مقدمہ : ’’فنا و بقا‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
دلچسپ معلومات
حضرت سیدنا امیر ابوالعلا کا رسالہ ’’فنا و بقا‘‘ کا تفصیلی مطالعہ۔
گیارہویں صدی ہجری کے اوائل میں ہندوستا ن کے اکثر علاقوں میں سلسلۂ نقشبندیہ کا خوب عروج رہا جو بعد میں پھوٹ کر دو شاخوں میں منقسم ہوگیا۔
(۱) سلسلۂ نقشبندیہ مجددیہ
(۲) سلسلۂ نقشبندیہ ابوالعلائیہ
سلسلۂ ابوالعلائیہ کے بانی محبوب جل و علا حضرت سیدنا امیر ابوالعلا (متوفیٰ۱۰۶۱ھ) ہیں جنہوں نے اپنے علم و عمل اور اخلاق و اخلاص کے ذریعہ برصغیر میں انسانیت و معرفت کو فروغ دیا اور اس پُرخار زمین کو پُربہار بنا کر گلشن بے خزاں کا نمونہ بنا دیا، آپ کی ذات دل و دماغ کو ترو تازہ رکھنے کے لیے گلستانِ ارم کا کام کرتی رہی۔
حضرت امیر ابوالعلا نے سلسلۂ نقشبندیہ میں اک نئی روح پھونک دی جس کے اثرات آج بھی عیاں ہیں، آپ نے خواجہ بزرگ معین الدین چشتی (متوفیٰ۶۳۳ھ) کے سلسلے کی رنگت و معرفت اور سماع بالمزامیر کی کیفیت کو سمیٹ کر سلسلۂ ابوالعلائیہ کے نصاب میں داخل کیا، آپ اپنے مریدین و مسترشدین کو راہِ سلو ک طے کراتے رہے اور ابوالعلائی نسبت کے طالبین ہمیشہ آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھاتے رہے۔
تصوف کا اصل مقصد خدا کو پہچاننا ہے، مولاناجلال الدین رومی فرماتے ہیں کہ
بہر حالیکہ باشی باخدا باش
زخود بیگانہ باحق آشنا باش
حضرت امیر ابوالعلا نے اپنی خانقاہ میں درس و تدریس اور تعلیم و تربیت کاسلسلہ شروع سے قائم رکھا، جہاں علم ظاہر کے ساتھ علم باطن کی تعلیم بھی دی جاتی تھی، جس کے شواہد قدیم منابع میں موجود ہیں۔
حضرت امیر ابوالعلا کی تصنیفات میں رسالہ فنا و بقا کو ایک امتیازی شان حاصل ہے، اس کی فارسی انشا تصنع اور بیجا تکلف سے پاک اور سبک ہندی کا ایک خوبصورت نمونہ ہے، اس کی عبارت بڑی دل نشیں اور سہل ہے، جگہ جگہ فارسی اشعار و رباعیات جامیؔ سے استفادہ کیا گیا ہےجس سے تحریر میں شگفتگی اور تازگی آئی ہے، اس میں معرفت کا خزانہ اور تصوف کی تعلیم کا ایسا متصوفانہ انداز موجود ہے جس پر چل کر سالک منزلِ مقصود تک پہنچ سکتا ہے۔
حضرت امیر ابوالعلا نے فنا و بقا کس سن و تاریخ میں تحریر فرمایا اس کا اندازہ نہیں ہے، قیاس اغلب ہے کہ اسے ۱۰۳۰ھ کے بعد قلمبند کیا ہو، یہ وہ عہد زریں تھا جب آپ کی شہرت دور دراز تک پھیل چکی تھی اور آپ کے تربیت یافتہ طالب راہِ سلوک کو بڑی تیزی سے طے فرما رہے تھے، یہ رسالہ مختصر ضرور ہے مگر طرزِ نگارش کے اعتبار سے بہت عمدہ اور جامع ہے، درجنوں ترجمے اس کے منصۂ ظہور میں آچکے ہیں، واضح ہو کہ حضرت مخدوم شاہ محمد سجاد پاک (متوفیٰ۱۲۹۸ھ) کے ممتاز مرید و خلیفہ مولانا شاہ محمد ادریس چشتی ابوالعُلائی نے فنا و بقا کا اردو ترجمہ ۱۳۳۷ھ میں مطبع قیومی، کانپور سے شائع کرایا تھا جو قارئین کے درمیان کافی مقبول ہوا، اسی ترجمے کو تسہیل و تفہیم کے ساتھ دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔
سلسلۂ ابوالعلائیہ کے ممتاز صوفی حضرت شاہ محمد اکبر ابوالعلائی داناپوری (متوفیٰ ۱۳۲۷ھ)نے اس جگہ جگہ اس کی شرح اور بعض مثالیں لکھی ہیں اس کے علاوہ فارسی زبان میں حضرت شفیع ابوالعلائی جمعدار (متوفیٰ۱۲۵۵ھ) نے ضخیم صفحات پر مشتمل اس کی شرح لکھی ہے۔
فنا و بقا کی عبارت حضرت مخدومِ جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری (متوفیٰ ۷۸۲ھ) کا رسالہ ارشاد السالکین سے کافی ملتی جلتی ہے، بعض مؤلفین نے اس رسالہ کو آپ کے خلیفہ حضرت سید محمد کالپوی (متوفیٰ ۱۰۷۱ھ) کی طرف منسوب کیا ہے مگر اس سلسلے میں کوئی قدیم نسخہ موجود نہیں ہے کہ سلسلۂ تحقیق کو مزید آگے بڑھایا جاسکے۔
قرین قیاس ہے کہ حضرت سیّد محمد کالپوی نے اپنے مرشد حضرت امیر ابوالعلا کا رسالہ استفادۂ عام کی غرض سے نقل کیا ہو جسے بعدمیں ان کے متبعین نے ان کی طرف منسوب کر دیا ہو۔
راقم السطور محمد ریان ابوالعلائی کے پاس فنا و بقا کے کئی قلمی نسخے مختلف عہد اور مختلف کاتب کے محفوظ ہیں جس سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ یہ رسالہ حضرت ابوالعلا کا قیمتی سرمایہ ہے۔
راقم نے فنا و بقا کے جن قلمی نسخے کا دیدار کیا ہے وہ یہ ہیں۔
شمار صفحہ؍سطور عہد کتابت کاتب مملوکہ
نسخہ اول ۵؍مختلف ۱۲۲۴فصلی غلام حسن خانقاہ بلخیہ، فتوحہ
نسخہ دوم ۱۲؍مختلف ۱۲۶۵فصلی سید مسیح اللہ خدا بخش لائبریری، پٹنہ
نسخہ سوم ۱۲؍۱۱ ۱۲۶۹ھ ہدایت اللہ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ
نسخہ چہارم ۳؍مختلف ۱۲۹۲ھ نا معلوم خانقاہ منعمیہ قمریہ، میتن گھاٹ
نسخہ پنجم ۴؍۲۰ ۱۲۹۳ھ ارشاد حسین خدا بخش لائبریری، پٹنہ
نسخہ ششم ۹؍مختلف ۱۲۹۶ھ محمد حسین خانقاہ مجیبیہ، پھلواری شریف
نسخہ ہفتم ۸؍مختلف ۱۳۰۰ھ غلام رسول گلزار ابراہیم، بھینساسور
نسخہ ہشتم ۹؍۱۴-۱۳ ۱۳۰۹ھ عزیزالدین خانقاہ منعمیہ قمریہ، میتن گھاٹ
نسخہ نہم ۵؍مختلف ابوالحیوٰۃ خانقاہ مجیبیہ، پھلواری شریف
نسخہ دہم ۱۴؍مختلف لطف الرحمٰن خانقاہ مجیبیہ، پھلواری شریف
نسخہ یازدہم ۶؍مختلف نامعلوم خانقاہ مجیبیہ، پھلواری شریف
نسخہ دوازدہم ۵؍مختلف نامعلوم خانقاہ مجیبیہ، پھلواری شریف
نسخہ سیزدہم ۶؍۱۴ ابوالبرکات خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ
نسخہ چہار دہم ۸؍۱۳ عبداللہ اکبری خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ
نسخہ پانزدہم ۶؍۱۳ نامعلوم خدا بخش لائبریری، پٹنہ
نسخہ شانزدہم ۶؍۱۵ نامعلوم خدا بخش لائبریری، پٹنہ
نسخہ ہفدہم ۱۰؍۳ نامعلوم خدا بخش لائبریری، پٹنہ
نسخہ ہجدہم ۸؍۱۶ نامعلوم و ناقص مجلس شوریٰ اسلامی، ایران
نسخہ نوزدہم۸؍۱۵ ۱۳۳۷ھ محمودالحسن سمن مشرا، دہلی
ہم نے اس کی ترتیب و تہذیب اور ترجمے کے لیے جن قلمی نسخوں کو پیش نظر رکھا ہے وہ یہ ہیں۔
(۱) فنا و بقا مملوکہ کتب خانہ خانقاہ بلخیہ فردوسیہ، کاتب غلام حسن منعمی(ن۱)
(۲) فنا و بقا مملوکہ کتب خانہ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، کاتب ہدایت اللہ نعمتی(ن۲)
دونوں کا سن و تاریخ اور عہد مختلف ہے مگر تحریر بالکل یکساں ہے، اسی لیے دونوں نسخوں کو ایک مانتے ہوئے اشاعت کے لیے اساسی قرار دیا گیا، فنا و بقا کا قلمی نسخہ ہندوستان کی اکثر خانقاہوںکے کتب خانے اور مختلف لائبریریوں میں موجودہے، اس کا قدیم تر ین یا مؤلف کے دست خاص کا نوشتہ اب نایاب ہے، خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے کتب خانہ میں مختلف ادوار کے چند قلمی نسخے موجود ہیں، اعلیٰ حضرت قمرالدین حسین ابوالعلائی (متوفیٰ۱۲۵۵ھ) کے دست خاص کا ایک نسخہ خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری (پٹنہ)میں محفوظ ہے جب کہ دو تین نسخے اس طرح کے مزید پائے جاتے ہیںجس پر کوئی ترقیمہ نہیںہے، فارسی متن کے موازنے کے لیے دیگر نسخے کو بھی پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔
نسخۂ اول خدابخش لائبریری، پٹنہ ارشاد حسین شیداؔ بہاری (ن۳)
نسخۂ دوم کتب خانہ گلزار ابراہیم، بہارشریف غلام رسول (ن۴)
نسخہ سوم کتب خانہ خانقاہ منعمیہ قمریہ، میتن گھاٹ عزیزالدین حسین (ن۵)
نسخۂ چہارم کتب خانہ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور ابوالبرکات (ن۶)
نسخۂ پنجم کتب خانہ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور عبداللہ اکبری (ن۷)
نسخۂ ششم مجلس شوریٰ اسلامی، ایران نامعلوم (ن۸)
مذکورہ چھ نسخوں میں اختلاف متن اور حذف متون بہت زیادہ ہے، اس کے علاوہ جو نسخہ یہاں محفوظ ہے وہ بالکل مخدوش حالت میں ہے، شروع کے دو نسخے جسے اصل اور اصح قرار دیا گیا ہے اسی کو پیش نظر رکھ کر کے تحقیق کا کام انجام دیا گیا ہے۔
اللہ پاک کا شکر ہے کہ پہلی مرتبہ فنا و بقا کا فارسی متن و اردو ترجمہ اور تخریج و تحشیہ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ سے شائع و ذائع کیا جا رہا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.