Font by Mehr Nastaliq Web

جائزہ و تبصرہ : سید محمد نورالحسن نور عہدِ حاضر کے ممتاز شاعر

ریان ابوالعلائی

جائزہ و تبصرہ : سید محمد نورالحسن نور عہدِ حاضر کے ممتاز شاعر

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    یوں تو اردو زبان و ادب کے دو اسکول لکھنؤ اور دہلی رہے ہیں، لیکن ضمناً اکبرآباد، مصطفیٰ آباد (رامپور) اور عظیم آباد کو بھی اسکول کی حیثیت سے شمار کیا جانے لگا ہے، کیونکہ یہاں میرؔ و غالبؔ، نظیرؔ و آتشؔ، ناسخؔ و وحیدؔ، شادؔ و اکبرؔ اور نہ جانے کیسے کیسے شاعری کے مشاق پیدا ہوئے اور زمانے میں اپنا نام پیدا کیا۔ میرا خیال ہے کہ فتح پور کے ہمارے نوجوان شاعر سیّد محمد نورالحسن نورؔ عزیزی نوابی ابوالعُلائی مذکورہ تمام اسکولوں کے صحبت یافتہ اور عہدِ حاضر کے ایک ممتاز شاعر ہیں۔

    سیّد نورالحسن نورؔ کے قلم کی جولانی فزوں تر ہے۔ ابھی ’’ثنا کی نکہتیں‘‘ کے مطالعہ سے فراغت بھی نہیں ملی تھی کہ ان کی دوسری، تیسری، چوتھی اور اس طرح سولہ کتابیں شاعری کے مختلف موضوعات پر لا کر ہم سب کو چونکا دیا۔ حیرت و استعجاب میں ڈوبتا بھی ہوں اور فرحت و مسرت کے عالم میں جھومتا بھی جاتا ہوں کہ ہمارے عہد میں بلکہ ہمارے ابوالعلائی سلسلے میں ایسے افراد ہیں جو محض ۳۸ برس کی عمر میں نہ جانے کیسے کیسے راز کھول دیتے ہیں اور ہائیکو جیسے موضوع پر حمدیہ اور نعتیہ اشعار کہہ دیتے ہیں۔

    پروفیسر سحرؔ انصاری (کراچی) لکھتے ہیں کہ

    ’’نورالحسن نورؔ جیسے ماہرِ فن اور دیندار شاعروں نے اردو ہائیکو کو حمدیہ و نعتیہ شاعری کی بھرپور تخلیقی توانائی اور خیالات کی رعنائی سمیت استعمال کیا۔ انہوں نے اپنی نعتیہ ہائیکو میں شہرِ نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے پتھروں کو بھی پھولوں سے اچھا لکھا ہے، اپنے دل کو حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا گنجینہ قرار دیا ہے، طیبہ کی جدائی کا الم بیان کیا ہے اور شاہِ اُمم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت و ثنا کو بڑی سعادت اور جانِ عبادت بتایا ہے۔ شہرِ مدینہ میں ہونے والی رات دن رحمت کی برسات کے اظہار کو بھی اپنی ہائیکو کی زینت بنایا ہے۔‘‘ (سورج نکلا ہے، ص ۱۱)

    جناب نورؔ ہندوستان کے وہ ذی علم اور حوصلہ مند نوجوان شاعر ہیں جنہوں نے بہت کم عمری میں شعرو سخن کے بہت سے دیے جلا چکے ہیں اور ان کی مختلف عنوانات پر مختلف منظومات ہندو پاک میں شائع و ذائع ہیں۔

    جناب نورؔ نے بلا شبہ شعر و سخن میں بڑی دیدہ ریزی سے یہ شعری مرقع تیار کیا ہے۔ اس سے ان کی محنت، لگن اور علمی انہماک کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کا اندازِ نگارش بھی سادہ اور صاف ستھرا ہے جو پُروقار اور متین و سنجیدہ ہے۔ شعرو سخن سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے جناب نورؔ کا یہ سرمایۂ عظیم ایک اہم دستاویز ہے۔

    امید ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ جناب نورؔ کا سرمایۂ عظیم ذوقِ جستجو کی منزلوں کو پار کرکے وہاں پہنچے گا جہاں جنون کو کبھی کوئی منزل نہیں ملتی، کیونکہ جنون کو قیام کہاں! اس کا کام تو آگے اور آگے بڑھتے رہنا ہے۔ کتاب اپنے موضوع و متن کے اعتبار سے پُروقعت اور فرحت بخش ہے۔ سرورق، طباعت اور کاغذ کے اعتبار سے بھی آں جناب کی کتابیں قیمتی اور دیدہ زیب ہیں۔

    ممتاز محقق و ادیب پروفیسر معین نظامی کا کہنا ہے کہ

    ’’اس سب کچھ کے باوصف خانقاہی دبستان میں ہر عہد میں کچھ ایسے اہلِ دل و نظر بھی موجود رہتے ہیں جن کی سانسوں اور آنکھوں میں ان کے خون اور خمیر کی رنگ در رنگ روشنیاں ان کے پیغام کی اصالت، احوال کی استقامت اور ان کے طریق کی طہارت کی گواہی دے رہی ہوتی ہے۔ اس دبستان کے کچھ حجرے ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں آج بھی غیر معمولی افراد جنم لیتے اور پروان چڑھتے ہیں۔ ان اہلِ دین و دانش کا علم و فضل، فکر و فن اور اخلاص و ایثار آج بھی وسیع پیمانے پر خراجِ تحسین و ستائش وصول کرتا ہے۔ ہمارے ممدوح جناب سیّد نورالحسن نورؔ کا شمار خانقاہی دبستانِ سخن کی ایسی ہی بڑی شخصیات میں ہوتا ہے جو صحیح معنوں میں آبروئے قبیلہ ہوتے ہیں۔‘‘ (مجموعہ حمد و مناجات، ص ۱۱)

    یقیناً جناب نورؔ کا شعری سرمایہ بڑا قیمتی ہے۔ اس میں ہر شعر عقیدت و محبت سے لکھا گیا ہے، ان کے ہر ایک شعر میں بزرگوں کی کشش ہے:

    استاد کی زباں کا مزا اس غزل میں ہے

    کیا لطف دے رہی ہے سلاستِ بیان کی

    (حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری)

    جناب نورؔ نے غزل کی مزاج داری کی ہے۔ اس کے ظاہری و باطنی حال پر بھی توجہ ہے اور اس کے باطنی حسن اور معنوی پرکاری کا بھی پورا خیال رکھا ہے۔

    جناب نورؔ مناجاتیہ حصہ میں فرماتے ہیں کہ

    نبی کا آئینہ رہ گذار دے اللہ

    مری حیات کی زلفیں سنوار دے اللہ

    حمدیہ حصہ میں کہتے ہیں کہ

    حمد کرنے کا یہ انداز ہے سب سے اچھا

    نعت کہتے ہیں مگر حمدِ خدا کرتے ہیں

    آتے طوفان کریں حمدِ خدا جب اے نورؔ

    ہم بھی بے خوف و خطر حمدِ خدا کہتے ہیں

    سچ کہوں تو میں اس فن کا آدمی ہی نہیں ہوں۔ بھلا ہو ہمارے قاری اخلاق فتح پوری کا کہ انہوں نے ہمیں اس سلسلے میں کچھ لکھنے کا موقع دیا اور دبستانِ نوابیہ کی مطبوعات ارسال کیں۔ جناب نورؔ نے جو نعتیں غالبؔ کی زمین میں کہی ہیں وہ ان کی فکری جدت کی پہچان ہیں۔ ۶۳ نعتوں کا مجموعہ تیار کر کے اس کا نام ’’ثنا کی نکہتیں‘‘ رکھا۔ اسی دبستانِ نوابیہ کے یاور عزیزی کا کہنا ہے کہ

    ’’غالبؔ کی زمینوں میں اس طرح صاف ستھرے اشعار کہنا اور اپنے اسلوب کو بنائے رکھنا حضرت نورؔ کا کمالِ فن ہے۔‘‘ (ثنا کی نکہتیں، ص ۱۶)

    جناب نورؔ کی نعتیں سنیے اور جھومیے:

    تو لازوال، تیرا ہنر لازوال ہے

    تیری عطا یہ سارا جہاں کمال ہے

    تیرا کرم ہے، تیری عطا ہے وہ اے کریم

    جس کو ہر ایک لمحہ ہمارا خیال ہے

    پھر بھی میں تیرے بارے میں کرتا ہوں فکر و غور

    حالاں کہ جانتا ہوں سمجھنا محال ہے

    جناب نورؔ نے بہت صفائی اور عمدگی کے ساتھ نعتِ پاک لکھی ہیں۔ ان کے ہر ایک شعر کے پیچھے تاریخی حقائق چھپے ہیں۔ اب تک جناب نورؔ کی درجنوں کتب ہندو پاک میں شائع ہو چکی ہیں، جن میں حمد و مناجات کا مجموعہ، نعتوں کا مجموعہ، غزل و رباعی کا مجموعہ، مناقب کا مجموعہ اور اس کے علاوہ میر تقی میرؔ اور غالبؔ کی زمین میں نعتوں کا مخصوص مجموعہ شامل ہے۔

    اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمارے نورؔ کو یوں ہی زمانے میں نور بھرنے کی روشنی دیتا رہے، ان کے علمی و شعری سرمایہ کو قبول فرماتا رہے اور تشنگانِ علم کے لیے ان کی کتابوں کو نافع بنائے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے