Font by Mehr Nastaliq Web

ذکر خیر حضرت پروفیسر عبدالمجید ابوالعلائی

ریان ابوالعلائی

ذکر خیر حضرت پروفیسر عبدالمجید ابوالعلائی

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    پروفیسر عبدالمجید ابوالعلائی کا تعلق افغانستان کے سرحدی قبائل میں قبیلہ اُتمان خیل سے ہے، یہ قبیلہ خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ میں آباد ہے، اُتمان خیل پٹھانوں کا ایک مشہور قبیلہ ہے جس کی مردانگی اور بہادری زبان زدِ خاص و عام ہے، اس قوم کا بنیادی تعلق خراسان کے علاقہ غورہ مورگہ بتایا گیا ہے جو جہالت میں دیگر افغانی قبائل سے ممتاز تھا، آپ کے پردادا کا نام شاہ زرین تھا اور خاندان اسی نام سے مشہور ہوا۔

    پروفیسر عبدالمجید ۱۲۸۸ھ میں باجوڑ کے علاقہ بتائی علیزو میں پیدا ہوئے، پندرہ برس کی عمر میں بغرضِ تعلیم ہندوستان آئے اور بڑی محنت و مشقت کے بعد آگرہ میں تعلیم حاصل کرنے لگے، ہندوستان میں آپ کا طالب علمی کا زمانہ اسی طرح گزرا جس طرح دیگر افغانی طلبہ کا گزرتا تھا، یہ وقت آپ کے لئے نہایت کٹھن تھا لیکن صبر و محنت سے گزر کر تقریباً ۱۳۱۳ھ میں آگرہ کے مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے، یہاں مولانا سعادت اللہ قادری کی علمی درس گاہ آباد تھی، آپ نے مولانا کی صحبت اختیار کی اور وہیں سے دستاربندی کی سعادت حاصل کی، آپ خود لکھتے ہیں کہ

    ’’میری دستار فضیلت جن ہاتھوں نے باندھی وہ معمولی نہ تھے، دامن گیر رسول تھے، درد و محبت کے خمیر سے بنے تھے، یہ کس کے ہاتھ تھے؟ میرے آقا میرے مولیٰ مولوی محمد سعادت اللہ اسرائیلی سنبھلی کے ہاتھ تھے جو آج کل جامع مسجد آگرہ میں مدرس اول ہیں۔ میں ان کی بابت کچھ کہہ نہیں سکتا ہوں، ہاں جو کچھ وہ ہیں۔

    دل من داند و من داند ذ داند دل من

    مولانا نے میری ہر قسم کی اصلاح میں پدرانہ کوشش کی‘‘

    (حیات جمالی، ص؍۷۳)

    ۱۳۱۹ھ میں جامع مسجد آگرہ میں آپ کی دستاربندی عمل میں آئی، اس موقع پر شہر کے عمائدین کثرت سے موجود تھے اور محفل کی صدارت حضرت شاہ محمد اکبر ابوالعلائی داناپوری فرما رہے تھے، اسی موقع پر آپ نے فارسی میں قطعۂ تاریخ کہا کہ

    چوں آں عبدالمجید نیک انجام

    لیت بربست از قیل و ہم از قال

    فراغت کرد او از علم ظاہر

    بحمداللہ کنوں شد صاحبِ حال

    بفرقتش ہست دستار فضیلت

    مبارک باشد ایں شاہانہ اقبال

    چہ می جستم سنہ دستار بندیش

    ’’جلیل القدر فاضل ‘‘یافتم سال

    ۱۳۱۹ھ

    (جذبات اکبر، ص۱۰۴)

    اس مبارک موقع سے قبل ہی آپ کے استاد محترم مولانا سعادت اللہ قادری نے آپ کو سلسلۂ نقشبندیہ ابوالعلائیہ میں حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری سے بیعت کرایا، بعد از فراغت حضرت شاہ اکبر نے آپ کو اجازت و خلافت سے مشرف فرما کر طریقت کی دولت سے سرفراز فرمایا، اسی دوران مولانا سعادت اللہ قادری نے اپنی بڑی صاحبزادی کا نکاح بھی آپ سے کر دیا، اس طرح دوسرے افغانی طلبہ کے مقابلے میں آپ کا دورِ طالب علمی نہایت سنہرا رہا، یہ آگرے کا سب سے زریں دور تھا، اس زمانے میں روزانہ نئی بستی میں محفل جمتی، جہاں حضرت شاہ اکبر داناپوری کی صحبت کے علاوہ منشی انعام اللہ خاں، ڈاکٹر وزیرالدین خاں، منشی عبدالغفار خاں، خواجہ صدیق حسین وغیرہ جیسے اہلِ ذوق موجود رہتے۔

    مولانا کے دونوں داماد، مولانا عبدالمجید افغانی اور پروفیسر محسن فاروقی، ابتدا ہی سے کالج اور یونیورسٹیوں میں صدرِ شعبہ رہے، انہوں نے کئی کتابیں لکھیں، انعامات حاصل کیے، سیکڑوں طلبہ تیار کیے، اور آگرے کا نام پشاور و کراچی میں روشن کیا، محسن فاروقی کے صاحبزادے پروفیسر طاہر فاروقی نے درجنوں علمی رسائل اور اقبال کی سوانح عمری لکھ کر علمی دنیا میں اپنی شناخت قائم کی۔

    حضرت شاہ اکبر داناپوری کے خطوط، مولانا عبدالمجید کی تدریسی خدمات، پشاور و آگرہ کے کالجوں میں آپ کی علمی و ادبی کاوشیں، پشتو اور اردو میں نصابی کتب کی تیاری، رحمان بابا اور خوشحال خان خٹک کے دواوین پر مقدمے، اور تین جلدوں پر مشتمل ’’مشاہیر افاغنہ‘‘ جیسے کارنامے آپ کی علمی عظمت کے مظہر ہیں۔

    آپ کی تحریروں میں اپنی قوم کے مسائل، جہالت، اور اصلاح کی تڑپ نمایاں ہے، آپ نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ کسی بھی قوم کی ترقی مادری زبان میں تعلیم کے بغیر ممکن نہیں، آپ ایک بلند پایہ استاد، مؤرخ، نقاد، ادیب اور شاعر تھے، ’’سعدی‘‘ تخلص کرتے اور اردو، فارسی و پشتو میں غزلیں اور نظمیں لکھیں۔

    آپ کی شخصیت سادہ، خوش اخلاق، مخلص اور بلند حوصلہ تھی، اپنی قوم کی فلاح اور سربلندی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے، بیسویں صدی کے نمایاں علمی رہنماؤں میں آپ کا نام ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔

    آخرکار ۲۰ دسمبر ۱۹۴۷ء صفر المظفر ۱۳۶۷ھ) کو پشاور میں آپ کا وصال ہوا اور وہیں نوتھیہ قبرستان میں مدفون ہوئے، اس موقع پر پروفیسر حامد حسن قادری نے قطعۂ تاریخ رحلت کہا، جو آپ کے علمی و روحانی مقام کا خوبصورت اظہار ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے