مقدمہ : ’’مولد فاطمی‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
دلچسپ معلومات
حضرت شاہ اکبر داناپوری کی کتاب ’’مولدِ فاطمی‘‘ کا تفصیلی مطالعہ۔
حضرت فاطمہ زہرا اسلام کی مقدس ترین خاتون میں سے ایک ہیں جن کے تذکروں کا دائرہ اس قدر وسیع و عریض ہے کہ اسے سمیٹنا ایک مشکل امر ہے۔
صحاحِ ستہ اور دوسری تمام کتبِ احادیث آپ کے تذکرے سے بھری پڑی ہیں،بیشتر علمائے اہلِ سنت نے آپ کے اوصاف و کمالات، انداز و اطوار پر ہزاروں صفحات لکھے ہیں، ان میں ایرانی، مصری اور ہندوستانی مصنفین کی تعداد ہمیں کثرت سے ملتی ہیں، احادیث کے علاوہ تاریخ و سِیَر کی کتابیں جیسے تاریخِ ابنِ عساکر، تاریخِ بغداد، تاریخِ ہشام، تاریخِ طبری، تاریخِ ابن الاثیر، تاریخِ ذہبی، تاریخِ ابنِ خلدون، سیرتِ ابنِ اسحٰق اور تاریخِ ابنِ کثیر وغیرہ میں چند بنیادی تذکرے آئے ہیں ۔
ان تذکروں کے علاوہ اہلِ تشیع نے بھی حضرت فاطمہ کا تذکرہ نہایت تفصیل و تفضیل سے کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ حضرت فاطمہ سے منسوب قصے اور کہانیاں اہلِ تشیع کے ذریعے زیادہ پہنچے جسے اب معتبر قصوں اور کہانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
حیرت و تحیر ہے کہ بارہویں صدی ہجری تک زیادہ تر علمائے اہلِ سنت نے اپنی کتب میں حضرت فاطمہ زہرا پر صرف ایک مستقل باب باندھ کر چھوڑ دیا ہے، چودہویں صدی سے بعض طابع نے قارئین کی دلچسپی کی خاطر انہیں باب کو کتب و رسائل کی صورت میں شائع کرانا شروع کیا، اس سلسلے میں مولانا محمد بن غلام رسول نےحضرت امام جلال الدین سیوطی کی ’’اَلثُّغُورُالباسمۃُ فِی مَنَاقِبِ السیّدۃِ فاطمۃَ‘‘ ممبئی سے شائع کیا، یہ عربی زبان میں ایک قیمتی رسالہ ہے، اس طرح کے مزید رسالے جیسے ابوعبداللہ الحاکم نیشاپوری، مولانا عبدالرؤف مناوی وغیرہ کے بھی قریب میں شائع ہوتے رہے ہیں۔
اسی دوران چودہویں صدی ہجری میں برصغیر کے معروف عالمِ دین اور صوفی شاعر حضرت شاہ محمد اکبر ابوالعلائی داناپوری (پ1843ء-م1909ء) علومِ اسلامیہ اور تاریخ و تذکرے پر گہری معلومات اور اپنی وسعتِ علمی کے لیے جانے گئے۔
مولانا محمد سعادت اللہ قادری لکھتے ہیں کہ
’’میری نظرمیںآج تک ایسامحقق نہیں گذرا‘‘(تجلیاتِ عشق،ص؍۵۱۲)
نثارؔ اکبرآبادی رقمطراز ہیں کہ
’’قرآن مجید و مشکوٰۃ شریف میں بڑا تدبر فرماتے تھے اور بعض اوقات ایسے نِکات بیان فرماتے کہ علما بھی متحیر رہ جاتے، علمی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ علما کی بےحد قدر فرماتے اور علمی مضامین و علمی کتابوں کے مطالعہ سے تادمِ آخرسیرنہ ہوئے‘‘(جذباتِ اکبر،ص؍۷)
حضرت فاطمہ زہرا پر حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کی مَولدِ فاطمی اردو زبان میں پہلی مطبوعہ سوانح عمری ہے جو چار فصلوں پر مشتمل حضرت فاطمہ کے فضائل، پیدائش، نکاح اور اولاد و وصال کا مجموعہ ہے، اس کا ہر ایک لفظ قرآن و احادیث اور تاریخ و سیر سے ماخوذ ہے، حضرت اکبرؔ نے بعض روایتیں ابوبکر خطیب قسطلانی، امام ابو حفص نجم الدین عمر بن محمد نَسَفی، محب الدین طبری، عبدالرحمٰن ابنِ جوزی، شمس الدین محمد بن احمد ذہبی، احمد بن حجر الہیتمی مکی، شیخ عبدالحق محدث دہلوی وغیرہ کے علاوہ معروف ایرانی عالم ملا حسین بن علی واعظ کاشفی کی کتاب سے بھی لی ہے، کتاب کو دلچسپ بنانے کے لیے حضرت اکبر نے ذاتی مشاہدے، تبصرے اور فارسی اور اردو کے بر محل و برجستہ اشعار بھی شامل کیے ہیں۔
اس کتاب کی وجہ تالیف یہ بتائی گئی ہے کہ عامۃ الناس حضرت فاطمہ جیسی عظیم خاتون کے اوصاف و کمالات کی پیروی کر کے بہترین اور منظم زندگی گزار سکے۔
حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کا مقصد صرف یہی ہے کہ مسلمان عورتوں کے اندر حضرت فاطمہ کے اخلاق کو نمونہ بنانے کی رغبت پیدا ہو اور ان کی پیروی میں انہیںایمانی لذت و حلاوت ملنے لگے، اسی لیے اس رسالہ میں زیادہ تر وہی حالات درج کیے گئے ہیں جن میں بشریت کا پہلو نمایاں ہے اور جو آپ نے بحیثیت انسان کامل کیے ہیں۔
مطالعہ کے بعد ہمیںاندازہ ہوتا ہے کہ کس قدر ایک مسلمان عورت کے لیے ان کی زندگی قابلِِ تقلید اور قابلِِ رشک ہے، اس میں ان کی پیدائش سے پہلے کے واقعات، وقتِ ولادت سے لے کر وصال تک کے تمام حالات کو شرح و بَسط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، جگہ جگہ حضرت فاطمہ کا اپنے والد کے ساتھ بحیثیت صاحبزادی، حضرت علی کے ساتھ بحیثیت اہلیہ اور حضراتِ حسنین کے ساتھ بحیثیت والدہ اور ہمسایہ ومسلمہ کے ایسے شریف اور عالی کردار پیش گئے ہیں کہ ہر مسلمہ کو ان کی پیروی کی پوری کوشش کرنی چاہیے اور یہ ذمہ داری ان کے والدین کی ہے کہ اپنی بچیوں کو حضرت فاطمہ کے واقعات و بیانات سے باخبر کریں تا کہ وہ آپ کی طرف مائل ہوسکیں۔
خوش نصیب عورت ہے وہ جو آپ کی طہارتِ نفس، قناعت و صبر، زہد و سخاوت، تسلیم و رضا اور انسانی ہمدردی کی مثالوں کو اپنا رہبر جانے اور بقدر بشریت ان صفات سے آراستہ ہونے کی سچے دل سے کوشش کرے۔
بعض حضرات حضرت فاطمہ کی کرامات اور علومقامات کا تذکرہ اس انداز میں کرتے ہیں کہ آپ کے مکارمِ اخلاق درجۂ بشریت سے اونچے نظر آتے ہیں اور آدمی اپنے کو ان کی پیروی سے قاصر جانتا ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ فضائل و مناقب کا باب نہ پڑھا جائے، فضائل و مناقب کے باب ضرور پڑھے جائیں مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ آپ کے اخلاص و اتباع،تسلیم و رضا اور انسانی ہمدردی کی مثالیں بھی پیش کی جائیں تا کہ اس کے مقابلہ سے ہم اپنی کجروی کا ٹھیک اندازہ کرسکیں اور بقدر امکان سیدھی راہ پرآجائیں۔
حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کا یہ کارنامہ نہایت قیمتی اور قابلِِ قدر ہے کہ جس وقت تمام تذکرے عربی اور فارسی میں لکھے جا رہے تھے اس وقت حضرت اکبر نے اردو زبان میںاسے تیار کیا۔
اس سے قبل حضرت اکبرؔ کے عمِ مکرم حضرت شاہ عطاحسین فانیؔنے اردو میں’’تذکرہ سیدۃ النساالعالمین‘‘ کے عنوان سےاک رسالہ تیار کیا تھا پر اب وہ نایاب ہے۔
حضرت اکبر کے بعد حافظ شاہ انور علی کاکوروی، سید کرامت حسین، مولانا محمد عابد علی مجددی اور مولانا محمد اعجاز حسین نے علی ٰالترتیب الدرۃ البیضافی تحقیق صداق فاطمۃ الزہرا، تاریخ جنابِ سیدہ، بستانِ فاطمہ مع بستانِ عائشہ، مصائبِ زہرا نامی کتابیں لکھیں۔
جاننا چاہیے کہ حضرت اکبر نے یہ کتاب اپنے مرید نواب رستم علی ابوالعلائی کی خواہش پر ۲۱؍ذی الحجہ تا قبلِِ رویتِ ہلال محرم الحرام۱۳۰۷ھ میں تالیف فرمائی، بعض مؤرخین نے اس کتاب کا ذکر اصل نام سے زیادہ تاریخی نام خاتمِ نوری اور انگشترِ عروس سے کیا ہے۔
۴۷؍صفحات پر مشتمل ابوالعُلائی پریس (آگرہ) سے تاجرانِ کتب کی فرمائش پر ۱۳۰۷ھ موافق ۱۸۸۹ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی۔
صفحۂ اول پر یہ عبارت لکھی ہے۔
’’حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى
الحمدللہ کہ کتاب میلاد سیدۃ النسا فاطمۃ الزہرا مِن تصنیف جناب شاہ محمد اکبر صاحب، سجادہ نشیں داناپوری، حسبِ فرمائش تاجرانِ کتب،آگرہ۔
خاتمِ نوری؍انگشترِعروس مولدِفاطمی
در ابوالعلائی پریس آگرہ مطبوع گردید‘‘
اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سےبھی لگایا جاسکتا ہے کہ اسی سال اس کی دوسری اشاعت جدید کتابت ، تصحیح شدہ، اچھے حروف، شفاف تقطیع اور ۲؍۱۵x۲۲-۱سائزکے ۳۹؍صفحات پر مشتمل حضرت اکبر کے شاگرد مولانا شاہ نظیر حسن ابوالعُلائی کے ضمنی حاشیے اور آپ کے مرید شیخ انعام اللہ ابوالعلائی جو تاج محل کے نقشہ نویس عیسیٰ آفندی کے پوتے تھے ان کا بنایا ہوا حضرت سیدنا امیر ابوالعلا کے آستانہ کا نقشہ جس کے چہار جانب حضرت اکبرؔ کے یہ اشعار لکھے ہیں۔
مجمع میں لطف دیکھا تنہائی کا اسی جا
خلوت در انجمن ہے میلاد ابوالعلا کا
برس رہی ہے خدا کی رحمت درِ عطا و کرم کھلا ہے
زمیں پہ عرشِ بریں کی صورت مزارِ پاکِ ابوالعلا ہے
اسے منشی عبدالغفار خاں ابوالعلائی نے منـو رائے (آگرہ) سے شائع کرائی۔
اس کی عبارت صفحۂ اول پریوں ہے۔
’’اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَآءً وَّلَا شُكُورًا
بعنوان اللہ کتاب مستطاب دربیان میلادسیّدۃ النسافاطمۃ الزہراعلیھا السلام مِن تصنیف سیّد محمد اکبرابوالعُلائی،سجادہ نشیںخانقاہ داناپور۔
مسمیٰ بہ خاتم نوری ملقب بہ مولدِ فاطمی مشتہر بہ انگشترِ عروس
حسب الارشاد جناب معلیٰ القاب امیر ابن امیر، رئیس ابن رئیس جناب نواب رستم علی خاں صاحب دام اقبالہٗ
در مطبع منو رائے آگرہ باہتمام منشی محمد عبدالغفار خاں طبع شد‘‘
الغرض: زبان و بیان میں سادگی اور صفائی ،نپے الفاظ، بہتر اور مربوط اسلوب، آسان الفاظ، جگہ جگہ استعارے،محاورے اور برمحل اشعار قارئین کی دلچسپی کا سبب بنے ہیں۔
اب اس کی تیسری اشاعت تقریباً ۱۴۰؍ برس بعد خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور سے ہو رہی ہے، ہمیںامید ہے کہ اہلِ علم اس کتاب سے فائدہ اٹھائیں گے، نئی نسل کی آسانی کے لیے جدید اشاعت میں احادیث و اشعار کے اردو تراجِم، تخریج و تشریح کے ساتھ ساتھ الگ سے ضمنی عنوانات بھی قائم کر دیے گئے ہیں۔
اس سلسلے میں ڈاکٹر عبدالواسع (دہلی)، مفتی محمد رضا نور قادری ابوالعلائی (ارریہ) اور فیضانِ ظفر (بشن پور، کشن گنج) کے صدر مدرس مولانا احمد رضا اشرفی کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس کتاب کی تصحیح خلوص نیت کے ساتھ انجام دیا اور محمد دانش ابوالعلائی (ارریہ) بھی اس کارِ خیر میں شریک ہیں جنہوں نے اس کی کتابت کی، خدائے پاک ان چاروں کو جزائے خیر دے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.