حضرت شاہ اکبر داناپوری اور اکبر الہ آبادی
حضرت شاہ اکبر داناپوری اور اکبر الہ آبادی دونوں ایک ہی استاد کے منتخب یادگار ہیں، دونوں کی طبیعتیں گداز، بندش نفیس، زبان دلچسپ اور فنِ شاعری میں انتہا درجے کی معلومات رکھتے تھے، حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کی ایک غزل کے مقطع سے بھی ان دو حضرات کے تعلق و وابستگی کا پتہ چلتا ہے، حضرت شاہ اکبرؔ فرماتے ہیں کہ
فطرتاً تھے ایک ہم دونوں مگر حکمِ خدا
وہ تو رشکِ گل ہوئے، میں اکبرؔ شیدا ہوا
دوسری جگہ ایک رباعی میں حضرت شاہ اکبرؔ فرماتے ہیں:
شاگردِ وحیدؔ کے ہیں دونوں اکبرؔ
ہم مشق بھی ہم دونوں رہے ہیں اکثر
لیکن قدرت کا صاد ان پر ہی ہوا
پتھر پتھر ہے اور جوہر جوہر
(جذباتِ اکبرؔ، ص، مطبوعہ ۱۹۱۶ء، آگرہ)
حضرت مولانا وحید الدین احمد وحیدؔ الہ آبادی کی خدمت بابرکت میں ان دونوں بزرگوں نے زانوئے ادب تہ کیا اور ان دونوں بزرگوں کو اُن سے اتحاد پیدا ہوگیا۔ انہوں نے ان دونوں کی شاگردی قبول کرلی۔ وحیدؔ الہ آبادی، خواجہ حیدر علی آتشؔ لکھنوی کے مشہور یادگار تھے۔ وہ مزاج عاشقانہ رکھتے تھے اور فنِ شاعری میں بہت عمدہ معلومات رکھتے تھے اور مسلم الثبوت استاد تھے۔
اکبرؔ الہ آبادی کو حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری سے روحی ارتباط تھا اور طریقت کا تعلق بھی تھا۔ اس لیے دونوں میں ازدیادِ محبت کا سبب قرار پایا۔ اکبرؔ الہ آبادی کی ذات میں سیادت اور حکومت دونوں اضافتیں بھی تھیں۔ اُس پر فنِ شاعری اور خیالات کی پاکیزگی نے اور چار چاند لگا دیے تھے۔
حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری فرماتے ہیں:
شاعر ہے داغؔ اور ہے استادِ فن امیرؔ
اکبرؔ وحیدؔ قبلہ اہلِ کمال ہے
کوئی شاگرد ہو استاد کا ہے آئینہ اکبرؔ
سلاست تیرے شعروں میں وحیدؔ خوشنوا کی ہے
دوسری طرف اکبرؔ الہ آبادی کے اس شعر سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے:
استادی وحیدؔ میں جس کو کہ شک ہو کچھ
طیار اُس سے بحث کو اکبرؔ ہے آج کل
اکبرؔ الہ آبادی کے تعلقات کی وضاحت سے قبل ہم اکبرؔ کے آبادواجداد پر روشنی ڈالیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ اکبرؔ کا خاندان اثنائے عشری تھا اور یہ لوگ بہار کے کسی خطہ کے رہنے والے تھے۔ بعد میں فکرِ معاش کے لیے الہ آباد وارد ہوئے۔ جیسا کہ ’’کیفیت العارفین‘‘ میں درج ہے:
’’ذکر دوم، شفیق دلی سید حسین علی صاحب زاد محبتہٗ و ذرق و شوقہٗ ابن سید فضل الدین احمد متوطن قصبہ داؤد نگر ضلع گیا از عرصہ چند سال بہ سبب روزگار در شہر الہ آباد سکونت دارند، الخ‘‘
(ص۲۸۰)
اسی طرح حضرت شاہ سلیمان چشتی پھلواروی کے صاحبزادے مولانا شاہ غلام حسنین چشتی رقمطراز ہیں کہ
’’حضرت اکبرؔ کو الہ آباد میں صرف دوسری پشت گذری تھی، اُن کے اجداد و نواح داؤد نگر ضلع گیا، صوبۂ بہار کے رہنے والے تھے‘‘(حیاتِ اکبرؔ، ص۲۲۹)
دوسری تحریر سید محمد عباس ابن سید اکبر حسن الہ آبادی کی ہے، جو اکبرؔ الہ آبادی کے برادرزادے ہیں۔ انہوں نے ملا واحدی کو ایک خط میں لکھا:
’’ہمارے اجداد میں سید علی عرب مع اپنے فرزند سید زید اور بھائی سید اسماعیل، مقام نیشاپور ملک خراسان سے ۶۳۲ ہجری میں ہندوستان تشریف لائے اور داؤد نگر صوبۂ بہار میں سکونت اختیار کی۔ آپ کی اولاد کی قرابت سادات بلگرام، یوپی سے ہوئی۔ میرے پردادا یعنی حضرت اکبرؔ کے دادا مولوی سید فضل محمد صاحب بڑے عالم تھے۔ بزمانۂ نواب آصف الدولہ لکھنؤ تشریف لائے، کچھ مدت بعد آپ نے سرکاری ملازمت بعہدۂ نظامت کانپور میں کرلی، بعدہٗ اُن کا خاندان یو پی کے شہر الہ آباد میں آباد ہوگیا۔‘‘
(حیاتِ اکبرؔ، ص۲۳۲)
سید حسنؔ امام (کراچی) بھی اسی سلسلے میں لکھتے ہیں:
’’اس بات کی تصدیق کہ میر اکبر حسین صاحب، اکبرؔ الہ آبادی کے آباؤاجداد قصبہ داؤد نگر، ضلع گیا، صوبۂ بہار کے رہنے والے تھے، شاید مجھ سے بہتر کوئی نہیں کہہ سکتا۔ یہ قصبہ خاص میری ملکیت اور زمینداری میں شامل تھا اور سروے سے قبل کی دیہی جمع بندی اور لگان کے کاغذات میں جاگیر داروں میں میر صاحب کا نام درج تھا۔‘‘
(حیاتِ اکبرؔ، ص۴۸)
ولیؔ کاکوی اکبرؔ الہ آبادی کے متعلق رقمطراز ہیں:
’’شاہ مبارکؔ مرحوم عظیم آبادی فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ اکبرؔ الہ آبادی حضرت وحیدؔ کے ساتھ پٹنہ آئے اور مشاعرہ میں یہ غزل پڑھی، جس کا مطلع ہے:
سمجھے وہی اس کو جو دیوانہ کسی کا
اکبرؔ یہ غزل میری ہے، افسانہ کسی کا‘‘
شاید یہ کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اکبرؔ الہ آبادی کے اسلاف صوبۂ بہار سے وابستہ تھے۔ سید محمد زمان رضوی کے مطابق اکبرؔ کے پردادا فوج بنگالہ میں صوبہ دار تھے اور لارڈ کلاؤ کے ساتھ جنگِ پلاسی میں شریک ہوئے۔ اس جنگ کی فتح کے صلے میں انہیں داؤد نگر کے قریب ایک جاگیر ملی۔ زمان رضوی کے بڑے لڑکے سید فضل محمد کے تین لڑکے تھے: سید وارث علی، سید واصل علی اور سید تفضل حسین۔
سید تفضل حسین کے دو صاحبزادے تھے: سید اکبر حسین اکبرؔ الہ آبادی اور سید اکبرؔ حسن۔ مولانا سید تفضل حسین دونوں کو حضرت مولانا سید شاہ محمد قاسم داناپوری سے بیعت حاصل تھی، جن کا انتقال ۱۷ شوال ۱۲۸۱ھ کو ہوا۔ ان کا مزار منیر شریف کی درگاہ کے احاطہ میں ہے۔ اکبرؔ داناپوری، اکبرؔ الہ آبادی کے حقیقی برادرزادہ اور مرید و خلیفہ تھے۔ اکبرؔ الہ آبادی کے عاشقانہ، صوفیانہ، فلسفیانہ اور خاص کر مزاحیہ، طنزیہ و اصلاحیہ اشعار مشہور تھے۔
(ماہنامہ نگار، کراچی، مارچ ۱۹۵۴ء، ص۱۷)
اکبرؔ کے جد امجد کا نام سید فضل محمد ابن میر محمد زمان تھا۔ ان کے دو بھائی تھے: پہلے سید فضل محمد صاحب اور دوسرے سید فضل الدین احمد صاحب۔ سید فضل محمد کے تین صاحبزادے تھے: سید وارث علی، سید واصل علی اور سید تفضل حسین ابوالعلائی۔
مولانا سید تفضل حسین سلسلۂ نقشبندیہ ابوالعلائیہ میں حضرت مولانا سید شاہ محمد قاسم ابوالعلائی داناپوری رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت حاصل کرچکے تھے اور کچھ ہی روز بعد اجازت و خلافت بھی دی گئی۔ اکبرؔ الہ آبادی کے والد سید تفضل حسین ابوالعلائی عربی و فارسی میں فارغ التحصیل تھے، علمِ حساب و دانی میں کامل تھے اور اس زمانے کے مشکل ترین ریاضی کے مسائل بھی حل کرتے تھے۔ ابتدا میں وہ کچھ عرصہ نائب تحصیلدار کے عہدے پر بھی رہے، بعد میں ملازمت ترک کرکے باقی عمر عبادت و ریاضت میں گزار دی۔
سید تفضل حسین نے سخت ریاضت، سائم الدہر اور قائم اللیل رہنے کی مشق کے ذریعے سیر الی اللہ کا مرتبہ حاصل کیا۔ انہیں حضرت سیدنا امیر ابوالعلاء سے روحانی فیضان حاصل تھا اور وہ ہر سال ان کے عرس میں حاضری دیتے تھے۔
(ذکر المعارف، ص۲۷۴)
اکبرؔ الہ آبادی نے ۱۸۶۷ء میں امتحانِ وکالت دیا، اور اس دوران بھی وہ حضرت سیدنا امیر ابوالعلاء کے مزار پر معتکف تھے۔ امتحان کے بعد انہوں نے اپنے والد کو مطلع کیا کہ الحمد اللہ کامیاب ہوئے، اور دو مہینے بعد نتیجہ ظاہر ہوا، جو کامیاب رہا۔
(ذکر المعارف، ص۲۷۸)
حضرت شاہ عطا حسین فانیؔ رقمطراز ہیں:
’’ذکردویم، شفیق دلی سید حسین علی صاحب زاد محبتہٗ و ذرق و شوقہٗ ابن سید فضل الدین احمد، متوطن قصبہ داؤد نگر، ضلع گیا (موجودہ ضلع اورنگ آباد) از عرصہ چند سال بہ سبب روزگار در شہر الہ آباد سکونت دارند۔ دراں شہر از حضرت سید الطریقت سید شاہ محمد قاسم ابوالعلائی داناپوری از توجہ و تعلیم مراقبہ فیض باطینہ معمورالکیفیت و صاحب نسبت اندواستعداد باطینہ متکاثردارند۔‘‘
’’ذکر سویم، سید تفضل حسین زاد اللہ ذوق و شوقہٗ برادرزادہ میر فضل الدین احمد متوطن داؤد نگر، ضلع گیا (موجودہ ضلع اورنگ آباد) ایشاں نیز مرید و مسترشد حضرت سید الطریقت سید شاہ محمد قاسم ابوالعلائی داناپوری ہستند۔‘‘
(کیفیت العارفین، ص۲۸۰)
حضرت سید تفضل حسین ابوالعلائی، اکبرؔ کے والد، مقتدر ہستیوں میں شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ داناپور سے انتہائی عقیدت و تعلق کے سبب اپنے بڑے صاحبزادے مولوی سید اکبر حسین اکبرؔ الہ آبادی اور دیگر بچوں کو حضرت مولانا شاہ محمد قاسم ابوالعلائی سے سلسلۂ نقشبندیہ ابوالعلائیہ میں بیعت کرایا۔ وہ خود عمر کے آخر میں گوشہ نشینی اختیار کر گئے اور ۹ شعبان ۱۳۰۳ھ، موافق ۱۴ مئی ۱۸۸۸ء بوقت گیارہ بجے دن وفات پا گئے۔
(ذکر المعارف، ص۲۷۸)
اکبرؔ الہ آبادی ایک دیندار، زہد و پارسائی کے پابند اور وضع قطع میں مضبوط انسان تھے۔ ۱۹۰۳ء کے بعد سے انہوں نے عشرت منزل (الہ آباد) میں گوشہ نشینی اختیار کر کے بعبادتِ الٰہی زندگی بسر کی۔ آپ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے اور روزانہ ایک منزل قرآن پاک کی تلاوت خشوع و خضوع کے ساتھ بالاستقلال کیا کرتے تھے۔
اکبرؔ الہ آبادی نے حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کے پیر و مرشد اور عم حقیقی، حضرت مولانا شاہ محمد قاسم ابوالعُلائی داناپوری سے بیعت حاصل کی، جس کا اثر ان کی زندگی بھر میں نمایاں رہا۔ باوجود اس کے کہ وہ طویل عرصے تک سرسید احمد خان کے اجلاس میں شریک رہتے، مگر کبھی اعتقادات میں کوئی فرق نہ آیا۔ اکبرؔ الہ آبادی اکثر اپنے پیر و مرشد کی زیارت کے لیے خانقاہ سجادیہ ابوالعُلائیہ، داناپور آتے، اور ماہ رمضان المبارک ۱۲۸۱ھ میں بھی کئی روز خانقاہ میں مہمان رہے۔
داناپور کے علاوہ گیا، شہسرام اور پٹنہ سیٹی میں ان کے احباب رہتے تھے، جن سے وہ ملاقات کے لیے جاتے تھے۔ حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کے عقد کے موقع پر اکبرؔ الہ آبادی اور ان کے اعمام بھی خانقاہ حاضر ہوئے تھے۔ اس موقع پر برات کی واپسی پر ان کے پیر و مرشد حضرت شاہ قاسم واصل باللہ ہوئے۔ حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری نے اپنے عم اقدس کے وصال کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا:
’’جس روز آپ اس عالم کا تعلق ترک فرمائیں گے، پنجشنبہ تھا اور جتنے بھائی تھے سب کو حاضری کا حکم ہوا، سب دست بستہ حاضر تھے۔ اُسی روز اس فقیر کی شادی تھی اور یہ تاریخ حضور ہی کے حکم سے قرار پائی تھی۔ میری بارات واپس ہوکر داناپور پہنچ چکی، سب مہمان حاضر تھے۔‘‘
(احکام نماز، ص۵۸، مطبوعہ ۱۹۰۰ء، آگرہ)
اکبرؔ الہ آبادی کا ایک زمانہ لااُبالی پن کا بھی گذرا، جس کی جھلک ان کی ابتدائی شاعری میں دیکھی جا سکتی ہے، لیکن مجموعی طور پر ان کے کردار و عمل میں زہد، پارسائی اور طہارت کے اعلیٰ صفات نمایاں ہیں۔ مولانا شاہ غلام حسنین چشتی رقمطراز ہیں:
’’جب میں حضرت اکبرؔ سے ملنے گیا تو بذلہ سنج، شوخ مزاج اور ہنسنے والے شاعر سے ملنے کا تصور لے کر گیا تھا، لیکن واپس آیا تو یہ محسوس کیا کہ میں کسی اہل دل مرشد کی صحبت میں بیٹھ کر واپس ہوا ہوں۔‘‘
(حیات اکبرؔ، ص۲۲۸)
وہ نہ صرف صوفیوں کے دلدادہ تھے بلکہ صوفیانہ خاندان سے وابستہ بھی تھے۔ اکبرؔ الہ آبادی فرماتے ہیں:
’’صوفی کا مذہب مختصر، سب سے کھرا سب سے جدا
ہم تم کے جھگڑے لغو ہیں، یا کچھ نہیں یا سب خدا‘‘
دنياوی عزوجاہ کے ساتھ روحانی ترقی کا خیال بھی ان کے نزدیک لازم تھا۔ بقول اکبرؔ الہ آبادی:
’’نہ نماز ہے نہ روزہ نہ زکوٰۃ ہے نہ حج ہے
تو خوشی پھر اس کی کیا ہے، کوئی جج ہے، کوئی جنٹ ہے‘‘
انہوں نے حضرت سیدنا امیر ابوالعُلا سے گہری عقیدت رکھی۔ خواجہ حسن نظامی رقمطراز ہیں کہ اکبرؔ الہ آبادی نے اپنے والد کے ساتھ حضرت سید ابوالعُلا اکبر آبادی کے عرس میں شرکت کے لیے چھٹی کی درخواست دی، جس پر انگریز افسر نے اعتراض کیا، مگر اکبرؔ نے وضاحت کی کہ عرس اولیا اللہ کے وصال کے دن کو کہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چھٹی منظور ہوگئی۔
(حیات اکبرؔ، ص۵۸)
خانقاہ سجادیہ ابوالعُلائیہ، داناپور کے سجادہ نشین حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری نے بھی اکبرؔ الہ آبادی کی دیانت، تصوف اور صوفیانہ وابستگی کی تصدیق کی۔ اکبرؔ الہ آبادی کے صاحبزادے سید عشرت حسین خان بہادر اپنے والد کے بے حد عزیز تھے اور اکبرؔ انہیں بہت عزیز رکھتے تھے۔
اکبرؔ الہ آبادی کے چھوٹے بھائی سید اکبر حسن بھی علمی و ادبی لحاظ سے قابل تھے، عربی و فارسی اور ریاضی میں مہارت رکھتے تھے، اور سلسلۂ نقشبندیہ ابوالعُلائیہ میں شرف بیعت حاصل کیا۔ وہ صوم و صلوٰۃ کے پابند، درویش صفت اور خلوص و محبت والے انسان تھے۔
اکبرؔ الہ آبادی نے ابتدا میں پیشکار ہائی کورٹ کی ملازمت اختیار کی اور بعد ازاں محکمۂ رجسٹری کی انسپکٹری کے اعلیٰ عہدے تک ترقی حاصل کی۔ آپ اپنے والد بزرگوار کا سالانہ عرس بڑے دھوم دھام سے بمقام ’’کالا ڈانڈا‘‘ مناتے تھے۔ آپ کچھ عرصہ کینسر کے مرض میں مبتلا رہے اور عالم شباب میں ۱۳؍ اپریل ۱۹۰۱ء کو وفات پا گئے۔
(ذکر المعارف، ص۲۸۶)
حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری نے اکبرؔ الہ آبادی کی وفات پر فرمایا:
’’برادرعزیز سید اکبر حسین سلمہٗ، برادرعزیز میر اکبر حسین صاحب صدرالصدور کے چھوٹے بھائی ہیں، انگریزی میں بہت کامل استعداد ہے، لیکن خیالات ویسے ہی ہیں جیسے ہم پرانے لوگوں کے، نہایت رقیق طبیعت، کمال ذہن، انکسار اور تواضع۔ عمر بہت کم ہے مگر آداب نشست و برخاست کا طریقہ بزرگان دیرینہ سال کا، مہمان نوازی میں یگانہ۔‘‘
(نذرِ محبوب، ص۶۰)
اکبرؔ الہ آبادی اور شاہ اکبرؔ داناپوری کے درمیان بے حد اُنس اور محبت تھی، جس کا اظہار شاہ اکبرؔ داناپوری کی پہلی دیوان ’’تجلیات عشق‘‘ کے ایک مقطع میں بھی ملتا ہے:
فطرتاً تھے ایک ہم دونوں مگر حکم خدا
وہ تو رشک گُل ہوئے، میں اکبرؔ شیدا ہوا
حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کی شاعری واقعی تصوف اور عشقِ الٰہی کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ آپ کے دو دیوان، ’’تجلیات عشق‘‘ اور ’’جذبات اکبرؔ‘‘، نہ صرف فنی حسن سے بھرپور ہیں بلکہ روحانی و صوفیانہ تجربات کا آئینہ بھی ہیں۔ حضرت شاہ ظفر سجاد ابوالعُلائی نے اس کی خوبصورتی یوں بیان کی:
’’واقعی اس کو اگر قانون تصوف کہیے تو بجا ہے اور منازل سلوک کا اُس کو پتہ سمجھئے تو زیبا ہے، یہ دونوں دیوان آپ کی قابلیت تامہ کا آئینہ ہیں۔‘‘
آپ کی شاعری میں تناسب الفاظ، بندشِ محاورات، اور عروضی درستگی بے مثال ہیں۔ ہر لفظ اپنی جگہ پر جچتا ہے اور کسی قسم کا حشو یا زائدگی محسوس نہیں ہوتی۔ اس کی غزلوں میں نہ صرف محبت و عشق کی شدت نظر آتی ہے بلکہ صوفیانہ جذبات اور قلبی سچائی بھی کھل کر سامنے آتی ہے۔
چند نمونہ اشعار درج ذیل ہیں:
پوچھتے ہیں مجھ سے وہ اکبرؔ تمہیں کیا ہوا
کوئی کہہ دے ہے یہ بسمل آپ کا مارا ہوا
آج میری حسرتوں نے بھی کیا مجھ کو سلام
کیسے کیسے دوستوں سے مرکے میں تنہاہوا
حضرت موسیٰ ہیں بے خود طور جل کر خاک ہے
بے نیازی کرکے کرشمے ہیں یہ دیکھو کیا ہوا
قتل کر گئے مجھ سے فرمایا یہ ہے انجام عشق
کہہ دیا میں نے بھی وہاں جو کچھ ہوا اچھا ہوا
بزم ہستی میں ابھی آکے تو ہم بیٹھے تھے
یوں اجل آئی کہ زانو بھی بدلنے نہ دیا
اُنہی کی پھر گئی آنکھیں مٹے ہیں ہم جن پر
خرابیِ دل خانہ خراب دیکھے کون
اب تو قفس ہی خوب ہی جاتے ہیں اس چمن سے
ہم جو خزاں اُٹھائے، کون لطفِ بہار دیکھ کر
ہم تری راہ میں مٹ جائیں گ، سوچا ہے یہی
درد مندوںِ محبت کا طریقہ ہے یہی
اکبرؔ کا پتہ کچھ نہیں ملتا، وہ کہاں ہے
عاشق ہوا جس روز سے بے نام و نشان ہے
لے میاں سے تیغ اے مرے قاتل، تو کہاں ہے
اُٹھتا نہیں اب دوش یہ سربار گراں ہے
کیا جانے کدھر ہم ہیں، وہ دلدار کہاں ہے
وہ اکبرؔ خستہ جگر افگار کہاں ہے
تجھ سا نظر پڑا نہ کہیں ایک بھی حسیں
ہر چند ہم نے سیر کی دونوں جہاں کی
دل نڈر ہے جو آئے اِدھر ناوِک نگاہ
خاطر ہمیں عزیز ہے اس مہماں کی
یہ اشعار نہ صرف عشقِ حقیقی، روحانی مجاہدہ، اور تصوف کی کیفیت کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ انسانی قلب و جان کی تنہائی، محبت کی شدت، اور دلی جذبات کی گہرائی کو بھی بیان کرتے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.