حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری اور ’’ہنرنامہ‘‘
خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے معروف سجادہ نشین اور عظیم صوفی شاعر حضرت شاہ محمد اکبر داناپوری بہت سی خوبیوں کے مالک تھے، ان کی حیثیت بیک وقت ایک درویش کامل، خدامست، سجادہ نشیں، امیر سخن، مذہبی رہنما اور حب الوطنی سے سرشار فلسفی اور مجاہدِ وقت کی تھی، حضرت شاہ اکبر داناپوری قومی یکجہتی اور ہندوستانی عوام کے مسائل و ضرورتوں سے بھی خوب واقف تھے جس کی عکاسی اُن کے اس نظم سے ہوتی ہے۔
نظم ’’ہنرنامہ‘‘ (معروف بہ آراستگیٔ صناعت) اس وقت کی عکاسی ہے جب ہم غلام تھے اور انگریزوں کی حکومت تھی۔ ان کی حکمتِ عملی یہ تھی کہ ہندو اور مسلمان میں نفاق پیدا کر کے حکومت قائم رکھی جائے، جسے ایک حساس شاعر کی حیثیت سے شاہ اکبرؔ داناپوری نے پڑھ لیا تھا اور لوگوں کو اس فرنگی حکومت سے نجات پانے کا راستہ اپنے اشعار کے ذریعہ بتایا۔ جس راستے پر چل کر آخر کار ہمیں آزادی مل گئی۔ انہیں اپنے نسخہ پر اتنا یقین تھا کہ انہوں نے اپنے ذہن میں آزادی کے بعد ہندوستان کا نقشہ بھی بنا رکھا تھا جسے ہم ان اشعار سے سمجھ سکتے ہیں۔
حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری فرماتے ہیں کہ
پھریں گے کیسے دن ہندوستاں کے
بلا کے ظلم ہیں اس آسماں کے
اگر ہندو مسلماں میل کر لیں
ابھی گھر اپنے یہ دولت سے بھر لیں
گیا اقبال پھر آئے ہمارا
ابھی ادبار گرجائے ہمارا
الٰہی ایک دل ہو جائیں دونوں
وزارت انڈیا کی پائیں دونوں
(جذباتِ اکبرؔ، ص 270، مطبوعہ 1916ء، آگرہ)
پروفیسر سید شاہ عطاؤالرحمن عطاؔ کاکوی حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کے معتقد ہی نہیں بلکہ ان کے شیدا تھے۔ ان کے والد حمدؔ کاکوی اور ان کے خانوادے کے زیادہ تر افراد کو حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری اور ان کے والد حضرت مخدوم شاہ محمد سجاد پاک (پیدائش 1816ء … وفات 1881ء) سے بیعت اور اجازت و خلافت کا شرف حاصل تھا۔ لہٰذا عطاؔ کاکوی رقم طراز ہیں کہ
’’اکبرؔ صرف غزل گو ہی نہ تھے بلکہ فیچرل اور قومی نظمیں بھی خوب خوب لکھی ہیں۔ ان کی قومی نظموں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایک صوفی غزل گو ہوکر ان کی کتنی دوررس نگاہیں تھیں جو قوم کو تعلیم اور صنعت و حرفت کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ایسا روشن خیال صوفی اور صاحبِ وجدوحال تعلیمی، سیاسی اور سماجی کاموں میں دلچسپی لینے والا شاذ و نادر ہی ملے گا‘‘ (سہ ماہی رسالہ سفینہ پٹنہ، ص 27، شمارہ 3، جولائی تا ستمبر 1982ء)
شاہ اکبرؔ داناپوری کی شاعری ان کی حب الوطنی میں ڈوبی ہوئی خواہش کا اظہار ہے۔ آپ نے قومی اور سیاسی نظمیں بہت لکھی ہیں جن کو دیکھ اور پڑھ کر عقلیں ورطۂ حیرت میں ڈوبتی چلی جاتی ہیں کہ ایک صوفی شاعر کی کتنی دور رس نگاہیں ہیں، جس نے قوم کو تعلیم اور صنعت و حرفت کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی۔ آپ نے قومی یکجہتی، ملک کی سلامتی اور استحکام کا درد شدت سے محسوس کیا۔ آپ کی قومی شاعری تقریباً ایک صدی سے زائد پرانی تخلیق ہے۔ ان نمونوں سے ان کی قومی ہمدردی کی جھلک ملتی ہے۔ ان اشعار سے وہ ایک قومی رہنما شاعر لگتے ہیں۔ دراصل صوفی کا یہی انداز ہوتا ہے کہ جب بات وطن کی آتی ہے تو وہ حب الوطنی کا ایسا سبق پڑھاتے ہیں کہ لوگوں کے لیے وہ مشعلِ راہ ثابت ہوتا ہے۔
شاہ اکبرؔ داناپوری کی قومی نظم ’’ہنرنامہ‘‘ (آراستگیٔ صناعت) 1885ء موافق 1303ھ کی تحریر ہے۔ مکمل نظم آپ کے دیوانِ اوّل تجلیات عشق کے صفحہ 388 سے 399 پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اس نظم کے چند اشعار آج بھی زبان زدِ خاص و عام ہیں۔
1960ء سے 1967ء اور پھر 1974ء تک مندرجہ ذیل اشعار ’’ہنرنامہ‘‘ کے عنوان سے بہار ٹیکسٹ بک پبلشنگ کارپوریشن لمیٹیڈ (پٹنہ) سے منظور شدہ برائے امتحان سیکنڈری اسکول (بہار) کے ذریعہ ہائی اسکول کے انتخاب اردو (نثر و نظم) کے نصاب میں شامل تھے۔ قومی نظم کے ساتھ ہی ’’سید شاہ محمد اکبر ابوالعلائی داناپوری‘‘ کے عنوان سے ان کی مختصر سوانح بھی تھی جو برابر امتحان میں بطور سوال آتی تھی۔ ممکن ہے کہ آج بھی سیکڑوں اہلِ علم حضرات نے انتخاب اردو (نثر و نظم) میں اپنے طالب علمی کے دور میں یہ نظم پڑھی ہو گی۔
ہم حکومتِ بہار سے بالخصوص وابستگانِ اردو سے گزارش کریں گے کہ ایسی نظم، جو ہمارے اسلاف نے قوم کی ترقی اور خوشحالی کی خاطر لکھی تھی، اسے پھر سے نصاب میں شامل کریں تاکہ نئی نسل کو اپنے شاندار ماضی کے کارناموں سے روشناس کراتے ہوئے ان کے مستقبل کو مزید بلند و بالا بنایا جا سکے۔
قارئین کی دلچسپی کے لیے ہم اس نظم کے چند منتخب اشعار یہاں پیش کر رہے ہیں۔ جن میں پہلے تو حدیثِ نبوی کی روشنی میں ہنر کی اہمیت بتائی گئی ہے، پھر ہماری تاریخ، فلسفہ اور تھوڑا تذکرہ ہے، اور آخر میں قوم کے لیے پند و نصائح بھی ہیں۔
حضرت سید سادات شہنشاہِ امم
جن کے احسان پہ سو جان سے قربان ہیں ہم
بادشاہ دو جہاں، جانِ عرب، فخرِ عجم
جن کے در پر ہیں سلاطینِ جہاں کے سر خم
آپ فرماتے ہیں کہ سب کو حبیبِ باری
بے خبر اس سے ہے اس وقت کی امت ساری
پھر یہ واضح کیا ہے کہ انبیا ہوں یا اولیا سب ہنر مند اور کاسب تھے۔ مثلاً حضرت نوح نجّار (بڑھئی) تھے، حضرت داؤد لوہار تھے، حضرت ادریس سلائی کا ہنر جانتے تھے، حضرت لقمان حکمت و دانائی میں ماہر تھے اور حضرت منصور حلاّجی (کپڑوں میں روئی بھرنے والا) کا کام جانتے تھے۔ یعنی کسی ہنر سے وابستہ ہونا شرم و عار کی بات نہیں تھی۔ مگر افسوس ہے کہ آج قوم ہنر سے دور ہے۔ حضرت اکبر قوم کے اندر ہنر ڈالنا چاہتے تھے، انہیں تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کرنا چاہتے تھے۔ وہ گورے کالے، امیر و غریب کے فرق سے اوپر اُٹھ کر لوگوں کو ہنر مند دیکھنا چاہتے تھے۔
قوم کے واسطے سامانِ ترقی ہے ہنر
بادشاہوں کے لئے جانِ ترقی ہے ہنر
اہلِ حرفت کے لئے کانِ ترقی ہے ہنر
باغِ عالم میں گلستانِ ترقی ہے ہنر
قدر جس ملک میں اس کی نہ ہو برباد ہے وہ
جس جگہ اہلِ ہنر ہوتے ہیں آباد ہے وہ
انبیا جتنے تھے سب اہلِ ہنر تھے یکسر
نوح نجار تھے یہ جانتے ہیں جملہ بشر
تھے جو داؤد انہیں کہتے ہیں سب آہنگر
نہیں خیاطی میں ادریس سے کوئی بڑھ کر
عیب پوشی کو سمجھتے ہیں جہالت سے ہم
دور ہو جاتے ہیں گیا کے شرافت سے ہم
آدمی جتنے ہیں بے شبہہ بنی آدم ہیں
بشریت میں ہم ان سے نہ وہ ہم سے کم ہیں
متحد صورت و سیرت میں سبھی باہم ہیں
پر ہنر مند جو فرقے ہیں وہی اعظم ہیں
کالے گورے کی نہیں اہلِ ہنر میں تمیز
آدمی شے نہیں کوئی یہ ہنر سے ہے عزیز
جتنی قومیں ہیں ہنر ہی سے ہیں وہ مالا مال
جتنے نوکر ہیں وہ چھوٹے کہ ہوئے بس کنگال
یہ ہنر وہ ہے کہ جس کو کبھی آئے نہ زوال
فلسفی ہونے کا کچھ نہیں حاصل فی الحال
مالداری جو ہو مطلوب ہنر کو سیکھو
ہو جو ثروت تمہیں مرغوب ہنر کو سیکھو
اسکولوں کی تعلیم کے نتیجے میں اور انگریزوں کی اتباع میں کوٹ پینٹ پہن کر، ٹائی لگا کر، چھری کانٹے سے کھانے میں عزت محسوس کرتے ہیں، سرِ افتخار بلند کرتے ہیں اور پیغمبروں کی سنت یعنی ہنر کو عار سمجھتے ہیں۔ نوکری کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ آج اس قوم کی زبوں حالی کے پیچھے یقیناً یہ دو باتیں ہیں: پہلا تعلیم اور دوسرا ہنر۔ ان دونوں چیزوں سے یہ قوم آج دور ہو چکی ہے۔ نہ تعلیم ہے، نہ کوئی ہنر۔ غیروں نے ہمیں نکما بنا دیا یا پھر ہم اپنی کوتاہیوں سے غیر ذمہ دار ہوگئے اور ہنر سے کوسوں دور ہوئے۔ واضح ہو کہ کسی بھی قوم یا پھر انسان کی تعمیر اس وقت ہوتی ہے جب اس کے اندر اعلیٰ تعلیم ہو یا پھر کوئی ہنر۔ جاننا چاہئے کہ جہاں تعلیم کی شمع نہیں جلتی وہاں صرف بازار لگتا ہے، لوگ جمع ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو گالیاں دی جاتی ہیں۔ حالاں کہ جوتے سینے کا کام نوکری اور ملازمت سے کہیں بہتر ہے۔ حضرت اکبرؔ فرماتے ہیں:
نوکری سے نہیں دنیا میں کوئی شے بدتر
کفش دوزی کا بھی اس سے بہت اچھا ہے ہنر
جس کو کوئی ہنر نہیں آتا، شاہ اکبرؔ داناپوری اس کو کوڑا کہتے ہیں کہ
علم کے بعد اگر ہے تو ہے دنیا میں ہنر
یہ نہ ہو ذات میں جس کی تو ہے کوڑا وہ بشر
آزادی کے حوالے سے شاہ اکبرؔ داناپوری فرماتے ہیں:
لطفِ آزادی تو یہ ہے کہ ترقی ہو عام
کام وہ ہو کہ ہو حاصل جسے اثباتِ دوام
دوسرے ملک پہ موقوف نہ ہو اپنا کام
مئے یورپ سے بھرا جائے نہ اس قوم کا جام
شہر اپنا ہو، زمیں اپنی ہو، گھر اپنا ہو
ہاتھ اپنا ہو، ہنر اپنا ہو، زر اپنا ہو
بو ظفر شاہ جو نادار ہوئے غدر کے بعد
امراء موردِ بیدار ہوئے غدر کے بعد
لکھنؤ، دہلی جو برباد ہوئے غدر کے بعد
پیشہ والوں ہی سے آباد ہوئے غدر کے بعد
بات اُن شہروں کی پھر رکھ لی ہنر والوں نے
کیا کیا، کچھ نہ کیا لعل و گہر والوں نے
آخری بند ملاحظہ فرمائیں کہ ہنر سیکھنے کی کیسی زوردار تاکید فرمائی ہے کہ
متوکل جو بنا چاہو ہنر کو سیکھو
بے تردد جو جیا چاہو ہنر کو سیکھو
دین و دنیا میں بھلا چاہو ہنر کو سیکھو
حق کے محبوب ہوا چاہو ہنر کو سیکھو
بے ہنر سے نہ نبی ہی نہ خدا راضی ہے
شاہ راضی ہے نہ اکبرؔ نہ گدا راضی ہے
(تجلیاتِ عشق، ص 388، مطبوعہ 1897ء، آگرہ)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.