مقدمہ : ’’خدا کی قدرت‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
دلچسپ معلومات
حضرت شاہ اکبر داناپوری کا رسالہ ’’خدا کی قدرت‘‘ کا تفصیلی مطالعہ۔
عقیدۂ توحید کی اہمیت اور ضرورت کے متعلق اکابرین کی رائے یہ ہے کہ عقیدۂ توحید اسلام کا سب سے پہلا بنیادی عقیدہ ہے، یہ صرف ایک نظریہ ہی نہیں بلکہ انسان کو صحیح معنی میں انسان بنانے کا واحد ذریعہ بھی ہے ، یہ انسان کی تمام مشکلات کا حل، ہر حالت میں اس کی پناہ گاہ اور ہر غم و فکر میں اس کا غمگسار ہے، اس عقیدہ کا حامل ساری دنیا سے بے نیاز اور ہر خوف و خطر سے بالاتر ہوکر زندگی گزارتا ہے۔
اسی سلسلے میں حضرت شاہ محمد اکبر ابوالعلائی داناپوری نے چودہویں صدی ہجری میں نیچریوں کی کتاب کے جواب میں ’’خدا کی قدرت‘‘ نامی رسالہ تحریر فرمایا تھا تاکہ لوگ افراط و تفریط کے شکار نہ ہوں اور خدا کے وجود و اثبات پر یقینِ کامل رکھیں۔
یہ مسئلہ ہر دور میں مغربی تہذیب سے متاثر افراد اٹھاتے آ رہے ہیں، دوچار کتابوں کا مطالعہ کیا اور خدا کے وجود سے ہی انکار کردیا، یہ رسالہ در اصل نیچریوں کی دو کتاب ’’خدا کی شرارت‘‘ اور ’’مذہب کی دھوکہ بازی‘‘ کا جواب ہے، ان دونوں رسالوں میں خدا کے وجود سے انکار اور کچھ مغلظات بکے گئے ہیں، حضرت اکبر رقمطراز ہیں کہ
’’مغربی رفارمر کے ایک نئے مقلد نے چند کتابیں لکھی ہیں، منجملہ ان کی دو کتابوں کا نام یہ ہے، خدا کی شرارت، مذہب کی دھوکہ بازی۔۔۔۔ اس نوجوان لامذہب کو میری رائے میں علم کے سوا تہذیب کا بھی کوئی حصہ نہیں ملا ہے، معلوم نہیں کس دھڑ سے یہ قوم مہذب سمجھی جاتی ہے، جس کتاب میں خدا کے وجود سے انکار ہو اس کا نام یہ رکھا جائے؟ وجود تو خدا کا وہ پہلے ہی ثابت کر چکا، عام اس سے کہ خیر کے ساتھ ہو یا بقول اسی کے شر کے ساتھ، اس کی تمام تصنیفات کا جواب تو اسی کے رکھے ہوئے نام نے دے دیا‘‘(ص؍۲۱)
نیچریوں کی ان دو کتابوں کے بعد ہندوستان میں بھی اس موضوع پر بحث چھڑ گئی، چند رسائل و کتب اور بعض نظمیں بھی اس عنوان پر لکھی گئیں جن میں مولانا محمد انواراللہ فاروقی حیدرآبادی کی مشہور نظم ’’خدا کی قدرت‘‘ بھی شامل ہے، اس کی اشاعت مطبع مفید، حیدرآباد سے ہوئی، نظم کے چند اشعار یہاں نقل کرتا ہوں۔
خدا کی قدرت کاملِ عیاں ہے
اسی کی ساری قدرت ہے جہاں ہے
خدا فرما چکا قرآں کے اندر
مرے محتاج ہیں پیر و پیمبر
تو پھر دشمن جو ہو کوئی خدا کا
بھلا کیوں کر نہ وہ محتاج ہوگا
ذرا تو بھائیو خالق سے شرماؤ
بہت بھٹکے کبھی تو راہ پر آؤ
کبھی نیچر کی کرتے ہیں خوشامد
خوشامد ہر کہ را کردی خوش آمد
حضرت اکبر نے نیچریوں کی فکری تحریک پر مستقل ایک کتاب تصنیف کی ہے جس میں ان کی پیدائش، اس مذہب کے پیدا ہونے کی وجہ اور وہ تمام خیالات جو انسان کی ترقی کے باب میں ان کے بانی نے بیان کیے ہیں، بڑی بڑی مستند کتابوں مثل ’’الملل والنحل‘‘ اور ’’دبستانِ مذاہب‘‘ وغیرہ سے اردو میں ترجمہ کی ہیں۔
خیر! ’’خدا کی قدرت‘‘ نامی رسالہ مختصر سا مضمون ہے جو نہایت قیمتی اقوال و اقتباسات، قصص و واقعات، آیات و احادیث، تفاسیر و تواریخ اور اسلامی و سماجی واقعات سے پُر ہے، ہمارے اکابر اور اسلاف نے ہر دور میں مسئلۂ توحید سمجھانے کے لیے روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سمجھانے کی پوری پوری کوشش فرمائی ہے، جب بھی اسلاف سے توحید کے متعلق سوالات کیے گئے تو اللہ پاک نے مخالفین کے حالات کے اعتبار سے ان کے دل میں ایسی مثالیں ڈالیں جو بیان کرنے کے بعد بہت ہی مؤثر ثابت ہوئیں اور ہدایت کا ذریعہ بنیں، اس طرح کے واقعات تو بہت زیادہ ہیں، حضرت اکبر نے اس رسالے میں خدا کے وجود کے تعلق سے حضرت امام ابو حنیفہ، حضرت امام محمد شافعی، حضرت امام مالک، حضرت امام احمد بن حنبل کی عمدہ مثالیں پیش کی ہیں، پھر اپنے پیر و مرشد حضرت مولانا شاہ محمد قاسم ابوالعلائی کی کبوتر والی مثالیں تفصیل سے تحریر فرمائی ہیں، شیخ سعدیؔ کے قطعات سے بھی مثالیں دی ہیں پھر انسانی جسم کے اعضا جیسے بدن کی رگ، جگر، طحال، زہرہ، کلیتین وغیرہ کی مثالیں بھی ہیں، بعض عقلی دلائل بھی پیش کیے گئے ہیں لیکن ہم یہاں نمونے کے طور پر صرف ایک کا ذکر کر رہے ہیں، جن میں ابھی تک افادیت اور تاثیر کی خوشبو مہک رہی ہے۔
’’اونٹ کی میگنی دلالت کرتی ہے اونٹ کے ہونے پر اور نقشِ قدم دلالت کرتا ہے چلنے والے پر، پس یہ آسمان بُرجوں والا، یہ زمین درار والی اور یہ دریا موجیں مارنے والاکیا اُس لطیف اور خبیر کے وجود پر دلالت نہیں کرتے؟‘‘(ص؍۲۸)
اسی طرح ایک دوسری جگہ حضرت مولانا شاہ محمد قاسم ابوالعُلائی کے چند اقتباسات نقل کیے گئے ہیں کہ
’’ہر نوع اور ہر جنس کی پہچان کے واسطے نقاشِ قدرت نے ان کے خط و خال اور گل بوٹے الگ الگ کر دیے ہیں اور یہی حکم نافذ ہوگیا ہے، پس ازل سے ابد تک وہی حکم دائر و سائر ہے، ممکن نہیں کہ امتدادِ زمانہ اُس حکم کو منسوخ کر دے پھر کیوں کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ ایسی نازک اور مضبوط صنعتوں کا کوئی صانع نہیں؟‘‘(ص؍۳۱)
ابن المعتزلہ کا قول ہے کہ افسوس اللہ پاک کی نافرمانی اور اس کی ذات کے جھٹلانے پر لوگ کیسی دلیری کرجاتے ہیں، حالاں کہ ہر چیز اس کی ہستی اور وحدہٗ لاشریک ہونے پر گواہ ہے۔
’’خدا کی قدرت‘‘ پٹنہ کے معروف رئیس اور حضرت اکبر کی صحبت یافتہ شاہ مبارک حسین مبارکؔ کی فرمائش اور مولانا سید رحیم الدین نقشبندی کے اہتمام سے ۲۳؍صفحات پر مشتمل یونیین پریس الپنچ، بانکی پور، پٹنہ سے ۱۳۰۵ھ موافق ۱۸۸۷ء میں شائع ہوئی، حضرت اکبر رقمطراز ہیں کہ
’’۱۳؍ربیع الثانی شریف ۱۳۰۵ ہجری کو یہ رسالہ بمقام داناپور شروع کیا گیا اور ۱۵؍ماہ مذکور کو بعد نماز صبح ختم ہوا‘‘
سرورق پر یہ عبارت درج ہے۔
’’الحمدللہ کہ رسالۂ نعم الرفیق از تصنیفِ لطیف جامع کمالاتِ صوری و معنوی جنابِ حضرت مولانا شاہ محمد اکبر صاحب اکبر ابوالعُلائی ۔
مسمیّٰ بہ خدا کی قدرت
حسبِ فرمائش جناب سید شاہ مبارک حسین صاحب رئیسِ عظیم آباد، پٹنہ، بحسن اہتمام جناب مولوی سید رحیم الدین صاحب۔
در یونیین پریس الپنچ واقع بانکی پور طبع شد‘‘
آخری صفحے پر یہ عبارت درج ہے۔
’’خاتمۃ الطبع - خدائے پاک را سپاس رسالۂ نعم الرفیق معروف بہ خدا کی قدرت۔
از تصنیفِ لطیف جامع کمالاتِ صوری و معنوی جنابِ حضرت مولانا سید شاہ محمد اکبر صاحب اکبر ابوالعلائی داناپوری مدظلہٗ العالی در یونیین پریس الپنچ واقع پٹنہ بانکی پور محلہ دریا پور طبع شد‘‘
خدا کا شکر ہے کہ ۱۴۰؍برس بعد حضرت شاہ اکبرؔداناپوری کے ۱۱۸؍ویں عرس کے مبارک موقع پر خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور سے اس کی اشاعتِ ثانیہ ہونے جا رہی ہے، ہمیں امید ہے کہ اہلِ علم اس سے فائدہ اٹھائیں گے، قارئین کی آسانی کے لیے اس کی ترتیب و تہذیب نئے سرے سے کر دی گئی ہے، جگہ جگہ عربی و فارسی اور عمدہ اشعار کے ترجمے پیش کیے گئے ہیں، سخت الفاظ و آیات، احادیث و تفاسیر، واقعات و قصص، اقوال و اقتباسات کی تشریح و توضیح بھی کی گئی ہے، ترجمہ و تخریج کے ساتھ ضمنی عنوانات بھی قائم کر دیے گئے ہیں تاکہ قارئین کو کسی طرح کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اس سلسلے میں ڈاکٹر عبدالواسع (دہلی) اور محمد دانش ابوالعلائی (ارریہ) کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس کی کتابت اور تصحیح نیک دلی سے انجام دی، خدا ان دونوں پر اپنی رحمت برسائے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.