Font by Mehr Nastaliq Web

آل انڈیا تبلیغ سیرت (بہار) کا تاریخی پسِ منظر

ریان ابوالعلائی

آل انڈیا تبلیغ سیرت (بہار) کا تاریخی پسِ منظر

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    صوبۂ بہار کی مٹی واقعی علمی و روحانی شخصیات کا مرکز رہی ہے، جہاں سے متعدد اہل علم و دانش نمودار ہوئے جنہوں نے اپنی خدمات کے ذریعے عوام کو دینِ اسلام اور اس کے اخلاقی و معاشرتی اصولوں کی طرف رہنمائی فراہم کی۔ ان بزرگان کا دائرۂ اثر صرف علمی و ادبی نہیں بلکہ معاشرتی، اقتصادی اور روحانی پہلوؤں تک پھیلا ہوا تھا۔ وہ دنیاوی عیش و عشرت، نام و نمود، اور عروج و اعتلا سے دور رہ کر صرف قوم کی بھلائی اور نئی نسل کو اپنے ماضی اور عظمت سے روشناس کرانے میں سرگرم تھے۔

    اسی سلسلے میں ایک تحریک نے کم وقت میں ہندوستان کے تمام خطوں میں اثر پیدا کیا، جس کا مقصد مسلمانوں کے حالات زوال کو درست کرنا اور انہیں اپنے دورِ صحابہ کی طرح متحرک بنانا تھا۔ حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری اس تحریک کی اہمیت کو یوں بیان فرماتے ہیں:

    پھریں گے کیسے دن ہندوستاں کے

    بلا کے ظلم ہیں اس آسمان کے

    اگر ہندو مسلماں میل کرلیں

    ابھی گھر اپنے یہ دولت سے بھرلیں

    الٰہی ایک دل ہوجائیں یہ دونوں

    وزارت انڈیا کی پائیں دونوں

    جدید دور کے تقاضوں اور تبدیلیوں نے مسلم معاشرے کو کئی مشکلات میں مبتلا کر دیا تھا۔ لوگ اپنے اسلاف کی عظمت، اسلامی تعلیمات اور اپنے تاریخی حقوق سے ناآشنا ہو رہے تھے۔ ایسے حساس اور نازک حالات میں آل انڈیا تبلیغ سیرت کمیٹی نے تقریباً ۱۹۴۹ء میں الہ آباد میں ایک مضبوط تنظیم قائم کی، جس کے صدر اور نائب صدر کے ساتھ متعدد علما و مشائخ، حکما، نقبا، شعرا و ادبا وابستہ ہوئے۔ ان میں خاص طور پر دس افراد ریڑھ کی ہڈی کہلاتے تھے، جیسے:

    حضرت مولانا سید شاہ ظفر سجاد ابوالعلیہ (سجادہ نشین خانقاہ سجادیہ ابوالعلیہ، داناپور)

    حضرت مولانا عبدالحفیظ اشرفی (مفتی اعظم آگرہ)

    حضرت مولانا سید مظفر حسین اشرفی (کچھوچھہ مقدسہ)

    حضرت مولانا سلیم اللہ قادری (مدیر اعلیٰ رسالہ صوفی، بنارس)

    حضرت مولانا سید عبد المسجود قادری (جبل پور)

    حضرت مولانا مشتاق احمد نظامی (مدیر اعلیٰ ماہنامہ پاسبان، ممبئی)

    حضرت مولانا حکیم محمد یونس نظامی (الہ آباد)

    حضرت مولانا سید احسان علی (باندہ)

    حضرت مولانا محمد نظام الدین (الہ آباد)

    حضرت مولانا علی احمد (جامعہ اشرفیہ، مبارک پور)

    آل انڈیا تبلیغ سیرت نے نو اہداف مقرر کیے، جن میں اہم درج ذیل ہیں:

    مسلمانوں کی اصلاح عقائد و اعمال، تنظیم و اتحاد۔

    ملک کے ہر حصے میں تبلیغ و اشاعت دین۔

    بے دینی و لامذہبیت کو روکنا اور مسلمانوں کو شرعی حدود میں لانا۔

    مسلمانوں کے دینی و دنیاوی حقوق کا تحفظ۔

    مساجد، مقابر، اور خانقاہوں کا تحفظ اور صحیح مصرف پر استعمال۔

    مسلمانوں کی اقتصادی بدحالی اور بے روزگاری دور کرنا، احساس کمتری ختم کر کے خودداری پیدا کرنا، اور قانونی طور پر حقوق کا حصول و تحفظ۔

    (دستور اساسی وقواعدو ضوابط،ص۳)

    اس تحریکی و تنظیمی کام نے مسلمانوں میں شعور و اتحاد پیدا کرنے کے ساتھ ان کے معاشرتی، اقتصادی اور دینی حالات کو بہتر کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

    یہ ہیں اغراض و مقاصد اور جذبات و احساسات کی فہرست جس کی روشنی میں تبلیغ سیرت نے جیسے ہی اپنے فرائض نبھانا شروع کیا تو لوگ اس کمیٹی سے وابستہ ہوتے چلے گئے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مساجد آباد ہوئیں، مدرسہ و مکتب قائم ہوئے، شکسته دیواروں کی تعمیر جدید ہوئی، یتیم خانے کھلے، کنویں کھدے گئے اور ماضی سے آشنائی ہوئی۔ یہاں تک کہ سورج نمودار ہونے لگا، بہاریں آنے لگیں، فضا سازگار ہونے لگی اور اسلام کی شمع بلند ہوئی۔

    الہ آباد، داناپور، پٹنہ، کلکتہ، ممبئی، گجرات، اڑیسہ، ہزاری باغ، بنارس اور کان پور وغیرہ میں اس کے اثرات خوب مرتب ہوئے، مگر الہ آباد اور کلکتہ کے بعد سب سے زیادہ شہرت اور اثر پٹنہ میں ہوا۔ تبلیغ سیرت کی جانب سے ایک سے ایک شاندار جلسہ منعقد ہوا، عظیم سے عظیم اجلاس ہوئے۔ علما کا قافلہ بھرپور نظر آتا تھا اور لوگ دن بدن بڑھتے ہی چلے گئے۔ ان میں پٹنہ کا سہ روزہ جلسہ سب سے شاندار اور کامیاب رہا۔

    ۹،۱۰،۱۱ اپریل ۱۹۵۴ء کو انجمن اسلامیہ ہال، پٹنہ (بہار) میں منعقدہ سہ روزہ عظیم الشان جلسہ کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس جلسہ سے کئی یادیں وابستہ ہیں۔ بوڑھے اور پرانے لوگوں کا کہنا تھا کہ سیرت پر اتنا شاندار جلسہ پٹنہ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ بڑے بڑے علما اور دانشوران نے اسے تاریخی جلسہ قرار دیا تھا۔

    جناب ڈاکٹر شوکت علی صدیقی صاحب (ہزاری باغ، جھارکھنڈ) رقمطراز ہیں کہ:

    ’’چنانچہ جب ۱۹۵۲ء میں فتنۂ ارتداد کی مہم از سرِ نو شروع ہوئی تو ہندوستان کے تمام صوبوں میں بالخصوص صوبۂ بہار، گوپال گنج ضلع سارن میں مسلمانوں کی شدھی کر لی گئی۔ اخبار ’صدائے عام پٹنہ‘، ’ساتھی پٹنہ‘ اور ’انسان پورنیہ‘ کے اس زمانے کے شمارے اس بات کے گواہ ہیں کہ مولانا سید ظفر سجاد صاحب نائب صدر آل انڈیا تبلیغ سیرت، صوبۂ بہار شاخ کی زیر نگرانی، اسلامی مبلغین و واعظین کے وفود نے بہار کے مختلف اضلاع و قصبات اور دیہات میں تبلیغی گشت کیا۔

    آل انڈیا تبلیغ سیرت کے وفود نے اسلامی احکامات اور سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان علاقوں میں زور و شور سے عام کیا جہاں شدھی کی تحریک زوروں پر تھی۔ اور حضور مجاہد ملت صدرآل انڈیا تبلیغ سیرت اس وقت صوبۂ بہار، گجرات، ضلع احمد آباد، کھٹال گاؤں تشریف لے گئے، جبکہ حکومت کی طرف سے وہاں جانا ممنوع تھا اور دوسری طرف جان و مال کا خطرہ تھا۔ شہر سے کافی دور، جہاں آسانی سے سواری نہ جا سکے، آپ دیہات کی بگنڈیوں پر چلتے چلتے اس گاؤں پہنچے۔ بہر کیف مجاہد ملت کی پیہم سعی نے آل انڈیا تبلیغ سیرت کو عظمت و وقار کا وہ مینارۂ نور بنا دیا جس کی روشنی سے بنگال، اڑیسہ، بہار، یوپی، مہاراشٹر اور ملک کے دوسرے صوبوں کے مسلمان بیدار ہوئے۔

    جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ۲۶،۲۷،۲۸ مارچ ۱۹۵۴ء کو کلکتہ میں آل انڈیا تبلیغ سیرت کے عظیم الشان اجلاس منعقد ہوئے، جس کی صدارت شیخ المشائخ، مفتی اعظم، مولانا الحاج عبدالقدیر بدایونی نے فرمائی۔ لیکن یادگار کانفرنس ۹،۱۰،۱۱ اپریل ۱۹۵۴ء کو انجمن اسلامیہ ہال، پٹنہ، بہار میں منعقد ہوئی۔ اس یادگار کانفرنس کے اشتہار اور مراسلے اور تجاویز کے اقتباسات ہفت روزہ ’اخبار آگرا‘ کے ذریعہ ملاحظہ فرمائیں۔

    اشتہار اور مراسلے کی نقل ہفت روزہ ’اخبار آگرا‘ (آگرہ) کے ذریعہ ملاحظہ کیجئے:

    ’’برادران اسلام! کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ سر فرازی دین جس کی قسمت تھی آج اسے سر چھپانے کو جگہ کیوں نہیں ملتی؟ کیا آپ کو احساس ہے کہ آج یہ مسلمان زبوں حال کیوں ہے؟ اس کی اخلاقی و مذہبی حالت کیوں پست ہے؟ یہ تعلیمی و اقتصادی بد حالی کا شکار کیوں ہے؟ یہ دربدر کی ٹھوکریں کیوں کھا رہا ہے؟ ان تمام مسائل پر غور و خوض کرنے کے لیے اشد ضرورت ہے کہ صوفیائے کرام، علمائے عظام اور تمام مسلمان عزم محکم اور ایثار کامل کے ساتھ ایک جگہ سر جوڑ کر بیٹھیں۔

    انہیں مقاصد کے پیش نظر آل انڈیا تبلیغ سیرت کا سالانہ اجلاس اس مرتبہ ۹،۱۰،۱۱ اپریل ۱۹۵۴ء کو انجمن ہال پٹنہ (بہار) میں ہورہا ہے، جس میں ملک کے مندرجہ ذیل مشاہیر، علماۓ عظام و صوفیائے کرام کو دعوت دی گئی ہے۔ اگر آپ اس ملک کے چار کروڑ مسلمانوں کو خوشحال، تعلیم یافتہ اور امن و امان کے گہوارے میں دیکھنا چاہتے ہیں تو اس میں شرکت کرکے اپنی مسلم دوستی اور دینی عقیدت کا ثبوت دیں۔

    آج بھی ہو جو براہیم سا ایمان پیدا

    آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا

    (ہفت روزہ اخبار آگرا، ۴ اپریل ۱۹۵۴ء)

    اشتہار میں اٹھائیس (۲۸) مشاہیر علمائے کرام کے نام درج تھے۔ وہ نام یہ ہیں:

    مجاہد ملت مولانا حبیب الرحمن عباسی (اڑیسہ)، مولانا عبدالحفیظ اشرفی (مفتیٔ آگرہ)، حکیم سید شاہ عزیز احمد ابوالعلائی (سجادہ نشین: خانقاہ ابوالعلائیہ، الہ آباد)، مولانا رفاقت حسین اشرفی (مظفرپور)، مولانا حکیم محمد نظام الدین (الہ آباد)، مولانا سید مظفر حسین اشرفی (کچھوچھہ مقدسہ)، مولانا مشتاق احمد نظامی (الہ آباد)، مولانا حکیم محمد یونس نظامی (الہ آباد)، مولانا نعیم اللہ خان (الہ آباد)، مولانا سید عبدالمسجود قادری (جبل پور)، مولانا سلیم اللہ خان (بنارس)، مولانا حامد علی (رائے پور)، مولانا سید شاہ غلام حسنین (سجادہ نشین: خانقاہ سلیمانیہ، پھلواری شریف)، مولانا مفتی عبدالرشید خان (ناگپور)، مولانا عبدالعزیز اشرفی (اعظم گڑھ)، مولانا احتشام الدین (مانبھو)، مولانا سید شاہ عزالدین قادری (پھلواری شریف)، مولانا ارشد القادری (جمشیدپور)، مولانا سید غلام جیلانی (میرٹھ)، مولانا سید شاہ تقی حسن بلخی (سجادہ نشین: خانقاہ بلخیہ فردوسیہ فتوحہ)، مولانا محبوب اشرفی (کانپور)، مولانا عبدالرب (الہ آباد)، مولانا عبدالقیوم (علی گڑھ)، مولانا عبدالرب (دریابادی)، مولانا منظور حسن قادری (ہزاری باغ)، مولانا سید محمد اسحاق (داناپور)، مولانا سید شاہ اسرارالحق (شاہجہان پور)، مولانا عبدالحکیم (پورنیہ)، مولانا محمد ہاشم (پورنیہ) وغیرہ۔

    ان میں سے صرف چند حضرات کو چھوڑ کر سبھی نے شرکت فرمائی تھی۔

    اس جلسے کے صدر مجلس استقبالیہ بہار کے سابق مرکزی اسمبلی کے ممبر جناب بیرسٹر سید حیدر امام صاحب تھے، جو سرسید علی امام بیرسٹر کے صاحبزادے اور سید امداد امام اثر کے پوتے تھے۔ اللہ پاک نے آپ کو خوب نوازا تھا، کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ شہر کے معزز ہستیوں میں آپ کا شمار ہوتا اور دینی کاموں میں بڑے پیش پیش رہتے تھے۔

    جلسہ کے ناظم نشر و اشاعت خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، شاہ ٹولی، داناپور کے سجادہ نشین ظفرالمکرم حضرت مولانا سید شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ آپ مشہور بزرگ اور صوفی شاعر حضرت شاہ محمد اکبرؔ ابوالعلائی داناپوری کے پوتے اور حضرت شاہ محمد محسنؔ داناپوری کے فرزند ارجمند تھے۔ اللہ پاک نے آپ کو کمال ولایت عطا کیا تھا۔ آپ ایک بے ضرر صوفی تھے، خاکساری و انکساری کے نمونہ تھے۔ سیرت کے جلسہ کو کامیاب بنانے اور مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے تاج ہوٹل، مرادپور پٹنہ میں قیام فرماتے تھے۔

    مجلس استقبالیہ کے سیکریٹری جناب مولوی امیر علی خان وارثی صاحب شہر کے نامی گرامی ایڈوکیٹ اور اوگھٹ شاہ وارثی کے مرید تھے۔ اکزبیشن روڈ کے پاس آپ کا مسکن تھا۔

    الغرض، یہ تین ایسے جواہر عظیم آباد ہیں جنہوں نے ہندوستان کے تمام علمائے کرام و مشائخ عظام کو شہر عظیم آباد مدعو کیا اور پٹنہ کی عظمت میں چارچاند لگا دیئے۔ یہ جلسہ تین روزہ انجمن اسلامیہ ہال (پٹنہ) میں منعقد ہوا اور علما و مشائخ کا قیام کافی ہاوس، مراد پور میں رہا۔ جلسہ کی چمک و دمک بیان سے باہر تھی۔ کئی ماہ قبل سے تیاریاں شروع ہو چکی تھیں، اطراف و اکناف میں اشتہارات شائع کیے جا رہے تھے اور کمیٹی کے ممبران و کارکنان شہر اور گاؤں میں جا جا کر لوگوں کو دعوت دے رہے تھے۔ ہر ایک شخص خوش دلی کے ساتھ اس مبارک کام میں لگاہوا تھا۔

    بہت سارے مقامی حضرات ہفتوں سے انتظامات میں مصروف تھے۔ پٹنہ کے علما و مشائخ کے علاوہ خان بہادر سید حسن صاحب، سید محمد صاحب وکیل، مولوی انوار الحق صاحب، سید محمد حسن صاحب ایڈوکیٹ، ڈاکٹر محمد اسماعیل خان ابوالعلائی محسنی صاحب، مولوی ولی الحق صاحب، ڈاکٹر محمد ایوب صاحب ایڈوکیٹ، ڈاکٹر نثار احمد خان صاحب ایڈوکیٹ، ڈاکٹر ابو ظفر صاحب ایڈوکیٹ، سید جعفر امام صاحب، ڈاکٹر عبدالحئی صاحب وغیرہ سب تبلیغ سیرت سے وابستہ اور متحرک تھے۔ سب کا مقصد صرف یہ تھا کہ باشندگان شہر سیرت رسول کے آئینہ دار ثابت ہوں اور مسلمانوں کے حالات پھر جائیں۔

    خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کے موجودہ بزرگ ہستی حضرت شاہ خالد امام ابوالعلائی مدظلہ کا بیان ہے:

    ’’میرے والد ماجد پیر و مرشد حضرت شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی رحمۃ اللہ علیہ جلسہ کے انتظامات میں ایک ماہ تک مسلسل تاج ہوٹل، مرادپور میں مقیم تھے۔ وہاں ہر وقت علما و مشائخ اور بیرسٹروں کی خاصی تعداد موجود رہتی تھی، انتظام و انصرام کے لیے ہر وقت تبادلۂ خیال ہوتا رہتا۔‘‘

    مجاہد ملت حضرت مولانا حبیب الرحمن عباسی اس جلسے کے روح رواں تھے۔ وہ امیر و کبیر ہونے کے باوجود فقیرانہ زندگی گذارتے تھے اور اللہ کی راہ میں کثرت سے خرچ کیا کرتے تھے۔ یہ جلسہ، یہ رونقیں، یہ پُرنور بزم سب انہی کی کاوشوں کا نتیجہ تھا کہ ہر ایک شخص اس تحریک میں اللہ اور اس کے رسول کے لیے خدمت کر رہا تھا۔

    حکیم محمد زکریا صاحب (صدر و سیکریٹری: انجمن اسلامیہ ہال) نے جلسہ کے لیے ہال کا کوئی کرایہ نہیں طلب کیا، بیگم حبیبہ صغریٰ مالکہ کافی ہاوس نے بھی کوئی کرایہ طلب نہیں کیا۔ یہاں تک کہ مولانا انوار الحق صاحب (مادھو پور ضلع چمپارن) نے دردیا دلی سے غلہ واسطے مطبخ کے عنایت کیے۔ مولانا ولی الحق صاحب (شاہو بیگھہ) نے مہمانوں کے لیے آرام و آسائش مہیا کی۔ جلسہ میں تشریف لانے والے مشاہیر، علما و مشائخ، شعرا و نقبا، خطبا کسی نے بھی کوئی رقم طلب نہیں کی۔

    اب یہاں حضرت شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے اور بزرگ شخصیت حضرت شاہ خالد امام ابوالعلائی کی تحریر پیش کی جا رہی ہے، جو خود اس جلسے میں بنفس نفیس موجود تھے:

    ’’وہ زمانہ مجھے یاد ہے جب ستائیس برس قبل انجمن اسلامیہ ہال، پٹنہ، بہار میں مؤرخہ ۹،۱۰،۱۱ اپریل ۱۹۵۴ء کو حضور مجاہد ملت کے زیر صدارت آل انڈیا تبلیغ سیرت کا تاریخی اور روحانی اجلاس تھا۔ اس تاریخی اجلاس میں ملک کے گوشہ گوشہ سے علمائے کرام و مشائخ عظام کے قافلے نے شرکت فرمائی تھی۔ ہر مکتبۂ خیال کے لوگ جمع ہو گئے تھے، صحافی، ادیب، ناقد، شاعر اور قانون دان سبھی موجود تھے۔

    اس ناقابل فراموش تاریخی اور روحانی اجلاس میں بہت سی مایہ ناز ہستیاں آج بھی موجود ہیں۔ مجلس استقبالیہ کے صدر جناب سید حیدر امام صاحب بیرسٹر تھے اور حضرت ابیّ و مرشدی (شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی) نائب صدر۔ اجلاس کے انتظام و انصرام کے سلسلے میں آسانی کے لیے ابیّ و مرشدی نے ایک ماہ قبل ہی خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور سے مراد پور پٹنہ کے تاج ہوٹل کے ایک کمرہ میں قیام فرما لیا تھا۔ انتظامات کے سلسلے میں ضروری ہدایات کے لیے داناپور سے تاج ہوٹل اور وہاں سے انجمن اسلامیہ ہال بار بار جایا کرتا تھا۔

    ایک دن ابیّ و مرشدی نے فرمایا کہ حضرت مجاہد ملت اڑیسہ سے تشریف لانے والے ہیں۔ اس عظیم ہستی کے بارے میں میں نے پہلے بھی بہت کچھ سن رکھا تھا، اب زیارت کی تمنا اور بڑھ گئی۔ داناپور خانقاہ میں بیٹھا روزانہ اس ہستی کی راہ میں دیکھنے لگا جس کے علم و فضل اور اخلاق حسنہ کا ہمیشہ تذکرہ سنتا تھا؎:

    کیادیکھیں گے ہم جلوۂ محبوب سے کہ ہم سے

    دیکھی نہ گئی دیکھنے والوں کی نظر بھی

    ستائیس سال گذر گئے، کتنی مبارک ساعت تھی جب داناپور خانقاہ کے صدر دروازہ پر صبح کے وقت کسی نے اس طرح آواز دی ’’جناب شاہ صاحب تشریف رکھتے ہیں‘‘؟ اس پُر کشش آواز کو سن کر میں فوراً دروازہ تک پہنچا، میرے سلام کرنے سے پہلے ہی انہوں نے سلام کیا، میں پہل کرنے سے محروم رہا۔ ایک روحانی پیشوا، نگاہوں کے سامنے، میں نے دیکھا کہ ایک ہاتھ میں چھوٹا سابکس اور دوسرے میں ایک بستہ ہے، لنگی کرتا پہنے، سر پر عمامہ اور شانہ پر بڑا رومال ہے، اسلامی تہذیب و تمدن اور طریق اسلاف کی جیتی جاگتی تصویر۔

    مجھ سے فرمایا ’’خاکسار کو حبیب الرحمن کہتے ہیں‘‘۔ سچ ہے، ایسا سادہ و سنجیدہ انسان صرف ’حبیب الرحمن‘ ہی ہو سکتا ہے۔ چند گھنٹے داناپور میں قیام فرمایا، میری حیرانی و مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ وہ مجھ سے اس طرح پیش آتے رہے جیسے معلوم ہو برسوں سے رابطہ رہاہو۔ اخلاق اور خاکساری کا یہ حال کہ میرے دل نے شدت سے محسوس کیا کہ یہ ہستی خلق نبوت کا کس قدر دلکش نمونہ ہے۔

    میں بڑے انہماک سے غور کر رہا تھا کہ ہر ادا اور ہر عمل سیرت رسول سے مشابہ ہے۔ شام کو حضور مجاہد ملت کے لے کر حضرت ابیّ و مرشدی کے پاس پٹنہ گیا، آل انڈیا تبلیغ سیرت کے اجلاس کے اختتام تک پندرہ دن میرا بھی قیام کافی ہاوس پٹنہ میں رہا، جہاں تمام علمائے کرام اور مشائخ عظام کے قیام و طعام کی ذمہ داری میں مصروف تھا۔

    مجاہد ملت کئی مرتبہ خانقاہ سجادیہ ابوالعُلائیہ، داناپور تشریف لاتے رہے اور میں ان کی صحبت سے مالا مال ہوتا رہا۔ حضرت ابیّ و مرشدی رحمۃ اللہ علیہ کا وصال یکم رجب ۱۳۹۴ھ مطابق ۲۲؍ جولائی ۱۹۷۴ء، دو شنبہ کو ہوا۔ اس سانحۂ ارتحال کی خبر پاتے ہی ہم غم گساروں کے زخم دل پر مرہم رکھنے فوراً خانقاہ سجادیہ ابوالعُلائیہ تشریف لائے، راقم السطور موجود تھا۔ سینے سے لگا کر آبدیدہ ہوتے ہوئے صبر و رضا کی تلقین فرمانے لگے، اس مونس و غم خوار کے دیدار اور تسلی نے بہت کچھ سکون بخشا۔ دو روز قیام بھی کیا، جب بھی مسجد جاتے لوٹتے وقت حضرت ابیّ و مرشدی کے مزار پر فاتحہ پڑھتے جاتے۔

    (ماہنامہ اشرفیہ کا ’مجاہدملت نمبر‘ ص۱۹۳)

    مجاہد ملت حضرت مولانا حبیب الرحمن خانقاہ سجادیہ ابوالعُلائیہ، شاہ ٹولی داناپور سے تاج ہوٹل مراد پور تشریف لائے اور وہاں سے انجمن اسلامیہ ہال کا جائزہ لینے پہنچے۔ یہاں علمائے کرام پہلے سے موجود تھے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ جگہ نامرتب ہے، مٹی کے ڈھیلے بھکرے پڑے ہیں۔ اس پر مولانا مظفر حسین کچھوچھوی نے عرض کیا کہ حضرت مزدور نہیں ہے، بس مجاہد ملت رونے لگے اور فرمایا کہ مظفر! سیرت کا جلسہ کرتے ہوئے مزدور کی تلاش بسیار ہے، اس کے لئے ہم سے بہتر مزدور کہاں ملے گا اور کدال لے کر زمین مرتب کرنے میں مصروف ہوئے کہ مولانا مظفر حسین اور مولانا مشتاق احمد نظامی وغیرہ نے پیش قدمی کی۔

    یہ وہ صحبت تھی جس کے متلاشی آج علما و صلحا سب رہتے ہیں۔ اب نہ ہی ایسا کردار ہے نہ ہی ایسے لوگ، اب صرف نام و نمود کا زمانہ ہے، جہاں لوگ اس مقصد سے جاتے ہیں کہ ان کے نام کی سرخیاں بنیں، ان کی عظمت و رفعت کے ترانے الاپے جائیں، ان کی شان میں منقبت کے اشعار پڑھے جائیں، تعریفی و توصیفی کلمات کہے جائیں۔

    آج دوسروں کو حقیر جاننا اور خود کو فقیر سمجھنے کا رواج چل پڑا ہے۔ اگر کوئی کسی محفل میں جاتا ہے تو یہ سوچ کر کہ یہاں ہماری خود نمائی ہوگی، لوگ اس فکر میں لگے رہتے ہیں کہ فلاں عالم سے اچھا بیان آج ہمارا ہونا چاہئے، آج میرے نام کے نعرے زیادہ لگنے چاہئے۔ بلکہ اس کا مقصد تو یہ ہونا چاہئے کہ حضرت محمد پاک کی سیرت مبارکہ بہتر سے بہتر بیان ہونا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج لاکھوں جلسے جلوس کے باوجود کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ہماری زبان میں اب وہ تاثیر نہ رہی جو رسول اللہ کے غلاموں میں پائی جاتی تھی۔

    بات ایک ہی ہے، صرف فکر کی تبدیلی ہے۔ ایک عالم دوسرے عالم کے خلاف بولتا نظر آ رہا ہے، اختلافی مسائل تو کجا، اب تو ذاتیات پر بھی حملے ہو رہے ہیں۔ آج کسی عالم یا صوفی کے پاس بیٹھئے تو صرف دوسروں کی بُرائی اور خود کی اچھائی بیان کی جا رہی ہے۔ وہ لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ صوفی گناہوں کو چھپاکر اچھائیوں کو ظاہر کر دیتا ہے، جس کی واضح مثال ہمارے وطن کے مشہور و مقبول بزرگ حضرت مخدوم جہاں کا کردار ہے۔ خود حضرت مخدوم جہاں حضرت رحمت اللعالمین کی تعلیمات مقدسہ کے مظہر ہیں۔

    میں سب کو تو نہیں کہتا، مگر آج اکثریت انہی چیزوں کی ہے۔ اب نہ وہ دور ہے نہ وہ جام ہے اور نہ ہی وہ ساقی کا میکدہ:

    پلاساقی خمار آئے یا نہ آئے

    یہ موسم باربار آئے یا نہ آئے

    ہمارے اسلاف عاجزی و انکساری کے نمونہ تھے، وہ ہماری پہچان تھے۔ جلسہ کے درمیان یہ منظر بارہا دیکھا گیا کہ جب نماز کا وقت ہوتا تو مجاہد ملت فرماتے کہ مظفر! نماز پڑھادو، کبھی مشتاق احمد نظامی پر نگاہ جاتی تو کہتے کہ مشتاق! نماز پڑھا دو، میری وسعت نہیں کہ میں ان علما کے درمیان امامت کروں، مجھ جیسا گنہگار صرف اقتدا کے لائق ہے۔

    سینکڑوں ممتاز علما کے استاد محترم، ہزاروں مریدوں کے پیر و مرشد اور زمانے کا مجاہد ملت، جو شریعت و طریقت دونوں کے شہسوار تھے، ان میں اس قدر خاکساری و انکساری پائی جاتی تھی کہ لوگ حیران و پریشان ہو جاتے تھے:

    میں مقتدی بھی ہوں میں صف امام میں ہوں

    فناۓ ذات علی ہوں عجب مقام میں ہوں

    (مخدوم محمد سجادپاک)

    آخر وہ رات آہی گئی جس کا سبھوں کو انتظار تھا، وہ زمانہ اجملؔ سلطان پوری اور بیکلؔ اتساہی کی بلندی کا تھا، ہر طرف ان کے ترنم کی دھوم تھی، ملک کے چاروں جانب ان کی شہرت تھی۔ اس جلسہ میں ان دونوں شعرا نے بارگاہ رسالت میں تینوں دن نذرانۂ عقیدت پیش کیا، جس پر کمیٹی نے ان دونوں حضرات کو گولڈ میڈیل سے نوازا۔

    نعتیہ دور کے بعد خطابت کا سلسلہ شروع ہوا اور حضرت مولانا عبدالحفیظ اشرفی (مفتیٔ آگرہ)، حضرت حکیم سید شاہ عزیز احمد ابوالعلائی (سجادہ نشین: خانقاہ ابوالعلائیہ، الہ آباد)، حضرت مولانا رفاقت حسین اشرفی (بھنوانی پور، مظفر پور)، حضرت مولانا مشتاق احمد نظامی (مدیر اعلیٰ ماہنامہ پاسبان، ممبئی)، حضرت مولانا نظام الدین (الہ آباد) اور حضرت مولانا سلیم اللہ قادری (مدیر اعلیٰ صوفی، بنارس) وغیرہ کا خطاب شاندار ہوا، جس کی تائید و تعریف خوب ہوئی۔

    مجمع کثیر میں نعرۂ تکبیر و نعرۂ رسالت کی گونج سے شہر عظیم آباد (پٹنہ) مخمور ہو رہا تھا۔ وہاں جلسہ گاہ میں کتنے صاحبان اخیار کی یہ رائے قائم ہوگئی کہ یہ رات کبھی ختم ہی نہ ہو۔ حضرت شاہ عزیز احمد ابوالعلائی جو آل انڈیا تبلیغ سیرت کے نائب صدر اور کانفرنس کے خاص مقررتھے، رقمطراز ہیں:

    ’’بعض جلسوں کی تاریخی حیثیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، مثلاً ۹؍۱۰؍۱۱؍اپریل ۱۹۵۴ء کو انجمن اسلامیہ ہال، پٹنہ، بہار میں اجلاس منعقد ہوئے اور جس شان و عظمت کے ساتھ اختتام پذیر ہوئے اس کی تاریخی حیثیت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ شرکت کرنے والے حضرات اچھی طرح جانتے ہیں، جید علماء کا پورا قافلہ اترا تھا، تینوں روز کے جلسے کسی عظیم الشان کانفرنس سے کم نہ تھے۔‘‘

    (ماہنامہ اشرفیہ کا ’مجاہد ملت نمبر‘ ص۹۰)

    سیرت کے عنوان سے خطاب نایاب کا سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، جہاں دیکھیں عاشقوں کی کثیر تعداد موجود تھی، انجمن اسلامیہ ہال سے سبزی باغ کا راستہ بالکل بھر چکا تھا، لوگوں کی آنکھیں بالکل نم ہو چکی تھیں۔ کیا بڑا کیا چھوٹا، سب مست بادۂ الست تھے۔

    شہر پٹنہ رحمت اللعالمین حضرت محمد پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے گونج رہا تھا۔ اس تاریخی اجلاس میں گوشے گوشے سے علمائے کرام و مشائخ عظام، صحافی، ناقد، ادیب، شاعر اور قانون دان کے قافلے نے آ کر شرکت کی تھی۔ انسانی سروں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اس تاریخی اجلاس کی کامیابی پر شاہد تھا۔

    بہار کی خانقاہوں سے خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، شاہ ٹولی، داناپور کے سجادہ نشیں حضرت مولانا سید شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی رحمۃ اللہ علیہ جو آل انڈیا تبلیغ سیرت (بہار) کے نائب صدر اور مرکزی ناظم نشر و اشاعت ورسل و رسائل تھے، ان کے علاوہ خانقاہ بلخیہ فردوسیہ فتوحہ کے سجادہ نشین حضرت مولانا حکیم سید شاہ تقی حسن بلخی اور خانقاہ سلیمانیہ، پھلواری شریف کے سجادہ نشین حضرت مولانا سید شاہ غلام حسنین چشتی اور خانقاہ ابوالعلائیہ المعروف نیا حجرہ، الہ آباد کے سجادہ نشین حضرت حکیم سید شاہ عزیز احمد ابوالعلائی شریک مجلس تھے۔

    جلسہ میں بہار کے نامور صحافی اور اخبار رپورٹر سب موجود تھے، جن میں روزنامہ سنگم (پٹنہ) کے مدیر اعلیٰ الحاج غلام سرور، شہباز حسین، روزنامہ ساتھی (پٹنہ) کے مدیر اعلیٰ ولایت علی اصلاحی، عزیز ہاشمی اور اسد حسین، روزنامہ صداۓ عام (پٹنہ) کے مدیر اعلیٰ سید نظیر حیدر کے علاوہ بیشتر قانون دان و سیاسی لیڈر شریک مجلس تھے۔ اس کی خبر خواجہ شوکت حسین صاحب، ہفت روزہ ’اخبار آگرہ‘ (آگرہ)، سید انیس الرحمن نے ہفت روزہ ’پرچم ہند‘ (دہلی) اور اخبار ’انسان‘ (کشن گنج) کے علاوہ ماہنامہ پاسبان (ممبئی) میں تفصیل سے خبر شائع کی۔

    جلسہ کے آخر میں لوگوں کو ایک ہنڈبل تقسیم کیا گیا تھا، جس میں تبلیغ سیرت کے اِغراض و مقاصد بھی درج تھے اور مسلمانوں کے مسائل کا حل بھی تھا۔ اغراض و مقاصد ماہنامہ اشرفیہ (مبارک پور) کا ’مجاہد ملت نمبر‘ کے صفحہ۱۶۷ پر درج ہے۔ حسب ذیل تجاویز باتفاق رائے منظور کی گئیں:

    تجویز نمبر ۱: آل انڈیا تبلیغ سیرت کانفرنس پٹنہ کا عظیم الشان اجلاس حکومت جمہوریہ سے پُرزور مطالبہ کرتا ہے کہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد اکثر ملک دشمن افراد ایسی تحریر و تقریر شائع کرتے ہیں جن سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و عظمت کو ٹھیس پہنچتی ہے اور مسلمانوں کے قلوب چور چور ہو جاتے ہیں۔ لہذا ایسی تمام کتابیں اور تحریریں ضبط کر لی جائیں اور ایسے لوگوں کو سخت سے سخت سزا دے کر ملک کے امن عامہ میں سکون اور مسلمانوں کے مجروح قلب کو مطمئن کرے۔

    محرک: شاہ عزیز احمد صاحب

    موئد: مولانا مشتاق احمد صاحب نظامی

    تجویز نمبر ۲: آل انڈیا تبلیغ سیرت کانفرنس پٹنہ کا عظیم الشان اجلاس تجویز پیش کرتا ہے کہ ہندوستان کی مساجد پر جو دوسروں کا ناجائز قبضہ ہوتا جا رہا ہے، حالانکہ ہندوستان کے سکولر اسٹیٹ کے دستور اساسی میں مذہب و معابد مذہب کے تحفظ کا یقین دلایا گیا ہے، باوجود اس کے آل انڈیا تبلیغ سیرت اور مختلف اداروں نے اس قسم کا بار بار مطالبہ کیا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ حکومت ہند نے اس طرف اب تک کوئی اطمینان بخش اقدام نہیں کیا۔ لہذا یہ اقدام مرکزی حکومت اور صوبائی حکومتوں سے مطالعہ کرتا ہے کہ وہ جلد از جلد مساجد کو دوسروں کے ناجائز قبضہ سے نکال کر مسلمانوں کے حوالے کریں اور مسلمانوں کے اضطراب کو دور کریں۔

    محرک: مولانا رفاقت حسین صاحب، نائب صدر آل انڈیا تبلیغ سیرت

    موئد: مولانا نظام الدین صاحب، خازن آل انڈیا تبلیغ سیرت

    تجویز نمبر ۳

    آل انڈیا تبلیغ سیرت کانفرنس پٹنہ کا یہ عظیم الشان اجلاس ہندوستان کی ہر جماعت سے، جو اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہے، مطالبہ کرتا ہے کہ وہ بھی آل انڈیا تبلیغ سیرت کی ہر تجویز یعنی بازیابی مساجد و تحفظ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں خود بھی حکومتِ جمہوریہ ہند سے پُرزور مطالبہ کریں اور آل انڈیا تبلیغ سیرت کے ساتھ اس معاملہ کی جدوجہد میں ہم نوائی کریں۔ اور بغرضِ اطلاع اخبارات میں تجاویز کو شائع کرادیا جائے۔

    (ماہنامہ پاسبان، ممبئی، ص ۹، ماہ مئی ۱۹۶۷ء)

    جناب سید حیدر امام صاحب مجلسِ استقبالیہ کے صدر تھے۔ آٹھ صفحات پر مشتمل اپنے خطبۂ صدارت کے آخر میں، صفحہ ۷ اور ۸ پر رقم طراز ہیں:

    ’’ہمیں پوری امید ہے کہ علماے کرام کی ایمان افروز تقریروں سے اس جلسۂ سیرت کا ہر شخص نہایت مطمئن و سرشار ہو کر اٹھے گا۔ قبل اس سے کہ میں اپنے مختصر سے خطبہ کو ختم کروں، میں اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہ ہوں گا اگر میں کل ارکانِ مجلسِ استقبالیہ کا تہہ دل سے شکریہ ادا نہ کروں جنہوں نے انتھک کاوشوں سے اس جلسہ کو کامیاب بنانے کی کوشش کی ہے۔ خامیوں کے لئے میں آپ حضرات سے معذرت خواہ ہوں اور مجھے امید ہے کہ آپ حضرات ان کو فراخ دلی سے معاف فرمائیں گے۔

    میں اپنے معزز مہمانوں کا بھی، خصوصاً علماے کرام کا تہہ دل سے ممنون ہوں کہ آپ حضرات نے سفر کی صعوبتوں کو برداشت کیا اور ملک کے دور دراز گوشوں سے تشریف لا کر اس جلسہ کو کامیاب بنانے میں ہمارے معاون ثابت ہوئے۔

    میں بیگم حبیبہ صغریٰ مالکہ کافی ہاؤس اور مولوی ولی الحق شاہو بیگہوی کا بے حد ممنون ہوں کہ انہوں نے کافی ہاؤس کو مہمانوں کے آرام و آسائش کے لئے خالی کردیا۔

    میں خان بہادر سید حسن صاحب، ابوالفتح سید محمد صاحب وکیل اور حکیم محمد زکریا صاحب صدر و سکریٹری انجمن اسلامیہ ہال پٹنہ کا دل سے مشکور ہوں کہ آپ حضرات نے اس سیرت کے جلسہ کے لئے ہال کا کوئی کرایہ نہیں طلب کیا۔

    مولوی انوار الحق صاحب موضع مادھوپور ضلع چمپارن کا بھی ممنون ہوں کہ انہوں نے بڑی نوازش اور دریادلی سے غلہ واسطے مطبخ عنایت فرمایا۔

    دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری ان کوششوں کو قبول فرمائے اور ہمارے کاموں کو آسان کردے، آمین‘‘

    (ماہنامہ اشرفیہ کا ’’مجاہد ملت نمبر‘‘، ص ۴۰)

    مندر جہ بالا صدارتی خطبہ کے آخری حصہ کو پڑھنے کے بعد کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس جلسۂ تبلیغِ سیرت کے انعقاد کے سلسلے میں کتنے وسیع اہتمام کا بندوبست کیا گیا تھا۔

    جلسہ کے بعد بیرسٹر سید حیدر امام صاحب نے تمام علما و مشائخ اور کمیٹی کے کارکنان کی کافی ہاؤس میں ایک خاص دعوت بھی کی تھی۔ اس کے بعد تمام علما و مشائخ کا نورانی قافلہ کافی ہاؤس مراد پور سے خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، شاہ ٹولی، داناپور تشریف لایا۔

    آل انڈیا تبلیغ سیرت کا دوسرا جلسہ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور میں ہوا۔ یہاں بھی تمام علماے کرام کے بیانات ہوئے جن کی تفصیل ہفت روزہ اخبار آگرہ (آگرہ) میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد داناپور بی بی گنج کے سرائے کی مسجد کے پشت پر ایک وسیع و عریض میدان میں تبلیغ سیرت کا تیسرا جلسہ منعقد ہوا جس میں خصوصی خطاب حضرت مولانا عبدالحفیظ اشرفی (مفتیٔ آگرہ) کا ہوا۔ ’’اِنّا اَعطَینَاکَ الکَوثَر‘‘ پر آپ نے شاندار مدلل تقریر کی تھی۔

    اس طرح آل انڈیا تبلیغ سیرت نے ایک سے ایک شاندار جلسہ پٹنہ اور داناپور اور اس کے اطراف و اکناف میں منعقد کئے۔

    ۱۹۵۴ء سے ایک سال قبل، ۱۹۵۳ء میں آل انڈیا تبلیغ سیرت (بہار) کا سالانہ جلسہ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے سالانہ عرسِ مقدس کے موقع پر منعقد ہوا، جس کی خبر اخبار آگرہ (آگرہ) میں ۲۸ مارچ کو شائع ہوئی تھی۔

    واضح ہو کہ ۱۹۴۹ء سے مسلسل آل انڈیا تبلیغ سیرت (بہار) کا سالانہ جلسہ حسبِ معمول خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے سالانہ عرس کے مبارک موقع پر ہوتا رہا، جس کی تفصیل کئی اخبار و رسائل اور خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے اشتہارات سے شائع ہوتی رہی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے