مقدمہ : ’’سیرِ دیلی‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
دلچسپ معلومات
حضرت شاہ اکبر داناپوری کا سفر نامہ ’’سیرِ دہلی‘‘ کا تفصیلی مطالعہ۔
دہلی ہندوستان کا دارالحکومت ہے جسے مقامی طور پر دلی بھی کہا جاتا ہے، ایک ایساشہر جو کئی سلطنتوں اور مملکتوں کا دارالحکومت رہا ہے، کئی مرتبہ فتح ہوا، تباہ ہوا اور پھر آباد ہوا، سلطنت کے عروج کے ساتھ ہی یہ شہر ایک ثقافتی،تمدنی اور تجارتی مرکز کے طور پر بھی ابھرا، اس شہر میں ہر ایک قدم کے فاصلے پر آثارِ قدیمہ پائے جاتے ہیں، عہدِمغلیہ کی سجدہ ریز دیواریں، قطب الدین ایبک اور فیروزشاہ تغلق کا کھنڈر، نوابین کی بند پڑی کوٹھیاں، بزرگوں کی ویران خانقاہوں اور مزارات کے نشانات اور نہ جانے کیسے کیسے لعل و جواہر یہا ں آج بھی دفن ہیں۔
سلطنتِ دہلی کے عہد میں قطب مینار، علائی دروازہ اور مسجد قوت الاسلام ہندوستان میں اسلامی طرزِ تعمیر کی شان وشوکت کے نمایاں مظاہر ہیں، اسی طرح عہدِ تغلق میں فیروزشاہ کوٹلہ، مسجدِکلاں اور عہدِشیرخاںسوری میںقلعہ کی تعمیر ہوئی جس کے تین بلنددروازے اور وسیع دیواروں کے ساتھ مسجد و مدْرسہ بھی قائم ہوا جسے اب پُرانا قلعہ کہتے ہیں، یہ دریائے جمنا کے کنارے واقع ہے۔
عہدِ مغلیہ میں جلال الدین محمد اکبر نے دارالحکومت آگرہ سے دہلی منتقل کیا، بعد ازاں ۱۶۳۹ء میں شاہ جہاں نے دہلی میں ایک نیا شہر قائم کیا جو ۱۶۴۹ ء سے ۱۸۵۷ ءتک مغلیہ سلطنت کا دارالحکومت رہا، یہ شہر شاہ جہاں آباد کہلاتا تھا جسے اب پُرانی دلِّی بھی کہتے ہیں۔
دہلی نے کتنا کھویا اور کتنا پایا یہ ایک الگ بحث ہے مگر آج بھی دہلی ہندوستان کا دوسرا سب سے بڑا اور قیمتی شہر ہے، یہاں کی زیب و زینت لوگوں کے دلوں میں بستی ہے۔
دہلی میں مغلوں کے زمانے میں تعمیرشدہ عمارتیںکافی تعداد میں ملتی ہیں،جن میں ہُمایوںکامقبرہ،عبدالرحیم خانِ خاناں کا مقبرہ،قلعہ جہاں نما (لال قلعہ )، مسجد جہاںنما(جامع مسجد)، فتح پوری بیگم مسجد،زینت المساجد (گھٹامسجد)، دہلی دروازہ، ترکمان دروازہ اور کچھ ٹوٹے ہوئے محلات، جنہیں دیکھ کر بہت کچھ محسوس کیا جا سکتا ہے۔
آج بھی سیکڑوں افراد روزانہ سیرِدہلی کی غرض سے نکلتے ہیں اور تاریخی حقائق سے آشنا ہوکر لوٹتے ہیں، سیرِدہلی اپنے موضوع کے اعتبار سے نہایت قیمتی اور تاریخی اہمیت کی حامل ہے، اس سے قبل اس موضوع پر ۱۸۴۷ءمیں سر سید احمد خاں نے ’’آثارالصنادید‘‘ نامی کتاب تفصیل سے لکھی ہے، اسی طرح ۱۹۱۹ء میں مولوی بشیرالدین احمد دہلوی کی تصنیف ’’واقعات دارالحکومت دہلی‘‘ (اول؍دو م) بھی اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔
عہدِ محمد شاہ رنگیلا میں’’مرقعِ دہلی‘‘کے عنوان سے بھی ایک فارسی تذکرہ نواب ذوالقدر قلی خاں نے مرتب کیاہے جس کا زیادہ تر حصہ صوفیائے کرام اور مشاہیر کے تذکرے پر منحصر ہے۔
مرزا سنگین بیگ کی کتاب’’سیرالمنازل‘‘کو بھی نہیں بھولنا چاہیے، یہ فارسی میں پہلی کتاب ہے جس میں ابتدا سے دہلی کی اجمالی تاریخ بیان کی گئی، مختلف حکمرانوں کی تعمیری خدمات، مساجد و مقابر وغیرہ کا ذکر اور ان کے جغرافیہ اور محلِ وقوع کی نشان دہی کرائی گئی، ان پر نصب کتبے نقل کیے گئے، یہ کتاب مغل بادشاہ اکبر ثانی کے عہد میں تصنیف کی گئی ہے۔
’’سروریاض‘‘ کے عنوان سے ۱۸۶۱ء کا لکھا ہوا اردو کا ایک اور سفر نامہ ملتا ہے جس کے مصنف شیخ ریاض الدین امجدؔ ہیں، یہ سفرنامہ ۱۰؍ روزہ تھا،اس میں دہلی کی عمارتوں اور اشخاص کی تباہی و بربادی کے اثرات کا ذکر ہے۔
’’آثارالصنادید‘‘ کے مقابلے میں سیرِ دہلی مختصر کتاب ضرور ہے مگر بعض ایسے ایسے مقامات کا تذکرہ ہے جن کا ذکر سیرالمنازل یا آثارالصنادید میں نہیں ملتا، آثارالصنادید کا دائرہ اس لیے وسیع ہے کہ سرسید کی زندگی کا بیشتر حصہ دہلی میں گذرا، انہوں نے برسوں یہاں کے گلی کوچوں، بازار و مکانات، تاریخی مقابر و مساجد، اہلِ حرفہ صنعت کاروں کی چھان بین کی اس کی بہ نسبت حضرت شاہ اکبر داناپوری کا ۱۲؍ روزہ سیرِ دہلی مخصوص اور پاکیزہ مقامات کی زیارت کا مرقع ہے۔
دہلی پر بعد میںچھوٹی بڑی کتابیں بھی لکھی گئی جن میں فغانِ دہلی، پھول والوںکی سیر،رہنمائےسیرِدہلی،ارمُغانِ دہلی،سیرِدہلی کی معلومات،سیرِدہلی، پُرانے دہلی کے حالات، دلی کا آخری دیدار،بائیس خواجہ کی چوکھٹ، تاریخِ دہلی، تاریخِ اؤلیائےدہلی،دہلی کی آخری بَہار،گلستانِ دہلی،دہلی کاپھیرا، رسومِ دہلی،دہلی کی جانکنی،دہلی کاایک یادگارآخری مشاعرہ، دہلی کی یادگار ہستیاں، دلی پرانے، دہلی کی یادگارشخصیات، سوانحِ دہلی، چراغِ دہلی، لال قلعہ کی ایک جھلک، ذکرِ جمیع اؤلیائے دہلی، دہلی کی تاریخی مساجد، دہلی کی چندتاریخی عمارتیں، دربارِ دہلی، انقلابِ دہلی، شہرِ دہلی، آثارِ دہلی، دہلی کی زیارت گاہیں اور دہلی کی کہانی جیسی بیشتر کتابیں منصۂ ظہور میں آچکی ہیں۔
حیرت و تحیر ہےکہ سیرِ دہلیکو دہلی شناس نے اس طرح یاد نہیں رکھا جس طرح اسے یاد رکھنا چاہیے تھا، بڑی تلاش و تفحص کے بعد ایک مسافر انجان شہر کے حالات قلمبند کر رہا ہے، وہ بھی ایسے عہد میںجب ۱۸۵۷ء کی قیامتِ صغریٰ کے بعد ہندوستان پر مسلمانوں کے سات سوسالہ اقتدار کا مرکز دہلی برطانوی استعمار کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوچکا تھا۔
دہلی کے تاریخی مقامات سے متعلق مذکورہ بہت ساری کتب کے علاوہ حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کی کتاب سیرِ دہلیبھی ہے، یہ ان افراد کے لئے ایک قیمتی سرمایہ ہے جنہیں دہلی سے خاصی انسیت اور سیر و سیاحت سے دل چسپی ہے۔
سیرِ دہلی معروف صوفی شاعر اور عارف باللہ حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کے ۱۲؍ روزہ یعنی ۱۱؍جنوری تا ۳۱؍جنوری ۱۸۹۴ ءکا سفرنامہ ہے جو بنیادی طور پر مولانا محمد سمیع اللہ(پیدائش۱۸۳۴ء-وصال۱۹۰۸ء)کےبڑے صاحبزادے سربلندجنگ بہادر مولانا محمدحمیداللہ کی تقریبِ شادی خانۂ آبادی کے موقع پر لکھا گیا ایک روز نامچہ ہے، یہ شادی آصف جاہ ہشتم محبوب علی(حیدرآباد)کے معتمدِپیشی اور استادِخاص سرور الملک نواب آغا مرزا بیگ کی صاحبزادی سے طے پایا تھا، یہ دونوں خانوادہ ہندوستان میں اُس وقت اپنی ایک نمایاں شان رکھتا تھا۔
سرورالملک نواب آغا مرزابیگ نے اپنی خودنوشت’’کارنامۂ سروری‘‘ کے عنوان سے اور منشی ذکاؤاللہ دہلوی نے مولوی صاحب پر’’سوانح عمری حاجی محمدسمیع اللہ خان بہادر‘‘کی سرخی لگاکر مفصل احوال لکھے ہیں، ان دونوں کا حجم کافی ضخیم ہے، ۱۸۸۰ ءمیں مولوی صاحب لندن روانہ ہوئے تھے واپسی پر’’سفرنامہ مولوی محمد سمیع اللہ خان صاحب بہادر سب ججی ضلع مرادآباد‘‘کے عنوان سے شائع ہوا تھا، اسی طرح ۱۹۰۹ ء سربلندجنگ بہادرکا سفرنامہ’’مدینہ منورہ‘‘اور ان کی بیگم صاحبہ نے ’’دنیا عورت کی نظر میں‘‘ مشرق و مغرب کا سفر نامہ بھی بڑا قیمتی سرمایہ چھوڑا ہے، جن صاحب کو شوق ہو وہ ان کتب کا مطالعہ کرے۔
مولوی محمد سمیع اللہ علی گڑھ کی تعلیمی تحریک میں کافی شہرت رکھتے ہیں، آپ مسلم یونیورسیٹی(علی گڑھ)کے بانیوں اور محسنوں میں سے ہیں، ابتدا میں سرسیّد کے زبردست معاون و مددگار تھے، کالج کو انہوں نے ہزاروں روپے چندہ دیا اور اس کے عروج اور ترقی میں ہمہ تن سعی اور کوشش کی، مولوی صاحب کے بڑے صاحبزادے سربلندجنگ بہادر کو مسلم یونیورسیٹی میںنتیجۂ امتحانات پرکئی سال تک وظیفے ملے مگر مولوی صاحب وظیفے کی رقم کو بطور چندہ کالج کو دلوادیا کرتے تھے، کالج کے طلبہ میں سے بغرضِ تعلیم سب سے پہلے ۱۸۸۰ ءمیں آپ ولایت گئے مگر بعد میں سر سید کے صاحبزادے سید محمود کی جانشینی کے مسئلے پر اتنی سخت مخالفت ہوگئی جس کی انتہا نہیں۔
مولوی صاحب نہایت قابل، فاضل اور عالم انسان تھے،عربی زبان پر ان کو مہارت تھی، سنجیدگی، متانت اور وقارکی زندہ تصویر تھے،نمازوروزہ اور جملہ احکامِ شریعت کی نہایت سختی سے پابندی کرتے تھے، بے حد فیّاض اورمخیرتھے،غریبوں اور یتیموں کی امداد فراخ دلی اورخاموشی سے کرتے اور قومی و فلاحی کاموں میں حصہ لیتے، دہلی میںایک مدْرسہ کی بنیاد بھی ڈالی تھی، ان کا حلقۂ احباب اس شادی میں شریک مہمان سے لگایا جاسکتا ہے، ۷۴؍برس کی عمر میں علی گڑھ میں وصال ہوا اور حسبِ وصیت مہدیان میں حضرت عبدالعزیز شکربار کے دائیں طرف سَرہانے میں آرام فرما ہیں۔
مولوی محمدسمیع اللہ صاحب بوجۂ لیاقت ابتدا ہی سے کانپور میں عہدۂ منصفی پر مامور رہ کر ۱۸۶۳ء میں آگرہ آگئے اور وہیںآپ نے وکالت شروع کی اور یہاں سے آپ کی نیک نامی اور بلنداخلاق کی شہرت ہونے لگی، تقریباً چھ سال آگرہ میں رہ کر مشاہیر سے ملاقات کا ایک طویل سلسلہ قائم ہوگیا اسی درمیان داناپورکے مشہور بزرگ قطب العصر حضرت مخدوم شاہ محمد سجاد پاک (پیدائش۱۸۱۶ء- وصال ۱۸۸۱ء) سے ملاقات ہوئی،یہ بزرگ برابر آگرہ میں حضرت سیدنا امیر ابوالعلا کے آستانہ پر بغرضِ حاضری اور رشدوہدایت تشریف لایا کرتے تھے، منشی ذکاؤاللہ دہلوی لکھتے ہیں کہ
’’مولوی صاحب کے دفترِوکالت کے منشیوں میں ایک بزرگ حاجی شاہ سیّدمحمدسجادصاحب تھےجنہوں نےکئی حج کیے تھے اورجن کوخانقاہ ابوالعُلائیہ،داناپور،پٹنہ کی سجادگی کا فخر حاصل تھا اوربنگال و بہار میں جن کےہزارہا معتقدین تھے، باوجودِ تعلقِ ماتحتی مولوی صاحب اُن کی بہت عزت کرتے تھے یہ آپ کےہمراہ آگرہ سےتھے اور اُس وقت تک آپ کی رفاقت میں رہے جب کہ آپ سب ججی کی خدمت پر مامور ہوئے اُن کےفرزندشاہ محمداکبرؔصاحب حال سجادۂ خانقاہ ابوالعُلائی بھی ان کےساتھ مولوی صاحب کےپاس اکثر رہتے تھے ‘‘(سوانح عمری، ص۴۱)
اس طرح مولوی صاحب اور شاہ صاحب کے خانوادہ سے رشتۂ اتحاد بلند ہوا، یہیںآگرہ میں ۱۷؍مارچ ۱۸۶۴ء میں مولوی صاحب کے بڑے صاحبزادے سربلندجنگ بہادر مولوی حمیداللہ کی پیدائش ہوئی اور ان کے بچپن کا کچھ حصہ آگرہ میں گذرا یہیں تعلیم پائی، یہیں کی صحبت اٹھائی، آگرہ میں ان کا بچپنا حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کی گود میںگزرا،خود لکھتے ہیں کہ
’’حمیداللہ خاں مداللہ عمرہٗ کو میں نے صغرِ سنی میں بہت گود میں کھلایا ہے، یہ اُسی محبت کاتقاضہ ہے۔۔۔‘‘(سیرِدہلی)
حضرت شاہ خالد امام ابوالعلائی مدظلہٗ مجھ سے فرماتے ہیں کہ ۱۹۰۸ء میں جب مولوی صاحب کا انتقال ہوا تو فاتحۂ سوم کے موقع پر تبرک تقسیم ہوا اور روٹی کی رسم ادا کی گئی اور دہلی،علی گڑھ،لکھنؤ،الہ آباد،رامپور، دیوبند،اجمیرکے علاوہ حیدرآباد اور خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور میں تقریباً چار چار سیر کے حصص دہلی کی مخصوص باقرخانی اور میٹھے کے مع تانبے کی خوبصورت رکابیوں کے جن پر مادۂ وفات منقش تھا تقسیم ہوا۔
سربلند جنگ بہادر اورکل خاندان کی طرف سے تعزیت ادا کرنے والوں کا شکریہ نامہ بھی تحریر تھا، منشی ذکاؤاللہ دہلوی نے بھی ایسا ہی تحریر کیا ہے۔
کہا جاتا ہےکہ حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری معمول کے مطابق روز نامچہ لکھا کرتے تھے، یہ روزنامچہ بھی حسبِ معمول لکھا گیا اور دہلی کے سفر کی واپسی پرآگرہ میں جب ان کے مریدین و معتقدین کی نظر سے یہ روزنامچہ گزراتوآپ سے فرمائش ظاہر کی کہ اس کو سفرنامہ کے طور پر شائع کرا دیا جائے، چنانچہ مولوی محمد سمیع اللہ نے بھی جب بالاستیعاب مطالعہ کیا تو طباعت کی خواہش ظاہرکی،لہٰذاحضرت اکبر نے سر سری نظرثانی کے بعد طباعت کی اجازت دے دی۔
سیرِ دہلی تین حصوںپر منقسم ہے،پہلاحصہ شادی کا تذکرہ ہے، دوسرا معاصرین سے ملاقات اور تیسرا دہلی کی مساجد،مزارات، خانقاہیں، شاہی عمارات اور کچھ کھنڈرات کا ذکر ملتا ہے، اسی درمیان کئی جگہ تاریخ کے واقعات،نقش و نگار کا تقابلی جائزہ،سفر کی برکتیں، سفرکے فائدے، سلسلۂ سہروردیہ ،چشتیہ، نقشبندیہ ابوالعلائیہ، مجددیہ کاتذکرہ، والیانِ حکومت اورعوام کے اندرپنپنے والی غلطیوں کی اصلاح، مسلمانوںکے اندرتعلیمی ماحول کا شعور اور اس کے اسباب و علل، اردوزبان کی بنیاد اور شعرا کا حال و احوال، فتح پوری بیگم مسجد کا مدرسہ عالیہ کے طلبہ کا حال، مولانا عبدالحق حقانی و دیگر اساتذہ کی تنخواہیں، حیدرآباد کے نوابین کا تذکرہ، آصف جاہ ہشتم محبوب علی کی تختِ نشینی پر قطعۂ تاریخ، سہرے، نظموں اور غزلوں کا ایک خوبصورت مرقع ہے۔
اسی درمیان میں ’’شہرِآشوبِ دہلی‘‘ اور’’کشتیٔ اسلام‘‘ کے عنوان سے طویل نظم بھی ہے۔
کتاب کاآغاز بعدحمد واجب الوجود خواجہ ابو سعیدابوالخیرکی رباعی سے ہوتا ہے۔
ابتدائیہ صفحات پر دنیا کی سیر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے پھر وطن کی معنوی حیثیت بتائی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ سفر کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کا دل کسی جگہ سے خاص تعلق پیدا نہیںکرتا، روزانہ کے سفر سے دنیا سرائےفانی معلوم ہونے لگتی ہے۔
پوری کتاب قرآنی آیات، احادیثِ کریمہ اور صوفیانہ خیالات کی ترجمان ہے، وطن کی محبت ایک سخت محبت ہے،خود حضرت اکبر کا گھرانہ سلسلۂ نقشبندیہ ابوالعلائیہ سے معمور رہا ہے،ان کے یہاںتو سفر در وطن کی تعلیم ہی دی جاتی ہے،یہی وجہ ہےکہ زیادہ تر اللہ والے سفر کرتے اور ایک شہر سے دوسرے شہر، ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچتےہیں اور اللہ کی بنائی ہوئی کائنات کا مشاہد ہ کرتے ہیں۔
پھر اپنے جذبات و تاثرات کا اظہار۹۱؍قافیہ بند شہرِآشوبِ دہلی کے عنوان سے کیا ہے، دہلی کی تباہی و بربادی پر ۱۸۸۲ء میں’’فغانِ دہلی‘‘کے عنوان سے ایسی شاعری کا مجموعہ مرتب ہوا جس میں اہلِ دل خون کے آنسو روتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں،حضرت اکبرؔ کا یہ شہرِ آشوب ہر لحاظ سے دہلی مرحوم کا ایسا مرثیہ ہے جو بیشتر زعمائے عہدکی ایسی شاعری پر اپنی اندوہ گینی اور اثر آفرینی کے لحاظ سے فوقیت کا حامل ہے۔
سب مکانوں کو شرف اپنے مکینوں سے ہے
اٹھ گیا صاحبِ خانہ، تو ہے ویران وہ گھر
(شاہ اکبرؔداناپوری)
اس طویل نظم میں نہ صرف دہلی بلکہ لکھنؤ اور کلکتہ کی بربادی کا بھی ذکر ہے۔
۱۱؍ تا ۳۱؍جنوری کا یہ سفرنامہ ۱۸؍تا ۲۴؍بارش کی وجہ سے نہیں لکھا گیا جبکہ ۲۷؍تا ۲۸؍کو نہ لکھنے کی کوئی وجہ سامنے نہیں آئی، لہٰذا ہم اسے ۱۲؍ روزہ سفرنامہ کہیں گے۔
شہرِ آشوب کے بعد سفرنامہ کی شروعات ہوتی ہے،حضرت اکبر داناپور اسٹیشن سے الہ آباد ہوتے ہوئے ۱۱؍جنوری ۱۸۹۴ء روز پنجشنبہ کو پانچ بجے شام دہلی اسٹیشن پہنچے، چنانچہ وہ خود لکھتے ہیں۔
’’جناب مولوی سمیع اللہ خاں صاحب بہادرکےمکان پر پہنچے ۔۔۔ایک گھنٹے کےبعدتشریف لائےہرچندمجھےپندرہ برس بعد دیکھا مگر فوراًپہچان لیا،مجھےبھی پہچاننے میںکچھ دقت نہ ہوئی، میں نے مولوی صاحب کےاَخلاق وعادات میںسرِموفرق نہ پایا۔۔۔‘‘(ص۱۳)
اب ہر طرف شادی کی تقریب کا سماں ہے،مہمانوں کی آمد آمد ہے، ساعت بہ ساعت اِژدہام بڑھتا جاتا ہے،اس تقریب میں ہندوستان کے ہر بڑے چھوٹے طبقے کے نامور لوگ جمع ہیں، مہمانوں کے واسطے بہترین انتظامات ہیں، زیب و زینت اور انتظام و انصرام کا کیاکہنا،حضرت اکبر کا قیام دریاگنج کے نواب پٹودی کے محل میں ہے۔
اب مولوی صاحب کی مہمان نوازی کا تذکرہ ہے، ہر مہمان کے لئے دو دو خدمت گار مقرر ہیں،مکان صاف ستھرا،بہترین فرش اورشمع روشن ہیں،کوٹھی کے صحن میں متعدد خیمے کھڑے ہیں، ان خیموں اور مکانوں کے واسطے فروش وغیرہ علی گڑھ سے خواجہ محمد یوسف اور خواجہ محمد اسمٰعیل لائےہیں،یہ دونوں صاحب اس بارات کے منتظم ہیں، ہر خیمے میں اس قدر روشنی ہےکہ جگمگا رہا ہے،طرح طرح کے پکوان،شرفا کی مہمان نوازی،بلنداخلاقی،رسم و رواج اور دہلوی تہذیب کی بھرپور عکاسی کے ساتھ مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کی یادگارعمارات، بزرگوںکے مزارات، مقابر و مساجد کے شکستہ آثار کو دیکھتے ہوئے پوری جزئیات اور فنِِ تعمیر کی معلومات کے ساتھ اپنی وارداتِ قلبی کو بڑی خوش اسلوبی اور دردمندی کے ساتھ بیان کیا ہے، ساچق کا تذکرہ بھی بڑی خوبصورتی سے کیا ہے۔
رات کا سہانا وقت ہے، تاروںکی چھاوںمیںآہستہ آہستہ جامع مسجد کی طرف سے چوڑی والوں کے محلے میں سرورالملک نواب آغا مرزا بیگ کے دولت کدہ پر خوبصورت مجمع جارہا ہے، دیکھنے والے بازار کے دوکان دار حیرت کی نگاہوں سے اس مجمع کو دیکھ رہے ہیں اور آپس میں کہتے جاتے ہیں کہ
’’باراتیں تو بہت دیکھی ہیں مگر اس شان کی بارات آج تک نہیں دیکھی‘‘
اُدھر سرورالملک نواب آغا مرزابیگ کے یہاں باراتیوں کے استقبال میں شیشے کی خوبصورت تشتریاں،چکنی ڈلی اور الایچی وغیرہ کی تقسیم ہورہی ہے۔
اس تاریخی نوعیت کی رئیسانہ تقریبِ شادی میں جن بلندمراتب اشخاص نے شرکت کی ان کے اسما ئےگرامی ترتیب سے لکھےگئے ہیں جن کی ایک طویل فہرست ہے۔
اب پانچواں دن یعنی ۱۵ ؍جنوری ۱۸۹۴ءکی صبح نکاح ہوا،مولوی محمد سمیع اللہ نےخطبہ پڑھایا اور ایجاب و قبول کرایا، مبارک سلامت کا شور ہوا، حضرت اکبرؔ اور شاہ امین الدین قیصرؔ وغیرہ نے سہرا پڑھا،حضرت اکبرؔ کے سہرے کو محسن الملک مولوی مہدی علی اور دوسرے لوگوں نے خوب پسند کیا اور اس سہرے کے اکثر اشعار کو دوبارہ پڑھنے کی خواہش ظاہر کی، اب شیرنی تقسیم ہوئی، ایک چینی کی متوسط رکابی ہے،بہت سی رکابیاں تقسیم ہوئیں،لکھتے ہیں
’’مجھے چند حصے شیرینی کے ملتے تھے میں نے پوچھا کہ یہ زیادہ کیسےہیں؟ ایک صاحب نے فرمایا کہ آپ نے سہر ابھی پڑھا تھا، میں نے کہا بھئی! میں سہرا ہرگز کسی دنیاوی امید سے نہیں پڑھا، حمیداللہ خاں مداللہ عمرہٗ کو میں نے صغرِسنی میں بہت گود میں کھلایاہے، یہ اُسی محبت کاتقاضہ ہےورنہ مجھے اُمَرا کے سلام کادماغ کہاں، میں نے اپنا ایک حصہ لیا اور واپس کردی مگر اُن لوگوں نے نہایت شرافت و اہلیت کے طریقے سے اصرارکیا‘‘(ص۶۵)
جاننا چاہیے کہ منشی ذکاؤاللہ دہلوی نے’’سوانح عمری حاجی مولوی سمیع اللہ خان بہادر‘‘میں اس شادی کی تفصیلات سیرِ دہلی کے حوالوں سے جابجا نقل کی ہے۔
واضح ہو کہ سربلند جنگ مولوی محمدحمیداللہ کے بڑے صاحبزادے بلند اقبال محمداللہ کی تقریب شادی بتاریخ ۱۷؍ ربیع الاول ۱۳۳۴ھ لکھنؤ میں انجام پائی جس میں حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کے صاحبزادے اورخانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے سجادہ نشیں حضرت شاہ محمد محسنؔ ابوالعلائی داناپوری بنفسِ نفیس موجود تھے اور ایک سہرا لکھا تھا جسے یہاں نقل کیے دیتا ہوں۔
نئی روشنی نئی ہے سنوار سہرے کی
بنی کدائی عروس بہار سہرے کی
ہوا بندھی نہ رے گلعذار سہرے کی
جسے خزاں نہیں وہ ہے بہار سہرے کی
نہال ہوگئے شادی کے پھول پھول کے گل
بلائیں غنچوں نے لیں باربار سہرے کی
سجی ہے بوئے محبت سے آج بزم نشاط
ہے عطر بیز ہوا مشک بار سہرے کی
ارم سے آئی ہیں حوریں بھی کود نمائی کو
لبھا رہی ہے ادا خوش گوار سہرے کی
فروغ حسن سے روشن ہیں تار ہائے نظر
ہیں ایک سہرے میں لڑیاں ہزار سہرے کی
ایک بزم میں مشتاق دید بٹھاہے
ہے تاک میں نگہ انتظار سہرے کی
الٰہی پھولے پھلے باغِ دھر میں نوشاہ
ہوا بندھی رہے پروردگار سہرے کی
تمام بزم میں گونجی صدائے صل علیٰ
مہک جو پھیل گئی بے شمار سہرے کی
طواف کرنے کو آیا ہے خلد سے رضواں
بلائیں حوروں نے لیں باربار سہرے کی
ٹپک رہا ہے محبت کا رنگ ہر گل سے
عجیب مست ہے بو مشک بار سہرے کی
حجاب میں بھی لطف ہے رونمائی کا
روش اُڑ الے دل بے قرار سہرے کی
بنے بنی میں ہمیشہ بنی رہے محسنؔ
یہی ہے آرزوئے خوشگوار سہرے کی
(کلیاتِ محسنؔ)
تقریبِ نکاح کی مزید تفصیل اب قارئین خود مطالعہ فرمائیں تو زیادہ لطف ملے گا۔
حضرت اکبرؔ کے سفرنامے کی شروعات منشی ذکاؤاللہ دہلوی کی دولت کدے سے ہوتی ہے، ملاقات کا سلسلہ جاری ہے،لکھتے ہیں
’’مجھ سےمنشی صاحب سےدیرینہ رابطہ ہے،اس مکان سے منشی صاحب کا مکان قریب ہے،منشی صاحب ہم کودیکھ کر بہت خوش ہوئےاورفوراًاپنی قدیمی عادات کےموافق منیر خاں خدمت گار کو چائےکاحکم دیا،وہ نیک بخت بات کی بات میں چائے تیار کرکے لایا ۔۔۔‘‘ (ص۱۶)
فتح پوری بیگم مسجدکے مہتمم منشی نیازعلی کا تذکرہ یوں آیا ہے کہ
’’اب ہم یہاں سےسید ھےفتح پوری مسجدکوجاتےہیں، وہاںکچھ لوگ داخلِِ سلسلہ ہونےوالےہیںاورمنشیٔ مسجدیعنی محبی منشی نیاز علی صاحب کےہاں دعوت ہے، تُرکمان دروازے سے ایک بہت تیزگاڑی کرایہ کی اور بہت جلد فتح پوری میں پہنچ گئے۔۔۔‘‘
میرٹھ کے رئیس محمد ممتاز علی کا تذکرہ اس طرح کیا ہے۔
’’جناب محمد ممتاز علی خاں صاحب رئیس قدیم میرٹھ ٹھہرے ہوئے ہیں، یہ میرے والدماجد مرحوم مغفور کے بڑےدوست ہیں، اگرچہ میںرُؤسا واُمَراکی خدمت میںحاضری کی قابلیت نہیں رکھتا لیکن ان سےحضرت والدماجدکی خصوصیت کے سبب سےملاقات ضروری سمجھتاہوں،کامل دوگھنٹے اِن کی خدمت میںحاضررہا، اب یہ تمام تر نور ہوگئے ہیں، سفید ریش گورا رنگ اُس پرپیری کا اِنْحِنا عجب نور کا عالم دکھا رہا ہے، بیاسی برس کی عمر ہے،تہجدناغہ نہیں ہوتی،آنکھیں ہر وقت پُرنم‘‘
وہیں دوسری طرف مرزا مظہرجانِ جاناں کی خانقاہ کا تذکرہ اس طرح آیا ہے۔
’’۔۔۔یہاںسےقریب حضرت مرزاصاحب کی خانقاہ ہے، دروازےپہ جو پہنچاتواسےبندپایاہرچندکوشش کی مگر دروازہ نہ کھلا، معلوم ہواکہ اب اس خانقاہ کی مجاورت جن کے متعلق ہےان کا نام ابوالخیر ہے، مزاج ان کاجادۂ اعتدال سے گزرا ہوا ہے، نمازیوںکو بھی مسجد میںنہیںآنےدیتے،ہم نے دروازے ہی پرسے فاتحہ پڑھ لی‘‘ (ص۱۶)
یہ وہی شاہ ابوالخیر ہیں جنہیں اہلِ دہلی آج بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
اسی طرح خواجہ میردردؔ کی اولادکا تذکرہ بھی نہایت سختی سے آیا ہے جو تاریخ کا ایک حصہ ہے۔
اس کے علاوہ شاہ امین الدین قیصرؔ (سجادہ نشیں : دائرہ حضرت شاہ محمد علیم ، الہ آباد)، شاہ امیرحسین صابری (سجادہ نشیں : خانقاہ صابریہ، دریا گنج)، میر سید حسن رضوی (مالک : اخبار خیر خواہِ عالم)، میر سید نواب قادری، مولانا عبدالرحمٰن راسخؔ دہلوی (مالک : اخبار بے مثالِ پنچ)، حکیم ظہیرالدین خاں، خواجہ محمد اسمٰعیل (علی گڑھ)، خواجہ محمد شفیع (دہلی) اور مرزا ولی بیگ (دہلی) کا تذکرہ بھی شامل ہے۔
حضرت اکبر نے سیرِ دہلی میں مدرسہ، اسکول اور کتب خانہ کی جانب بھی کافی توجہ دی ہے، دہلی اور اکبرآباد کے مدْرسہ کا جائزہ بھی لیا ہے،فتح پوری بیگم مسجد کے اساتذہ کی تنخواہ، مدرسہ کا نصاب، علما کا خاص لباس، انتظام و انصرام اور اس حوالے سے تاریخی روایات کی نشاندہی بھی کرائی ہے۔
حضرت اکبرؔ مسلمانوں کو جدید علوم و فنون حاصل کراناچاہتے تھے وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ ہندوستان کی دوسری قومیںاعلیٰ تعلیم حاصل کر کے مسلمانوں سے بہت آگے نکل چکی ہیں،وہ جانتے تھے کہ بغیر تعلیم کے کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی اس لئےنئے نئے تکنیک اور بہترین مشوروں سے لوگوں کو آگاہ کرتے رہتے، تصوف کےپردے سے ایک صوفی کی دوررَس نگاہیں کیا پیغام دے رہی ہے وہ متاثر کیے بغیر نہ رہ سکے گی، لکھتے ہیں کہ
’’ہمارےمسلمان والیانِ مُلک اگراس طرف توجہ کریںتویہ مشکل آسان ہوسکتی ہے۔
اس کی صورت میرےخیال میںیہ آتی ہےکہ ہرسال چند لڑکےجوایف اے(F.A)پاس کرچکےہوںوہ امریکہ بھیج دیے جائیں
تاکہ مکتب فنون میںچندسال رہ کر پاس کریں اور پھر ہندوستان میں آکر مکتبِ فن کھولیں، اہلِ امریکہ کو تعلیم فنون میںہرگزبخل نہیں ہے، اہلِ انگلستان اور علوم میں بے شک سخی ہیں مگر تعلیم فنون میں بالکل بخیل، اگر ہمارے ہندوستان کے چند نوجوان امریکہ سے علم جرّاثقال و دیگر فنون کی تعلیم پاکر آ جائیں تو اِن شَاء اللہ تَعَالیٰ چندہی سال میں ہندوستان کی بگڑی تقدیربن جائے‘‘(ص۴۳)
مدارس و مساجد کے ساتھ ساتھ درگاہوںاور خانقاہوں کا سفر بھی بڑا قیمتی اور تاریخی رہا،حضرت مرزامظہر جانِ جاناں کی درگاہ سے یہ سفر شروع ہوااور حضرت شاہ غلام علی، حضرت ابوسعید مجددی، حضرت رحیم بخش، حضرت شمس العارفین ترکمان بیابانی،حضرت سرمدؔشہید،حضرت شاہ ہرے بھرے،حضرت شاہ کلیم اللہ چشتی،حضرت بھیک صابری،خواجہ باقی باللہ نقشبندی، حضرت شاہ عبدالعزیزاخوند،حضرت عبداللہ صابری،حضرت شاہ عبدالرحیم، حضرت شاہ ولی اللہ محدث،حضرت شاہ عبدالعزیز محدث، حضرت شاہ عبدالقادر محدث،حضرت شاہ رفیع الدین محدث، خواجہ میر ناصرؔ، خواجہ میر دردؔ،خواجہ میر اثرؔ،خواجہ نظام الدین اؤلیا،حضرت امیرخسروؔ،خواجہ فخرالدین چشتی، خواجہ قطب الدین بختیارکاکی،حضرت شیخ محمد چشتی صابری کے مزارسے فاتحہ پڑھ کر رخصت ہوئے اور یہ سفر حضرت شاہ محمد فرہاد ابوالعُلائی کی درگاہ پر مکمل ہوا۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے مزار کا جب قصد کیا تو بڑی تلاش و تحقیق کے بعد پہنچے،چنانچہ اس پر حضرت اکبر کی رائے نہایت قیمتی اور تفصیلی ہے۔
’’افسوس ہماری قوم میں سےاب کوئی شخص ایسا باقی نہ رہاکہ ہمارےوالیانِ ملک کواس طرف متوجہ کرےکہ اِن کےبقائے نام و نشان کےلئےان کے مزارات پرگنبدقائم کر دیاجائےتاکہ ان کی زیارت کرنےوالوں کو کسی دوسرے راہبرکی ضرورت نہ ہو جائے‘‘
سیرِ دہلی کی سب سے بڑی خاصیت یہ رہی کہ حال و احوال،تاریخ و تذکرے،کیفیتِ مزار، کتبےپے لکھے اشعار و اعداد اور قرآنی آیات کے ساتھ ہی ساتھ سقف و محراب اور شکستہ در و دیوار پر جہاں جہاں جو کچھ بھی کندہ یا لکھا دیکھا ان سب کو محفوظ کر لیا۔
راقم السطور محمدریان ابوالعلائی ان تمام تر مقامات کی زیارت خود کرچکا ہے، جامع مسجد، سنہری مسجد، فتح پوری بیگم مسجد،سنہری مسجد، کلاں مسجد، مزار حضرت سرمدؔ شہید، مزار حضرت شاہ کلیم اللہ چشتی،قبر زینت النسا بیگم، قبر جہاں آرا بیگم، پُرانا قلعہ کے صدر دروازہ کے علاوہ حضرت شاہ عبدالرحیم، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی،حضرت شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی،حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلوی، حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی، حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں، حضرت شاہ غلام علی،حضرت ابوسعید مجددی، خواجہ محمد ناصر عندلیبؔ، خواجہ میر دردؔ اور خواجہ میر اثرؔ کی قبر سے آج کتبہ بدل دیا گیا ہے جبکہ حضرت رحیم بخش کے مزار پرآج کوئی کتبہ نہیں ہے۔
سیرِ دہلی کے مطابق حضرت شاہ عبدالعزیز کے پائیں حضرت شاہ رفیع الدین اور حضرت شاہ ولی اللہ کے پائیں حضرت شاہ عبدالقادرکا مزار ہے مگر جدید کتبے کچھ اور ہی بتار ہے ہیں کہ حضرت شاہ ولی اللہ کے پائیں حضرت شاہ رفیع الدین اور حضرت شاہ عبدالرحیم کے پائیں حضرت شاہ عبدالقادر کا مزار ہے، شاہ عبدالقادر کے مزارکے کتبہ پر تاریخِ انتقال ۱۲۳۶ھ کندہ تھا پر آج ۱۲۳۰ھ لکھا ہے، یہ سب کتبے آج تبدیل ہوچکے ہیں۔
خانقاہوں اور درگاہوں کے علاوہ مساجد کا ذکر بھی اس سفرنامے میں جابجا ہے، مسجدقوت الاسلام، کلاں مسجد (کالی مسجد)، جامع مسجد، فتح پوری بیگم مسجد، زینت المساجد (گھٹا مسجد)، موتی مسجد (لال قلعہ)، سنہری مسجد (چاندی چوک)، سنہری مسجد (نزدلال قلعہ) وغیرہ کا ذکر آیا ہے، اسی درمیان جون پور کی اٹالہ والی مسجد، جامع مسجد، حیدرآباد کی مکہ مسجد اور قرطبہ کی تاریخی مسجد کا ذکر بھی آیا ہے، سنہری مسجد سے متعلق لکھتے ہیں کہ
’’کیا پاکیزہ مسجد ہے، اندر سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ تمام پھول بیل پتیاں سنہری ہیں اور ایسا عمدہ کام ہے جیسے نہایت سُبُک دست سادہ کار مینا کار زیور بناتے ہیں اس کے تینوں بُرج سونے کے پتروں سے منڈے ہوئے تھے ۔۔۔اس مسجد کو دیکھ کربڑی حسرت ہوئی ایسی پڑی ہےکہ دو رکعت نفل پڑھنے کا بھی موقع نہ مِلا۔۔۔‘‘ (ص۳۴)
حضرت اکبرؔ محض ایک صوفی شاعر یا ایک مصنف ہی نہیں تھے بلکہ ان کی وسعتِ معلومات، تاریخی مطالعے اور گہری نظر کا قائل بھی ہونا پڑتا ہے، انہیں فنِ تعمیر کی کنہیات سے خاصی دلچسپی تھی، جامع مسجدکے تعلق سے لکھتے ہیں کہ
’’یہ مسجد اکبرآبادکی جامع مسجد سے چھوٹی معلوم ہوئی مگر ناپا تو بڑی نکلی یعنی جنوباً و شمالاً یہ مسجد ایک سو چون قدم ہے اور اکبرآباد کی مسجد سوقدم ہے۔۔میں نے اور جتنی مسجدیں دیکھیں تھیں عالمِ خیال میں سب سے اس کا مقابلہ کیا مگر یہی اول درجہ کی ٹہری، حیدرآباد کی مکہ مسجد بھی اپنی قطع کی ایک ہی ہے اور حسنِ تعمیر میں وہ بھی ایک خاص ادا رکھتی ہے مگر یہ مسجد حقیقت میں اپنا جواب آپ ہی ہے، مکہ مسجد چوراسی قدم عرض میں ہے اور ایک سو چودہ قدم طول میں‘‘(ص۲۱)
ہمایوں کے مقبرے کا حال یوں لکھتے ہیں کہ
’’سنگِ مرمر کا گول گنبد ہے جو نیم دائرے سے کچھ زیادہ ہے نظر آ رہا ہے، ہم چند منٹوں میں یہاں پہنچ گیے، اس مقبرے کا باغ اب تو ویران پڑا ہوا ہے جب کبھی آباد ہوگا تو واقعی سیر کے قابل ہوگا اس مقبرے اور باغ کو ہمایوں بادشاہ کی زوجہ حاجہ بیگم نے سولہ برس میں پندرہ لاکھ روپیہ کےصَرف سے بنوایا ہے، حمیدہ بانو بیگم اس کانام تھا اور مریم مکانی لقب تھا یہ بیگم اکبر بادشاہ کی ماں تھی۔
اب ہم اس چونا گچ کے چبوترے پر ہیں جو باغ کے وسط میںہےاس کوناپاتو ایک سو پچاس قدم عرض میںاوراتنا ہی طول میں ٹھہرا، اس چبوترے پر ایک اور چبوترہ ہے اندازاً تین قد آدم بلند ہوگا ‘‘(ص۹۶)
حضرت اکبرؔ نے ہُمایوں کے گنبد کو اِٹلی کے مشہور گِرجا گھر سینٹ پیٹر سے بھی بڑا قرار دیاہے،یہی نہیں بلکہ تاج محل کےگنبد سے بھی موازنہ کیا ہےکہ ہمایوں کے مقبرے کا گنبد دورسے اندر کو دبا ہوا معلوم ہوتا ہے ا ور تاج محل کا گنبد ابھرا ہوا نظر آتا ہے۔
۱۰۴؍صفحات پر مشتمل یہ سفرنامہ نہایت مفید اور معلوماتی ہے،اب تو اس ۱۳۲؍ سالہ قدیمی سفرنامہ کو تاریخی اہمیت بھی حاصل ہے، مطبع ریاضِ ہند (آگرہ) سے بڑی تقطیع پر پہلی مرتبہ ۱۳۱۱ھ میں محمد عنایت خاں نے شائع کیا اور دوسری اشاعت ۲۰۱۱ ءمیں دہلی یونیورسیٹی کے شعبۂ اردو سے ۱۱۲؍ صفحات پر مشتمل گولڈن جوبلی کے موقع پر پروفیسر ارتضیٰ کریم نے ترتیب دیا، ابھی حال میں مجلسِ ادبیاتِ عالیہ (واٹس ایپ گروپ) نے بھی ماہِ ستمبر ۲۰۲۱ءمیں آن لائن جاری کیاہے، یہ نسخہ سیرِ دہلی کا چوتھا ایڈیشن ہے ۔
اس نسخہ میں حضرت اکبرؔ کے لکڑپوتے اور خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے سجادہ نشیں حضرت سیدشاہ سیف اللہ ابوالعلائی مدظلہٗ اور مولوی محمد سمیع اللہ کے پڑپوتے اور دہلی کے سابق لیفٹننٹ گورنر جناب نجیب جنگ صاحب کے تاثراتی تحریر بھی شامل ہےجس کےلئےہم مشکورہیں۔
قارئین کی آسانی کے لیے اشاعتِ جدید میں احادیث و اشعار کے اردو تراجم و تخریج و اعراب کے ساتھ نہایت صاف اور آسان کر کےضمنی سرخی بھی لگا دی گئی ہے، اس سلسلے میں مفتی محمد رضا نور قادری ابوالعلائی (موہنیاں، ارریہ) کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس کتاب کی پروف ریڈنگ خلوص نیت کے ساتھ انجام دیا، محمد دانش ابوالعلائی (موہنیاں، ارریہ) بھی شاملِ دعا ہیں کہ کتابت کی ذمہ داری اپنی سرلے لی، اسی طرح سید یوسف شہاب کو بھی نہیںبھولنا چاہیے انہوں نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے سیرِ دہلی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا، بعض مقامات کی طرف نشان دہی بھی کرائی، وہ دہلی کی سیر کراتے ہیں اور لوگوں کو اس تاریخی شہر سے متعارف کرا رہے ہیں، اللہ پاک سے دعا ہے کہ ان تینوں صاحبانِ محترم کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
الغرض سیرِ دہلی عام سفرناموں سے بالکل مختلف اور عہدِرفتہ کی ایک جھلک ہے، ہمیں امید ہےکہ دہلوی تہذیب و تمدن اور آثارِ قدیمہ کی یاد تازہ کرانے میں یہ سفرنامہ ممِد و معان ثابت ہوگا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.