Font by Mehr Nastaliq Web

مقدمہ : ’’چہل حدیث‘‘ کا تفصیلی مطالعہ

ریان ابوالعلائی

مقدمہ : ’’چہل حدیث‘‘ کا تفصیلی مطالعہ

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    دلچسپ معلومات

    حضرت شاہ اکبر داناپوری کی کتاب ’’چہل حدیث‘‘ کا ایک تفصیلی مطالعہ۔

    چہل احادیث کے جمع کرنے کا سب سے بڑا محرک حضرت رسول اللہ کا قول ہے۔

    ’’جس شخص نے امورِ دین کے متعلق چالیس احادیث یاد کیں اور انہیں آگے امت تک پہنچایا تو اللہ تعالیٰ شانہٗ اسے فقیہ کی حیثیت سے اٹھائے گا اور روزِ قیامت میں اس کے حق میں شفاعت کروں گا اور گواہی دوں گا‘‘(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر؍۲۵۸)

    حفظِ حدیث کے دو طریق ہیں، پہلا زبانی یاد کر کے بندگانِ خدا کو پہنچا دے یا لکھ کر شائع کرا دے، اس لیے وعدۂ حدیث میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو چہل حدیث طبع/لکھ کر شائع کرتے ہیں، اس صورت میں چہل حدیث کا ہر نسخہ ثواب کا مستحق بنا دیتا ہے، اسی نیک جذبے کے تحت درجنوں علمائے امت نے اپنی اپنی طرز پر چہل حدیث لکھیں جو مقبول و مفید عام ہوئیں، اس سے قبل بھی اپنے اپنے عہد کے ممتاز علما مثلاً مولانا عبدالرحمٰن جامیؔ، شیخ احمد فاروقی سرہندی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، ملا علی قاری، مفتی عنایت احمد کاکوروی، نواب قطب الدین خاں دہلوی، مولانا محمد عبدالرب دہلوی، میر علی اور مولانا محمد حسین فقیر دہلوی کی چہل حدیثیں شائع ہوچکی ہیں۔

    اسی دوران چودہویں صدی ہجری میں برصغیر کے معروف عالمِ دین اور صوفی شاعر حضرت شاہ محمد اکبر ابوالعلائی داناپوری (پ1843ء-م1909ء) علومِ اسلامیہ اور تاریخ و تذکرے پر گہری معلومات اور اپنی وسعتِ علمی کے لیے جانے گئے، آپ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے سجادہ نشیں اور درجنوں کتب کے مصنف ہوئے ہیں۔

    مولانا محمدسعادت اللہ قادری سنبھلی لکھتے ہیں کہ

    ’’میری نظرمیں آج تک ایسا محقق نہیں گزرا، شبہاتِ عویصہ بات کی بات میں هَبَآءً مَّنْثُوْرًا ہوتے دیکھے اور کیوں نہ ہو خلفِ ارشد بھی کیسے بزرگ کے ہیں، جو اپنے وقت کے ابدال شمار کیے جاتے تھے‘‘(تجلیاتِ عشق،ص؍۵۱۲)

    مولانا نثارؔ علی ابوالعلائی اکبرآبادی رقمطراز ہیںکہ

    ’’قرآن مجیدومشکوٰۃ شریف میںبڑاتدبرفرماتےتھے اور بعض اوقات ایسے نِکات بیان فرماتے کہ علما بھی متحیر رہ جاتے،علمی دلچسپی کا یہ عالم تھاکہ علماکی بےحدقدر فرماتےاور علمی مضامین وعلمی کتابوں کے مطالعہ سےتادمِ آخرسیرنہ ہوئے‘‘ (جذباتِ اکبر،ص؍۷)

    اسی دوران حضرت شاہ محمد اکبرؔ ابوالعُلائی داناپوری نے بھی چہل حدیث کا انتخاب کیا، اس کے ترجمے اور اس کی شرحیں لکھی جو نہایت قیمتی اور معلوماتی ہے، حضرت اکبرؔ نے اسے اپنے مریدین و معتقدین کے لیے تحریر فرمایا تھا تاکہ انہیں کسی طرح کی دشواری نہ ہوسکے اور ان کے بچے اور خواتین تک بنیادی چیزوں کا علم بہ آسانی پہنچ جائے، روز بروز مسلمانوں کے اخلاقی حالت تباہ ہوتے جا رہے ہیں اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اکثر وہی احادیث درج ہوئی ہیں جو اعلیٰ اخلاق اور تہذیب و تمدن، صحیح و غلط کے مابین فرق اور ایمان و عمل کی سلامتی کے ذریں اصول ہیں، اس میں شرک و بدعت، اطاعت و پرہیزگاری، نذر و نیاز، خیر و شر، فضائل و مناقب، نماز و روزہ، نام و نسب، ایمان و عمل، لباس و زبان، مال و قرض، حقوق و وسوسہ اور تصویر و میراث وغیرہ کا بھی بیان ہے، اس موضوع پر حضرت اکبرؔ نے خصوصیت کے ساتھ ۴۰؍ احادیث ایک جگہ جمع فرمائی ہیں، تمام احادیث کے تراجم اور ’ف‘ کی سرخی لگا کر اس کی تفصیل بھی بیان کر دی ہے، اس سے قبل چہل حدیث کے موضوع پر لکھے جانے والے تمام رسائل اصل حدیث اور اس کے تراجم پر ہی منحصر ہوتے تھے، حضرت اکبرؔ نے پہلی مرتبہ حدیث و تراجم کے علاوہ الگ سے اس کی تفصیل بھی لکھی، ان تفصیلات میں سر سید احمد کے عقیدے کی گرفت، تہذیب الاخلاق کی عبارت پر تلخ تبصرے بھی کیے ہیں اور مولانا قاسم نانوتوی کے مدرسہ سے علی گڑھ کا موازنہ بھی کیا ہے، واضح ہو کہ حضرت اکبرؔ کی یہ تالیف ۱۲۸۸ ہجری کی ہے اور مولانا کی کتاب تحذیرالناس ۱۲۹۰ ہجری میں طبع ہوئی، سر سیّد کے حوالے سے حدیث دوازدھم میں حضرت اکبرؔ رقمطراز ہیں کہ

    ’’جو جو معتقدات سیّد احمد خان کے ہیں، یعنی گردن مڑوری مرغی انگریزوں کی پکی ہوئی کھا لینا اور تاویلات معنی ’’کلام اللہ‘‘ کی بے محل کرنا یا ’’بسم اللہ‘‘ کو یہ کہنا کہ یہ بمشورۂ حضرت سلمان فارسی داخلِ قرآن کی گئی ہے، بذریعۂ وحی اس کا نزول نہیں، ہرگز ہرگز قابلِ اعتبار نہیں، یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ صاحب بہادر مسلمان نہیں مگر اقوال تو ان کے سراسر مردود ہیں، ہرگز توجہ کے قابل نہیں، بعض بعض نوجوان آزادی پسندوں نے جو قیدِ مذہب سے تنگ آئے ہوئے تھے، صاحبِ موصوف کے پرچہ اخبار تہذیب الاخلاقکو اپنی خواہشِ نفسانی کے موافق پاکر خوب لطف دینوی اٹھائی اور غافل اس سے کہ تقلیدِ شخصی سے یوں بھی نہ چھوٹے‘‘

    اسی طرح ایرانی طرز و معاشرت کا لکھنؤ پر اثرات کے حوالے سے حدیث شانزدھم میں رقمطراز ہیں کہ

    ’’داڑھی منڈوانا اور مونچیں بڑھانا یہ رسم گبروں کی ہے، چوں کہ ایران قدیمی ملک اُن کا تھا، لہٰذا اہلِ ایران نے اُن کی یہ رسم بھی اور سوائے اس کے اور مراسم بھی مثل آرائش تابوتِ موتیٰ اور نوحہ وغیرہ پسند کر لیں، چنانچہ اہلِ ایران کی تقلید بوجہ اتحاد مذہب شیعیانِ لکھنؤ نے قبول کر لی، حالاں کہ ثابت ہے کہ ائمۂ معصومین میں سےمَعَاذَاللہ کسی کا قصر ریش فرمانا دیکھا نہیں گیا اور جناب مجتہد صاحب کا فعل بھی میرے دعویٰ کا مثبت ہے‘‘

    حدیثِ ہفتدھم میں بنو امیہ اور قوم یزید کا تذکرہ آیا ہے، اس سے متعلق آپ رقمطراز ہیں کہ

    ’’یہ تو ہم مانتے ہیں کہ یزید پر ایک فرقے نے اہلِ سنت کی لعن جائز رکھی ہے مگر قومِ یزید میں تو وہ لوگ بھی آ گئے جو بنی امیہ کے جواہر کہے گیے ہیں، جیسے حضرت عثمان یا عمر بن عبدالعزیز یا معاویہ بن یزید اب یہ سمجھنا چاہیے کہ جب لعن کے باب میں یہ تنبیہ ہے جو کفر کے معنیٰ میں داخل نہیں ہے تو کافر اور مشرک کہنے والے پر کیا کچھ الزام قائم نہیں ہوسکتا، ہمارے برادران عامل بالحدیث جو ذرا سے شبہ پر حنفیہ کو کافر اور مشرک بنا دیتے ہیں‘‘

    فدک کے تعلق سے حدیث سی و پنجم میں حضرت اکبرؔ رقمطراز ہیں کہ

    ’’تھوڑی زمین آپ کی مدینہ شریف، فدک اور خیبر میں تھی، اُس کا معمول یہ تھا کہ بعد خرچ ازواجِ مطہرات کے جو بچ رہتا، آپ مسلمانانِ مساکین کو عنایت فرمایا کرتے، چنانچہ وہی وصیت آپ نے اپنے بعد کے واسطے بھی فرمائی، جب حضرت صدیقِ اکبر خلیفہ ہوئے تو آپ نے اس کا انتظام حضرت عباس اور حضرت علی مرتضیٰ کے حوالہ کیا اور یہی انتظام خلفائے ثلاثہ کی خلافت تک رہا اور حضرت علی مرتضیٰ نے بھی اپنی عہدِ خلافت میں یہی انتظام قائم رکھا پھر ہمارے اثنائے عشری بھائیوں کو خلفائے ثلاثہ پر کیا حق اعتراض کا باقی رہا‘‘

    اب اصل کتاب پر آتے ہیں،چہل حدیث سے قبل علم حدیث اور اس کی غرض و غایت اوراس کی قسمیں بھی قلمبند کر دیئے تاکہ قارئین کو کسی طرح کی تکلیف نہ ہو، حضرت اکبر نے اس کا تاریخی نام نذر اولاد رسولرکھا ہے جس سے ۱۲۸۸ ہجری نکلتا ہے، اس کے علاوہ اسے تحفۂ مقبول، نذرِ اولادِ رسول، اخبارالعشق اور چہل حدیث کے نام سے بھی جانا گیا، حضرت اکبر نے اسے ۱۲۸۸ ہجری ماہ محرم الحرام کے عشرۂ اول میں قلمبند کیا اور ۱۳۰۵ ہجری میں علم حدیث اور اس کی قسموں کی وضاحت اور اپنے مریدین و مسترشدین کو وصیت کرتے ہوئے اسے مکمل کیا، حضرت اکبر رقمطراز ہیں کہ

    ’’انتخاب اس کا اکثر ایامِ متبرکہ میں ہوا اور اختتام نہم محرم شریف ۱۲۸۸ھ کو ہوا‘‘

    اس کی اشاعتِ اول مولانا سیّد رحیم الدین نقشبندی نے اپنے اہتمام سے یونین پریس الپنچ، بانکی پور، پٹنہ سے ۳۲؍ صفحات پر کرائی جسے قارئین نے خوب پسند کیا اور اس کی کئی کاپیاں فروخت ہوئیں۔

    اشاعت اول میں سرورق پر یہ عبارت درج ہے۔

    ’’من ہر چہ خواندہ ایم فراموش کردہ ایم

    الا حدیثِ دوست کہ تکرار می کنیم

    اَلْحَمْدُلِلہ کہ رسالہ چہل حدیث از تصنیف جامع کمالاتِ صوری و معنوی جنابِ حضرت مولانا شاہ محمد اکبر صاحب، اکبر ابوالعُلائی۔

    مُسَمّیٰ ’’تُحْفَۂ مَقْبُوْل لِنَذْرِاَوْلَادِ رَسُوْل‘‘

    بفرمائش جناب مصنف ممدوح بحسنِ اہتمام جناب مولوی سیّد رحیم الدین صاحب مالک و منیجر مطبع در یونین پریس، الپنچ واقع بانکی پور، محلہ دریا پور، طبع شد‘‘

    یہاں یہ بھی وضاحت کر دوں کہ حضرت اکبر کے بعد مولانا قیام الدین عبدالباری وغیرہ کا انتخاب بھی وقتاً فوقتاً منظرِ عام پر آتا رہا۔

    حضرت اکبر نے ان ۴۰؍ احادیث کو الصحیح البخاری، الصحیح المسلم اور الجامع الترمذی سے اخذ کی ہیں، اس رسالہ کو جمع کرنے کی اصل وجہ حضرت اکبر کی یہ تھی کہ مسلمانوں کے اندر اخلاقی اور معلوماتی شعبہ بہتر ہو سکے اور اسلام کی اصل تصویر ان تک پہنچ سکے نیز بچوں کو یہ حدیثیں یاد کرائی جائیں تاکہ ان کے دل و دماغ میں حضرت رسول اللہ کی حدیثیں راسخ ہو جائیں اور اس کے ذریعہ آگے کی زندگی آسان ہوسکے، اس رسالہ کے نسخے اب نایاب ہوتے جا رہے تھے، یہی وجہ اس کی اشاعتِ ثانیہ کی بنی، اس مجموعہ میں تمام احادیث و واقعات کی تخریج بھی کر دی گئی ہے اور اس کے مطالب و معانی بھی الگ سے لکھ دیے گیے ہیں، اس سلسلے میں مولانا احمد رضا اشرفی کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس کتاب کی تصحیح کی، ان پر خدا اپنی رحمت برسائے اور اس کا بہترین اجر دے، خدائے پاک سے دعا ہے کہ اس رسالہ کو قبول فرمائے اور حضرت قبلہ و کعبہ اور وابستگانِ خانقاہ پر مزید اپنی رحمت برسائے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے