Font by Mehr Nastaliq Web

تذکرہ حضرت شاہ خالد امام ابوالعلائی داناپوری

ریان ابوالعلائی

تذکرہ حضرت شاہ خالد امام ابوالعلائی داناپوری

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    صوبۂ بہار میں نہ جانے کتنی شخصیات جنم لیتی ہیں اور معدوم ہوجاتی ہیں۔ ان ہی میں بعض صاحبِ جمال اور مکاشفۂ لایزال ہستیاں بھی نمودار ہوتی ہیں جو اپنے اسلاف و اخلاف کی یادیں تازہ کرادیتی ہیں۔ یہاں کی سرزمین ہمیشہ سے نہ صرف زرخیز بلکہ مردم خیز رہی ہے اور تقریباً ہزار برس سے یہاں صوفیوں نے رشد و ہدایت اور الفت و محبت کا چراغ روشن کر رکھا ہے، ہمیں صرف اپنے متقدمین ہی کی نہیں بلکہ معاصرین کی بھی قدر کرنی چاہیے، اگر ان میں متقدمین کی خوبیاں موجود ہوں۔

    راقم کی سابقہ تحریرات صوفیائے متقدمین پر مشتمل تھیں اور یہ سلسلہ جاری ہے، پہلا تذکرہ مشائخِ حال کا یہاں لکھا جارہا ہے جس کا عنوان ہے خانقاہ سجادیہ، داناپور کے علمی و روحانی بزرگ شخصیت حضرت مولانا سید شاہ خالد امام ابوالعلائی زاداللہ عرفانہٗ یہ بزرگ اپنے اوصاف و کمالات اور احوال و مقامات کے لحاظ سے صوبۂ بہار میں نادر و نایاب ہیں، آپ علم و فضل، زہد و تقویٰ اور نجابت و وجاہت کے بلند مقام پر فائز ہیں، مختصر لکھوں تو ظاہری زندگی میں بھی فقیری پوشیدہ ہے۔

    حضرت شاہ خالد امام ابوالعلائی کی پیدائش 11 شوال المکرم 1358ھ، موافق 23 نومبر 1939ء بروز پنجشنبہ کو خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور میں ہوئی۔ آپ کے والدِ ماجد، ظفرالمکرم حضرت مولانا سید شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی داناپوری قدس سرہٗ 1394ھ) صوبۂ بہار کے بلند مرتبت شیخِ زمانہ گزرے ہیں۔ آپ اپنے والد کے فرزندِ اوسط ہیں۔ آپ کے بڑے بھائی صوفی صافی بزرگ حضرت مولانا سید شاہ محفوظ اللہ ابوالعلائی داناپوری قدس سرہٗ 1418ھ) خانقاہ سجادیہ داناپور کے سجادہ نشین تھے اور چھوٹے بھائی حضرت سید شاہ نصر سجاد ابوالعلائی صاحب ہیں جن کا سلسلہ مدھیہ پردیش میں وسیع و عریض ہے۔

    ابتدائی تعلیم و تعلم داناپور کے عبدالعزیز خاں اکبری صاحب سے حاصل کی۔ مزید تعلیم کے لئے بلدیوا ہائی اسکول (داناپور) میں داخل ہوئے اور 1955ء میں میٹرک پاس کیا، اردو و فارسی کی اعلیٰ تعلیم خانقاہ منیر شریف کے حضرت مولانا سید شاہ مراد اللہ فردوسی اثرؔ اور مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے حضرت مولانا سید شاہ محمد اسماعیل ابوالعلائی روحؔ کے زیرِ اثر مکمل ہوئی۔ فارسی اور اردو کے علاوہ آپ انگریزی اور ہندی زبان میں بھی کامل دسترس رکھتے ہیں، اللہ نے فہمِ سلیم سے خوب نوازا ہے۔ شروع ہی سے علمی لیاقت کی بنا پر تعلیمی میدان میں سرفرازی حاصل کرتے رہے۔

    جب علمِ ظاہر سے آراستہ و پیراستہ ہوئے تو اپنے والد کی صحبتِ عالیہ میں زانوئے ادب طے کیا کرتے، آپ خود فرماتے ہیں کہ

    ’’میں اپنے والد کی صحبت میں گھنٹوں بیٹھا کرتا اور حدیث و تفسیر کا علم حاصل کیا کرتا، اشعت اللمعات اور شرح وقایہ جیسی فاضلانہ کتاب میں نے خانقاہ کے صحن میں مکمل کی ہے، اس دوران وہ راز و نیاز اور حکمت و دانائی کی باتیں بھی بیان کیا کرتے جو ہمارے لیے ذریں لمحات ہوتے تھے‘‘

    آپ کا خانوادہ صوبۂ بہار کا سب سے ممتاز گھرانہ ہے۔ آپ کے دادا حضرت مولانا سید شاہ محمد محسن ابوالعلائی داناپوری 1364ھ) ہیں جن کی صحبت آپ کو تھوڑی بہت میسر ہوئی۔ آپ کے پردادا حضرت سید شاہ محمد اکبر ابوالعلائی داناپوری 1327ھ) ہیں۔ اس طرح آپ کا سلسلۂ نسب حضرت امام محمد المعروف بہ تاج فقیہ سے صحیح طور پر جا ملتا ہے۔

    بچپن سے مطالعہ حرزِ جاں رہا، آپ کی پرورش و پرداخت اپنی والدہ بی بی میمونہ خاتون بنتِ سید غلام حسنین بلخی فردوسی کی نگرانی میں ہوئی، آپ کا سلسلۂ نسب حضرت مخدوم حسین بلخی فردوسی نوشۂ توحید 844ھ) سے جا ملتا ہے، یہ نیک عورت باہوش اور صالحاتِ قدیمہ کی زندہ یادگار ہونے کے علاوہ خاندان کے علم و فضل سے بھی بخوبی واقف تھیں۔

    1965ء میں آپ گورنمنٹ میں ملازم ہوئے، ڈھیری اون سون، مظفرپور، بیگوسرائے اور پٹنہ میں خدمات انجام دینے کے بعد 1998ء میں سبکدوش ہوئے، اس دوران آپ کا عقد محمد عبدالسبحان صاحب کی دختر سے ہوا جن سے دو لڑکیاں اور پانچ لڑکے پیدا ہوئے اور سب شادی شدہ اور خوشحال ہیں، ابتدائی دور میں تقریباً پندرہ برس تک نمازِ جمعہ کی امامت و خطابت فرمائی اور تقریباً پانچ برس سے مستقل بڑی عیدگاہ داناپور کی امامت و خطابت آپ کے ذمہ ہے۔

    لکھنے پڑھنے کا عمل شروع سے رہا۔ مختلف مواقع پر آپ کے گراں قدر مضامین رسائل و اخبارات کی زینت بنتے رہے۔ خاص طور پر ’’حضرت مخدوم شاہ سجاد داناپوری: روشنی کے مینار‘‘ کے عنوان سے پٹنہ ریڈیو اسٹیشن اور ماہنامہ قاری (دہلی) میں شائع ہوا۔ ایک مضمون بعنوان ’’حضرت شاہ اکبر داناپوری قومی شاعری کے آئینہ میں‘‘ قومی تنظیم، بہار، رانچی اور لکھنؤ سے متفقہ طور پر شائع ہوا۔ علاوہ ازیں ’’خانقاہِ سجادیہ کا تاریخی پس منظر‘‘، ’’روشنی کے مینار‘‘ اور غیر مطبوعہ ’’ادبی تبرکات‘‘ آپ کی کتابیں ہیں جو اہلِ علم کے درمیان مقبولِ خاص و عام ہیں۔

    ڈاکٹر سید شمیم احمد گوہرؔ (الہ آباد) اپنی پی ایچ ڈی کی تھیسس کے ابتدا میں ’’نوائے آغاز‘‘ کی سرخی لگا کر رقم طراز ہیں کہ

    ’’تحقیق و جستجو کے سلسلے میں میرے مشفق ماموں حضرت سید شاہ خالد امام ابوالعلائی نے اس حقیر راقم کی بھرپور مدد فرمائی اور لائبریری خانقاہ داناپور کے بعض قلمی نسخے اور ملفوظات حوالہ کئے اور بے پناہ مسرتوں کا اظہار کیا۔‘‘ 4)

    تحریری معاملات کی طرح تحریکی سرگرمیوں میں بھی آپ ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔ درجنوں تحریک و تنظیم اور مدارس کی سرپرستی فرما رہے ہیں۔ 1987ء میں سہ روزہ آل انڈیا نعتیہ مشاعرہ بریلی میں منعقد ہوا جس میں دوسری شب کی صدارت پروفیسر عنوان چشتی (دہلی) اور مولانا علی احمد (سیوان) وغیرہ کی موجودگی میں حسبِ رائے آپ نے فرمائی۔

    صوبۂ بہار کے معاصر علما و مشائخ میں آپ کی شخصیت مکرم و مقدم ہے۔ شریعت و طریقت اور معرفت و حقیقت کے علاوہ آپ اچھے اخلاق و اخلاص کے مالک ہیں۔ آپ صادق القول، راست گو، پاک سرمست اور پرہیزگار انسان ہیں۔ مزاج میں بردباری اور خیالات میں عاجزی و فروتنی آپ کی فطرت کا حصہ ہے۔ زندگی کی کٹھن راہوں پر چلتے چلتے آپ مشقاتِ بدنی اور تمایلاتِ نفسی سے سنجیدگی کے ساتھ گزر جاتے ہیں اور اخلاقی مہم کی ہوش رُبا جنگ کے کفن بردوش رہنما ٹھہرتے ہیں، مگر ہمیشہ تمتع اور تصنع سے دور رہتے ہیں۔

    1380ھ/1960ء میں آپ نے اپنے والد حضرت شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی داناپوری قدس سرہٗ سے سلسلۂ نقشبندیہ ابوالعلائیہ میں بیعت کی اور اسی محفل میں اجازت و خلافت سے بھی نوازے گیے، آج کے دور میں آپ کے مریدان و معتقدان کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ پٹنہ، ارریہ، کشن گنج، پورنیہ، کٹیہار، دہلی، پنجاب اور ہریانہ میں مریدین کی تعداد زیادہ ہے۔ بعض افراد کو آپ سے اجازت و خلافت بھی حاصل ہے جن میں ہند و پاک کے باشعور افراد شامل ہیں۔

    سال 1429ھ/2008ء میں آپ اپنی اہلیہ کے ہمراہ حجِ بیت اللہ کی سعادت سے بھی مشرف ہوئے۔ اپنے والد ماجد کے علاوہ آپ نے مجاہدِ ملت مولانا حبیب الرحمن نقشبندی (دھام نگر)، مولانا عبدالقادر آزاد سبحانی (گورکھپور)، مولانا عبدالحفیظ حقانی اشرفی (آگرہ)، مولانا رفاقت حسین اشرفی (مظفرپور)، خواجہ سید اسلام الدین نظامی (دہلی)، مولانا ولایت علی اصلاحی (پٹنہ)، مولانا سلیم اللہ خاں قادری (بنارس) وغیرہ جیسی کامیاب شخصیات سے خوب استفادہ و استقاضہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ پروفیسر سید عطاالرحمن ابوالعلائی عطاؔ کاکوی (کاکو)، ڈاکٹر غلام سرور (داناپور)، پروفیسر عبدالمنان بیدلؔ (پٹنہ)، پروفیسر کلیم احمد عاجزؔ (تلہاڑہ)، مولانا مشتاق احمد نظامی (الہ آباد)، مولانا قاضی مجاہد الاسلام (پھلواری شریف) وغیرہ آپ کے خاص احباب میں شامل ہیں۔

    آپ خود صوبۂ بہار کی ایک معتبر و مؤقر خانقاہ، خانقاہ سجادیہ، کے سرپرست ہیں مگر موجودہ دور کے حوالے سے اپنی کتاب میں رقم طراز ہیں کہ

    ’’تاریخ کی روشنی میں کمترین خالد امام کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا رہتا ہے کہ خانقاہیں کن مقاصد کے لئے وجود میں آئیں؟ خانقاہوں میں کیا ہوتا تھا، کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونا چاہیے؟ شاید یہ سوال انفرادی نہیں ہوگا بلکہ اجتماعی ہے۔‘‘ 46)

    آپ کے تعلقات خواص و عوام میں نہایت وسیع و عریض ہیں، آپ نے وہ سنہرا دور دیکھا ہے جو آج دیکھنے والوں کی نظروں سے اوجھل ہے، اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:

    ’’وہ آب و تاب اور جاہ و جلال کا منظر آج بھی میری نگاہوں میں ہے۔ اپنے دور کی باکمال بزرگ ہستیوں کی وہ مبارک نشست اور روحانی کیف و حال میری نگاہوں میں رقصاں ہے۔‘‘ (تاریخی پسِ منظر، ص 33)

    ع - آتا ہے مجھے یاد گزرا ہوا زمانہ (داغؔ)

    مزید لکھتے ہیں کہ

    ’’کہاں گئے وہ لوگ؟ کہاں گئی وہ روحانی مجلس؟ صوفیائے کرام کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو اُن کی ہمہ گیر روشن زندگی رشد و ہدایت، تسبیح و تحلیل اور تصوف کی دنیا میں ہی تصنیف و تالیف تک محدود نظر نہیں آتی بلکہ ملک و وطن اور قومی یکجہتی، استحکام اور فلاح و بہبود کا درد اُن کے سینہ میں شدت سے محسوس ہوتا ہے۔‘‘ (تاریخی پسِ منظر، ص 26)

    آپ نہایت دقیق و وقیع مسائل بھی بآسانی حل کر لیتے ہیں۔ اشعار کی روانی اور قوتِ یادداشت آپ کی نمایاں خصوصیات ہیں، اور یہ سب پروردگار کی خاص عنایات ہیں۔ آپ ورد و وظائف کے پابند اور اصول و لوازم کے پیرو ہیں۔ تصوف پر آپ کا کافی غلبہ و دبدبہ ہے۔ اپنی قوت و شوکت اور عروج و اعتلا سے ہر ایک کو شاد بخشتے ہیں۔ آپ کے سامنے پہنچنے والا کوئی بھی محزون و مغموم شخص شاداں و فرحاں ہو کر واپس جاتا ہے۔ آپ کا طرز و روش بالکل منفرد ہے۔ ہر ایک سے بڑے خاکسارانہ انداز میں ملاقات کرتے ہیں۔ آپ کے افکار و اذکار نہایت وقیع ہوتے ہیں۔ آپ کا کہنا ہے کہ

    ’’کل تصوف مادیت پر غالب تھا اور آج مادیت تصوف پر غالب نظر آ رہا ہے‘‘

    آپ چھوٹے سے چھوٹے مسائل پر بھی بڑے انہماک و ارتکاز سے غور و فکر کیا کرتے ہیں۔ آپ بیک وقت مبلغ، مقرر، محرر، مفکر، مدبّر، محقق اور شیخِ زمانہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    المختصر، اس 80 سالہ عمر میں جب ضعف و پیرانہ سالی کی وجہ سے معذور ہیں مگر جذبہ اور ولولہ میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ لہٰذا بیشتر اجلاس کی سرپرستی آج بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ فرماتے ہیں۔ تحریر کے ساتھ ساتھ تقریر بھی آپ کی نہایت مؤثر ثابت ہوتی ہے جس میں صوفیہ کی اصطلاحات اور صوفیانہ و عارفانہ اشعار تسلسل سے پیش کرتے ہیں۔ فی الحال لکھنا پڑھنا آپ کا مشغلہ ہے، اللہ آپ کا سایہ قائم رکھے، وہی ہمارا حامی و کامی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے