Font by Mehr Nastaliq Web

مقدمہ : ’’مولدِ غریب‘‘ کا تفصیلی مطالعہ

ریان ابوالعلائی

مقدمہ : ’’مولدِ غریب‘‘ کا تفصیلی مطالعہ

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    دلچسپ معلومات

    حضرت شاہ اکبر داناپوری کی کتاب ’’مولدِ غریب‘‘ کا تفصیلی مطالعہ۔

    قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک ائمہ و محدثین اور علما و شیوخ نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق حضرت رسول اللہ کی سیرتِ مبارکہ اور میلادالنبی کے موضوع پر قلم اٹھایا اور نظم و نثر میں ہزاروں کی تعداد میں گراں قدر کتب تصنیف کیں، ان میں سے بعض مختصر اور بعض ضخیم ہیں۔

    اکثر ائمہ و محدثین اور اکابر علما نے احادیث، سیرت و فضائل اور تاریخ کی کتب میں میلاد شریف کے موضوع پر باقاعدہ ابواب باندھے ہیں، مثلاً امام ترمذی نے الجامع الصحیح میں کتاب المناقب کا دوسرا باب ہی ’’ما جاء فی میلادالنبی ﷺ‘‘ قائم کیا ہے، ابن اسحٰق نے ’’سلسلہ مصادر تاریخ الاسلامیہ‘‘ میں، ابن ہشام نے ’’السیرۃ النبویہ‘‘ میں، ابن سعد نے ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ میں، ابو نعیم نے ’’دلائل النبوۃ‘‘ میں، بیہقی نے ’’دلائل النبوۃ و معرفۃ احوال صاحب الشریعۃ‘‘ میں، ابو سعد خرکوشی نیشاپوری نے ’’کتاب شرف المصطفیٰ‘‘ میں، ابن اثیر نے ’’الکامل فی التاریخ‘‘ میں، امام طبری نے ’’تاریخ الامم والملوک‘‘ میں، ابن کثیر نے ’’البدایۃ والنھایۃ‘‘ میں اور ابن عساکر نے ’’تاریخ دمشق الکبیر‘‘ میں۔

    الغرض تمام اجل ائمہ و علما نے اپنی اپنی کتب میں میلادالنبی کے موضوع پر قلم اٹھایا ہے، نیز امام محمد بن یوسف صالحی شامی نے ’’سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیرالعباد‘‘ میں بہت تفصیل سے لکھا اور جواز میں علمی دلائل کے انبار لگا دیئے ہیں، امام ابو عبداللہ بن الحاج مالکی نے ’’المدخل الی تنمیۃ الاعمال بتحسین النیات والتنبیہ علی کثیر من البدع المحدثۃ والعوائد المنتحلۃ‘‘ میں مفصل بحث کی ہے، امام زرقانی نے ’’المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ‘‘ میں، شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے ’’ما ثَبَت مِن السنۃ فی ایّام السَّنَۃ‘‘ میں میلاد شریف کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔

    مولدِ غریب کا شمار اردو زبان کی اہم اور قدیم ترین کتب سیرت میں ہوتا ہے، اس کے مصنف خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے معروف سجادہ نشیں اور صوفی شاعر حضرت شاہ محمد اکبر ابوالعُلائی داناپوری ہیں، حضرت اکبر سے قبل اردو زبان میں اس موضوع پر بہار میں شاہ علی امیرالحق عمادی پھلواروی کا رسالہ میلاد الرسول اور ذکرِ معراج کے عنوان سے شاہ محمد یحییٰؔ ابوالعُلائی عظیم آبادی کا رسالہ ۱۸۵۷ء سے پہلے لکھا گیا، اس کے علاوہ حکیم ناصر علی آروی کی انوارِ ناصریلکھنؤ سے ۱۲۸۱ھ میں طبع ہوئی، اس میں حضرت رسول اللہ کا حلیہ مبارک بیان کیا گیا ہے، دوسری کتاب ناصرالمحسنین فی اخلاق سیّد المرسلین کے عنوان سے ۱۲۸۹ھ میں کانپور سے شائع ہوئی، اس میں حضرت رسول اللہ کے اخلاقِ حسنہ کی تصویر کھینچی گئی ہے، تیسری کتاب ناصراللبیب فی اسماءالحبیبہے، ۱۲۸۹ھ میں لکھنؤ سے طبع ہوئی، فضائل و مناقب کے موضوع پر نہایت قیمتی رسالہ ہے، اسی طرح شاہ محمد اکرم کی مولد شریف، محمد فیاض الدین پھلواروی کی فیض القلوب فی مولدالمحبوب ملقب بہ فیاض الارواح وغیرہ طبع ہوئی۔

    حضرت اکبر کی مولدِ غریب کے بعد محمد اسمٰعیل آروی کی میلاد شریفجدیدمعروف بہ مقبول صمدی میلا احمدی، مولانا عبدالرحیم داناپوری کی افضل السیر، وزیرالدین احمد شیخ پوروی کی در ظہور کے عنوان سے رسالہ، محمد اشرف علی قادری کی حدیقۂ خاتم النبین، غلام محمد عباس کی ذکرِ میلاد،شفقؔ عماد پوری کی حدیقۂ آخرت، عمر کریم حنفی عظیم آبادی کی مولود شریف، شاہ نذرالرحمٰن حفیظؔ عظیم آبادی کی وسیلۃ النجات فی ذکرولادۃ اشرف المخلوقات علیہ الصلوٰۃ والتحیات،حافظ محب الحق کی میلادالنبی، مولانا عبدالرؤف داناپوری کی سیرتِ نبوی وغیرہ طبع ہوتی رہی۔

    حضرت اکبر نے مولدِ غریب ۱۲۹۲ھ میں قلمبند کیا، پوری کتاب قدیم طرز پر ہے، عبارت مقفیٰ اور مسجع ہے، ہم آہنگ الفاظ سے سجی ہوئی پُر تکلف تحریر اپنا الگ رنگ پیدا کر رہی ہے، اس کتاب میں مناقبِ صحابۂ کرام، مناقبِ اہلِ بیت، آدابِ سماع ذکر مولد، فضائلِ درود، نورِ محمدی، انتقالاتِ نور محمدی، تذکرہ خواجہ عبدالمطلب، تذکرہ خواجہ عبداللہ، ولادتِ باسعادت، بیانِ رضاعت اور سفرِ معراج کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ہے، اس کتاب میں حضرت اکبر نے ایک نیا طرز اختیار کیا ہے اس میں کسی بھی مضمون کو شروع کرنے سے قبل ’’روایت‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، جیسے

    ’’روایت جب پیدا ہوئے حضرت آدم کنیت ان کی ابو محمد رکھی گئی‘‘

    حضرت اکبر نے پوری کتاب مستند حوالوں اور دلیل سے آباد رکھی ہے، جگہ جگہ صوفیا کے بہترین عربی اور فارسی اشعار و مضامین نقل کئے گئے ہیں تاکہ نظم و نثر کا لطف مزید دوبالاہوجائے جیسے مولانا جلال الدین رومی، عبدالرحمٰن جامیؔ، شیخ سعدیؔ، حافظؔ شیرازی، مرزا عبدالقادر بیدلؔ، علی حزیںؔ لاہیجی، اوحدی مراغہ ای، امیر خسروؔ، بابا فغانی، شمس مغربی، ابوالفیض فیضیؔ، مرزا مظہرؔ جانِ جاناں اور شاہ نیازؔ احمد بریلوی اور اردو شعرا میں سیّد امجد علی اصغرؔ اکبرآبادی، کفایت علی کافیؔ مرادآبادی اور امیرؔ مینائی وغیرہ کے اشعار نقل کئے گئے ہیں۔

    یہ رسالہ نظم و نثر کا مرقع ہے، اس میں حضرت اکبر اور دوسرے شعرا کی ایک درجن نعت ﷺ، مسدس، تضمین، قطعہ، رباعی، نظم اور بیت شامل ہے جو کتاب کا لطف مزید دوبالاکر رہی ہے، شروع میں دو تقریظ ہے پہلی تقریظ حضرت شاہ امین احمد فردوسی ثباتؔ بہاری کی اور دوسری منشی مولیٰ بخش آزادؔ اکبرآبادی کی ہے، اسی طرح دو تاثر بھی شامل ہے، پہلا تاثر حضرت اکبرؔ کے صاحبزادے حضرت شاہ محمد محسن ابوالعُلائی داناپوری کا ایک دیباچہ ہے جو حمد باری تعالیٰ پر مشتمل ہے اور دوسرا حضرت شاہ سیف اللہ ابوالعلائی مدظلہٗ کا ہے اور آخر میں ۱۳؍ قطعاتِ تاریخ شامل ہے، جنہوں نے قطعۂ تاریخ رقم کی ان کے نام یہ ہیں۔

    حضرت شاہ محمد اکبر ابوالعلائی داناپوری، شاہ محمد وزیرالدین ابوالعلائی عطاؔ داناپوری، منشی مولیٰ بخش آزادؔ اکبرآبادی، منشی کبیرالدین حسین تہذیبؔ، شیخ محمد نورؔ ابوالعلائی، منشی تفضل حسین نقشبندی محزوںؔ، حکیم غلام شرف الدین شفاؔ، شاہ نظیر حسن ابوالعلائی الہامؔ داناپوری، شاہ محمد کبیرالدین ابوالعلائی عرفاںؔ داناپوری، مرزا الطاف علی سروشؔ، شیخ ریاض الدین ابوالعلائی ہلالؔ اکبرآبادی، میاں وزیرالدین ابوالعلائی اکبرآبادی، مولانا نثارؔ علی ابوالعلائی اکبرآبادی۔

    مولدِ غریب چھ فصل پر مشتمل ہے، پہلی فصل میں صحابۂ کرام اور اہلِ بیتِ اطہار کے مناقب شامل ہیں، دوسری فصل میں آدابِ سماع ذکر مولد اور فضائلِ درود، تیسری فصل میں نورِ محمدی اور اس کا منتقل ہونا، چوتھی فصل میں خواجہ عبدالمطلب اور خواجہ عبداللہ کا تذکرہ، پانچویں فصل میں آپ کی ولادت اور رضاعت کا بیان ہے اور چٹھی فصل میں معراج کا سفر شامل کیا گیا ہے، یہ کتاب اپنے تحقیق و استناد کے اعتبار سے انتہائی مفید اور لائقِ قدر ہے بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ کتاب امام طبری کی تاریخِ طبری اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی مدارج النبوت کی تلخیص ہے، جگہ جگہ ان دونوں تصنیفات کا حوالہ نقل ہے اور نیچے اس کی شرح موجود ہے۔

    حضرت اکبر نے ۱۲۹۲ھ میں مولدِ غریب کے عنوان سے یہ رسالہ تصنیف کیا، جس کے دو نام اور ملتے ہیں جیسے دعویٔ بخشش اور وسیلۂ مغفرت، دعویٔ بخشش اور مولدِ غریب کا تاریخی عدد بھی ۱۲۹۲ھ نکلتا ہے، اس کی اشاعت ۱۰؍ برس بعد ۱۳۰۲ھ میں شیخ خدا بخش (آگرہ) نے مطبع ابوالعُلائی (آگرہ) سے ۱۰۶؍ صفحات پر شائع کیا جس کی مقبولیت خوب ہوئی۔

    رسالہ کے صفحۂ اول پر یہ عبارت موجود ہے۔

    ’’وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ۔ الحمدللہ والمنتہکہ کتابِ مستطاب و نسخۂ لاجواب، نادرالوجود، کیمیائے مقصودمسمیٰ دعویٰ بخشش و مولدِ غریب و وسیلۂ مغفرت۔ تصنیفِ لطیف، تالیفِ شریف، حضرت قبلۂ اربابِ معرفت، حاجی الحرمین شریفین، سید شاہ محمد اکبر صاحب مَدَّ ظِلُّہُ العالی ابوالعلائی سجادہ نشیں داناپور۔ مطبع ابوالعلائی، آگرہ میں شیخ خدا بخش کے اہتمام سے چھپا‘‘

    اور آخری صفحہ پر حضرت اکبر کی ایک دوسری کتاب کا اشتہار ملتا ہے۔

    ’’نیچری تاریخ۔من تصنیفات جنابِ حضرت قبلہ دین و ایمان سیّد شاہ محمد اکبر ابوالعلائی صاحب یہ ایک کتاب لاجواب جس میں ابتدا سے نیچریوں کی پیدائش اور اُن کے ابوالآبا کا حال اور اس مذہب کے پیدا ہونے کی وجہ اور تمام خیالات اُن کے جو انسان کی ترقی کے باب میں اُن کے اول حکیم نے بیان کیے ہیں، بڑی بڑی مستند کتابوں سے مثلِ الملل والنحل اور دبستانِ مذاہب وغیرہ سے زبان اردو ترجمہ کی گئی ہیں، قیمت اُس کی بہ نظر حالت کتاب بہت کم رکھی گئی ہے، یعنی ۸؍ ایک سو درخواست آ جانے کے بعد چھپنی شروع ہو جائے گی اور ما بعد قیمت اُس کے المضاعف ہے۔ فقط

    المشہتر؍ خدا بخش مقام؍ بلوچ پورہ، من محلات شہر اکبرآباد، مطبع ابوالعُلائی، آگرہ‘‘

    اب اس کی دوسری اشاعت تقریباً ۱۴۵؍ برس بعد خانقاہ سجادیہ ابوالعُلائیہ، داناپور سے ہو رہی ہے، ہمیں امید ہے کہ اہل علم اس سے فائدہ اٹھائیں گے اور ہمارے لیے دعا گو ہوں گے، قارئین کی آسانی کے لیے اشاعتِ ثانیہ میں عبارت صاف و سلیس انداز میںرکھی گئی ہے، عربی اور فارسی اشعار کے تراجم بھی دیئے گئے ہیں، تخریج و تحشیے کے ساتھ ساتھ الگ سے ضمنی عنوانات بھی قائم کر دیئے گئے ہیں، اس سلسلے میں مولانا سید شاہ محمد عیان ابوالعلائی اور مولانا احمد رضا اشرفی کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس کتاب کی تصحیح خلوص نیت کے ساتھ انجام دیا، خداوند تعالیٰ ان پر اپنی رحمت برسائے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے