و اخلاف وغیرہ کے حالات سے پُر ہیں۔

    آثارِکاکو صوبۂ بہار میں پہلی کتاب ہے جو اپنے موضو ع ومتنوع کے لہاذ سے صفِ اول پر نظر آتی ہے، اس کتاب کے مؤلف حضرت سیّدشاہ غفورالرحمٰن قادری ابوالعُلائی حمدؔ کاکوی ہیں۔

    آپ کی پیدائش ۵؍شوال المکرم ۱۲۷۹ھ یکشنبہ صبحِ صادق کاکومیں ہوئی ،نام غفور الرحمٰن، تخلص حمدؔ،والد کا نام حضرت حاجی شاہ محمد مبین اور والدہ مسماۃ رجب النسا عرف رجبن بنت قاضی اسد علی سے ہوئی ،والدہ کی جانب سے آپ فاروقی ہیں۔

    خود رقمطراز ہیں کہ

    ’’جب چار سال کی عمر ہوئی تو میرے حقیقی ماموں قاضی احمد بخش نے میری بِسم اللہ خوانی کرائی ،منشی محمد ہاشم علی(مرید حضرت شاہ اکبرؔداناپوری) سے تعلیم کی ابتدا ہوئی اردو فارسی کی چند کتابیں مثلاً بہارِ دانش اور سکندرنامہ شروع کیا ‘‘

    مزید رقمطراز ہیں کہ

    ’’دل میں حفظِ قرآن کا شوق پیدا ہوا‘‘

    حافظ کی تلاش ہوئی، آخر حافظ خورشید علی سے سلسلہ حفظِ قرآن چلا لیکن نا معلوم سبب کی بنا پر موقوف ہوا،زمانۂ طفلی میں چند دنوں کاکو سے گیا کی جانب بغرض تعلیم منتقل ہوئے اور وہاں موضع ڈیانوںاور جب یہاں سے دل برداشتہ ہواتو چنددن آرہ میں رہ کر پھر گھر کو لوٹ آئے ،مزید لکھتے ہیں کہ

    ’’جب سلسلۂ تعلیم ختم ہوگیا تو والد ماجد نے مجھ سے وہ خطوط پڑھوانے لگے جو اُن کے نام اِدھر اُدھر سے آتے تھے یاوہ بھی جوبعد میں لوگوں کو لکھتے تھے پھر اُن کے مطالب ہم سے پوچھتے اور اس کی وضاحت فرماتے اس طرح یہ سلسلہ کچھ عرصہ تک رہا‘‘

    علم میں اضافہ ہوتا رہا ،باتوں کو سمجھنے اور غور و فکر کا نیا وسیلہ بنا ،یہی نہیں بلکہ کہتے ہیں

    ’’جو سمجھ میں نہ آتا اس کو سمجھاتے اس طرح تعلیم کا سلسلہ عرصہ تک رہا خوش ہوکر انعام دیتے اور اُن کے فیضانِ صحبت سے بہت کچھ حاصل کیا‘‘

    اردو کے ساتھ فارسی کی استعداد بھی خوب سے خوب تر تھی۔

    یہ خاندان اپنے عالمانہ روِش اور فقیرانہ زندگی کے لیے کاکو میں مشہور تھا، خود خاندان کے اجداد سلسلۂ قادریہ اور چشتیہ کے بزرگ مثلاً دہلی ،مرادآباد سے منسلک رہے لیکن قدرت کو تو کچھ اور منظور تھا،لکھتے ہیںکہ

    ’’میری طبیعت میں بزرگانِ دین سے عقیدت کا جذبہ کار فرما تھا حضرت شاہ سجاد سجادہ نشیں؍خانقاہِ داناپور اکثر کاکو تشریف لاتے تھے اُن سے نیاز حاصل ہوچکا تھا ایک بار وہ حافظ احمد رضا صاحب وکیل کے نواسوں کی تقریب بسم اللہ میں گیا تشریف لائے یہ اطلاع جوملی تو میں نے ایک عریضہ حضرت سجاد کی خدمت میں ارسال کیا اور اپنے یہاں تشریف لانے کی دعوت دی آپ نے یہ کمال مہربانی یہ اعزاز بخشا اور غریب خانہ پر آنے اور فروکش ہونے کی زحمت گوارا کی دو روز آپ میرے غریب خانہ پر مہمان رہے پھر کاکو کے رئیس ِ اعظم شیخ عبدالرحمٰن صاحب کے یہاں تشریف لے گئے اُن کی والدہ حضرت سے بیعت تھی ایک دن یکا یک دل میں بہ جذبۂ غیبی پیدا ہواکہ مجھے حضرت سے بیعت لینی چاہیے عریضہ ارسال کیا شرف قبولیت بخشا گیااور بتاریخ۷؍ربیع الثانی ۱۲۹۷ھ بعد نماز مغرب میرے قیام گاہ پر جو خاندانی خانقاہ تھی آپ تشریف لائے اور طریقۂ قادریہ میں میری بیعت لے لی اور اُس وقت از راہِ نوازش اجازت و خلافت سے بھی مشرف فرمایا بستی کے معزز ارکا ن اس موقع پر مدعو تھے میری عمر اس وقت کُل ۱۸؍۱۷ سال کی تھی ، حضرت کا کرم تھا کہ دل کی آرزو اس شعر کے مصداق پوری ہوئی ۔

    خاک را بہ نظر کیمیا کند

    آیا بود کہ گوشۂ چشمہ بما کند

    یادِ وطن میں حضرت پیرومرشد کی عقیدت میں یوں بیان کرتے ہیں کہ

    کہاں ہو ہوش میں آجاؤ اب سنبھل بیٹھو!

    وہی کرو جو ہے ارشاد حضرت سجاد

    انہیں کے دست مبارک پہ ہے مجھے بیعت

    مرید ان کا ہوں میں اور وہ ہیں میری مراد

    بلکہ ایک جگہ تو عقیدت و محبت کی مثال قائم کررہے ہیں۔

    ’’بزرگان دین سے گہری عقیدت رہی میں نے جو کچھ فیض پایا وہ اپنے مرشد کا مل شاہ سجاد علیہ الرحمہ سے اور کسی بزرگ سے نہ کچھ فیض حاصل کیا اور نامعانقہ تک کی نوبت آئی اور نہ کسی کی طرف طبیعت کا رجحان رکھا‘‘

    سخنِ گلستاں کے متعلق خود رقمطراز ہیںکہ

    ’’میری ابتدائی تعلیم کا زمانہ تھا ٹوٹے پھوٹے اشعار کہنے لگا ایک مختصر سا مجموعہ ہوگیاجو میرے ہندو ساتھی نند کشور سنگھ کے پاس تھا اُن سے واپس لینے کا موقع نہ ملا‘‘

    لڑکپن کا وہ شعر یہ تھا

    ہوا سے تیز ہے چلن میں

    اُڑے گا جاکے پہنچے گا عدن میں

    خاندان کے اکثر افراد کو شعر و سخن کی طرف رغبت تھی لیکن افسوس کسی کا کلام انفرادی حیثیت سے شائع نہ ہوسکا، فن سخن میں حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری سے شاگردی حاصل تھا، تفصیل انہیں کی زبان میں پڑھیے۔

    ’’جب پہلے ایک غزل کہی تو فکر ہوئی کہ کسی استاد سے اس پر اصلاح لی جائے نظر اِنتخاب جناب سید شاہ محمد اکبر ابوالعلائی داناپوری پر پڑی آپ ہمارے حضرت پیر و مرشد کے فرزند تھے صاحبِ دیوان شاعر تھے اُن سے قلبی تعلق بھی تھا، الغرض اپنی غزل بذریعہ ڈاک داناپور روانہ کردی اب یہ بھی یاد نہیں کہ کوئی تخلص بھی اپنا رکھا تھا یا نہیں حضرت اُستادی نے میرا تخلص حمدؔتجویز کیا غزل پر اصلاح فرمادی‘‘

    مزید لکھتے ہیںکہ

    ’’حضرت استادی چوں کہ اکثر مختلف مقامات مثلاً الہ آباد، آگرہ،گوالیار،اجمیر شریف وغیرہ پر اقامت پذیر رہتے تھے‘‘

    اصلاح کا سلسلہ برابر ڈاک ہی کے ذریعہ سے ہوتا رہا اور اسی طرح دس بارہ غزلیں حضرت کی اصلاح سے مزین ہوئے، اس کے بعد پھر اس کاموقع نہ ملا نمونۂ کلام ملاحظہ کیجیے اور جنابِ حمدؔ کو داد و تحسین سے نوازیے۔

    حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری حمد کے متعلق رقمطراز ہیںکہ

    ’’آپ معزز و مکرم خاندان کے یادگار ہیں چوں کہ حضرت والد ماجد (مخدوم سجادپاک) موصوف سے کمال درجہ کی محبت تھی لہذا آپ کو اپنے خاندان میں بیعت کا اتفاق نہ ہوا حضرت والد ماجد قدس سرہٗسے شرف بیعت حاصل کیا اور حلقہ ٔارشاد میں داخل ہوئے ،ماشاء اللہ فہم اچھی ہے رابطہ بہت قوی ہے حضرت سیدنا (امیر ابوالعلا) رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عرس کاکو میں نہم صفر المظفر کو کمال خلوص سے کرتے ہیں شرف اجاز ت و خلافت بھی حاصل ہے،زاداللہ تقواہ‘‘(نذرِ محبوب، ص ؍۴۵)

    اپنے استادکی حمد ’ائے بے نیاز مالک مالک ہے نام تیرا‘کے طرز پر یہ غزل لکھی ہے۔

    فلک تیرا زمیں تیری چمن تیرا شجر تیرا

    یہ گل تیرا یہ بو تیری تری رنگت چمن تیرا

    تیرے خوانِ کرم سے نعمتیں ملتی ہیں ہر اک کو

    کوئی بھی بھول سکتا ہے یہ احساں عمر بھر تیرا

    یہ د ست و پائیں ترے آنکھیں تیری ہیں زباں تیری

    یہ تن تیرا یہ جاں تیری یہ دل تیرا جگر تیرا

    تعجب ہے کہ پرستش حمدؔسے ہوتی ہے عصیاں کی

    ادب مانع ہے کیونکر دوں جواب اے داد گر تیرا

    کھینچ گیا ہے میری آنکھوں میں جو نقشا تیرا

    نظر آتا ہے ہر اک چیز میں جلوہ تیرا

    لکھنے پڑھنے کا شوق والد کے زمانے ہی سے تھاآپ کا شعری سرمایہ جو تبحر علمی پر غماز ہے وہ یہ ہے ۔

    (۱) کلیاتِ حمد (غیر مطبوعہ)

    (۲) آثارِ کاکو (مطبوعہ)

    (۳) چائے نامہ (مطبوعہ)

    حمدؔ کاکوی کا ایک واقعہ بڑا مشہور ہے وہ چوسہ کھلنے میں ماہر تھے اس کھیل میں ان کو غضب کا کمال حاصل تھا ایک دن کا واقعہ ہے کہ ایک روز حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کا رقعہ آپ کے پاس آیا کہ وہ فلاں تاریخ کو گیا جارہے ہیں ،لوٹنے میں فلاں تاریخ کو ریل گاڑی سے فلاں وقت جہان آباد اسٹیشن پر اتریں گے اور آپ کے گھر’ کاکو‘ کا قصد کریں گے ،جناب حمدؔ بڑا مسرور ہوئے اور پروگرام بنالیا کہ اُس روز سواری کے ساتھ نفس نفیس وہ اسٹیشن پر موجود رہیں گے مگر بُرا ہو زمیندارانہ لہو و لعب کا کہ ان کے ذہن سے حضرت کی آمد کی تاریخ نکل گئی اور وہ اپنے بیٹکے میں اپنے احباب کے ساتھ چوسہ میں مشغول ہوگئے ،جہان آباد اسٹیشن سے ’کاکو‘ کوئی چار کوس بھر موجودہ ناپ سے پکا آٹھ کیلو میٹر کی دوری پر ہے اُس وقت اسٹیشن سے کاکو جانے کے لیے سرکاری یا غیر سرکاری سواری کاکوئی نظم نہیں تھا ،راستہ بھی کسی گت کا نہیں تھا،طرفہ یہ ہے کہ جیٹھ کا مہینہ، لہالہی دھوپ، گرمی ایسی کہ چیل انڈے چھوڑدے، ایسی حالت میں حضرت اسٹیشن پر ٹرین سے اترتے ہیں، اِدہر اُدہر دیکھتے ہیں مگر اُن کو لینے کے لیے چڑیئے کا ایک پوت بھی نہیں، بڑی ہمت والے تھے، چلچلاتی دھوپ میں پاپیادہ ’کاکو‘ کی طرف چل پڑے، جناب حمدؔ جس بیٹکے میں چوسہ کھیل رہے تھے اس کے سامنے ایک بڑا احاطہ تھا اور اس کے آگے داخلے کا برا گیٹ تھا جو عموماً اُس وقت کے بڑے مکانوں یا حویلیوں میں ہواکرتا تھا ،جناب حمدؔ کی کھیلتے ہوئے معاً نگاہ جو گیٹ کی طرف اٹھی تو دیکھا کہ حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری پسینے پسینے، گرمی سے منہ ٹمٹماتا ہوا گیٹ میں داخل ہورہے ہیں یہ دیکھنا تھا کہ حمدؔ کے ہوش اُڑ گئے، حواس باختہ ہوکے چوسہ کو اٹھا کر پھینکا اور ننگے پاؤں حضرت کے قدم لینے کو گیٹ کی طرف دوڑے، پھر کبھی چوسہ او رلہو ولعب کی طرف مڑ کر نہ دیکھا ۔

    والد کی وفات سے چھ ماہ بعد ۱۴؍سال کی عمر میں رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئے ،مولوی نورالحسن کی منجھلی صاحبزادی سے بتاریخ ۵؍جمادی الاول۱۲۹۴ھ شادی انجام پائی،دو پسراورتین لڑکیاںہوئیںمگر سب کے سب یکے بعد دیگرے اس دنیائے آب و گل کو چھوڑ کر عالمِ جاودانی کو سداھارے ،اہلیہ۲۶؍ذی الحجہ ۱۳۰۶ھ بہ عارضہ تَپ دق کاکو میں انتقال کیا قبر ڈینی باغ میں ہے، چند روز بعد احباب کی توجہ سے مخدوم جلال ابن مخدوم عبدالعزیز ابن امام محمد تاج فقیہ کی اولاد ذکور سے شاہ محمد صادق شعیبی (شیخ پورہ)کی بڑی صاحبزادی مسماۃ رسولن سے ۲۱؍شوال ۱۳۰۸ھ کو تقریب سعید انجام پائی جن سے دو لڑکیاں ہوئی(کم سِن میں فوت ہوئی)اور تین لڑکےولیؔ ؔکاکوی، اخترؔکاکوی اور عطاؔکاکوی ہوئے جن سے ایک زمانے کو تعلیم روشنی حاصل ہوئی واضح ہوکہ سبھوں کی بِسم اللہ خوانی خود حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری نے کرائی جس کا ذکر صاحبِ آثار نے دلکش انداز میں کیا ہے،ان کے فرزندوں کے متعلق مشہور زمانہ واقعہ بلکہ عجیب و غریب واقعہ ہے کہ تینوں بیٹوں کی تعلیم حاصل کرنے کے سلسلے میں زمینداری کی آمدنی اس خرچِ کثیر کو پورا نہیں کرسکتی تھی اس لیے آپ نے اپنی زمینداری کا حصہ بیچ بیچ کر یہ خرچ برداشت کرتے ،یہ کاکو کے لوگوں کے لیے انوکھی اور عجیب بات تھی کہ کوئی زمیندار،بیٹوں کی تعلیم کا خرچ زمینداری کا حصہ فروخت کرکے پورا کرے لہذا پوچھنے والے نہ پوچھا کہ ساری زمین بیچ ہی ڈالیں گے تو لڑکوں کو تَرکہ میں کیا ملے گا ،جواب دیا اگر یہ لڑکے تعلیم حاصل نہ کرسکے اور جاہل رہ گئے تو یہ زمینداری اُن کی کفالت نہ کرسکے گی اور بربنائے جہالت جو کچھ ہوگا اُسے بھی بیچ ڈالیں گے اگر ان لوگوں نے تعلیم پالیا تو ان میں سے ہر ایک ایسی ایسی تین زمینیں خریدلیںگے آپ کا یہ عاقلانہ جواب مضافات میں عرصہ تک بعض لوگوں کے لیے سبق بنا ،حالات نے ثابت کردیا کہ یہ نظریہ کس قدر عاقلانہ و مُلہمانہ تھا۔

    ارتحال کا حال صاحبزادہ اخترؔکاکوی کی تحریر سےصاف ظاہر ہوتی ہے۔

    ’’آپ کا وصال کاکو ہی میں چند امراض میں مبتلا رہ کر ۹؍جمادی الاول شنبہ ۱۳۵۷ھ دو بجے دن کو ہوا جولائی کا مہینہ تھا لیکن بارش نہ ہونے کے سبب سب لوگ پریشان تھے وصال کے بعد ہی اتفاق سے اتنی بارش ہوئی کہ اللہ دے اور بندہ لے ،تجہیز و تکفین کے متعلق سب لوگ بہت متردد تھے لیکن خدا کی شان دیکھئے کہ گھنٹے دو گھنٹے کے بعد بارش بالکل تھم گئی ،فضا صاف ہوگئی،آسمان خوشگوار ہوگیا اس لیے بہت اطمینان سے سب کام باطمینان تمام انجام پاگیا ،تو قع کے خلاف جنازے میں مجمع کثیر تھا ،میں نے ہی نمازِ جنازہ پڑھائی ڈینی باغ خاندانی قبرستان میں جسد خاکی کو سپرد خاک کیا گیا، تقریباً نو بجے شب میں سب لوگ قبرستان سے واپس آئے ‘‘

    آمدم برسرِ مطلب

    آثارِ کاکو آپ نے سال ۱۳۲۰ھ میں لکھنے کی شروعات کی اور تقریباً چوبیس برس تک تلا ش و جستجو میں لگے رہے جیسا کہ مؤلف نے لکھا ہے کہ آتش زدگی کے باعث پُرانے دستاویز و سفائن وغیرہ ضائع ہوگئے۔

    اس تعلق سے عطاؔ کاکوی لکھتے ہیں کہ

    والد ماجد حضرت سیّدشاہ غفورالرحمٰن المتخلص بہ حمد نے اپنے وطن قصبہ کمال آبادعرف کاکو کی تاریخ اور وہاں کے آثار کے حالات کو بڑی محنت اور جانفشانی کے ساتھ مرتب کیا تھا اور اُن کی تمنا تھی کہ یہ تذکرہ اُن کی زندگی ہی میں چھپ کر شائقین کے ہاتھوں تک پہنچ جائے مگر

    اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

    مصنف نے اس تاریخ کو لکھنے کی ابتدا ۱۳۲۰ھ سے کی حالات کی جستجو اور واقعات کی چھان بین میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھا، جہاں تک مستند ماخذ مل سکے اُن کی روشنی میں حالات و واقعات مرتب کیے گئے۔

    چوں کہ یہ کتاب مؤلف کے عہد میں شائع نہ ہوسکی اور ایک طویل عرصہ تک مسودہ کی حالت میں پڑی رہی اس لیے اس کی قدامت سے لوگ نہ آشنا رہےمگر اسی دوران سال ۱۳۶۶ھ میں حکیم شعیب احمد پھلواروی نے پھلواری شریف پر ایک مکمل کتاب ’’اعیانِ وطن المعروف بہ آثارِ پھلواری شریف‘‘ رقم کیا، پھراسی طرح ایک سال بعد ۱۳۶۷ھ میں خانقاہ منیر شریف کے مولانا سیّدشاہ مراد اللہ فردوسی نے بھی ’’آثارِ منیر‘‘ترتیب دیا،سال ۱۳۹۳ھ میں بہار شریف کے قصبہ موڑہ تالاب پر’’ آثارِ موڑہ تالاب‘‘ کے عنوان سے خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے سجادہ نشیں حضرت مولانا سید شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی نے بھی تحریر فرمائی جس کا نسخہ خانقاہ کے کتب خانہ میں محفوظ ہے۔

    حضرت غفورالرحمٰن نے ۱۳۲۰ھ میں ایک تذکرہ کی حیثیت سے اس کی شروعات کی تھی اور اس کا نام بھی’ ’تذکرہ ‘‘رکھا تھامگر رفتہ رفتہ معلومات کا اضافہ ہوتا گیا ،نئے نئے راز منکشف ہوتے گئے اور کچھ ہی روزمیں کاکوکے بیشتر موضوعات پرحالات جمع ہوگئے اور سال ۱۳۳۹ھ میں اس کا تاریخی نام ’’ارمغانِ کاکو‘‘ اور ’’ آثارِ کاکو شریف‘‘ تجویز کیا، عرصہ تک یہ کتاب مسودہ کی صورت میں پڑی رہی، مؤلف نے پھر اس پر کچھ صاحبان و فرزندان کے حالات شامل کیے اور بالآخر سال ۱۳۵۴ھ میں لالہ ٹھاکر لال سے کتابت کراکر محفوظ کرلیا،واضح ہوکہ مؤلف نے جب پہلا مسودہ تیار کیا جو بزرگوں کے سفینوں اور قلمی کتب کے حوالوں سے مزین تھا وہ دیمک کی نذر ہوگیا، مؤلف کو اس کا سخت صدمہ پہنچا اور دل ٹوٹ گیا مگر پھر جذبے نے جوش مارا اور اپنی یاد داشت کے بنا پر دوبارہ لکھنا شروع کیا۔

    آثارِکاکو کی داستان بھی بڑی عجیب و غریب ہے، اخترؔ کاکوی کا کہنا ہے کہ

    ’’ہم تینوں بھائیوں کے مختلف القیام کے باعث مصنف کا جو کچھ سرمایہ علمی و تصنیفی تھا وہ نوکر وں کے حوالہ رہا اور کسی نے ان کو غائب کردیا، ایک نسخہ جو اصل مسودہ نہیں تھا بلکہ اس کی نقل ہے کسی نے بنیے کی دوکان پر بیچ دیا اور اتفاق سے اس کو سید محمد حسن الدین کاکوی نے اس بنیے سے حاصل کیا‘‘

    آثارِ کاکوآتش زدگی میں جل کر،دیمک کی نذر ہوکر،بنیے کی دوکان اور بازاروں کوچوں میں گھوم پھر کر اور ناجانے کیسی کیسی مشکلات کو برداشت کرکے ہمیں یہ پیغام دیا کہ

    ’’کوشش کرنے والوں کی کبھی ہار نہیں ہوتی‘‘

    آثارِ کاکوکا بخط مصنف قلمی نسخہ خدا بخش خاںکے کتب خانہ میں محفوظ ہے ، کتاب کی تقطیع ۲۱x۳۱ ہے یعنی رجسٹرڈ سائز ۱۴۵؍صفحات زرد ارولی کا غذ کے ہیں مگر سن درج نہیں ہے،نسخہ دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مؤلف کافی عرصہ سے اسے تحریر کررہے تھے جگہ جگہ الفاظ و معانی بھی غائب نظر آتے ہیں ،یہاں تک کہ مؤلف نے کئی سرخیاں بھی لگائی تھی مگر اس کے نیچے احوال شامل نہیں کیایا پھر دوچار سطر کے بعد صفحات خالی چھوڑ دیئے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ مؤلف جاں بحق ہوگئے، نسخہ صاف اور بالکل واضح ہے۔

    عطاؔ کاکوی رقمطراز ہیں کہ

    ’’عرصہ تک یہ کتاب مسودے کی صورت میں پڑی رہی مصنف نے پھر اس پر مزید اضافے کیے اور بالآخر اپنی زندگی ہی میں ۱۳۵۴ھ میں اس کو مکمل طور پر کاتب سے لکھو اکر قطعۂ تاریخِ تکمیل حسبِ ذیل لکھا۔

    فکر ایزد چوں نہ سازم روز و شب

    سالہا از فکر و کوشش بے شمار

    در ہزار وسہ صد و ہم بست سال

    کردم آغازش نوشتم چند بار

    عاقبت گشتہ مرتب ایں کتاب

    تا بماند بہر کاکو یادگار

    سال اتمامش رقم زد خامہ ام

    یک ہزار و سہ صد و پنجاہ و چار

    مصنف نے اپنی اس تصنیف کی طباعت اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکے اور تین سال کے بعد۹ ؍جمادی الاول ۱۳۵۷ھ دارفانی سے دارالبقا میں پہنچ گئے‘‘

    مؤلف نے جس جاں فشانی کے ساتھ مستند افرادسے استفاضہ و استقاضہ کیاہے وہ قابلِ فخر ہے،بڑی انہماک و ارتکاز کے ساتھ ماخذ و منابع کا خیال رکھا اور کوشش کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ حوالے جات فراہم ہوسکے،معتبر مشائخ کے احوال ومقامات اور مؤقر شعرا کے احوال وکوائف کو جس طرزِ روش کے ساتھ پیش کیا ہے وہ مؤلف کا ندازِ تحریر ہے،کتاب فن تذکرہ کے ارزش و اعتبار سے مزایا و محاسن سے مملو ہے اس کی اہمیت و افادیت اور وقار و معیارعلم وادب کے ہرادوار میں کاکو کو بلند وبالارکھے گیں۔

    میرا خیال ہے کہ ہر دور میں آثارِ کاکو کاکوکے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوگا، شاید جنابِ حمدؔنے اپنا مستقبل ’آثارِکاکو‘کے حوالہ کردیا ہے،لکھتے ہیںکہ

    ’’اپنی یادگار صرف آثارِ کاکوہے‘‘(ص؍)

    اور آنے والی نسل کو یہ تلقین کررہے ہیں کہ

    ’’آثارِ کاکو کی ترتیب بڑی محنت اور کوشش سے ہوئی ہے، اپنے وقت میں اس کی طباعت نہ کراسکا، اب اس کے متعلق میرے پسماندگان اور یارانِ وطن کو لازم ہے کہ جو کچھ حالات و واقعات گزشتہ و آئندہ ہیں ان کو قلمبند کرکے طبع کرا دیںکیونکہ یہ۳۴؍سال کا سرمایۂ ریاض میرا ہے، اس کی قدر کرنی چاہیے‘‘ لمؤلفہ

    سلسلہ اس کا رکھو میرے عزیز و دائم

    یاد رکھو یہ میرے بعد وصیت میری

    آثارِکاکو کی نظرِ ثانی کے لیے حضرت حمدؔ لکھتے ہیں کہ

    ’’ابتدا میں یہ دلی خواہش تھی کہ استاد ی حضرت شاہ محمد اکبر رحمۃ اللہ علیہ کی نظر سے گزرکر زیورِ اصلاح سے مزین ہوجاتی حضرت استادی کا قیام ان دنوں زیادہ تر اکبرآباد میں رہتا ارادہ ہواکہ وہیں جاکر یہ کام انجام پذیر ہومگرقدرت کو منظور نہ تھا حضرت استاد ی داناپور تشریف لائے اور بالآخر ۱۳۲۷ھ۱۴؍رجب المرجب کو آپ اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے، الغرض یہ تمنا پوری نہ ہوسکی اورحسرت دل کی دل ہی میں رہی بقول استاد

    استاد تو بہشت میں ہیں اور ہم ہیں یہاں

    اصلاح کون دے یہ زمیں آسماں پر نہیں

    دوستوں نے مشورہ دیا کہ کسی اور صاحبِ قلم کو یہ تکلیف دی جائے کہ اس پر نظرِ ثانی کریں مگر دل اس پر راضی نہ ہوا اور اس شعر پر عمل ہواکہ

    کہن جامۂ خویش آراستن

    بہ از جامۂ عاریت خواستن

    اب یہ کتاب جس میں نثر و نظم دونوں ہیں بلا اصلاح ناظرین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ،بھول چوک خاصۂ انسانی ہے، بقول استاد علیہ الرحمہ‘‘

    آدمی ہوں میری اصلیت ہے اکبرؔبھول چوک ہے خطا میرے لیے میں ہوں خطا کے واسطے۔ (اسی کتاب سے)

    آثارِ کاکو کی شہرت مؤلف کی زندگی میںہی ہوچکی تھی ، حاجی عبدالعلیم مظہر علی انصاری سفر نامۂ مظہریمیں لکھتے ہیں کہ

    ’’سید شاہ غفور الرحمٰن صاحب رئیس بہترین معاش اور اچھی طبیعت کے آدمی ہیں، شاعر اور اہلِ قلم ہیں، ایک کتاب آثارِ کاکو نامی ترتیب دی ہے،مسلمان شرفائے کاکو کی خاندانی تاریخ ہے اور ان کو زندگی دوام بخشنے کا ذریعہ مگر ابھی شائع نہیں ہے‘‘

    کاکو صوبۂ بہار میں تاریخی جگہ کی حامل ہے، منیر شریف،عظیم آباد اور بہار شریف کے بعد کاکو کو تاریخی حیثیت حاصل ہے ،کسی زمانے میں یہاں صوفیائے کرام کی کثرت ہوا کرتی تھی ،حضرت مخدومِ جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری بھی اپنی خالہ حضرت بی بی کمال سے ملاقات کے لیے تشریف لایاکرتے تھے اور فرمایاکرتے تھےکہ

    ’’کاکو میں قدم سنبھال کر رکھو ،ناجانے کس مقام پر کس بزرگ کی قبر ہو‘‘

    یہاں کسی زمانے میں حضرت مخدوم کا چلہ گاہ بھی تھامگر اب آثار نہیں پائے جاتے،حضرت مخدوم کے ایک جانثار اور عقیدت مند حضرت شیخ اعز کاکوی جن کا واقعہ طو ل ہے اسی خاک پاک کے رہنے والے مشاہیر بزرگ میں سے تھے ، حضرت مخدوم کا رسالہ اجْوَبۂ کاکویہ آپ کے طلبِ علم کو دیکھتے ہوئے قلمبند کیا گیا تھا، فیروز شاہ تغلق جب حضرت مخدوم سے ملاقات کرنے بہار شریف آنے لگے تو ایک شب قصبہ کاکو کے بی بی پور میں قیام کیا اور عقیدت و محبت کا مظاہرہ پیش کیا، روضہ ٔ کمال اسی بادشاہ نے تعمیر کرایا ہے۔

    کاکو میں بے شمار اؤلیا و اصفیا کی جماعت آرام فرما رہی ہے، یہاں کئی خانقاہیں بھی وجود میں آئیں جس سے معاشرے میں کافی سکون و راحت میسر ہوا، بندگانِ خدا خوب شوق سے صوفیوں کی ٹوٹی ہوئی چٹائی پر بیٹھتے اور فرحت و انبساط محسوس کرتے، لوگوں نے صوفیائے کرام کے ذریعہ علم و ادب اور کشفِ اسرارپر عبور حاصل کرلیا تھا،سلوک کی منزلیں بآسانی طے ہونی لگیں، یہاں تک کہ فتوحات غیبی کے درواز ے طالبِ حق پر کھل گئے۔

    کاکو میں حضرت سید عبدالرحمٰن، حضرت سید ابراہیم زندہ دل، حضرت مولانا شاہ عبدالغنی اور حضرت سید قیام الدین کی خانقاہیں آباد تھیں مگر تفصیل نہیں ملتی، خانقاہ حضرت ابراہیم زندہ دل کی کچھ شکستہ ایٹیں اور خانقاہ سے متصل ایک قناتی مسجد کے کچھ آثار ظاہر ہوتے ہیں، ان اصفیا کے بعد حضرت سید حبیب اللہ فردوسی نے کاکو میں خانقاہی نظام کو پھر سے زندہ اور جاوید کیا، آپ کو خسرِ معظم حضرت دیوان رفیع الدین بلخی سے اجازت و خلافت حاصل تھی،مشائخ فردوسیہ میں آپ پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے سلسلۂ فردوسیہ کو کاکومیں رائج کیا، آپ کی خانقاہ حبیبیہ علم وادب،فقر وتصوف،زہد وورع اور شعر و سخن سے وابستہ رہی ہے، اس خانقاہ کے آخری سجادہ نشیں حضرت شاہ تبارک حسین ہوئے، آپ کے عہد میں خاصی شہرت حاصل ہوئی،معاصر علما ومشائخ میں ممتاز مقام رکھتے، علم وادب و فقر تصوف کی تعلیم دیتے، خانقاہ میں آپ کا ایک کتب خانہ بھی تھا جس میں مطبوعہ و غیر مطبوعہ دونوں کتابیں شامل تھیں، تین مخطوطے خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریر میں ایسے ملے جو حضرت شاہ تبارک حسین کے کتب خانے کے قلمی کتابوں سےنقل کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں۔

    (۱)دیوانِ حافظؔ (۲)گلستاں (۳) بوستاں

    کاکو کے زیادہ تر مسودے خدا بخش خاں اورینٹل پبلک لائبریر ی میں ہیں یا پھر ان کے خانوادوں کے پاس محفوظ ہیں۔

    موجودہ عہدمیں خانقاہ فریدیہ اور خانقاہ جلیلیہ مصروف عمل ہے۔

    کاکو تمام سلاسل کا سنگم کہا جاتا ہے، یہاں سلسلۂ چشتیہ ،قادریہ،سہروردیہ، نقشبندیہ، فردوسیہ،ابوالعُلائیہ، مجددیہ وغیرہ کی اجازتیں پہنچی ہیں،حضرت بی بی کمال کے بعد سلسلۂ فردوسیہ کی نشرو اشاعت ہوئی، روفتہ رفتہ سلسلۂ قادریہ اور سلسلۂ چشتیہ کا فیضان یہاں عام ہوا اور تیرہویںصدی ہجری کے وسط سے سلسلۂ ابوالعُلائیہ کی نوازشات یہاں خوب ہونے لگی بلکہ خود مؤلف بھی اسی رنگ میں رنگے گئے۔

    اس کتاب میں نہایت اختصار کے ساتھ اؤلیائے کرام کے حالاتِ طیبات،خوارقِ عادات،واقعات و حکایات، مجاہدات و عبادات، کشف و کرامات درج کیے ہیں۔

    گیارہویں صدی ہجری میں حضرت آیت اللہ قادری جوہریؔ پھواروی کا سلسلہ یہاں خوب وسیع وعریض ہوا ،ہر ایک اس سلسلے کے فیض و کرم سے وابستہ ہوا اور تیرہویں صدی ہجری میں حضرت مخدوم شاہ محمد سجاد پاک داناپوری کا سلسلہ آفتاب کے مانند پھیلا،کیا امیر کیا غریب،کیا عالم کیا جاہل ہر ایک آپ سے متصف ہوا بلکہ خود مؤلف آثارِ کاکو آپ کے مرید و خلیفہ ہوئے۔

    حضرت مخدوم محمد سجاد کی ذاتِ والاصفات کسی تعارف کی محتاج نہیں، آپ تجرید کی حقیقتو ں پر عبور کھتے ہوئے مَلک فردیت کے سلطان اور عالمِ توحید کے اسرار و رموز کو سمجھتے ہوئے فقرو تصوف کے اعلیٰ شہسوار تھے، آپ کا فیضان نظر کاکیا کہنا عام انسان دیکھتا تو مرتبۂ کمال پر پہنچ جاتا، ان تمام اوصاف وکمالات کے علاوہ ایک بڑا اعزاز یہ رہاکہ آپ حضرت بی بی کما ل کی اولاد زکور سے تھے، راقم السطور اسی خاندانِ کمال کا ایک ہیچ انسان ہے۔

    مؤلف نے تحقیق و جستجو میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور جہاں تک ممکن ہوسکا حالات وواقعات کو جمع کیا، کاکو کے ایسے بزرگ جن کا نہ کوئی سلسلۂ طریقت جاری ہے اور نہ ہی نسبِ خاندانی پھر بھی ان کے حالات کو جمع کیا، ان میں حضرت سیّدقیام الدین،حضرت سیّد رکن الدین،حضرت علی اکبر،حضرت سیّد علی ارشد،حضرت علی اکبر،حضرت حافظ محمد اشرف،حضرت سلمان سیاح،حضرت حاجی سیّد سلمان،حضرت مبارک ،حضرت ارزانی،حضرت باگ،حضرت ماہرو وغیرہ خاص طور پر شامل ہیں۔

    کاکو کی برگزیدہ ہستیوں میں حضرت سیّد ابراہیم زندہ دل،حضرت سیّد محمد اسلم رشیدی ،حضرت مولانا سیّد عبدالغنی مجددی،حضرت شیخ شمس الدین دوانقی وغیرہ کے حالات و کرامات سے بھی کتاب خالی نہیں ہے۔

    مؤلف نے حضرت شاہ علی اکبر بڑہوا کو صابری بزرگ شمار کرایا ہے اور حضرت حافظ شاہ محمد اشرف کو حضرت احمد بلخی لنگر دریا کا خلیفہ بتایا ہے۔

    کسی زمانے میں یہ مقدس بستی اؤلیا واصفیا کا گہوارہ تھا،یہاں کی مساجدکہ جس میں کبھی صوفیا رکوع وسجود اور تلاوت میں مشغول رہاکرتے تھے وہ تالاب کہ جس میں کبھی آبِ خنک کی ٹھنڈی لہریں آنکھوں کو طراوت بخشتی تھی، خانقاہیں درس و تدریس کے لیے وقف تھیں، اب وہی جگہ ہے کہ لوگ اپنے ماضی سے ناواقف ہیں۔

    یہ وہی دل ہے کہ معشوقوں کا تھا مد نظر، تھا ہجوم آٹھ پہر

    اب وہی دل ہے کہ کوئی بھی خریدار نہیں،ایسا بازار گرا

    (حضرت شاہ اکبرؔداناپوری)

    ہندوستان میں کتابوں کی طباعت کا دور دورہ کسی زمانے میں خوب رہا ہے جن میں منشی نول کشور کامطبع سب سے مشہورتھا ، کاکوبھی اس شوق کو اپنے سے دور نہ رکھ سکا، مولوی یوسف حسین شمسی نے اپنے جد اعلیٰ حضرت شیخ شمس الدین دوانقی سے منسوب’’ شمسی پریس‘‘ کے نام سے تیرہویں صدی کے اوائل میں قائم کیا، وہ بڑے جدت پسند اور اولوالعزم انسان تھے، مطبع تو مطبع انہوںنے ایک اخبار بھی یہاں سے جاری کیا جس کا نام کحل البصررکھااس کے کئی شمارے نکلے پھر مالی مشکلات کی وجہ کر تقریباً ۱۳۲۰ھ کے قریب بند ہوگیا، یہاں سے مکتوبات ابوالعُلا،اجْوَبۂ کاکویہ وغیرہ شائع ہوچکی ہے۔

    اس کتاب میں آپ کو اطبائے کاکوکے حالات وواقعات بھی ملیں گے جس سے اہلِ فن کو بصیرت ملے گی اور اس فن کی اہمیت کا اندازہ ہوگا،اطبائے کاکو کے نام یہاں درج کیے جاتے ہیں۔

    حکیم سیّد امیر اکبر حسین قادری ابوالعُلائی

    مولانا حکیم سیّد سخاوت حسین

    حکیم سیّد محمد اشفاق قادری

    حکیم سیّد زہیر احسن ابوالعُلائی

    حکیم سیّد سعید احمد ابوالعُلائی

    حکیم سیّد عبدالرحمٰن ابوالعُلائی گرامی

    ان مسیحائے وقت نے اپنے اپنے عہد میں دادِ مسیحائی دی اور ملک و قوم کی خدمت کرتے ہوئے رخصت ہوگئے ، بے شمار مخلوق نے ان سے فائدہ حاصل کیا، مریضوں نے شفا اور تن مردہ زندگی پائی لیکن تاریخ کے اوراق ان کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہیں۔

    کاکو شعر وسخن میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے ، خود مؤلف کاکوکے پہلے صاحبِ دیوان شاعر ہیں،خود مؤلف کے عمِ محترم حضرت شاہ تبارک حسین فارسی زبان میں شاعری کرتے تھے مگر ان کا شعری سرمایہ زیرِ آتش ہوچکا۔

    یہاں ایک وقت میں شعر وشاعری کا خوب رواج رہا،فن سخن کی محفل ہر ہفتہ لگائی جاتی، اس وقت صاحبِ ذوق اور سخن شناس افراد کی کمی نہ تھی، لوگ بڑے دلچسپی اورخوش عقیدگی کے ساتھ اس میں حصہ لیتے ۔

    یہاں بھی ہوتی تھی مجلس کسی زمانہ میں

    جو امتدادِ زمانہ سے ایک فسانہ ہوا

    اس وقت محفل کے روح رواں مولانا سیّد محمد قادر رضا رضویؔ تھے جو اس بستی کے ایک ذی علم عربی و فارسی شاعر تھے، شعرو شاعری کا ذوق آپ سے ہی پھوٹا، شاہ محمد غزالی واصلؔ، شاہ مبارک حسین مبارکؔ، شاہ نورالرحمٰن نورؔ،عبدالسبحان یابسؔ، غفور الرحمٰن حمدؔ، عبدالرحمٰن ابدؔ،شاہ محی الدین احمدکمالؔ ، نسیمؔ ہلسوی اور عطاؔکاکوی وغیرہ سب اسی گلدستۂ کاکوکےمہکتے ہوئے پھول ہیں۔

    شاہ مبارک حسین مبارکؔ اور حمدؔ کاکوی دونوں کو فن سخن میں خاصی شہرت حاصل ہوئی ہے مگر جو شہرت نسیمؔ ہلسوی اور عطاؔ کاکوی کو حاصل ہے وہ کاکوکے کسی دوسرے افراد کو حاصل نہیں۔

    آثارِ کاکو پہلی کتاب ہے جس میں تمام احوال و مقامات اور افعال و اقوال شامل ہیں، یہ نہ صرف کاکو کے تذکرہ پر مشتمل ہے بلکہ مختلف مشائخ،ادوار، اقوام اور مختلف قسم کی تہذیب و تمدن ،عادات و خصائل،حسب و نسب،رنگ و نسل کے اؤلیا واصفیا کی تعلیمات ہیں جسے مؤلف نے قلمبند کیے ہیں۔

    آثار کاکو کوکا یہ دوسرا ایڈیشن ہے،پہلی ایڈیشن سے زیادہ مواد اس ایڈیشن میں ملے گا، ا س کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اسےمؤلف کے دستِ خاص سے تیار کی گئی ہے اور تمام تحریرات کو یکجاکرنے کی کوشش بلیغ کی گئی ہے،معلوم ہوتا ہے کہ قلمی نسخہ اور مطبوعہ اول نسخہ میں قدرے فرق ہے اس کا ندازہ وہی بہتر لگا سکتا ہے جس کی نظر ان دونوں نسخوں پر ہو ،اس کی پہلی طباعت عطاؔکاکوی نے سال ۱۴۰۲ھ میں بہار اردو اکیڈمی کے مالی تعاون سے۲۹۶؍صفحات پر مشتمل شائع کرائی تھی اور اشاعتِ ثانیہ جسےجدیدرنگ و آہنگ کے ساتھ تیار کی گئی ہے آپ کے ہاتھ میں ہے ۔

    عطاؔ کاکوی رقمطراز ہیں کہ

    ’’اب۴۷؍ سال کے بعد مرتب کتاب ہذا کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ کاکوکی ایک برگزیدہ مخدومہ اور دیگر بزرگان دین کے حالات کو قارئین تک پہنچائے ،امید ہے کہ اس کی یہ کوشش مشکور ہوگی اور نجات اخروی کی کفیل ،مرتب نے اس کتاب کی ترتیب نو اور طباعت کی حسب ذیل تاریخیں تجویز کی ہیں‘‘

    ’’تاریخ و آثارِ کاکو ہے‘‘ ’’یہ تذکرہ کاکو ہے‘‘

    ۱۹۸۱ء ۱۴۰۲ھ

    پہلی اشاعت میں عطاؔ کاکوی نے حمدؔکاکوی کی نظم اور خود نوشت شامل کیا تھا مگر اس ایڈیشن میں اسے حذف کردیا گیا ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ کلیاتِ حمد ؔمیں اسے شائع کیا جائے گا، در حقیقت یہ نظم کلیات حمدکا ہی ایک حصہ ہے ۔

    کاکوسے ہمارا آبائی رشتہ ہے اس لیےفرصت نکال کر تحقیق شروع کی اور پوری کتاب مؤلف کے دستِ خاص سےانقل کیا اور پھرحاشیہ اور حوالہ جات لگا کر قدیم املا کو مروجہ املا سے بدل دیاتاکہ قارئین کو پڑھنا اور سمجھنا آسان ہوجائے ورنہ قارئین پُرانے املامیں الھج کر رہ جاتے، بعض حضرات کے متعلق معلومات بہت کم تھی اور ایسی صورت میں جس حد تک معلومات یکجا کی جاسکیں وہ لکھ دی گئیں ہیں۔

    مؤلف نےاس کتاب میں ارشاد السالکین، کنزالانساب، نذرِ محبوب، تذکرہ صادقہ، انساب شرفی، آثارشرف وغیرہ سے استفادہ کیا ہے۔

    اصل نسخہ میں عنوان کی مناسبت سے عبارت اِدھر اُدھر ہے، لہٰذا ہر مضمون کی مناسبت سے عبارت کو یکجا کیا گیاہے تاکہ قارئین کو پڑھنے میں دشواری محسوس نہ ہو، وضاحت طلب عبارت تحقیق وتدقیق کی وادیوں میں بھٹکنے کے بعد حواشی کے زیر عنوان تقریباًپچاس سے زائد صفحات الگ سے شامل کیے گئے ہیں۔

    جہاں تک ممکن ہوسکا اربابِ کاکو کا نسب نامہ ترتیب دے کر شامل کر دیا گیا ہے تاکہ اربابِ کاکو کی تسکین و طمانیت اور خاندانی یاد داشت کا سامان فراہم ہوسکے۔

    اس کتاب میں حاجی عبدالعلیم مظہر علی (صدر: انجمن ترقی اردو،دکن)،مولانا سیّدشاہ منظور الرحمٰن اخترؔ کاکوی(صدرالمدرس : صغریٰ اسکول ،بہار شریف) اور اس کے پہلے مرتب پروفیسر سیّدشاہ عطاؤالرحمٰن عطاؔ کاکوی (صدرشعبۂ اردو وفارسی:پٹنہ یونیورسیٹی)کے علاوہ مسلمؔ عظیم آبادی کی نظم وغیرہ کو حذف کردیا گیا ہے۔

    اس کتاب میں پانچ ابواب قائم کیے گئے ہیں ،بابِ اول میں کاکو بستی کی قدامت ،وجہ تسمیہ، بستی کے متعلق کہاوتیں ،محلے ،رقبہ اور آبادی ،موضع پالی اور فیروز شاہ تُغلق کا یہاں آنا سب موجود ہے، بابِ دوم میں حضرت شہاب الدین پیرجگجوت اور حضرت بی بی کمال اور ان کے شوہر حضرت شیخ سلیمان لنگر زمین اور ان کے صاحبزادے حضرت شاہ عطاؤ اللہ نیز ان کے خانوادوں کا تذکرہ شامل ہے،بابِ سوم میں حضرت بی بی کمال کے آستانہ کی تاریخ ،اِرد گِرد مزارات کی تحقیق ،جاگیر ، مرمت اور تعمیرات ،روغنی انیٹ اور کڑاہ کے علاوہ آستانہ کی تولیت اور حضرت کمال کے عرس کی تفصیل لکھی گئی ہے،بابِ چہارم میں کاکوکے مشاعروں کے علاوہ مساجد ، خانقاہیں،مدارس،اسکول،عید گاہ،مطبع و اخبار و تصنیفات، مکتب خانہ زنانہ،کتب خانہ ، مجالس ،یونین بورڈ،خزانۂ آب ،گڈھ،چاہ کلاں ،بازارات اور غازی میاں کے میلے کی تفصیل نہایت دلچسپ انداز میں تحریر کی گئی ہے، بابِ پنجم میں چار حصے کیے گئے ہیں، سب سے پہلے ان ارواحِ مقدسہ کے حالات و کرامات درج ہیں جن کے قدوم میمنتِ لزوم سے کاکو کے باشندگان کو مستفیض و مستنیر ہونے کا شرف حاصل رہاہے نیز اس کے حاشیہ میں کچھ علما،حکماو شعرا کے حالات شامل کیے گئے ہیں،تیسرے حصہ میں حضرت محمد شاہ اور ان کے اخلاف کا ذکر کیاگیا ہے، چوتھا حصہ بھی ایسے ہی اصحاب پر مشتمل ہے جس میں حضرت عبدالرحمٰن اور ان کے اخلاف کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔

    اس سلسلے میں ڈاکٹر بدرالدین فریدی (لائبریرین:خدا بخش خاں اورینٹل پبلک لائبریر ی) اور پروفیسر کلیم الرحمٰن کاکوی کا شکر گزار ہوں جنہوں نے خلوص نیت کے ساتھ اس کتاب پر نظرِ ثانی کا کام انجام دیا۔

    اس کتاب کی اشاعت کا مقصد و مدعا یہ ہے کہ فرزندانِ کاکوکی علم دوستی اور روحانیت کی شاندار زندگی سے آگاہ کیا جائے تاکہ ان کی اپنی مادہ پرستی، کم علمی میں گرفتاری کا احساس ہو اور موجودہ تہذیب کی تباہ کاریوں سے آگاہ ہو کر حقیقی زندگی کی عظمت کی طرف راغب ہوں، موجودہ نسل اپنی ماضی اور بزرگوں کی خدمات سے دور ہوتی جا رہی ہے، قومیں اپنے ماضی سے زندہ رہتی ہیں جن کا کوئی ماضی نہیں تاریخ اس کو فراموش کردیتی ہے، آثارِ کاکو کھوئے ہوؤں کی جستجو اور یادوں کی بازیافت کا ایک سلسلہ ہے، کسی نے کہاہے کہ

    ’’نقشِ ماضی سے نقشِ حال درخشاں رہتا ہے‘‘

    بقول حمدؔ

    حمدؔبے چارے سے جو ہوسکا اس نے کیا

    نکتہ چینی سے تو کوئی نہیں اب تک ہے بچا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے