Font by Mehr Nastaliq Web

تبصرہ : ’’النعمۃ الجاری فی مناقب خواجہ عبداللہ انصاری‘‘

ریان ابوالعلائی

تبصرہ : ’’النعمۃ الجاری فی مناقب خواجہ عبداللہ انصاری‘‘

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    میری میز پر ’’النعمۃ الجاری فی مناقب خواجہ عبداللہ انصاری‘‘ کے عنوان سے پیرِ ہرات خواجہ عبداللہ انصاری (پیدائش ۳۹۶ھ - وصال ۴۸۱ھ) پر ایک مستقل کتاب ہے جسے برادرِ مکرم خواجہ سلمان احمد ناصری زادَ اللّٰہُ محبتہٗ نے بڑی تحقیق و تدقیق کے بعد قلم بند کیا ہے۔

    خواجہ عبداللہ انصاری محبوبانِ خدا کی فہرست میں ایک عظیم نام ہے۔ صدیوں سے ان کی تصنیفاتِ عالیہ، معرفت و للہیت، کشف و کرامات، تعلیم و تربیت، تفسیر و حدیث طالبین و شائقین کے لیے سرچشمۂ حیات بنی ہوئی ہیں۔ ان کا تذکرہ بڑے بڑے اولیا و اصفیا، علما و دانشور اور اصحابِ علم و فکر نہایت آداب و القاب سے کرتے چلے آئے ہیں۔ آپ خواجہ ابوالحسن خرقانی جیسے معروف صوفی کے دست گرفتہ تھے۔ علمِ باطن کے علاوہ علمِ ظاہری کا یہ کمال تھا کہ بندگانِ خدا آپ کی علمی صحبت میں بیٹھ کر اپنی تشنگی بجھاتے تھے۔ اسی کتاب میں موصوف لکھتے ہیں:

    ’’آپ کے علم و فضل کی یہ شان تھی کہ کئی ہزار احادیث مع اسناد حفظ تھیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے ایک مجلس کے قاریوں سے فرمایا کہ مجھے تین ہزار احادیث شریفہ یاد ہیں اور ان میں سے ہزاروں ان کے اسناد کے ازبر ہیں۔ ادبیاتِ عربی میں یہ مقام تھا کہ ان کے اپنے قول کے مطابق انہیں ستر ہزار سے لے کر لاکھ تک عربی اشعار زبانی یاد تھے۔ تمام علوم اور خاص کر علمِ تفسیرِ قرآن کا یہ عالم تھا کہ قرآنِ حکیم کی آیتِ مبارکہ کی تفسیر بیان کرتے وقت عربی کے چار چار سو اشعار کے حوالے دیا کرتے تھے جن سے کلامِ پاک کے الفاظ و مفاہیم کی توضیح و تشریح مطلوب ہوتی تھی۔ قرآنِ کریم کی آیت ان الذین سبقت لھم من الحسنیٰ کی تفسیر ۳۶۰ مجالس میں بیان فرمائی ہے۔ تفسیر الہروی جو ’’تفسیر بزبانِ درویشان‘‘ سے موسوم ہے، کی ترتیب و تدوین میں حضرت شیخ الاسلام (خواجہ عبداللہ انصاری) نے اپنے قول کے مطابق ۱۷۰ تفاسیر سے استفادہ کیا تھا۔‘‘ ۸۹)

    خواجہ عبداللہ انصاری کے تبحرِ علمی کے حوالے سے ابن تیمیہ بھی کہہ گئے ہیں کہ

    ’’خواجہ کو شیخ الاسلام کے نام سے پکارا گیا، آپ تاریخِ اسلام کی پہلی ہستی ہیں جو کہ اسی لقب سے پہچانی جاتی رہی ہیں۔‘‘ ۹۷)

    حضرت عبدالرحمٰن جامیؔ تو اس حد تک چلے گئے کہ

    مولدم جام و رشحۂ قلم

    جرعۂ جام شیخ الاسلامی ست

    لاجرم درجریرہ اخبار

    برو معنیٰ تخلصم جامیؔ ست

    خواجہ سلمان احمد ناصری مبارک باد کے لائق ہیں کہ انہوں نے اپنے جدِ اعلیٰ یعنی خواجہ کے تفصیلی حالات لکھ کر نئی نسل کو روشناس کرایا۔ اس کتاب میں موصوف نے ۴۰ سے زائد وقیع عنوانات قائم کیے ہیں اور ان سب پر تفصیلی گفتگو کی ہے، جیسے: خواجہ عبداللہ کی زندگی، ان کی شاعری، جانشینی، درسِ ترمذی، بیعت و ارادت، تقویٰ و طہارت، خانقاہی نظام، اقوال و افعال، تصنیفات و تالیفات۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں خواجہ عبداللہ انصاری کی اولاد کی فہرست بھی شامل ہے، جن میں فرنگی محل، پانی پت، سہارن پور، یوسف پور، انبیہٹہ وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

    موصوف نے بلاشبہ اس کتاب کو بڑی دیدہ ریزی سے تیار کیا ہے۔ اس سے ان کی محنت، لگن، کتاب دوستی اور علمی انہماک و ارتکاز کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ موصوف کی پہلی کاوش ہے، مگر قلم کی نوخیزی اور زبان کی روانی اصول و لوازم کی پیروکار ہے۔ کتاب ۱۷۶ صفحات پر مشتمل ہے اور اپنے موضوع کے اعتبار و معیار سے بہترین ہے۔ سرورقِ طباعت اور کاغذ کے اعتبار سے بھی قیمتی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے